30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار، بِاِذنِ پَروَرْدگار ، دوعالَم کے مالِک ومُختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ خُوشبودارہے: ’’ بے شک تُمہارے نام مع شَناخت مجھ پرپیش کئے جاتے ہیں لہٰذا مجھ پراَ حْسَن (یعنی خوبصورت الفاظ میں ) دُرُودِپاک پڑھو۔ ‘‘ (مُصَنَّف عبدُالرَّزّاق ج۲ص۱۴۰حدیث۳۱۱۶دارالکتب العلمیۃ بیروت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہ تعالٰی عَلٰی مُحمَّد
(1) کَمْسِن مُبلّغ کی انفرادی کوشش
ایک اُستاذ صاحب مَدْرسے میں حسبِ معمول بچوں کو سبق پڑھا رہے تھے جن میں عِلمی گھرانے سے تَعَلُّق رکھنے والا ایک مَدَنی مُنّا بھی شامل تھا ۔ اس کی ہر ہر ادا میں وَقار اورسلیقہ تھا۔ نُورانی چہرہ اسکی قَلبی نُورانیت کی عَکَّاسی کر رہا تھا۔سُرمگیں چمکتی ہوئی آنکھیں اسکی ذَہانت و فَطَانت کی خبر دے رہی تھیں ۔ وہ بڑی تَوَجُّہ سے اپناسبق پڑھ رہا تھا ۔اتنے میں ایک بچے نے آکر سلام کیا ۔ اُستاذصاحب کے منہ سے نکل گیا: ’’ جیتے رہو۔ ‘‘ یہ سُن کر مَدَنی مُنّاچونکا اور کچھ یوں عرض کی : ’’ یااُستاذی! سلام کے جواب میں تو وَعَلَیْکُمُ السُّلَام کہنا چاہئیے! ‘‘ استاذصاحب کَمْسِن مُبَلِّغ کی زبان سے اِصلاحی جملہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ خیرخواہی کرنے پر خوشی کا اِظہار فرمایا اوراپنے اس ہونہار شاگرد کو ڈھیروں دعائیں دی۔ ( ملخصاَحیات اعلیٰ حضرت ، ج۱، ص۶۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ جانتے ہیں وہ کَمْسِن مبلغ کون تھا؟ وہ چودھویں صدی ہجری کے مجدّدِدین وملت، اعلٰیحضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حضرتِ علَّامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰنتھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی وِلادت باسعادت بریلی شریف (ہند) کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے صرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مُروَّجہ عُلُوم کی تکمیل اپنے والدِ ماجد رئیسُ المُتَکَلِّمِینحضرت مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ المنّان سے کرکے سَنَدِفراغت حاصل کرلی۔ اُسی دن آپ نے ایک سُوال کے جواب میں پہلا فتویٰ تحریر فرمایا تھا۔ فتویٰ صحیح پا کر آپ کے والدِ ماجد نے مَسندِ اِفتاء آپ کے سپرد کردی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔یوں توآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! سب کو نَقل نہ کیا جاسکا۔جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام ’’ اَلْعَطَایَا النَّبََّوِیَّۃ فِی الْفَتَاوَی الرَّضَوِیَّۃِ ‘‘ رکھا گیا ۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔فتاوٰی رضویہ (غیر مخرجہ ) کی 12اور تخریج شدہ کی 30جِلدیں ہیں ۔یہ غالباً اُردو زبان میں دنیا کا ضَخیم ترین مجموعۂ فتاویٰ ہے جو کہ تقریباً بائیس ہزار (22000) صَفَحات، چھ ہزار آٹھ سو سینتا لیس (6847) سُوالات کے جوابات اور دو سو چھ (206) رسائل پر مُشتَمِل ہے۔ جبکہ ہزارہا مسائل ضِمناً زیرِ بَحث آ ئے ہیں ۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ 55سے زائد عُلُوم پر عُبُور رکھنے والے ایسیماہرعالم تھے کہ درجنوں علومِ عقلیہ ونقلیہ پر آپ کی سینکڑوں تصانیف موجود ہیں ، ہرتصنیف میں آپ کی علمی وجاہت، فقہی مُہارت اور تحقیقی بصیرت کے
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع