اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
عاشقِ اَکبر ( )
شیطان لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ(64صفحات) اوّل تا آخر پڑھ لیجئے۔اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ثواب ومعلومات کے ساتھ ساتھ دولتِ عشق کا ڈھیروں ڈھیر خزانہ ہاتھ آئے گا۔
ہر قطرے سے فرشتہ پیدا ہوتا ہے
مدینے کے سلطان ، رَحمتِ عالَمِیان ، سَرورِ ذیشان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے : اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ایک فِرِشتہ ہے کہ اُس کا بازو مشرِق میں ہے اور دوسرا مغرِب میں۔ جب کوئی شخص مجھ پر مَحَبَّت کے ساتھ دُرُودبھیجتا ہے وہ فِرِشتہ پانی میں غوطہ کھا کر اپنے پَر جھاڑتا ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کے پروں سے ٹپکنے والے ہرہر قطرے سے ایک ایک فِرِشتہ پیدا کرتا ہے وہ فرِشتے قِیامت تک اُس دُرُود پڑھنے والے کے لئے اِستغفار کر تے ہیں ۔
(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۲۵۱ ، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح ، ص۲۴۲ ، ۴۲۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت(4حصے)‘‘ صَفْحَہ60تا61پر ہے: صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کبھی بُت کو سجدہ نہ کیا ۔ چندبر س کی عمر میں آپ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ )کے باپ بُت خانے میں لے گئے اورکہا :یہ ہیں تمہارے بلند وبالا خدا ، انہیں سجدہ کر و۔جب آپ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) بُت کے سامنے تشریف لے گئے ، فرمایا :’’میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ، میں ننگاہوں مجھے کپڑادے ، میں پتَّھر مارتا ہوں اگرتُوخدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔‘‘وہ بُت بَھلا کیا جواب دیتا۔ آپ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے ایک پتَّھر اس کے مارا جس کے لگتے ہی وہ گر پڑا اور قُوّتِ خدا داد کی تاب نہ لاسکا ۔باپ نے یہ حالت دیکھی انہیں غصّہ آیا ، اُنہوں نے ایک تَھپّڑرُخسار مبارک پر مارا ، اور وہاں سے آپ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی ماں کے پاس لائے ، سارا واقِعہ بیان کیا ۔ ماں نے کہا :اسے اس کے حال پر چھوڑ دو جب یہ پیدا ہوا تھا تو غیب سے آواز آئی تھی کہ
یَا اَمَۃَ اللہِ عَلَی التَّحْقِیْقِ اَبْشِرِیْ بِالْوَلَدِ الْعَتِیْقِ اِسْمُہٗ فِی السَّمَاءِ الصِّدِّیْقُ لِمُحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَّ رَفِیْقٌ اے اللہ( عَزَّوَجَلَّ )کی سچی بندی !تجھے خوشخبری ہویہ بچہ عتیق ہے ، آسمانوں میں اس کا نام صدیق ہے ، محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا صاحب اور رفیق ہے ۔
یہ روایت صدِّیقِ اَکبر ( رضی اللہ تعالٰی عنہ )نے خود مجلسِ اقدس ( صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم ) میں بیان کی۔ جب یہ بیان کرچکے ، جبریلِ امین ( عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ) حاضرِ بارگاہ ہوئے اور عرض کی:
صَدَقَ اَبُوبَکْرٍ وَّھُوَ الصِّدِّیْقُ ابوبکر نے سچ کہا اور وہ صدِّیق ہیں ۔
یہ حدیث امام احمد قَسطلانی (قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی )نے شرح صحیح بخاری میں ذِکر کی ۔
( ارشاد الساری شرح صحیح بخاری ج۸ص۳۷۰ ، ملفوظات اعلی حضرت ص۶۰ ، ۶۱ بِتَصَرُّف)
خلیفۂ اوّل ، جانَشین محبوبِ ربِّ قدیر ، امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نامِ نامی اسمِ گِرامی عبداللہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کُنْیَت ابوبکر اور صِدِّیق وعتیق آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اَلقاب ہیں۔سُبحٰنَ اللہ! صِدِّیق کا معنٰی ہے: ’’بَہُت زیادہ سچ بولنے والا۔‘‘ آ پ ر ضی اللہ تعالٰی عنہ زمانۂ جاہِلیت ہی میں اِس لقب سے مُلَقَّب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچ بولتے تھے اور عتیق کا معنٰی ہے: ’’آزاد‘‘۔سرکارِ عالی مَرتَبَت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم نے آ پ ر ضی اللہ تعالٰی عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی تُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے۔‘‘اِس لئے آ پ ر ضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ لَقَب ہوا ۔(تارِیخُ الْخُلَفاء ص۲۹) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ قریشی ہیں اورساتویں پُشت میں شجرۂ نسب رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کے خاندانی شَجَرے سے مل جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ عام ُالفیل ( )کے تقریباً اڑھائی برس بعدمکَّۃُ المُکَرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْمًا میں پیدا ہوئے ۔ امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ صَحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے تاجدارِ رِسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، مخزنِ جود و سخاوت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کی رِسالت کی تصدیق کی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اِس قدَر جامِعُ الکَمالات اور مَجْمَعُ الفَضائِل ہیں کہ اَنبیاء ِکِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے بعد اگلے اور پچھلے تمام انسانوں میں سب سے اَفضل واَعلیٰ ہیں۔ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اِسلام قَبو ل کیا اورتمام جِہادوں میں مجاہدانہ کارناموں کے ساتھ شریک ہوئے اور صُلْح وجنگ کے تمام فیصلوں میں محبوبِ ربِّ قدیر ، صاحبِ خَیر کثیر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کے وزیر ومُشیر بن کر ، زندَگی کے ہر موڑ پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا ساتھ دے کرجاں نثاری ووفاداری کا حق ادا کیا۔ 2 سال7 ماہ مَسنَدِخِلافت پر رونق اَفروز رہ کر 22جمادَی ا لاُخریٰ 13ھ پیرشریف کادن گزار کر وَفات پائی۔ امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عُمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نَمازِ جنازہ پڑھائی اور روضۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں حضورِاَقدَس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کے پہلوئے مقدَّس میں دَفن ہوئے۔ (الاکمال فی اسماء الرجال ص۳۸۷ ، تارِیخُ الْخُلَفاء ص۲۷۔۶۲باب المدینہ کراچی)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 92 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ سَوانِحِ کربلا‘‘صَفْحَہ37پر ہے: اگرچِہ صَحابۂ کرام و تابعین وغیر ہم کی کثیر جماعتوں نے اس پر زوردیا ہے کہ’’ صدیقِ اکبر‘‘ سب سے پہلے مومن ہیں۔ مگر بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ سب سے پہلے مومن ’’حضرت علی ‘‘ہیں۔ بعض نے یہ کہا کہ ’’حضرت خدیجہ ‘‘ رضی اللہ تعالٰی عنہا سب سے پہلے ایمان سے مُشَرَّف ہوئیں ۔ان اقوال میں حضرت امام عالی مقام ، اما مُ الْاَئِمّہ ، سراجُ الْاُمَّہ ، حضرت ِامامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اِس طرح تَطبِیق(یعنی مُوافَقَت) دی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر مشرَّف بایمان ہوئے اور عور توں میں حضرتِ اُمُّ الْمُؤمِنِین خدیجہ اور نو عمر صاحبزادوں میں حضرت علی۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اَجمَعِین۔ (تارِیخُ الْخُلَفاء لِلسُّیُوطی ص۲۶)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 92 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ سَوانِحِ کربلا‘‘صَفْحَہ38تا39پر ہے: اہل ِسنَّت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیا عَلَیْہِمُ الصَّلوۃُ وَالسَّلام کے بعد تمام عالَم سے افضل حضرتِ ابوبکر صدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ، ان کے بعدحضرتِ عمر ، ان کے بعدحضرتِ عثمان ، ان کے بعد حضرتِ علی ، ان کے بعد تمام عَشَرۂ مُبَشَّرہ ، ان کے بعد باقی اہلِ بدر ، ان کے بعد باقی اہلِ اُحُد ، ان کے بعدباقی اہلِ بیعتِ رضوان ، پھر تمام صحابہ۔ یہ اِجماع ابو منصور بغدادی( علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْھادی ) نے نَقل کیاہے۔ابنِ عَساکِر ( علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْقادِر ) نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ، فرمایا کہ ہم ابو بکر و عمرو عثمان و علی کو فضیلت دیتے تھے بحالیکہ سرورِعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم ہم میں تشریف فرما ہیں۔ (ابن عَساکِر ج۳۰ص۳۴۶) اما م احمد(علیہ رَحمَۃُ اللہِ الاَحَد) وغیرہ نے حضرت علی مُرتَضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایت کیا کہ آپ( کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ) نے فرمایا کہ اس اُمّت میں نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے بعد سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں۔ رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔(اَیضاً ص۳۵۱)ذَہبی(علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْقوِی) نے کہا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بَتَواتُر منقول ہے۔
(تارِیخُ الْخُلَفاء لِلسُّیُوطی ص۳۴)
ابنِ عساکِر ( علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْقادِر )نے عبدُالرَّحمٰن بن ابی لیلیٰ( رَحمَۃُ اللہ تعالٰی علیہ) سے روایت کی کہ حضرت ِعلی مرتَضیٰ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مُفْتَرِی کی(یعنی الزام لگانے والے کو دی جانے والی) سزادوں گا۔(تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۳۰ص۳۸۳دارالفکربیروت)
کلامِ حسنؔ
بَرادرِ اعلیٰ حضرت ، اُستاذِ زَمن ، حضرت مولانا حسن رضاخان عَلَیہِ رَحمَۃُ الْمَنَّان اپنے مجموعۂ کلام ’’ذوقِ نعت‘‘ میں اَفْضَلُ الْبَشَرِ بَعْدَ الانبیاء ، محبوبِ حبیبِ خدا ، صاحبِ صِدق وصفا ، حضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصِدِّیق بن ابو قُحافَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شانِ صداقت نشان میں یوں رَطْبُ اللِّسانہیں :
بَیاں ہو کس زَباں سے مرتَبہ صِدِّیقِ اَکبَر کا ہے یارِ غار ، محبوبِ خداصِدِّیقِ اَکبَرکا
یااِلٰہی! رَحم فرما ! خادِمِ صِدِّیقِ اَکبَر ہوں تری رَحمت کے صدقے ، واسِطہ صِدِّیقِ اَکبَرکا
رُسُل اور اَنبیاکے بعد جو اَفضل ہو عالَم سے یہ عالَم میں ہے کس کا مرتَبہ ، صِدِّیقِ اَکبَر کا
گدا صِدِّیقِ اَکبَرکا ، خدا سے فضْل پاتا ہے خدا کے فضْل سے ہوں میں گدا ، صِدِّیقِ اَکبَر کا
ضعیفی میں یہ قُوّت ہے ضعیفوں کو قو ِی کر دیں سہارا لیں ضعیف و اَقْوِ یا صِدِّیقِ اَکبَر کا
ہوئے فاروق و عثمان و علی جب داخلِ بیعت بنا فخرِ سلاسِل سِلسِلہ صِدِّیقِ اَکبَر کا
مقامِ خوابِ راحت چین سے آرام کرنے کو بنا پہلوئے محبوب ِخدا صِدِّیقِ اَکبَر کا
علی ہیں اُس کے دُشمن اور وہ دُشمن علی کاہے جو دُشمن عقل کا دُشمن ہوا صِدِّیقِ اَکبَر کا
لٹایا راہِ حق میں گھر کئی بار اِس مَحَبّت سے کہ لُٹ لُٹ کر حسنؔ گھربن گیا صِدِّیقِ اَکبَر کا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
صاحِبِ مَروِیات کثیرہ حضرتِ سیِّدُناابوہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ رحمتِ عالَمِیان ، مکّی مَدَنی سُلطان ، محبوبِ رَحمن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: ’’مَا نَفَعَنِیْ مَالٌ قَطُّ مَا نَفَعَنِیْ مَالُ اَبِیْ بَکْریعنی مجھے کبھی کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا۔‘‘ بارگاہِ نُبُوّت سے یہ بِشارت سُن کر حضرتِ سیِّدُناابوبکر ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) رو دئیے اور عَرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم ! میرے اورمیرے مال کے مالِک آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم ہی تو ہیں۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۱ ص۷۲ حدیث ۹۴ دارالمعرفۃ بیروت)
وُہی آنکھ اُن کا جو منہ تکے ، وُہی لب کہ مَحو ہوں نَعت کے
وُہی سَر جو اُن کے لئے جُھکے ، وُہی دل جو اُن پہ نِثار ہے (حدائق بخشِش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس روایَتِ مبارَکہ سے معلوم ہواکہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مبارَک عقیدہ بھی یہی تھا کہ ہم محبوبِ ربُّ الانام عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے غلام ہیں اورغلام کے تمام مال ومَنال کا مالِک اُس کا آقا ہی ہوتاہے ، ہم غلاموں کا تو اپناہے ہی کیا؟
کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہار ا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
اِبتِدائے اِسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا وہ اپنے اِسلام کو حَتَّی الْوَسْع (جہاں تک مکن ہوتا)مَخفی رکھتا کہ حُضُورِ اَکرم ، نورِ مُجَسَّم ، غم خوارِاُمَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کی طرف سے بھی یہی حُکم تھاتاکہ کافِروں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف اور نُقصان سے محفوظ رہیں۔ جب مسلما ن مردوں کی تعداد 38 ہو گئی تو حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسولِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم میں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم ! ابعَلَی الاعلان تبلیغِ اِسلام کی اِجازت عِنایَت فرما دیجئے ۔ دو عالم کے مالِک ومختار ، شفیعِ روزِ شمار ، اُمّت کے غم خوار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم نے اوّلاً اِنکار فرمایا مگر پھر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اِصرارپر اِجازت عنایت فرما دی۔ چُنانچِہ سب مسلمانوں کو لے کر مسجدُالحرام شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْمًا میں تشریف لے گئے اورخطیبِ اوّل حضر تِ سیِّدُنا صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبہ کا آغاز کیا ، خطبہ شروع ہوتے ہی کُفّار ومُشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ مکۂ مکرمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عَظَمَت و شَرافت مُسَلَّم تھی ، اِس کے باوُجُود کُفّارِ بداَطوار نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بھی اِس قدرخونی وار کئے کہ چہرۂ مُبارَک لَہولُہان ہوگیا حتّٰی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بے ہوش ہوگئے۔ جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تووہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وہاں سے اُٹھا کر لائے۔ لوگوں نے گُمان کیا کہ حضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ زندہ نہ بچ سکیں گے۔ شام کو جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اِفاقہ ہوا اور ہوش میں آئے تو سب سے پہلے یہ اَلفاظ زبانِ صداقت نشان پر جاری ہوئے: محبوبِ ربّ ِذُوالجَلال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا کیا حال ہے؟ لوگوں کی طرف سے اِس پر بَہُت مَلامت ہوئی کہ اُن کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہی یہ مصیبت آئی ، پھر بھی اُنہی کا نام لے رہے ہو۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ ٔ ماجِدہ اُمُّ الْخَیرکھانا لے آئیں مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک ہی صد ا تھی کہ شاہِ خوش خِصال ، پیکر ِحُسن وجمال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا کیا حال ہے؟ والِدۂ محترمہ نے لاعلمی کا اِظہار کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :اُمِّ جمیل رضی اللہ تعالٰی عنہا (حضرتِ سیِّدُنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن) سے دَ ریافت کیجئے ، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدۂ ماجِدہ اپنے لختِ جگر کی اِس مظلومانہ حالت میں کی گئی بیتا بانہ درخواست پوری کرنے کے لئے حضر تِ سیِّدَتُنا اُمِّ جمیل رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس گئیں اورسرورِ معصوم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کا حال معلوم کیا۔ و ہ بھی نامُساعِد حالات کے سبب اُس وقت اپنا اِسلام چھپائے ہوئے تھیں اور چُونکہ اُمُّ الْخَیرابھی تک مسلمان نہ ہوئی تھیں لہٰذا انجان بنتے ہوئے فرمانے لگیں : میں کیا جانوں کون محمد ( صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم )اور کون ابوبکر ( رضی اللہ تعالٰی عنہ )۔ہاں آپ کے بیٹے کی حالت سُن کر رَنج ہوا ، اگر آپ کہیں تو میں چل کر اُن کی حالت دیکھ لوں۔اُمُّ الْخَیر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کواپنے گھرلے آئیں ۔ انہوں نے جب حضر تِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالتِ زار دیکھی تو تَحَمُّل(یعنی برداشت) نہ کر سکیں ، رونا شروع کر دیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا:میرے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کی خیر خبر دیجئے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ جمیل رضی اللہ تعالٰی عنہا نے والِدۂ صاحِبہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے توجُّہ دِلائی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اِن سے خوف نہ کیجئے ، تب اُنہوں نے عرض کی:نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عنایت سے بخیروعافیت ہیں اوردارِاَرقم یعنی حضرتِ سیِّدُنا اَرقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر تشریف فرما ہیں۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: خد ا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں اُس وقت تک کوئی چیز کھاؤں گا نہ پیوں گا ، جب تک شَہَنْشاہِ نُبُوّت ، سراپا خیرو بَرَکَت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کی زیارَت کی سعادت حاصِل نہ کر لوں ۔چُنانچِہ والدۂ ماجِدہ رات کے آخِری حصے میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لے کر حضورتاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم کی خدمتِ بابَرَکت میں دارِ اَرقم حاضِر ہوئیں۔ عاشقِ اَکبر حضرت ِسیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم سے لپٹ کر رونے لگے ، آقائے غمگُسار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم اوروہاں موجود دیگر مسلمانوں پربھی گِریہ (یعنی رونا) طاری ہو گیا کہ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالتِ زار دیکھی نہ جاتی تھی۔ پھرآپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مصطَفٰے جانِ رَحمت ، شمعِ بزمِ ہِدایت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم سے عرض کی :یہ میری والِدۂ ماجِدہ ہیں ، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ ٖ وسلَّم اِن کے لئے ہِدایت کی دُعا کیجئے اور اِنہیں دعوتِ اِسلام دیجئے۔ شاہِ خیرُ الانام عَلَیہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلام نے اُن کو اِسلام کی دعوت دی ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! وہ اُسی وقت مسلمان ہو گئیں۔ (البدایۃ والنہایۃج۲ص۳۶۹۔۳۷۰ دارالفکربیروت)
جسے مل گیا غمِ مصطَفٰے ، اُسے زندَگی کا مَزہ ملا
کبھی سَیلِ اَشک رَواں ہوا ، کبھی ’’آہ‘‘ دِل میں دَبی رہی (وسائلِ بخشش)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
...یہ بیان امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اوّلین مَدَنی مرکز جامع مسجد گلزارِ حبیب میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع (اندازاً ۳ رمضانُ المبارک ۱۴۱۰ھ/ 29-03-90) میں فرمایا تھا۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ
2... یعنی جس سال نامُرادو ناہَنجار اَبرہہ بادشاہ ہاتھیوں کے لشکرکے ہمراہ کعبۂ مشرَّفہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اِس واقِعے کی تفصیل جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مَطْبوعہ کتاب ’’عجائب القرآن مع غرائب القرآن‘‘ کا مطالعہ کیجئے ۔