30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
حضرت اُبَیْ بن کَعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے (بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں ) عرض کی کہ میں (سارے وِرد، وظیفے، دُعائیں چھوڑ دوں گا اور) اپنا سارا وقت دُرُود خوانی میں صرف کرونگا۔ تو سرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایایہ تمہاری فِکروں کودُور کرنے کے لئے کافی ہوگا اور تمہارے گناہ مُعاف کر دئیے جائیں گے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی صفۃ أوانی الحوض، ۴ / ۲۰۷، حدیث: ۲۴۶۵)
{1} اداکاری کا شوق کیسے ختم ہوا؟
ڈیرہ غازی خان (صوبہ پنجاب، پاکستان) کی اسلامی بہن کا بیان الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ کچھ یوں ہے۔ مدنی ماحول میں آنے سے پہلے بدعملی و بداخلاقی کے وبال میں گرفتار تھی، بے پردگی کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننااور مخلوط تفریح گاہوں کا رُخ کرنا میری عادت میں شامل ہوچکا تھا، گانوں کی اس قدر رسیا تھی کہ بے شمار گانے مجھے زبانی یاد تھے ، ستم بالائے ستم یہ کہ غیر مردوں سے بے تکلف ہونا، بے پردہ ان کے سامنے آنا جانا حتی کہان سےہاتھ ملانا میرے نزدیک کوئی معیوب نہ تھا، بے حیا اداکاراؤں کے بے ہودہ عادت واطوار دیکھ کر مجھ پر فلموں ڈراموں میں کام کرنے کا بھوت سوار ہوگیا تھا۔ اسکول میں ہونے والے ورائٹی شومیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی، اپنی اداکاری کا مظاہرہ کرتی اور لوگوں کی داد پاکر بے حد خوش ہوتی سے مزید اداکاری کا جنون بڑھتا۔ اسی برے شوق کے سبب میں ہر وقت ہی بڑی اداکارہ بننے کے سپنے دیکھنے لگی، ان ہی کی طرح بنتی سنورتی اوران کے بے ہودہ انداز اپنانے کی کوشش کرتی۔
زندگی کی گاڑی بڑی تیزی کے ساتھ سے اپنی منزل ( یعنی قبر) کی طرف رواں دواں تھی مگرمیں انمول سانسوں کی قدر ومنزلت سے نابلد دنیا ئے فانی کی محبت میں مستغرق تھی۔ مجھے یہ احساس تک نہ تھا کہ میرا اندازِ زندگی میری آخرت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ زندگی کے لیل و نہار اسی انداز پر گزرتے جارہے تھے کہ اسی دوران اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ پر کرم فرمایا اور میرا اداکارہ بننے کا خمارمجھ سے زائل فرمایا۔
راہِ ہدایت ملنے اور شیطان کے شکنجے سے آزاد ہونے کی صورت کچھ یوں بنی ایک مرتبہ ہمارے گھر پر گیارھویں شریف کا انعقاد کیا گیا اور شہنشاہِ بغداد حضورِ غوثِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ایصالِ ثواب کے لیے محفلِ نعت کا اہتمام کیا گیا، جس میں نیکی کی دعوت کے جذبے سے سرشار ایک مُبَلِّغَہ دعوتِ اسلامی بھی شریک ہوئیں ۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی، وہ بڑی ملنساری اور خوشاخلاقی سے پیش آئیں ، دورانِ گفتگو انہوں نے علاقے میں ہونے والے اسلامی بہنوں کے سنّتوں بھرے اجتماع کے حوالے سے مجھے آگاہ کیا اور بذریعہ انفرادی کوشش مجھے اس میں شرکت کرنے کا ذہن دیا، یہ ایک حقیقت ہے کہ باعمل اور سنّتوں کے پیکر مسلمان کی بات دِل پر اثر کرتی ہے چنانچہ میرے دِل پر بھی ان کی نیکی کی دعوت کا اثر ہوا اور اس طرح میرا دِل شرکت کرنے پر آمادہ ہوگیا۔
پھر جب ہفتہ وار اجتماع کا دِن آیا تو مجھے یاد نہ رہا اور میں بے خبری کے عالم میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک مجھے کسی نے بیدار کیا، دیکھا تو وہ والدہ صاحبہ تھیں ، انہوں نے مجھے یاد دلا یا کہ آج تو مجھے اسلامی بہنوں کے سنّتوں بھرے اجتما ع میں شرکت کرنی تھی، یہ سنتے ہی میں فوراً کھڑی ہوگئی اور علاقے میں ہونے والے اسلامی بہنوں کے سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کے لئے روانہ ہوگئی۔
جب میں اجتماع گاہ پہنچی اور وہاں کثیر اسلامی بہنوں کو مدَنی برقعوں میں دیکھا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اصلاحی بیان جاری تھا، سبھی
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع