اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
یہ مضمون “ غیبت کی تباہ کاریاں “ صفحہ 281تا300 سے لیا گیا ہے۔
دعائے عطار! یاربَّ المصطفیٰ !جوکوئی 21صفحات کا رسالہ’’عَیب چھپا ؤ جنَّت پاؤ‘‘پڑھ یاسُن لے ، اُسےلوگوں کے عیب چھپانےوالا بنا ، دُنیا وآخرت میں اُس کی عیب پوشی فرما اور اُسے بے حسا ب بخش دے۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِْالنَّبِیّیْن صلی اللہ علیه واٰلهٖ وسلّم
حضرت ابو دَرْداء رضی اللہُ عنہ سے رِوایت ہے کہ پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : “ جو شَخص صُبح و شام مجھ پر دس دس بار دُرُود شریف پڑھے گا بروزِ قِیامت میری شَفَاعت اُسے پَہُنچ کر رہے گی۔ “
(الترغیب والترہیب ، 1 / 261 ، حدیث : 29)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ بی بی رَابِعَہ عَدَوِیَّہ رحمۃُ اللہِ علیہا فرماتی تھیں : بندہ جب اللہ ربُّ العزّت کی مَحبَّت کا مزہ چکھ لیتا ہے اللہ پاک اُسے خود اُس کے اپنے عَیبوں پرمُطَّلع فرما دیتا ہے پس اِس وجہ سے وہ دوسروں کے عیبوں میں مشغول نہیں ہوتا ۔ (بلکہ اپنے عیبوں کی اصلاح کی طرف متوجِّہ رہتا ہے) (تنبیہ المغترین ، ص197)
غمزدوں کے غم دور کرنے والےخوش اَخلاق آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے : اے وہ لوگو جو زَبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخِل نہیں ہوا ، مسلمانوں کی
غیبت نہ کرو اور ان کی چُھپی ہوئی باتوں کی ٹَٹول نہ کرو ، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹَٹول کرے گا ، اﷲ پاک اس کے عیب ظاہر فرما دے گا اور جس کے اﷲ(پاک)عیب ظاہر کرے گا۔ اُس کو رُسوا کر دے گا ، اگرچِہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔ (ابوداو د ، 4 / 354 ، حدیث : 4880)
اے عاشِقانِ رسول! کسی مسلمان کے عَیبوں کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے ، ربِّ کائنات پارہ 26سُورۃُ الحجرٰت آیت نمبر 12میں ارشاد فرماتاہے : “ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا ترجَمۂ کنز الایمان : اور عیب نہ ڈھونڈو “ ۔ صدرُ الْاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستّاری سے چُھپایا۔ (خزائن العرفان ، ص863)
حضرتِ عبدُاللہ ابنِ عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ اپنے رب سے ہم گناہ گاروں کو بخشوانے والے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجَت پوری کرے اللہ پاک اُس کی حاجت پوری کرتا ہے اورجو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے تو خُدائے ستّار قِیامت کے رو ز اس کی عیب پوشی فرمائے ۔
(مسلم ، ص1394 ، حدیث : 6580)
حضرتِ ابُو سعید خُدری رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ دوجہان ، مدینے کے سلطان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ جنّت نشان ہے : جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ
پوشی کردے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔ (مُسند عبد بن حمید ، ص279حدیث : 885)
اے عاشِقانِ رسول! سبحانَ اللہ!عیب پوشی کی فضیلت و اَہمِّیَّت کے بھی کیا کہنے!جو چیز آخِرت کیلئے جس قدر اہم ہو گی شیطان اُسی قَدَر اس کے پیچھے لگے گا ۔ لہٰذا مسلمان کو مسلمان کی عیب پوشی سے روکنے کیلئے پورا زور لگا دیتا ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریَّت مسلمانوں کی عیب دریوں اور غیبتوں میں مشغول ہے اور اکثر کوئی کسی کی خامی ڈھکنے کیلئے تیّار ہی نہیں بِلا تکلُّف بلکہ بسا اوقات تو فخریہ دوسروں کے آگے بیان کر دیتا ہے ، ان میں سے اگر کسی نے کسی کا عیب کبھی چھپا بھی لیا تو بس عارضی طور پر ، جوں ہی کچھ ناراضی ہوئی کہ جتنے بھی عیب چھپا کر رکھے تھے سب پر سے ایک دم پَردہ اُٹھا دیتا ہے!آہ!خوفِ آخِرت ہی جاتا رہا !یقینا جہنَّم کی سزا سہی نہیں جاسکے گی۔ حضرتِ عیسیٰ روحُ اللہ علیہ السّلام فرماتے ہیں : کتنے ہی صِحّت مند بدن ، خوبصورت چہرے اور میٹھا بولنے والی زَبانیں کل جہنَّم کے طبقات میں چیخ رہے ہوں گے !(مکاشفۃالقلوب ، ص152)
اوروں کے عیب چھوڑ نظر خوبیوں پہ رکھ عیبوں کی اپنے بھائی مگر خوب رکھ پَرَکھ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہا رشاد فرماتے ہیں : “ غیبت بندۂ مؤمن کے ایمان میں اس سے بھی جلدی فساد پیدا کرتی ہے جتنی جلدی آکِلَہ کی بیماری اُس کے جسم کوخراب کرتی ہے۔ “ (آکِلَہ پہلو میں ہونے والے اُس پھوڑے کو کہتے ہیں جس سے گوشت پوست (کھال)سڑ جاتے
ہیں اور گوشت جھڑنے لگتا ہے)مزید فرمایا کرتے : اے ابنِ آدم!تم اُس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتے جب تک لوگوں کے عُیُوب تلاش کرنا ترک نہ کر دوجو عُیُوب تمہارے اپنے اندر پائے جاتے ہیں ، تم اُن کی اِصلاح شُروع کردو اور اُن عیبوں کو اپنی ذات سے دُور کرلو۔ پس جب تم ایسا کرو گے تو یہ چیز تمہیں اپنی ہی ذات میں مشغول کر دے گی۔ اور اللہ پاک کے نزدیک اِس طرح کا بندہ سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
( ذم الغیبۃلابن ابی الدنیا ، ص97 ، 93 رقم : 60 ، 54)