Huzoor ke khatamun nabiyeen hone par dalail
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Al Mubeen Khatmannabiyeen | المبین ختم النبیین

    Huzoor ke khatamun nabiyeen hone par dalail

    book_icon
    المبین ختم النبیین
                
    رسالہ المبین ختم النبیین (۱۳۲۶ھ)

    (حضور کے خاتم النبیین ہونے کے واضح دلائل)

    مسئلہ۸۸تا۹۴ : ازبہار شریف محلہ قلعہ مدرسہ فیض رسول مرسلہ مولوی ابوطاہر نبی بخش صاحب ۱۸ربیع الاول شریف۱۳۲۶ھ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم____حامد اًو مصلیا ًومسلماً اما بعد بست وپنجم ماہ ربیع الاول ۱۳۲۶ھ شب سہ شنبہ کو مولوی سجاد حسین ومولوی مبارک حسین صاحب مدرسین مدرسہ اسلامیہ بہار کےطلبا تعلیم دادہ وعظ میں فرماتے تھے کہ خَاتمُ النّبیین میں “ النَّبِیِّیْن “ پر الف لام عہد خارجی کا ہے ، جب دوسرے روز مسجد چوک میں مولوی ابراہیم صاحب نے(جوبالفعل مدرسہ فیض رسول میں پڑھتے ہیں)اثنائے وعظ میں آیہ کریمہ : ( مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ - )محمّدتمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے (پ22 ، احزاب : 40) تلاوت کرکے بیان کیا کہ النبیین میں جو لفظ النبیین مضاف الیہ واقع ہواہے اس لفظ پر الف لام اِسْتِغَراق کا ہے بَایں معنی کہ سوائے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے کوئی نبی نہ آپ کے زمانہ میں ہوااور نہ بعد آپ کے قیامت تک کوئی نبی ہو نبوت آپ پر ختم ہوگئی آپ کل نبیوں کے خاتَم ہیں ، بعد وعظ مولوی ابراہیم صاحب کے راحت حسین طالبِ علم مدرسہ اسلامیہ بہار کے مُجاوِرِ در گاہ نے بَاِعانتِ بعض مُعاونِ روپوش بڑے دعوے کے ساتھ مولوی ابراہیم صاحب کی تقریرِ مذکور کی تردید کی اورصاف لفظوں میں کہا کہ لفظ “ النبیین “ پر الف لام استغراق کا نہیں ہے بلکہ عہد خارجی کا ہے ، چونکہ یہ مسئلۂ عقائد ہے لہذا اس کے متعلق چند مسائل نمبروار لکھ کر اہل حق سے گزارش ہے کہ بنظرِ احقاق حق ہر مسئلہ کا جواب باصواب بحوالہ کتب تحریر فرمادیں تاکہ اہل اسلام گمراہی و بدعقیدگی سے بچیں : (۱) راحت حسین مذکور کا کہنا کہ “ النبیین “ پر الف لام عہد خارجی کا ہے استغراق کا نہیں۔ یہ قول صحیح اور موافق مذہب منصور اہل سنت وجماعت کے ہے یا موافق فرقہ ضالہ زید یہ کے؟ (۲) نفی استغراق سے آیہ کریمہ کا کیا مفہوم ہوگا؟ (۳) برتقدیرِ صحتِ نفیِ استغراق اس آیہ سے اہل سنت کا عقیدہ کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کل انبیاء کے خاتم ہیں ، ثابت ہوتا ہے کہ نہیں اور اہلِ سنت اس آیہ کو مُثبِتِ خاتمیت کاملہ سمجھتے ہیں یانہیں؟ (۴) اگر آیت مُثبِتِ کُلِیت نہیں ہوگی تو پھر کس آیت سے کلیت ثابت ہوگی اور جب دوسری آیت مثبت کلیت نہیں تو اہلِ سنت کے اس عقیدے کا ثبوت دلیلِ قطعی سے ہرگز نہ ہوگا۔ (۵) جس کا عقیدہ ہو کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کل انبیاء کے خاتَم نہیں ہیں ، اس کے پیچھے اہلسنت کو نماز پڑھنا جائز ہے یانہیں؟ (۶) اس باطل عقیدے کے لوگوں کی تعظیم و توقیر کرنی اور ان کو سلام کرنا جائز ہوگا یا ممنوع؟ (۷) کیا سنی حنفی کو جائز ہے کہ جو شخص حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو کل انبیاءکا خاتم نہ سمجھے اس سے دینی علوم پڑھیں یا اپنی اولاد کو علم دین پڑھنے کے واسطے ان کے پاس بھیجیں۔ فقط المستفتی محمد عبداﷲ۔ #**

    دلائل خارجیہ(1)

    **# دلیل اول : توضیح ص۱۰۰میں ہے : الاصل ای الراجح ھوالعھد الخارجی لانہ حقیقۃ التعیین وکمال التمییز۔ (2) اصل یعنی راجح عہد خارجی ہی کا ہے اس لئے عہد خارجی حقیقت تعیین اور کمال تمیز ہے۔ پس جب عہد خارجی سے معنی درست ہوتو استغراق وغیرہ معتبر نہ ہوگا۔ دلیل دوم : نورالانوارصفحہ۸۱میں ہے : یسقط اعتبار الجمعیۃ اذادخلت علی الجمع۔ (3)جب لامِ تعریف جمع پر داخل ہوتو اعتبارِ جمعیت ساقط ہوجاتا ہے۔ پس نَبِیِّیْن کہ صیغۂ جمع ہے ، جب اس پر الف لام تعریف داخل ہوا تو نبیین سے معنیٔ جمعیت ساقط ہوگیا اور جب معنیٔ جمعیت ساقط ہوگیا تو الف لام استغراق کا ماننا صحیح نہیں ہوسکتا۔ دلیل سوم : یہ امر مُسَلَّم ہے کہ مضاف مضاف الیہ کا غیر ہوتا ہے جب فردواحد اس کل کے طرف مضاف ہو جس میں وہ داخل ہے تو وہ کُل مِنْ حَیْثُ ہُوَ کُل ہونے کے کل ، باقی نہ رہے گا بلکہ کُلِیَّت اس کی ٹوٹ جائے گی ، اور جب کُلِیَّت اس کی باقی نہ رہی توبعضیت ثابت ہوگئی اور یہی معنی ہے عہد کا ، اور اگر اس فردِ مضاف کو ہم اس کل کے شمول میں رکھیں تو تقدم الشئی علی نفسہ لازم آتا ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ وجود مضاف الیہ مقدم ہوتا ہے وجود مضاف پر ، پس ان دلائل سے ثابت ہواکہ النبیین میں الف لام عہد خارجی کا مانناچاہئے۔ الجواب حضور پُرنُور خَاتَمُ النبیین سَیّدُ الْمُرْسَلِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا خاتم یعنی بِعْثَت میں آخرِ جمیع انبیاء و مرسلین بِلاتاویل و بِلا تخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ شک و شُبْہَہ کو بھی راہ دے کافر مرتد ملعون ہے ، آیہ کریمہ : وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ) (پ22 ، احزاب : 40) وحدیث ِمتواتر لانبی بعدی (4) (میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ت) سے تمام امتِ مرحومہ نے سَلَفاً وخَلَفاًہمیشہ یہی معنی سمجھے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم بِلا تخصیص تمام انبیاء میں آخر نبی ہوئے حضور کے ساتھ یا حضور کے بعد قیامِ قیامت تک کسی کو نبوت ملنی محال ہے۔ فتاوٰی یَتِیَمۃُ الدَّہرواشباہ والنَّظائر وفتاوٰی عالمگیریہ وغیرہا میں ہے : اذالم یعرف الرجل ان محمدا صلیﷲ تعالٰی علیہ وسلم اٰخرالانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات۔ (5) جو شخص یہ نہ جانے کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم انبیاء میں سب سے پچھلے نبی ہیں وہ مسلمان نہیں کہ حضور کا آخرُ الانبیاء ہونا ضروریاتِ دین سے ہے۔ (ت) شِفاء شریف امام قاضی عَیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہمیں ہے : کذٰلک (یکفر) من ادعی نبوۃ احد مع نبینا صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اوبعدہ (الی قولہ) فھٰؤلا کلھم کفار مکذبون للنبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم لانہ اخبرانہ خاتم النبیین ولانبی بعدہ واخبر عن ﷲ تعالٰی انہ خاتم النبیین وانہ ارسل کافۃ للناس واجمعت الامۃ علی حمل ان ھذا الکلام علی ظاھرہ وان مفھومہ المراد بہ دون تاویل ولاتخصیص فلا شک فی کفر ھٰؤلاء الطوائف کلھا قطعا اجماعا و سمعا۔ (6) یعنی جو ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے زمانہ میں خواہ حضور کے بعد کسی کی نبوت کا اِدِّعا(7) کرے کافر ہے(اس قو ل تک)یہ سب نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تکذیب کرنے والے ہیں کہ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے خبردی کہ خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں اور اﷲ تعالٰی کی جانب سے یہ خبر دی کہ حضور خاتم النبیین ہیں اور ان کی رسالت تمام لوگوں کو عام ہے اور امت نے اِجماع کیا ہے کہ یہ آیات واحادیث اپنے ظاہر پر ہیں جو کچھ ان سے مفہوم ہوتا ہے وہی خدا ورسول کی مراد ہے نہ ان میں کوئی تاویل ہے نہ کچھ تخصیص تو جو لوگ اس کا خلاف کریں وہ بحکمِ اجماعِ اُمت وبحکمِ قرآن وحدیث سب یقیناً کافر ہیں۔ امام حجۃُ الاسلام غزالی قُدِّسَ سِرُّہ الْعَالی کتابُ الْاِقْتِصاد میں فرماتے ہیں : (8) ان الامۃ فھمت ھذااللفظ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابداوعدم رسول بعدہ ابدا وانہ لیس فیہ تاویل ولاتخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلامہ من انواع الھذیان لایمنع الحکم بتکفیرہ لانہ مکذب لھذاالنص الذی اجمعت الامۃ علی انہ غیر مؤول ولامخصوص۔ (9) یعنی تمام امتِ مرحومہ نے لفظ خاتم النبیین سے یہی سمجھا ہے وہ بتاتا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد کبھی کوئی نبی نہ ہوگا حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور تمام امت نے یہی مانا ہے کہ اس میں اصلاً کوئی تاویل یا تخصیص نہیں تو جو شخص لفظ خاتم النبیین میں النبیین کو اپنے عموم واستغراق پر نہ مانے بلکہ اسے کسی تخصیص کی طرف پھیرے اس کی بات مجنون کی بَک(10) یا سَرسَامی کی بہک(11) ہے اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ اس نے نَصِّ قرآنی کو جھٹلایا جس کے بار ے میں امت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔ عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قُدِّسَ سِرُّہ القدسی شرح الفَرَائد میں فرماتے ہیں : تجویز نبی مع نبینا صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اوبعدہ یستلزم تکذیب القراٰن اذ قد نص علٰی انہ خاتم النبیین واٰخر المرسلین وفی السنۃ انا العاقب لانبی بعدی واجمعت الامۃ علی ابقاء ھذاالکلام علی ظاہرہ وھذہ احدی المسائل المشہورۃ التی کفرنا بھا الفلاسفۃ لعنھم ﷲ تعالٰی۔ (12) ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ یا بعد کسی کو نبوت ملنی جائز ماننا تکذیبِ قرآن کو مُسْتَلْزِم ہے کہ قرآنِ عظیم تصریح فرماچکا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم خاتم النبیین و آخر المرسلین ہیں اور حدیث میں فرمایا : میں پچھلا نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور تمام امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پرہے یعنی عموم واستغراق بلاتا ویل وتخصیص اور یہ ان مشہور مسئلوں سے ہے جن کے سبب ہم اہلِ اسلام نے کافرکہا فلاسفہ کو ، اﷲ تعالٰی ان پر لعنت کرے۔ امام علامہ شہاب الدین فضل اﷲ بن حسین تَورپَشتی حنفی کتاب المعتمد فی المعتقد میں فرماتے ہیں : بحمدہ اﷲ تعالٰی ایں مسئلہ درمیان اسلامیان روشن ترازاں ست کہ آں را بکشف وبیان حاجت افتد ، خدائے تعالٰی خبردار کہ بعد ازوے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نبی دیگر نباشد ومنکرایں مسئلہ کسے تواند بود کہ اصلاً درنبوت او صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم معتقد نباشد کہ اگر برسالت او معترف بودے وے را در ہرچہ ازاں خبرداد صادق دانستی وبہماں حجتہاکہ از طریق تواتر رسالت او پیش مادرست شدہ ایں نیز درست شد کہ وے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم باز پسیں پیغمبران ست در زمان اووتاقیامت بعد ازوے ہیچ نبی نباشد وہرکہ دریں بہ شک ست دراں نیز بہ شک ست ونہ آں کس کہ گوید کہ بعد اووے نبی دیگر بودیا ہست یا خواہد بودآں کس نیز کہ گوید کہ امکان دار د کہ باشد کافر ست اینست شرط در ستی ایمان بخاتم انبیاء محمد مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔ (13) بحمداﷲ تعالٰییہ مسئلہ اہلِ اسلام کے ہاں اتنا واضح اور آشکار ہے کہ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ، اﷲ تعالٰینے خود اطلاع فرمادی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ، اگر کوئی شخص اس کا منکر ہے تو وہ تو اصلاً آپ کی نبوت کا معتقد نہیں کیونکہ اگر آپ کی رسالت کو تسلیم کرتا تو جو کچھ آپ نے بتایا ہے اس کو حق جانتا جس طرح آپ کی رسالت و نبوت تواتر سے ثابت ہے اسی طرح یہ بھی تَواتُر سے ثابت ہے کہ حضور تمام انبیاء کے آخرمیں تشریف لائے ہیں اور اب تا قیامت آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جس کو اس بارے میں شک ہے اسے پہلی بات کے بارے میں شک ہوگا صرف وہی شخص کافر نہیں جو یہ کہے کہ آپ کے بعد نبی تھا یا ہے یا ہوگا بلکہ وہ بھی کافر ہے جوآپ کے بعد کسی نبی کی آمد کو ممکن تصور کرے ، خاتم الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان درست ہونے کی شرط ہی یہ ہے۔ (ت) بالجملہ آیہ کریمہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- ( ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ) (پ22 ، احزاب : 40)مثل حدیثِ مُتَواتر لانبی بعدی(14) قطعاً عام اور اس میں مراد استغراقِ تام اور اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص نہ ہونے پر اجماعِ امت خَیْرُالانام عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلام ، یہ ضروریات ِدین سے ہے اور ضروریاتِ دین میں کوئی تاویل یا اس کے عُمُوم میں کچھ قِیل وقال(15) اصلاً مَسْمُوع نہیں ، (16)جیسے آج کل دجال قادیانی بَک رہاہے کہ “ خاتم النبیین سے ختمِ نبوتِ شریعتِ جدیدہ مراد ہے اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعتِ مطہرہ کا مُرَوِّج وتابع ہوکر آئے کچھ حرج نہیں “ اور وہ خبیث اس سے اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے ، یا ایک اور دجّال نے کہا تھا کہ “ تقدم(17) تاخّرِزمانی میں کچھ فضیلت نہیں خاتم بمعنی آخر لیناخیالِ جُہَّال ہے بلکہ خاتم النبیین بمعنی نبی بالذّات ہے۔ “ اور اسی مضمونِ مَلعُون کو دجال اول نے یوں(18)ادا کیا کہ “ خاتم النبیین بمعنی افضلُ النبیین ہے “ ، ایک اور مرتدنے لکھا “ خاتم النبیین(19)ہونا حضرت رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا بہ نسبت اس سلسلۂ مَحدُودہ کے ہے نہ بہ نسبت جمیع سَلاسِلِ عَوالِم کے ، پس اور مخلوقات کا اورزمینوں میں نبی ہونا ہرگز منافی خاتم النبیین کے نہیں جموع محلے باللام امثال اس مقام پر مخصوص ہوتی ہیں۔ “ چند اور خبیثوں نے لکھا کہ الف لام(20)خاتم النبیین میں جائز ہے کہ عہد کے لئے ہو اور برتقدیرِ تسلیمِ استغراق جائز ہے کہ استغراق عُرفی کےلئے ہو اور برتقدیرِ حقیقی جائز ہے کہ مخصوص البعض ہو اور بھی عام کے قطعی ہونے میں بڑا اختلاف ہے کہ اکثر علماء ظنی ہونے کے قائل ہیں “ ان شیاطین سے بڑھ کر “ اور بعض ابلیسوں نے لکھا کہ “ اہلِ اسلام(21)کے بعض فرقے ختم نبوت کے ہی قائل نہیں اور بعض قائل ختمِ نبوت تشریعی کے ہیں نہ مطلق نبوت کے۔ “ الی غیرذٰلک من الکفریات الملعونۃ والارتدادات المشحونۃ بنجاسات ابلیس وقاذورات التدلیس لعن اﷲ قائلھا وقاتل اﷲ قابلیھا۔ دیگر کفریاتِ ملعونہ اور ارتدادات جو ابلیس کی نجاستوں اور جھوٹ کی پلیدیوں کو متضمن ہے اﷲ تعالٰی کی اس کے قائل پر لعنت ہو اور اسے قبول کرنیوالے کو اﷲ تعالٰی بربادفرمائے۔ (ت) یہ سب تاویل رَکِیک(22) ہیں یا عموم واستغراق “ النبیین “ میں تشویش وتشکیک(23) سب کفر صریح وارتداد قبیح ، اﷲ ورسول نے مطلقاً نفیِ نبوتِ تازہ فرمائی ، شریعتِ جدیدہ وغیرہا کی کوئی قید کہیں نہ لگائی اور صراحۃً خاتم بمعنی آخر بتایا ، متواتر حدیثوں میں اس کا بیان آیا اور صحابۂ کرام رِضْوَانُ اﷲ ِتَعَالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن سے اب تک تمام امت مرحومہ نے اسی معنی ظاہر ومتبادر وعمومِ استغراقِ حقیقیِ تام پر اجماع کیا اور اسی بِنا پر سَلَفاً وخَلَفاً ائمہ مذاہب نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد ہر مدعیٔ نبوت کو کافر کہا ، کتبِ احادیث و تفسیر عقائد و فقہ ان کے بیانوں سے گونج رہی ہیں ، فقیر غَفَرَلَہ الْمَوْلٰی القَدِیْر نے اپنی کتاب “ جزاء اﷲ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ۱۳۱۷ھ “ میں اس مطلب ایمانی پر صِحَاح وسُنَن و مَسانید ومَعَاجیم و جَوَامع سے ایک سو بیس حدیثیں اور تکفیر منکر کہ ارشاداتِ ائمہ وعلمائے قدیم وحدیث و کتب عقائد واصول فقہ وحدیث سے تیس نُصُوص ذکر کئے وﷲ الحمد۔ تو یہاں عموم واستغراق کا انکار خواہ کسی تاویل و تبدیل کا اظہار نہیں کرسکتا مگر کھلا کافر ، خدا کا دشمن قرآن کا منکر ، مردودو ملعون ، خائِب وخاسِر ، وَالعِیاذُ بِاﷲالْعَزِیز ِالْقَادِر ، ایسی تشکیکیں تو وہ اَشْقِیاء ، رَبُّ العٰلمین میں بھی کرسکتے ہیں کہ جائز ہے لام عہد کے لئے ہو یا اِستغراقِ عُرفی کے لئے یا عام مخصوص مِنْہُ الْبَعض یا عالمین سے مراد عالمین زمانہ کقولہ تعالٰی وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ( اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی ) (پ1 ، بقرہ : 47)اور سب کچھ سہی پھر عام قطعی تو نہیں خدا کا پروردگار جمیع عالم ہونا یقینی کہاں مگر الحمد ﷲ مسلمان نہ ان ملعون ناپاک وساوِس کو ربُّ العالمین میں سنیں نہ ان خبیث گندے وساوِس کو خاتم النبیین میں ،اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ (ارے ظالموں پر خدا کی لعنت) (پ12 ، ھود : 18) اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا (بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ) (پ22 ، احزاب : 57) یہ طائِفہ خائِفہ خارجِیہ جن سے سوال ہے اگر معلوم ہو کہ حضور پر نور خاتم الانبیاء ومرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے خاتم ہونے کوصرف بعض انبیاء سے مخصوص کرتا ہے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے روز بعثت سے جب یا اب یاکبھی کسی زمانے میں کوئی نبوت ، اگرچہ ایک ہی ، اگرچہ غیر تشریعی ، اگرچہ کسی اور طبقہ ٔزمین یا کنج(24) آسمان میں اگرچہ کسی اور نوعِ غیرِ انسانی میں واقع مانتا ، یاباوصف اعتقاد عدم وُقُوع محض بطورِاحتمالِ شرعی وامکانِ وقوعی جائز جانتا یہ بھی سہی مگر جائز ومحتمل ماننے والوں کو مسلمان کہتا یا طوائفِ ملعونہ مذکورہ ، خواہ ان کے کُبَراء(25)یا نُظَراء (26)کی تکفیر سے باز رہتا ہے ، تو ان سب صورتوں میں یہ طائفہ خائفہ خود بھی قطعاً یقیناً اجماعاً ضرورۃً مثلِ طوائفِ مذکورہ قادیانیہ وقاسمیہ وامیریہ ونذیریہ وامثالہم لعنہمﷲ تعالٰی کافر ومرتد ملعونِ ابد ہے۔ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ ( اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں ) (پ10 ، توبہ : 30) کہ ضروریات دین کا جس طرح انکار کفر ہے یونہی ان میں شک و شبہہ اور احتمال خلاف ، ماننا بھی کفر ہے یونہی ان کے منکر یا ان میں شاک (27)کو مسلمان کہنا یااسے کافر نہ جاننا بھی کفر ہے۔ بحرالکلام امام نَسَفی وغیرہ میں ہے : من قال بعد نبینا نبی یکفر لانہ انکر النص وکذٰلک لوشک فیہ۔ (28)جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی کے بعد نبی آسکتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نَصِّ قطعی کا انکار کیا ، اسی طرح وہ شخص جس نے اس کے بارے میں شک کیا۔ (ت) دُرِّمختار وبَزَازِیہ ومَجمعُ الانہروغیرہا کتبِ کثیرہ میں ہے : من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔ (29) جس نے اس کے کفر وعذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے۔ (ت) ان لعنتی اقوال ، نجس تراز اَبْوَال ، کے ردمیں اَوَاخرِصدی گزشتہ میں بکثرت رسائل ومسائل علمائے عرب وعجم طبع ہوچکے اور وہ ناپاک فتنے غارِ مَذَلَّت(30) میں گر کر قعرِ جہنم(31) کو پہنچے والحمدﷲرب العالمین۔ اس طائفہ جدیدہ(32) کو اگر طوائفِ طَرِیدہ(33) کی حمایت سوجھے گی تو ا واحد قہار کا لشکر جرار ، اسے بھی اس کی سزائے کردار پہنچانے کو موجود ہے۔ قَالَ تَعَالٰی : اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِیْنَؕ(۱۶) ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْاٰخِرِیْنَ(۱۷) كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ(۱۸) وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ(۱۹) ( کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہ فرمایا پھر پچھلوں کو ان کے پیچھے پہنچائیں گےمجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی) (پ29 ، مرسلات : 16تا19)اور اگر اس طائفۂ جدیدہ کی نسبت وہ تجویز واحتمال نبوت یا عدم تکفیر منکران ختم نبوت ، معلوم نہ بھی ہو ، نہ اس کا خلاف ثابت ہوتو اس کا آیہ کریمہ میں افادۂ استغراق سے انکار اور ارادۂ بعض پر اصرارکیا اسے حکمِ کفر سے بچالے گا کہ وہ صراحۃً آیۂ کریمہ اس تفسیر قطعی یقینی اجماعی ایمانی کا مُنکر ومُبطِل ہے جو خود حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمائی اور جس پر تمام امتِ مرحومہ نے اجماع کیا اور بنقلِ متواتر ضروریاتِ دین سے ہوکر ہم تک آئی ، مثلاًکوئی شخص کہے کہ شراب کی حُرمت قرآنِ عظیم سے ثابت نہیں ائمۂ دین فرماتے ہیں : وہ کافر ہوگیا اگرچہ اس کے کلام میں حرمتِ خَمر کا انکار نہ تھا ، نہ تحریم ِخمر کا ثبوت صرف قرآن عظیم پر موقوف کہ ا س کی تحریم میں احادیثِ متواتر ہ بھی موجود اور کچھ نہ ہوتو خود اس کی حرمت ضروریات دین سے ہے اور ضروریاتِ دین خصوص نصوص کے محتاج نہیں رہتے۔ امام اَجَل ابوزکریا نَوَوی کتاب الروضہ(34) پھر امام ابن حجر مکی اعلام بقواطع الاسلام میں فرماتے ہیں : اذاجحد مجمعا علیہ یعلم من دین الاسلام ضرورۃ سواء کان فیہ نص اولافان جحدہ یکون کفرا ملتقطا۔ (35)جب کسی نے ایسی بات کا انکار کیا جس کا ضروریاتِ دین اسلام میں سے ہونا متفق علیہ معلوم ہے خواہ اس میں نص ہو یا نہ ہو تو اس کا انکار کفر ہے۔ ملتقطاً(ت) بعینہٖ یہی حالت یہاں بھی ہے کہ اگرچہ بعثتِ محمد رسول ُاﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوجانا اور اس وقت سے ہمیشہ تک ، کبھی کسی وقت کسی جگہ کسی صنف میں کسی طرح کی نبوت نہ ہوسکنا کچھ اس آیہ کریمہ ہی پر موقوف نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں قاہروباہر ، مُتَوافِر ومُتظافِر ، متکاثرومتواتر حدیثیں موجود اور کچھ نہ ہوتو بِحَمْدِ اﷲ ِتعالٰی مسئلہ خود ضروریاتِ دین سے ہے مگر آیت کے معنی متواتر ، مجمع علیہ ، قطعی ضروری کا انکار ، اس پر کفر ثابت کرے گا اگرچہ اس کے کلام میں صراحۃً نفسِ مسئلہ کا انکار نہیں ۔ مِنْحُ الرَّوضِ الْاَزْہر شرح فقہ اکبر سیدنا امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں ہے : لوقال حرمۃ الخمر لاتثبت بالقراٰن کفر ای لانہ عارض نص القراٰن وانکر تفسیر اھل الفرقان۔ (36)اگر کسی نے کہا شراب کی حرمت قرآن سے ثابت نہیں تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نَصِّ قرآنی کے ساتھ معارضہ کیا اور اہلِ فرقان کی تفسیر کا انکار کیا۔ فتاوٰی تتمہ میں ہے : من انکر حرمۃ الخمر فی القراٰن کفر۔ (37)جس نے قرآن کے حوالے سے حرمتِ شراب کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا(ت) اعلام امام مکی میں ہمارے علماء سے کلمات کفر بالاتفاق میں نقل کیا : اوقال لم تثبت حرمۃ الخمر فی القراٰن۔ (38)یا اس نے کہاقرآن میں حرمتِ شراب کا ثبوت نہیں ہے۔ (ت)پھر خود فرمایا : کفرزاعم انہ لانص فی القراٰن علی تحریم الخمر ظاھر ، لانہ مستلزم لتکذیب القراٰن الناص فی غیرما اٰیۃ علی تحریم الخمر فان قلت غایۃ مافیہ انہ کذب وھو لایقتضی الکفر قلت ممنوع لانہ کذب یستلزم انکار النص المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ۔ (39)جس نے کہا تحریم شراب پر قرآن میں کوئی نص نہیں ا س کا کافر ہونا نہایت ہی واضح ہے کیونکہ اس کا یہ قول قرآن کی تکذیب کررہاہے قرآن نے متعدد جگہ پر شراب کے حرام ہونے پر تصریح کی ہے ، اگریہ کہا جائے کہ یہ تو صرف اتنا تقاضا کرتا ہے کہ یہ جھوٹ ہوکفر کاتقاضا نہیں کرتا میں کہوں گا یہ بات درست نہیں کیونکہ اس کا یہ قول اس نص قرآنی کے انکار کو مُسْتَلْزم ہے جس سے ایسا حکم ثابت ہورہا ہے جو متفق طور پر ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ (ت) تو اگر چہ یہ طائفہ آیہ کریمہ میں استغراق کے انکار سے ختمِ تامِ نبوت پر دلائلِ قطعیہ سے مسلمانوں کا ہاتھ خالی نہیں کرسکتا ، مگر اپنا ہاتھ ایمان سے خالی کرگیا ، ہاں اگراربابِ طائفہ صراحۃً ایمان لائیں کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے زمانہ میں خواہ حضور کے بعد ، کبھی کسی جگہ کسی طرح کی کوئی نبوت کسی کو نہیں مل سکتی ، حضور کے خاتم النبیین وآخر الانبیاء والمرسلین ہونے میں اصلاً کوئی تخصیص تاوِیل تقیید تحویل نہیں اور ان تمام مطالب کو نصوص قطعیہ و اجماع یقینی وضروریاتِ دین سے ثابت یقیناً مانیں ان تمام طوائفِ ملعونہ مذکورہ اور ان کے اکابر کو صاف صاف کافر مرتد کہیں ، صرف بزُعمِ خود(40) اپنی نحوی ومَنِطقی جہالتوں ، بَطَالتوں ، کَجْ فہمیوں کے باعث آیۂ کریمہ میں لام عہد لیں اور استغراق نا مستقیم سمجھیں تو اگرچہ بوجہِ انکار تفسیرِ متواتر اجماعی قطعی اُسْلُوب ِفقہی اس پر اب بھی لُزُوم کفر مانے مگر اَزْاَنْجا کہ اس نے اعتقاد صحیح کی تصریح اور کبرائے منکرین کی تکفیر صریح کردی اس کی تکفیر سے زبان روکنا ہی مسلکِ تحقیق و احتیاط ہوگا۔ امام مکی بعد عبارت مذکورہ فرماتے ہیں : ومن ثم یتجہ انہ لوقال الخمر حرام ولیس فی القراٰن نص علی تحریمہ لم یکفر لانہ الاٰن محض کذب وھو لاکفر بہ ۔ (41) اسی وجہ سے یہ توجِیْہ کی جاتی ہے کہ اگر کوئی کہتا ہے شراب تو حرام ہے لیکن قرآن میں اس کی تحریم پر نص نہیں تو وہ کافرنہ ہوگااس لیے کہ اب وہ محض جھوٹ بول رہا ہے اور اس سے وہ کافر نہ ہو گا۔(ت) اَقُوْلُ وَبِاللّٰہِ التَّوفِیْق(میں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے۔ ت) اس تقدیرِ اخیر پر بھی اس قدر میں شک نہیں کہ یہ طائفہ خائفہ یارومعینِ مرتَّدِین وکافرین وبازِیچہ کنندہ کلامِ رب العالمین ، ومکذبِ تفسیرِ حضور سیدِ المرسلین ومخالفِ اجماعِ جمیع مسلمین و سخت بدعقل وگمراہ وبددین ہے۔ اول تو ظاہر ہی ہے کہ نفی استغراق وتجویز عہد میں یہ ان کفار کا ہم زبان ہوا بلکہ ان خبیثوں نے تو بطور احتمال ہی کہا تھا “ جائز ہے کہ عہد کے لئے ہو “ اور اس نے بزعم خود عہد کے لئے ہونا واجب مانا اور استغراق کو باطل ومردود جانا۔ دوم اس لئے کہ قرآنِ عظیم میں حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِم اَفْضَلُ الصلوٰۃ والسلام کاذکر پاک بہت وجوہِ مختلفہ سے وارد : (۱) فرداًفرداً خواہ بتصریحِ اسماء یہ صرف چھبیس کے لئے ہے : آدم ، ادریس ، نوح ، ھود ، صالح ، ابراہیم ، اسحٰق ، اسمٰعیل ، لوط ، یعقوب ، یوسف ، ایوب ، شعیب ، موسیٰ ، ہارون ، اِلیاس ، اَلْیَسَع ، ذوالکفل ، داؤد ، سلیمان ، عُزیر ، یونس ، زکریا ، یحییٰ ، عیسیٰ ، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ ۔

    یابرسبیل ابہام مثل :

    قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ (اِشْمَوِیْل) (ان کو ان کے نبی (شَمْوِیل) نے کہا(پ2 ، بقرہ : 248) وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ (یوشع) ( اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا ) (پ15 ، کہف : 60) فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ ( تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا ) (پ15 ، کہف : 65)

    (۲)یابرسبیل عموم واستغراق اور یہی اوفرواکثر ہے :

    مِثلُ قَوْلِہ تعالٰی : قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا (الٰی قولہ تعالٰی) وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ (یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اوراس پر جو ہماری طرف اُترا ) (الٰی قولہ تعالٰی) ( اور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے ) (پ1 ، بقرہ : 136) وقَالَ تَعَالٰی : وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ- (ہاں اصل نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ) (پ2 ، بقرہ : 177) وقَالَ تَعَالٰی : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ( یہ رسو ل ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا )(پ3 ، بقرہ : 253) وقَالَ تَعَالٰی : كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ ( سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو )(پ3 ، بقرہ : 285) وقَالَ تَعَالٰی : لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘ ( ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے )(پ1 ، بقرہ : 136) وقَالَ تَعَالٰی : وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ۪-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ ( اور جو کچھ ملا موسیٰ اور عیسٰی اور انبیاء کو ان کے رب سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے )(پ3 ، ال عمران : 84) وقَالَ تَعَالٰی : فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ ( تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق )(پ5 ، نساء : 69) وقَالَ تَعَالٰی : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-( اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا )(پ6 ، نساء : 152) وقَالَ تَعَالٰی : فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ( تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر) (پ28 ، تغابن : 8) وقَالَ تَعَالٰی : لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ (اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اُن کی تعظیم کرو )(پ6 ، مائدہ : 12) وقَالَ تَعَالٰی : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ ( جس دن اللہ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا )(پ7 ، مائدہ : 109) وقَالَ تَعَالٰی : وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ ( اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے )(پ7 ، انعام : 48) وقَالَ تَعَالٰی : فَلَنَسْــٴَـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْــٴَـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (تو بے شک ضرور ہمیں پوچھنا ہے ان سے جن کے پاس رسول گئے اور بے شک ضرور ہمیں پوچھنا ہے رسولوں سے )(پ8 ، اعراف : 6) وقَالَ تَعَالٰی عَنِ المؤمنین : لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (بے شک ہمارے رب کے رسول حق لائے ) (پ8 ، اعراف : 43) وقَالَ تَعَالٰی عَنِ الکافرین : قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّۚ-فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ (بے شک ہمارے رب کے رسول حق لائے تھے تو ہیں کوئی ہمارے سفارشی ) (پ8 ، اعراف : 53) وقَالَ تَعَالٰی : ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ( پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے ) (پ11 ، یونس : 103) وقَالَ تَعَالٰی : وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ هُزُوًا ( اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کی ہنسی بنائی )(پ16 ، کہف : 106) وقَالَ تَعَالٰی : اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ ( یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے )(پ16 ، مریم : 58) وقَالَ تَعَالٰی : اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ ( بےشک میرے حضور رسولوں کو خوف نہیں ہوتا )(پ19 ، نمل : 10) وقَالَ تَعَالٰی : وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ ( اور اے محبوب یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح )(پ21 ، احزاب : 7) وقَالَ تَعَالٰی : هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ( یہ ہے وہ جس کا رحمٰن نے وعدہ دیا تھا اور رسولوں نے حق فرمایا )(پ23 ، یس : 52) وقَالَ تَعَالٰی : وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ( اور بےشک ہمارا کلام گزر چکا ہے ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے )(پ23 ، صفت : 171) وقَالَ تَعَالٰی : وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ ( اور سلام ہے پیغمبروں پر )(پ23 ، صفت : 181) وقَالَ تَعَالٰی : وَ جِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ ( اور لائے جائیں گے انبیاء اور یہ نبی اور اُس کی اُمّت کہ اُن پر گواہ ہوں گے )(پ24 ، زمر : 69) وقَالَ تَعَالٰی : اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (بےشک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے اور ایمان والوں کی)(پ24 ، مومن : 51) وقَالَ تَعَالٰی : الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ (وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی ہیں کامل سچے)(پ27 ، حدید : 19) وقَالَ تَعَالٰی : اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ (تیار ہوئی ہے ان کے لیے جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے)(پ27 ، حدید : 21) وقَالَ تَعَالٰی : لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ (بےشک ہم نے اپنے رسولوں کوروشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا ) (پ27 ، حدید : 25) وقَالَ تَعَالٰی : كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ ( اللہ لکھ چکا کہ ضرور میں غالب آؤں گا اور میرے رسول )(پ28 ، مجادلہ : 21) وقَالَ تَعَالٰی : وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْؕ(۱۱) لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ (اور جب رسولوں کا وقت آئے کس دن کے لیے ٹھہرائے گئے تھے)(پ29 ، مرسلات : 11۔ 12)الی غیر ذلک من آیات کثیرۃ۔

    (۳) یاملحوظ بوصفِ قَبلِیَّت یعنی انبیائے سابقین عَلیٰ نَبِیِّنَا وَ عَلَیہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام

    مِثْلُ قَوْلِہ تَعَالٰی : وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى (اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے اور سب شہر کے ساکن تھے)(پ13 ، یوسف : 109) وقَالَ تَعَالٰی : وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ (اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے) (پ18 ، فرقان : 20) وقَالَ تَعَالٰی : سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ﰳۙ (۳۸) الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ ( اللہ کا دستور چلا آرہا ہے ان میں جو پہلے گزر چکےاور اللہ کا کام مقرر تقدیر ہے وہ جو اللہ کے پیام پہنچاتے )(پ22 ، احزاب : 38۔ 39) وقَالَ تَعَالٰی : وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ (اور بےشک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف)(پ24 ، زمر : 65) وقَالَ تَعَالٰی : مَا یُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ (تم سے نہ فرمایا جائے گا مگر وہی جو تم سے اگلے رسولوں کو فرمایا گیا)(پ24 ، حم سجدہ : 43) وقَالَ تَعَالٰی : كَذٰلِكَ یُوْحِیْۤ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۙ-اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ (یونہی وحی فرماتا ہے تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف اللہ عزت و حکمت والا)(پ25 ، شوری : 3) وقَالَ تَعَالٰی : وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ (اور اُن سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے)(پ25 ، زخرف : 45)وغیرذٰلک۔

    (۴) یا برسبیل معنی جنسی شامل فردو جمع بے لحاظ خاص خصوص وشُمول :

    مِثْلُ قَوْلِہ تَعَالٰی : مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ (جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا )(پ1 ، بقرہ : 98) و قَوْلُہ تَعَالٰی : اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّۙ-وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ (وہ جو اللہ کی آیتوں سے منکر ہوتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے اور انصاف کا حکم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں انہیں خوشخبری دو دردناک عذاب کی) (پ3 ، ال عمران : 21) وَ لَا یَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا (اور نہ تمہیں یہ حکم دے گا کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہرالو )(پ3 ، ال عمران : 80) و قَوْلُہ تَعَالٰی : وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا (اور جو نہ مانے اللہاور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا)(پ5 ، نساء : 136) و قَوْلُہ تَعَالٰی : اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ (الٰی قولہ تعالٰی) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا (وہ جو اللہ اوراس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہسے اس کے رسولوں کو جدا کردیں )(الٰی قولہ تعالٰی) ( یہی ہیں ٹھیک ٹھیک کافر)(پ6 ، نساء : 150۔ 151) (۵) یا خاص خاص جماعت خواہ اس کا خصوص کسی وصف یا اضافت یا اور وُجُوہِ بیان سے نفسِ کلام میں مذکور اور اس سے مُستَفَاد ہو۔ مِثْلُ قَوْلِہ تَعَالٰی : وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ (اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے)(پ1 ، بقرہ : 87) وقَالَ تَعَالٰی فی بنی اسرائیل : وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ( اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے )(پ6 ، مائدہ : 32) وقَالَ تَعَالٰی فی التوراۃ : یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا ( اس کے مطابق یہود کو حکم دیتے تھے ہمارے فرماں بردار نبی )(پ6 ، مائدہ : 44) وقَالَ تَعَالٰی بعدماذکرنوحا ثم رسولا اٰخر : ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا (پھر ہم نے اپنے رسول بھیجے ایک پیچھے دوسرا )(پ18 ، مومنون : 44) ثُمَّ قَال : ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى (پھر ہم نے موسیٰ کو بھیجا)(پ18 ، مومنون : 45) وقَالَ تَعَالٰی : اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ (بے شک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی)(پ6 ، نساء : 163)فالمراد من بعدہ ھودوموسٰی علیہم الصلٰوۃ والسلام۔ وقَالَ تَعَالٰی : فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَؕ(۱۳) اِذْ جَآءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ (تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے جیسی کڑک عاد اور ثمود پر آئی تھی جب رسول اُن کے آگے پیچھے پھرتے تھے)(پ24 ، حم سجدہ : 13۔ 14) وقَالَ تَعَالٰی بَعدَ ذِکرِ نوح وَابراھیم : ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا (پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اَور رسول بھیجے)(پ27 ، حدید : 27)

    یابوجہِ عہدِ حُضُوری :

    مثل قولہ تعالٰی : قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ (بولا اے میری قوم بھیجے ہوؤں کی پیروی کرو)(پ22 ، یس : 20)

    یا ذِکری :

    مِثْلُ قَوْلِہ تَعَالٰی : فی قوم نوح وھو دو صالح ولوط وشعیب بعد ماذکرھم علیھم الصلٰوۃ والسلام۔ تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ (یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بے شک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لےکر آئے)(پ9 ، اعراف : 101) نوح ، ھود ، صالح ، لوط اور شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلام کی قوم کاذکر کرنے کے بعد : یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے۔ (ت)

    یا عِلمی :

    مِثْلُ قَوْلِہ تعالٰی : وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِۘ-اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ (اور ان سے مثال بیان کرو اس شہر والوں کی جب اُن کے پاس فرستادے آئے )(پ22 ، یس : 13) وقَالَ تَعَالٰی : سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ( اب ہم لکھ رکھیں گے ان کا کہااور انبیاء کو ان کا ناحق شہید کرنا )(پ4 ، ال عمران : 181) وغیرذٰلک۔ اب اولاً اگرآیہ کریمہوَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے)(پ22 ، احزاب : 40)میں لام عہد خارجی کے لئے ہو جیسا کہ یہ طائفہ خارجیہ گمان کرتا ہے اور وہ یہاں نہیں مگر ذکر ی ، اور ذکر کو دیکھ کر کہ اتنے وجوہ مختلفہ پر ہے اور ان میں صرف ایک وہ ہے جو بداہۃً کلامِ کریم میں مراد ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، یعنی وجہِ سِوُم کہ جب انبیاء موصوف بوصفِ قَبْلِیّت ومُقَیَّد بقیدِ سبقت لے لئےگئے یعنی وہ انبیاء جو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے پہلے ہیں تو اب حضور کو ان کا خاتم ان کا آخر ان سے زمانے میں متأخر کہنا محض لغو وفُضُول وکلام مہمل ومُعَطل ومَغْسُول ہوگا جس کا حاصل حَمَلِ اولیٰ بدیہی مثلِ زید زید سے زائد نہ ہوگا کہ جب ان کو حضور سے اگلا کہہ دیا حضور کا ان سے پچھلا ہونا آپ ہی معلوم ہوا۔ اسے بالخصوص مقصود بالا فادہ رکھنا قرآن عظیم تو قرآن عظیم اصلاً کسی عاقل انسان کے کلام کے لائق نہیں ، نہ کہ وہ بھی مقامِ مدح میں کہ چشمانِ تو زیر ابرو انند دندانِ تو جملہ در دھانند(تمہاری آنکھیں زیرابرو ہیں اور دانت منہ کے اندر ہیں)سے بھی بدترحالت میں ہے کہ شعر نے کسی اِفادہ کی عَبَث تکرار نہ کی اور بات جو کہی وہ بھی واقعی تعریف کی تھی۔ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ( اچھی صورت ) (پ30 ، تین : 4) سے بعض اَوضاع کا بیان ہے اسے مقام مدح میں یوں مُہمل جانا گیا ہے کہ ایک عام مشترک بات کا ذکر کیا ہے بخلاف اس معنی کے کہ اس میں صراحۃًعبث موجود اور معنی مدح بھی مفقود ، اور پھر عموم و اشتراک بھی نقد وقت کہ ہر شے اپنے اگلے سے پچھلی ہوتی ہے غرض یہ وجہ تو یوں مُندَفع ہوجائے گی کہ اصلاً محلِ افادہ وصالح ارادہ نہیں۔ اور اس طائفہ خارجیہ کے طور پر وجہِ دُوُم کو بھی نامحتمل مان لیجئے پھر بھی اول و چہارم و پنجم سب محتمل رہیں اور پنجم میں خود وُجُوہ کثیر ہیں ، کہیں “ من بعد موسٰی ، کہیں “ من بعد نوح “ ، کہیں انبیائے بنی اسرائیل ، کہیں “ من بعد ھود و موسٰی “ ، کہیں صرف انبیائے عادو ثمود ، کہیں انبیائے قوم نوح وعاد وثمود ، کہیں “ من بعد ابراہیم قوم لوط و مدینوغیرذلک ، بہر حال ذکر وُجُوہِ کثیرہ مختلفہ پر آیا ہے اور یہاں کوئی قرینہ بینہ نہیں کہ ان میں ایک وجہ کی تعیین کرے تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ کون سے مذکور کی طرف اشارہ ہوا ، پھر عہد کہاں رہا ، سرے سے عہد کا مَبنٰی ہی کہ تعین ہے مُنْہَدَم ہوگیا کہ اختلاف وتنوع مطلقاً منافی تعین ، نہ کہ اتنا کثیر ، پھر عَہدیت کیونکر ممکن۔ ثانیاً جب کہ اتنی وجوہِ کثیرہ محتمل اور قرآنِ عظیم نے کوئی وجہ بیان نہ فرمائی ، حدیث کا بیان صحیح تو وہی عموم واستغراق ہے کہ لانبی بعدی(42) (میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ ت) کما سیأتی۔ اس تقدیر پر جب اشارہ ذکر استغراق کی طرف ٹھہرا عہدواستغراق کا حاصل ایک ہوگیا اور وہی احاطہ تامہ کہ مُعْتَقَدِ اہلِ اسلام تھا۔ ظاہر ہوا مگریہ اس طائفے کو منظور نہیں لاجَرَم آیت کہ برتقدیر عہدیت مجمل تھی بے بیان رہی اور وہی منقطع ہوکر متشابہات سے ہوگئی ، اب رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو خاتم النبیین کہنا محض اقرارِ لفظ بے فہم معنی رہ گیا جس کی مراد کچھ معلوم نہیں ، کوئی کافر خود زمانۂ اقدس حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم میں کتنے ہی انبیاء مانے ، حضور کے بعد ہر قَرْن وطبقہ و شہر وقَرْیہ میں ہزار ہزار اشخاص کو نبی جانے خود اپنے آپ کو رسولُ اﷲ کہے ، اپنے استاذوں کو مرسلین اُوْلُوالْعَزم بتائے ، آیہ کریمہ اس کا بال بِیْکا نہیں کرسکتی کہ آیت کے معنی ہی معلوم نہیں جس سے حجت قائم ہوسکے ، کیا کوئی مسلمان ایسا خیال کرے گا ، حاشا وکلا۔ ثالثاًمیں تکثر وتزاحم معانی پر کیوں بِنا کروں ، سوائے استغراق کو ئی معنی لے لیجئے سب پر یہی آش دَرْکاسہ(43) رہے گی کہ پچھلی جھوٹی کاذِبہ ملعونہ نبوتوں کا دَر آیت بند نہ کرسکے گی ، معنی اول یعنی افرادِ مخصوصہ معینہ مراد لئے تو نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم انہیں معدود انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے خاتم ٹھہرے جن کا نام یا ذکرِ معین علی وجہ ِالابہام قرآنِ مجید میں آگیا ہے جن کا شمار تیس چالیس نبی تک بھی نہ پہنچے گا ، یونہی برتقدیرِ معنی پنجم یعنی جماعاتِ خاصہ خاص اسی جماعت کے خاتم ٹھہریں گے ، باقی جماعات صادقہ سابقہ کے لئے بھی خاتمیت ثابت نہ ہوگی ، چہ جائے جماعات کاذبہ آئندہ اور معنی سوم میں صاف تخصیص انبیائے سابقین کی ہو جائے گی کہ جو نبی پہلے گزر چکے ان کے خاتم ہیں تو پچھلوں کی کیا بندش ہوئی بلکہ پیچھے اور آئے تو وہ ان کے بھی خاتم ہوں گے ، رہے معنی چہارم جنسی اس میں جمیع مراد لینا اس طائفہ کو منظور نہیں ورنہ وہی خَتْمُ الشَّئی لِنَفْسِہ لازم آئے ، لاجرم مطلقاً کسی ایک فرد کے اختتام سے بھی خاتمیت صادق مانے گا کہ صدق علی الجنس کے لئے ایک فرد پر صدق کا فی ہے تو یہ سب معانی سے اَخَس واَرْذَل ہوا اور حاصل وہی ٹھہرا کہ آیت بہر نہج فقط ایک دو یا چند یا کل گزشتہ پیغمبروں کی نسبت صرف اتنا تاریخی واقعہ بتاتی ہے کہ ان کا زمانہ ان کے زمانے سے پہلے تھا ، اس سے زیادہ آئندہ نبوتوں کا وہ کچھ نہیں بگاڑسکتی ، نہ ان سے اصلاً بحث کرتی ہے ، طوائفِ ملعونہ مَہدَوِیہ وقادیانیہ وامیریہ ونَانُوتَوِیہ وامثالہم لعنہم ﷲ تعالٰی کا یہی تو مقصود تھا ، وہ اس طائفہ خارجیہ نے جی کھو ل کر اٰمنا بہ کرلیا۔ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ( اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے)(پ19 ، شعرا : 227)اصل بات یہ ہے کہ معانی قطعیہ جو تمام مسلمین میں ضروریاتِ دین سے ہوں جب ان پر نُصُوصِ قطعیہ پیش نہ کئے جائیں تو مسلمانوں کو احمق بنالینا اور معتقداتِ اسلام کو مخیلات(44)عوام ٹھہرادینا ایسے خُبَثا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور نصوص میں احادیث پر نہ عام لوگوں کی نظر نہ ان کے جمع طرق وادراک تواتر پر دَسْتَرس ، وہاں ایک ہُش میں کام نکل جاتا ہے کہ یہ باب عقائد ہے ، اس میں بخاری ومسلم(45)کی بھی صحیح حدیثیں مردود ہیں ، ہاں ایسی جگہ ان ہیے(46)کے اندھوں کی کچھ کَو ر(47) د َبتی ہے تو قرآن عظیم سے کہ بغرض تلبیس عوام ، برائے(48)نام اسلام کا اِدِّعاہوکر ، قرآن پر صراحۃً انکار کا ٹَٹُّوخَرْدَرْگِل (49)ہے ، لہٰذا وہاں تحریف معنوی کے چال چلتے اور کلام اﷲ کو الٹتے بدلتے ہیں کہ جب آیت سے مسلمانوں کو ہاتھ خالی کرلیں پھر گونہ وحیِ شیطانی کا رستہ کھل جائے گا۔ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (اور اللہکو اپنا نور پورا کرنا پڑے بُرا مانیں کافر)(پ28 ، صف : 8) سوم یعنی اس طائفہ کا مکذب تفسیر ِحضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم ہونا وہ ہرادنی خادمِ حدیث پر روشن یہاں اجمالی دو حرف ذکر کریں ، صحیح مسلم شریف ومسند امام احمد وسنن ابوداؤد و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ وغیرہا میں ثوبان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے رسولُ اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : انہ سیکون فی امتی کذابون ثلٰثون کلھم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی۔ (50) بیشک میری امت دعوت میں یا میری امت کے زمانے میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتمُ النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ امام احمد مسند اور طبرانی معجم کبیر اور ضیائے مقدسی صحیح مختارہ میں حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : یکون فی امتی کذابون ودجالون سبعۃ وعشرون من ھم اربعۃ نسوۃ وانی خاتم النبیین لانبی بعدی۔ (51)میری امت دعوت میں ستائیس دَجّال کذّاب ہونگے ان میں چار عورتیں ہوں گی حالانکہ بیشک میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم و سنن ِترمذی وتفسیر ابن ابی حاتم وتفسیر ابن مَرْدْوَیہ میں جابر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے ہے ، رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : مثلی ومثل الانبیاء کمثل رجل ابتنی دارا فاکملھا واحسنھا الاموضع لبنۃ فکان من دخلہا فنظر الیہا قال مااحسنھا الاموضع اللبنۃ فانا موضع اللبنۃ فختم بی الانبیاء۔ (52)میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکان پور ا کامل اور خوبصورت بنایا مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی تو جو اس گھر میں جاکر دیکھتا کہتا یہ مکان کس قدر خوب ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوا مجھ سے انبیاء ختم کردئیے گئے۔ صحیح مسلم ومسنداحمد میں ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے ، رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : مثلی ومثل النبیین من قبلی کمثل رجل بنی دارا فاتمھا الالبنۃ واحدۃ فجئت انا فاتممت تلک اللبنۃ۔ (53) میری اور سابقہ انبیاء کی مثل اس شخص کی مانند ہے جس نے سارا مکان پورا بنایا سوا ایک اینٹ کے ، تو میں تشریف فرماہوا اور وہ اینٹ میں نے پوری کی۔ مسند احمد وصحیح ترمذی میں بافادۂ تصحیح اُبَی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے ، رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : مثلی فی النبیین کمثل رجل بنی دارا فاحسنھا واکملھا واجملھا وترک فیھا موضع لبنۃ لم یضعھا فجعل الناس یطوفون بالبنیان ویعجبون منہ ویقولون لو تم موضع ھذہ اللبنۃ فانافی النبیین موضع تلک اللبنۃ۔ (54)پیغمبروں میں میری مثال ایسی ہے کہ کسی نے ایک مکان خوبصورت و کامل وخوشنما بنایا اور ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی وہ نہ رکھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی و خوشنمائی سے تعجب کرتے اور تمنا کرتے کسی طرح اس اینٹ کی جگہ پوری ہوجاتی تو انبیاء میں اس اینٹ کی جگہ میں ہوں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم وسُنَنُ النَسائی وتفسیر ابنِ مَرْدْوَیہ میں ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے ، رسولُ اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہی مثل بیان کرکے ارشاد فرمایا : فانااللبنۃ وانا خاتم النبیین۔ (55)تومیں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ، صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم اَجْمَعِیْن وَبَارِکْ وَسَلِّم۔ چہارم کا بیان اوپر گزرا ، پنجم سے اس طائفہ کی گمراہی بھی واضح ہوچکی کہ تفسیر رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا رد کرنے والا اجماع قطعی امت مرحومہ کا خلاف کرنے والا سواگمراہ بددین کے کون ہوگا؟ قولہ : مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا (ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اُسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی)(پ5 ، نساء : 115)رہی بدعقلی وہ اس کے ان شبہات واہیات ، خرافات ، مزخرفات کی ایک ایک ادا سے ٹپک رہی ہے جو اس نے اثبات ادعائے باطل “ عہد خارجی “ کے لئے پیش کئے اہلِ علم کے سامنے ایسے مہملات کیا قابل التفات ، مگر حفظ عوام وازالہ اوہام کے لئے چند حروف مجمل کا ذکر مناسبوﷲ الھادی وولی الایادی (اور اﷲ تعالٰی ہی ہدایت دینے والا اور طاقتوں کا مالک ہے۔ ت)۔ شبہہ اولیٰ میں اس طائفہ نے عبارتِ توضیح کی طرف محض غلط نسبت کی حالانکہ توضیح میں اس عبارت کا نشان نہیں بلکہ وہ اسکے حاشیہ تلویح کی ہے ، اقول اولاً اگریہ مدعیان عقل اسی اپنی ہی نقل کی ہوئی عبارت کو سمجھتے اور قرآن عظیم میں انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے وجوہ ذکر کو دیکھتے تو یقین کرتے کہ آیہ کریمہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے) (پ22 ، احزاب : 40) میں لام عہد خارجی کے لئے ہونا محال ہے کہ بوجہِ تنوع وجوہِ ذکر وعدمِ اولیت وترجیح جس کا بیان مشرحاً گزرا ، کمال تمیز جداسرے سے کسی وجہ معین کا امتیاز ہی نہ رہا تو یہی عبارت شاہد ہے کہ یہاں “ عہدِخارجی “ ناممکن ، کاش مکر کے لئے بھی کچھ عقل ہوتی تو اس کی جگہ توضیح ہی کی گول عبارت العھد ھوالاصل ثم الاستغراق ثم تعریف الطبیعۃ(56) (عہد اصلی ہے پھر استغراق اور پھر جنس۔ ت) کی نقل ہوتی کہ خود نفسِ عبارت تو ان کی جہالت و سفاہت پر شہادت نہ دیتی اگرچہ اس سے دو ہی سطر پہلے اسی توضیح میں متن تنقیح کی عبارت : ولابعض الافراد لعدم الاولیۃ (57) (اور نہ بعض افراد کیونکہ اولیٰ نہیں۔ ت) اس کی صفراشکنی کو بس ہوتی مگر یہ کیونکر کھلتا کہ طائفہ خائفہ کو دوست و دشمن میں تمیز نہیں صریح مضر کو نافع سمجھتاہے لہذا نام تو لیا توضیح کا اور برائے بد قسمتی عبارت نقل کر دی تلویح کی ، جس میں صاف صریح ان عقلاء کی تسفیہ اور ان کے وہم کا سد کی تقبیح تھی ، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ ثانیاً توضیح کا مطلب سمجھنا تو بڑی بات ، خودا پنا ہی لکھا نہ سمجھا کہ جب عہد خارجی سے معنی درست ہو تو استغراق وغیرہ معتبر نہ ہوگا۔ ہم اوپر واضح کرآئے کہ عہد خارجی مزعوم طائفہ خارجیہ سے معنی درست نہیں ہوسکتے ، آیہ کریمہ قطعاً آئندہ نبوتوں کا دروازہ بند فرماتی ہے ، رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہی معنی اس کے بیان فرمائے ، تمام امت نے سلفاً وخلفاً اس کے یہی معنی سمجھے اور اس عہد خارجی پر آیت کو اس سے کچھ مس نہیں رہتا تو واجب ہے کہ استغراق مراد ہو۔ اسی تلویح میں اسی عبارت منقولہ طائفہ کے متصل ہے ، ثم الاستغراق الی ان قال فالاستغراق ھو المفھوم من الاطلاق حیث لاعھد فی الخارج خصوصا فی الجمع الٰی قولہ ھذا ماعلیہ المحققون۔ (58) پھر استغراق (تا)اطلاق سے استغراق مفہوم ہوتا ہے جہاں عہد خارجی نہ ہو خصوصا ًجمع میں (تا) محققین کی یہی رائے ہے۔ (ت) ثالثاًبہت اچھا اگرفرض کریں کہ لام عہد خارجی کے لئے ہے تو اس سے بھی قطعاً یقیناً استغراق ہی ثابت ہوگا کہ وجوہ خمسہ سے اول وسوم وپنجم کا بطلان تو دلائلِ قاہرہ سے اوپر ثابت ہولیا اور واضح ہوچکا کہ خود جن سے کلامِ الٰہی کا اولاً واصالۃً خطاب تھا یعنی حضور پر نور سید یوم النشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم ، انہو ں نے ہرگز اس آیت سے صرف بعض افرادِ معینہ یا کسی جماعتِ خاصہ کو نہ سمجھا اب نہ رہیں ، مگر وجہِ دوم و چہارم یعنی وہ جو قرآن عظیم میں بروجہِ اکثر واَوفر ذکرِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبروجہِ عموم واستغراق تام ہے اسی وجہِ معہود کی طرف لام النبیین مشیر ہے تو اس عہد کاحاصل بِحَمْدِ اﷲ ِتعالٰی وہی استغراق کامل جو مسلمانوں کا عقیدہ ایمانیہ ہے یاذکر جنسی کی طرف اشارہ ہے اور ختم کا حاصل نفی معیت وبعدیت ہے ، جیسے اولویت بمعنی نفی معیت وقبلیت تعریفاتِ علامہ سید شریف قدس سرہ الشریف میں ہے : الاول فرد لایکون غیرہ من جنسہ سابق علیہ ولامقارنالہ۔ (59)اول فرد ہے کیونکہ اس کا کوئی ہم جنس اس سے پہلے نہیں اور نہ اس کے ساتھ متصل ہے۔ حدیث شریف میں ہے : انت الاول فلیس قبلک شئی وانت الاٰخر فلیس بعدک شئی ، رواہ مسلم فی صحیحہ والترمذی واحمد وابن ابی شیبۃ وغیرہم عن ابی ھریرۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم(60) وللبیھقی فی الاسماء والصفات عن ام سلمۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہا عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ کان یدعو بھٰؤلاء الکلمات اللھم انت الاول فلاشئی قبلک وانت الاٰخر فلاشئی بعدک۔ (61)تو اول ہے تجھ سے پہلے کوئی شئی نہیں ، اور تو آخر میں ہے تیرے بعد کوئی شئی نہیں ، اسے مسلم نے اپنی صحیح میں ، ترمذی ، امام احمد اور ابن ابی شیبہ وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے روایت کی ہے۔ امام بیہقی نے ا لاسماء و الصفات میں حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم ان کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے ، اے اﷲ!تو اول ہے تجھ سے پہلے کوئی شئی نہیں اور تو آخر ہے تیرے بعدکوئی شئی نہیں۔ (ت) تو خاتم النبیین کا حاصل ہمارے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ اور بعد جنس نبی کی نفی ہوئی اور جنس کی نفی عرفاًولغۃً وشرعاً جملہ افراد ہی سے ہوتی ہے ولہٰذا لائے نفی جنس صِیَغِ عُمُوم سے ہے جیسے لارجل فی الدار ولہذا لاالٰہ الاﷲہر غیرِ خدا سے نفیِ الوہیت کرتا ہے ، یوں بھی استغراق ہی ثابت ہوا ، وَﷲِ ِالْحَمْد۔ (نامکمل دستیاب ہوا)
    1 چونکہ خاتم النبیین میں الف لام عہد خارجی کے قائل ہیں لہذا خارجیہ لکھے گئے ہیں۱۲ 2 شرح تلویح علی التوضیح ، الباب الاول ، فصل قصرالعام ، 1 / 93 3 نورالانوار ، بحث التعریف باللام والاضافة ، ص85 4 بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب ماذکر عن بنی اسرائیل ، 2 / 461 ، حدیث : 3455 5 فتاوی یتیمة الدھرمخطوط ، کتاب الدیات والجنایات ، باب مایکون کفراومالایکون کفرا ، ص167 الاشباہ والنظائر لابی النجیم ، الفن الثانی ، کتاب السیر ، باب الردة ، ص161 فتاوی ہندیه ، احکام المرتدین ، 2 / 263 6 الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، القسم الرابع فی تصرف وجوہ الاحکام ، فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر ، 2 / 285۔ 286 7 دعویٰ۔ 8 یہ عبارت اقتصاد کے مطبوعہ نسخے میں پوری نہیں ہے ، لیکن مفسرِقرآن حضرت امام محمد بن احمد الخطیب شربینی(وفات : 977ھ) اورامام ابراہیم بن عمر بقاعی (وفات : 855ھ) نے اقتصاد کے حوالے سے یہ پوری عبارت نقل کی ہے۔ مفسرِ قرآن حضرت امام بقاعیرَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : هذا كلامه فی كتاب الاقتصاد ، نقلته منه بغير واسطة ولا تقليد ، فاياك ان تصغی الى من نقل عنه غير هذا ، فانه تحريف يحاشی حجة الاسلام عنهیعنی یہ عبارت میں نے اقتصاد سے بغیر کسی کے واسطے اور پیروی کے خود نقل کی ہے۔ تو تم ایسے شخص سے بچو جس نے اس عبارت کے علاوہ کچھ اور نقل کیا ہو بے شک وہ تحریف ہے جس سے حجۃ الاسلام امام محمد غزالی بَری ہیں ۔ نظم الدرر ، سورة الاحزاب ، تحت الآية : 40 ، 6 / 113 تفسیر سراج المنیر ، سورة الاحزاب ، تحت الآية : 40 ، 3 / 253 9 الاقتصاد فی الاعتقاد ، صلی الله علیه وسلم واثبات ما اخبرهو عنه ، الباب الباب الرابع ، بیان من یجب تکفیرہ من الفرق ، ص 137 10 بکواس۔ 11 دماغی بیماری کی وجہ سے بہکی باتیں کرنے والا۔ 12 المعتقد المنتقد ، الباب الثانی فی النبوات ، النبوة لیست کسبية ، ص 210 13 المعتمدفی المعتقد ، باب دوم ، فصل چهارم ، ص 106 14 بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب ماذکر عن بنی اسرائیل ، 2 / 461 ، حدیث : 3455 15 بحث۔ 16 بالکل نہیں سنی جاسکتی۔ 17 تحذیر الناس نانوتی۱۲۔ 18 مواہب الرحمٰن قادیانی۱۲۔ 19 مناظرہ احمدیہ۱۲۔ 20 ناصر المومنین سہسوانی۱۲۔ 21 تحریراسمی زندیق پشاور ی۱۲۔ 22 گھٹیا۔ 23 شک میں ڈالنا۔ 24 آسمان کے کنارے ، کونے۔ 25 کبیر کی جمع ، بڑوں۔ 26 نظیر کی جمع۔ 27 شک کرنے والے۔ 28 بحرالکلام ، الباب السادس ، الفصل الاول ، المبحث الرابع ختم نبوة ، ص 274ملتقطا 29 مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، کتاب ، فصل فی احکام الجزية ، 2 / 482 30 ذلت ورسوائی کے غار۔ 31 دوزخ کے گڑھے۔ 32 نئے گروہ۔ 33 دھتکارا ہوا۔ 34 روضة الطالبين ، كتاب الردة ، 10 / 65 35 الاعلام بقواطع الاسلام ، ص 95 36 فتاوی یتیمة الدھرمخطوط ، کتاب الدیات والجنایات ، باب مایکون کفراومالایکون کفرا ، ص167مفھوماً 37 منح الروض الازهر ، فصل فی الکفر صریحا ، مسائل متفرقة ، ص 508 38 الاعلام بقواطع الاسلام ، الکلام عن الفصل الاول فیما اتفق علی انه کفر ، ص 149 39 الاعلام بقواطع الاسلام ، الکلام عن الفصل الاول فیما اتفق علی انه کفر ، ص 150 40 اپنے گمان میں۔ 41 الاعلام بقواطع الاسلام ، الکلام عن الفصل الاول فیما اتفق علی انه کفر ، ص 151 42 بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب ماذکر عن بنی اسرائیل ، 2 / 461 ، حدیث : 3455 43 فارسی استعارہ جس کا اردو میں مطلب “ پہلے والی بات “ یا “ سابقہ حالت یا کیفیت “ ۔ (اردولغت ، 2 / 218) 44 دیکھو تخدیر الناس۔ 45 دیکھو براہین قاطعہ گنگوہی۔ 46 ( ہی ، اے )ہیے کے اندھوں(دل کے اندھوں)۔ 47 عاجزہونا ، مغلوب ہونا۔ 48 دیکھو تحذیر الناس۔ 49 گدھے کا کیچڑ میں پھنس جانا۔ (اردولغت ، 6 / 502) 50 ابو داؤد ، کتاب الفتن و الملاحم ، باب ذکر الفتن ودلائلھا ، 4 / 132 ، حدیث : 4252 51 معجم الکبیر للطبرانی ، مسند حذیفة بن یمان رضی اﷲ تعالٰی عنه ، 3 / 170 ، حدیث : 3026 ، بتقدم و تاخر 52 مسلم ، کتاب الفضائل ، باب ذکر کونہ صلی الله علیه وسلم خاتم النبیین ، ص966 ، حدیث : 5961 بخاری ، کتاب المناقب ، باب خاتم النبیین ، 2 / 484 ، حديث : 3534 53 مسند احمد ، حدیث ابی سعید خدری رضی اﷲ عنه ، 4 / 21 ، حدیث : 11067 54 مسند احمد ، حدیث طفیل بن ابی بن کعب رضی اﷲ عنه ، 8 / 50 ، حدیث : 21301 ، بالفاظِ واحدة و اجملهازائدة 55 مسلم ، کتاب الفضائل ، باب ذکر کون النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم خاتم النبیین ، ص966 ، حدیث : 5961 56 شرح التلویح علی التوضیح ، الباب الاول ، فصل قصر العام ، 1 / 89 57 شرح التلویح علی التوضیح ، الباب الاول ، فصل قصر العام ، 1 / 89 58 شرح التلویح علی التوضیح ، الباب الاول ، فصل قصر العام ، 1 / 93 59 التعریفات ، باب الالف ، ص 31 60 صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء ، باب ما یقول عندالنوم ، ص1116 ، حدیث : 6889 مصنف ابن ابی شیبة ، کتاب الدعاء ، ما قالوا فی الرجل ، 15 / 157 ، حدیث : 29925 61 الاسماء والصفات للبیہقی مع فرقان القرآن باب ذکر اسماء التی تتبع اثبات الباری الخ ، ص20

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن