اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ رسالہ امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے کیئے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے
دُعائے جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت: یا اللہ پاک ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”اعلیٰ حضرت اور امیرِ اہلِ سنّت “ پڑھ یا سُن لے اُسےاپنے ولیِ کامل اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے فیضانِ رضا سے مالا فرما کر بے حساب مغفرت سے نواز دے۔ اٰٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیه واٰله وسلّم
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ’’جو مجھ پر جمعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھےاللہ پاک اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخرت کی اور 30 دُنیا کی اوراللہ پاک ایک فِرِشتہ مقرر فرما دے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف پیش کئے جاتے ہیں، بِلاشبہ میرا علم میرے وِصال کے بعد وَیسا ہی ہوگا جیسا میری حیات میں ہے۔‘‘ (جمع الجوامع ،7/199،حدیث:22355)
سُوال:( نگرانِ شوریٰ نے امیراہل ِ سنت کی خدمت میں عرض کیا:)جب مىں آپ کا مُرىد بنا تو آپ کى زبان سے پہلی بار اعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا نام سُنا،ایسےلاکھوں اِسلامى بھائى ہوں گے جنہوں نےآپ کے بىانات کے ذَرىعےاعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا نام اور تَعارُف سُنا ہوگا۔ اگر کوئی مجھ سے سُوال کرے کہ اعلىٰ حضرت کا نام کىسے سُنا تو مىں جواب دوں گا امىرِ اہلِ سنَّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے ذَرىعے ۔ اگر یہی سُوال کوئی آپ سے کرے تو آپ کىا جواب دىں گے ؟
جواب:میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو محلے کی بادامى مسجد(گاؤگلی میٹھادر اولڈ سٹی کراچی) سے دُرُود وسَلام اور نعتوں کی آوازیں سُنىں۔ چونکہ بچہ سادہ لوح (یعنی سادہ تختی کی مانِند)ہوتا ہےتختی پر جو لِکھا جائے وہ نَقش ہو جاتا ہے تو اَلحمدُ لِلّٰہ! بچپن میں نعت و دُرُود والا ماحول ایسا ذہن میں رَچا بسا کہ اب تک باقی ہے ۔ اگر محلے کی مسجد میں عاشقانِ رَسول کى اِنتظامىہ ہو یا امام عاشقِ رَسول ہو تو وہ عشقِ رَسول کے جام بھر بھر کر تقسىم کرے گا اور اگر مُعاملہ اِس کے اُلَٹ ہوا تو اب اَثر بھی اُلٹا پڑے گا اور عَقائِد میں خرابی ہو سکتی ہے ۔ عَقائِد میں خرابی ہو اللہ پاک اس سے پہلے اِىمان و عافىت کے ساتھ مدىنے مىں شہادت عطا فرمائے ۔ اٰٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیه واٰلهٖ وسلّم
بادامی مسجد کى اِنتظامىہ میں حاجى زَکرىا گونڈل کے مىمن تھے ۔ گونڈل ہند گجرات کا اىک شہر ہے جہاں دعوتِ اسلامى کے مَدَنى قافلے کے ساتھ میری حاضِری ہوئی تھی۔ وہاں کے اِسلامى بھائىوں نے بتایا تھا کہ ىہاں اىک بھى بَدمذہب نہىں ہے جتنے بھی کلمہ گو ہیں سب کے سب عاشقانِ رَسول ہىں۔ اىک بار مىں اسى بادامى مسجد مىں نماز پڑھ کر بىٹھا تھا کہ حاجى زَکرىا مَرحوم نے دَورانِ گفتگو اعلیٰ حضرت کا نام لیا اور مولانا احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کہا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً 9 سال تھی لیکن اتنی سمجھ تھی کہ رحمۃُ اللہِ علیہ کسی وَلی کے نام کے ساتھ ہی بولا جاتا ہے کیونکہ ہم میمنوں کے گھروں میں غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ اور خواجہ غریبِ نواز رحمۃُ اللہِ علیہ کا ذِکر کثرت سے ہوتا ہے اور ان کی نیاز اور ان کے نام کے ساتھ رحمۃُ اللہِ علیہ بولنے کا اِلتزام کیا جاتا ہے لہٰذا حاجی زَکریا سے اعلیٰ حضرت کے نام کے ساتھ رحمۃُ اللہِ علیہ سُن کر میں چونکا کہ کیا یہ بھی کوئی ’’ولی ‘‘ہیں جو ان کے نام کے ساتھ رحمۃُ اللہِ علیہ لگایا ہے؟ اِس پر حاجی زَکریا نے اعلیٰ حضرت کا اچھے اَلفاظ کے ساتھ تَعارُف کروایا کہ ىہ بہت نىک آدمی اور بہت بڑے وَلِىُّ اللہ تھے ۔ یوں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا پہلی بار تعارف ہوا۔
اس سے پہلے اَشعار مىں’’رضا رضا‘‘ سُنتا تھا مگر کچھ سمجھ نہىں پڑتى تھى کہ ىہ رضا کون ہىں؟لیکن پھر اُس دِن پتا چلا کہ ىہ رضا کوئى عام شاعِر نہىں بلکہ بہت بڑى شخصىت کے مالِک ہىں۔ دِن گزرتے گئے اور حاجى زَکرىا نے رضا کى حقیقت اور مَعرفت کا جو بىج بویا تھا وہ اندر جڑ پکڑتا گىا اور 60 سال کے عرصے میں بڑھتے بڑھتے آج اَلحمدُ لِلّٰہ! تناوَر دَرخت بن گىا ہے ۔ تحدىثِ نعمت کے لىے کہہ رہا ہوں کہ آج اىک دُنىا ہے جو اِس دَرخت کا پھل کھا رہى ہے اور رضا رضا پُکار رہی ہے ۔ بس یہ اللہ پاک کى رَحمت اور اس کا کرم ہے ۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا ہےکہ جس طرح اس نے دُنىا مىں اعلیٰ حضرت کے فىوض وبرکات سے ہمیں مالا مال فرماىا آخرت مىں بھی ان کی بَرکات سے ہمیں محروم نہ کرے ۔
سُوال :(نگران ِ شوریٰ نے عرض کیا:)اِنسان کسى سے مُتأثر ہو جاتا ہے لىکن بعض اوقات مستقل مُتأثر رہتا نہىں ہے ۔ آپ کے اعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کى ذاتِ مُبارَکہ سے مُتأثر ہونے اور پھر اِس پر اِستقامت پانے کے کیا اَسباب ہیں ؟
جواب : اصل میں یہ اپنى اپنى قسمت کی بات ہوتى ہے ۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! میری خوش نصیبی کہ میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے مُتأثر ہوگیا اور پھر یہ عقیدت دِن بدن بڑھتی چلی گئی۔ جب میں نے جوانی کی دَہلیز پر قدم رکھا تو کسى لائبرىرى کا مِمبر بن گیا۔ وہاں سے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے فتاویٰ کےمجموعے مثلاً اَحکامِ شَرىعت، عِرفانِ شرىعت اور مَلفوظاتِ اعلىٰ حضرت وغیرہ لیتا اور انہیں تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھتا کہ اگر یہ ختم ہوگئیں تو پھر کیا پڑھوں گا؟یہ میرے جَذبات تھے ،ان کُتُب میں شَرعی مَسائِل پڑھ کر مجھے اتنا مَزہ آتا کہ میں پڑھتا چلا جاتا ۔ پتنگ اُڑانا کیسا ہے ؟ جھینگا کھانا کیسا ؟ اِس طرح کے دِلچسپ مَسائِل جو عموماً عوام کو معلوم نہیں ہوتے انہیں پڑھ کر لُطف آتا۔ فتاوىٰ رضوىہ شریف کا تو شاید اس وقت نام بھی نہىں سُنا تھا۔ بہرحال اللہ پاک نے بڑا کرم کىا کہ اپنے وَلیٔ کامل، عاشقِ رَسول اور عظیم عالِمِ دِین و مُفتىِ اِسلام کا دامن عطا فرمایا۔ عالِم اور مُفتى تو اور بھی بہت ہیں مگر احمد رضا جىسا کوئى نہیں۔اَبھی دو چار صَدیوں مىں آپ جىسا کوئی پىدا ہوا ہو مىرى معلومات مىں نہىں ہے۔ اِس بات کی گواہی ہر وہ شخص دے گا جو فتاویٰ رضویہ کا بغور مُطالَعہ کرے ۔ کوئی بھی عِلم دوست شخص جس کی اُردو اچھى ہو اور کچھ نہ کچھ عَربى فارسى بھى سمجھ لىتا ہو جب وہ فتاوىٰ رضوىہ پڑھے گا تو وہ مُتأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس لیے کہ اس مىں علمی تحقیق کی اتنى گہرائى پائے گا کہ جس کا تلہ نہیں ملے گا۔ اگر کوئی نیوٹرل آدمی بھی اُردو فتاوىٰ کا تَقابل کرے تو وہ فتاویٰ رضویہ کو ہی ہر لحاظ سے فائِق (بڑھ کر)پائے گا۔
سُوال:اعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی ذات خوبىوں کا مَجموعہ ہے، کیا آپ کو ان خوبىوں مىں سے بعض زىادہ پُرکشش لگتی ہیں؟
جواب : مىں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خوبیوں کو باہم تَرجیح دینے میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کىونکہ مجھے اعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کى کسى خوبى مىں کوئی کمزورى نظر نہىں آ رہى کہ جسے دیکھ کر میں دوسری خوبی کو اس پر تَرجیح دے سکوں۔ سارى ہی خوبىاں وزن دار ہىں۔ اللہ پاک کى محبت مىں ان کا کوئى جواب نہىں ہے۔ عشقِ رسول کا وَصف دىکھو تو معراج کی بلندیوں پر ہے ۔ قرآنِ کرىم کے فہم مىں ان کا کوئى مِثل نہىں ، ان کے جىسا کوئى مُفَسِّر نہىں، ان جىسا کوئی مُحَدِّث نہىں، ان جىسا کوئی مُفتى نہىں، ان جىسا کوئی علّامہ نہىں ، بس ہر طرف رضا کے جَلوے ہی نظر آ رہے ہىں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس سَمت آگئے ہىں سِکّے بٹھا دىئے ہىں۔
اَلحمدُ لِلّٰہ! ہم نے اعلیٰ حضرت کا دامن پکڑ کر وَاللہ، بِاللہ، تَاللہ ٹھوکر نہىں کھائى بلکہ ہم نے اس دَر کے لىے دُنیا ٹھکرائى ہے ۔ اللہ کرے کہ اعلىٰ حضرت کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چُھوٹے،ان کا دَروازہ مضبوطى سے پکڑنا ہے کہ ”یَکْ دَرْگِیْر مُحْکَم گِیْر یعنی ایک ہی دَروازہ پکڑو مگر پکڑو مَضبوطی سے۔“کی تعلىم بھى اعلىٰ حضرت ہى نے دی ہے ۔ ىہ بھى ٹھىک تو وہ بھی ٹھىک نہىں بلکہ جو رضا کہىں وہ ہى ٹھىک ہے کىونکہ رضا کوئی بھی بات قرآن و حدىث سے ہٹ کر نہىں کرتے ۔ جب ہم نے ان کے فتاوىٰ، ا ن کى کُتُب اور ان کى سىرت کا مُطالعہ کىا تو ہماری سمجھ میں یہ بات آ گئى کہ رضا کى زبان سے وہى نکلتا ہے جس کی تائید و تَصدیق قرآن و حدىث سے ہوتی ہے ۔ اس لىے رضا پر اپنی آنکھىں بند کر دیں، اگر آنکھىں کھولىں تو کہىں اىسا نہ ہو کہ مشکل کھڑى ہو جائے اور دِل کى آنکھىں بند ہو جائىں لہٰذا آنکھىں بند کر کے رضا کے پىچھے پىچھے چلتے جائیے اِن شاءَ اللہ الکریم غوثِ پاک کے دامن تک پہنچ جائیں گے اور غوثِ پاک اپنے نانا جان، رَحمتِ عالمىان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں تک لے جائیں گے ۔
باغِ جنَّت مىں محمد مسکراتے جائىں گے پُھول رَحمت کے جھڑىں گے ہم اُٹھاتے جائىں گے
سُوال :”اعلیٰ حضرت پر ہماری آنکھیں بند ہیں“اِس بات کی مزید وضاحت فرمادیجئے ؟
جواب : اِس کا مَطلب یہ ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ پر کسی بھی قسم کی تنقید نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں ان کی بیان کردہ کسی بات کے بارے میں کوئی شُبہ ہوتا ہےاعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے مُعاملے میں آنکھیں بند کر نے میں ہی عافیت ہے ، اِس بارگاہ میں آنکھیں کھولیں گےتو ٹھوکر لگنے کا خَدشہ ہے ۔ یاد رَکھیے!ہم اعلیٰ حضرت کو اللہ پاک کا ولی مانتے ہیں، نبی نہیں مانتے ، اللہ پاک کے بے شمار اَولیائے کِرام رحمۃُ اللہِ علیہم ہیں،انہی میں سے ایک اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ بھی ہیں۔
جو چاہتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کی محبت اُس کے دِل میں اُترجائے تو اُسے چاہیے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے جو رضا رضا کرتے ہوں اور اس کے عِلاوہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی کُتُب اور آپ کی سیرت کا مُطالعہ بھى کرتا رہے ، اِن شاءَ اللہُ الکریم نَس نَس مىں اعلیٰ حضرت کی محبت رَچ بس جائے گی۔
یاد رہےکہ اعلیٰ حضرت کی محبت دِل میں رَچنے بسنے سے یہ مُراد نہیں کہ مَعاذَ اللہ اَب کسى اور بزرگ سے محبت نہىں کرنى۔ ہم تو فىضانِ اَنبیا و اَولىا کے قائِل ہىں۔ تمام اَنبیائے کِرام علیہم السلام ،تمام صحابۂ کِرام اور اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہُ عنہم کو بھی مانتے ہیں اور تمام اَولیائے کِرام رحمۃُ اللہِ علیہم کو بھی مانتے ہیں۔
سُوال : صَحابۂ کِرام علیہم الرضوان ، حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ اور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃُ اللہِ علیہ نے بھی تو دِین کا کام کیا ہے لیکن آپ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا ہی اتنا نام کیوں لیتے ہیں؟(سوشل میڈیا کا سُوال)
جواب : بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہِ علیہم کا تَذکرہ عموماً موقع محل کے اِعتبار سے کیا جاتا ہے ابھی چونکہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے عُرس کے اَیّام ہیں تو ہم آپ کا تَذکرہ کر رہے ہیں۔ جب گیارھویں شریف کا مہینا شروع ہو گا تو اِن شاءَ اللہُ الکریم گیارہ راتیں مَدَنی مذاکرہ ہو گا۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! ہمارا تو بَرسوں سے یہ سِلسِلہ چلا آ رہا ہے کہ گیارھویں شریف کا مہینا شروع ہوتے ہی غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کا ذکرِ خیرکرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے تَذکرے میں حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی شان بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کو جو عظیم الشان مَرتبہ حاصِل ہوا ہے وہ غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی غُلامی ہی کی وجہ سے حاصِل ہوا ہے ۔
مَزرعِ چِشت و بخارا و عِراق و اجمیر کون سی کِشْت پہ بَرسا نہیں جھالا تیرا
(حدائقِ بخشش، ص26 )
یعنی اے غوثِ اعظم!وہ کون سا کھیت ہے جس پر آپ کے کَرم کا بادِل نہیں بَرسا، چاہے وہ اجمیر ہو یا عراق ،ہر کھیت پر آپ کے کَرم کی بَرسات ہوئی ہے ۔ یقیناً اعلیٰ حضرت بھی اسی دَربارِ گوہر بار کے غُلام اور فیض یافتہ ہیں۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! ہم لوگ بارہا صحابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان کا بھی تَذکرہ کرتے ہیں بلکہ یہ نعرہ کہ”ہر صحابیٔ نبی جنتی جنتی“بھی ہم نے ہی لگایا ہے ۔ نیز جب بارھویں شریف کا مہینا تشریف لائے گا تو ہم اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جو یقیناً اللہ پاک کی مخلوق میں سب سے افضل ہستی ہیں ان کا تَذکرہ کریں گے، اِن شاءَ اللہُ الکریم مَرحبا کی دھومیں مچائیں گے۔(اس موقع پر نگرانِ شُوریٰ نے عرض کیا:) اِن شاءَ اللہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے اِس شعر کو اپنے لیے مَشعلِ راہ بنائیں گے :
خاک ہو جائیں عَدو جَل کر مگر ہم تو رضاؔ
دَم میں جب تک دَم ہے ذِکر اُن کا سُناتے جائیں گے (حدائقِ بخشش، ص 157 )
سوال:آپ اعلیٰ حضرت کا یومِ وِلادت کیوں مناتے ہیں؟
جواب:ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کا یومِ ولادت ان کی نیک نامی ہی کی وجہ سے مناتے ہیں ورنہ وہ نہ ہمارے دادا جان ہیں اور نہ تایا بلکہ ان کی تو زبان بھی ہماری نہیں اور نہ ان کے ساتھ ہمارا کوئی خاندانی تعلق ہے لیکن ہم خاندانی رشتوں کو ان کے تعلق پر قربان کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کا یومِ ولادت مناتے ہیں ۔ ورنہ آج تو کوئی اپنے دادا یا پر دادا کا بھی یومِ ولادت نہیں مناتا بلکہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دادا کی تاریخِ ولادت کیا تھی ۔ مجھے بھی اپنے دادا جان کی تاریخِ پیدائش یا تاریخ وفات کا علم نہیں ہے میں نے تو اپنے دادا کو دیکھا بھی نہیں ہے ، پھریہ تو دادا کی بات ہے مجھے تو اپنے والد صاحب کی بھی تاریخِ ولادت نہیں معلوم کیونکہ میرے بچپن میں ہی والد صاحب کا وصال ہوگیا تھا تو ہم اپنے شیخ یعنی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا یومِ ولادت مناتے ہیں کیونکہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے لکھاہے :والد پِدرِ گِل ہے اور شیخ پدرِ دِل یعنی باپ مٹی کے وجود کا باپ ہے اور شیخ یعنی پیر یا دینی استاذ دل کا باپ ہوتا ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ، 21 / 476)ان دونوں کا احترام اپنی اپنی جگہ ضروری ہے ۔
سوال:کِس طرح کی دینی کتابیں پڑھنی چاہئیں؟
جواب:کوئی بھی کتاب پڑھنے کے لیے کسی اچھے عالمِ دین سے مشورہ کرلیا جائے کہ میں کونسی کتاب پڑھوں۔ مکتبۃ المدینہ سے پرنٹ ہونے والی کُتُب قدیم علمائے کرام کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں یا پھر دعوتِ اسلامی کے علمی و تحقیقی شعبے ا لمدینۃ العلمیہ کی کتابیں ہوتی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے ، بہارِ شریعت پڑھئے، اَلحمدُ لِلّٰہ! مکتبۃُ المدینہ نے بہارِ شریعت تخریج کے ساتھ شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ،فتاویٰ رضویہ اوراعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی دیگر کُتُب کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔