my page 1
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    ALLAH Pak Ke Bare Mein 28 Sawal Jawab | اللہ پاک کےبارے میں28 سوال جواب

    book_icon
    اللہ پاک کےبارے میں28 سوال جواب
                
    اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خاتَمِ النَّبیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط اللہ پاک کے بارے میں 28 سوال جواب دُعائے خلیفۂ امیرِ اہلِ سنّت: یاربَّ المصطفٰے ! جو کوئی 14 صفحات کا رسالہ’’ اللہ پاک کے بارے میں 28 سوال جواب ‘‘پڑھ یاسُن لے اُسے اپنی محبّت عطا فرما اور اس کی ماں باپ اور اولاد سمیت بےحساب بخشش فرما۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّم

    دُرُود شریف کی فضیلت

    فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جس نے مجھ پر ایک مرتبہ دُرودِ پاک پڑھ ا اللہ پاک اُس پر دس رحمتیں بھیجتا اور اس کے نامۂ اعمال میں دس نیکیاں لکھتا ہے۔ (ترمذی، 2/27، حدیث: 484) صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی محمد سوال: آج کل گونگے بہروں کو تَربیَت دینے والے” اللہ “ کا اِشارہ آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھوا کر سکھاتے ہیں، یہ کہاں تک دُرُست ہے؟ جواب:یہ طریقہ قَطعاً ( قَطْ۔عًا )غَلَط ہے۔ان بے چاروں کے ذِہن میں یِہی نظریات بیٹھ جاتے ہوں گے کہ” اللہ پاک اوپر ہے یا اوپر اُس کا مکان ہے جس میں وہ رہتا ہے یہ دونوں باتیں کُفر ہیں۔“ اللہ پاک جِہَت (یعنی سَمت) سے بھی پاک ہے اور مَکان سے بھی ۔ آسمان کی طرف اِشارہ کرنے کے بجائے ان کو ہاتھ کے ذَرِیعے لفظ” اللہ “بنانا سِکھانا چاہئے اور اِس کا طریقہ نہایت ہی آسان ہے۔ سیدھے ہاتھ کی اُنگلیاں معمولی سی کُشادہ کر کے انگوٹھے کا سِرا اوپر کی طرف تھوڑا سا بڑھا کر شہادت کی اُنگلی کے پہلو کے وَسط میں لگا لیجئے اب سیدھی ہتھیلی کی پشت کی طرف دیکھئے تو لفظ ” اللہ “ محسوس ہو گا۔اِسی طرح کر کے اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی اگلی طرف دیکھیں گے تو اللہ لکھا ہوا نظر آئے گا۔

    فلمیں کُفرِیات سیکھنے کا ذَ رِیعہ ہیں

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کے لئے مَکان اورجِہَت(یعنی سَمت) ثابِت کرنے والے جُملے لوگوں میں کافی رائِج ہوتے جا رہے ہیں مثلاً” اُوپر والا“ کہنا تو بہت زیادہ عام ہے۔ جو کہ اکثر لوگوں نے زیادہ تر فلموں ڈِراموں سے سیکھا ہے۔ چُونکہ ہر مسلمان کُفریات کی پہچان نہیں کر پاتا ،اِس وجہ سے نہ جانے کتنے مسلمان روزانہ یہ غلطیاں کرتے ہوں گے۔ جن لوگوں سے زندَگی میں کبھی ایک بار بھی یہ جُملہ ص ادِر ہو گیا ہو انہیں چاہیے کہ اس سے توبہ کریں اور نئے سرے سے کلمہ پڑھیں اور اگر شادی شُدہ ہیں تو نئے سِرے سے نکاح بھی کریں۔کاش! مسلمان بُرے خاتمے کا ڈر اپنے اندر پیدا کریں ،فلموں ڈِراموں اور گانے باجوں سے کَنارہ کشی اِختیار کریں اور ضَروریاتِ دِین کا عِلم حاصل کریں۔آہ! موت ہر وقت سر پر کھڑی ہے ! موت بیماریوں، دَھماکوں، ہنگاموں،سیلابوں، طوفانی بارِشوں، زَلزلوں، آتَش زَدْگیوں، نیز تیز رفتار گاڑیوں کے حادِثوں کے ذَرِیعے اچھے خاصے کَڑْیل جوانوں کو بھی فوری طور پر اُچک کر لے جاتی ہے اور ساری خَرمَسْتِیاں اور فَنکاریاں خاک میں مل جاتی ہیں ؎ جَل گئے پروانے شَمْعیں پانی پانی ہو گئیں میرا تیرا ذِکر ہو کر اَنجمن میں رہ گیا ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 1/99،98) سوال:اگر بچّے پوچھىں کہ اللہ کہاں ہے؟ تو انہىں کىا جواب دىا جائے اور اس موقع پر کىا اِحتِىاطىں ضَرورى ہىں؟ جواب:واقعى یہ بہت نازک سوال ہے۔ عام طور پر لوگ ایسے سوال پر اوپر ہاتھ اُٹھاتے ہىں کہ اللہ اوپر ہے حالانکہ ىہ بہت سخت کلمہ ہے اس لیے کہ اللہ پاک کسی جگہ میں ہونے سے پاک ہے۔مَساجد کو اللہ کا گھر بولتے ہىں ، خانہ کعبہ کو بھی بیتُ اللہ یعنی اللہ کا گھر کہتے ہیں لىکن اِس سے مُراد ىہ نہىں ہے کہ اللہ وہاں رہتا ہے۔ لہٰذا اگر بچہ پوچھے کہ اللہ کہاں ہے؟ تو جواب دىا جائے: اللہ ہے مگر وہ ہمیں نظر نہىں آتا یا اِس طرح کا کوئى اور جواب دىا جائے۔ بعض اوقات بچے ایسے سوالات کرتے ہىں کہ انہیں سَنْبھالنا مُشکِل ہوتا ہے۔ بچپن مىں ہم بھى سُنتے تھے کہ گالى مَت دو! جھوٹ مَت بولو !ورنہ اللہ سونے کى لکڑى سے مارے گا تو اس طرح کی بہت سی غَلَط باتىں رائج ہیں۔ بچوں کا مُطمَئِن ہونا بہت مشکل ہے، ان میں اتنى عقل نہىں ہوتى کہ یہ باتیں سمجھ سکیں ۔لوگ عموماً ایسے سوالات پر بچوں کو ڈانٹ دىتے ہوں گے کہ چُپ کرو !تمہیں اِن باتوں کی سمجھ نہیں ہے،اِس طرح بچوں کو نہیں ڈانٹنا چاہیے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 2/118) سوال: بچوں کو اللہ پاک کے بارے مىں کىا بتانا چاہىے؟ جواب: اللہ ”پاک “ہے ، اللہ پاک ”اىک“ ہے،ہمىں سب کچھ اللہ پاک ہی دىتا ہے، وہ ہمیں نظر نہىں آتا ،یہ نہیں بتائیں گے تو بچے پوچھىں گے: ” اللہ پاک کىسا ہے؟ کتنا بڑا ہے؟“ وغیرہ۔ نیز بچوں کو ان کى نَفسىات کے مطابق سمجھاىا جائے کہ ” اللہ پاک دىکھ رہا ہے ، ہم اُسے نہىں دىکھ پاتے“ حضرتِ سَہْل بن عَبْدُ اللہ تُستَر ى رحمۃ اللہ علیہ کو تین سال کی عمر میں ان کے ماموں نے تربىت دى تھى کہ ”جب تم بستر پر لیٹنے لگو تو تین بار زبان کو حرکت دئیے بغیر دل ہی دل میں یہ کلمات کہو:” اللہ ُمَعِیَ،اللہ ُنَاظِرٌ اِلَیَّ،اللہ شَاھِدِیْ “یعنی اللہ پاک مىرے ساتھ ہے، اللہ پاک مجھے دىکھ رہا ہے، اللہ پاک میرا گواہ ہے۔ پھر فرماىا: ”اب سات بار پڑھو“ کچھ عر ص ے بعد فرماىا:”اب ہر رات گیارہ بار پڑھو“ىہ پڑھتے رہے۔ (احیاء العلوم ، 3/91 ملخصاً ) اور بعد مىں حضرتِ سَہْل بن عبدُ اللہ تُستَری رحمۃ اللہ علیہ نے اُٹھان لى تو بہت بڑے وَلِىّ ُ اللہ بن کر اُبھرے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اولىائے صدِّىقىن مىں سے تھے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 7/185) سوال:اکثر مائیں وغیرہ بچوں کو اس طرح ڈراتی ہیں کہ” اللہ بابا آجائے گا “اس طرح کہنا کیسا؟ جواب: لوگ” اللہ بابا “غالباً فقىر کو کہتے ہىں ،کہنے والے کی اس سے مراد اللہ پاک کى ذات نہىں ہوتی، ویسے بچے کو اس طرح ڈرانا نہىں چاہىے کہ بچہ ڈر پوک بن جائے گا۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 8/84) سوال:جب اللہ پاک دىکھ رہا ہے تو فرشتے کىوں مُقَرَّر ہىں؟ جواب:اِس بات میں کوئى شک نہىں کہ اللہ پاک دىکھ رہا ہے۔یہ قرآنِ کرىم سے ثابت ہے اور ىہ ہمارے اِىمان کا حصہ ہے۔اگر کوئى ىہ ذہن بنائے کہ اللہ پاک نہىں دىکھ رہا تو وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ فرشتوں کو مُقَرَّر کرنا یہ اللہ پاک کى مَشِیَّت (یعنی مَرضی) ہے کہ نظام اىسے چل رہا ہے، اللہ پاک فرشتوں کا ہرگز ہرگز محتاج نہىں ہے۔ فرشتوں کا لکھنا یہ بھی ایک کسوٹی (یعنی امتحان) ہے کہ کتنے لوگوں کا اس کے ذریعے ایمان پختہ ہوگااور کئی لوگوں کا ایمان برباد بھی ہوتا ہوگا تو ہر معاملے میں کسوٹیاں یعنی امتحانات ہیں۔

    اللہ پاک کو ہمیشہ سے خبر ہے

    اگر فرشتے اَعمال نہ بھى لکھیں تب بھی اللہ پاک کو پتا ہے۔ فرشتے تو اس وقت لکھىں گے جب اُنہیں پتا چلے گا کہ ىہ عمل ہوا ہے لیکن اللہ پاک کو تو ہمىشہ سے خبر ہے کہ کون کىا کرے گا؟ اَربوں کھربو ں اَفراد کا اور تمام مُعاملات کا ہر پل بلکہ پل کے کروڑویں حِ ص ے کا بھى بلکہ میرے پاس بولنے کے لىے اَلفاظ نہىں ہىں لىکن مىرے رب کو وہ سب کچھ پتا ہے۔ تھوڑى دىر کے بعد مىرا کىا ہو گا؟ مىرے ذہن مىں کىا بات آئے گى؟مىں نے کىا بولنا ہے؟ مجھ سے پہلے، فرشتوں سے پہلے اللہ پاک کو پتا ہے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 1/509) سوال: اللہ پاک کی ذات کے مُتعلِّق اِس طرح کے وَساوِس پہلے نہىں پائے جاتے تھے لىکن اب ایسے ذہن بنتے جا رہے ہیں تو اس کى عمومی وُجُوہات کىا ہو سکتی ہیں؟ جواب: اللہ پاک کی ذات کے مُتعلِّق وَساوِس آنے کا سبب عِلمِ دِىن کى کمى،عاشقانِ رَسُول کى ص حبت کا نہ ہونا ہے۔ سوشل مىڈىا کا کِردار بھى ہو سکتا ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے دَہرىوں اور مُنکِرىن کى تحریریں پڑھنے،ان کى تقرىرىں اور کِلپ سُننے دىکھنے سے بھى ذہن بَرباد ہوتا ہو گا۔ سوشل میڈیا اِستعمال کرنے والے صرف دعوتِ اسلامى کے سوشل مىڈىا کو جُوائن کرىں اور ان کے Video Clipes اور تحریرات سے فائدہ اُٹھائیں۔ اللہ پاک كے کرم سے اِس طرح کے وَساوِس ذہن میں نہیں آئیں گے۔ (1) ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 1/510) سوال: کسى بستى کو ”خدا کى بستى“کہنا کىسا ہے ؟ جواب: کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ہر چىز اللہ پاک کى ہے۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے: ( لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ- ) (پ3، البقرۃ : 284) ترجمۂ کنز الایمان :” اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔“ تو مسجد کو بھى ”بیتُ اللہ “ کہتےہىں،اسی طرح بستى بھى حقىقت مىں اللہ پاک کى ہی ہے، بلکہ سارى بستىاں اللہ پاک کى ہىں، اگر ”خدا کى بستى“ نام رکھ دىا تو اس میں کوئى حرج نہىں ۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 8/26) سوال: ” اللہ پاک بے پروا بادشاہ ہے“ایسا کہنا کیسا؟ جواب: شرعاً اس میں کوئى حرج نہىں۔کیونکہ لفظ”بے پروا “ جب اللہ پاک کے لئے بولا جائے گا تو معنیٰ ہوگا: اسے کسى کى حاجت نہىں،نہ وہ کسى سے ڈرتا ہے،نہ اسے کسی کی ضرورت ہے،وہ بے پروا بادشاہ ہے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 8/44) سوال:” اللہ پاک اُوپر ہے“کیا یہ کہہ سکتے ہیں؟ جواب: اللہ پاک جگہ سے پاک ہے لہٰذا ىہ نہىں کہہ سکتے کہ اللہ پاک اُوپر ہے ىا نىچے ہے ىا دائىں ىا بائىں ہے۔( بہار شریعت ، 1/19، حصہ : 1 ماخوذاً ) بعض لوگ بولتے ہىں کہ اللہ پاک آسمان پر رہتا ہے اور کوئى بولتا ہے کہ عرش پر رہتا ہے حالانکہ اللہ پاک کے لیے کوئى مکان یعنی ٹھہرنے ،قىام کرنے اور رُکنے کى جگہ ہو، اىسا کوئی مُعاملہ نہىں ہے۔ اللہ پاک کا کوئی بدن نہیں اور وہ جسم و جسمانیت سے پاک ہے۔(در مخت ار ، 2/358 ماخوذاً ) یہ کہنا کہ اللہ پاک اُوپر ہے اسے عُلَما نے کفر لکھا ہے۔(بحر ال رائق ، 5/203) اللہ پاک کی ذات کے تَعلُّق سے اِس طرح کے مَسائل سمجھنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ”کُفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب “ کا مُطالعہ کیجیے۔ اِن شاءَ اللہ آپ کا اِیمان تازہ ہو جائے گا اور آپ کو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے کُفریات کا پتا چل جائے گا جو آج کل لوگوں میں رائِج ہیں۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 2/119) سوال:اگر عَدم ِتوجہ سے اللہ پاک کے بارے مىں مَنْفِى کَلِمات نکل جائیں تو کیا اِىمان ضائع ہو جاتاہے؟ جواب:عَدم ِ توجہ کے کئى معنىٰ ہو سکتے ہىں،یہاں معنیٰ واضح نہىں۔ اگر کہنا کچھ چاہتا تھا اور سَبقتِ لِسانى سے منہ سے بےاِختیار کلمۂ کُفر نکل گىا مگر اب یہ اس پر پچ کرتا ہے(یعنی اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات پر اَڑا رہتا ہے ) کہ مىں نے صحىح کہا ہے تو اب اس پر کُفر کا حکم لگے گا کہ یہ اسے باقى رکھ رہا ہے۔اس کی مثال دىتے ہوئے بھی نَعُوْذُ بِاللہ ڈر لگتا ہے۔بہرحال اگر مسلمان کے منہ سے نہ چاہتے ہوئے اللہ پاک کے بارے مىں کوئی توہىن آمیز کلمہ نکل جائے تو یہ فوراً اَسْتَغْفِرُ اللہ ، توبہ توبہ،نہىں نہىں وغیرہ کہے گا، لہٰذا رُجو ع کرنے کی ص ورت میں اس پر کوئى حکم نہىں لگے گا۔ ( رد المحتار ، 6/353 ملخصاً ۔ بہار شریعت ، 2/456، حصہ : 9) ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 7/169) سوال: اللہ پاک کو سِتم )یعنی ظُلم )کرنے والا کہنا کىسا ہے ؟ جواب: اللہ پاک کو سِتم کرنے والا کہنا کُھلا کُفر ہے اور یہ کہنے والا کافر ہو جائے گا۔(فتاویٰ امجدیہ ، 4/432) سِتم کے معنیٰ ظلم کے ہیں جبکہ اللہ پاک ظلم نہىں کرتا اور وہ ظلم کرنے سے پاک ہے۔”کفرىہ کلمات کے بارے مىں سُوال جواب “نامی کتاب پڑھىں کہ اس میں اس طرح کے بہت سے کفریہ کلمات کی مثالىں دی گئی ہىں اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ کونسی ایسی باتیں ہیں کہ جنہیں بولنے کے سبب بندہ اِسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔یاد رَکھیے !کفریہ کلمات کے بارےمیں عِلم حاصل کرنا فرض ہے۔( رد المحتار ، 1/107) آج کل لوگوں کو کفریہ کلمات کے بارے میں عِلم نہىں ہوتا جس کی وجہ سے وہ کفریہ کلمات بولتے رہتے ہىں اور جو نہیں بولتے وہ سُن کر ہاں مىں ہاں ملاتے ہیں۔ اگر سامنے والا کُھلا کُفر بول رہا ہو تو اس ص ورت میں اگر سُننے والا سمجھ کر ہاں میں ہاں کر ے گا تو وہ بھی کافر ہو جائے گا ۔ ( کفریہ کلمات کے بارے میں سُوال جواب، ص 71)( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 2/290) سوال: اللہ پاک کے بارے میں ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہونا چاہیے اس کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کسی نے یہ جملہ(میری قسمت میں شاید اللہ پاک کچھ لکھنا ہی بھول گیا ہے) کہا ہو تو پھر کیا حکم ہے ؟ جواب: لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ ، اللہ کریم بھول سے پاک ہے، وہ بھولتا نہیں ہے۔(1) جو جملہ کہا گیا ہے اس میں ایک ضَرورتِ دِینی کا اِنکار پایا جارہا ہے، جو کُفر ہے۔ ( بہار شریعت ، 1/173، حصہ : 1 ماخوذاً )اگر کوئی کسی ملک کے کسی قانون کی مخالفت کرے اور جب اس کو پکڑا جائے تو وہ کہے کہ مجھے اس بارے میں معلوم نہیں تھا، تو اس کی یہ بات سُنی جائے گی یا اسے سزا دی جائے گی؟ ظاہر ہے اسے سزا دی جائے گی،کیونکہ یہ مُلکی قانون ہے۔( جس طرح ہر ملک کے قوانین ہوتے ہیں اسی طرح اِسلام کے بھی قَوانِین ہیں اور اسلامی قانون ہے کہ کسی بھی ضَرورتِ دِینی کا اِنکار کرنے والا شخص مسلمان نہیں رہتا۔) اس جُملے میں تو بھول کو اللہ کریم کے لیے جَزْمی طور پر کہہ دیا ہے، جو صریح یعنی کھلا کُفر ہے، جو شخص بھی ایسا بولے گا وہ اِسلام سے نکل جائے گا اور اس کا نکاح بھی ٹوٹ جائے گا۔ ( خلاصۃ الفتاویٰ ، 4/384۔ بہار شریعت ، 2/461، حصہ :9) ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 3/288) سوال: بعض اَوقات گناہ گار لوگ بھی حج کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں، اگر کوئی ایسے کسی شخص کے بارے میں کہے کہ ’’یہ تو ایک وقت کی نَماز نہیں پڑھتا، بڑا گُناہ گار آدمی ہے، اِس کو حج کی توفیق مل گئی، دیکھو! اللہ کیسوں کیسوں کو بلالیتا ہے، ہم تو نمازیں پڑھتے ہیں مگر اللہ ہم کو نہیں بلاتا‘‘ ایسا کہنا کیسا؟ جواب: اگر اِن معنوں پر کہتا ہے کہ’’ اللہ پاک گناہ گاروں پر بھی مہربان ہے اور انہیں بھی بلالیتا ہے، جبکہ بعض اَوقات نیکوں کو بھی نہیں بلاتا، یہ اُس کی مرضی اور بے نیازی ہے‘‘ تو ایسا کہنے میں حَرَج نہیں ہے۔ اگر مَعَاذَ اللہ ! اِعتراض کرتا ہے کہ ’’ اللہ پاک اُنہیں کیوں بلاتا ہے؟ اُسے چاہئے کہ نیکوں کو بلائے‘‘ تو ایسا شخص کافِر ہوجائے گا۔ ( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 141۔ فتاویٰ رضویہ ،29/293، 296)( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 3/417) سوال:” اللہ وارث“ کہنا کیسا؟ جواب: اللہ وارث کہنا ص حیح ہے کیونکہ اللہ پاک کا ایک ص فاتی نام” وارث“ہے۔ ( ابن ماجہ ، 4/279، حديث : 3861) ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 4/73) سوال: کسی کے ساتھ اگر کچھ ہوجائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ’’ اللہ پاک نے میرے ساتھ ظلم کیا‘‘ ایسا کہنا کیسا؟ جواب: اَسْتَغْفِرُاللہ !ایسا کہنا کفر ہے۔ اللہ پاک کو ظالم کہنے والا مسلمان نہیں رہتا۔(فتاویٰ امجدیہ ، 4/432) اگر نَعُوْذُبِاللہ کسی نے ایسا کہا ہے تو اِس سے توبہ کر ے، کلمہ پڑھ کر نئے سِرے سے مسلمان ہو اور شادی شدہ تھا تو نئے سِرے سے نِکاح بھی کرے۔(فتاویٰ امجدیہ ، 4/432) کسی کا مُرید تھا تو اب دوبارہ جس جامعِ شرائط پیر سے چاہے مُرید ہوجائے۔( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 524، 525) اللہ کریم اِیمان سلامت رکھے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 4/304) سوال:اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:’’ اللہ کو حاضر وناظر جان کرکہہ رہا ہوں‘‘ایسا کہنا کیسا؟ جواب: علمائے کرام نے اللہ پاک کے لئے حاضِر و ناظِر کا لفظ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔( بہار شریعت ، 2/932، حصہ : 12) حاضِر و ناظِر کی جگہ اللہ پاک کے لئے سَمِیع و بَصیر کا لفظ استعمال کیا جائے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 571) اسی طرح حَلَف اُٹھوایا جاتا ہے، یعنی قَسم لی جاتی ہے، اس میں بھی اللہ پاک کے لئے حاضر وناظر کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو شرعاً ممنوع اور غلط ہیں۔ حَلَف اُٹھاتے وقت یہ الفاظ کہے جائیں :میں اللہ پاک کو سَمِیع و بَصیر جان کر کہتا ہوں۔ ( فتاویٰ رضویہ ،14/640،641،688،689)( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 5/351) سوال:لوگ کہتے ہىں کہ جب اللہ پاک کو دُنىا مىں نہىں دىکھ سکتے تو قىامت مىں کس طرح دىکھىں گے ؟ جواب:جنَّت کو بھى تو ہم نے دُنىا مىں نہىں دىکھا اور اِس کے عِلاوہ بھی بہت کچھ نہىں دىکھا مگر ہم اِىمان لاتے ہىں تو جب اللہ پاک چاہے گا ہم جنَّت مىں ضَرور جائىں گے، اللہ پاک کى عطا سے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے جب ہم جنَّت مىں جائىں گے تو وہاں سب سے بڑى نعمت اللہ پاک کا دِىدار ہے۔( بہار شریعت ،1/162، حصہ :1) وہ بھی اللہ پاک کے کَرم سے عطا ہو گا اور جىسے اللہ پاک چاہے گا ہم وىسے اس کا دِىدار کرىں گے،اِس بارے مىں عقل کے گھوڑے دوڑانے کى ضَرورت ہى کىا ہے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 2/181) سوال: کیا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی نے اللہ پاک کا دیدار کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو ان کا نام بھی بتا دیجئے۔ جواب: جاگتی حالت میں سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی نے بھی اللہ پاک کا دیدار نہیں کیا اور آپ کے علاوہ کسی اور کے لئے دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدار مُحال ہے۔ البتّہ! خواب میں اولیائے کرام کو زیارت ہو سکتی ہے اور ہوئی بھی ہے جیساکہ حضرتِ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں 100 بار اللہ پاک کا دیدار ہوا۔( نبراس ، ص 169) اِن شاءَ اللہ ہم سب ا ٓخرت اور قیامت میں نیز پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت کے صدقے جب جنّت میں جائیں گے تو وہاں بھی اللہ پاک کی زیارت کریں گے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 8/173) سوال: ” اللہ پاک کی دُعا سے یہ کام ہو گیا “کہنا کیسا ہے؟ جواب: اللہ پاک کی دُعا سے سب ٹھیک ہے وغیرہ، اِس طرح کے جملے لوگ جہالت کی وجہ سے بول رہے ہوتے ہیں،یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے۔ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کرتے ہیں، اللہ پاک کسی سے دُعا نہیں کرتا، اللہ پاک کی ذات سب سے بڑی ہے اور سب کو وہی دینے والا ہے۔لوگ آپس میں ایک دوسرے کو بھی کہتے ہیں کہ آپ کی دُعا سے سب ٹھیک ہے، آپ کی دُعا سے فلاں کام ہو گیا یہ جملے تو کہہ سکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ” اللہ پاک کی دُعا سے یہ کام ہو گیا “ دُرُست نہیں ہے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 10/232) سوال: اللہ پاک کو دُعا مىں سخى کہنا کىسا ہے ؟ جواب : دُعا اور دُعا کے عِلاوہ بھی اللہ پاک کو سخى کہنا منع ہے۔ اللہ پاک کو سخی کہنے کے بجائے ”جَوَاد“ کہنا چاہىے۔( فتاویٰ رضویہ ، 27/165) ہاں! پىارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سخى کہہ سکتے ہىں ۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 2/38) سوال:” فُلاں کام مىں کردُوں گا باقى اللہ مالِک ہے“کہنا کیسا ہے ؟ جواب:اِس طرح کہنے میں کوئی حَرج نہیں۔اِس کا مَطلب یہ نہیں کہ جو میں کروں گا اس کا اللہ مالِک نہیں ہے بلکہ یہ اس معنیٰ میں ہے کہ فُلاں کام کرنے کی کوشش میری طرف سے اور تکمیل اللہ پاک کی طرف سے ہو گی جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ نیکی کی دعوت دینا ہمارا کام ہےاور ہدایت اللہ پاک دے گا۔ چونکہ ہر شے کا مالِک اللہ پاک ہے، اگر کوئی اپنے قلم کے بارے میں کہے کہ قلم میرا ہے تو اس کا مَطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ پاک اس کا مالِک نہ رہا بلکہ اس کا حقیقی مالِک اللہ پاک ہی ہے اور اللہ پاک نے اسے عطا کیا ہے، اِسی طرح یہ بھی بطورِ مُحاوَرہ کہا جاتا ہے کہ ”فُلاں کام میں کردُوں گا باقی اللہ مالِک ہے“ لہٰذا یہ مُحاورہ بولنے میں کوئی گناہ یا کُفر نہیں ۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ،1/204) سوال:” اللہ پاک دنىا مىں ہونے والے ظلم کو کىوں نہىں روکتا؟“کہنا کىسا ہے؟ جواب:یہ الفاظ اعتراض کے ہىں اور اللہ پاک پر اعتراض کرنا کفر ہے۔یہ دُنیا دارُ الْعَمَل ہے اور اس میں بندوں کا امتحان ہے لہٰذا اگر کوئى ظلم کر بھى رہا ہے تو وہ اپنے لىے جہنم کا عذاب تىار کر رہا ہے اور جس پر ظلم ہو رہا ہے اگر وہ صبر کرے تو اس کے لىے جنّت کا خزانہ ہے۔ دُنیاکےنظام میں اللہ پاک کى بے شمار حِکمتىں ہوتى ہىں اس لىے اللہ پاک نے جو بھى کىا وہ صحىح کىا اور اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش بلکہ اعتراض کا ت ص وُّر بھى نہىں ہے ۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 2/504) سوال:کسی نے کہا کہ ”بھائی اتنی نیکیاں بھی نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑ جائے“ایسا کہنا کیسا ہے ؟ جواب: لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ ، یہ کُھلا کُفر ہے۔ کسی نے اگرچہ یہ جملہ مذاق میں بولا ہو گا لیکن مذاق میں بولا گیا کُفر بھی کُفر ہی ہوتا ہے۔ توبہ اَسْتَغْفِرُاللہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے اور مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یقیناً یہ بُری صحبتوں اور فلمی ڈائیلاگ سننے کا نتیجہ ہے ان میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہوں گی۔ اللہ پاک کَرم فرمائے اور ہمارا اِیمان سَلامت رکھے ۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 3/290) سوال: اللہ پاک سب کچھ سُنتاجانتا ہے، بعض لوگ پھر بھى ىہ جملہ کہتے ہیں: ”آپ دعا فرمائىں کہ اللہ پاک مىرى سُن لے ىا مىرى دعا قبول کرلے“اىسا کہنا کىسا ؟ جواب: اللہ پاک کا اىک صفاتى نام ”سمىع“ بھی ہے۔ سمىع کامعنىٰ ہے سُننے والا۔ یادرہے! اللہ پاک کا سُننا ہمارے سننے کی طرح نہىں ہے، ہم لوگ سُننے کے لىے جسمانی کان کے محتاج ہىں لیکن اللہ پاک کان سے پاک ہے، وہ ہمارى طرح جسم وجسمانىت والا نہىں ہے، اگر کوئى اللہ پاک کاجسمانی کان مانے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ( درمختار ، 2/358 ماخوذاً ) اللہ پاک اپنى شان کے لائق سُنتا ہے اور بارىک سے بارىک آواز بھی سُنتا ہے، کوئى آواز اُس سے پوشىدہ نہىں ہے ،لہٰذا ىوں دعا کرسکتےہیں: اے اللہ پاک! مىرى دعا قبول فرمالے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہلِ سنت ،6/222) سوال: اللہ پاک کو God کہنا کىسا ہے؟ جواب: اللہ پاک کے لیے God جیسے اَلفاظ اِستعمال کرنے سے بچنا چاہىے۔ اللہ پاک کے جو مُبارَک نام مشہور ہىں اور جن ناموں سے عاشقانِ رَسُول عُلَمائے کِرام اللہ پاک کا ذِکرِ خیر کرتےہیں ہم نے صرف وہی نام اِستعمال کرنے ہیں اور God وغیرہ اَلفاظ اِستعمال کرنے سے بچنا ہے۔ اللہ پاک کے لیے اللہ ،خُدا اور پروردگار جیسے اَلفاظ اِستعمال کیے جا سکتے ہیں اگرچہ پرور دگار اور خُدا عربی نام نہیں ہیں مگر عُلَمائے کِرام انہیں اِستعمال کرتے ہیں ۔ ( ملفوظاتِ امیر اہلِ سنت ،1/371) سوال: کیا اللہ پاک سے سب کچھ مانگ سکتے ہیں؟ جواب:جی ہاں! تمام جائز چىزىں اللہ پاک سے مانگ سکتے ہىں۔ البتّہ گناہوں کى دُعا نہىں کرسکتے۔( فضائلِ دُعا ، ص 176)جیسے نَعُوْذُ بِاللہ یہ دُعا نہیں کر سکتے کہ مجھے شراب دے دے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہلِ سنت ،6/317 ) سوال:گھر میں جوان موت ہو جائے تو بعض اوقات بے صبری میں زبان سے اىسے اَلفاظ نکل جاتے ہىں جو نہىں نکلنے چاہئیں،اِس کے متعلق کچھ اِرشاد فرما دیجیے۔(2) جواب:گھر میں جوان یا کسی کی بھی موت ہوجائے تو صبر ہی کرنا چاہیے ۔اِس موقع پر بعض اوقات زبان سے اىسے اَلفاظ نکل جاتے ہىں جو نہىں نکلنے چاہئیں۔ بعض اوقات تو وہ جملے کُفرىہ بھی ہوتے ہىں مثلاً بعض لوگ ىوں کہتے ہوں گے کہ اس کى مَرنے کى کوئى عمر تھى؟ بعض کہتے ہوں گے: ىا اللہ ! تجھے اس کى جوانى پر بھی تَرس نہىں آىا ؟ نَعُوْذُبِاللّٰہ !اگر کسی نے ىہ کہا تو کہنے والا کافر ہوگىا، اِسلام سے نکل گىا کىونکہ اس نے اللہ پاک کو بے رحم کہا۔ یقیناً اللہ پاک بے رحم نہىں ہے۔ اللہ پاک جو کرتا ہے وہ دُرُست کرتا ہے ، صحىح کرتا ہے۔ کسی کا وقت جب پورا ہو جاتا ہے تو اس کا اِنتقال ہو جاتا ہے۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 1/361) سوال:اگر کسی نے تَعْزِ یَت کرتے وقت کُفریہ جملہ بَک دیا اب اس کی تائید کرنا کیسا؟ جواب:کُفریہ جملے کی تائید بھی کُفر ہے۔اگر غَمی کے موقع پر بندہ خود کُفریہ جملہ نہىں بولتا تو بسا اوقات تَعْزِ یَت کرنے والے بُلوا دیتے ہىں مثلاً کوئی تَعْزِ یَت کرتے ہوئے کہے گا: اللہ پاک کو پتا نہىں اس کى کىا ضَرورت پىش آگئى تھی جو جوانی میں ہی اسےاُٹھا لىا؟اب سننے والا بھی ایسے جملے کہے گا؟واقعی کوئی ضَرورت پىش آگئى ہو گی ىا فقط ہاں !ہاں ! کہہ کر ہی تائید کر دے گا تو ایسے جملے بولنا یا ان کی تائید کرنا دونوں باتیں ہی کُفر ہیں کىونکہ اللہ پاک کو کسى کى حاجت و ضَرورت نہىں،وہ کسى کا محتاج نہىں، ہم اس کے محتاج ہىں چنانچہ اِرشادِ رَبُّ العِباد ہے:( وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ ) (پ26، محمد : 38) ترجمۂ كنزالايمان : ”اور اللہ بےنیازہے اور تم سب محتاج۔“تو ہم سب اس کے دَر کے محتاج ہىں لہٰذا اگر کسی نے اللہ پاک کو محتاج کہا تو وہ کافر ہوگىا۔

    کفر بکنے سے نکاح اور اِیمان ختم ہوجاتا ہے

    جس نے اِس طرح کا کُفریہ جملہ بکا تو اس کا اِیمان اور نکاح دونوں ختم ہو گئے بلکہ جنہوں نے سمجھنے کے باوجود ہاں مىں ہاں مِلائی،اگرچہ منہ سے نہىں بولے فقط سر ہی ہلاىا اور دِل مىں اس بات کو دُرُست جانا تو ىہ بھى اِسلام سے نکل گىا، اس کو بھى نئے سرے سے توبہ کر کے کلمہ پڑھنا ہو گا،اگر شادی شُدہ تھا تو نکاح بھی دوبارہ کرنا ہوگا، حج کىا تھا تو وہ بھى گىا لہٰذا اِستطاعت ہونے کی ص ورت میں دوبارہ حج کرنا ہو گا۔ باقی سارى نىکىاں بھی کُفر کے سبب بَرباد ہو جاتى ہىں، اگر زمانۂ اِسلام کی قضا نمازىں باقى تھیں تو وہ اِىمان لانے کے بعد ادا کرنا ہوں گی۔ ( ملفوظاتِ امیر اہل سنّت ، 1/363) صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی محمد
    1جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا اِرشاد ہے:( وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ )(پ 16،مریم:64)ترجمۂ کنز الایمان : اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں ۔ 2… یہ اور اِس سے اگلا سوال شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلسنّت کا قائم کردہ ہے اور جواب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا عنایت کیا ہوا ہے۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن