30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
تابعین کے اَقوال واَحوال اورزُہدوتقوٰی کابیان حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء (جلد: 7) ترجمہ بنام اللہ والوں کی باتیں مُؤَلِّف امام اَ بُونُـعَیْم اَحمدبن عبدُاللہ اَصْفَہَانی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی (وفات۴۳۰ ھ) پیش کش: مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ (شعبہ تراجِمِ کُتُب ) ناشِر مکتبۃُ المدینہ بابُ المدینہ کراچی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْن اَمَّابَعْدُفَاَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط ’’صحبتِ اولیاکی برکات‘‘کے 16 حُروف کی نسبت سے کتاب پڑھنے کی’’16 نیّتیں‘‘ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : نِیَّةُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔ ( معجم کبير ، ۶ / ۱۸۵، حديث : ۵۹۴۲) دومَدَنی پھول: (۱)بِغیراچّھی نیّت کے کسی بھی عَملِ خیرکا ثواب نہیں ملتا۔ (۲)جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتناثواب بھی زِیادہ۔ (۱)ہربارحمدوصلوٰۃ اور تَعَوُّذوتَسْمِیّہ سے آغازکروں گا۔ (اسی صَفْحَہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے اس پر عمل ہو جائے گا)۔ (۲)رِضائے الٰہی کے لئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ (۳) حتَّی الْوَسْع اِس کا باوُضُو اورقبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا۔ (۴)قرآنی آیات اوراَحادیث ِ مبارَکہ کی زِیارت کروں گا۔ (۵)جہاں جہاں’’ اللّٰہ ‘‘کانام پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ (۶)جہاں جہاں’’سرکار‘‘ کا اِسْمِ مبارَک آئے گاوہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم ، (۷)جہاں جہاں کسی’’صحابی‘‘ کا نام آئے گا وہاں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور (۸)جہاں جہاں کسی’’بزرگ‘‘ کا نام آئے گا وہاں رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ پڑھوں گا۔ (۹)رضائے الٰہی کے لئے علم حاصل کروں گا۔ (۱۰)اس کتاب کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے فاتحہ پڑھ کراس کے مُؤَلِّف کوایصالِ ثواب کروں گا۔ (۱۱)(اپنے ذاتی نسخے پر)عِندَالضرورت خاص خاص مقامات انڈر لائن کروں گا۔ (۱۲)(اپنے ذاتی نسخے کے )’’یادداشت‘‘والے صَفْحَہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا۔ (۱۳)اولیا کی صفات کو اپناؤں گا۔ (۱۴)دوسروں کویہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔ (۱۵)اس حدیثِ پاک’’ تَھَادَوْا تَحَابُّوْا ‘‘ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔ ( موطاامام مالک ، ۲ / ۴۰۷، حديث : ۱۷۳۱) پرعمل کی نیت سے (ایک یا حسب ِ توفیق)یہ کتاب خریدکر دوسروں کوتحفۃًدے کراوراس کتاب کامطالَعہ کر کے اس کا ثواب ساری اُمّت کو ایصال کروں گا۔ (۱۶)کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا(ناشِرین وغیرہ کو کتابوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا)۔ ٭…٭…٭…٭ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ از: شیْخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ، بانِیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطّارقادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تَبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیرغیرسیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعَتِ علْمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے ، اِن تمام اُمور کو بحسن خوبی سر انجام دینے کے لئے مُتَعَدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ‘‘بھی ہے جودعوتِ اسلامی کے عُلماومفتیانِ کرام کَثَّرَھُمُ اللہُ السَّلَام پرمشتمل ہے ، جس نے خالص علمی، تحقیقی اوراشاعتی کام کابیڑا اٹھایا ہے ۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں: (۱)شعبہ کُتُبِ اعلیٰ حضرت (۲)شعبہ تراجِمِ کُتُب (۳)شعبہ درسی کُتُب (۴)شعبہ اِصلاحی کُتُب (۵)شعبہ تفتیش کُتُب (۶)شعبہ تخریج ([1]) ’’ اَلْمَدِ یْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِاعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، عظیْمُ البَرَکت، عظیْمُ المرتبت، پروانَۂ شمْعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامِیِ سُنّت ، ماحِیِ بِدعت، عالِم شَرِیْعَت، پیر ِ طریقت، باعِثِ خَیْر و بَرَکت، حضرت علاّمہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرحاضرکے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے ۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ، تحقیقی اور اشاعتی مَدَنی کام میں ہرممکن تعاوُن فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ‘‘کودن گیارہویں اوررات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اورہمارے ہرعمَلِ خیرکوزیورِاِخلاص سے آراستہ فرماکردونوں جہاں کی بھلائی کاسبب بنائے ۔ ہمیں زیرِگنبد ِخضرا شہادت، جنَّتُ البقیع میں مدفن اور جنَّتُ الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ ھـ پہلے اسے پڑھ لیجئے ! بلاشُبہ اسلام ہی دِیْنِ فطرت، مذہَبِ حق اور تمام بنی نوع انسان کا اصل رہبرو راہ نما ہے جبکہ مخصوص نظرو فکراورمذہب سے تعلق رکھتے ہوئے باطل پر ہونے کے باوجود اپنی رائے کی دُرُستی اور مذہبی وفکری برتری کا مختلف طریقوں سے اظہار کرنا باطل پرستوں کا شیوہ ہے جنہوں نے مادی ترقی کے اس دور میں جدید ذرائِع اَبلاغ سے مسلمانوں پر فکری یلغار کر کے کھوٹے کو کھرااورکھرے کو کھوٹا بتا کر بُرائی کو اچھائی کے لبادے میں فروخت کیانتیجتاًحق شناسی سے کورے ، اپنی تباہی وبربادی سے بے پروا مسلمان ان کے دام فریب میں ایسے مبتلا ہوئے کہ ان کی فکری غلامی کے طوق کو گلے کاہاراورنقالی کو باعِثِ افتخارسمجھنے لگے ، ایسوں کے بارے میں اللہعَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کااِرشادہے : ” تم قَدَم بَقَدَم اپنے سے اگلوں کی پیروی کروگے حتّٰی کہ اگروہ گوہ کے سوراخ میں گھسے ہوں گے توتم بھی اِس میں داخل ہوگے ۔ “ عرض کی گئی: یارَسُوْلَاللہ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )!کیااس سے مرادیہودونصارٰی ہیں؟ فرمایا: ” تواورکون۔ “ (2) یہود ونصارٰی سے مشابہت مسلمانانِ عالَم کی اپنے شاندار وباعظمت ماضی سے بے خبری اور احساسِ کمتری کی عکاسی کرتی ہے ، یوں تو دشمنانِ اسلام عالَمی سطح پرشخصی آزادی، حقوقِ نِسواں اور انسانی حقوق وغیرہ کے خوش کن نعروں کی آڑ میں اپنی فکری برتری مُسَلَّط کرنے میں بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اہْلِ حق کی غَلَط روِش نے باطل کوپنپنے کا موقع دیا ہے ، ایک وہ وقت تھا جب دنیا مسلمان کے کردار کے گن گاتی، ہر جگہ ہیبتِ مسلم کاسِکہ بیٹھا ہوتا اور چار سو اس کی عظمت کے ڈنکے بجتے تھے ۔ مگر افسوس! آج مسلمان کے کردار سے دنیا بدظن ہے ، آج کا مسلمان خود کو مغلوب وکمتر سمجھ کر اغیار سے مرعوب ہو گیا، اس زَبُوں حالی میں پیش پیش جہاں کفار کی سازشیں ہیں وہیں مسلمانوں کا اپنے ان بزرگوں کی سیرت وکردار سے بے اعتنائی برتنا بھی ہے جو عبادت وریاضت، تقوٰی وطہارت اورخوف وخشیت کا پیکر، خلْقِ خُدا کی خیرخواہی وحقوق کی ادائیگی، ہر ایک کی ملامت سے بے خوفی، غیرتِ ایمانی، اچھائی کا حکم دینے ، بُرائی سے منع کرنے ، دین کی خاطر ہرقربانی دینے اور جرأت وبہادری کے سچے جذبوں سے سرشارتھے ، جنہوں نے اسلامی تعلیمات کو اپنا زیور بنا کر دنیا کے سامنے اسلام کی حسین صورت پیش کی، جن کے کارناموں نے سارے عالَم کو وَرطَۂ حیرت میں ڈال دیا۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے نادر ونایاب اَقوال کے موتی اوراعلیٰ سیرت وکردار کے نمونے آج بھی مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وہ مقام دلا سکتے ہیں جس کے لیے وہ اغیار کی روشن خیالیوں کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، ان کے فکری اِضْطراب کاقراراورقلبی اُلجھنوں کا سُلجھاؤسلف صالحین کی سیرت وکردار میں پِنہاں ہے اورمُسلمِ اُمَّہ کی رہنمائی کے لیے اَسلافِ اُمَّت کی روشن سیرتوں کویکجاکرکے آنے والی نسل پراِحسان کرنے والوں میں ایک نام حافظ ابونعیم احمدبن عبْدُاللہ اصفہانی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی کابھی ہے جنہوں نے اَسلاف کی پاکیزہ سیرتوں اور کارناموں پرمشتمل مشہورِ زمانہ نادر ونایاب کتاب ” حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء “ لکھ کر مُسلمِ اُمَّہ پراِحسان کیا ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ ! اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ کے شعبہ تراجِمِ کُتُب(عربی سے اُردو)سے اس کتاب کی ابتدائی چھ جلدیں ” اللہ والوں کی باتیں “ کے نام سے زیورِترجمہ سے آراستہ ہوکرمنظَرِعام پرآچکی ہیں۔ اس وقت کتاب کی ساتویں جلد کا ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ جلدنوبزرگوں بالخصوص اپنے زمانے میں عِلْمِ حدیث کے ان شہسواروں کے مُحَیِّرُالْعُقُوْل تذکروں پرمشتمل ہے جنہوں نے خدمَتِ حدیث کی خاطردنیا وی آسائشوں کوٹھکراکراِنتہائی دیدہ دلیری سے بڑی بڑی آزمائشوں کا سامنا کیا۔ اس پرترجمہ، تقابل، نظرثانی، پروف ریڈنگ اورتخریج وغیرہ کے کام میں شعبہ کے تمام ہی اسلامی بھائی شریک رہے بالخصوص تین اسلامی بھائیوں نے بھرپور کوشش فرمائی: (۱)…ابوواصف محمد آصف اقبال عطّاری مدنی(۲)…محمد امجد خان عطّاری مدنی(۳)…محمدخُرم عطّاری مدنی سَلَّمَہُمُ الْغَنِی ۔ شرعی تفتیش دارُالافتااہلسنت کے مُتَخَصِّص اسلامی بھائی محمدکفیل عطاری مدنی سَلَّمَہُ الْغَنِی نے فرمائی ہے ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں دعاہے کہ اپنی دنیاوآخرت سنوارنے کے لئے ہمیں اس کتاب کوپڑھنے ، اس پرعمل کرنے اوردوسرے اسلامی بھائیوں بالخصوص مفتیانِ عِظام اورعُلَمائے کرام کی خدمتوں میں تحفۃً پیش کرنے کی سعادت عطافرمائے اورہمیں اپنی اورساری دنیاکے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنے کے لئے مَدَنی اِنعامات پر عمل کرنے کی توفیق اورمَدَنی قافلوں میں سفرکرنے کی سعادت عطافرمائے اوردعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ کودن پچسویں اوررات چھبیسویں ترقّی عطافرمائے ! اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شعبہ تراجِم کُتُب ( مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ )بقیہ: حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی
تقویٰ میں اِمام:
(9300)…حضرت سیِّدُناابوسَرِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی کابیان ہے کہ حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ورع وتقوٰی کی جوبعض چیزیں اختیارکر رکھی تھیں اُن سے ان کے متعلق عرض کی گئی کہ ان میں آپ کا امام کون ہے ؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ۔ (9301)…حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن یمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی جیسا کوئی دیکھا نہ انہیں کسی کی مانند سمجھتا ہوں، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس دنیا آئی مگر آپ نے اس سے منہ پھیر لیا۔ (9302)…حضرت سیِّدُنامُتُّ بَلخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناسفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کوایک کپڑاتحفے میں دیاتوآپ نے مجھے وہ کپڑاواپس کردیا، میں نے ان سے کہا: ابو عبداللہ !میں آپ سے حدیث شریف کی سماعت کرنے والوں میں سے نہیں ہوں جو آپ مجھے یہ واپس کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” میں جانتا ہوں کہ تم ان میں سے نہیں ہو لیکن تمہارا بھائی تو مجھ سے حدیث کی سماعت کرتاہے اس لئے ڈرتا ہوں کہ دیگر طلبا کے مقابلے میں تمہارے بھائی کے لئے میرا دل زیادہ نرم نہ ہوجائے ۔ ‘‘گھر آئی دولت واپس کر دی:
(9303)… حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے بھائی حضرت سیِّدُنامبارَک بن سعید عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمَجِیْد ذکرکرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سیِّدُناسفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے پاس درہم سے بھری ایک یا دوتھیلیاں لے کرآیا، اس کے والدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دوست تھے اورآپ ان کے پاس بہت جایا کرتے تھے ، الغرض آنے والے نے عرض کی: ابو عبداللہ !کیاآپ کے دل میں میرے والدکی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات ہے ؟آپ نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے والدپر رحم فرمائے !وہ توایسے ایسے تھے ۔ پس آپ نے اس کے والد کی تعریف کی، اس نے عرض کی: ابو عبداللہ !آپ کو تو معلوم ہے کہ یہ مال میرے پاس کیسے آیا ہے ، میں چاہتاہوں کہ آپ ان دراہم کو لے لیجئے اوراسے اپنے اہل وعیال پرخرچ کیجئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس سے وہ درہم لے لیے اورجب وہ شخص اٹھ کر وہاں سے نکلنے لگاتو آپ نے وہ تھیلی مجھے دیتے ہوئے فرمایا: مبارَک! یہ اسے دے دو اور اس شخص سے فرمایا: اے میرے دوست کے بیٹے ! میں چاہتا ہوں کہ یہ مال تم لے لو۔ اس نے عرض کی: ابو عبداللہ ! کیا آپ کو اس کے بارے میں کوئی شک ہے ؟ فرمایا: نہیں، لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ تم لے لو۔ آپ نے اسے کئی مرتبہ کہا تو وہ اسے لے کر چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو میں خود کو روک نہ سکا اور اپنے بھائی حضرت سیِّدُناسفیان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے کہا: تم پرافسوس ہے !یہ تمہارادل ہے یاپتھر؟غورکیجئے کیاآپ کے بچے نہیں ہیں؟کیاآپ کومجھ پررحم نہیں آتا، کیااپنے بھائیوں پرترس نہیں آتا اورکیاہمارے اوراپنے بچوں پر رحم نہیں آتا؟اس کے علاوہ میں نے انہیں اوربھی بہت کچھ کہا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ !!!اے مبارَک! مطلب یہ کہ تم اس مال کومزے سے کھاؤاوراس کی باز پرس مجھ سے ہو۔ (9304)…حضرت محمد بن یوسف فِرْیابی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی بیان کرتے ہیں: حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا: اگرتم دیکھوکہ میں اپنی آج والی حالت پرقائم نہیں ہوں توسمجھ لوکہ مجھے کسی کئے کی سزاملی ہے ۔10 ہزار درہم کا انعام:
(9305)…حضرت سیِّدُناابواحمدزُبَیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی ذکرکرتے ہیں: میں حضرت سیِّدُناسفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے ساتھ مسجدِ خَیف میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ منادی یہ ندا دے رہا تھا کہ ” جو اپنے ساتھ حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو لے کر آئے گا اسے 10 ہزار درہم دیئے جائیں گے ۔ “ (9306)…حضرت سیِّدُناعلی بن جَعْد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خلیفہ ہارون رشید کے منادی کو یہ اعلان کرتے سنا: جو ہمیں حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے بارے میں اطلاع دے گا اسے ایک ہزار درہم دیئے جائیں گے ۔سفیان ثَوری عَلَیْہِ الرَّحْمَہ اور یمنی گورنر:
(9307)…حضرت سیِّدُنااِبْنِ مَہْدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی کا بیان ہے کہ حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ مجھے خلیفہ مہدی کے زمانے میں دربارِ شاہی میں طلب کیا گیا تو میں بھاگ کر یمن آگیا اور کبھی کسی محلے میں جاتا تو کبھی کسی محلے میں اور ان کی مسجدوں میں پناہ لیتا ، ایک مرتبہ کسی محلے میں چوری ہوگئی تومحلے والوں نے مجھ پر الزام لگا دیا اور مجھے معن بن زائدہ کے پاس لے گئے ، اسے میری گرفتاری کے احکامات مل چکے تھے ، کسی نے اس سے کہا کہ اس شخص نے ہمارے ہاں چوری کی ہے ۔ معن بن زائدہ نے کہا: تم نے ان کا سامان کیوں چرایا ہے ؟میں نے کہا: میں نے کچھ نہیں چُرایا۔ پھر مَعْن بن زائدہ نے اُن لوگوں سے کہا: تم لوگ ہٹ جاؤ اورمجھے ان سے کچھ پوچھنے دو۔ پھر اس نے میرے قریب آکر پوچھا: تمہارا نا م کیا ہے ؟ میں نے کہا: عبداللہ بن عبد الرحمٰن۔ اس نے کہا: اے عبداللہ بن عبد الرحمٰن!میں تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے اپنا اصل نسب بیان کرو۔ میں نے کہا: میں سفیان بن سعید بن مسروق ہوں۔ اس نے کہا: ثَوری؟ میں نے کہا: ہاں، ثَوری۔ اس نے کہا: کیا تم خلیفہ کو مطلوب ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے کچھ دیر اپنا سرجھکائے رکھا پھر کہا: جو چاہوکرو اور جہاں جانا چاہو چلے جاؤ۔ خدا کی قسم! اگرتم میرے پاؤں کے نیچے بھی چھپے ہوگے تو میں پاؤں نہیں اٹھاؤں گا۔ (9308)…حضرت سیِّدُنایحییٰ بن یمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے بیان کیا کہ میں نے کان لگا کر چپکے سے حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو یہ کہتے سنا: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !میرے عیبوں کو ہمیشہ چھپائے رکھ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !میرے عیبوں کو ہمیشہ چھپائے رکھ۔یادِ آخرت کا انوکھا طریقہ:
(9309)…حضرت سیِّدُنا عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ ایک شخص حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا پیچھاکرتارہتا تھا، وہ ہمیشہ دیکھتا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے گریبان سے ایک رقعہ نکال کراُسے دیکھتے ہیں ، پس وہ جاننا چاہتا تھاکہ اس رقعے میں کیاہے ، ایک مرتبہ وہ رُقعہ اس کے ہاتھ لگ گیا، جب دیکھاتواس میں یہ لکھا تھا: ” اے سفیان! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے کو یاد رکھو۔ “ (9310)…حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: میں نے کبھی اپنے نفس کے علاج سے زیادہ دشوار علاج کسی شے کا نہیں کیا، کبھی وہ میرے خلاف ہوتا ہے اورکبھی موافق۔
1 تادمِ تحریر( صَفَرُالْمُظَفَّر ۱۴۳۹ھ)شعبے مزید قائم ہو چکے ہیں: (۷) فیضانِ قُرآن (۸) فیضانِ حَدیث (۹)فیضانِ صحابہ واہْلِ بیت(۱۰) فیضانِ صحابیات وصالحات (۱۱)شعبہ امیراہلسنّت مَدَّظِلُّہٗ (۱۲) فیضانِ مَدَنی مذاکرہ (۱۳) فیضانِ اولیا وعُلَما (۱۴)بیاناتِ دعوتِ اسلامی(۱۵)رسائِلِ دعوتِ اسلامی(۱۶)عربی تراجم۔ ( مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ( 2 بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب، باب قول النبی: لتتبعن سنن من کان قبلکم، ۴ / ۵۱۳، حدیث: ۷۳۲۰
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع