30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
رسولِ پاک ، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عظمت نشان ہے: جس نے دن اوررات میں میری طرف شوق ومحبت کی وجہ سے تین تین مرتبہ درودِ پاک پڑھااللہ عَزَّوَجَلَّ پرحق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور رات کے گُناہ بخش دے۔ ([2])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
منقول ہے کہ ایک بُزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جو ’’ واسط ‘‘ ([3]) کے مقام پرتھے انہوں نے گندم سے بھری ایک کشتی بصرہ ([4]) شہرکی طرف بھیجی اور اپنے وکیل کو لکھا: جس دن یہ کھانا بصرہ پہنچے اُسی دن اسے بیچ دینا ، اگلے دن تک تاخیر نہ کرنا۔چونکہ وہاں بھاؤ (Rate) بڑھنے کے امکانات تھے تو تاجروں نے وکیل کو مشورہ دیاکہ اگر اسے جمعہ کے دن تک مُؤخَّر کر لو تو دُ گنا نفع ہو گا۔چنانچہ اس نے جمعہ تک وہ گندم فروخت نہ کی جس کی وجہ سے اسے کئی گُنا فائدہ ہوگیا۔جب وکیل نے خوشی خوشی یہ واقعہ مالک کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نےاسے جواب لکھا: اے شخص!ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے نفع پر ہی قناعت کر لیا کرتے ہیں مگرتم نے اس کے برخِلاف کِیا۔ ہمیں یہ پسند نہیں کہ اس میں کئی گُنا (دُنیوی) نفع ہو اور اس کے بدلے ہمیں دینی و اُخروی نُقصان پہنچے۔لہٰذا جیسے ہی تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً وہ تمام مال بصرہ کے فقرا پر صدقہ کر دینا۔ شاید ایسا کرنے سے میں ذخیرہ اندوزی کے گُناہ سے برابر برابر نَجات پا سکوں یعنی نہ تو میرا (اُخروی) نقصان ہو اور نہ ہی (دُنیوی) فائدہ۔ ([5])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ بالا حکایت پاکیزہ تجارت اور اسلامی مَعاشی اَقْدار کی جو خوبصورت تصویرپیش کر رہی ہےاس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے اسلاف کا اندازِ تجارت اور طرزِ معیشت کس قدر اعلیٰ تھا۔اسلامی تاریخ کے صفحات ایسے باکردار لوگوں کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو نہ صرف اپنے ذاتی مُعاملات بلکہ تجارتی مصروفیات میں بھی صدق و امانت ، عدل و انصاف تقویٰ و احسان ، ایثار و بھلائی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کو اپناتے ہوئے اسلام کے مَعاشی اصولوں پر کاربند رہے شاید اسی وجہ سے ان کے دور کی مَعاشی خوشحالی اپنی مثال آپ تھی ، مگر افسوس!جیسے جیسے ان خوبیوں کی جگہ ظلم و جبر ، فسق و فجور ، ناانصافی ، دروغ گوئی (جھوٹ) ، فریب دہی (دھوکا) ، مَفادپرستی ، سُود خوری اور بدخواہی جیسی بُرائیاں مُسلمانوں کے کردار میں پیدا ہوتی گئیں ان کی مَعِیْشت دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی اور بالآخر تباہی کے اندھے کنویں میں جاپڑی۔اگر آج بھی ہم قرآن و حدیث میں بیان کردہ حُصُولِ رزق کے مدنی پھولوں پر عمل کریں اور کسب وتجارت کے مُعاملے میں اپنے اسلاف کا طرزِعمل اختیار کریں تو اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے مُعاشرے میں ایک شاندار خوشحالی لا سکتے ہیں اور مَعِیْشت کو ایک بار پھر عروج و اِسْتِحکام نصیب ہوسکتا ہے۔
صَدْرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی مقصدِ کسب و تجارت اور آغازِ مَعِیْشت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ انسانی ضروریات اتنی زائد اور اُن کی تَحْصِیل (حاصل کرنے) میں اتنی دُشواریاں ہیں کہ ہر شخص اگر اپنی تمام ضروریات کا تنہا متکفل (ذِمّے دار ) ہونا چاہے غالباً عاجز ہو کر بیٹھ رہے گااور اپنی زندگی کے ایّام خوبی کے ساتھ گُزار نہ سکے گا ، لہٰذا اُس حکیمِ مُطْلق (عَزَّوَجَلَّ) نے انسانی جماعت کو مختلف شعبوں اور مُتَعدّد قسموں پرمنقسم (تقسیم) فرمایا کہ ہر ایک جماعت ایک ایک کام انجام دے اور سب کے مَجْمُوعہ سے ضروریات پوری ہوں۔مثلاً کوئی کھیتی کرتا ہے کوئی کپڑا بُنْتا ہے ، کوئی دوسری دستکاری کرتا ہے ، جس طرح کھیتی کرنے والوں کو کپڑے کی ضرورت ہے ، کپڑا بُننے والوں کو غلّہ کی حاجت ہے ، نہ یہ اُس سے مستغنی (بے پروا) نہ وہ اس سے بے نیاز ، بلکہ ہر ایک کو دوسرے کی طرف احتیاج (ضرورت) ، لہٰذا یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ اِس کی چیز اُس کے پاس جائے اور اُس کی اِس کے پاس آئے تاکہ سب کی حاجتیں پوری ہوں اور کاموں میں دُشواریاں نہ ہوں۔یہاں سے مُعاملات کا سلسلہ شروع ہوا ، بیع (خرید و فروخت) وغیرہ ہر قسم کے مُعاملات وجود میں آئے۔
اسلام چونکہ مکمل دین ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر اس کا حکم نافذ ہے ، جہاں عبادات کے طریقے بتاتا ہے مُعاملات کے مُتَعَلِّق بھی پوری روشنی ڈالتا ہے تاکہ زندگی کا کوئی شعبہ تشنہ (ادھورا) باقی نہ رہے اور مُسلمان کسی عمل میں اسلام کےسوا دوسرے کا محتاج نہ رہے۔ جس طرح عبادات میں بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز اسی طرح تَحْصِیلِ مال کی بھی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز اور حلال روزی کی تَحْصِیل اس پر موقوف کہ جائز و ناجائز کو پہچانے اور جائز طریقے پر عمل کرے ناجائز سے دوربھاگے۔ ([6]) چنانچہاللہ عَزَّوَجَلَّ کا ارشاد پاک ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- (پ۵ ، النساء: ۲۹)
ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤمگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔
[1] مبلغِ دعوتِ اسلامی و نگرانِ مرکزی مجلسِ شورٰی حضرت مولانا حاجی ابو حامد محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی نے ۱۳ جمادی الثانی۱۴۳۰ ہجری بمطابق 7 جون 2009 عیسوی بروزاتوار عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں’’معاشی بحران اور اس کا حل‘‘کے نام سے بیان فرمایا۔مگر بعد میں انہی کی تجویز پرضروری ترمیم واضافےکےبعد”اسلاف کا اندازِ تجارت“کے نام سے 9 رمضانُ المبارک ۱۴۳۵ ہجری بمطابق8 جولائی2014 عیسوی کو تحریری صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ (شعبہ رسائلِ دعوتِ اسلامی مجلس المدینۃ العلمیۃ)
[2] الترغیب والترھیب،۲ / ۳۲۸،حدیث:۲۳
[3] عراق کے مشرقی حصے میں واقع ایک شہر۔
[4] عراق کے جنوبی حصے میں واقع ایک شہر۔
[5] احیاء العلوم ،کتاب آداب الکسب والمعاش ، باب فی بیان العدل الخ ، ۲ / ۹۳ملخصًا
[6] بہار شریعت،۲ / ۶۰۸
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع