30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْن اَمَّابَعْدُفَاَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط’’صحبت اولیا کی برکات‘‘کے16 حُروف کی نسبت سےکتاب پڑھنے کی’’16 نیّتیں‘‘
فَرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : نِیَّةُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔(1) دومَدَنی پھول: (1)بِغیراچّھی نیّت کےکسی بھی عَملِ خیرکا ثواب نہیں ملتا۔ (2)جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ،اُتناثواب بھی زِیادہ۔ (1)ہربارحمدوصلوٰۃ اورتَعَوُّذوتَسْمِیّہ سےآغازکروں گا۔(اسی صَفْحَہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے اس پر عمل ہو جائے گا)۔( 2)رِضائے الٰہی کے لئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ (3)حتَّی الْوَسْع اِس کا باوُضُو اورقبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا۔ (4)قرآنی آیات اوراَحادیث ِ مبارَکہ کی زِیارت کروں گا۔(5)جہاں جہاں’’ اللّٰہ ‘‘کانام پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ (6)جہاں جہاں’’سرکار‘‘ کا اِسْمِ مبارَک آئےگاوہاں صَلَّی اللّٰہُ عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم ،(7)جہاں جہاں کسی’’صحابی‘‘ کا نام آئے گا وہاں رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور (8)جہاں جہاں کسی’’بزرگ‘‘ کا نام آئے گا وہاں رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـیْہ پڑھوں گا۔ (9)رضائے الٰہی کے لئے علم حاصل کروں گا۔ (10)اس کتاب کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلےفاتحہ پڑھ کراس کےمُؤَلِّف کوایصالِ ثواب کروں گا۔ (11)(اپنے ذاتی نسخے پر) عِندَالضرورت خاص خاص مقامات انڈر لائن کروں گا۔(12)(اپنے ذاتی نسخے کے)’’یادداشت‘‘والے صَفْحَہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا۔ (13)اولیا کی صفات کو اپناؤں گا۔(14)دوسروں کویہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔(15)اس حدیثِ پاک’’تَھَادَوْا تَحَابُّوْا‘‘ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔(موطاامام مالک، ۲/ ۴۰۷، حديث:۱۷۳۱) پر عمل کی نیت سے(ایک یا حسب ِ توفیق)یہ کتاب خریدکر دوسروں کوتحفۃًدےکراوراس کتاب کامطالَعہ کر کےاس کا ثواب ساری اُمّت کو ایصال کروں گا۔ (16)کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا(ناشِرین وغیرہ کو کتابوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا)۔اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ
از:شیْخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانِیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطّارقادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تَبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیرغیرسیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعَتِ علْمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کاعزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسن خوبی سر انجام دینے کےلئے مُتَعَدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ‘‘بھی ہےجودعوتِ اسلامی کےعُلماومفتیانِ کرام کَـثَّـرَھُمُ اللہُ پرمشتمل ہے،جس نےخالص علمی،تحقیقی اوراشاعتی کام کابیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں: (1)شعبہ کُتُبِ اعلیٰ حضرت (2)شعبہ تراجِمِ کُتُب (3)شعبہ درسی کُتُب (4)شعبہ اِصلاحی کُتُب (5)شعبہ تفتیش کُتُب (6)شعبہ تخریج (2) ’’ اَلْمَدِ یْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِاعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،عظیْمُ البَرَکت،عظیْمُ المرتبت،پروانَۂ شمْعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامِیِ سُنّت ، ماحِیِ بِدعت، عالِم شَرِیْعَت، پیر ِ طریقت،باعِثِ خَیْر و بَرَکت، حضرت علاّمہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرحاضرکے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ، تحقیقی اور اشاعتی مَدَنی کام میں ہرممکن تعاوُن فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں۔ اللّٰہ پاک’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ ‘‘کودن گیارہویں اوررات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اورہمارےہرعمَلِ خیرکوزیورِاِخلاص سےآراستہ فرماکردونوں جہاں کی بھلائی کاسبب بنائے۔ہمیں زیرِگنبد ِخضرا شہادت، جنَّتُ البقیع میں مدفن اور جنَّتُ الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھـپہلے اِسے پڑھ لیجئے!
محبَّتِ اِلٰہی،عِشْقِ رسول،کامل اِیمان،عمَلِ صالح،خوفِ خُدا،پاکیزہ ظاہروباطن ،سخاوت وحُسنِ سُلُوک اورصَبْروشُکْر وغیرہ اَوصاف کسی میں جمع ہوجائیں تو وہ اللّٰہ پاک کے نیک بندے کہلاتے اوردنیا وآخرت میں اِنعام واِکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں ،اُن کا خوف وغم دُور ہوجاتا اوراُن کے دل وروح سکون وچین میں رہتے ہیں اور ایسی برکت وکامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں کہ اُن کی صحبت پانے اور پیروی کرنے والا بھی سعادت وبرکت سے محروم نہیں رہتا،یہی وہ نُفُوسِ قُدسیہ ہیں جنہیں ہم صحابَۂ کرام،اہْلِ بیْتِ اَطہار،تابعین عظام، اَوْلِیَاءُ اللہ ،بُزرگانِ دین رَضِیَ اللہُ عَنْہُم اورپیشوایانِ اُمَّت وغیرہ مبارک ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ کتاب”حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء“ایسی ہی 719مُقَدَّس ہستیوں کے ذکر خیر سے مالا مال ہے، 145 صحابَۂ کرام،29صحابیات،198تابعین اور347دیگر بزرگوں کا تذکرہ کتاب میں شامل ہے ۔ مسلمانوں کو ان بزرگوں کی سیرت وکردار اور حالاتِ زندگی سے روشناس کرانے کے لیے دنیائے اسلام کی عظیم تحریک ”دعوتِ اسلامی“ کے علمی وتحقیقی شعبے ”اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ(Islamic Research Center)“ کی مجلس نے آج سے تقریبًا11سال پہلے اس کتاب کے ترجمے کا فیصلہ کیا اور شعبہ تراجم کتب(عربی سے اُردو) کو 10جلدوں پر مشتمل اس عظیم کتاب کا ترجمہ کرنے کا ہدف دیا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ !ذُوالْقَعْدَۃِ الْحَرَام ۱۴۳۱ھ مطابق اکتوبر2010ء کو اس کتاب کی پہلی جلد کا ترجمہ ” اللّٰہ والوں کی باتیں“ کے نام سے چھپا،ترجمے کایہ سلسلہ جاری رہا حتّٰی کہ ذُوالْقَعْدَۃِ الْحَرَام۱۴۴۲ھ مطابق جون2021ءکو دسویں اور آخری جلد کا ترجمہ بھی چھپ کر آپ کے ہاتھوں میں ہے، اللّٰہ پاک کے فضل و کرم ، حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نَظرِعِنایت اورشیْخِ طریقت امیْرِاَہلسنت مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی کی خصوصی دعاؤں سے5916 صفحات پر مشتمل 10جلدوں کے ترجمے کا ہدف پایہ تکمیل کو پہنچا ۔یاد رہے کہ پورے عرصے میں شعبہ تراجم کتب نے 12358 صفحات پر مشتمل دیگر13 کتابوں کا ترجمہ کرنے کی بھی سعادت حاصل کی جن میں اِحیاءُ العلوم(5 جلدیں)،قوتُ القلوب(3جلدیں)، اَلْحَدِیْقَۃُ النَّدِیَّہ،اَلْمُسْتَطْرَف، اَلْبُدُوْرُ السَّافِرَہ اورشَرْح ُالصُّدُوْر وغیرہ کُتُب شامل ہیں۔ ترجمہ اور اس کے مختلف مراحل کے اس سفر میں شعبہ تراجم سے وابستہ تمام ہی اسلامی بھائی شریک رہے بالخصوص 12 اسلامی بھائیوں نے بھرپور کوشش فرمائی: (1)مولانا ابوواصف محمد آصف اقبال مَدَنی عطّاری(2) مولانا ابومحمد عمران اِلٰہی مَدَنی عطّاری(3) مولانا محمد آفتاب عطّاری(4)مولانا محمد گل فراز مَدَنی عطّاری(5)مولانا محمد اَمجد خان تنولی مَدَنی عطّاری(6)مولانا محمد خُرم ناصِر مَدَنی عطّاری(7)مولانا محمد کاشف اِقبال مَدَنی عطّاری (8)مولانا محمد ندیم بٹ مَدَنی عطّاری(9)مولانا ابو وَثِیْق محمد عتیق مَدَنی عطّاری(10)مولانا ابُوالقیس محمد اویس مَدَنی عطاری (11)مولانا ابوباقر محمد عامِر مَدَنی عطّاری(12) مولانا محمد شہباز ضیاء مَدَنی عطّاری کَثَّـرَہُمُ اللہ۔ کتاب کو تخریج یعنی اَصل حوالہ جات کی مکمل نشاندہی کے ساتھ پیش کرنا دعوتِ اسلامی کے علمی وتحقیقی شعبے ”اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ(Islamic Research Center)“ کااِنفرادی وَصْف اور اِمتیازی خوبی ہے،حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء کی10جلدوں میں بھی اس کا اہتمام کیا گیا ہے،تخریج کے کام میں چار اسلامی بھائی پیش پیش رہے: (1)مولانا فاروق احمد مَدَنی عطّاری(2)مولانا محمد شہزاد مَدَنی عطّاری(3)مولانا محمد گل فراز مَدَنی عطّاری(4)مولانا محمد کاشف اِقبال مَدَنی عطّاری کَثَّـرَہُمُ اللہ ۔ کتابوں کو شرعی،اَخلاقی،تنظیمی اور دیگر مطالِب ومفاہیم کے اعتبار سے چیک کرنے کے لیے شرعی تفتیش کا جاندار اور شاندار نظام قائم ہے۔ہرکتاب اور رسالہ دارُ الافتا اہلسنت(دعوتِ اسلامی) کے کسی مفتی صاحب کی نَظرِثانی وتفتیش کے بعدہی شائع کیا جاتا ہے۔ حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاءکی(10جلدوں) کی شرعی تفتیش کا فریضہ دارُ الافتا کےپانچ اِسلامی بھائیوں نے سر انجام دیا:(1)مولانا مفتی محمد حسّان مَدَنی عطّاری(2)مولانا مفتی محمد شفیق مَدَنی عطّاری (3)مولانا مفتی محمد کفیل مَدَنی عطّاری(4)مولانا مفتی عبدالماجد مَدَنی عطّاری(5) مولانا محمد طاہر ثنا عطاری کَثَّـرَہُمُ اللہ ۔ پیش نظر” حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء “ کی دسویں جلد میں234 بزرگوں بالخصوص حضرت سیِّدُنا ابویزید بسطامی، حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذ، حضرت سیِّدُنا حارِث محاسبی، حضرت سیِّدُنا سہل بن عبدُاللہ تُسْتَرِی، حضرت سیِّدُنا ابوتُراب نخشبی، حضرت سیِّدُنا حکیم ترمذی، حضرت سیِّدُنا احمد نوری، حضرت سیِّدُنا ممشاد دینوری اورحضرت سیِّدُنا ابوبکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم کا تذکرہ ہے۔اس جلدکے ترجمے وغیرہ میں چار اِسلامی بھائیوں نے خصوصی کوشش فرمائی: (1)مولانا ابوواصِف محمد آصِف اِقبال مَدَنی عطّاری،(2) مولانا ابومحمدعمران اِلٰہی مَدَنی عطّاری، (3)مولانا محمد امجد خان تنولی مَدَنی عطّاری اور(4)مولانا محمد گل فراز مَدَنی عطّاری کَثَّـرَہُمُ اللہ۔کتاب کی شرعی تفتیش دارُ الافتا اہلسنت کے مفتی عبدالماجد مَدَنی عطّاری دَامَ ظِلُّہٗ نے فرمائی ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں دُعاہےکہ اپنی دنیاوآخرت سنوارنےکےلئےہمیں اِس کتاب کوپڑھنے،اِس پرعَمَل کرنے اوردُوسرےاِسلامی بھائیوں بِالخصوص مُفْتِیانِ عِظام اورعُلَمائےکِرام کی خِدمتوں میں تحفۃً پیش کرنےکی توفیق عطافرمائے، نیزہمیں اپنی اورساری دنیاکےلوگوں کی اِصلاح کی کوشش کےلئے نیک اعمال (نامی رسالے)کے مطابق زندگی گزارنے اور عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت قرآن و سُنَّت کی تبلیغ کے لئے راہِ خدا میں سَفَر کر نے والے مَدَنی قافِلوں میں سَفَرکی سعادت عطافرمائےاوردَعوتِ اِسلامی کی تمام مجالِس بشمول مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ کو دن پچسویں اوررات چھبیسویں ترقّی عطافرمائے! اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شُعبہ تَراجِم کُتُب:مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ(Islamic Research Center)اللہ،رسول اوراہلبیت کی محبت میں ترتیب
حضرت سیِّدُناعبْدُاللہبن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سےمروی ہےکہ اللّٰہ پا ک کے پیارےحبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:اَحِبُّوااللہَ لِمَایَغْذُوْکُمْ بِہٖ مِنْ نِعَمِہٖ وَاَحِبُّوْنِیْ لِحُبِّ اللہِ وَاَحِبُّوْااَہْلَ بَیْتِیْ لِحُبِّیْ یعنی اللّٰہ پاک سےمحبت کروکیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلاتاہےاورمحبَّتِ الٰہی کےلئے مجھ سےمحبت کرو اورمیری محبت کےلئےمیرےاہْلِ بیت سےمحبت کرو۔ (ترمذی،۵/ ۴۳۴،حدیث:۳۸۱۴۔مستدرک حاکم،۴/ ۱۳۱،حدیث:۴۷۷۰) شرح حدیث:میری محبت حاصل کرنے کے لئے میرے گھر والوں اولادِ پاک ازواج مطہرات سے محبت کرو کیونکہ وہ میرے محبوب ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان محبتوں میں ترتیب یہ ہے کہ اہْلِ بیت کی محبت زینہ ہے حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )کی محبت کا اور حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )کی محبت ذریعہ ہے رب تعالیٰ کی محبت کا۔(ازمرقات)مطلب یہ ہے کہ محبَّتِ اہْلِ بیت اس لئے چاہئے کہ وہ محبَّتِ رسول کا ذریعہ ہے اس لئے نہیں کہ وہ بغض صحابہ کا ذریعہ بنے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/493)حضرت سیّدُنا اَحمد بن اَبُو حَوَاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ
زُہد و عبادت میں مشہور بُزرگوں میں سے کنیزوں سے بے رغبت، لونڈی غلاموں سے بے نیاز، جنگلوں اور بیابانوں میں عبادت کرنے والے ایک بُزرگ حضرت سَیِّدُنا ابو الحسن احمد بن ابو حَواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں۔ آپ بے کار دُنیا سے کنارہ کَش تھے، گوشَۂ عافیت کو بُھلائے بیٹھے تھے، بہت بلند مقام پر فائز تھے اور ٹھیک راستوں پر کاربند رہتے تھے۔دنیا کی کون سی شے مذموم ہے؟
(14274)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابوصَفوان رُعَیْنِیْرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا: دنیا کی وہ کون سی شے ہے جس کی مَذمَّت اللّٰہ پاک نے قرآنِ پاک میں بیان کی اور عقل مند شخص کو اس سے اِجتناب کرنا چاہیے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: جب تم دنیا کو دُنیا ہی کے لئے حاصل کرو تو یہ قابلِ مذمّت ہے اور جب تم دُنیا کو آخرت کی نیّت سے حاصل کرو تب یہ قابلِ مذمّت نہیں ہے۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے یہ بات حضرت سیِّدُنا مَروان بن محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بتائی تو انہوں نے کہا: حضرت سیِّدُنا ابو صَفوان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سمجھ داری کی بات فرمائی۔راہِب سےگفتگو:
(14275)…حضرت سیِّدُنااحمدبن ابوحَواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حَرملہ کے کنیسہ کا ایک راہب اپنےعبادت خانے سے مجھے دیکھ رہا تھا، میں نےکہا: اے راہب! تمہارا نام کیاہے؟ اس نے جواب دیا: جُرَیج۔ میں نے کہا: تم نے خود کو اس عبادت خانے میں قید کیوں کر رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا: خود کو دنیا کی خواہشات سے روکنے کے لیے۔ میں نے کہا:کیا یہ دُرُست نہیں تھا کہ تم ہمارے ساتھ زمین میں چلتے پھرتے اور خود کو خواہشات سے روکتے۔ اس نے کہا: ہائے افسوس! یہ تمہارا ہی وَصْف ہے کہ تم قوی ہو جبکہ مجھ میں کمزوری ہے لہٰذا میں نے اپنے اور خواہشات کے درمیان رکاوٹ ڈال دی ہے۔ میں نے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے کہ آدمی کا جسم زمین سے پیدا کیا گیا جبکہ اس کی روح کی پیدائش کا تعلق آسمانی سلطنت (یعنی نور)سے ہے، جب آدمی اپنے بدن کو بھوکا ننگا رکھتا اور راتوں کو جگاتا ہے تو روح جس جہان سے آئی ہے اس کی طرف کھنچنے لگتی ہے اور اگر آدمی اپنے بدن کو کِھلائے، پِلائے، سُلائے اور آرام دے تو بدن اسی جہانِ فانی سے چمٹا رہتا ہے جس سے یہ خود بنایا گیا ہے پھر اسے دنیا سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی۔ میں نے راہب سے پوچھا: جب بندہ اس طرح کرلیتا ہے تو کیا اسے دنیا میں پیشگی اِنعام ملتا ہے؟ راہب نے جواب دیا:جی ہاں! اسے ایسا نور ملتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔ حضرت سیِّدُنا احمدبن ابو حَواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے یہ بات حضرت سیِّدُنا ابو سُلَیْمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کوبتائی تو انہوں نے فرمایا:خدا غارت کرے!کتنی حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ (14276)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب کو فرماتے سنا: اے میرے بیٹے!جس کی نیّت عافیت والی ہو اللّٰہ پاک اُس کی جھولی عافیت کے خزانوں سے بھردیتا ہے۔مُرسلین والا درجہ:
(14277)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:خواہشات سے بچنے والاراضی رہنے والا ہے اور اللّٰہ پاک سے راضی رہنا اور مخلوق پر شفقت کرنا مُرسلین کا دَرَجہ ہے۔یہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت:
(14278)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت سیِّدُنا ابوسلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے اپنے دل کی سختی کی یا کسی شے کی شکایت کی کہ اپنا وظیفہ یا دیگر اَعمال کئے بغیر ہی سو جاتا ہوں تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:یہ تمہارے اپنے اعمال کا بدلہ ہے، اللّٰہ پاک تو بندوں پر ظلم نہیں کرتا، یہ اُسی دُنیاوی خواہش کا انجام ہے جسے تم نے کبھی پورا کیا ہے۔ حضرت سیِّدُنا ابوسلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مجھ سے پوچھا: صَبْر سے اوپر بھی کوئی مرتبہ ہے؟ میں نے کہا:جی ہاں۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں: میری بات سُن کر حضرت جھومنے لگے، پھر فرمایا: جب صبر والوں کو ان کا ثواب بے گنتی کے بھرپور دیا جائے گا تو ان کے علاوہ (اونچے درجے والے) لوگوں پر انعامات کی کیسی بارش ہوگی۔نور یقین اور زُہد سے محرومی:
(14279)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جو دنیا کو چاہت اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے گا اللّٰہ پاک اس کے دل سے یقين کا نور اور زُہد نکال دے گا۔ (14280)…حضرت سیِّدُنا اِبراہیم بن یُوسُف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابوحواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتابیں چھوڑ دیں تو فرمایا:تم کتنی اچھی دلیل ہو لیکن وصول (یعنی مدلول تک پہنچ جانے) کے بعد دلیل میں مشغول ہونا ٹھیک نہیں۔کتابیں دریا میں ڈال دیں:
(14281)…حضرت سیِّدُنا یُوسُف بن حُسَیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابوحواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تین سال تک علم حاصل کیا، جب انتہا کو پہنچے تو اپنی کتابیں لے کردریا پر گئے اور انہیں غَرْق کردیا اور فرمایا: اے عِلْم! میں تیرے ساتھ ایسا تجھے حقیر سمجھتے ہوئے یا تیرے حق کو ہلکا جانتے ہوئے نہیں کر رہا بلکہ میں نے تجھے اس لیے حاصل کیا کہ تیرے ذریعے اپنے ربّ کی طرف راہ نمائی حاصل کروں اور جب میں تیرے ذریعے اپنے رب کی معرفت حاصل کرچکا تو اب مجھے تیری حاجت نہیں رہی۔ (14282)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:ذاتِ خُدا ہی اپنے وجود پر دلیل ہے، عِلْم تو بندگی کے طور طریقے سیکھنے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔ (14283)…حضرت سیِّدُنا ابو عَمْرو بِیْکندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ تعلیم سے فراغت کے بعد لوگوں کو عِلمِ دین سکھانے لگے۔ایک دن ان کے دل میں اللّٰہ پاک کی جانب سے ایک خیال آیاتو اپنی کتابیں لے کردریائے فُرات کے کنارےچلے گئے اور وہاں کافی دیر تک بیٹھے روتے رہے پھر بولے: تم میرے رب کی میرے پاس کتنی اچھی دلیل ہو لیکن جب میں مَدلول (یعنی اللّٰہ پاک)کو پانے میں کامیاب ہوگیا ہوں تو پھر دلیل(یعنی کتابوں) میں مشغول ہونا بے کار ہے، پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی ساری کتابیں دریائے فُرات میں ڈال دیں۔ (14284)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا عُتبہ بن ابو سائِب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:تین چیزیں عبادت گُزارکے راستے میں رکاوٹ ہیں: (1)…مرض (2)… حج اور (3)…نکاح، تو جو ان چیزوں کے بعد بھی ثابت قدم رہے وہی درحقیقت ثابت قدم ہے۔محبت الٰہی کی نشانی:
(14285)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا بِشْر بن سَرِیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:’’یہ محبت کی نشانی نہیں کہ تم اس سے محبت کرو جسے تمہارا محبوب ناپسند کرتا ہے۔‘‘ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’محبَّتِ الٰہی کی نشانی یہ ہے کہ آدمی کو اللّٰہ پاک کی فرماں برداری پسند ہو۔محبوبِ الٰہی ہی مُحِبِّ الٰہی بنتاہے:
منقول ہے کہ یادِ الٰہی سے محبت رکھو کہ جب اللّٰہ پاک بندے کو محبوب رکھتا ہے تو بندہ بھی اللّٰہ پاک سے محبت کرنے لگتا ہے، بندہ تبھی اللّٰہ پاک سے محبت کرتا ہے جب پہلے اللّٰہ پاک کی بارگاہ سے محبت عطا ہو اور اللّٰہ پاک بندے سے تب محبّت فرماتا ہے جب اپنی رِضا والے کاموں میں بندے کو محنت وکوشش کرتا دیکھتا ہے۔نفس کو نہ پہچاننے والا دھوکے میں ہے:
حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جو دنیا کو جان جاتا ہے وہ اس سے بے رغبت ہوجاتا ہے اور جو آخرت کو جان لیتا ہے وہ اس میں رغبت کرنے لگتا ہےاور جو اللّٰہ پاک کی پہچان حاصل کرلیتا ہے وہ اللّٰہ پاک کی رِضا کو ترجیح دیتا ہےاور جس نے اپنے نفس کو نہ پہچانا وہ اپنے دین کے معاملے میں دھوکے میں ہے۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:دنیا کے ہاتھ سے جاتے وقت تیرے نفس کا تجھے دنیا چھوڑنے کا کہنا دھوکا ہے اور دنیا کے آتے وقت تیرے نفس کا تجھے دنیا چھوڑنے کا کہنا یہ ہی تَرک دنیا ہے۔ (14286)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابوزکریا یحییٰ بن عَلاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: جب بندہ قرآنِ پاک پڑھے پھر کسی اور کام میں لگ جائے پھر دوبارہ پڑھنے لگے تو اللّٰہ پاک فرماتا ہے: تیرا میرے کلام سے کیا تعلق!؟ (14287)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن زَکَریا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ ہم حضرت سیِّدُنا علی بن بَکَّار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس موجود تھے کہ بادل کا ایک ٹکڑا گزراتو میں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے فرمایا: خاموش رہو، کیا تمہیں خوف نہیں کہ اس بادل میں پتھر ہوسکتے ہیں؟بارگاہِ الٰہی کے مُقَرَّب :
(14288)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سیِّدُنا اسحاق بن خَلَف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام تین لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے جسم کمزور اور چہروں کے رنگ تبدیل ہوچکے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا:تمہیں کیاہوا ہے جو میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہا ہوں؟انہوں نے کہا:جَہَنَّم کے خوف نے یہ حال کردیا ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا: تم ایک مخلوق کا خوف رکھتے ہو اور اللّٰہ پاک کا اپنے ذِمَّۂ کرم پر حق ہے کہ وہ خوف رکھنے والوں کو اَمْن دے۔ پھر آپ دوسرے تین لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے چہروں کے رنگ بہت زیادہ بدل گئے تھے اور ان کے بدن بہت زیادہ کمزور ہوچکے تھے، آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا:تمہیں کیاہوا ہے جو میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: جنت کے شوق میں یہ حال ہوگیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: تم ایک مخلوق کا شوق رکھتے ہو اور اللّٰہ پاک کا اپنے ذِمَّۂ کرم پر حق ہے کہ تمہیں وہ عطا کرے جس کی تم امید رکھتے ہو۔ پھر آپ مزید تین لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے جسم بہت زیادہ کمزور اور چہروں کے رنگ بہت زیادہ تبدیل ہوچکے تھے، گویاکہ ان کے چہرے نور کا آئینہ ہوچکے تھے، آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا:تمہیں کیاہوا ہے جو میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے عرض کی: اللّٰہ پاک کی محبت میں ہمارا یہ حال ہوگیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:تم مقرّبِ بارگاہ ہو! تم مقرّبِ بارگاہ ہو۔ (14289)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت سیِّدُنا ولید بن عُتبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ انہوں نے حضرت سیِّدُنا ابو صَفوان بن عَوانہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا: آدمی اپنے مسلمان بھائی سے کیوں محبّت کرتا ہے؟ فرمایا: کیونکہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو دیکھتا ہے کہ یہ میرے پاک مولیٰ کی بندگی بہت اچھی طرح بجالاتا ہے۔ (14290)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک راہب سے پوچھا: تم اپنی کتابوں میں سب سے قوی بات کون سی پاتے ہو؟ راہب نے کہا: ہم اس سے زیادہ قوی بات کوئی نہیں پاتے کہ تو اپنی ساری طاقت و قوت اللّٰہ پاک کی محبت میں لگا دے۔رِضا کی علامت:
(14291)…حضرت سیِّدُناابو علی حُسَیْن بن عَبْدُ اللہ بن شاکِرسَمَرقَندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناابو حسن احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: اللّٰہ کے ہی ہو جاؤ !عبادت گزار، دُنیا سے بے رغبت، سچے، خدا پر بھروسا کرنے والے، سیدھے راستے پر چلنے والے، معرفَتِ الٰہی والے، یادِ خدا والے، مانوسی دینے والے، حَیا والے، خوف والے، امید والے اور راضی رہنے والے بن جاؤ۔رِضا کی علامت یہ ہے کہ بندہ وہی شے اختیار کرے جسے اس کے لیے اس کے رب نے پسند کیا ہو، جب بندہ ایسا کرلیتا ہے تو اسے اللہ پاک کی مدد حاصل ہوتی ہے حتّٰی کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اللّٰہ پاک کی اطاعت کرنے والا ہوجاتا ہے۔خوف کی علامت:
بندہ توبہ کرنے والا اس وقت کہلاتا ہے جب دل سےشرمندہ ہو اور زبان سے استغفار کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق لوٹائے اور عبادت میں کوشش کرے۔پھر توبہ اور عبادت میں کوشش کے ذریعے بندے کودنیا سے بے رغبتی نصیب ہوتی ہے، پھر زُہد سے صدق پھر صدق سے توکل پھر توکل سے استقامت پھر استقامت سے معرفَتِ الٰہی پھر معرفت الٰہی سے ذکر پھر ذکر سے حلاوت اور لذت، پھر لذت کے بعد اللّٰہ پاک سے اُنسیت حاصل ہوتی ہے، انسیت کے بعد حیا اور حیا کے بعد خوف حاصل ہوتا ہے۔ خوف کی علامت آخرت کی تیاری اور بندے کےدنیاوی اَحوال کی تبدیلی ہے اور اللّٰہ پاک سے ملاقات کے بغیر بندے کے دل سے ان احوال کے جاتے رہنے کا خوف جُدا نہیں ہوتا۔ (14292)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: اگر اللّٰہ پاک نے اپنے فرماں بردار بندوں کو خوبصورت آواز سے نہیں نوازا تو اپنی فرماں برداری میں وہی لذّت ضرور عطا فرمائی جو خوبصورت آواز والوں کو اپنی آواز سے ملتی ہے۔محب کو محبوب سے ملانے والی:
(14293)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عبْدُالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: موت تو بہت اچھی ہے! محبت والا اس کے ذریعے اپنے محبوب تک پہنچ جاتا ہے۔ حضرت سَیِّدُنا دُکَین فَزاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:جب اللّٰہ پاک نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی روح قَبْض فرمانے کا ارادہ کیا تو حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی طرف بھیجا۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: کیا تم نے کوئی ایسا دوست بھی دیکھا ہے جو اپنے دوست کی روح قبض کرے؟حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ پاک کی جانب لوٹ گئے پھر واپس حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آئے اورکہا: اے ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام! کیا آپ نے کوئی ایسا دوست دیکھا ہے جو اپنے دوست سے ملاقات کو ناپسند کرے؟ حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا: تم اسی وقت میری روح قبض کرلو۔دعامیں وسیلہ:
(14294)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواریرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ حَذَّاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:حضرت سیِّدُنا یُوسُف عَلَیْہِ السَّلَام نے اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں یوں دعا کی: الٰہی!میں تیری بارگاہ میں اپنے آباء واجداد کی نکوکاری کا وسیلہ پیش کرتا ہوں،حضرت سَیِّدُنا ابراہیمعَلَیْہِ السَّلَام کا وسیلہ جو تیرے خلیل ہیں،حضرت سَیِّدُنااسحاق عَلَیْہِ السَّلَام کا وسیلہ جو تیرے ذَبِیح (3) ہیں اور حضرت سَیِّدُنا یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کا وسیلہ جو تیرے بندے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے حضرت سَیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی فرمائی:اے یوسف! تم اُن نعمتوں کا وسیلہ پیش کررہے ہو جو میں نے ہی انہیں عطا فرمائی ہیں۔قُربِ الٰہی کا وسیلہ:
حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی:میں آج سے پہلے تک ایک ولی سے بہت محبت کیا کرتا تھا۔ تو انہوں نے مجھ سے فرمایا:آدمی اللّٰہ پاک کے ولیوں سے محبّت کرکے ہی خُدا سے قریب ہوتا ہے لیکن پھر ایک مقام آتا ہے جو دِل کو خُدا کے سوا ہر کسی سے غافل کردیتا ہے۔حکایت: حضرت عیسٰی اور یحییٰ عَلَیْہِمَا السَّلَام
حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: اللّٰہ پاک کے دو نبی حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام کہیں سے گزررہے تھے کہ حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام بےدھیانی میں کسی عورت سے ٹکرا گئے۔ حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: خالہ زاد! آج تم نے جو گناہ کیا ہے میں نہیں سمجھتا اللّٰہ پاک اُسے بخش دے۔ حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: خالہ زاد! وہ کون سا گناہ ہے؟ حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: تم ایک عورت سے ٹکراگئے۔ حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: خُدا کی قسم! مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔ حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: سُبْحٰن اللہ ! تمہارا جسم تو میرے ساتھ ہے لیکن رُوح کہاں ہے؟ حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: عرشِ الٰہی سے اٹکی ہوئی ہے، اگر میرا دِل عرشِ الٰہی کو چھوڑ کر جبریْلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام پر بھی مطمئن ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے لمحہ بھر بھی خدا پاک کی مَعْرِفَت نہیں ملی۔400سال تک عبادت کرنے والا:
(14295)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی حضرت محمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے سنا کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے400سال تک سمندر کے ایک گھنے درختوں والے جزیرےمیں عبادت کی یہاں تک کے اس کے بال بہت لمبے ہوگئے(4)۔ جب وہ درختوں کے پاس سے گزرتا تو اس کے بال درختوں کی شاخوں کے ساتھ الجھ جاتے۔ایک مرتبہ وہ شخص وہاں گھوم رہا تھا کہ اس نے ایک درخت پر پرندے کا گھونسلہ دیکھا تو اس کے قریب عبادت کے لیے جگہ بنا لی۔اس عبادت گُزار کو بارگاہِ الٰہی کی طرف سے فرمایا گیا: تُو نے میرے سوا دِل لگایا؟ میری عزت کی قسم! تجھے جو دَرَجات عطا ہوئے تھے میں ضرور اُن میں سے دو دَرَجے گھٹا دوں گا۔ (14296)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت سیِّدُنا ابو مُغَلِّس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےبتایا کہ حضرت سیِّدُنا اَبُوْعُبَـیْدُاللہ جُہَنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:اہْلِ جنّت پر جو جنّتی نعمتیں ہیں ان نعمتوں سے زیادہ افضل بات یہ ہے کہ اللّٰہ پاک اُن سے راضی ہے۔حمدکرنے والے کون ؟
(14297)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے حدیث کے اس حصے”جنت کی طرف جانے والا سب سے پہلا گروہ ان لوگوں کا ہوگا جو ہر حال میں اللّٰہ پاک کی حمد کرنے والے ہوں گے“(5)کے بارے میں بحث کر رہا تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مجھ سے فرمایا:ارے نادان! اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم مصیبت پر اللّٰہ پاک کی حمد کرو اور تمہارا دل اس مصیبت پر دُکھی ہو۔ ایسا کرو گے تو میرے مطابق تم صبر کرنے والوں میں سے تو ہوگےلیکن (حدیث کے اس حصے سے مراد یہ ہے کہ) تم اللّٰہ پاک کی حمد کرو اور تمہارا دل تسلیم و رِضا کا پیکر ہو۔ (14298)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سَیِّدُنا مَحمود رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: پاک ہے وہ ذات جس کی بڑی سلطنت اسے اپنی چھوٹی سلطنت میں نظر فرمانے سے آڑے نہیں آتی ہے۔ایک پَل متوجہ ہونے پر نظر رحمت:
(14299)…حضرت سَیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سَیِّدُنا عبدالخالق بن جُبَیْر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ حضرت سیِّدُناابُو مُوسٰی طَرطُوسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا: جو بندہ اللّٰہ پاک کی طرف ایک پَل کے لیے متوجہ ہوتا ہے تو اللّٰہ پاک اس کی طرف نَظرِ رحمت فرماتا ہے۔زُہد کی اِنتہا:
(14300)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا مَضَاء بن عیسٰی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا سِباع مَوْصِلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےپوچھا: اللّٰہ والوں کی دُنیا سے بے رغبتی اُنہیں کہاں لے گئی؟ فرمایا: اس مقام پر لے آئی کہ اب ان کے دل یادِ خدا سے ہی بہلتے ہیں۔ (14301)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتےہیں کہ میں نے حضرت سَیِّدُنا مَضَاء بن عیسٰی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:جب اللّٰہ والے اللّٰہ پاک تک پہنچ جاتے ہیں تو واپس نہیں لوٹتے،واپس وہی لوٹتا ہے جو راہ ہی سےپھر جاتا ہے۔ (14302)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا محمد بن ثابِت قاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: جس کا حوصلہ بس فرائض کی ادائیگی پر ہی ختم ہوجائے دُنیا میں اُس کی کوئی لذّت پوری نہیں ہوگی۔ (14303)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت سیِّدُنا ابو مُوَفَّق اَزدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ اللّٰہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اگر آدمی میرے غیر سے امید نہ رکھے تو میں بھی اسے کسی غیر کے سپرد نہیں کرتا اور اگر آدمی میرے غیر کا خوف نہ رکھے تو میں بھی اسے کسی غیر سے خوف زدہ نہیں کرتا۔بیمار دل:
(14304)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبْدُالعزیز بن عُمَیْر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:دلوں میں ایک بیمار دل بھی ہے جہاں اپنا مطلب دیکھتا ہے اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ (14305)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت ہے کہ حضرت سیِّدُنا عُتبہ غُلام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے 20 سال تک نماز کے معاملے میں مَشَقَّت اٹھائی اور اس کے سبب20 سال تک لذت اٹھاتا رہا ۔گفتگو کی مثال گارے کی سی ہے:
(14306)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا محمد بن تَمَّام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: گفتگو اللّٰہ پاک کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، گفتگو کی مثال گارے کی سی ہے جو دیوار پر مارا جائے، وہ دیوار پر چپک جائے تو فائدہ دے اور نیچے گرجائے تو بھی نشان چھوڑ جائے۔دل کُپی کی طرح ہے:
حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابو جعفر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:دل قِیف (کُپّی)کی طرح ہے جس میں زیتون یا شہدڈالا جائے تو دوسری طرف سے نکل جاتا ہے مگر قیف پر اس کا اثر ضرور رہ جاتا ہے۔ (14307)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سَیِّدُنا مَضاء بن عیسٰی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بیان کرتے سنا: اللّٰہ پاک کا خوف رکھو وہ تمہارے دل میں اچھی باتیں ڈالے گا، خدا کے لئے عمل کرو وہ تمہیں کسی اور دلیل کا محتاج نہیں رکھے گا۔حکایت: ایک نیک عورت کا انتقال
(14308)…حضرت سَیِّدُناعُمَر بن بحر اَسَدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:میں ایک مرتبہ مُلکِ شام کے قبرستان کے گنبد نُما مکان میں تھا جس کا کوئی دروازہ نہیں تھاسوائے ایک چادر کے جسے میں نے وہاں لٹکایا ہوا تھا۔ میں وہاں تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے دیوار پر ہاتھ مارا۔میں نے پوچھا کون ہے؟ اس نے کہا: میں ایک بھٹکی ہوئی عورت ہوں، میری راستے کی طرف راہ نمائی کرو، اللہپاک آپ پر رحم فرمائے!۔ میں نے کہا: اللّٰہ پاک تم پر رحم فرمائے! کس راستےکے بارے میں پوچھ رہی ہو؟ وہ عورت رونے لگی پھر بولی: اے احمد! میں نجات کے راستے کا پوچھ رہی ہوں۔ میں نے کہا:ہائے افسوس! ہمارے اور نجات کے راستے کے درمیان دُشوار گُزار گھاٹیاں ہیں اور وہ گھاٹیاں تیز چلنے، مُعامَلات کو دُرُست کرنے اور ان معاملات کو ختم کرنے سے طے ہوں گی جو دین و دنیا کے معاملے سے غافل کرنے والے ہیں۔ وہ عورت بہت زیادہ روئی پھر بولی: اے احمد! پاک ہے وہ ذات جس نے تجھے سلامت رکھا،ٹوٹ کر بکھرنے نہ دیا اور تیرے دل کی حفاظت کر کے اسے پھٹنے سے بچایا۔ پھر وہ عورت بے ہوش ہوکر گر گئی۔ میں نےکسی عورت سے کہا: دیکھواسے کیا ہوگیا ہے؟ عورتیں اسے دیکھنے لگیں تو اس کے کپڑوں سے اس کی وصیت ملی(جس کا مضمون یہ تھا):مجھے میرے ان ہی کپڑوں میں کفن دینا اگر اللّٰہ پاک کے ہاں میرے لیے کچھ بھلائی ہے تو وہ اسے ہی میرے لیے سعادت والا کردے گا اور اگر کوئی اور مُعاملہ ہوا تو میری ہلاکت ہے۔ میں نے پوچھا: اسے کیا ہوا ہے؟ عورتوں نے اسے حرکت دی تو وہ انتقال کرچکی تھی۔ میں نے خدمت گزاروں سے پوچھا: یہ کس کی لڑکی ہے؟ انھوں نے بتایا: قریشی عورت ہے اسے کوئی تکلیف تھی جو اسے کھانا بھی نہیں کھانے دیتی تھی۔ یہ کہتی تھی کہ مجھے اپنے اندر ایک تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ ہم اسے شام اور عراق کے طبیبوں کو دکھاتے تھےلیکن یہ کہتی تھی: مجھے گوشہ نشین مُعالِج احمد بن ابوحواری کے پاس جانے دو! میں اسے اپنی بیماری بتاؤں گی! شاید اس کے ہاتھوں مجھے آرام آجائے۔ (14309)…حضرت سیِّدُنا اَحمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سَیِّدُنا جعفر بن محمد بن احمد مَیْمونی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ میں حضرت سیِّدُنا احمد موصِلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آیا اور کہا:میں آپ کو ایک عمدہ بات کا تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: ضرور سُناؤ! یا تو بارگاہِ الٰہی سے مزید توفیق عطا ہوگی اور میں عمل کی کوشش کروں گا یا پھر ایک سسکی بھروں گا اور مرجاؤں گا۔ میں نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ حضرت سیِّدُنا ابو عالِیَہ رِیاحی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں وہ بات پڑھ لی ہے جس نے میری نیند اُڑادی ہے اور سب خواہشیں چُھڑادی ہیں، لکھا ہوا تھا: ”امتِ محمّدی کے اللّٰہ والو! اُس گھر کے لئے تیّاری کرو۔۔۔!“حضرت سیِّدُنا جعفر مَیْمونی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان ہے کہ جب میں نے کہا: ”اس گھر کے لئے تیاری کرو۔۔۔!“تو حضرت سیِّدُنا احمد مَوْصِلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا رنگ زَرد پڑگیا، پھر سُرخ ہونے لگا اور آخر سِیاہ پڑگیا اور حضرت بے ہوش ہوگئے۔ میں نے یہ بات سُنائی تھی: ”اُس گھر کے لئے تیّاری کرو جس کی زمین سبز زَبَرجَد ہے، جس پر جنت کی نہریں بہتی ہیں، وہاں موتی، یاقوت اور گَوْہَر ہیں، اس گھر کی چار دیواری زَرد زَبَرجَد کی ہے، جنّتی درختوں کی شاخیں اپنے پھلوں سمیت اس پر جھکی ہوئی ہیں۔“ میں یہاں تک پہنچا تو حضرت سیِّدُنا احمد مَوْصِلِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بے ہوش ہوچکے تھے، چنانچہ میں نے انہیں وہیں چھوڑا اور واپس چلا آیا۔ (14310)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا وکیع بن جَرَّاح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو سنا:وہ حدیث بیان کرنے سے پہلے یوں فرماتے تھے: بس یہ اللّٰہ پاک کا دَرْگُزر ہے، اس نے پردہ رکھا ہوا ہے اس کی پردہ پوشی میں ہی ہم جی رہے ہیں! اگر پردہ اٹھ جائے تو بہت بڑے معاملے سے پردہ اٹھ جائے گا۔معرفت الٰہی:
(14311)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سیِّدُنا احمد بن داود رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا:بنی اسرائیل ایک جگہ جمع ہوئے اور ہر 10 میں سے انہوں نے ایک آدمی نکالا، پھر ہر 100 میں سے ایک بندہ الگ کیا، پھر ہر ہزار میں سے ایک بندہ الگ کیا حتّٰی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے سات معززین کو الگ کرلیا۔ وہ سات مُعَززِین بولے: ہمیں کسی کمرے میں بند کردو اور اس پر اچھی طرح مٹی سے لپائی کردو، ہمیں اس وقت تک نہ نکالناجب تک ہم اپنے رب کی مَعْرِفَت حاصل نہ کرلیں۔ بنی اسرائیل والوں نے ایسا ہی کیا۔پہلے دن ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا، دوسرے دن ایک اور کا انتقال ہوگیا، پھر تیسر ے دن ایک اور کا انتقال ہوگیا تو ان میں سے ایک نوجوان جو سب سے چھوٹا تھا اس نے کہا: ہمیں باہر نکال لو مجھے معرفت حاصل ہوگئی ہے۔ انہوں نے کمرے کو کھولا اور انہیں باہر نکال لیا۔ اس نوجوان نے لوگوں سے کہا: میں نے جان لیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: تو نے کیا بات جان لی ہے؟ اس نے کہا: میں نے یہ جان لیا ہے کہ اللّٰہ پاک کی معرفت حاصل نہیں کی جاسکتی، اب تم لوگ چاہو تو ہمیں اندر ہی رکھو یہاں تک کہ ہم سب مر جائیں اور چاہو تو ہمیں باہر رکھو۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بتائی تو انہوں نے فرمایا: اس نوجوان نے سچ کہا،حقیقی معنوں میں اللّٰہ پاک کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی، ہاں! یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کسی سے زیادہ معرفَتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے، اس کی مثال آسمان ہے کہ مخلوق میں اس کی سب سے زیادہ پہچان انہیں کو حاصل ہے جو اس کے زیادہ قریب ہیں۔ (14312)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی سند سے حضرت سیِّدُنا عبْدُالرحمٰن بن زِیاد بن اَنعم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا موسٰیعَلَیْہِ السَّلَام سے کہا گیا: اے موسٰی! احمدِ مصطفےٰ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )کو عطا ہونے والی کتاب ایسی ہے جیسے دودھ کا برتن ہو، تم دودھ کو جتنا بِلوؤ گے (یعنی مکھن نکالنے کے لئے ہلاؤ گے) اتنا ہی زیادہ مکھن نکال لو گے۔ (14313)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابوحواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابوعُمَر مُؤذِّن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے تورات کے چوتھے جُز میں پڑھا کہ اللّٰہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اللّٰہ ہوں اور میرے سوا کوئی معبود نہیں،میری نگاہ ہر شے پر ہے، میں چیونٹی کو چکنے پتھرپر بھی دیکھتا ہوں، ہوا میں اُڑنے والے پرندے کو بھی دیکھتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو کچھ دل اور گردوں میں ہےاور میں بندے کو اس کی نیت کے مطابق عطا کرتا ہوں۔سیِّدُنا موسٰی و عیسٰی عَلَیْہِمَا السَّلَام سے کلامِ الٰہی:
(14314)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت سیِّدُنا ہِشام بن عَمْرو رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا کہ اللّٰہ پاک نے حضرت سیِّدُنا موسٰی اور حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِمَا السَّلَام کی طرف وَحْی فرمائی: اے موسٰی اور عیسٰی!کیا تم گھٹیا دنیا اور کمترین خواہش کے باعث آخرت کی جُسْتْجُو میں کوتاہی برتو گے؟ اے موسیٰ اور اے عیسیٰ! میں کب تک قرض کی مدّت بڑھاتا رہوں اور عمدگی سے طلب فرماتا رہوں؟! حضرت سیِّدُنااحمد بن ابوحواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے یہ بات حضرت سیِّدُناابوسلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بتائی تو انہوں نے مجھ سےفرمایا:جب اللّٰہ پاک نے حضرت سیِّدُنا موسٰی اور حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِمَا السَّلَام سےایسی گفتگو کی تو میرے اور تمہارے جیسوں سے کیا کہا جائے گا؟ اور انہوں نے اس دنیا سے لیا ہی کیا ہے؟ ایک اون کا جبہ اور روٹی کا ٹکڑا۔خُدا سے محبت کرنے والوں کی نشانیاں:
(14315)… حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں:حضرت سیِّدَتُنا اَسماء رَملیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا بہت عبادت ورِیاضت کرتی تھیں، آپ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدَتُنا بَیْضاء بنْتِ مُفَضّل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا سے پوچھا: بہن! کیا خدائے پاک سے محبّت کرنے والوں کی کوئی نشانیاں ہوتی ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: بہن! بھلا اپنے آقا ومولیٰ سے محبت کرنے والا بھی چھپ سکتا ہے؟ اگر اپنے مولیٰ سے محبّت کرنے والا چھپنے کی کوشش کرے تو بھی نہیں چھپ سکتا ہے۔ حضرت سیِّدَتُنا اَسماء رَملیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا کہتی ہیں: میں نے کہا: اچھا! مجھے بتائیے کہ خدائے پاک سے محبّت کرنے والے کےاخلاق کیسے ہوتے ہیں؟ کھانا، پینا، سونا، جاگنا کس طرح کا ہوتا ہے؟ اور اس کے دیگر کام کیسے ہوتے ہیں؟ حضرت سیِّدَتُنا بیضاء بنْتِ مُفَضّل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا نے فرمایا: ٹھیک ہے! تم نے تو بہت زیادہ سوالات پوچھ لئے ہیں لیکن میں اپنی استطاعت کے مطابق بتاتی ہوں، تم اللّٰہ پاک سے محبّت کرنے والے کو دیکھو تو تمہیں بہت حیران کُن منظر دکھائی دے گا، تمہیں وہ محبت کا مارا دِکھائی دے گا جسے ایک پَل زمین پر چین نہ ہوگا، جیسے کوئی نا مانوس پرندہ لوگوں کے درمیان اُتر آیا ہو، اُس کا تنہائی میں دل لگے گا، یادِ محبوب کی آشفتگی میں اُس کا چین وآرام چِھن گیا ہوگا، بھوک میں اُس کا کھانا محبت ہے، پیاس میں اُس کا پانی محبت ہے، اُس کی نیند محبوب سے ملاقات کی سوچ وبچار ہے، بے خبری میں پہل کرلینا اُس کی بیداری ہے، اُسے ایک پَل آرام نہ آئے گا، کوئی دِلاسا اُسے کام نہ آئے گا، اُس کی ڈھارس بندھاؤ تو ڈھارس نہ بندھے، صبر کا کہو تو اُسے صبر نہ آئے، خدائے پاک سے محبّت کرنے والا بجھا بجھا رہتا ہے، جب بندگی بجالانے والے اکتا جائیں تو بھی وہ محبّت والا مسلسل بندگیٔ الٰہی بجالانے سے نہیں اکتاتا ہے، آخر وہ محبّتِ الٰہی اور مسلسل بندگی کی برکت سے شوق کے راستے پر آنکلتا ہے، پھر اس کی بے چینی کو قرار آجاتا، آگ ٹھنڈی ہوجاتی، اس کی چنگاریاں بجھ جاتیں، فکریں ختم ہونے لگتیں ہیں لیکن غم کا سلسلہ رہتا ہے۔دیندار کے کام اور ان کےفوائد:
(14316)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا یونُس بن محمد حَذَّاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہحضرت سیِّدُنا حَمْزہ نیشاپوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےروایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دین دار آدمی نے غور وفکر کیا تو اسے سکینہ عطا ہوگیا، وہ راضی ہوگیا تو ہر چیز سے بے پروا ہوگیا، وہ دُنیا سے کنارہ کش ہوگیا تو بُرائی سے بچ گیا، وہ لوگوں سے دور ہوگیا تو غموں سے محفوظ ہوگیا، خواہشات کو خیر باد کہہ دیا تو آزاد ہوگیا، حسد کو چھوڑ دیا تو محبّت نمودار ہوگئی، ہر فنا ہوجانے والی چیز سے دل ہٹالیا تو عقل مکمل ہوگئی۔ (14317)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا شعیب بن حَرْب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایک شخص سے یہ فرماتے سنا:تم قَبْر میں اپنا اسلام ساتھ لے گئے تو تمہیں خوشخبری ہو۔صرف اللہ پاک سے ڈرو:
(14318)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابو مَلِیْح رَقِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:جب انسان قَبْر میں داخِل ہوتا ہے تو وہ تمام چیزیں اُس کو ڈرانے کیلئے آجاتی ہیں جن سے وہ دنیا میں ڈرتا تھا اور اللّٰہ پاک سے نہ ڈرتا تھا۔پیٹ بھرکر کھانے کا نقصان:
(14319)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا علی بن ابو حُر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن زکریا عَلَیْہِمَا السَّلَام نے پیٹ بھر کر جو کی روٹی کھالی جس کے سبب آپ پر نیند طاری ہوگئی اور آپ کا وظیفہ چھوٹ گیا تواللہ پاک نےآپ کی طرف وحی نازل فرمائی: اے یحییٰ!کیا تجھے میرے گھر سے اچھا کوئی گھر مل گیا ہے؟ یا میرے پڑوس سے اچھا کوئی پڑوس مل گیا ہے؟اے یحییٰ! اگر تم جَنَّتُ الفردوس کو ایک نظر دیکھ لو تو اس کے شوق میں تمہارا جسم لاغَر ہوجائے اور تمہاری جان چلی جائے اور اگر ایک نظر جَہَنَّم کو دیکھ لیتے تو کپڑے کے بجائے لوہے کا لباس پہنتے اور آنسوؤں کے بعد پیپ بہاتے۔بغیر سیکھے حکمت عطا ہونا:
(14320)…حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن مَعین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا احمد بن حَنبل اور حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا کی مکہ میں ملاقات ہوئی تو حضرت سیِّدُنا احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کہا: مجھے کوئی بات سناؤ جو تم نے اپنے استادحضرت ابوسلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے سنی ہو؟حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کہا: اے احمد! بغیر تعجب سُبْحٰنَ اللہ کہو۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سُبْحٰنَ اللہ کو لمبا کھینچ کر پڑھا۔ تو حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:میں نے حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:آدمی کا دل گناہوں سے کنارہ کشی کا پختہ عزم کرلے تو یہ دل ان دیکھے جہان کی سیر کرنے لگتا ہے اور پھر وہاں سے انوکھی حکمتیں بندے کو لادیتا ہے، یہ ایسی عمدہ حکمتیں ہوتی ہیں جن تک کوئی عالِم اپنے علم سے نہیں پہنچ سکتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: یہ سُن کر حضرت سیِّدُنا احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بے ساختہ کھڑے ہوگئے، پھر بیٹھے، پھر کھڑے ہوگئے، ایسا تین مرتبہ ہوا۔ پھر فرمانے لگے: میں نے اسلام کے بارے میں اب تک جو کچھ سُنا ہے اُن میں یہ بات مجھے سب سے زیادہ پسند آئی۔پھر حضرت سیِّدُنا احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی سند سے حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ایک حدیث پاک بیان کی کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے اپنے علم پر عمل کیا اللّٰہ پاک اُسے وہ علم بھی عطا فرما دیتا ہےجو وہ نہیں جانتا۔“(6) پھر حضرت سیِّدُنا احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے فرمایا: اے احمد! تم نے بھی سچ کہا اور تمہارے شیخ نے بھی سچ کہا۔ مصنف کتاب حضرت سَیِّدُنا شیخ حافظ ابو نعیم احمد بن عبْدُ اللہ اصفہانی شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: حضرت سَیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس حدیث کو ایک تابِعی کے حوالے سے حضرت سَیِّدُنا عیسٰی بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام کا قول بیان کیا ہےمگر کسی راوی نے اپنے وہم کی وجہ سے اسے حُضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے روایت کردیااور آسانی و قرب کی وجہ سے اس کی سند کو حدیث کے لئے وَضْع کر لیاجبکہ یہ حدیث اس بات کا احتمال ہی نہیں رکھتی کہ حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی سند سے اسے حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے روایت کریں۔صبح کو رات کے سفر کی تعریف:
(14321)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا علی بن ابو حُر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:حضرت سیِّدُنا امام اَوْزاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ حج کرنے گئے، فرماتے ہیں:میں جب مدینہ میں تھا تو رات کے وقت رَسُوْلُ اللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مسجد شریف میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ ایک نوجوان قَبْرِ مبارک اور منبر کے درمیان تہجد پڑھ رہا ہے، جب فجر کا وقت شروع ہوا تو وہ سیدھا لیٹ گیا اور بولا: لوگ صبح کو رات کے سفر کی تعریف کرتے ہیں(یعنی مشقت کے بعد راحت حاصل ہوتی ہے)۔ تو میں نے کہا: اے بھتیجے! (حقیقت میں )یہ محاورہ تمہارا اور تم جیسے لوگوں کے لئے ہی ہے شُتُربانوں(اُونٹ چلانے والوں) کے لئے نہیں۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حَوَاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ حضرت سَیِّدُنا عیسٰی بن عُبَیْد جُبَیْلِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا اَبُو کریمَہکَـلْبِیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جو کہ شام کے عبادت گُزاروں میں سے تھے انہوں نے فرمایا:اے آدمی!تیری بقیہ دُنیاوی عُمْر کی کوئی قدر وقیمت نہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مزید فرمایا: جس طرح لوگ صبح کو رات کے سفر کی تعریف کرتے ہیں اسی طرح انتقال ہونے کے بعد لوگ پرہیزگاروں کی تعریف کرتے ہیں۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا: اِنْ شَآءَاللہ ہم اور ہمارے ساتھی بارگاہِ الٰہی کی طرف گامزن ہیں، اہْلِ بدعت بارگاہِ الٰہی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں، گنہگار لوگ راستے میں دائیں بائیں نکل گئے اور شُکُوک وشُبہات میں پڑگئے ہیں۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت ہے کہ حضرت سیِّدُنا عیسٰیعَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا: اُسے مبارک ہو جو اَن دیکھے غیبی وعدے کی خاطر پاس موجود لذّت کو چھوڑ دے۔تہجد گُزاروں کے لیے انعام:
(14322)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس گیا تو وہ رو رہے تھے، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: کل رات میں نماز پڑھ رہا تھاکہ میری آنکھیں بوجھل ہوئیں تو میں سو گیا،میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک حور میری عبادت کی جگہ سے نکل کر میرے پاس آئی ، اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا، مجھ سے بولی: اے ابو سلیمان! تم پڑھنا جانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ تو اس نے کہا: اس رقعہ کو پڑھو۔ میں نے وہ رُقعہ کھولا تو اس میں یہ اَشعار لکھے تھے: اَلْهَتَكَ لَذَّةُ نَوْمَةٍ عَنْ خَيْرِ عَيْشٍ مَعَ الْغَنِجَاتِ فِي غُرَفِ الْجِنَانِ تَعِيْشُ مُخَلَّدًا لَّا مَوْتَ فِيهَا وَتَنْعَمُ فِي الْجِنَانِ مَعَ الْحَسَانِ الْحِسَانِ تَيَقَّظْ مِنْ مَنَامِكَ اَنَّ اِنَّ خَيْرًا مِّنَ النَّوْمِ التَّهَجُّدُ بِالْقُرَاٰنِ ترجمہ:تمہیں جنتوں کے بالا خانوں میں ناز وانداز والیوں کے ساتھ بہترین زندگی گزارنے سے ایک نیند کے مزے نے غافل کردیا؟! وہ جنت جہاں تم ہمیشہ رہو، جہاں کبھی مَوت نہ آئے اور وہاں تم حسیناؤں کے ساتھ مزے سے رہو۔ نیند سے بیدار ہوجاؤ! سونے سے بہتر ہے کہ نمازِ تہجّد میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرو۔شب بیداری کرنے والوں کے اِنعامات:
(14323)… حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس حاضر ہوا، آپ رورہے تھے، میں نے عرض کی: حُضور کیوں رورہے ہیں؟ فرمایا: تمہارا بھلا ہو احمد! میں کیوں نہ روؤں؟ جبکہ مجھے معلوم ہوچکا ہے کہ جب رات تاریک ہوگئی، آنکھیں بند ہوگئیں، ہر محبت والا اپنے محبوب کے ساتھ تنہائی میں ملا، عارِفوں کے دل روشن ہوگئے اور یادِ الٰہی کی لذّت اٹھانے لگے، عارفوں کے حوصلے مالکِ عرش کی بارگاہ میں بلند ہوئے، اہلیانِ محبّت اپنے بادشاہِ حقیقی کی بارگاہ میں مناجات کرتے ہوئے عاجزی سے بچھ گئے اور اُس کا پاکیزہ کلام اپنی غمگین آوازوں میں دہرانے لگے، خوف واشتیاق کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اُن کے آنسو رُخساروں پر بہہ رہے ہیں اور اُن کے گوشَۂ نماز میں ٹپک رہے ہیں۔ چنانچہ خداوندِ تعالیٰ نے اُن کی طرف نَظرِ رحمت فرمائی اور انہیں محبّت وسرور کی دولت عطا فرمائی، اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا: میرے دوستو اور میری مَعْرِفَت والو! میری یاد میں ہی لگے رہو، اپنے دل سے میرے سوا ہر کسی کی یاد نکال دو، خوش ہوجاؤ! کیونکہ جس دن تم مجھ سے ملوگے تمہارے لئے میرے یہاں عزت وقُربَت کے تحفے ہوں گے۔ پھر اللّٰہ پاک حضرت سیِّدُنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے ارشاد فرماتا ہے: جبریل! میری بارگاہ میں وہ لوگ حاضر ہیں جو میرے کلام سے لذّت اٹھاتے ہیں، میری بارگاہ میں راحت پاتے ہیں اور میرے صحن میں پڑاؤ ڈالتے ہیں، میں انہیں ان کی تنہائیوں میں دیکھتا ہوں، ان کی آہ وزاری سنتا ہوں اور ان کی محنت وکوشش کو دیکھتا ہوں، جبریل! ان میں یہ اعلان کردو: یہ میں کیا رونا سن رہا ہوں؟! اور یہ کیا گِڑگڑانا دیکھ رہا ہوں؟! کیا تم نے کبھی سنا ہے یا کسی نے میری طرف سے تمہیں یہ بتایا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوستوں کو عذاب دے گا؟! کیا تم نہیں جانتے کہ میں کَرَم والا ہوں پھر میں کیوں راضی نہ ہوؤں گا؟! کیا میرا کرم ایسا لگتا ہے کہ اپنی بارگاہ کا رُخ کرنے والوں کو دھتکار دوں گا؟! کیسے ہوسکتا ہے کہ جنہوں نے میری نسبت سے عزت چاہی میں اُنہیں ذلیل کردوں؟! یا کیسے ممکن ہے کہ جنہوں نے سب مخلوق کو بلکہ خود اپنی ذاتوں کو بھی چھوڑ کر مجھے اختیار کیا اور میری یاد ہی کی لذّت میں زندگی گزاری؛ میں کل بروزِ قیامت انہیں اپنے دیدار سے محروم رکھوں ؟! میری رحمت کے شایان کیسے ہوسکتا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ کچھ لوگ رات بھر میری بارگاہ میں اپنے پیروں پر کھڑے رہیں، مجھے منانے کی کوشش کرتے رہیں پھر جب رات گزر جائے تو انہیں دُھتکار دوں؟! یا مجھے کیسے زیب دیتا ہے کہ ان لوگوں کو عذاب دوں جو رات ہوتے ہی مجھے منانے میں لگ جاتے ہیں، جیسے بھی ہوں میری خاطر الگ تھلگ ہوجاتے ہیں، میری یاد سے سکون پاتے ہیں، میرے عذاب کا ڈر رکھتے ہیں اور میری بارگاہ کی قُربت چاہتے ہیں۔ مجھے اپنی قسم ہے! میں ضرور ان کے دلوں کی نامانوسی ختم کردوں گا اور میں ضرور انہیں مانوسی عطا فرماؤں گا، مزید میرے یہاں ان کے لئے وہ اِنعامات ہیں جنہیں بس میں ہی جانتا ہوں۔ اتنا بیان کرنے کے بعد حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرمانے لگے: احمد! جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر یہ مجھے نصیب نہ ہو تو آنسوؤں کے بجائے خون رونا بھی مجھے زیب دیتا ہے۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں: حضرت کی گفتگو سُن کر مجھے بھی رونا آگیا۔ پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مجھے چھوڑنے دروازے تک آئے اور میں وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اس روز کی گفتگو کے اثرات مجھے آپ کی ذات میں دکھائی دیتے تھے جب تک آپ دنیائے فانی سے کوچ نہیں کرگئے۔ حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئے تھے۔ میں جب کبھی آپ سے عرض کرتا کہ مجھے کچھ دینی بات سنائیے تو فرماتے تھے: کیا جو تم نے سن لیا تھا وہ تمہارے لئے کافی نہیں؟ میں عرض کرتا: حضور! ہوسکتا ہے مجھے اس بات سے نفع مل جائے جو میں نے ابھی تک سُنی نہیں ہے۔ اس پر فرماتے تھے: ٹھیک ہے۔ یہ واقعہ آگے بیان کرنے والے راوی حضرت سیِّدُنا عباس بن حمزہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مجھ سے فرمایا: میں نے پورا واقعہ کسی قدر اِختصار کے ساتھ تمہیں بیان کردیا ہے، اسے یاد کرلو۔ پھر حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روپڑے اور پکارنے لگے: ہائے محرومی! ہائے گناہوں کی نَحُوست! لوگ تو چلے گئے لیکن ہم نے وقت ضائع کر دیا اور ہم رہ گئے، لوگوں نے اپنا مقصود حاصل کرلیا لیکن ہمارا نہ جانے کیا بنے گا! آہ! کس قدر اندیشے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، میں بھی رونے لگا۔ اس روز کی گفتگو کے اثرات مجھے آپ کی ذات میں بھی دکھائی دیتے تھے آخرِ کار آپ دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ (14324)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مجھ سے فرمایا:تھوڑی بھوک،لباس کی تنگی،کسی قدر بے قدری،معمولی سی غریبی اورتھوڑا صبر اسی طرح تمہارے دنیا کے ایام گزر جائیں گے۔دنیا عمل کا گھر ہے:
(14325)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سیِّدُنا ابو علی رَحَبِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بتایا:ایک نوجوان حضرت سیِّدُنا حسن بن یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی صحبت میں حاضر رہا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کچھ دنوں تک حاضر نہ ہوا تو حضرت سیِّدُنا حسن بن یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس کے گھر تشریف لے گئے، دروازہ کھٹکھٹایا، وہ نوجوان باہر آیا، حضرت سیِّدُنا حسن بن یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: برخوردار! کیا بات ہے؟ کئی دنوں سے غائب ہو؟ نوجوان نے عرض کی: بھائی صاحب! یہ (دنیا)مِلنے مِلانے کا گھر نہیں ہے، یہ تو عمل کا گھر ہے، مِلنا مِلانا وہاں (جنت میں) ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ نوجوان اندر چلا گیا اور دروازہ بند کردیا۔ راوی کہتے ہیں: پھر حضرت سیِّدُنا حسن بن یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس نوجوان کو تبھی دیکھا جب اس کا جنازہ نکلا۔ربّ کریم کی کرم نوازیاں:
(14326)…حضرت سَیِّدُنا یُوسُف بن حسن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت سیِّدُنا احمد بن ابوحواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: بندے پر اللّٰہ پاک کی مسلسل نعمتیں ہوں، بارگاہِ الٰہی سے کامل عزتیں عطا ہوں، خدائے پاک اس کا بہت پردہ رکھے اور بہت احسان فرمائے تو ایسے وقت میں بندے کو ربّ کریم سے جتنی محبّت ہوتی ہے اس سے بہت زیادہ اللّٰہ پاک اپنے بندے سے محبّت کرتا اور اس پر نَظرِ کرم فرماتا ہے جبکہ بندہ گناہوں میں لگا ہوا ہو اور اپنے ربّ کریم سے منہ پھیرے ہوئے ہو۔ حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرمانے لگے: واقعی! مولائے کریم کی یہی شان ہے۔ پھر انہوں نے یہ شعر پڑھے: قَنَعْتُ بِعِلْمِ اللہِ ذُخْرِیْ وَوَاجِدِیْ بِمَکْتُوْمِ اَسْرَارٍ تَضْمَنُہَا صَدْرِیْ فَلَوْ جَازَ سَتْرُ السِّتْرِ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ اِلَی الْقَلْبِ وَالْاَحْشَاءِ لَمْ یَعْلَمَا سِرِّیْ ترجمہ: میرے لیے یہی کافی ہے کہ اللّٰہ پاک میرے دل کی بات جانتا ہے اور وہ ربِّ کریم میرے سینے میں چھپے رازوں سے باخبر ہے! اگر میں خود پر اور اپنے سینے کے راز پر پردہ ڈال سکتا تو میرے دل اور پسلیوں کو بھی میرے راز کی بھنک نہ ملتی۔ (14327)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابوسلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:رات کے کھانے کا ایک لقمہ کھاکر ساری رات عبادت کرنے سے زیادہ مجھے یہ پسند ہے کہ وہ ایک لقمہ نہ کھاؤں۔جنت اور جنتی نعمتیں بھی غافل نہیں کر سکتیں:
(14328)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابوسلیمان دارانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو فرماتے سنا:بےشک اللّٰہ پاک کے ایسے بندے بھی ہیں جن کو جنت اور اس کی نعمتیں بھی ذاتِ باری تعالیٰ سے غافل نہیں کر سکتیں تو وہ دنیا کی وجہ سے اُس ذات سے کیسےغافل ہوں گے؟قبر و حشر کا ذکر کرو:
(14329)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا ابو بکر بن عَیّاش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی: ہمیں حدیث بیان کیجیئے۔ آپ نے فرمایا: مجھے حدیث بیان کرنے سے معاف رکھو! میری عُمْر زیادہ ہوگئی ہے اور ہم حدیث بیان کرنا بھول گئے ہیں، ہاں! ہمارے سامنے حشر کی بات کرو! ہمیں قبروں کے اَحوال سناؤ! اگر میں حقیقی مُحَدِّثین کو جانتا تو خود ان کے گھر جاتا اور انہیں حدیث بیان کرتا۔ (14330)…حضرت سیِّدُنا احمد بن ابو حواری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا محمد کِندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کوفرماتے سنا: ہمارے بُزرگ کہتے ہیں: جب تمہیں کوئی دو ایسے کام پیش آجائیں جن کے بارے میں تم نہیں جانتے کہ رضائے الٰہی کس میں ہے تو غور کرو کہ ان میں سے نفس کی مخالفت کے زیادہ قریب کون سا ہےکہ حق اسی میں ہوگا جو خواہشات کے مخالف ہوگا۔
1…معجم کبير،۶/۱۸۵،حديث:۵۹۴۲ 2…تادمِ تحریر(ذُوالْقَعْدَۃِ الْحَرام۱۴۴۲ھ)ان شعبوں کی تعداد17ہو چکی ہے:(7) فیضانِ قُرآن (8) فیضانِ حَدیث (9)فیضانِ صحابہ واہْلِ بیت(10) فیضانِ صحابیات وصالحات (11)شعبہ امیراہلسنّت (12) فیضانِ مَدَنی مذاکرہ (13) فیضانِ اولیا وعُلَما (14)بیاناتِ دعوتِ اسلامی(15)رسائِلِ دعوتِ اسلامی(16)شعبہ مدنی کاموں کی تحریرات(17) شعبہ کتب فقہ شافعی۔(مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ( 3…علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ذَبِیْحُ اللّٰہ حضرت اسماعیل(عَلَیْہِ السَّلَام) ہیں کہ حضرت اسحاق عَلَیْہِ السَّلَام،زیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں۔غالبًا حضرت مَسْروق جناب اِسحاق عَلَیْہِ السَّلَام کو ذَبِیْحُ اللّٰہ مانتے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،5/213) 4…یہ اگلی اُمت کے بزرگ تھے، ہمارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی سنّتِ گیسو آدھے کان ، پورے کان اور مبارک کندھوں تک ہے،کندھوں سے نیچے تک مرد کو بال بڑھانا حرام ہے۔(فیضان رمضان،ص 170)لہٰذا مَردوں کو لمبے بال رکھنا جائز نہیں کہ عورتوں سے مشابہت ہے۔چنانچہ صَدْرُالشَّرِیْعَہ،بَدْرُالطَّرِیْقَہحضرت علامہ مولانا مفتی محمدامجدعلی اعظمیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہبہار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ587پر فرماتے ہیں:’’مردکویہ جائزنہیں کہ عورتوں کی طرح بال بڑھائے ،بعض صوفی بننے والے لمبی لمبی لَٹیں بڑھالیتے ہیں جواُن کے سینہ پر سانپ کی طرح لہراتی ہیں اور بعض چوٹیاں گوندتے ہیں یاجوڑے بنالیتے ہیں یہ سب ناجائزکام اور خلافِ شرع ہیں۔‘‘اورمُجَدِّدِ اَعْظَم سیِّدِی اَعلیٰ حضرت اِمامِ اہلسنّت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضاخانرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لمبے بالوں کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’(بال) نصف (آدھے)کان سے کندھوں تک بڑھانا شرعاً جائز ہے اور اس سے زیادہ بڑھانا مرد کوحرام ہے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، 22/ 605) 5…مسند البزار، ۱۱/ ۲۴۷، حدیث: ۵۰۲۸ بتغیر قلیل 6…معانی الاخبار للکلاباذی، حدیث اٰخر’’جالس الکبراء‘‘، ص۱۰۰
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع