پیش لفظ
عاشقوں کی معراج مدینہ ٔپاک کی حاضری سوبار بھی نصیب ہوتو پہلی حاضری کی اپنی یاد اور لذّت ہوتی ہے ،1980میں امیرِاہلِ سنت کا پہلا سفرِ مدینہ ہوا،اِس کے کئی یادگار لمحات واقعات مدنی چینل کے مقبولِ عام سلسلے مدنی مذاکرے وغیرہ میں بیان ہوتے رہتے ہیں، الحمدُلِلّٰہ! اَب اِ س یادگار سفرِ مدینہ کو تحریری صورت میں منظرِ عام پر لانے کی صورت بنی ، جس کی پہلی قسط بنام ’’امیراہلِ سنّت کا پہلا سفرِ مدینہ‘‘ہے،اللہ پاک اخلاص و استقامت عطا فرمائےاوراس یادگار سفرِ مدینہ کی بقیہ قسطیں بھی منظرِ عام پر آکر عاشقانِ رسول کے قلب و جگر میں عاشقِ مدینہ امیراہل سنّت کےعشق و محبت بھرے واقعات سے ٹھنڈا کرے۔ الحمدُلِلّٰہ!21صفحات کے اِس رسالےکےلئےکم و بیش 12 سےزائد اسلامی بھائیوں سے رابطہ کرکےواقعات کی تصدیقات و تحقیق کے بعد تحریر کیا گیا ہے،اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا ہے ہمیں اپنے اِس مقبول بندے، عاشقِ مدینہ امیرِاہل سنّت کے صدقے مدینۂ پاک کی سچّی محبّت نصیب فرمائے اورسبز سبز گنبد کے سائے میں ایمان وعافیت کےساتھ شہادت، خیر سے جنّتُ البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں اللہ پاک کے پیارےپیارے آخری نبی،مکّی مَدَنی ، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس نصیب فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔
مدینہ اِس لیے عطارؔ جان و دل سے ہے پیارا
کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے سرور مدینے میں
ابومحمد طاہر عطاری عفی عنہ
المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر )
شعبہ ہفتہ وار رسالہ
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
دُعائے جانشینِ عطّار:یاربَّ المصطفٰے!جوکوئی21صفحات کارِسالہ’’امیرِاہلِ سنّت کا پہلا سفر ِمدینہ‘‘پڑھ یا سُن لے ،اُسے بار بار حج و زیارتِ مدینہ نصیب فرمااوراُس کو بے حساب بخش دے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
مُسلمانوں کی پیاری پیاری امّی جان،حضرتِ بی بی عائشہ صدّیقہ رضی اللہُ عنہاسے روایت ہے کہ میرے آقا مدینے والے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بھی کوئی بندہ مجھ پر دُرُودِپاک پڑھتا ہے تو ایک فرشتہ اُس دُرُود کو لے کر اوپرجاتا ہے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پہنچاتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِس دُرُود کو میرے بندے کی قبر میں لے جاؤ یہ دُرُود اپنے پڑھنے والے کے لئے استغفار کرتا رہے گا اوراُس(بندۂ خاص)کی آنکھیں اِسے دیکھ کرٹھنڈی ہوتی رہیں گی۔(جمع الجوامع،6/321،حدیث:19461)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کراچی کےایک خوش نصیب زائرِ مدینہ نےسفرِحج سے پہلےاپنے گھر’’محفل‘‘کا اہتمام کیا اوراپنےدوستوں،رِشتے داروں کوشِرکت کی دعوت دی۔محفل کے آغاز میں اُن حاجی صاحب کو رشتے داروں وغیرہ نےپھولوں کے گجرے پہنائے،اُس بابرکت و پُرسوز محفل میں اُن حاجی صاحب کےایک بڑے عاشقِ رسول دوست بھی موجودتھے۔ جونہی حاجی صاحب پُھولوں کے گجرےپہنےمحفل میں حاضر ہوئےتووہ دوست اپنی پلکوں میں اَنمول موتیوں کا ہارلئے بیٹھے تھے،اپنے حاجی دوست کو پُھولوں کے گجرے پہنے دیکھ کراپنی پلکوں میں چھپے آنسوؤں کے سمندر کو روک نہ سکے اوربے قابو ہوکر بِلک بِلک کر رونے لگے، بند ٹوٹ گیا اور آنسوؤں کادَھارا بہہ نکلا۔ یہ پُر کیف منظر دیکھ کر اُس عاشقِ مدینہ کے دِل میں حسرت بڑھ چلی تھی کہ آہ! میرا دوست سفرِ حج پر جارہا ہے اورمیرے پاس حاضریٔ مدینہ کےاَسباب نہیں،(کاش! میں بھی حاضریٔ مدینہ کی سعادت پاتا۔۔۔)
یاد میں آقا کی آنسو بہہ گئے سب مدینے کو گئے ہم رہ گئے
ہم مدینے جائیں گے اَب کے بَرس ہر برس یہ سوچ کر ہم رہ گئے
جب اُن حاجی صاحب کوحج کے لئے رُخصت کرنے کی گھڑی آئی تووہ مدینے کاسچا عاشق اپنے حاجی دوست کوالوداع کرنےکےلئےبھی گیا،اُس عاشقِ مدینہ کا کہنا ہے: میں بڑی رَشک وآس(یعنی اُمید)بھری نظروں سے مدینے جانے والے خوش نصیب عاشقانِ رسول کوسفینۂ مدینہ(یعنی بحری جہاز)میں سُوئے مدینہ جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔آہ صدہزار آہ! پھر میں اپنابے قرار دِل تھامے واپس گھر کی طرف چل پڑا۔سالوں گُزرجانے کے باوجود اَب تک اُن زائرین ِ مدینہ کی خوشیوں کا منظر مجھے یاد ہے۔
زائرِ طیبہ! روضے پہ جاکر تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا
میرے غم کا فسانہ سُنا کر تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا
تیری قسمت پہ رشک آرہا ہے تُو مدینے کو اَب جا رہا ہے
آہ! جاتاہے مجھ کو رُلا کر تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا
جب پہنچ جائے تیرا سفینہ جب نظر آئے میٹھا مدینہ
با اَدب اپنے سر کو جھکا کر تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اپنی پلکوں میں آنسوؤں کا ہار لئے،دِل میں شمعِ عشقِ رسول جَلائے،اپنےقلب و جِگر میں آرزوئے مدینہ کاچراغ روشن کرنے والا وہ حقیقی عاشقِ مدینہ جس نے اپنی کوششوں سے لاکھوں لاکھ مُسلمانوں کو مدینے کا دیوانہ بنادیا ہے،اُس مردِ قلندر کا نام’’شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرتِ علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ ‘‘ہے۔
ذکرِ مَدینہ جاری لب پر سوزِ مَدینہ بانٹتے اَکثر عشقِ طیبہ میں دیکھو تو لگتے ہیں سرشار
میرے مرشد ہیں عطّار میرے مرشد ہیں عطّار اِن شاءَ اللہ اِن کے صدقے ہوگا بیڑا پار
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! الحمدُلِلّٰہ!علمائے اہلِ سنّت تو ہوتے ہی عاشقِ رسول ہیں۔ رَئیسُ التحریر حضرت علّامہ مولانا اَرشد القادری رحمۃُ اللہِ علیہ کے حوالے سے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے مرحوم رُکن حاجی زم زم عطاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے بیانفرمایا تھا:حیدرآباد پاکستان میں ایک مرتبہ علّامہ اَرشد القادری صاحب ایک مسجد میں بیان کےلئے تشریف لائے تو محراب یا اُس کے قریب دیوار پر لگےمکتبۃ المدینہ کے اِسٹیکر’’واہ کیا بات ہے مدینے کی‘‘پر نظرپڑی توایک دَم مدینۂ پاک کی محبّت کا ایسا غلبہ ہواکہ آنکھوں سےبےاختیار آنسو بہنے لگےپھراِسی پُرسوز اَنداز میں فرمایا کہ جس کی تحریر میں ایسا اَثر ہے تواُس شخص میں کیساسوز ہوگا۔
اللہ ربُّ العزَّت کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔
شاہ تم نے مدینہ اپنایا، واہ کیا بات ہے مدینے کی
اپنا روضہ اِسی میں بنوایا، واہ کیا بات ہے مدینے کی
اے عاشقانِ رسول!سفرِ حج و زیارتِ مدینہ بڑاکیف وسُروروالا سفر ہے،اللہ پاک تمام عاشقانِ رسول کو اپناپیاراپیارا حَرم،کعبہ شریف ،مِنیٰ ، عرفات و مزدلفہ شریف اور کعبے کے کعبےسبز سبز گنبد کے جلوؤں سے مشرف فرمائے۔یقین مانئے! یہ سفر جتنی بار نصیب ہو ”کم“ ہے،اللہ پاک نے اپنے پاک گھر خانۂ کعبہ میں ایسی کشش رکھی ہے کہ یہاں سے لوٹنے کو جی نہیں چاہتا، وقتِ رُخصت گویا ایسا لگتا ہے جیسے بچّہ ماں کی گود سے چھینا جا رہا ہو اور مدینہ تو مدینہ ہے،مدینے کی تو کیا ہی بات ہے کونسی آنکھ اِس کے دیدار میں بہتی نہیں، کون سا دِل اِس کی یاد میں تڑپتا نہیں،کِس مسلمان کے دِل میں حاضر یٔ مدینہ کی تمنا نہیں۔ کاش صَد کروڑ کاش!بار بار خیر سے حاضری نصیب ہو۔
وہ مدینہ جو کونین کا تاج ہے جس کا دیدار مومن کی معراج ہے
زندگی میں خدا ہر مسلمان کو وہ مدینہ دِکھا دے تو کیا بات ہے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!کسی طرف دِل کے میلان کو ’’محبت ‘‘کہتے ہیں اور اگر یہ محبت شدّت پکڑ لے تواِسے’’عشق ‘‘کہتے ہیں ،جس سے عشق ہوجاتاہے تو اُس کی ہر شے اچّھی لگتی ہے۔
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فَزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں
اے عاشقانِ عطّار!بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولا نا محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکاتہم العالیہ نے لاکھوں مسلمانوں کو مدینۂ پاک کی محبت اورشہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عشق کا جام پِلایا ہے ،آپ واقعی عاشق ِمدینہ اورحقیقی عاشقِ رسول ہیں بلکہ اللہ پاک نے آپ کو وہ مقام و مرتبہ عطافرمایا ہے کہ بڑے بڑے علمائے کرام بھی آپ کو عاشقِ مدینہ اورسنّتوں کی چلتی پِھرتی تصویر کہتےہیں ۔آپ کے دِل میں امیرِاہلِ سنّت کی محبَّت مزید بڑھانے کےلئے2علمائے کرا م کے تاثرات اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں: ہندکےمشہور عالمِ دین،شہزادۂ خلیفۂ اعلیٰ حضرت،غازی ٔ ملّت حضرت مولانا سید محمد ہاشمی میاں اشرفی جیلانی مَدَّ ظِلُّہُ العَالِی فرماتےہیں:میراالیاس قادری صاحب سے کوئی(خونی) رشتہ نہیں ہے،جس مدینے کو چھوڑ کر ہمارے آباؤ اَجدادہند وستان میں اسلام پھیلانے تشریف لائے’’میں نے وہ پورا مدینہ الیاس قادری کے سینے میں دیکھاہے۔‘‘وہ مدینہ مدینہ کرتے رہتے ہیں ،بقیع میں لیٹنا چاہتے ہیں،صحابۂ کرام (علیہم الرضوان)کے قدموں میں رہنا چاہتے ہیں،(اُن کا)عشقِ رسول ، تمنّائے مدینہ، محبت میں ڈوبا ہوا ایک مزاج ہے۔ میں دُعا گو ہوں کہ مولانا الیاس قادری صاحب کے عِلْم و عُمر میں برکت عطا ہو اور اہلِ سنّت و جماعت کو فیضانِ سنّت سے فیض یاب ہونے کا شرف عطا ہو۔(ویڈیوکلپ اور امیرِاہلِ سنّت کے بارے میں 1163علمائے کرام کے تاثرات، ص738غیرمطبوعہ)
رَب کے ڈَر سے وہ رونا رُلانا ترا وَجد میں ذِکرِ طیبہ پہ آنا ترا
جامِ عشقِ نبی وہ پلانا ترا میرے ساقی کا شربت سلامت رہے
مفتیٔ سکھر،حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد ابراہیم قادری صاحب مَدَّظِلُّہُ العَالِی فرماتے ہیں: اللہ پاک حضرت امیرِاہلِ سنّت کا بھلا کرے، جنہوں نے دعوتِ اسلامی کے نام سے ایسی دینی اصلاحی جماعت قائم فرمائی،جس سے ہزاروں لاکھوں افراد وابستہ ہو کر اپنی زندگی اتباعِ شریعت میں گزار کر اور دلوں کو حُبِّ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سرشار کرکے اپنے سینے کو مدینہ بنائے ہوئے ہیں۔( امیراہل سنت کے بارے میں 1163علمائے کرام کے تاثرات، ص30غیر مطبوعہ)
عشقِ نبی ملا ہے دِل پھول سا کھلا ہے مَسلک مِرے رضا کا عطّار نے دیا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
اے سبز گنبد دیکھنے کی آرزو رکھنے والو!کسی نے سچ کہا ہے کہ مدینے جانے کےلئے پیسوں کی نہیں ’’سچّی تڑپ ‘‘کی ضرورت ہے،جب بندہ حاضریٔ مدینہ کےلئےبے قرار ہو جاتا ہے تو حاضری کےرَستے خودبنتے چلے جاتے ہیں ،بڑے بڑے مالدار ،پیسے والے لوگ دیکھتے رہ جاتےہیں اورحقیقی دیوانۂ مدینہ اپنے آقائے مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دَرپر حاضر ہو جاتاہے۔
کہاں کا منصب کہاں کی دولت، قسم خدا کی ہے یہ حقیقت
جنہیں بُلایا ہے مصطفےٰ نے، وہی مدینے کو جارہے ہیں
ایسا ہی کچھ عاشقِ مدینہ امیرِاہل ِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے ساتھ ہوا۔آپ کو بچپن ہی سے نعت خوانی اورحاضریٔ مدینہ کے کلام پڑھنے ،سننے کا شوق تھا۔دعوتِ اسلامی سے پہلےبھی آپ اپنے دوستوں کےساتھ مِل کر ذکرِ مدینہ اورذکرِ شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محفلیں سجاتے تھے۔ بالخصوص مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کا یادِ مدینہ میں ڈوبا ہوا کلا م:
بختِ خُفتہ نے مجھے روضے پہ جانے نہ دیا چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا
لائٹس بند کرکے پڑھتے،محفل میں موجود عاشقانِ رسول پرخوب رِقت طاری ہوتی اوربڑا پُرکیف منظر ہوتا،بالآخر وہ سہانی گھڑی تشریف لے ہی آئی،1400ہجری بمطابق 1980 عیسوی کی بات ہے کہ امیرِاہلِ سنّت کے بعض دوست جو عرب شریف میں رہتے تھے ، اُنہیں امیرِاہلِ سنّت کی قلبی کیفیات کا کچھ اَندازہ تھا،اُنہوں نے مِل کر امیرِاہلِ سنّت کو اپنے خرچ پر حاضریٔ مدینہ کی خوشخبری سُنائی۔
اِس آس پہ جیتا ہوں کہدے یہ کوئی آکر چل تجھ کو مدینے میں سرکار بلاتے ہیں
ہواکچھ یُوں کہ امیرِاہلِ سنّت کے بچپن کے ایک دوست 1973عیسوی میں مدینۂ پاک شفٹ ہوگئے تھے،کچھ عرصے بعد مزید چند دوست بھی حرمین طیّبین حاضر ہوگئے، ایک مرتبہ آپس میں بیٹھے دوستوں میں سب سے پہلے مدینۂ پاک حاضر ہونے والے دوست نے سب سے کہا : اَلحمدُ لِلّٰہ !ہم سب نے مدینۂ پاک کی زیارت کرلی ہے لیکن ہمارے ایک دوست اَب تک مدینۂ پاک حاضر نہیں ہوسکے کیا ہی اچّھا ہوکہ ہم سب مل کر اُن کے آنے جانے کی ٹکٹ کا انتظام کریں،میرا گھر مدینۂ پاک میں حرمِ پاک کے قریب ہے(مسجدِ نبوی شریف کی توسیع کے بعد اب وہ مکان بھی مسجد شریف میں شامل ہوگیا ہے ۔)جب امیرِاہلِ سنّت مدینۂ پاک آئیں گے تو اُن کا قیام میرے گھر پر ہوجائے گا اور مکۂ پاک میں حاضری کے دوران مکّےمیں رہنے والے دوست کے ہاں قیام ہوجائے ، یوں صِرف آنے جانے کی ٹکٹ کا ہمیں انتظام کرنا ہوگا ،اُس وقت پاکستان سے مدینہ شریف کے ٹکٹ کا خرچ 5ہزار ریال تھا ۔سب دوستوں نے آپس میں رقم ملائی اوریُوں امیرِاہلِ سنّت کی حاضری ٔ مدینہ کی صورت بنی۔
جب بُلایا آقا نے خود ہی انتظام ہوگئے
اللہ پاک کےپیارے پیارے آخری نبی،مکی مَدَنی ،محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے عاشقِ زار پر کرم فرمادیا اور الحمدُلِلّٰہ!بخیر وعافیت عُمرے کا ویزہ مل گیا۔مدینۂ پاک کی حاضری کی خوشخبری کیا تھی گویا اَنمول نعمت کا حصول تھا۔عطّارخوشی سے پُھولے نہ سماتے تھے، خوشی خوشی ایک ٹریول ایجنٹ محمد سلیم جو آپ کے پاس نور مسجد میں آتے جاتے تھے اُن کو ٹکٹ بُک کرنے کا فرمایا۔اُنہوں نے جس ائیر لائن میں ٹکٹ بُک کی،امیرِاہلِ سنّت اُس میں سفر نہیں کرنا چاہتے تھے،اللہ پاک کی رحمت سےکافی کوشش کےبعد محنت رَنگ لے آئی اورجس فلائٹ کی تمنا تھی وہ بھی پوری ہوئی اور ٹکٹ بُک ہوگئی۔ اللہ کا کرنا دیکھئے! کہ جس دِن جس وقت امیرِاہلِ سنّت کی فلائٹ اُڑی ،اُس سے کچھ ہی دیرقبل وہ ائیر لائن بھی روانہ ہوئی جس میں اِس سے پہلے امیرِاہلِ سنّت کی ٹکٹ بُک ہوئی تھی، جدّہ شریف پہنچ کر اطلاع ملی کہ اُس ائیر لائن میں آگ لگنےسےتمام مسافر فوت ہوگئے۔اللہ کریم! اُس حادثے میں فوت ہونے والےعاشقانِ رسول کی بے حساب مغفر ت فرمائے۔ (گویا امیرِاہلِ سنّت مدینۂ پاک کی حاضری کےلئے ہی بُلائے گئے تھے۔)
جسے چاہا دَر پہ بُلالیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
کراچی میں امیرِاہل ِسنّت کے بعض دوستوں کو جب اُس جہاز کے حادثے کا پتا چلا تو وہ سمجھے کہ امیرِاہلِ سنّت اُسی فلائٹ میں تھے لہٰذاوہ تعزیت کےلئےکراچی میں آپ کے گھراَولڈ ٹاؤن میٹھا دَر آئے ،جب امیرِاہلِ سنّت کو اِس معاملے کی کسی طرح خبر پہنچی تو آپ نے اپنے دوست کے ذریعے کراچی میں یہ خبر بھیجوائی کہ الحمدُلِلّٰہ میں بخیروعافیت جدّہ شریف میں ہوں ۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہاں یہ عرض کرتاچلوں کہ جب کبھی سفر کریں تو خیریت سے اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ کر اپنےگھر اطلاع کردینی چاہئےتاکہ والدین و دیگر عزیزوں کو کسی قسم کی تشویش نہ ہوورنہ ممکن ہے کہ کسی وجہ سے وہ آپ سے رابطہ کر رہے ہوں اور رابطہ نہ ہونے کی صورت میں تشویش میں مبتلا ہوں۔ اللہ پاک ہمیں ایمان و عافیّت سے سبزسبز گنبد کےسائے میں شہادت ،جنّتُ البقیع میں مدفن اورجنّت ُ الفردوس میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس نصیب فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔
غالباً5شوال المکرم 1400ھ کی مبارک گھڑی امیرِاہل ِ سنّت جدّہ شریف ائیر پورٹ پر اُترے تو آپ کو پتا چلاکہ آ پ کا لگیج(Luggage)گُم ہوگیا ہے،بڑی تلاش کے بعد بھی جب بیگ نہ مِلا توآپ یہ سوچ کر کہ ’’جان کے بدلے بیگ چلا گیا ‘‘بقیہ سامان (Hand carry) لے کر کسٹم روم سے باہر تشریف لےآئے اور جو دوست لینےآئے تھے اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کے ہر فیصلے پر راضی رہنا چاہئے،فُضول شِکوہ شکایت کرنے کا کوئی فائد ہ نہیں بلکہ ہوسکتاہے مصیبت پر ملنے والے اَجر سے محرو می ہوجائے،امیرِاہلِ سنّت کی پیار ی پیاری سوچ پر قربان!آپ اللہ پاک کے مقبول بندوں میں سے ہیں ،دوسرے وَطن میں پہنچتے ہی سامان کھوجانا کتنی بڑی پریشانی کا سبب ہے یہ وہی جان سکتاہے جس کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہو،آپ نے اِتنی بڑی پریشانی کے باوجود شکوہ وشکایت نہیں کی اوریہی ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے ۔بہت بڑے وَلِیُّ اللہ حضرتِ سہل بن عبد اللہ تُستَری رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ چور میرے گھر میں داخِل ہو کر تمام مال چُرا کر لے گیا ہے۔یہ سُن کر آپ نے بڑےحکمت بھرے اَنداز میں اِرشادفرمایا:یہ مقامِ شکرہے کہ چور آیا اور مال چُرا کر لے گیا، اگر شیطان چور بن کر آتا اور مَعاذَ اللہ تمہارا اِیمان چُرا کر لے جاتا تو پھر کیاکرتے؟ اللہ ربُّ العزَّت کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین
زباں پرشِکوۂ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
اپنےدِل میں حاضریٔ مدینہ کی تڑپ رکھنے والو!ذرا تصوُّر توکیجئے کہ وہ وقت کیسا سُہانا ہوگا جب ہم ایسی گاڑی پر سوار ہوں جو مدینۂ مُنوَّرہ کی طرف رَواں دواں ہواورہمیں معلوم ہوکہ کچھ دیر بعد ہم واقعی سچ مُچ مدینۂ پاک میں داخل ہوجائیں گے ،وہ سبز سبز گنبد کے جلوے،وہ مسجدِ نبوی شریف کےپُررونق مینار،وہ حرمِ مدینہ،وہ سنہریاں جالیاں اور ریاضُ الجنۃ ( )کا حسین و دلکش منظر۔۔۔آہ !کاش۔۔۔
میں پُھول کو چُوموں گا اور دُھول کو چُوموں گا جس وقت کروں گا میں دیدار مدینے کا
آنکھوں سے لگالوں گا اور دل میں بَسالوں گا سینے میں اُتاروں گا میں خار مدینے کا
اے عاشقانِ رسول! حقیقی عاشقِ مدینہ امیرِاہلِ سُنّت کراچی سے مدینۂ منورہ کے اِرادے سے چلے تھے یُوں حالتِ احرام میں نہیں تھے کیونکہ جو مکۂ پاک کے اِرادے سے میقات میں داخل ہوتاہے اُس کےلئے اِحرام باندھنا ضروری ہوتاہے۔(رفیق الحرمین، ص 327مفہوما) امیرِ اہلِ سُنّت کی گاڑی جدّہ شریف سے سوئے مدینہ جُھومتی ہوئی روانہ ہوئی۔یہ ایسا خوبصورت اور منفردسفر تھاکہ اِس کوکماحقُّہ(یعنی جس طرح اِس کا حق ہے) تحریر میں لانا قریب بہ ناممکن ہے کیونکہ حقیقی دیوانۂ مدینہ کےدِل کی کیفیات کو الفاظ میں کیسے سمویاجاسکتا ہے،البتہ اپنے اَنداز میں سفرِ مدینہ کا حال پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اُن دِنوں عرب شریف میں بڑی گرمی تھی گویا سورج بھی فضائے عرب کی خُوب برکتیں لے رہا تھا۔ امیرِاہلِ سنّت جس کار میں سوار تھے وہ ایئرکنڈیشنڈ تھی اورباہر سخت لُو چل رہی تھی لیکن حقیقی دیوانہ ٔ مدینہ کے دِل کی کیفیات بیان سے باہر تھیں،ایئر کنڈیشنڈ کار میں بیٹھنے کے باوجودآپ بار بار کارکا شیشہ کھول کرصحرائے عرب کی فضا سے لُطف اَندوز ہوتے۔ عاشقوں کے دیارِ محبوب سے اِس طرح کے عاشقانہ اَنداز کوئی نئی بات نہیں۔ کوچۂ محبوب کے ذَرّے ذَرّےسے اُلفت و محبت ہوتی ہے۔
آ اِدھر روح کی ہرتہہ میں سمو لوں تجھ کو اے ہوا تُونے تو سرکار کو دیکھا ہوگا
بہرحال گاڑی سوئے مدینہ جارہی ہےاورنعت شریف چل رہی ہے،چونکہ زندگی کا پہلاسفر تھاکبھی خوشی اورکبھی دِل میں ہیبت سی ہوگی کیونکہ عنقریب عاشقوں کی بستی مدینۂ پاک میں حاضری ہے،کِس بارگاہِ بے کس پنا ہ میں حاضری کا قَصد ہے،بہرحال دیوانگی کے بھی اپنے اَنداز ہوتے ہیں ہمیں کبھی بھی کسی کی دیوانگی پر اعتراض اور بُرے خیال کو دِل میں نہیں لانا چاہئے ،ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم اِس عظیم دولت سے محروم رہیں ۔
نہ کسی کے رَقص پہ طنز کر نہ کسی کے غم کا مذاق اُڑا
جسے چاہے جیسے نواز دے یہ مزاجِ عشقِ رسول ہے
یہ اُلفت و محبت کا حسین اَنداز کسی معمولی شہر یا معمولی جگہ سے نہیں بلکہ یہ اُس شہرِ مدینہ سے پیار کا اِظہار ہے جو سب شہروں کا بادشاہ اوریہاں تشریف فرما ہونے والے سارے نبّیوں کے شہنشاہ ہیں۔
نبیوں میں جیسے افضل و اعلیٰ ہیں مصطفےٰ شہروں میں بادشاہ ہے مدینہ حضور کا