Null
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Anwaar ul Hadees | انوار الحدیث

    book_icon
    انوار الحدیث
                
    554 احادیث اور 474 مسائل کامستند ذخیرہ اَنْوارُ الحَدِیْثْ پیشکش مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی ) (شعبۂ درسی کتب) ناشر مکتبۃ المد ینہ باب المدینہ کراچی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ’’ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ‘‘ کے ۱۹ حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی ۱۹ ’’ نیتیں ‘‘ فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہ ۔ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔ ( المعجم الکبیر للطَبَراني ، الحدیث : ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵) دو مَدَنی پھول: {۱} بغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ {۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ {۱}ہر بارحمد و {۲}صلوٰۃ اور{۳}تعوُّذو{۴}تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔ (اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)۔ {۵}رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کے لیے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ {۶} حتَّی الْوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور {۷}قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا۔ {۸}کتاب کو پڑھ کرکلام اللہ وکلام رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوصحیح معنوں میں سمجھ کر اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کروں گا۔ {۹}درجہ میں اس کتاب پر استاد کی بیان کردہ توضیح توجہ سے سنوں گا۔ {۱۰}استاد کی توضیح کو لکھ کر ’’ اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ عَلَی حِفْظِکَ ‘‘پر عمل کروں گا۔ {۱۱}طلبہ کے ساتھ مل کر اس کتاب کے اسباق کی تکرار کروں گا۔ {۱۲}اگر کسی طالب علم نے کوئی نامناسب سوال کیا تو اس پر ہنس کر اس کی دل آزاری کا سبب نہیں بنوں گا۔ {۱۳}درجہ میں کتاب ، استاد اور درس کی تعظیم کی خاطر غسل کرکے ، صاف مدنی لباس میں ، خوشبو لگا کر حاضری دوں گا۔ {۱۴}اگر کسی طالب علم کو عبارت یامسئلہ سمجھنے میں دشواری ہوئی تو حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ {۱۵}سبق سمجھ میں آجانے کی صورت میں حمد الٰہی عَزَّ وَجَلَّ بجا لاؤں گا۔ {۱۶}اورسمجھ میں نہ آنے کی صورت میں دعاء کروں گااور باربارسمجھنے کی کوشش کروں گا۔ {۱۷}سبق سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں استاد پر بدگمانی کے بجائے اسے اپنا قصور تصور کروں گا۔ {۱۸}کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو نا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا۔ (مصنّف یاناشِرین وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا) {۱۹}کتاب کی تعظیم کرتے ہوئے اس پرکوئی چیزقلم وغیرہ نہیں رکھوں گا۔ اس پر ٹیک نہیں لگاؤں گا۔ ٭…٭…٭…٭ المد ینۃ العلمیۃ از:بانیِ دعوتِ اسلامی ، عاشق اعلیٰ حضرت، شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ الحمد للّٰہ علی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے ، اِن تمام اُمور کو بحسن وخوبی سر انجام دینے کے لیے متعدِّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالی پر مشتمل ہے ، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳) شعبۂ اِصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۵)شعبۂ تراجِم کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی ٔ سنّت، ماحی ٔبِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسع سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے ۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ، تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے ۔ ہمیں زیرِ گنبدِ خضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط اللہ تبارک و تعالی کا فرمانِ عالی شان ہے : { قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ}( آل عمران : ۳۱) ترجمۂ کنزالایمان :’’اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا ۔ ‘‘ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صدرا لافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب آدمی سید عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا متبع ہو اور حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اطاعت اختیارکرے ۔ ‘‘کچھ آگے چل کر فرماتے ہیں :’’محبت الہٰی کا دعویٰ سید عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اتباع و فرمانبرداری کے بغیر قابل قبول نہیں ، جو اس دعویٰ کا ثبوت دینا چاہے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی غلامی کرے ۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کی جائے اوراس اتباع کاثمرہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک مقام محبوبیت کی صورت میں حاصل ہو گا۔ یہ بات محتاج ِ بیان نہیں کہ حضور معلم کائنات علیہ افضل الصلاۃ کی اتباع کے لئے آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اقوال و افعال اوراحوال کا جاننا از حد ضروری ہے اور ان اقوال وافعال اور احوال کو ہی حدیث کہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سلف خلف نے احادیث کو یاد کرنے اور انھیں دیگر لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہر دور میں بہت اہتمام فرمایا ہے یہاں تک کہ یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ آج تک جتنی بھی کتب لکھی گئیں ان میں سب سے زیادہ کتب کا موضوع حدیث ِرسولِ مقبول ہی بنا ۔ اور کیوں نہ ہو کہ بقولِ اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت : میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جسکا بیاں نہیں بلا شبہ احادیث نبویہ علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیم دین اسلام کے مآخذ میں سے ہیں اور ہر دور میں ائمہ دین ان کی خدمت کرتے رہے اور یہی احادیث نبویہ انسانی زندگی کا ضابطہ ہیں اور حیاتِ انسانی کا کوئی ایسا موڑ نہیں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہنمائی نہ فرمائی ہو۔ کہیں صوم وصلوۃ کا بیان ہے تو کہیں حج وزکوۃ کا بیان، کہیں والدین کے حقوق کے انمول موتی ہیں تو کہیں زوجین کے حقوق کے دُرّ ِنایاب، کہیں اچھے تاجر کی خصوصیات کا تذکرہ ہے تو کہیں بیع وشراء کے انمول اصول، کہیں دنیا کی مذمت کا بیان ہے تو کہیں آخرت سنوارنے کی ترغیب۔ الغرض قدم قدم پر پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری باتیں ہماری رہنمائی کے لئے موجودہیں ، مگر پھر بھی انسان خواب ِغفلت کا شکار ہے ۔ رب العالمین اپنی کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے حضرت علامہ مولانامفتی جلال الدین احمدامجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِی کے مرقد پر جنہوں نے احادیث ِنبویہ علٰی صاحبھا الصلاۃُ والتسلیم مع ترجمہ اور انکے تحت اہم مسائل عام فہم انداز میں بنام’’ انوار الحدیث‘‘ لکھ کر لوگوں کوعمل کا جذبہ دیااور انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ الحمد للہ علی احسانہ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی ‘‘کی مجلس ’’ المدینۃ العِلمیہ ‘‘ کے ’’شعبۂ درسی کتب‘‘ نے ’’ انوار الحدیث ‘‘پر بہترانداز میں کام کرنے کی سعی کی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے : (۱)…اس سے پہلے مختلف اشاعتی اداروں سے چھپنے والی’’ انوار الحدیث‘‘ میں کتابت اور پروف ریڈنگ کی اَغلاط تھیں ، ہم نے اول تا آخر کئی باراسکا بغور مطالعہ کر کے حتی الوسع اَغلاط کو دور کردیا ہے ، اس بات کا اندازہ ہر دو کے تقابل سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے ۔ (۲)…احادیثِ مبارکہ اور مشکل الفاظ پر اعراب لگادیئے گئے ہیں ۔ (۳)…علاماتِ ترقیم(رموزِ اوقاف) کا بھی حتی المقدور خیال رکھا گیا ہے ۔ (۴)… آیات مبارکہ کے حوالے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے اور احادیث کریمہ ، اقوالِ صحابہ وتابعین وغیرہ کی تخریج بھی کی گئی ہے ۔ (۵)…تخریج کرتے ہوئے جلدکی جگہ ’’ج‘‘، صفحہ کی جگہ’’ص‘‘ اور’’ رقم الحدیث‘‘ کا اہتمام کیا ہے ۔ (۶)…بہارِ شریعت کے حوالے کے بعد اصل ماخذ سے بھی تخریج کی گئی ہے ۔ (۷)…انوار الحدیث میں جہاں جہاں بہار ِشریعت کے حوالہ جات موجود ہیں انکی تخریج دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ’’بہارِ شریعت جلد اول حصہ ۱تا ۶‘‘اور’’جلد دوم حصہ ۷ تا ۱۳‘‘سے ، نیز الگ سے مطبوعہ’’سولہویں حصے ‘‘سے کی گئی ہے اور بقیہ حصوں کی تخریج’’بہارِ شریعت مطبوعہ مکتبہ رضویہ‘‘ سے کی گئی ہے ۔ (۸)…وہ بعض کتب جو ہمارے پاس نہیں تھیں اور’’انوار الحدیث‘‘ میں ان کی تخریج موجود تھی تو انہیں ویساہی رکھا ہے اور جن عبارات کا حوالہ وتخریج ’’انوار الحدیث‘‘ میں نہیں تھا تو ان کی تخریج کردی گئی ہے ۔ (۹)… پہلے سے موجود حوالوں کی تخریج کو برقرار رکھتے ہوئے ہم نے حاشیہ میں موجودہ ورائج الوقت کتب سے الگ تخریج دی گئی ہے ۔ (۱۰)… تخریج کرتے ہوئے ان کتب کا حوالہ دیا گیاہے جن کے متون حوالہ دی گئی کتب کے قریب قریب ہیں ۔ (۱۱)…اس کتاب میں ایک ہزار سے زائد حوالوں کی تخریج کی گئی ہے ۔ (۱۲)…کئی حوالو ں کی ایک سے زائدکتب سے تخریج کی گئی ہے ۔ (۱۳)…کتاب میں جگہ بہ جگہ قارئین کے علمی ذوق کو بڑھانے کے لئے ہم نے انتہائی اہم معلومات پر مشتمل مدنی پھولوں کا اضافہ کیا ہے جن کی افادیت کا اندازہ ان کے مطالعہ کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے ۔ (۱۴)…کتاب کے ہر باب کو الگ صفحے سے خوبصورت عنوان کے ساتھ شروع کیا گیاہے ۔ آخر میں قارئین کرام سے گذارش ہے کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود اگر کسی قسم کی خصوصاشرعی غلطی پائیں تو مجلس کو تحریراًمطلع فرماکر مشکور ہوں ۔ (۱۵)…قرآنی آیات کی رائج الوقت خوبصورت رسم الخط میں پیسٹنگ کی ترکیب کی گئی ہے ۔ اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ بانی ٔدعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری مد ظلہ العالی وتمام علماء ِاہلِ سنت کا سایۂ عاطفت ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے اور ہمیں ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض فرمائے اور قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوت اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بشمول ’’المدینۃ العلمیہ‘‘ کو دن پچیسویں ، رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے ۔ ( آمین بجاہ النبی الأمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) شعبۂ درسی کتب مجلس: المدینۃ العِلمیہ (دعوت اسلامی) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    تعارف مصنف انوار الحدیث

    (از:مصنف انوارالحدیث حضرت علامہ مولانامفتی جلال الدین احمد امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِی )

    پیدائش:

    ۱۳۵۲؁ھ مطابق۱۹۳۳؁ء میں ضلع’’ بستی(یوپی)‘‘کی مشہور آبادی’’اوجھاگنج‘‘میں میری پیدائش ہوئی جو شہر بستی سے بیس۲۰ کلومیٹر پچھم(مغرب) ’’فیض آبادروڈ‘‘سے دو۲ میل دکھن(جنوب میں ) واقع ہے ۔

    نام ونسب:

    جلال الدین احمد بن جان محمد بن عبد الرحیم بن غلام رسول بن ضیاء الدین بن محمد سالک بن محمد صادق بن عبد القادر بن مراد علی۔ غَفَرَاللّٰہُ لَہُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ ( اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کی اورتمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے ۔ آمین)

    خاندانی حالات:

    آخر الذکر ضلع فیض آباد’’بڑہر‘‘علاقہ کے مشہورو معروف راجپوت خاندان کے ایک فردتھے جو مراد سنگھ کے نام سے یاد کئے جاتے تھے ۔ وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر جب ایمان کی دولت سے سرفرازہوئے تومراد علی کہلائے ۔ گھر والوں نے دباؤ ڈال کراسلام سے برگشتہ کرناچاہاتوزمیں داری وتعلقہ داری چھوڑ کر ضلع فیض آباد کی مشہورمسلم آبادی’’قصبہ شہزاد پور‘‘میں سکونت اختیار کرلی جن کی اولاد کثیر تعداد میں آج بھی قصبہ مذکورمیں آباد ہے ۔ ان کی اولاد میں سے ضیاء الدین مرحوم بغرض تجارت ضلع بستی کے مختلف قصبات وبازارمیں آتے رہے ۔ اسی اثنا میں ’’اوجھا گنج‘‘کے مسلمانوں سے تعلقات پیداہوگئے تودوستوں کے مشورہ سے زمین خرید کر اسی آبادی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

    آباء واجداد:

    میرے دادا’’عبد الرحیم‘‘ نہایت سلیم الطبع، پاکباز اورعبادت گزارتھے جوعین جوانی میں انتقال کرگئے ان کے ایک بھائی عبد الکریم حاجی تھے جو زندگی بھر فی سبیل اللہ مسجد کی امامت کرتے رہے اور دوسرے بھائی عبد المقیم تھے جو بہت متقی اور پرہیزگار تھے اور’’ رودھولی‘‘کے قریب اپنے سسرال میں رہتے تھے ۔ انتقال کے چھ ماہ بعد پانی کے بہاؤ سے متاثر ہوکر ان کی قبر کھل گئی تولاش تروتازہ تھی اور کفن بھی میلا نہ ہواتھا۔ میرے والد’’جان محمد‘‘مرحوم عرصہ دراز تک اپنے گھر فی سبیل اللہ بچوں کو مذہبی تعلیم دیتے رہے اور بابا عبدالکریم نے اپنی زندگی میں انہیں جامع مسجدکاامام مقرر کیا تو وہ محض رضائے الہی کی خاطر بلاتنخواہ زندگی بھر پابندی کے ساتھ نماز پنجگانہ اور جمعہ وعیدین کی امامت فرماتے رہے ۔ بڑے متقی وپرہیزگار تھے آج بھی آبادی کے لوگ ان کے تقوی وپرہیزگاری کویاد کرتے ہیں اور ان کا تذکرہ بڑے احترام سے کرتے ہیں ۔ میری والدہ مرحومہ’’بی بی رحمت النساء‘‘ ایک دیندار گھرانے کی لڑکی تھیں ۔ بہت نمازی اورصبح تلاوتِ قرآن مجید کی بے حد پابند تھیں ۔ ’’دعائے گنج العرش‘‘ اور’’درودلَکھی‘‘ان کوزبانی یادتھی، جن کو روزانہ بلا ناغہ پڑھا کرتیں ۔ ۱۴جمادی الاولی۱۳۹۹؁ھ مطابق۱۲اپریل۱۹۷۹؁ء کومیں ان کے ظاہری سایہ سے محروم ہوگیا۔ خدائے تعالی ان کی قبرپررحمت کے پھول برسائے ۔ انہوں نے میری تعلیم کے بارے میں جوکردار پیش کیاہے اس کی مثال اس زمانہ میں ملنا مشکل ہے ۔ میں ان کے بڑھاپے کااکلوتابیٹاتھا اور پہلی بارجب میں ’’ناگپور‘‘گیا توڈھائی سال کے بعد آیااس درمیان میں انہوں نے میرے پاس آنے کے بارے میں خط تک نہ لکھاتاکہ تعلیمی نقصان نہ ہو۔ فَجَزَاہَا اللّٰہُ تَعَالٰی خَیْرَ الْجَزَاءِ ( اللہ تعالی انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے ۔ آمین)

    آغاز تعلیم:

    عمر کے پانچویں ۵ سال میں اپنے والد کے شاگرد مولوی زکریاصاحب مرحوم جو’’اوجھاگنج‘‘ہی میں فی سبیل اللہ اپنے گھر ایک مکتب چلاتے تھے ۔ ان سے قاعدہ بغدادی شروع کیا۔ ۱۳۵۹؁ھ مطابق۱۹۴۰ء میں سات سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیاتومولوی محمد زکریاصاحب مرحوم جو حافظ قرآن تونہ تھے مگر حافظوں کے مثل ان کوقرآن مجید یاد تھا انہیں سے میں نے حفظ پڑھناشروع کردیا۔

    تعلیم کا شوق اور حفظ قرآن کی تکمیل:

    سات آٹھ سال کی عمر میں بھی مجھے پڑھنے کااس قدر شوق تھاکہ صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے سخت سردی کے زمانہ میں بھی سب سے پہلے مکتب پہنچ جاتاتھا۔ ایک بارجل جانے کے سبب بائیں گھٹنے میں ایسا زخم ہوا کہ میں پاؤں سے چل کر مکتب نہیں جاسکتاتھاتوایک پاؤں اور دونوں ہاتھوں کی ٹیک سے چل کربرابرمکتب جاتارہا ایک دن بھی ناغہ نہ کیا۔ بحمدہ تعالی ثم بکرم حبیبہ الاعلی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۱۳۶۳؁ھ مطابق۱۹۴۴؁ء میں صرف ساڑھے تین برس کے اندرساڑھے دس سال کی چھوٹی سی عمر میں حفظ مکمل ہوگیابہت سے لوگ مجھے نابالغ حافظ کہتے اور میری کم سنی کے سبب دوسری آبادی کے لوگ مجھے پوراحافظ یقین کرنے میں تامل کرتے ۔ بالغ ہونے کے بعد میں نے ۱۹۴۸؁ء میں سب سے پہلے ’’ناگپور‘‘ تراویح میں قرآن مجید سنایا۔ پھر۱۹۶۵؁ء تک مختلف مقامات پر سناتا رہا۔ یہاں تک کہ شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان کے مرید خاص الحاج سیٹھ حیات محمد صاحب مرحوم نے اپنی مسجد واقع حیات نگر، فارسی باڑی محلہ گھاٹ کوپربمبئی میں زندگی بھر قرآن مجید سنانے کا وعدہ لے لیا جس میں ۱۹۶۶؁ء سے برابر تراویح پڑھارہاہوں ۔

    تعلیم کا پہلا سفر:

    حفظ کی تکمیل کے بعددور سنانے اور فارسی وعربی پڑھنے کیلئے میں نے ضلع فیض آباد کے قصبہ’’ التفات گنج‘‘ کا پہلاسفر کیا۔ کھانے کابارپہلے ہمارے ایک رشتہ دار جناب نبی بخش مرحوم نے برداشت کیا۔ پھر سترہ روز’’ محلہ باغیچہ‘‘کے اہل خیر حضرات کے یہاں جاگیر کھانے کے بعد ایک شخص نے مجھے بھائی بنالیا۔ (افسوس کہ حدیث ’’ لا تُجَالِسُوْہُم بدمذہبوں کی صحبت میں نہ بیٹھو‘‘ پرعمل نہ کرنے کے سبب وہ بعد میں گمراہ ہوگیا۔ )میں اس کا کچھ کام بھی کردیاکرتاتھا اور صبح وشام پابندی کے ساتھ پڑھنے بھی جایاکرتا۔ چوں کہ حفظ کے دوران خارج اوقات میں اردو لکھناپڑھناہم نے خود ہی سیکھ لیا تھا اس لیے التفات گنج میں حفظ کادور سنانے کے ساتھ میں نے ’’فارسی آمد نامہ‘‘ شروع کردیا جسے مولوی عبد الرؤف صاحب نے پڑھایااور بانی فیض الرسول شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی قبلہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پیرزادہ حضرت مولانا عبد الباری صاحب سے فارسی کی چھوٹی بڑی بارہ۱۲ کتابیں پڑھیں اور عربی کی ابتدائی تعلیم بھی انہیں سے حاصل کی۔

    تعلیمی رکاوٹیں :

    ۱۳۶۳؁ھ اور۱۹۶۴؁ء میں مسلسل ہمارے گھر کئی حادثے پیش آئے جب میرا حفظ قریب الختم تھا تومیرے نوجوان بھائی محمد نظام الدین جوگھرکا بارسنبھالے ہوئے تھے اچانک ۴رمضان المبارک ۱۳۶۳؁ھ کو انتقال کرگئے ۔ اس صدمہ سے گھر کے سب لوگ نیم جان ہوگئے ۔ پھر آٹھ دس ماہ کے وقفہ سے گھر میں دوبارایسی چوری ہوئی کہ چوروں نے پانی پینے کیلئے گلاس تک نہ چھوڑا۔ پھر۳۰رمضان المبارک ۱۳۶۴؁ ھ مطابق۱۹۴۵؁ء کو موسلا دھار بارش کے ساتھ ہمارے والد کی چھتری پرایسی بجلی گری کہ ساتھ کے تین آدمی فورامرگئے اور والد صاحب مرحوم اگرچہ بچ گئے مگر اتنے کمزور ہوگئے کہ زیادہ کام کے قابل نہ رہ گئے ۔ گھر کے سارے اخراجات کاباروالد صاحب ہی پرتھاکہ میرے علاوہ ان کا اورکوئی بیٹانہ تھا۔ غربت وافلاس نے ہرطرف سے گھیر لیامگر اس کے باوجود میری تعلیم کو انہوں نے بندنہ کیا۔ آخر مجھ سے گھر کی یہ تنگدستی دیکھی نہ گئی تو۱۳۶۵؁ھ مطابق۱۹۴۶؁ء میں ’’التفات گنج محلہ باغیچہ‘‘ کے پرانے رئیس حاجی محمد شفیع صاحب مرحوم جونہایت متقی، پرہیز گار، صبح تلاوت قران مجید کے پابند، شریف الطبع اور مدرسہ کے خزانچی تھے ، میں نے ان کے یہاں دس ۱۰روپے ماہوراراور کھانے پراس شرط کے ساتھ ملازمت کرلی کہ صبح وشام دودوگھنٹے میں پڑھنے بھی جایاکروں گا اس طرح تقریباایک سال گزرااور ہم نے التفات گنج کے مدرسہ کاموجودہ نصاب پوراکرلیا۔ اب گھر کے لوگ اور دوسرے متعلقین میری تعلیم بندکرنے اورمستقل طورپرکسی کام میں لگادینے کی باتیں کرنے لگے یہاں تک کہ والدین نے یہ مسئلہ میرے سامنے رکھاتو ان لوگوں کومیں نے اپنی تعلیم کے جاری رکھنے پرراضی کرلیااس لیے کہ میرے بڑے بھائی محمد نظام الدین مرحوم نے انتقال سے پہلے کہا تھا کہ میری تمنا تھی کہ’’ میں تمہیں پڑھنے کیلئے بریلی شریف بھیجتااور تمہیں عالم دین بناتامگر افسوس کہ میں اب زندہ نہ رہوں گا۔ ‘‘مجھے ان کی تمنا پوری کرنے کی لگن تھی اورپھر میں یہ سوچتاکہ’’ لوگ مجھے حافظ کہتے ہیں مگر میں تو جاہل ہوں کہ جاہلوں کی طرح میں بھی مسئلہ مسائل کچھ نہیں جانتا فرق صرف اتناہے کہ وہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھتے ہیں اور میں زبانی پڑھتاہوں ‘‘اس لیے میں عالم ضرور بنوں گا۔

    تعلیم کا دوسرا سفر:

    اب مجھے ایسے مدرسے کی تلاش ہوئی کہ جہاں رات میں تعلیم ہوتی ہواور وہ شہر میں ہوتاکہ میں رات کو پڑھوں اور شہر میں کوئی کام کرکے اپنے والدین کی خدمت بھی کرتارہوں ۔ معلوم ہوا کہ شہر’’ ناگپور(سی۔ پی)‘‘میں رات کو تعلیم ہوتی ہے تو۱۹۴۷؁ء کے ہنگامے کے فورا بعد جب کہ ٹرین میں مسلم ڈبے مخصوص ہوتے تھے میں ’’ناگپور‘‘پہنچ گیا۔ حضرت علامہ ارشدالقادری صاحب قبلہ مدظلہ العالی فاتح جمشیدپوراس زمانہ میں ’’مدرسہ اسلامیہ شمس العلوم‘‘ کے صدر المدرسین تھے ۔ صبح ۸بجے سے ۱۲بجے اور رات میں ۸بجے سے ۱۰بجے رات تک درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ۔ بیس پچیس لڑکے ان سے رات میں پڑھتے تھے ۔ میں بھی بعدمغرب کھانے کے بعد پڑھنے کیلئے حاضرہوجاتااور گیارہ بارہ بجے رات تک پڑھتاپھراپنی قیام گاہ پرآکرسوجاتا اور صبح سے شام تک کام کرتاجس سے پچیس تیس روپے ماہانہ اپنے والدین کی خدمت کرتااور اپنے کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کاانتظام کرتاتواس طرح’’ ناگپور‘‘ میں میری تعلیم کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔

    شرف بیعت:

    مجھے مسئلہ مسائل کے جاننے کا بڑا شوق تھااس لیے میں بچپن ہی سے ’’بہارشریعت‘‘کانام سنتاتھااور فقہ حنفی کی اس عظیم کتاب کودیکھ کراس کے مصنف صدرالشریعہ حضرت علامہ مولاناحکیم ابوالعلامحمد امجد علی صاحب اعظمی قدس سرہ العزیز سے عقیدت رکھتاتھا۔ حضر ت علامہ سے معلوم ہوا کہ حضرت صدرالشریعہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان کے خلیفہ ہیں تو۲۹جمادی الاولی ۱۳۷۸؁ھ مطابق ۱۹۴۸؁ء کواپنے ساتھیوں کے ساتھ میں بھی حضرت سے مرید ہوکر سلسلہ رضویہ میں داخل ہوگیا۔

    والد کا انتقال اور دینی خدمات کا آغاز:

    ابھی میری تعلیم کا سلسلہ جاری تھاکہ ذی الحجہ ۱۳۷۰؁ ھ کی ابتدائی تاریخوں میں والد صاحب زیادہ بیمار ہوگئے ۔ گھر والوں نے ان سے کہا کہ’’ آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ کا ایک ہی فرزند ہے اسے خط بھیج کربلا لیجئے ۔ ‘‘ فرمایا کہ’’ نہیں پڑھائی کا نقصان ہوگا۔ ‘‘مگر بقر عید کے بعد جب وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے توگھروالوں نے ان کی اجازت کے بغیر مجھے ٹیلی گرام دے دیا۔ گومیں گھرکے حالات سے بے خبرتھا لیکن دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ، میری طبیعت بہت اچاٹ ہوئی توٹیلی گرام ملنے سے پہلے ہی میں ۱۷ذی الحجہ کو گھرآگیااور۲۰ذی الحجہ۱۳۷۰ھ مطابق ۱۹۵۱ء کو والد ماجد وصال فرماگئے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوَنَ میں گھر والوں کی دلجوئی کی خاطر کچھ دنوں کیلئے مکان پر ٹھر گیا اسی درمیان میں ’’دو بولیا بازار‘‘ جو’’اوجھاگنج‘‘ سے پانچ کلو میٹردکھن واقع ہے ، وہاں کے مسلمانوں نے مجھے تقریر کیلئے بلایا تومیں نے وہاں ایک مدرسہ قائم کردیا۔ لوگوں نے مجھ ہی کو پڑھانے کیلئے مجبورکیا تو کچھ دنوں کیلئے میں نے منظورکرلیا اور جب مدرسہ کا نظام مستحکم ہوگیاتومیں پھر’’ناگپور‘‘جاکر حصول تعلیم میں لگ گیااور اٹھارہ سال کی عمر میں ۲۴شعبان المعظم ۱۳۷۱؁ھ مطابق۱۹مئی ۱۹۵۲؁ء کو حضرت علامہ ارشد القادری دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دس ساتھیوں کے ساتھ مجھے سندِ فراغت عطافرمائی۔ اس طرح’’اوجھا گنج‘‘کی تاریخ میں ہم سب سے پہلے فارغ التحصیل ہوئے دستاربندی کے بعد میں پھر’’دوبولیابازار‘‘کے مدرسہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگا۔ اور اس کے تعلیمی معیارکو بلند کرنے کی کوشش کی مگر اراکین حوصلہ مند نہ تھے انہوں نے میراساتھ نہ دیا۔ مجھے اپنی ترقی کی راہ مسدود نظر آئی تومیں نے استعفا دے دیا۔

    جمشید پورمیں :

    حضرت علامہ نے ہم لوگوں کی دستاربندی کے بعدناگپورسے جمشیدپورجاکرمدرسہ فیض العلوم قائم کیا۔ دوبولیا کے مدرسہ سے ذی قعدہ۱۳۷۳؁ھ مطابق۱۹۵۴ء میں مستعفی ہوکرحضرت کی طلب پرمیں بھی جمشیدپورپہنچ گیا۔ اسی زمانہ میں جمشیدپورکاتاریخی مناظرہ ہواجس میں اہلسنت والجماعت کوفتح مبین حاصل ہوئی اورمناظر اہل سنت حضرت علامہ ارشدالقاری صاحب قبلہ کوجلیل القدرعلمائے کرام نے فاتح جمشیدپورکاخطاب عطافرمایا۔ چونکہ مدرسہ فیض العلوم میں بروقت کسی مدرس کی ضرورت نہ تھی اس لیے مجھے ایک مکتب میں پڑھانے کیلئے مقرر کیاگیاتومیں دل برداشتہ ہوکرتقریباپانچ ماہ بعدحضرت علامہ کی اجازت سے گھرچلاآیا۔

    بھاؤپورضلع بستی میں :

    اس زمانہ میں بانی فیض الرسول شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمدیارعلی صاحب قبلہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ گیارہویں شریف کی تقریب موضع صمدہ ضلع فیض آبادمیں کیا کرتے تھے ۔ اوراس وقت شیربیشہ اہلسنت حضرت علامہ حشمت علی خان صاحب قدس سرہ اکثرشعیب الاولیاء کے ہمراہ رہاکرتے تھے ۔ میں نے حضرت شعیب الاولیاء سے گیارہویں شریف کے موقع پرصمدہ میں ملاقات کی توحضرت نے بڑی قدرکی اورحضرت شیربیشہ اہلسنت سے میرا تعارف کرایاتووہ بھی بہت عزت سے پیش آئے ۔ پھر دونوں بزرگوں کے مشورہ سے ’’بھاؤپور‘‘ ضلع بستی کے مدرسہ قادریہ رضویہ کی تدریسی خدمات کیلئے مقرر کردیاگیا اس طرح میں جمادی الاولی ۱۳۷۴؁ھ مطابق ۱۹۵۵ء میں ’’بھاؤپور‘‘آگیا۔ وہاں کئی سال پہلے سے حضرت شیر بیشہ اہلسنت کی سرپرستی میں مدرسہ چل رہاتھا۔ لیکن چونکہ وہاں کی خمیر میں فتنہ ہے اس لیے مجھ سے پہلے بہت سے علماء آئے اور فتنے سے عاجز آکرچلے گئے ۔ میں نے وہاں پہنچ کرمدرسہ کو ترقی دینے کی بھرپورکوشش کی اور رات دن کی دوڑ دھوپ سے مدرسہ کو اس منزل پرپہنچادیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی لیکن میری موجودگی میں بھی فتنہ کھڑا ہوگیا توعاجز آکرذی قعدہ۱۳۷۵؁ھ مطابق۱۹۵۶؁ء کومیں نے استعفادے دیا۔

    فیض الرسول میں :

    مذہب اہل سنت کی تبلیغ، مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور ’’ضلع بستی‘‘ و’’گونڈہ‘‘ کی بڑھتی ہوئی بد مذہبی کی روک تھام کیلئے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیر بیشہ اہلسنت قد س سرہ جیسے ساحر البیان مقرراور مناظرکو ہمراہ لے کر بہت سے دیہاتوں کادورہ فرمایاجن کی تقریرومناظرے نے پورے علاقہ میں دھوم مچادی اور اہلسنت میں نئی روح ڈال دی لیکن چونکہ تعلیم کے مقابلہ میں تقریر ومناظرہ کا اثر زیادہ دیرپانہیں ہوتااس لیے حضرت شعیب الاولیا کی عین تمنا تھی کہ اس علاقہ کے مدارس اہلسنت کے تعلیمی معیار کو زیادہ اونچاکیاجائے تاکہ تعلیم خوب عام ہوجائے اسی لیے آپ اپنے تمام مریدین ومعتقدین کومدرسہ انوار العلوم تلسی پور، انجمن معین الاسلام پرانی بستی اور مدرسہ قادریہ رضویہ بھاؤپورکی امدادواعانت کی تاکید فرماتے تھے لیکن بہاؤپورکی فتنہ انگیزی کے سبب وہاں مدرسہ چلنے کی امید نہ رہی، انجمن معین الاسلام پرانی بستی کے اراکین نے حضرت مولانابدرالدین احمد صاحب رضوی جیسے متدین اور محنتی عالم کو کام نہ کرنے دیااورمدرسہ انوار العلوم تلسی پورجوبہت ترقی پرتھا مگر اختلاف کے سبب وہ بھی نہایت تیزی کے ساتھ انحطاط (زوال)کی طرف جارہاتھا تو حضرت شعیب الاولیاء نے پھر مکتب فیض الرسول کو دارالعلوم فیض الرسول بناناچاہاکہ ۱۳۵۴؁ھ مطابق۱۹۳۵؁ء سے ۱۳۵۸؁ھ مطابق ۱۹۳۹؁ء تک ایک باردار العلوم فیض الرسول چل کر پھرمکتب فیض الرسول ہوگیا تھا۔ ذی الحجۃ ۱۳۷۴؁ھ مطابق جولائی۱۹۵۵؁ء میں جب’’بھاؤپور‘‘میں نئے فتنے کا جنم ہوچکاتھاحضرت نے آدمی بھیج کرمجھے براؤن شریف طلب فرمایا۔ میں حاضر ہواتوفرمایاکہ میں نے اس علاقہ کے مدرسوں کے چلنے سے ناامید ہوکراپنے یہاں دارالعلوم چلانے کا ارادہ کرلیا ہے سناہے کہ آپ’’بھاؤپور‘‘میں نہ رہیں گے ۔ میں یہ نہیں چاہتاکہ آپ بھاؤپورچھوڑیں لیکن اگرچھوڑدیں توکہیں دوسری جگہ نہ جائیں بلکہ ہمارے یہاں آئیں کہ بروقت مجھے ایک اچھے عالم کی تلاش ہے ۔ میں نے غوروفکرکرنے کے بعدجواب دینے کا وعدہ کیااور’’بھاؤپور‘‘ پہنچنے کے بعد اس بنیادپرکہ کبھی اللہ والوں سے بہت زیادہ قرب بھی باعث زحمت ہوجاتاہے میں نے حضرت کو معذرت نامہ لکھ دیا لیکن جب فتنہ کے سبب’’بھاؤپور‘‘میں رہناناممکن ہوگیا تومستعفی ہوکر براؤن شریف آگیااور یکم ذی الحجہ۱۳۷۵؁ھ مطابق ۱۰جولائی ۱۹۵۶؁ء سے باقاعدہ دارالعلوم فیض الرسول کامدرس ہوگیا اور تقریباپچیس سال سے مسلسل اسی دارالعلوم فیض الرسول میں اپنے فرائض منصبی کوانجام دے رہاہوں ۔ فیض الرسول کی بنیادچونکہ خلوص پرہے اورحضرت شاہ صاحب قبلہ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ علماء اور طلبہ کی بڑی قدرکرتے تھے اوران کے صاجزادگان علماء اور طلبہ کی عزت کرتے ہیں اسی لیے یہ ادارہ روز افزوں ترقی کررہاہے اور جب تک حضرت کی اولادان کے اصولوں پرعمل کرتی رہے گی اوران کے نقش قدم کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے گی یقینا یہ ادارہ ترقی ہی کرتارہے گا۔ بانی فیض الرسول شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ۲۲محرم ۱۳۸۷؁ھ کو وصال ہوا۔ اس طرح بفضلہ تعالی گیارہ۱۱سال سے زائد ان کی خدمت میں رہنے کاموقع ملاجس سے ہمارے دین میں اور زیادہ نکھارپیداہوگیا۔

    تعلیمی ترقی:

    زمانہ طالب علمی میں دن بھرکام کرنے اورصرف رات میں پڑھنے کے سبب کوئی خاص علمی قابلیت پیدانہ ہو سکی تھی اور پھر فراغت کے بعد کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی تھی کہ جہاں میں ترقی کرتالیکن فیض الرسول کے پرسکون ماحول میں پہنچنے کے بعدحضرت امام اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے قول:’’ اَدْرَکْتُ الْعِلْمَ بِالْجُہْدِ وَالشُّکْرِ یعنی مسلسل کوشش اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر کرکے میں نے علم حاصل کیا‘‘اور ’’ مَا بَخِلْتُ بِالافَادَۃِ وَمَا اسْتَنْکَفْتُ عَنِ الاسْتِفَادَۃِ یعنی علمی فائدہ پہنچانے اور کسی سے علمی فائدہ حاصل کرنے میں کبھی بخل نہیں کیا‘‘ کو مشعل راہ بنایاکہ اپنی کاوش اور جدوجہد کونقطۂ عروج تک پہنچایااورافادہ واستفادہ میں بخل وعار نہ کیا۔ وقت کی قدر کی، اسے ضائع نہ کیا۔ درسی کتابوں کی شروح وحواشی سے گہرا مطالعہ کرنے کے بعد پڑھایا ، اساتذہ اور والدہ کو خوش رکھا، ان کی خدمتیں کیں ، ان سے دعائیں لیں اور یقین کیاکہ’’ حقیقت میں علم حاصل کرنے کاوقت فراغت کے بعد ہے اور زمانہ طالب علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیداکی جاتی ہے ‘‘ تو خدائے تعالی نے مجھے اس منزل پر پہنچادیاجس کا کبھی تصوربھی نہیں کرسکتاتھا۔ للہ الحمد (تمام تعریفیں صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کیلئے ہیں ۔ )

    فتوی نویسی:

    دارالعلوم فیض الرسول کی نشاۃ ثانیہ ہونے کے ساتھ استفتاء آنا شروع ہوگیاپہلے حضرت مولانابدرالدین احمدصاحب قبلہ رضوی سابق صدرالمدرسین دارالعلوم ہذانے چند فتاوی تحریر فرمائے ۔ پھرمیں نے ۲۴صفر ۱۳۷۷؁ھ مطابق۱۹۵۷؁ء کو۲۴سال کی عمر میں پہلافتوی لکھا۔ حضرت مولانانے فتوی نویسی سے میری دلچسپی کودیکھ کرمستقل طورپریہ کام میرے سپرد کردیا تومیں فتاوی لکھ کر حضرت مولاناکو دکھالیاکرتاتھا اور پہلے یہ کام میں فارغ اوقات میں کیاکرتاتھا لیکن جب کام بڑھ گیاتواوقات تعلیم میں سے ایک گھنٹہ پھردوگھنٹے اور اب تین گھنٹے فتوی نویسی کیلئے مخصوص ہیں ۔ ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے سوالوں کے جوابات لکھنے کیلئے یہ وقت بھی ناکافی ہے مگر فتوی نویسی کے سبب حدیث، تفسیر، اصول فقہ صرف اور نحوادب اورمنطق وغیرہ کے اسباق میری درس گاہ میں پہلے سے بندہیں اور میں درس وتدریس سے بالکل الگ نہیں ہوناچاہتاکہ علمی صلاحیت باقی رکھنے کیلئے میں اسے بہت ضروری سمجھتاہوں ۔ پھر دارالعلوم کے طلبہ ہماری درسگاہ میں فقہ پڑھنے کیلئے بڑی کوشش کرتے ہیں اس لیے وقت میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود شرح وقایہ اور ہدایہ اولین وآخرین کے اسباق پڑھادیاکرتاہوں اور فتوی نویسی کاباقی ماندہ کام رات کوکیا جاتاہے ۔

    ایک نہایت ہی اہم نکتہ:

    مریدکواگر پیر سے حقیقت میں خلوص ہوتوپیر کے وصف خاص کا عکس مرید میں پایاجاناضروری ہے اسی لیے پیر کے وصف خاص کی جھلک اگرمرید میں نہ پائی جائے توہم اسے مرید صادق نہیں سمجھتے ۔ شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یارعلی صاحب قبلہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نماز وجماعت کا بہت اہتمام فرماتے تھے کہ نماز تونماز، جماعت توجماعت اڑتالیس۴۸ سال تک تکبیر اولی بھی فوت نہ ہوئی توان کا جومریدنماز وجماعت کااہتمام نہ کرے ہم اسے رسمی مرید کہتے ہیں ۔ ہمارے ایک مخلص مرزاجمال بیگ مرحوم نے کہا کہ میری والدہ حضرت شاہ صاحب سے مرید ہیں لیکن میں نے کوئی فیض نہیں دیکھا۔ ہم نے کہاسنا ہے کہ آپ کے علاقہ میں عورت تو عورت کوئی مرد بھی ان کے جیسا نمازی نہیں ہے کیا یہ شاہ صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کافیض نہیں ہے ۔ اور سیدی مرشدی صدر الشریعہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہی کا فیض ہے کہ درس وتدریس تصنیف وتالیف اور دارالعلوم کی دیگر مصروفیات کے ساتھ پچیس ۲۵سال میں ڈیڑھ ہزار سے زائد فتاوی لکھے جوفل اسکیپ سائز کے ایک ہزارسے زائد صفحات پرپھیلے ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں فتاوی فیض الرسول کے نام سے چھپ کر منظر عام پر آنے والے ہیں ۔ (1)

    وعظ وتقریر:

    درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور فتوی نویسی کے ساتھ ہم نے وعظ وتقریر کی بھی کوشش کی اس لیے کہ جاہل عوام کی تبلیغ کیلئے یہی ایک ذریعہ ہے ۔ اس سلسلہ میں صوبہ یوپی کے متعدداضلاع اور دوسرے صوبہ جات، بہار، اڑیسہ، مدہیہ پردیش، راجستہان، مہاراشٹر، گجرات اور راج نیپال کے اجلاس میں بارہاشرکت کا اتفاق ہواور لوگوں نے ہمارے وعظ کو دلچسپی سے سنا۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ آج کل وعظ وتقریر کے بارے میں ہماری جماعت کا مزاج بہت بگڑ گیاہے کہ سیرت النبی کے مبارک اسٹیج پرفساق وفجارہر قسم کے شعراء کثرت سے بلائے جاتے ہیں اور گیارہ بارہ بجے تک فلمی اور ٹھمری وغیرہ ہرقسم کی طرزکے اشعار پڑھے جاتے ہیں ، پھر تھوڑی دیر عالم کی تقریر ہوتی ہے اورآخر میں پھراشعارپڑھے جاتے ہیں ۔ اس طرح تقریر کا جوکچھ اثرہوتاہے وہ زائل ہوجاتاہے اور سامعین صرف نغمہ وترنم کااثر لے کر اپنے اپنے گھر جاتے ہیں ۔ بعض جلسوں میں تواتنے بڑے شعراء بلائے جاتے ہیں جوبڑے بڑے شیخ الحدیث سے بھی بڑے ہوتے ہیں کہ ان سے زیادہ شاعر کی خاطر مدارت ہوتی ہے ، لوگ اسے گھیرے رہتے ہیں اور نہایت ہی اعزازاور تعظیم وتکریم کے ساتھ اسے رخصت کرتے ہیں ۔ میں ایسے جلسوں میں کہ جہاں گویے شاعرحاصل جلسہ ہوں شرکت کرنے سے پرہیزکرتاہوں کہ مذہبی جلسوں میں مذہبی پیشواکی ثانوی حیثیت ہونامذہب اور مذہبی پیشوادونوں کی موت ہے ۔

    تصنیف وتالیف:

    درس وتدریس اورافتاء وغیرہ کی مصروفیات کے باوجود ہم نے فیض الرسول میں آتے ہی تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ پچیس سال میں چھوٹی بڑی جتنی کتابیں لکھیں وہ یہ ہیں ۔ ٭ مولاناروم علیہ الرحمۃ کی مثنوی شریف کا انتخاب مع ترجمہ ومختصر تشریح۔ ٭ گلدستہ مثنوی اور٭ گلزارمثنوی۔ ٭آیات قرآنیہ سے ایک عام فہم اور مختصر رسالہ معارف القرآن۔ ٭ سجدہ تعظیم۔ ٭ عوام کیلئے عقائد اور روز مرہ پیش آنے والے نماز، زکوۃاور روزہ وغیرہ کے مسائل میں مختصر اور جامع کتاب انوارشریعت عرف اچھی نماز۔ ٭ حج وزیارت کے مسائل میں نہایت آسان اور عام فہم کتاب حج وزیارت۔ ٭ آٹھ مختلف فیہ مسائل کامحققانہ فیصلہ۔ ٭بچوں اوربچیوں کی دینی تعلیم کاسنیت افروز سلسلہ نورانی تعلیم چار حصے اور۔ ٭ انور الحدیث۔ بحمدہ تعالی یہ سب کتابیں کئی بار چھپ کرعوام وخواص سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ان تمام کتابوں میں سے سب سے اہم تصنیف ’’انوارالحدیث‘‘ہے جس کے دو۲ ایڈیشن ہندوستان میں چھپ چکے ہیں اور تیسرا ایڈیشن رضا پبلی کیشنز لاہور نے نہایت ہی اعلی پیمانہ پر چھاپ کر اسے چار۴چاند لگادیے ہیں ۔ استفتاء کی کثرت کے سبب اب فرصت نہیں ملتی اگر موقع ملاتومرنے سے پہلے چند اہم اور مفید کتابیں لکھنے کی تمناہے ۔ ہماری جماعت میں تصنیف وتالیف کی بہت کمی ہے ۔ دوسرے لوگ قرآن وحدیث کے ترجمے ، ان کی تفسیر، تشریح، درسی کتابوں کے شروح وحواشی اور ان کے ترجمے تاریخ وسیر اور اخلاق وتصوف وغیرہ ہر علم وفن کی کتابیں لکھنے میں پیش پیش ہیں اور ہم بالکل نہ لکھنے کے برابر ہیں اس لیے کہ ہماری جماعت کے اکثر وہ جلیل القدر علماء جو تصنیف وتالیف کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں اپنا پوراوقت وعظ وتقریر پیری مریدی، میں صرف کرکے اپنی اس عظیم ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں ، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ پیری مریدی اوروعظ وتقریر نہ کریں لیکن ان سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ وقت کی اس اہم ضرورت پرتوجہ دیں اور اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر تصنیفی کام ضرور کریں ورنہ سنیت کا مستقبل تاریک سے تاریک ترہوتاجائے گا۔

    سفر حرمین طیبین:

    ۱۹شوال ۱۳۹۶؁ھ مطابق۱۴اکتوبر۱۹۷۶؁ء جمعرات کو اس مقدس سفر کیلئے میں اپنے وطن سے روانہ ہوا، ’’اوجھا گنج‘‘اور قرب وجوارکے کثیر مسلمانوں نے بہت ہی پرشکوہ جلوس کے ساتھ رخصت کیا۔ شام تک میں ’’براؤن شریف‘‘ پہنچا۔ ۲۱شوال کو شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے مزار مبارک پر حاضری دینے کے بعد میں ’’براؤن شریف‘‘ سے روانہ ہوا۔ حضرت کے صاجزاد گان اور’’ فیض الرسول‘‘ کے علماء وطلبہ نے بہت اعزازکے ساتھ مجھے رخصت کیا، احباب واکابرکی دعاؤں کاتوشہ جمع کرتے ہوئے ۲۴شوال کوبمبئی پہنچا۔ حاجی سیٹھ حیات محمد صاحب مرحوم اور جناب سیٹھ ابوبکر خان صاحب زِیْدَتْ مَحَاسِنُہٗ کے یہاں ’’محلہ گھاٹ کوپر‘‘میں ڈیڑھ ہفتہ قیام رہا۔ پھر۶ذی القعدہ۳۰اکتوبرکو’’ایم دی اکبر‘‘بحری جہاز سے روانہ ہوکر۱۳ذی قعدہ کو عصر کے وقت’’جدہ‘‘کے ساحل پراترگیا۔ دوسرے دن ۱۴ذی القعدہ کو رات کے وقت مکہ مکرمہ شریف حاضر ہوااور تقریبا ۲بجے کعبہ معظمہ کے طواف سے پہلی بار مشرف ہوا۔

    مدینہ طیبہ روانگی:

    مکہ شریف میں ایک ہفتہ قیام کرنے کے بعد ۲۲ذی القعدہ دوشنبہ مبارکہ کوعصر کی نماز پڑھ کرمدینہ طیبہ کیلئے روانہ ہوئے ۔ مغرب کی نماز شہر سے باہر نکل کر چند میل کے فاصلہ پر پڑھی اورعشاء کی نماز منزل بدرمیں ادا ہوئی۔ اس طرح رات کو ایک بجے اس مقدس شہرمیں داخل ہوگئے جوعشاق کا قبلہ ایمان ہے ۔ اور۲۳ذی قعدہ فجر کی نماز کے وقت سرکار اعظم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مواجہہ اقدس میں روتے ہوئے حاضر ہوئے ۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خلیفہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد صاحب قبلہ مدظلہ العالی جن کا سن ولادت۱۲۹۴؁ھ ہے ۔ وہ دس سال بغدادمیں قیام فرمانے کے بعد تقریباستر۷۰سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں ساٹھ ۶۰حج سے زیادہ کرچکے ہیں اور ان کے مریدین اورخلفاء پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے ہیں وہ بعد نماز مغرب روزانہ میلاد شریف کی محفل منعقد کرتے ہیں بعدہ جملہ حاضرین کی’’ما حضر‘‘سے مہمان نوازی فرماتے ہیں ۔ دوسرے دن بھی اس مبارک محفل میں شریک ہوا، حضرت کو عشق رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں سرشارپایااور ان کی محفل میں ہرطرف مجھے عشق رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا جلوہ نظر آیا۔ جب مجمع کم ہواتومیں نے حضرت سے سلام ومصافحہ کیا بہت محبت سے پیش آئے چلتے وقت میں نے بیس ۲۰ریال نذرپیش کی، قبول کرتے ہوئے فرمایااس معاملہ میں میرا مسلک ہے کہ طمع نہ کرومنع نہ کرو۔ بہت بزرگ ہستی ہیں خدائے تعالی ان کی حیات مبارکہ کودراز ترفرمائے ۔

    مقدس مقامات کی حاضری:

    تیسرے دن عزیز گرامی مولانامحمد ابراہیم جوفیض الرسول سے پڑھ چکے ہیں اور فی الحال مدینہ طیبہ میں مقیم ہیں ان سے ملاقات ہوئی، ان کو ساتھ لے کرجنت البقیع میں حاضرہوا۔ خلیفہ سوم امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت بی بی فاطمہ ، حضرت امام حسن، حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواج مطہرات اور دیگر جلیل القدر صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے مزارہائے مبارکہ کی ویرانی دیکھ کربڑادکھ ہواکہ پہلے ان مزاروں پرکیسے شاندارگنبدبنے ہوئے تھے جنہیں نجدی وہابی حکومت نے کھود کرپھینک دیا۔ جنت البقیع کی حاضری کے بعد مقام جنگ احد، بئرحضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ، مسجد قبلتین، مقام جنگ خندق، مسجد قبااور دیگرمقامات عالیہ کی زیارت کرتے ہوئے باغ سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ میں حاضر ہوئے تاکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست اقدس کے لگائے ہوئے کھجورکے دو۲درخت جواب تک موجود ہیں ان کی زیارت کریں ۔ مگر باغ میں ان درختوں کی زیارت نہ ہوسکی، بڑاافسوس ہوا۔ باغ والے سے دریافت کیاگیاتواس نے بتایا کہ دو۲روز پہلے یعنی ۲۲ذی القعدہ ۱۳۹۶؁ھ کو پولیس نے کھڑے ہوکر کٹوادیا۔ ہر قوم اپنے پیشواکی یادگاروں کی حفاظت کا اہتمام کرتی ہے مگر وہابی مسلمان ہونے کے جھوٹے مدعی، سرکار ابدقرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یادگاروں کو مٹانے کے درپے ہیں یہاں تک کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گنبد خضراء جس کی زیارت مسلمانان عالم کو سکون اور عاشقان رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دلوں کاقرار ہے یہ قوم اس کے ڈھانے کابھی پروگرام بنارہی ہے ۔

    حج کیلئے روانگی:

    دسویں روز۲ذی الحجہ ۱۳۹۶؁ھ جمعرات کو اس مقدس شہر سے روتے ہوئے رنج وغم سے نڈھال رخصت ہوئے ۔ ’’منزل بدر‘‘ میں ظہر کی نماز اداکی اور چاہا کہ ’’مقام جنگ بدر‘‘کی زیارت کروں جو’’منزل بدر‘‘سے تھوڑے فاصلہ پر ہے مگر کوشش کے باوجود بھی ڈرائیورنے موقع نہ دیا جس کا غم زندگی بھر رہے گا۔ مکہ معظمہ پہنچنے کے بعد حج کی تیاری شروع ہوگئی حج سے پہلے ہم نے منی مزدلفہ اور عرفات کی زیارت کرلی۔ پھر آٹھ ۸ذی الحجہ سے بارہ۱۲ ذی الحجہ مناسک حج اداکرنے کے بعد’’جعرانہ‘‘اور’’تنعیم‘‘سے عمرے کیے جنت المعلی قبرستان میں حاضر ہوئے بیچ قبرستان میں نیاروڈ دیکھ کر بڑاافسوس ہوا کہ نجدی حکوت کو صحابہ کرام اور دوسرے بزرگوں کی قبروں پرسڑک بناتے ہوئے رحم نہ آیا۔ ام المؤمنین حضر خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے روضہ مبارکہ کوویران کردیا۔ سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ والرضوان کامزارمبارک جو’’مسجدجن‘‘کے قریب تھا اس پر پختہ سڑک بنادی۔ ’’مسجد شجرہ‘‘جہاں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے نبی ہونے کی درخت نے گواہی دی تھی اس کے بارے میں ایک بوڑھے عرب سے پوچھا:’’ اَیْنَ مَسْجِدُ الشَّجَرَۃ ‘‘یعنی مسجد شجرہ کہاں ہے ؟ اس نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ کَانَ عَلٰی ہَذَا الْمَقَامِ فَہُدِم یعنی اس جگہ پرتھی توڈھادی گئی۔ ‘‘ ہم نے کہا:’’ أَہَذِہِ الْحُکُوْمَۃُ تَہْدِمُ الْمَسْجِد کیا یہ حکومت مسجد ڈھاتی ہے ؟‘‘ توہ وہ مجھے نیچے سے اوپرتک دیکھتاہوا چلاگیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ پھر غار ثور اور غار حرا کی زیارت کیلئے حاضر ہواتوان مبارک پہاڑوں کی مسجدیں بھی ڈھائی ہوئی نظر آئیں تواورزیادہ یقین ہوگیاکہ بیشک وہابی صرف نام کے مسلمان ہیں کہ مسجدیں بنص صریح اللہ تعالی کی ہیں جیسا کہ سورہ جن پارہ۲۹میں ہے :’’ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ ‘‘ توان کافروں کا ہی شیوہ ہے نہ کہ مسلمانوں کا۔ حضرت سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ المتوفی ۱۳۰۴؁ ھ تحریر فرماتے ہیں کہ:’’ وہابیوں نے مسجدوں کوڈھادیا، بزرگوں کی یادگاروں کو مٹادیا، جنت المعلی کے گنبدوں کوکھود کرپھینک دیا، مولد النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مولد حضرت ابوبکر ومولد حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے قبوں کوبھی توڑ کر گرادیا، مسجدوں اورقبروں کوڈھاتے ہوئے وہابی ڈینگیں مارتے تھے اورڈھول بجابجاکرگاناگاتے تھے اور صاحبِ قبرکو بہت گالیاں دیتے تھے یہاں تک بعض لوگوں نے حضرت محجوب ( رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ) کی قبرپرپیشاب بھی کیا۔ ‘‘ حضرت کے اصل الفاظ یہ ہیں : ’’ بَادَرَ الوَہَابِیُّونَ وَمَعَہُمْ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ لِہَدْمِ الْمَسَاجِدِ وَمآثِرِ الصَّالِحِیْنَ فَہَدِمُوْا أَوَّلا مَا فِی الْمَعْلٰی مِنَ الْقُبَبِ فَکَانَتْ کَثِیْرَۃً ثُمَّ ہَدَمُوْا قُبَّۃَ مَوْلِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَمَوْلِدَ سَیِّد أَبِی بَکْرِن الصّدیْق رَضِیَ اللّٰہُ تعالی عَنْہُ وَمَوْلِدَ سَیِّدنَا عَلی رَضِیَ اللّٰہُ تعالی عَنہ وَقُبَّۃَ السَّیِّدَۃِ خَدِیْجَۃَ رَضِیَ اللہ تعالی عَنْہَا وَتَتَبَّعُوا جَمِیْعَ الْموَاضِعِ الَّتِی فِیْہَا آثارُ الصَّالِحِیْنَ وَہم عِنْدَ الْہَدمِ یَزْجُرُوْن ویَضْرِبُوْنَ الطَّبل وَیُغَنُّوْنَ بالعَوافِی شتم القُبُور الَّتِی ہَدَمُوْہَا وَقَالُوْا اِن ہِیَ الا اسماءٌ سَمّیتُمُوہَا حَتّی قِیْلَ اِنَّ بَعْضَ النَّاسِ بَالَ عَلی قَبْرِ السَّیِّدِ الْمَحجُوبِ ۔ ‘‘ ( خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام ، ج ۲، ص ۲۷۸) اسی طرح مرتدابوطاہر قرمطی کوجب ۳۲۰؁ھ عباسی خلیفہ مقتدر ب اللہ کے زمانہ میں مکہ معظمہ پر غلبہ حاصل ہوا تواس نے بڑے مظالم ڈھائے یہاں تک کہ مقدس پتھرحجراسودپرگرزمارکراس کو توڑڈالااوراکھاڑکراپنے دار السلطنت’’ ہجر‘‘ میں لے گیا جو بیس ۲۰برس کے بعد واپس آیا۔ اور مسجد حرام کے منبر پرکھڑے ہوکو ابوطاہر قرمطی نے کہا :’’ أَنَا بِاللہ وَبِاللہ وَبِاللہ أَنَا اَخْلُقُ الْخَلْقَ وَاَفْنِیْہِمْ اَنَا یعنی میں خداکی قسم اور خدا کی قسم میں مخلوق کوپیداکرتاہوں اور ان کو فنابھی کرتاہوں ۔ ( حجۃ اللہ علی العالمین ، الباب الثالث فی أشراط الساعۃ ، ص ۵۸۹)مگر جب وقت آگیاتواپنے زمانہ کا فرعون ابوطاہر قرمطی خائب وخاسر ہوا، ایسے ہی یہ لوگ خائب وخاسر ہوں گے ۔ جب عرب کی مدت اقامت ختم ہوگئی تو۱۶محرم ۱۳۹۷؁ھ مطابق ۷جنوری ۱۹۷۷؁ء جمعہ مبارکہ کو مکہ شریف سے روانہ ہوکر جدہ پہنچے پھر۱۷محرم الحرام کوجدہ سے روانہ ہوکر ۲۴محرم کوبمبئی آگئے اور یکم صفر المظفر۱۳۹۷؁ھ کو بخیر وعافیت اپنے وطن پہنچ گئے ۔ دعا ہے کہ حج اورسرکار اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آستانۂ پاک کی حاضری قبول ہو اور باربار ان مقامات مقدسہ کی زیارت نصیب ہو، خدمت دین میں خلوص ہواور ایمان پرخاتمہ ہو۔ آمین بحرمۃ سید المرسلین صلوات اللہ تعالی علیہ و علیہم اجمعین جلال الدین احمد الامجدی(2) ۱۶ربیع الآخر ۱۴۰۰؁ھ مطابق ۴ مارچ ۱۹۸۰؁ء

    نگاہ اولین

    لَکَ الْحَمْدُ یَااﷲ ! وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اﷲ میری دیرینہ تمنا تھی کہ آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ کریمہ سے دومختصر رسالے لکھے جائیں جو عام فہم ہوں تاکہ عوام بھی بآسانی سمجھ سکیں لیکن وقت گزر تارہا اور مجھے سکون میسر نہ ہوسکا کہ ان کے لیے قلم اُٹھاتا۔ آخر ذی الحجہ ۱۳۷۵؁ھ میں دارالعلوم فیض الرسول براؤن شریف کی خدمات پر مامور ہوا تو بانی فیض الرسول حضرت شاہ محمد یار علی صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دامنِ کرم کے سایہ میں سکون کی ساعتیں نصیب ہوئیں ۔ پہلے ہم نے حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ کی مثنوی شریف کا مختصر انتخاب بنام گلدستۂ مثنوی ۱۳۷۸؁ھ میں لکھا پھر آیات ِ قرآنیہ سے ایک عام فہم اور مختصر رسالہ معارف القرآن محرم ۱۳۸۰؁ھ میں مرتب کیا اور اعلان کیا کہ گلدستۂ مثنوی کے دوسرے حصّے گلزارِ مثنوی کی ترتیب سے فارغ ہو کر معارف القرآن کے نہج پر احادیث ِ کریمہ کا ایک مختصرا نتخاب پیش کیا جائے گا۔ گلزارِ مثنوی شعبان ۱۳۸۰؁ھ میں مرتب ہو کر چَھپ گئی اور کئی سال گزر گئے لیکن درمیان میں دارُالافتاء کی خدمت سپر د ہوئی اور پھر رسا لہ فیض الرسول کے اجراء کے سبب استفتاء کی زیادتی ہوگئی جس نے مجھے کچھ لکھنے کا موقع نہ دیا۔ مگر جب رسالہ فیض الرسول بند ہوگیا اور وقت میں کچھ گنجائش ہوئی تو ہم نے اللہ و رسول جلّ جلالہ و صلّی المولٰی تعالٰی علیہ وسلم کا نام لے کر لکھنا شروع کیا جب کبھی درس و تدریس اور دارُ العلوم کی دیگر خدمات فتویٰ نویسی وغیرہ سے کچھ اوقات بچتے تو دو چار صفحات لکھ ڈالتا۔ اللہ اور اس کے رسول پیارے مصطفیٰ جلّ جلالہ، و صلّی المولٰی تعالٰی علیہ وسلم کا کرم ہوا کہ اس طرح تھوڑا تھوڑا کرکے یہ کتاب مکمل ہوگئی۔ کتاب کی تصنیف کے بعد چونکہ طباعت کے اخراجات کا سوال پیدا ہوتا ہے اس لیے ہم نے شروع میں اپنی مالی وسعت کے مطابق ایک مختصر رسالہ لکھنے کا ارادہ کیا تھا جب چنداوراق تیار ہوگئے تو عالی جناب سیٹھ مُلّا محمد منیف صاحب منیجر مدرسہ غوثیہ بڑھیا کھنڈ سری ضلع بستی نے ان اوراق کا مطالعہ کیا۔ غایت درجہ محظوظ ہو کر ضخیم کتاب لکھنے کی تمنا ظاہر کی اور اپنے صرفِ خاص سے اس کے چھپوانے کا وعدہ بھی کیا۔ پھر تو ہم نے بہت سے عنوان پر حدیثوں کا انتخاب کیا۔ ضرورت کے مطابق شارحینِ حدیث کی عبارتیں نقل کیں اور ہر مضمون کی مناسبت سے انتباہ کے تحت بعض عقائدِ دینیہ و مسائلِ شرعیہ کا اضافہ کیا اس طرح یہ کتاب تقریباً پانچ سو صفحات پر پھیل گئی۔ چونکہ سیٹھ حضرات کو کتاب کی اِشاعت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے ملاّ محمد منیف صاحب کا یہ اِقدام قابلِ تحسین ہے اور دوسرے سیٹھ حضرات کے لیے لائقِ تقلید بھی ہے ۔ خدائے تعالیٰ ملاّ محمد منیف صاحب کو دولت کی فراوانی کے ساتھ مذہبِ اہلِ سنّت و جماعت کی تبلیغ و اشاعت کا مزیدجذبہ عطا فرمائے اور دوسرے مالداروں کو ان کی تقلید کی توفیق بخشے ۔ آمین یہ کتاب کتنی عرق ریزی کے بعد تیار ہوئی ہے اس کا اندازہ مطالعہ کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ کہ ۱۱۳ عنوان پر ہم نے ۵۵۴ احادیث کا انتخاب کیا ہے پہلے کالم میں اصل عربی عبارت کو عوام کی آسانی کے لیے اعراب کے ساتھ لکھا ہے اور دوسرے کالم میں ترجمہ کو سلیس اردو زبان میں پیش کیا ہے ہر حدیث کا ماخذ بتادیا گیا ہے ۔ اور بعض حدیث کو کسی مصلحت سے جلد و صفحہ کے حوالہ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔ احادیث کے معانی کی وضاحت کے لیے جگہ جگہ شارحینِ حدیث کے اقو ال ترجمہ کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور ہر مضمون کی مناسبت سے انتباہ کی سرخی کے تحت بہت سے اہم مسائل مستند کتابوں کے جلد وصفحہ کے حوالہ کے ساتھ تحریر کیے گئے ہیں ۔ حتی الامکان کتابت اور پروف کی تصحیح کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ پھر بھی اہلِ علم حضرات سے گزارش ہے کہ اگر کوئی خامی نظر آئے تو مطلع فرمائیں ہم مشکور ہوں گے ۔ حضرت علّامہ ارشدالقادری صاحب قبلہ مہتمم مدرسہ فیض العلوم جمشید پور کے ہم دل کی گہرائیوں سے ممنون ِ کرم ہیں کہ انہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود اس کتاب کو ملاحظہ فرما کر اسکے لیے ایک مبسوط مقدمہ تحریر فرمایا جو علمِ حدیث پر بجا ئے خود ایک مستقل رسالہ ہے اور منکرین ِحدیث کے لیے دعوتِ غورو فکر کا سامان ہے ۔ اور علامہ بدر الدین احمد صاحب قبلہ رضوی صدرالمدرسین دارالعلوم براؤن شریف کے بھی ہم شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کو ملاحظہ فرماکر اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ خدائے تعالیٰ ان حضرات کے فیوض و برکات کو ہمیشہ جاری رکھے ۔ آمین۔ جَلَال الدین احمد الامجدی خادمِ فیض الرسول براؤن شریف ضلع بستی ۹ شعبان ۱۳۹۱؁ھ مطابق ۳۰ ستمبر ۱۹۷۱؁ء
    1 اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ، (علمیہ) 2 واضح رہے کہ حضرت علامہ مولانامفتی جلال الدین احمد الامجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے یہ حالات زندگی از خود تحریر فرمائے تھے مگر افسوس کہ علم وعمل کے یہ چمکتے ہوئے ماہتاب چند سال قبل ۱۴۲۲؁ھ مطابق ۲۰۰۱؁ء میں اِس دارفانی سے دارآخرت کی طرف کوچ فرماگئے ، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۔ اللہ عزوجل کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ ( اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم )

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن