اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ط
اپنے اوپر اِصلاح کا دَروازہ بند کرنا کیسا؟ ( )
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ (۱۵صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہے:مسلمان جب تک مجھ پر دُرُود شریف پڑھتا رہتاہے فرشتے اُس پر رَحمتیں بھیجتے رہتے ہیں اب بندے کی مَرضی ہے وہ کم پڑھے یا زیادہ۔( )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سوال:اگر کوئی شخص قرآنِ پاک دُرُست نہ پڑھتا ہو اور جب اسے بتایا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہو اور کہتا ہو کہ میں تو دُرُست پڑھ رہا ہوں تو ایسے شخص کو کس طرح سے سمجھایا جائے؟
جواب:جس شخص نے اپنی ذات پر اِصلاح کا دَروازہ بند کر لیا ہو اسے مارا پیٹا نہیں جائے گا،ایسے شخص کے لیے دُعا ہی کی جا سکتی ہے۔کسی کو بھی اپنے اوپر اِصلاح کا دَروازہ بند نہیں کرنا چاہیے وگرنہ اِصلاح کون کرے گا ؟کیا پتا کبھی ہم واقعتاً غَلَطی پر ہوں اور ہمیں اِصلاح کی حاجت ہو اور ہم ہلاکت میں پڑ جائیں۔ (اِس موقع پر نگرانِ شوریٰ نے فرمایا:)بندے کا نفس اِصلاح کرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور اگر کوئی کسی کی غَلَط اِصلاح کر دے تو جس کی اِصلاح کی جاتی ہے وہ پھر بَرداشت نہیں کرتا اور اِصلاح کرنے والے کو کَھری کَھری سُناتا ہے اور اپنے اوپر گناہوں کے دَروازے کھولتا ہی جاتا ہے۔(امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے فرمایا:) اگر کسی نے غَلَط اِصلاح بھی کر دی ہے تو اسے پیار و محبت سے سمجھایا جائے کہ آپ نے جو اِصلاح کی ہے وہ دُرُست نہیں بلکہ دُرُست یوں ہے اور کتاب میں بھی اِسی طرح لکھا ہے۔”اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِّنَ الْخَطَاءِ وَالنِّسْیَانِ یعنی اِنسان خطا اور نسیان کا مُرکّب ہے۔“ آئندہ بھی میری اِصلاح کرتے رہیے گا۔بہر حال موقع کی مناسبت سے اِصلاح کرنی چاہیے،اِصلاح کا جَذبہ ہونا بہت اچھی بات ہے، اِصلاح کرنے والے سے ناراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔سب لوگ ایسے نہیں ہوتے لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی اِصلاح پسند نہیں کرتے،وہ کہتے ہیں کہ ہم تجربہ کار ہیں اور مولانا ابھی کتابیں پڑھ کے ہمیں سمجھانے نکلا ہے۔اگر کوئی بچہ بھی حکمت کی بات بتاتا ہے تو اسے بھی سننا چاہیے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کو کسی بچے نے کہا :”اِتَّقِ اللہ یعنی اللہ پاک سے ڈرو ۔“تو امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ خوفِ خدا کی وجہ سے بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔( )اِسی طرح ایک مَرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے کسی بچے سے فرمایا :بیٹا سنبھل کرچلنا کہیں پِھسل مَت جانا۔اس بچے نے عرض کی:حضور! اگر میں پِھسلا تو میں ہی گِروں گا لیکن اگر آپ پِھسل گئے تو پوری قوم گِر جائے گی۔ ( )یہ امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے اَخلاقِ کریمہ تھے۔اگر ہمارے یہاں کوئی بچہ ایسا جملہ کہہ دے تو اسے زبان دراز کہہ دیا جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی اِصلاح قبول کرنے کی توفیق مَرحمت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
سوال:غیرِ عالم کا اِسلامی کتاب لکھنا کیسا ہے؟ (SMS کے ذَریعے سُوال)
جواب:غیرِ عالم کو اِسلامی موضوع پر کتاب نہیں لکھنی چاہیے ۔ہاں اگر کوئی مستند عالِمِ دِین کسی غیرِ عالِم میں کتاب لکھنے کی صَلاحیت پائے اور وہ اِجازت دے تو یہ الگ بات ہے۔اگر کسی غیرِعالم نے کتاب لکھ لی ہے تو کیا پتا انجانے میں کہیں کوئی کُفریات نہ لکھ بیٹھا ہو لہٰذا ایسے شخص کو چاہیے کہ اپنی کتاب کا ایک ایک حرف کسی صحیح عالِمِ دِین کو چیک کروا کر ہی آگے کے مَراحل میں بھیجے،وگرنہ اُسے ٹھنڈا کر دے۔اِسی طرح لوگ منظوم کلام بھی لکھتے ہیں تو اس میں بھی کئی کُفریات لکھ دیتے ہیں ۔شاعری پورا ایک الگ فَن ہے،اِس میں تَرتیب کو بھی مدِّ نظر رکھنا ہوتا ہے پھر ردِیف،قافیہ اور اَوزان کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، اَشعار کی تَرتیب کرتے کرتے بندہ کہیں اور ہی نکل جاتا ہے۔ اگر کسی نے کلام لکھ بھی لیا ہو تو کسی مستند سنی عالِمِ دِین جو شاعری کے فَن سے واقف ہو انہیں چیک کروایا جائے پھر پڑھا جائے۔ یوں کہنے سے بھی جان نہیں چھوٹے گی کہ میں نے فلاں محفل میں یہ کلام پڑھا تھا تو فلاں عالِم صاحب میرے اِس کلام پر جھوم رہے تھے تو یوں عالِم صاحب سے اِس کلام کی تَصدیق ہو گئی۔کیا پتا انہوں نے کلام کو توجہ سے نہ سنا ہو،تحریری صورت میں انہیں کلام دے کر چیک کروایا جائے تو یہ زیادہ مفید ہے۔شاعِری میں بڑے بڑے شعرا نے ٹھوکر کھائی ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ عُلَمائے کِرام کے لکھے ہوئے کلام ہی پڑھے جائیں مثلاً اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ عَلَیْہِ کا نعتیہ دِیوان”حَدائقِ بخشش“ پڑھا جائے ۔
سوال:کورونا وائرس کی وجہ سے اسکول،مَدارس،جامعات اور کالج بند ہیں تو بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری کیسے رکھا جائے؟
جواب:اگر تعلیمی اِداروں کے بند رہنے کا سلسلہ اِسی طرح جاری رہا تو طلبا و طالبات نے جو کچھ پڑھا ہے وہ بھول جائیں گے،کھیل کود اور سوشل میڈیا میں پڑے ہوں گے اور جب تعلیمی اِدارے کھلیں گے تو طلبا و طالبات پر بوجھ پڑ جائے گا، اَساتذۂ کِرام بھی پڑھانا بھول چکے ہوں گے۔ عِلم کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ عِلم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔( ) عِلم کو کتابوں میں رکھ دیا اور اسے پڑھا نہیں تو بندہ عِلم بھول جاتا ہے۔اِسی طرح حافظِ قرآن اگر قرآن پڑھتا رہے گا تو اسے یاد رہے گا،وگرنہ بھول جائے گا۔والدین کو چاہیے کہ اپنے بچے کو بار بار کہیں کہ بیٹا دِن میں قرآنِ پاک کے 10 پارے روز پڑھا کرو ،وگرنہ قرآنِ پاک بھول جاؤ گے۔رَمَضانُ المبارک میں کسی نے مجھے ایک طالبہ کے بارے میں بتایا تھا کہ اس نے دو دِن میں قرآنِ پاک مکمل کیا تھا اور ایک طالبِ علم کا بھی بتایا تھا کہ وہ مسلسل روز کے 15پارے پڑھتے ہیں۔میں ان کا نام اس لیے نہیں لے رہا کہ کہیں وہ اپنی تعریف سُن کر پھول نہ جائیں،اللہ پاک کرے کہ یہ مستقل پڑھتے رہیں۔ 15 پارے نہ سہی ایک منزل ہی پڑھتے رہیں،یوں بھی قرآنِ پاک پکا ہو جائے گا اور ثواب بھی ملے گا کہ یہ ثواب کا ہی کام ہے۔ اللہ پاک انہیں اسی طرح پڑھتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
سوال:ذِکْرُ اللہ کرنے کے بہت فَضائل ہیں اور کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ فارغ وقت ذِکْرُ اللہ میں ہی گزاریں، وقتاً فوقتاً ذِکْرُ اللہ کرنے کی تَرغیب بھی دِلائی جاتی ہے،اِس کے باوجود اِستقامت نہیں مل پاتی،بندہ صرف چند دِن ہی ذِکْرُ اللہ کر پاتا ہے، اِس کی عموماً کیا وجہ ہوتی ہے ؟
جواب:بندے کو چاہیے کہ وہ ذِکْرُ اللہ کرنے میں سنجیدہ ہو جائے کہ بندہ جس کام کو سنجیدگی سے کرنے کی کوشش کرتا ہے،وہ اسے کر گزرتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص اِفطار کے وقت کوئی ڈش کھانے کا خواہش مند ہےاور وہ اس چیز کو سنجیدہ لےرہا ہے تو وہ اسے پا کر ہی رہتا ہے، یوں ہی اگر کوئی اپنے اُوپر یہ لازم کر لیتا ہے کہ آج مجھے اِتنی مَرتبہ دُرُودِ پاک پڑھنا ہے تو وہ ضَرور پڑھ لے گا۔ دِینی کام ہو یا دُنیوی ، اگر بندہ اس کام کو سنجیدہ ہو کرے گاتو وہ ضَرور اس کام کو مکمل کر لے گا۔ ایسا بھی ہوتا ہےکہ کوئی شخص فضول بیٹھا ہوا لگ رہا ہوتا ہے لیکن وہ فکرِ آخرت میں خاموش بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اپنی زبان سے اللہ اللہ،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ،صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ اور اَسْتَغْفِرُ اللہَ پڑھ رہا ہو تو یہ الگ بات ہے۔ رَمَضانُ المبارک کے مہینے میں اللہ پاک سے جنَّت کی طلب کرنا،جہنّم سے پناہ مانگنا،کلمۂ طیبہ اور اِستغفار کرتے رہنا یہ چار کام ضَروری ہوتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں یہ اَعمال بَجا لانے کی توفیق مَرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
سوال:جب بچہ کوئی اچھا کام کرتا ہے تو عموماً والدین اس کی تعریف کرتے ہیں،یہ اِرشاد فرمائیے کہ کیا اچھے کام پر بچے کی تعریف کرنا دُرُست ہے ؟( )
جواب:بچے کی نیک کام میں تعریف نہ کرنا بہتر ہے،جب اسے تعریف کی لذّت نہیں ملے گی تو اس کی آفات سے بھی محفوظ رہے گا،وگرنہ ہر بار اس کی یہ خواہش ہو گی کہ میری فلاں کام پر تعریف کی جائے۔ رَمَضانُ المبارک میں بچہ روزہ رکھ رہا ہو یا دِن میں دو تین پارے پڑھ رہا ہو تو والدین اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی پسندیدہ ڈش پکا دیتے ہیں،اس سے بچے کی واہ وا ہوجاتی ہے اور والدین اس طرح اپنے بچے کو عبادت کی طرف مائل کرتے ہیں لیکن اب تو ایسے لوگ بھی مُعاشرے میں پائے جاتے ہیں کہ بچے کے والدین کو کہتے ہیں کہ ”فلاں شخص نے مسجد میں اِعتکاف کیا تھا تو اب وہ بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے،تم اپنے بچے کو مسجد میں نماز اور اِعتکاف کے لیے مَت بھیجنا، اسے بھی کچھ ہو جائے گا یا اس کا بھی دماغ خراب ہو جائے گا۔“ کیا اللہ پاک کی عبادت سے بھی کسی کا دماغ خراب ہوتا ہے ؟ اگر کسی کا دماغ خراب ہوا بھی ہو گا تو وہ مسجد میں لمبے لمبے وَظائف پڑھتا اور جنَّات کو پکڑنے کی کوشش میں لگا رہتا ہو گا۔ دعوتِ اسلامی کے ماحول میں ہر سال اِعتکاف کروایا جاتا ہے یہاں تو آج تک کوئی ایسا کیس نہیں ہوا کہ اِعتکاف کرنے کی وجہ سے کسی کا دماغ خراب ہوا ہو۔دُنیا میں کتنے لوگ ہیں جو واقعتاً نفسیاتی اور پاگل ہیں تو کیا ان سب کا دماغ بھی نماز، روزہ، اِعتکاف اور دِیگر عبادات کی وجہ سے خراب ہوا ہے؟
سوال:کیا کبوتر پالنا جائز ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کبوتر پالنا باعثِ بَرکت ہےکیا یہ بات دُرُست ہے؟
جواب:کبوتر پالنا جائز ہے،البتہ اِن کا باعثِ بَرکت ہونا کہیں پڑھا نہیں ۔ جو کبوتر پالے جاتے ہیں یہ جنگلی نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ قسم کے کبوتر ہوتے ہیں۔اگر کوئی شخص شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے ان سے اچھا سلوک کر سکتا ہے مثلاً ان کا خیال رکھتے ہوئے وقت پر انہیں دانہ پانی دیتا ہے تو پالنا دُرُست ہے۔بعض لوگ کبوتر بازی میں جُوا لگاتے،انہیں اُڑاتے اور انہیں اُترنے نہیں دیتے بلکہ انہیں تھکا دیتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے،اِس میں انہیں تکلیف دینا اور ان پر ظلم کرنا ہے اور یہ گناہ ہے۔ کبوتر اُڑانے کے چکّر میں گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں اور آس پاس کے دِیگر گھروں میں بَدنگاہی ہوتی ہے یہ بھی جائز نہیں۔( )
سوال: کیا دُنیوی نقصان ہو جانے پر بھی افسوسں کیا جا سکتا ہے ؟
جواب:بندے کی جیب کٹ جائے یا کہیں پیسے گر جائیں تو ظاہر ہے دُنیوی مال کا بندے کو اَفسوس تو ہوتا ہی ہے۔جس دُنیوی مال کی وجہ سے آخرت تباہ ہوتی ہو وہ خراب چیز ہے۔ اگر کسی کے پاس اَربوں کَھربوں روپے حلال کے ہیں تو وہ گناہ گار نہیں ہے۔ہاں اگر کسی کے پاس ایک پیسا بھی حرام کا ہے تو وہ گناہ گار ہو گا اور آخرت میں اس کی پکڑ ہو گی۔ دُنیا کی محبت دِل سے باہر رہے تو زیادہ اچھا ہے،اگر دُنیا کی محبت دِل میں آجائےتو بندہ ہلاکت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
سوال:کیا شادی کرنے سے آدھا اِیمان محفوظ ہو جاتا ہے؟( )
جواب:جی ہاں! شادی کرنے سے آدھا اِیمان محفوظ ہو جاتا ہے۔( ) اَولاد کی بھی اِنسان کو تمنّا کرنی چاہیے،اگر کوئی اَولاد کے حصول کی خاطر شادی کرے گا تو اسے ثواب بھی ملے گاکیونکہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم قیامت کے دِن اپنی اُمَّت کی کثرت پر فخر کریں گے۔( )اپنی اَولاد کو جہنم کی آگ سے بچانا بھی ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں اِرشاد فرمایا: ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ )( ) ترجمۂ کنز الایمان:اے اِیمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
سوال:بیٹی کے جہیز کے لیے سونا اور چاندی کے علاوہ جو سامان رکھا ہوا ہوتا ہے کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے؟
جواب:زکوٰۃ مالِ تجارت پر ہوتی ہے۔( )جو سامان گھر میں رکھا ہوا ہے لیکن تجارت کا نہیں ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہو گی۔ البتہ جس کے پاس حاجتِ اصلیہ سے زیادہ سامان ہے اور وہ نصاب کے برابر ہ ے تو ایسا شخص زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔( )