30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اس رسالے کا مواد ملفوظاتِ امیر ِاہلِ سنّت ، قسط 106 سے لیا گیا ہے
اپنی پریشانی ظاہر کرنا کیسا؟([1])
دُعائے عطار : یا رَبَّ المصطفٰے!جو کوئی 17صفحات کا رسالہ’’اپنی پریشانی ظاہر کرنا کیسا؟‘‘پڑھ یا سُن لے ، اُسےاپنی رِضا کےلئےمصیبتوں پرصبراور بہت زیادہ اَجرعطاکراوراُسےجنّت الفردوس میں اپنے پیارے نبی حضرت ِ ایوب علیہ السّلام کا پڑوس نصیب فرما۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : قیامت کے دِن لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر سب سے زِیادہ دُرُود شریف پڑھتا ہوگا۔
( ترمذی ، 2 / 27 ، حدیث : 484)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سُوال : صبر اور برداشت میں کیا فرق ہے؟ کیا اپنی پریشانی بھی کسی کو نہیں بتاسکتے؟ (محمد عامر عطاری۔ کولمبو سری لنکا)
جواب : غالباً صبر کا معنیٰ اُردو میں برداشت کرنا ہی ہوتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ ’’اپنی مصیبتیں دوسروں کو بتانا‘‘ اِس میں بعض اَوقات بے صبری سامنے آجاتی ہے۔ اگر کوئی کسی بزرگ ، اِمام مسجد یا عالمِ دین کو اپنی مصیبت اِس لئے بتارہا ہے تاکہ وہ اُس کےلئے دعا کریں ، یا کسی ڈاکٹر کو بتارہا ہے تا کہ وہ اُس کی بیماری کا عِلاج کرے اور اِتنا بتا رہا ہے جتنا بتانے کی حاجت ہے تو یہ بے صبری میں نہیں آئے گا اور ثواب بھی ضائع نہیں ہوگا۔ بعض لوگ ڈاکٹر کو اپنی بیماری بتاتے ہوئے بھی بہت مُبالغہ کرتے ہیں۔ بخار ہوا ہے تو کہیں گے کہ ’’شدید بخار ہے۔ ‘‘ درد ہورہا ہے تو کہیں گے کہ ’’شدید درد ہے۔ ‘‘ اگر شدید ہے تو شدید کہنے میں حرج نہیں ہے ، لیکن بعض اَوقات ایسا ہوتا نہیں ہے۔ پہلے کہا کرتے تھے کہ ’’دَوا خانے جارہا ہوں ، یا امّی کو دواخانے لے جارہا ہوں۔ ‘‘ اب کہتے ہیں کہ ’’امّی کو ہسپتال لے جارہا ہوں‘‘ کیونکہ ہسپتال کا نام بھاری ہے ، اِس لئے ہمدردی لینے کےلئے یہ لفظ اِستِعمال کیا جاتا ہے ، حالانکہ اِس کی جگہ کلینک بھی بولا جا سکتا ہے۔ ہسپتال کا نام سُن کر آدَمی تھوڑا چونکتا ہے ، اِس لئے اگر کبھی ہسپتال جابھی رہے ہوں تو یہ وضاحت کردینی چاہیے کہ ’’صرف چیک اَپ کےلئے ہسپتال جارہا ہوں۔ ‘‘ اپنی مصیبت ضرورتاً بیان کرسکتے ہیں ، بڑھا چڑھا کر اور مبالغے کے ساتھ بیان نہ کی جائے۔
بعض لوگ ویسے نارمل ہوتے ہیں ، لیکن دوسرے کے دیکھتے ہی بیمار جیسا مُنہ بنالیتے اور بیماری والا انداز اِختیار کرلیتے ہیں۔ میں ایک جگہ کسی کی عیادت کے لئے گیا ، وہ اچھا خاصا بیٹھا ہوا تھا ، لیکن مجھے دیکھتے ہی لیٹ گیا اور چادر تان لی ، اب اُس کا نصیب کہ میں اُسے دیکھ چکا تھا۔ بہرحال! میں نے بھی اُسے کچھ نہیں بولا کہ ’’ڈرامہ چھوڑو!‘‘ تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو ، لیکن ظاہر ہے کہ یہ ڈرامہ ہی تھا کہ کوئی عیادت کرنے آئے تو اُسے بیمار بن کر دکھا ؤ تاکہ وہ خوب ہمدردیاں کرے۔ جو اپنے بیمار ہونے کا جھوٹا اظہار کرتا ہےاُس کے لئے حدیثِ پاک میں وعید موجود ہے کہ وہ جیسا اِظہار کررہا ہے ، کہیں ویسا ہی بیمار نہ ہوجائے۔ ( فردوس الاخبار ، 2 / 421 ، حدیث : 7624)
اِس لئے اگر کسی کے سامنے اِظہار کرنا ہے تو اُتنا ہی کریں جتنا کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کل لوگ ہر طرح کی بیماری بلکہ معیوب بیماریوں کا بھی اِظہار کردیتے ہیں۔ حالانکہ ایک دور وہ تھا کہ پیٹ میں بھی درد ہوتا تو بتاتے ہوئے شرماتےتھے۔ ہاں! ضرورتاً ڈاکٹر کو بتایا جاسکتا ہے ، لیکن اُسے بتانے میں بھی اچھے الفاظ کا انتخاب کیا جائے کہ ’’تھوڑا پیٹ کا مسئلہ ہے۔ ‘‘ حضرت اِمام محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ نے یہ واقعہ نقل فرمایا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی بغل میں پھوڑا ہوا تھا۔ کسی نے آزمانے کے لئے کہ دیکھو! یہ کیا جواب دیتے ہیں؟ پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاتھ کے اندر کی طرف پھوڑا ہوا ہے۔ (احیاء العلوم ، 3 / 151مفہوما) آپ رحمۃُ اللہ علیہ لفظ ’’بغل‘‘ بولنے سے بھی شرمائے۔ ہم میں سے کوئی ہوتا تو شاید بغل اُٹھا کر دِکھا بھی دیتا۔ ہمارے ہاں تو جہاں جہاں تکلیف ہے بعض اَوقات وہاں کا پورا نقشہ کھینچ کر بتایا جارہا ہوتا ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو ’’عثمانِ باحیا‘‘ کا صدقہ نصیب فرمائے اور شرم و حیا کی دولت عطا کرے۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایسے باحیا تھے کہ بند کمرے میں بھی لباس تبدیل کرتے ہوئے شرم کے مارے سکڑ جاتے تھے۔ (مسند امام احمد ، 1 / 160 ، حدیث : 543مفہوما)
بِلا ضرورت تکلیف کا اِظہار نہ کیجئے
سُوال : بعض اَوقات انسان جب کسی کے سامنے خوب گلے شکوے کرتا ہے اور سامنے والا نرمی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’صبر کیجئے!‘‘ تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ ’’بس جی ، صبر ہی تو کررہے ہیں۔ ‘‘ ایسوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟(رُکنِ شوریٰ ابو الحسن حاجی محمّد امین عطّاری)
[1]…… یہ رِسالہ16 جُمادَی الْاُولیٰ 1441 ھ بمطابق 11 جنوری 2020 کو عالمی مَدَنی مَرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں ہونے والے مَدَنی مذاکرے کا تحریری گلدستہ ہے ، جسے اَلمدینۃ الْعلْمیۃ کے شعبہ ’’ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت‘‘نے مُرتَّب کیا ہے۔ (شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع