30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خاتمِ النَّبِیّن ط دُعائے عطار:یاربَّ المصطفٰے!جو کوئی41 صفحات کا رسالہ ” اَربعینِ عطّار“پڑھ یا سُن لے،اُسے حدیثوں کی برکتوں سے مالا مال کرکے ماں باپ اور خاندان سمیت بے حساب بخش دے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّن صلّی اللہ علیهِ واٰله و سلّم پہلے اِسے پڑھیں فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو شخص میری اُمّت تک پہنچانے کیلئے دین کے متعلق 40 حدیثیں یاد کر لے گا تو اُسے اللہ پاک قِیامت کے دن عالِمِ دین کی حیثیت سے اُٹھائے گا اور بروزِ قیامت میں اُس کا شفیع اور گواہ ہوں گا۔(شعب الایمان، 2/270، حدیث: 1726) اِس سے مراد چالیس احادیث کا لوگوں تک پہنچانا ہے اگرچہ وہ یاد نہ ہوں ۔(اشعۃ اللمعات، 1/186) اَلحمدُ لِلّٰہ ! حدیثِ پاک میں بیان کی گئی فضیلت اُس کو بھی حاصل ہوگی جو چھاپ (یعنی پرنٹ کروا) کر یا دیکھ کر بیان کرکے یا کسی بھی ذریعے سے لوگوں تک 40 حدیثیں پہنچائےلہٰذا یہ فضیلت پانے کی نیّت سے 40فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بنام ’’ اربعینِ عطّار‘‘پیش کئے جاتے ہیں: بانیِ دعوتِ اسلامی ،امیرِاہلِ سنّت حضرتِ علامہ مولانامحمدالیاس عطّار قادری رضوی بیض اللہ وجہہ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی چالیس(40)احادیث ِ مبارکہ مختلف مقامات سے جمع کی گئی ہیں۔ آپ کالکھنے کا انداز بڑا پیارا ہے کہ آ پ اپنی تحریر کاآغاز لفظ’’ اللہ ‘‘سے کرتے ہیں ،اِس کے بعد حدیث شریف مع سبز سبز گنبد شریف کی یاددلاتےدستخط۔ اَلحمدُ لِلّٰہ ! امیرِاہلِ سنّت کی لکھی ہوئی احادیثِ مبارکہ کی ابتدا میں احادیث کی عربی بھی شامل کردی گئی ہےتاکہ زبانی یادکرنے والوں کو آسانی ہونیز بارہااحادیثِ مبارکہ سمجھنے کےلئے شرحِ حدیث کی ضرورت پڑتی ہے،حتّی الامکان کوشش کرکے اکثر احادیثِ مبارکہ کی شروحات کا اضافہ بھی کردیا ہے۔ ماشاء اللہ الکریم ! صفحہ نمبر30اور34پر موجود احادیثِ مبارکہ امیراہلسنت نے 30سال اورصفحہ نمبر31والی حدیثِ پاک 34 سال قبل اپنے ہاتھ سے تحریر فرمائی۔ اللہ کریم !اِس کاوِش کوقبول فرمائے اورجنہوں نے اس رسالے کو تیار کرنے میں تعاوُن کیا اُنہیں فیضانِ حدیث سے مالا مال فرمائے۔ طالبِ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت ابومحمد طاہر عطاری مَدَنی عفی عنہ(1) 80 سال کے گناہ معاف
اَلصَّلاَةُ عَلَيَّ نُورٌ عَلَى الصِّرَاطِ وَ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ يَوْم َالْجُمُعَةِ ثَمَانِيْنَ مَرَّةً غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُ ثَمَانِيْنَ عَامًا (مسند الفردوس،2/408،حدیث:3814) فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : مجھ پر دُرود پڑھنا پُل صراط نور ہے،جو روزِ جمعہ مجھ پر80 بار دُرُودِپاک پڑھے اُس کے 80 سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ شرحِ حدیث:نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دُرود پاک پڑھنےکا ثواب پل صراط پرایسا نور ہوگا جو اس پر چلنے والے کے لئے چمکے گا اور روشن ہوگا ۔ یہاں گناہوں کی معافی سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے۔(السراج المنیر شرح الجامع الصغیر،3/283)(2) سب سے زیادہ پیارا
لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى اَكُونَ عِنْدَهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهٖ (مسند امام احمد ، 6/303، حدیث: 18069) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک مَیں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب (یعنی پیارا) نہ ہوجاؤں۔ شرحِ حديث: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب (یعنی پیارا)رکھنے کا مطلب یہ ہےکہ دینِ اسلام کو مانا جائے، آپ کی سنّتوں کی پیروی کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم کی جائے اور ہر چیز یعنی اپنی ذات ، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ ، اپنے عزیز و رشتہ دار اور اپنے مال و اسباب پر رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا و خوشی کو مُقَدَّم رکھے ۔ (اشعۃ اللمعات، 1/50 ملخصاً)(3) اچھا بولئے یاخاموش رہئے
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَصْمُتْ ( بخاری، 4/105، حدیث: 6018) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : اللہ اور قِیامت پر جو ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘ شرحِ حدیث:حدیثِ پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بات کرنا چاہےتو غور کرلے کہ وہ بات باعثِ ثواب ہے یا نہیں ؟اگرباعثِ ثواب ہو تو بات کرے۔اگر باعثِ ثواب نہ ہو توبات نہ کرے۔اگر وہ بات نہ باعثِ ثواب ہواور نہ باعثِ گناہ بلکہ مباح ہو تو اِس سےبھی اِس لئے بچےکہ کہیں مباح باتیں کرنے کی عادت ناجائز و حرام بولنے تک نہ لے جائے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب کوئی بولنا چاہے تو(بولنے سےپہلے)سوچ لے، اگراُس پر واضح ہو کہ بولنا اُس کے لیے نقصان دہ نہیں تو بولے اور اگربولنے کا نقصان اُس پر واضح ہو یا اُس( بات کےنقصان دہ ہونے) میں شک ہو تو مت بولے ۔ (شرح مسلم للنووی، 2/19)(4) جنتیوں کاپہلاکھانا
وَاَمَّا اَوَّلُ طَعَامٍ يَاْكُلُهٗ اَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوْتِ (بخاری، 2/605، حدیث: 3938) فرمان ِمصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم :پہلا وہ کھانا جسے جنتی کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کا کنارہ ہے۔ شرحِ حديث:مچھلی کی کلیجی کا یہ حصّہ سب سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ اِس مچھلی کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ وہی مچھلی ہے کہ جس پر زمین ٹھہری ہوئی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح، 10/189، حدیث: 5870)(5) کر بھلا ؛ہو بھلا
مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ( بخاری، 2 / 126، حدیث: 2442 ) فرمان ِمصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم :”جو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قیامت کی تکالیف میں سے اس کی تکلیف دور فرمائے گا۔“ شرحِ حدیث : سبحانَ اللہ !کیسا پیارا وعدہ ہے ، مسلمان بھائی کی تم مددکرو اللہ تمہاری مدد کرے گا ، مسلمان کی حاجت روائی(ضرورت پوری) تم کرو اللہ تمہاری حاجت روائی ( ضرورت پوری) کرے گا۔ معلوم ہوا کہ بندہ بندے کی حاجت روائی کر سکتا ہے ، یہ شرک نہیں ، بندہ بندے کا حاجت رَوا مُشکل کُشا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 6 /551)تکلیف دور کرنے سے لوگوں پر آنے والی آزمائش کا دور کرنا یا اُسے کم کرنا مرادہے۔کسی غریب کی مالی مدد،مریض کے لئے دوا اور ڈاکٹر کا انتظام،کسی پر ہونے والے ظلم کو دور کرنے کی کوشش سب اس میں داخل ہیں۔(6) کامل ایمان کی نشانی
لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِاَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ ( بخاری ،1/16، حدیث:13) فرمان ِمصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم :”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔“ شرح حدیث: اس حدیث میں ایمان سے کامل ایمان مراد ہے، اس(بات ) کو(یہ) لازم ہے کہ(بندہ) جو اپنے لئے ناگوار جانے وہ دوسروں کیلئے بھی ناپسند کرے۔یعنی آدمی یہ چاہتا ہے کہ ہم آرام ،اعزاز کے ساتھ خوش رہیں، کوئی ہماری تذلیل نہ کرےکوئی ہمیں ایذا نہ پہنچائے، اسی طرح یہ بھی چاہیے کہ میرا بھائی اعزاز کے ساتھ خوش رہے، نہ اس کی توہین ہو نہ اس کا حق غصب کیا جائے۔ہر شخص اگر اس کا عادی ہو جائے تو معاشرہ صاف ستھرا رہے گا اور زندگی چین و اطمینان سے گزرے گی۔ ظاہر ہے کہ لڑائی جھگڑے کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ انسان تنگ دلی سے یہ چاہنے لگتا ہے کہ سب کچھ ہمیں میسر ہو‘ دوسرے محروم رہیں۔ اس حدیث میں تَواضُع مَرَوَّت، امداد باہمی ایک دوسرے کے کام آنے اور دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بلیغ ترین ترغیب ہے۔ (نزہۃ القاری، 1/314)(7) کامل مسلمان
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهٖ وَيَدِهٖ(بخاری ،1/16،حدیث: 11 ) فرمان ِمصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ شرحِ حدیث: کامل مسلمان وہ ہے جولُغَۃً شرعاً ہر طرح مسلمان ہو (اور) مومن وہ ہے جو کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے، گالی، طعنہ، چغلی وغیرہ نہ کرے، کسی کو نہ مارے پیٹے، نہ اس کے خلاف کچھ تحریر کرے۔ یہ حدیث اخلاق کی جامع ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 1/29)(8) آگ کی چادر
إِنَّ الشَّمْلَةَ لَتَلْتَهِبُ عَلَيْهِ نَارًا أَخَذَهَا مِنَ الْغَنَائِمِ يَوْمَ خَيْبَرَ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ، قَالَ: فَفَزِعَ النَّاسُ، فَجَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ أَوْ شِرَاكَيْنِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَصَبْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ (مسلم، ص69،حدیث:310 ملتقطاً) فرمان ِمصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم : (غزوۂ خیبر کی غنیمت میں سے)ایک چادر جو غلام نے بطور خیانت دبالی تھی وہ(مرنےکے بعد) اس پر آگ بن کر شُعْلَہ زَن ہے۔یہ سُن کرایک شخص کھڑاہوکرگیا اور ایک تَسْمہ لے آیا جسے اس نے مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے لے لیا تھا( اس کو دیکھ کر ) نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : یہ آگ کا تسمہ ہے۔(9) نمازِ فجر و عشا کی جماعت کاثواب
مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَاَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَاَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهٗ(مسلم، ص 258، حدیث: 1491 ) فرمان ِمصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم : جس نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی اس نے آدھی رات قیام کیا اورجوفجرجماعت سےپڑھےگویااس نے پوری رات قیام کیا۔(یعنی ساری رات عبادت کی) شرحِ حدیث:اس کے دومطلب ہوسکتے ہیں :(1) ایک یہ کہ عشا کی باجماعت نماز کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابر ہے اورفجرکی باجماعت نمازکا ثواب باقی آدھی رات کی عبادت کے برابر،تو جو یہ دونوں نمازیں جماعت سے پڑھ لے اسے ساری رات عبادت کاثواب۔(2) عشا کی جماعت کا ثواب آدھی رات کے برابرہے اورفجرکی جماعت کاثواب ساری رات عبادت کے برابر، کیونکہ یہ(یعنی فجر کی) جماعت عشا کی جماعت سے زیادہ بھاری (یعنی نفس پر بوجھ)ہے۔پہلےمعنیٰ زیادہ قوی (یعنی زیادہ مضبوط ) ہیں ۔ جماعت سے مراد تکبیر اولیٰ پاناہے جیسا کہ بعض عُلَما نے فرمایا۔(مراٰۃ المناجیح،1/396)(10) نیکی کاراستہ بتانے کا ثواب
مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ ، فَلَہٗ مِثْلُ اَجْرِ فَاعِلِہٖ(مسلم، ص 809، حدیث: 4899) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :”جو شخص کسی کو نیکی کا راستہ بتائے گا، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس نیکی کرنے والے کو“ نیکی کرنے والا،کرانے والا، بتانے والا، مشورہ دینے والا سب ثواب کے مُسْتَحِق ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح،1/194)(11) نرم دل
مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ، يُحْرَمِ الْخَيْرَ(مسلم، ص1072، حدیث:6598) فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جو نرمی سے محروم رہا، وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ شرح حدیث : جس پر رب مہربان ہوتا ہے اسے نرم دل بنا دیتا ہے،جس پر رب کا قہر ہوتا ہے اسے سخت دل کردیتا ہے،سخت دل میں کسی کا وعظ(یعنی بیان)اثر نہیں کرتا۔(مراٰۃ المناجیح، 6/636)(12) مشکوک چیزیں چھوڑ دیجئے
دَعْ مَا يُرِيْبُكَ اِلَى مَا لَا يُرِيْبُكَ ) ترمذی ، 4/232، حدیث:2526) فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دے اور جس میں شک نہ ہو اسے اختیار کر۔ شرحِ حدیث: جس چیز کے اچھا یا برا اورحلال یا حرام ہونے میں شک ہو تو اُسے چھوڑ کر اُس چیز کو اختیار کرو جس میں کوئی شک نہ ہواور اُس کااچھا اور حلال ہونا یقینی ہو۔(فیض القدیر، 3/706) اِس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ بندہ اپنے کام کی بنیاد یقین پر رکھے۔ (مرقاۃ المفاتیح،6/24مفہوماً)(13) صدقے کی برکتیں
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيْتَةَ السُّوْ ءِ(ترمذی، 2/146، حدیث: 664) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :”بے شک صدقہ رب کے غضب کو بجھاتا اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔“ شرحِ حدیث: سخی پر اوّلاً تو دنيوی مصیبتیں آتی نہيں اگر امتحاناً آبھی جائيں تو اللہ کی طرف سے اسے سکون قلبی نصيب ہوتا ہے جس سے وہ صبر کرکے ثواب کما ليتا ہے غرض کہ اس کے لئے مصيبت معصيت(گناہ) لے کر نہيں آتی مغفرت لے کر آتی ہے، معصيت والی مصیبت خدا کا غضب ہے اور مغفرت والی مصيبت اس کی رحمت ۔(مراٰۃ المناجیح، 3/103)(14) دعا مانگئے
مَنْ سَرَّهُ اَنْ يَسْتَجِيْبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكُرَبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ ( ترمذی،5/248، حدیث: 3393) فرمان ِمصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :”جو چاہے کہ مصیبتوں کے وقت اللہ پاک اس کی دعا قبول کرے تو وہ آرام کے زمانے میں دعائیں زیادہ مانگا کرے۔“ شرحِ حدیث: اس کی وجہ ظاہر ہے کہ صرف مصیبت میں دعا مانگنا اور راحت میں رب سے غافل ہوجانا خود غرضی ہے اور ہر وقت دعا مانگنا عبدیت ہے ربّ کو خود غرضی ناپسند ہے عَبْدیَّت پسند(ہے) ۔(مراٰۃ المناجیح، 3/297)(15) شرمندہ نہ کریں
مَنْ عَيَّرَ اَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ (1) (ترمذی، 4/226، حدیث:2513) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم : جس نے اپنے بھائی کو( ایسے)گناہ پر شرم دِلائی (جس سے وہ توبہ کرچکا ہے) تو مرنے سے پہلے وہ خو داُ س گناہ میں مُبتلا ہوجائے گا۔ شرحِ حدیث گناہ سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ توبہ کرچکا ہے یا وہ پرانا گناہ جسے لوگ بھول چکے یا خفیہ گناہ جس پر لوگ مطلع نہ ہوں اور عار دلانا توبہ کرانے کے لیے نہ ہوں محض غصہ اور جوش غضب سے ہو یہ قیود خیال میں رہیں مزید یہ کہ ایسا شخص اپنی موت سے پہلے یہ گناہ خود کرے گا اور اس میں بدنام ہوگا مظلوم کا بدلہ ظالم سے خود ربّ تعالیٰ لیتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/473)(16) جنتّی جوانوں کے سردار
اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ(ترمذی، 5/426، حدیث3793) فرمانِ مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم :”حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔“ شرحِ حدیث:یعنی جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور ہوں جنّتی ،حضرتِ حسنین کریمین(رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا) اُن کے سردار ہیں ورنہ جنّت میں تو سبھی جوان ہوں گے۔ (مِراٰۃ المناجیح، 8/475)(17) آخری نبی کے ساتھی
أَنْتَ صَاحِبِي عَلَى الْحَوْضِ وَ صَاحِبِي فِي الْغَارِ ( ترمذی، 5/378، حدیث: 3690) فرمانِ مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم :(اے ابوبکر !) تم میرے حوضِ کوثر کے اور غار کے ساتھی ہو۔ شرحِ حدیث: یعنی دنیا و آخرت میں میرے ساتھی ہو۔(صدیق اکبر)حوض کوثر پر ہم راہ رکاب رہیں گے۔ (مطلع القمرین، ص180)غار میں نبیِ کریم کے ساتھ ہونا صدیق اکبر کی ایسی خصوصی شان ہے کہ جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔(لمعات التنقیح، 9/600، تحت الحدیث: 6028)(18) عزت کا لباس
مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَزِّي اَخَاهُ بِمُصِيْبَةٍ اِلَّا كَسَاهُ اللهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ابنِ ماجہ،2/268،حدیث:1601) فرمانِ مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم :جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیت کرے، اللہ پاک قیامت کے دن اُسے عزت کا لباس پہنائے گا۔ شرح حدیث: تعزیت کرنا سنت مؤکدہ ہے اور تعزیت صرف موت کے ساتھ ہی خاص نہیں ۔موت پر تعزیت کرنا مستحب ہے خواہ دفنانے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ ( التیسیر بشرح الجامع الصغیر 2/366،فیض القدیر ، 5/632،تحت الحدیث:8092)(19) تلاوت میں رونا ثواب ہے
فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوْا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوْا فَتَبَاكَوْا (ابن ماجہ،2/129، حدیث:1337) فرمان ِمصطفےصلی اللہ علیہ والہ وسلم:قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بناؤ۔ شرح حدیث: غم کی کیفیت میں اس طرح قراءَت کرنا کہ آنکھوں سے آنسو بہیں، اس سے قراءَت کرنے والے کولذت حاصل ہوگی جس کے ذریعے سے وہ اللہ پاک کے قریب ہوگا۔ (حاشیہ سندی علی سنن ابن ماجہ ،1/ 402) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قرآنِ کریم پڑھتے ہوئے رونے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن میں آنی والی تنبیہات(یعنی نصیحتوں)،وعیدات اور عہد وپیمان کو یاد کرے، پھر جن باتوں کا حکم ہے اور جن باتوں سے روکا گیا ہے اُن میں اپنی کوتاہیوں میں غور وفکر کرے تویقیناً وہ غمگین ہو گا اور رونے لگے گا۔ اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔(احیاء العلوم، ۱/836،837 بتصرف)(20) مُراد پوری
مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ(ابن ماجہ،3/490 ، حدیث: 3062) ”زم زم جس مراد کے لئے پیا جائے اُسی کے لیے ہے۔“ شرحِ حدیث: کیونکہ زم زم تمام پانیوں کا سردار ہے اور تمام پانیوں میں اشرف اور رتبے کے اعتبار سے اعلٰی ہے اور دلوں کو محبوب (یعنی پسندیدہ)ہے۔کیونکہ الله پاک نے اپنے خلیل (یعنی حضرتِ ابراہیم علیہ السلام )کے بیٹے (یعنی حضرتِ اسمعیل علیہ السلام )کی سیرابی اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھیجا تو یہ حاجت روائی ان کے بعد والوں کے لیے باقی رہی تو جو اِسے اخلاص کے ساتھ پئے تو اپنی ضرورت کو پا لے گا۔ کئی علمائے کرام نے اپنے مقاصد کے حصول کےلیے اِسےپیا تو انہوں نےاپنی مراد حاصل کر لی۔(فیض القدیر شرح جامع الصغیر،7/273)(21) پودالگاناہے درخت بنانا
مَنْ بَنَى بُنْيَانًا مِنْ غَيْرِ ظُلْمٍ وَلَا اعْتِدَاءٍ اَوْ غَرَسَ غَرْسًا فِي غَيْرِ ظُلْمٍ وَلَا اعْتِدَاءٍ كَانَ لَهُ أَجْرٌ جَارٍ مَا انْتُفِعَ بِهٖ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى (مسند امام احمد، 5/309، حدیث: 15616) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :”جس نے کسی ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا، جب تک اللہ پاک کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گاتو اس(لگانے یا بنانے والے) کو ثواب ملتا رہے گا ۔“ شرحِ حدیث: معلوم ہوا ایسا کام کرنا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچے جائز ہے جبکہ اس میں ظلم اور زیادتی کی کوئی صورت نہ ہو۔(شرح مشکل الآثار،2/416،حدیث:957)(22) پانچ سے پہلے پانچ
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ:شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ،وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ،وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ،وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ۔(مستدرک5/435،حدیث:7916) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :پانچ سے پہلے پانچ کو غنیمت جانو(1)جوانی کو بڑھاپے سے پہلےاور(2)صحت کو بیماری سے پہلے اور (3)مالداری کو تنگدستی سے پہلےاور (4)فرصت کو مشغولیت سے پہلےاور (5)زندگی کو موت سے پہلے۔ شرحِ حدیث:سمجھدار شخص شام ہونے پر صبح کا انتظار نہیں کرتا اور صبح ہونے پر شام کا انتظار نہیں کرتا بلکہ اسے لگتا ہے کہیں ایسا نہ ہو اس سے پہلے ہی مجھے موت آجائے، اس لئے وہ نیک اعمال کرتا ہےجو اسے موت کے بعد کام آئیں گے، اسی طرح وہ صحتمندی کے زمانے کو غنیمت جانتے ہوئے اس میں نیکیاں کرتا ہے۔ (ارشاد الساری،13/486،تحت الحدیث:6416)(23) اہلِ عرب سے محبت
اَحِبُّوْا الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ لِاَنِّیْ عَرَبِیٌّ وَالْقُراٰنُ عَرَبِیٌّ وَلِسَانُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ عَرَبِیَّۃٌ فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :تین باتوں کے سبب عرب سے محبت کرو کہ میں عربی ہوں اور قرآن عربی ہے اور جنتیوں کی زبان بھی عربی ہے۔(مستدرک ،5/117، حدیث:7081) شرحِ حدیث:عرب سے مراد عرب کے مؤمنین ہیں۔ مؤمنین عرب ہمارے سروں کے تاج ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پڑوسی ہیں۔یہاں مرقات میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم عربی،قرآن مجید عربی،جنتیوں کی زبان عربی،قبر کا حساب عربی زبان میں ہے، عربی زبان تمام زبانوں سے زیادہ فصیح زیادہ مختصر ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخیوں کی عربی زبان نہیں ہوگی ،یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن وہ ہے جو عربی میں ہے،اس کے ترجمے قرآن نہیں نہ ان کی تلاوت نماز میں درست،حضرت ِجبریل علیہ السلام نے جو قرآن حضور کو سنایا وہ عربی تھا۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ مرتے ہی سب کی زبان عربی ہوجاتی ہے اس لیے قبر و حشر کے سارے کاروبار عربی میں ہوں گے،اہلِ جنت کی زبان عربی ہی رہتی ہے۔ (مِراٰۃ المناجیح،8/333)(24) بدن آگ پر حرام
مَنْ صَلَّى اَرْبَعَ رَكْعَاتٍ قَبْلَ الْعَصْرِ حَرَّمَ اللهُ بَدَنَهٗ عَلَى النَّارِ (معجم کبیر،23/281،حدیث:611) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :جو عصر سے پہلے چار رکعتیں (یعنی عصر کی سنتیں)پڑھے، اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمادے گا۔ مزید دواحادیثِ مبارکہ میں ان چار رکعات کے پڑھنے والے کے لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے رحمت کی دعا اور اس کے بدن کے آگ پر حرام ہونےکو بیان فرمایاہے ۔ (الفتح الربانی،4/204)(25) سر میں لوہے کی کیل
لَاَنْ يُّطْعَنَ في رَأْسِ اَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ اَنْ يَّمَسَّ اِمْرَاَةً لَا تَحِلُّ لَهُ (معجم کبیر،، 20/211، حدیث: 486) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل گھونپ دی جائے یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہیں۔“ شرح حدیث حدیثِ پاک میں لوہے کی کیل یا سوئی وغیرہ کواس لئے خاص کیا گیا ہے کہ یہ دوسری تکلیف پہنچانے والی چیزوں کےمقابلے میں زیادہ تکلیف پہنچانے والی ہے۔ غیر محرم (یعنی اجنبیہ)عورت کو فقط چُھونے کا یہ عذاب ہے تو پھر اُس شخص کا کیا حال ہوگا کہ جو اس سے بھی بڑھ کر گناہ کرے جیسے کہ کسی عورت سے بدکاری کرنا وغیرہ ۔ ( التیسیر بشرح الجامع الصغیر، 2/ 208 )(26) سب سے افضل عمل
اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلٰى اللهِ بَعْدَ الفَرَائِضِ اِدْخَالُ السُّرُوْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ (معجم کبیر،11/59،حدیث:11079) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم : اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔(27) کالے چہرے
اَلْمُصِيْبَةُ تُبَيِّضُ وَجْهَ صَاحِبِهَا يَوْمَ تَسْوَدُّ الْوُجُوْهُ (معجم اوسط،3/290،حدیث:4622) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :مصیبت اپنے صاحب (یعنی مصیبت زدہ) کا چہرہ اس دن چمکائے گی جس دن چہرے سیاہ ہوں گے۔ شرحِ حدیث: یعنی قیامت کے دن مصیبت زدہ کا چہرہ سفید اور روشن ہوگا اور اس دن اہلِ باطل کے چہرے سیاہ ہوں گے اور اندھیرے نے انہیں ہر طرف سے گھیرا ہوا ہوگا۔(فیض القدیر، 6/354، تحت الحدیث: 9218)(28) والدین کی قبر پر حاضری
مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبَوَيْهِ اَوْ اِحْدَاهُمَا فِيْ كُلِّ جُمُعَةٍ غُفِرَ لَهُ وَكُتِبَ بَرًّا (شعب الایمان، 6/201، حدیث: 7901) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :”جو اپنے والدین دونوں یا ایک کی قبر کی ہرجمعے کے دن زیارت کرے گا، اس کی مغفرت ہوجائے گی اور وہ نیکو کار لکھا جائے گا۔“ شرحِ حدیث: یہاں جُمعہ سے مرادیا تو جُمعہ کا دن ہے یا پورا ہفتہ، بہتر ہے کہ ہر جُمُعَہ کے دن والدین کی قُبُورکی زیارت کیا کرے،اگر وہاں حاضری مُیَسَّر نہ ہوتوہرجُمُعَہ کوان کے لئےایصالِ ثواب کیا کرے۔ (مراٰۃ المناجیح، 2/526)(29) سوناعبادت
نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ، وَسُكُوتُهُ تَسْبِيحٌ، وَدُعَاؤُهُ مُسْتَجَابٌ، وَعَمَلُهُ مُتَقَبَّلٌ (شعب الایمان،3/415،حدیث:3938) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :روزہ دار کا سونا عبادت اور اس کی خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی دعا قَبول اور اس کا عمل مقبول ہوتا ہے ۔ شرحِ حدیث:روزہ دار کا سوناعبادت ہے خواہ وہ روزہ نفلی ہویا فرض۔روزہ دار کی خاموشی تسبیح کی طرح ہے ،اس کی دعا اور عمل مقبول ہے۔ یہ فضیلت اُس روزے دار کے لئے ہے جو اپنے روزے کو غیبت وغیرہ گناہوں سے خراب نہ کرے۔ (التیسیربشرح الجامع الصغیر،2/462)(30) مسجد میں دنیا کی باتیں
يَأْتِيْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ حَدِيثُهُمْ فِيْ مَسَاجِدِهِمْ فِيْ اَمْرِ دُنْيَاهُمْ، فَلَا تُجَالِسُوْهُمْ، فَلَيْسَ لِلَّهِ فِيْهِمْ حَاجَةٌ( شعب الایمان،3/86، حدیث:2962) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ مساجد میں دنیا کی باتیں ہوں گی، تم ان کے ساتھ مت بیٹھوکہ اللہ پاک کوایسے لوگوں کی کوئی حاجت نہیں ۔ شرح حديث: یعنی اللہ پاک اُن پرکرم نہ کرے گا،ورنہ رب کو کسی بندے کی ضرورت نہیں ،وہ ضرورتوں سے پاک ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/457)(31) اصل مُجاَہَدہ
المُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ (شعب الایمان، 7/499، حدیث: 11123ملتقطاً) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ شرحِ حدیث: یعنی نفسِ امارہ کے ساتھ جو کہ برائی کا حکم دیتا ہے ۔ انسان کو چاہیےنفس امارہ کو اللہ پاک کی رضا، نیکی کے کاموں اور گناہوں سے بچنے کی طرف راغب کرے اور یہی اصل مجاہدہ ہے۔(التيسير بشرح الجامع الصغير، 2/454)(32) سال بھر تک رزقِ حلال
مَنْ جَاعَ اَوِاحْتَاجَ فَكَتَمَهُ النَّاسَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ اَنْ يَرْزُقَهُ رِزْقَ سَنَةٍ مِنْ حَلَالٍ(شعب الایمان، 7 / 215، حدیث: 10054) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :”بھوکا اور حاجت مند اگر اپنی حاجت لوگوں سے چھپائے ۔ خدائے تعالی رزق حلال سال بھر تک اسے عنایت کرے۔“ شرحِ حدیث: یہاں بھوک سے مراد قابل ِبرداشت بھوک ہے جس سے ہلاکت نہ ہو،اس کا چھپانا اور خود کما کر پیٹ بھرنا بہتر ہے، لیکن اگر بھوک سے جان نکل رہی ہے تو اس کا ظاہر کرنا کسی سے کچھ لے کر بقدر ضرورت کھالینا فرض ہے،اگر چھپائے گااور بھوکا مرجائے گا تو حرام موت مرے گا۔(مراٰۃ المناجیح،7/84)(33) جنّت میں چلے جاؤ!
اُعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ، وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَاَفْشُوا السَّلَامَ، تَدْخُلُوا الْجِنَانَ ۔‘‘ (الأدب المفرد،حدیث: 981،ص255)” فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم :’’رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ، سلام پھیلاؤ، جنت میں چلے جاؤ۔ شرحِ حدیث: سلام پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ سلام کو رواج دو،اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت سلام کا رواج نہ تھا اسلام نے’’ السلام علیکم ‘‘کہنا سکھایا۔کھانا کھلانے سے مراد ہے مہمانوں، فقیروں،یتیموں کو کھانا دو۔بعض لوگوں نے کہا کہ سلام اونچی آوازسے کہو جو سامنے والا سُن لے اور اپنے بچوں کو کھانا دو مگر پہلے معنے زیادہ قوی ہیں۔اگر تم نے ان باتوں پر عمل کرلیا تو عذاب و حجاب سے سلامت رہو گے اور جنت میں خیریت سے پہنچو گے جہاں تمہیں ربّ تعالٰی اورفرشتوں کی طرف سے سلام ہوا کریں گے۔ (مراۃ المناجیح، 3/102)(34) مُردہ دل
الضِحْكُ فِي الْمَسْجِدِ ظُلْمَة ٌفِي الْقَبْرِ ( مسند الفردوس ، 2/431، حدیث: 3891) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا لاتا ہے۔ شرحِ حدیث: مسجد میں ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے اور موت کی یاد کو بھلادیتا ہے اور پھر اس کی بناپر قبر میں ظُلمت (یعنی اندھیرے)کا سامنا ہوتا ہے ، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا والوں کا ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے اور اللہ والوں کا مسکرانا دِلوں کو روشن کرتا ہے ۔ (فیض القدیر، 4/341،تحت الحدیث:5231)(35) نامۂ اعمال خوش کرے
مَنْ اَحَبَّ اَنْ تَسُرَّه ٗصَحِيْفَتُهٗ فَلْيُكْثِرْ فِيْهَا مِنَ الاِسْتِغْفَار ِ ( مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ شرحِ حدیث: یعنی جوچاہے کہ قیامت کےدِن اُسے اُس کا اعمال نامہ خوش کرےتوچاہئے کہ وہ استغفار کی کثرت کرےکیونکہ قیامت کے دن نور سے چمکتاہوا آئے گا۔( فیض القدير،6/43) ( 36) مَنْ قَعَدَ اِلٰى قَيْنَةٍ يَسْتَمِعُ مِنْهَا صَبَّ اللهُ فِيْ اُذُنَيْهِ الْآنِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (تاریخ ابنِ عساکر،51/263،حدیث:10884) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :جو گانے والی کے پاس بیٹھے،کان لگا کر دھیان سے سُنے تو اللہ پاک بروزِ قِیامت اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلے(یعنی ڈالے) گا۔(37) رخصت ہونے والے کی طرح نماز
اِذا صَلَّى اَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ صلاةَ مُوَدِّعٍ صَلَاةَ مَنْ لَا يَظُنُّ اَنَّهُ يَرْجِعُ اِلَيْهَا اَبَداً )جامعِ صغیر، ص50، حدیث: 716) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم :’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو رخصت ہونے والے شخص کی طرح یہ گمان رکھ کر نماز پڑھے کہ اب کبھی دوبارہ نماز نہیں پڑھ سکے گا۔‘‘ شرحِ حدیث: یعنی جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو چاہیے کہ وہ اللہ پاک کی طرف اپنی مکمل توجہ کرے اور اللہ پاک کے علاوہ سب کوچھوڑ دے پھر الوداعی نماز کی وضاحت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس طرح فرمائی کہ وہ یہ گمان کرے کہ اس نماز کے بعد کبھی نماز نہ پڑھ سکے گا پس جب یہ چیز اُس کے ذہن میں ہو گی تو اُسے دھیان بٹانے والی چیزوں سے تعلق توڑنےپر اور اُس خشوع پر اُبھارے گی جو’’ نماز کی روح ‘‘ہے۔ (التیسیر بشرح جامع الصغیر ،1/ 110 )(38) سچی نیت
اَلنِّيَّةُ الْحَسَنَةُ تُدْخِلُ صَاحِبَهَا الْجَنَّةَ( جامع صغیر، ص 557، حدیث: 9326) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کرے گی۔ ایک اور حدیث ِ پاک میں ہے: سچی نیت عرش پر معلق رہتی ہے ، جب بندہ سچی نیت کرلیتا ہے تو عرش حرکت میں آجاتا ہے اور اس بندے کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر،2/464) (39) اِسْتَاكُوا اِسْتَاكُوا لَا تَاْتُوْنِىْ قُلْحًا(جمع الجوامع،1/389، حدیث:2875) مسواک کرو!مسواک کرو! میرے پاس پیلے دانت لے کرمت آیا کرو۔(40) خصوصی شفاعت
مَنْ صَلَّى عَلَىَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَانَتْ شَفَاعَةٌ لَهُ عِنْدِىْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (جمع الجوامع،7/199،حدیث:22353) فرمان ِمصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم :جومجھ پر روزِ جمعہ دُرود شریف پڑھے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ شرحِ حدیث: یعنی جو جمعہ کے دن دُرود پاک پڑھے گا اس کے لئے خصوصی شفاعت ہو گی ۔جمعہ کے دن دُرود شریف پڑھنے میں ایک مناسبت یہ ہے کہ جمعہ دنوں کا سردار ہےاور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مخلوق کے سردار ہیں تو اس دن میں درود شریف پڑھنے کی فضیلت زیادہ ہے جو دوسرے دنوں میں نہیں ہے۔(فیض القدیر،2/111،تحت الحدیث:1405)
1 …قَال اَحْمَدُ (قَالُوْا)مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْہٗ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع