30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلِہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط یہ مضمون ”نیکی کی دعوت“ صفحہ 234 تا 245سے لیا گیا ہے ۔عرش کا سایہ
دُعائے عطار! یاربَّ المصطفیٰ !جوکوئی 17صفحات کا رسالہ’’ عرش کا سایہ ‘‘پڑھ یاسُن لے، اُسےقیامت کی سخت گرمی میں عرش کا سایہ نصیب فرما کر اپنے راضی ہونے کی خوشخبری عنایت فرما ۔ اٰمِین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیه واٰلهٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: قىامت کے روز اللہ پاک کے عرش کے سوا کوئى ساىہ نہىں ہوگا تىن شخص اللہ پاک کے عرش کے سائے مىں ہوں گے عرض کى گئى : یَارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!ىہ کون لوگ ہوں گے ؟ ارشاد فرماىا : پہلا وہ شخص جو مىرے اُمتى کى پرىشانى دور کرے ، دوسرا میری سنّت کو زندہ کرنے والا، اور تیسرا مجھ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھنے والا ۔(بدور السافرة،131، حدیث :366)دین کا قُطبِ اعظم
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابو حامد محمد بن محمدبن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا دین کا قُطبِ اَعظم ہے،(یعنی ایسا اَہم رُکن ہے کہ اِس سے دین کی تمام چیزیں وابستہ ہیں)اِسی اَہَم کام کے لئے اللہ پاک نے تما م انبیاءِکرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کو مَبعُوث فرمایا(یعنی بھیجا)۔ (احیاءالعلوم،2/377)عَرش کا سایہ ملے گا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! میدانِ محشر کے ہولناک ماحول میں کہ جس دن عرشِ اِلٰہی کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا،اُس دن اللہ پاک اپنے جِن مُطِیع وفرماں بردار خاص بندوں کوعرشِ عظیم کے سائے میں جگہ اور جنّتُ الفردوس میں داخِلہ عطا فرمائے گا اُن خوش نصیبوں میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے مَنع کرنے والے اسلامی بھائیوں اوراسلامی بہنوں کابھی شُمُول ہو گا۔چُنانچِہ اللہ پاک نے حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ السّلام کی طرف وَحی فرمائی کہ جس نے بھلائی کا حکم دیااور بُرائی سے منع کیا اور لوگوں کو میری اِطاعت (یعنی فرمانبرداری)کی طرف بلایا،قِیامت کے دن میرے عرش کے سائے میں ہو گا۔ (حلیۃ الاولیاء ،6/36،رقم:7716) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب_```_صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدسورج ایک میل پر ہوگا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جب قِیامت کا دن ہو گا اور سورج ایک میل پر رَہ کر آگ برسا رہا ہو گا،شدّتِ پیاس سے زَبانیں باہَر نکل پڑی ہوں گی،لوگ پسینے میں ڈُبکیاں کھا رہے ہوں گے،عرش کے سائے کی صحیح معنوں میں اُسی وقت اَہمیَّت پتا چلے گی،اِس کی طلب اپنے دل میں پیدا کیجئے،گرمیوں کی دوپَہر ہو اور آپ چِلچلاتی دھوپ میں لق ودَق صحراکے اندر ننگے پاؤں چل رہے ہوں اگر ایسے میں کوئی سائبان یا سائے کی جگہ نظر آجائے اُس وَقت آپ کو کس قَدَر خوشی ہو گی اِس کاآپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں حالانکہ قِیامت کی تَمازَت (یعنی گرمی)کے مقابلے میں دنیاکی دھوپ کوئی حیثیَّت نہیں رکھتی۔لہٰذا بروزِ قِیامت اللہ پاک کی رَحمت سے”سایۂ عرش“پانے کیلئے آج دنیا میں خوب خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں بھی مچایئے اور اللہ پاک کی جناب میں سایۂ عرش کی بھیک بھی مانگتے رہئے۔ یاا لٰہی گرمیٔ محشر سے جب بھڑکیں بدن دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو یاالٰہی جب زَبانیں باہَر آئیں پیاس سے صاحِبِ کوثر شہِ جُود و عطا کا ساتھ ہو یا الٰہی سرد مِہری پر ہو جب خورشیدِ حَشر سیِّدِ بے سایہ کے ظلِّ لِوا کا ساتھ ہو (حدائقِ بخشش، ص 132 ) شرحِ کلامِ رضا:میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی مناجات کے تینوں اشعار کانمبروار خلاصہ ملا حَظہ فرمایئے: ﴿ 1 ﴾ اے میرے معبود ! جب محشر بپا ہو گا اور وہاں کی ہوشرُبا گرمی سے لوگوں کے بدن تَپ اور جل رہے ہوں گے اُس وَقت ہم غلامانِ مصطَفٰے کو اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دامنِ کرم کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نصیب کرنا ﴿ 2 ﴾ اے میرے پاک پروردگار! قیامت کی خوفناک تَپش اور جان لیوا پیاس کی شدّت سے جب زَبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں اور باہر نکل پڑیں ! ایسے دل ہلا دینے والے ماحول میں صاحبِ جودو سخاوت، مالکِ کوثر و جنَّت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ساتھ نصیب کرنا،کاش! کاش! کاش ! ہم پیاس کے ماروں کو صاحبِ کوثر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیارے پیارے ہاتھوں سے کوثر کے چھلکتے جام نصیب ہو جائیں ﴿ 3 ﴾ اے ربِّ کریم! قیامت کے تپتے ہوئے میدان میں کہ جب سورج خوب بپھرا ہواآگ برسا رہاہو،آہ! ایسی جان گھلانے والی سخت کڑی دھوپ میں جبکہ بھیجے کَھول رہے ہوں،ہمارے اُس سیِّد و سردار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جن کا دھوپ میں سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کے عظیم الشان جھنڈے کا ہمیں سایہ عطاکرنا۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب_```_صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّداچّھائی،بُرائی کا پیشوا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! کسی کو اپنا قائد،پیشوا اور لیڈر بنانے سے پہلے آخِرت کے نَفع و نقصان کے تعلُّق سے خوب غورکر لینا چاہئے،جو خوش نصیب کسی خدا رسیدہ نیک بندے کو اپنا پیشوا بنائے گا اُس کی باتوں پر عمل کرے گاوہ بروزِ قِیامت اُسی کے ساتھ ہو گا اور جو بدنصیب دنیا کی رنگینیوں میں بد مَست ہوکر،دولت و مَنصب کی ہَوَس کے سبب بُرے پیشوا(لیڈر)کے پھندے میں پھنس جائے گا اور دنیا میں اُس کی باتوں پر چلے گا تو محشر میں اُسی پیشوا(لیڈر)کے ساتھ ہو گا۔ہم سبھی کوقِیامت کی رُسوائی سے ڈرناچاہئے۔دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کے ترجمے والے پاکیزہ قراٰن، ”کنزالایمان مَع خزائنُ العرفان “ صَفْحَہ 539 پر پارہ 15سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 71 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (پ15،بنی اسرائیل:71) ترجَمۂ کنز الایمان:جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:(اُس امام کے ساتھ بُلائیں گے)جس کا وہ دُنیا میں اِتّباع(یعنی پیروی)کرتا تھا۔حضرتِ ابنِ عبّاس رضی اللہُ عنہمانے فرمایا:اِس سے وہ امامِ زَماں(یعنی اپنے دَور کاپیشوا)مُراد ہے جس کی دعوت پر دُنیا میں لوگ چلے،خواہ اُس نے حق کی دعوت دی ہویا باطِل کی۔حاصِل یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دنیا میں چلتی رہی اور انہیں اسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ فُلاں کے مُتَّبِعِین۔ (مُت۔تَ۔ بِ۔ عِین یعنی اتِّباع وپیروی کرنے والے)(تفسیر خزائنُ العِرفان،پ15،بنی اسرائیل،تحت الآیۃ:71)نیکی کے امام کا خوش انجام
جن خوش نصیبوں کو تبلیغ وارشاد اورنیکی کی دعوت کے حوالے سے دنیا میں منصبِ وجاہت ملا ہو گا اور انہوں نے بصداِخلاص خوش اُسلوبی کے ساتھ اپنی ذمّے داری نبھائی ہو گی اُن کے اور نیکی اوربھلائی کے کاموں میں اُن کا تعاون کرنے والے مخلصین کے آخِرت میں خوب وارے نیارے ہوں گے۔اِس ضمن میں ایک ایمان افروز روایت سنئے اور جھومئے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا کَعب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:نیکی کے امام کو قِیامت میں لایا جائے گا اور اُس سے کہا جائے گا کہ اپنے پَروَردَگار کے دربار میں حاضِری دوتو وہ حاضِری دے گا کہ درمِیان سے حِجابات(یعنی پردے)اُٹھ جائیں گے،اُس کو جنّت میں جانے کا حکم ہوگا،وہ جنّت میں جا کر اپنی منزِل(یعنی مقام)اوربھلائی کے کاموں میں تعاوُن کرنے والے دوستوں کی منازِل(یعنی مقامات)دیکھے گا،اُس سے کہا جائے گا کہ یہ فُلاں کی منزِل ہے اور یہ فُلاں کی ، تو وہ جنّت میں اُن تمام چیزوں کودیکھے گا جوخود اِس کے لئے اور اِس کے دوستوں کے واسِطے تیّار ہیں اور اپنی منزِل(یعنی مقام)ان سب(دوستوں کی منزِلوں) سے افضل پائے گا،پھر اسے جنّت کے حُلّوں(یعنی ملبوسات)سے ایک حُلّہ(یعنی لباس) پہنایا جائے گا او راس کے سر پر جنّت کے تاجوں میں سے ایک تاج رکھاجائے گا اور اس کا چہرہ چمکنا شُروع ہو گایہاں تک کہ چاند جیسا ہو جائے گا،جوبھی اُسے دیکھے گا تو کہے گا:یا اللہ !اسے ہم میں سے بنا دے یہاں تک کہ وہ اپنے اُن دوستوں کے پاس آئے گا جو خیر و بھلائی میں اس کاساتھ دیا کرتے اور نیکی کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔انہیں کہے گا:اے فُلاں! خوش ہو جا جنّت میں اللہ پاکنے تیرے لئے ایسے ایسے اِنعامات تیّار کر رکھے ہیں،انہیں اس طرح کی خوشخبریاں سناتا رہے گا یہاں تک کہ اس کے اپنے روشن چہرے ہی کی طرح اُن دوستوں کے چہرے بھی خوشی سے چمک اُٹھیں گے اور اس طرح سے لوگ انہیں چمکتے چہروں سے پہچانیں گے۔ (البدور السافرۃ ، ص245) پُر ضِیا کر میرا چہرہ حشر میں اے کبریا شہ ضِیاء الدین پیرِ با صفا کے واسِطے اٰ مِین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیه واٰله ٖ وسلّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب_```_صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدکیسٹ کے”ایک جُملے “نے دل پر ایسی چوٹ لگائی کہ
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ”دعوتِ اسلامی“کے مہکے مہکے”دینی ماحول“سے ہردم وابستہ رہئے،اِسی دینی ماحول کی بَرَکت سے بے شُمار اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں گناہوں سے توبہ کرکے نیکی کی دعوت کی دُھومیں مچانے میں مشغول ہوگئے،آپ کی ترغیب وتَحریص کےلئے ایک مَدَنی بہار گوش گُزار کی جاتی ہے،چُنانچِہ پنجاب(پاکستان)کے شہرچشتیاں شریف کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے:نَمازوں سے جی چُرانا، داڑھی مُنڈانا ، والِدَین کو ستانا وغیرہ وغیرہ گناہ ان کی زندگی کا حصّہ بن چکے تھے،گانے باجے سننے کاتو ان کوجُنون (یعنی پاگل پن)کی حدتک شوق تھا،طرح طرح کے گانے ان کے موبائل فون اور کمپیوٹر میں ہر وَقت موجود رہتے۔ وہ اِنٹرنَیٹ کے غَلَط اِستِعمال کے گناہ میں بھی مُلوِّث تھے۔ جِینز (JEANS) کے سِوا کسی اور کپڑے کی پتلون نہیں پہنتے تھے حتّٰی کہ ایک مرتبہ عید کے موقع پر والِد صاحِب نے اُن کے لئے سُوٹ سِلوالیا لیکن انہوں نے اُسے پہننے سے اِنکار کردیااورنَفس کی خواہِش کے مطابِق پینٹ شَرٹ خریدکر عید کے پُر مَسرَّت موقَع پر اِسی لباس میں ملبوس ہوئے۔فیشن کادِلدادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے عمامہ اور کُرتے پاجامے کے بارے میں توکبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اُن کے سُدھرنے کے اسباب کچھ یوں ہوئے کہ ان کی قریبی مسجِدمیں جونئے امام صاحِب تشریف لائے وہ خوش قسمتی سے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک، ”دعوتِ اسلامی “ کے دینی ماحول سے وابستہ تھے۔ایک دن اُنہوں نے ان پر”اِنفِرادی کوشِش“کرتے ہوئے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی رغبت دِلائی،امام صاحب کی”اِنفرادی کوشِش“کے سبب انہوں نے دو ایک بار ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کر ہی لی۔ایک دن امام صاحب نے ان کے والِد صاحِب کو ”دعوتِ اسلامی“ کےمکتبۃُ المدینہ سے جاری ہونے وا لے سنّتوں بھرے بیان کی کیسٹ”مُردے کی بے بسی“تحفۃًدی۔ اللہ پاک کی رَحمت سے ایک رات اُس اسلامی بھائی کو یہ کیسٹ سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔اَلحمدُ لِلّٰہ! اس بیان کی بَرَکت سے اُن کے دِل کی دُنیا زَیرو زَبر ہونے لگی،خاص کر اِس”جُملے“:”انسان کو مرنے کے بعد اندھیری قبر میں اُتار دیاجائے گا، گاڑی ہوئی تووہ بھی گیراج میں کھڑی رہ جائے گی۔“نے اُن کے دل میں انقِلاب برپا کر دیا۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! انہوں نے ہاتھوں ہاتھ اپنے تمام سابِقہ گناہوں سے توبہ کرلی، اپنا موبائل اور کمپیوٹر بھی گانوں کی نُحوستوں سے پاک کردیااور”دعوتِ اسلامی “ کے دینی ماحَول سے وابستہ ہوگئے۔ اِس ”دینی ماحول“نے اُنہیں یکسر بدل کر رکھ دیا، انہوں نے اپنے چہرے پرپیارے پیارے آقا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مَحَبَّت کی نشانی داڑھی مبارَک اور سرپرعِمامہ شریف کا تاج سجا لیا اور سنّت کے مطابِق لباس زیبِ تن کرلیا۔ اَلحمدُ لِلّٰہ ! یہ بیان دیتے وقت وہ اسلامی بھائی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں دعوتِ اسلامی کے شُعبۂ تعلیم کے ذِمَّے دار کی حیثیت سے دینی کاموں کی دُھومیں مچانے کی کوشِشوں میں مصروف ہیں ۔ یقینا مقدّر کا وہ ہے سکندر جسے خیر سے مل گیا مَدَنی ماحول یہاں سنّتیں سیکھنے کو ملیں گی دلائے گا خوفِ خدا مَدَنی ماحول گنہگارو آؤ سیہ کارو آؤ گنہ تم سے دے گا چُھڑا مَدَنی ماحول صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب_```_صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدمسجِد کا امام گویا عَلاقے کا بے تاج بادشاہ
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! مسجِد کے پیش امام اسلامی بھائی کی اِنفرادی کوشِش نے ایک ماڈَرن اور فیشن پرست نوجوان کو سنّتوں کاپیکر بنا دیا! مساجِد کے اما م صاحِبان عام اسلامی بھائیوں کی نسبت عُمُومًا زیادہ با اثر ہوتےہیں،خُصُوصًا خوش اَخلاق اور ملنسار امامِ مسجِد اُس عَلاقے کا گویا”بے تاج بادشاہ “ہوتاہے،لوگ اُس کا بے حد احتِرام کرتے اور اس کی بات دل و جان سے مانتے اور سر آنکھوں پر لیتے ہیں۔ ائِمّۂ (اَ۔اِم۔مَءِ)کرام کی خدمت میں میری التجاء ہے کہ وہ صِرف جمعۃُ المبارَک کے بیان ہی پر اکتفانہ فرمائیں،موقع کی مُناسَبَت سے روزانہ ہی فیضانِ سُنّت کے درس کی ترکیب بنائیں،اور درس دینے والے ”مُعلِّم“ کی حَوصلہ افزائی کیلئے اُس میں شرکَت فرمائیں،خوب ”انفِرادی کوشِش “ بڑھائیں ، عَلاقائی دَورہ برائے نیکی کی دعوت میں اپنی شرکت یقینی بنائیں،ہر ماہ کم از کم تین دن کیلئے عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافِلے میں سنّتوں بھرے سفر کی سعادت بھی پائیں،واقعی اگر امام صاحِب خود سفر کریں گے تو اِن شاءَ اللہ ان کی دیکھا دیکھی ان کے مُقتدی بھی بآسانی مَدَنی قافِلوں کے مسافِر بن جائیں گے۔ بَہَرحال ہر امامِ مسجِد کو اپنے اِس مَنصَبِ وَجاہَت سے ”جائز فائدہ“اُٹھاتے ہوئے اپنے عَلاقے میں مَدَنی کاموں کی دھومیں مچاکر سنّتوں کی بہاروں کا مَدَنی سماں کھڑا کر دینا چاہئے اور اپنے لئے ثوابِ آخِرت کا خوب خوب ذخیرہ اکٹّھا کر لینا چاہئے۔اپنے مُقتدیوں سے زیادہ بے تکلُّف بن کر اپنا وَقار خراب کرنے کے بجائے فالتو باتوں سے بچ کر انہیں سنَّتوں بھرے مہکے مہکے مَدَنی پھول پیش کرتے رہنے میں دونوں جہانوں کی بھلائی ہے۔اِس ضِمن میں ایک نصیحت آموز حِکایت سماعت کیجئے چُنانچِہسات کیلئے سات کافی
حضرتِ سیِّدُنا حاتِم اَصَم رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمتِ معظّم میں ایک شخص حاضِر ہو کر نصیحت کا طالِب ہوا۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: ﴿1﴾اگرتُو رفیق چاہتا ہے تو اللہ پاک (کی یاد)تیرا رفیق (یعنی ساتھی)کافی ہے﴿2﴾ہمراہی چاہتا ہے تو”کِرامًا کاتِبیِن“(یعنی اعمال لکھنے والے بُزُرگ فرِشتے) تیرے لئے کافی ہیں﴿3﴾اگر عِبرت چاہتا ہے تو”دنیاکا فانی ہونا“عبرت کیلئے کافی ہے ﴿4﴾ اگر مُونِس و غمخوار درکار ہے تو” قرانِ کریم“کافی ہے ﴿5﴾ اگر شَغْل (یعنی کام) چاہئے تو ”عبادت“ کافی ہے ﴿6﴾ اگر واعِظ (یعنی نصیحت کرنے والا) چاہتا ہے تو ”موت“ کافی ہے ۔ یہ چھ مَدَنی پھول عنایت کرنے کے بعد ساتویں نمبر پر ارشاد فرمایا: ﴿7﴾یہ باتیں اگر تجھے پسند نہیں ہیں تو دوزخ تیرے واسِطے کافی ہے۔ (تذکرۃُ الاولیاء،الجزء الاوّل ص224)اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع