Ameer Ahl-e-Sunnat Say Asaan Shadi Kay Baray Mein Suwal Jawab
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Ameer Ahl-e-Sunnat Say Asaan Shadi Kay Baray Mein Suwal Jawab | امیرِ اہلِ سنّت سے آسان شادی کے بارے میں سوال جواب

    Nikah

    امیرِ اہلِ سنّت سے آسان شادی کے بارے میں سوال جواب
    اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
    یہ رسالہ امیرِ اہلِ سُنَّت  دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ   سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے ۔  

    امیرِاہلِ سُنَّت سے آسان شادی کے بارے میں سوال جواب

    دعائے جانشین امیرِاہلِ سنت :  یاربَّ المصطفیٰ !جوکوئی 17صفحات کا رسالہ’’ امیرِاہلِ سنت سے آسان شادی  کے بارے میں سوال جواب‘‘ پڑھ یاسُن لے ، اُسےنکاح کی سُنّت شریعت کے مطابق ادا کرنے اورغیرشرعی رسم ورواج سے بچا کر اپنے پیارے پیارے آخری نبی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی سنتّوں پر چلنے کی توفیق عطافرما ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِْالنَّبِیّیْن صلی اللہ علیه واٰلهٖوسلّم

    درودشریف کی فضیلت

    منقول ہے : ایک شخص کو انتِقال کے بعد کسی نے خواب میں سَر پر مجوسیوں(یعنی آتَش پرستوں) کی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا تو اِس کا سبب پوچھا ، اُس نے جواب دیا : جب کبھی محمدِ مصطَفٰے  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کانامِ مبارَک آتا میں دُرُود شریف نہ پڑھتا تھا اِس گُناہ کی نُحُوست سے مجھ سے معرِفت اور ایمان سَلب کرلئے گئے(یعنی چھین لئے گئے)۔ (سبع سنابل ، ص35)
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب _ _صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    نکاح مہنگا ہونے کی وُجوہات

    سوال : آج کل نکاح مہنگے  سے مہنگا ہوتا جا رہا  ہے اور اس سلسلے میں نِت نئے غیر شرعی طریقے آتے جا رہے ہیں لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ اِس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے ۔  
    جواب : نکاح بالکل مُفت تھا مگر اب  مہنگا ہو گیا ہے ۔ یاد رَکھیے!نکاح میں ایک پیسا بھی واجب نہیں ہے کہ پیسا نہیں ہو گا تو نکاح نہیں ہو گا۔ البتہ مہر واجب ہوتا ہے۔ (رد المحتار ، 4 / 219) اور اس کی کم اَز کم  مقدار دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ہے۔ (بہار شریعت ، 2 / 64 ، حصہ : 7) 
    جس کی رقم پاکستانی کرنسی کے حساب سے(28نومبر 2019کے مطابق) تقریباً تین ہزار روپے (3000) روپے بنتی ہے تو یوں نکاح کرنا گویا  مُفت ہی ہے۔ شادی کی پہلی رات گزار  کر وَلیمہ کرنا  سنَّت ہے۔ (بہارِ شریعت ، 3 / 391 ، حصہ : 16)لیکن  اس  کے لیے  شادی ہال بُک کروانا ضَروری نہیں ہے۔ اِسی طرح نکاح کے لیے بھی شادی ہال بُک کروانا ضَروری نہیں ۔   

    امیرِ اہلِ سنَّت کا نکاح اور وَلیمہ

    اَلحمدُ لِلّٰہ!میرا نکاح (میمن)مسجد (بولٹن مارکیٹ)میں ہوا تھا اور میری دَرخواست پر  مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی وقار الدین صاحب  رحمۃُ اللہِ علیہ  نکاح پڑھانے تشریف لائے تھے ۔  ہم بلڈنگ کی دوسری منزل پر رہتے تھے جبکہ نیچے رہنے والے ہمارے  پڑوسی کا گھر بڑا تھا تو اس میں میرا ولیمہ ہوا تھا۔ میں نے شادی کے موقع پر  اپنے  گھر کو  دُلہن کی طرح سجایا بھی  نہیں تھا البتہ شاید  دو چار ٹیوب لائٹیں لگائی تھیں اور ٹیپ ریکارڈر پر نعت شریف چلائی تھی۔ اللہ پاک کی رَحمت اور کَرم سے  ہمارے یہاں شروع سے ہی  گانے باجے کا  تصور نہیں ہے ۔  یاد رہے! شادی پر لینا دینا اور سونا کپڑے وغیرہ جو معمولات ہوتے ہیں یہ میری شادی پر بھی ہوئے تھے اور یہ جائز بھی  ہے ۔ اِسی طرح مہر کی کم از کم مقدار دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حَد مقرر نہیں ہے لہٰذا  کوئی کتنا ہی مہر رکھے جائز ہے لیکن مہر دَرمیانے دَرجے کا ہو ، تاکہ بوجھ نہ پڑے۔ 
    آج کل لوگ شادیوں میں مکان وغیرہ  کی ڈیمانڈ کر کے ایک دوسرے کو  پریشان کرتے  ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات  مُعاملہ خودکشی تک جا پہنچتا ہے  چنانچہ میں  نے  سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک بوڑھے  آدمی کی لاش   پنکھے سے  لٹکی ہوئی تھی اور ساتھ 
    میں کچھ اِس طرح تحریر تھا : یہ بوڑھا آدمی اپنی بیٹی کی شادی کر رہا تھا ، دولہے والے رُخصتی سے پہلے طرح طرح کی ڈیمانڈیں کر رہے تھےکہ یہ چیز لے کر دو اور وہ چیز لے کر دو جبکہ  یہ قرضے لے لے کر انکی ڈیمانڈیں پوری کررہا تھا ۔ رُخصتی سے دو دِ ن پہلے دولہا نے یہ مُطالبہ کیا کہ اگر مجھے فُلاں کار دِلاؤ گے تو میں بارات لے کر آؤں گا  ورنہ نہیں آؤں گا۔ اب اس  بے چارے  بوڑھے  باپ نے بیٹی کے  سُسرال  سے کہا : آپ لوگوں کی  ڈیمانڈیں  پوری کرتے  کرتے پہلے ہی مجھ پر بہت سارا قرضہ چڑھ چکا ہے لہٰذا  اب ایسا کر کے مجھے مزید آزمائش میں مَت ڈالو ، مگر دولہے میا ں اپنے مُطالبے پر اَڑے رہے اور بارات لے جانے سے منع کر دیا ۔    بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ اِس بوڑھے باپ نے دِل بَرداشتہ ہو کر  خود کشی کر لی ۔ 

    دولہا والوں کے مالی مُطالبے رِشوت ہیں

    دولہا والوں کا دلہن والوں سے  مالی مُطالبے  کرنا رِشوت کی ایک  صورت اور حرام ہے۔ اگرچہ لڑکی کا باپ بے چارہ  اپنی عزّت بچانے اور اپنی بچّی کو رُخصت کرنے  کے لیے مجبورا ً ڈیمانڈ پوری کر بھی دے مگر مانگنے والا گناہ گار ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ، 12 / 257 ماخوذاً)  ہمارے یہاں شادیوں میں دولہا والوں کی طرف سے مُطالبے کرنا عام ہو چکا ہے ، کبھی دُلہن والوں سے AC کا مُطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی مکان دِلوانے کا ، حالانکہ رہنے کے لیے مکان کا اِنتظام کرنا لڑکے پر واجب ہے ۔ (تنوير الابصار  ، 1 / 283-284 ملتقطاً) آج کل لڑکی والے بے چارے مجبوراً لاکھوں کروڑوں کے مکانات  دے رہے ہیں کہ ظاہر ہے لڑکیوں کی شادیاں کرنی ہیں اور لڑکیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں۔ ہماری کتیانہ میمن بَرادری میں لڑکے والے لڑکی والوں سے مکان کا مُطالبہ نہیں کرتے بلکہ لڑکا خود مکان کا اِنتظام کرتا ہے لیکن ایک میمن بَرادری ایسی  بھی ہے جس میں لڑکی والوں کو مکان دینا پڑتا ہے ۔ اِس طرح کی چیزوں سے بے چارے 
    سماجی اِدارے والے کُڑھتے ہیں جیسا کہ ابھی حال ہی میں میرے غریب خانے(یعنی گھر) پر میمن بَرادری  سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے سَماجی اِدارے کے عہدے دار اور مختلف میمن بَرادریوں  کے بڑے بڑے لوگ تشریف لائے  تھے اور  وہ بے چارے بھی اِس حوالے سے اپنی کڑھن کا اِظہار کر  رہے  تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ شادی پر  کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے  ہیں اور پھر کچھ ہی دِنوں میں طلاق ہو جاتی ہے یا پھر میاں بیوی یا ساس بہو کی آپس میں نہیں بنتی  اور  لڑکی میکے چلی جاتی ہے۔ اللہ پاک   اپنے محبوب  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی اُمَّت پر رحم فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّیْن صلی اللہ علیه واٰلهٖ وسلم ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 91)
    سُوال : بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ غَلَط  رسموں نے  شادی کو بڑا مشکل بنا دیا ہے مگر اِن رَسموں کو ختم کرنے کے لیے  وہ عملی طور پر  میدان میں نہیں آتے یہاں تک کہ اگر ان کے اپنے  گھر  کے کسی فرد کی شادی ہو تو وہ بھی ان رَسموں میں  مبتلا نظر آتے ہیں ،  اِس حوالے سے آپ کیا فرماتے ہیں؟ 
    جواب : بہت سے لوگوں کی  کُڑھن  ہوتی ہے جیسا کہ میری کُڑھن ہے اور میں مَدَنی چینل کے ذَریعے اِس  حوالے سے عرض کرتا رہتا ہوں لیکن اب میرے خاندان میں کچھ ایسا ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ظاہر ہے خاندان کا  ہر  ہر فرد بات مانے یہ ضَروری نہیں ہے ۔ اِسی طرح جو سَماجی اِداروں  کے لیڈر ہوتے ہیں ان میں سے بعض واقعی دُکھی ہوتے ہیں اور انہیں  اپنی قوم کا دَرد ہوتا ہے لیکن ان کے یہاں بھی اگر کوئی تقریب ہو گی تو بھلے یہ ناراض ہوں اور گھر میں بدمزگی ہو ان کی بات  نہیں مانی جائے گی ۔ یاد رہے !جَوان اَولاد کے سامنے سَماجی اِدارے کا یہ بوڑھا بے چارہ کیا کرے ؟اگر کسی رَسم کو روکنے کی کوشش کرے گا تو یہی  بَدنام ہو گا تو یوں بعض سَماجی لیڈر بڑے دَرد والے ہوتے ہیں مگر ان بے چاروں کی گھر میں 
    چلتی نہیں ہے ۔ اگر کسی لڑکی کی شادی کرنی ہو اور سماجی لیڈر یہ چاہے کہ بالکل سادگی سے ہو جائے تو  لڑکے والے بولتے ہیں یہ رَسم  بھی ہو گی اور وہ رَسم بھی ہو گی تو اب یہ بے چارہ کیا کرے ؟اگر جوان لڑکی بیٹھی رہے گی تو گناہوں کے دَروازے  کھلیں گے اور پھر بہت سی خرابیاں ہوں گی اِس لیے بے چارہ سَماجی رہنما  نہ چاہتے ہوئے بھی رَسموں میں  پھنس جاتا ہو گا اور پھر مُعاشرے میں اس کی بَدنامی بھی  ہوتی ہو گی کہ یہ بولتا یوں ہے اور کرتا یوں ہے۔ جو اِصلاح کی باتیں کریں  ان کا مذاق اُڑانا اور ان پر تنقید کرنا یہ دِل آزار طریقہ ہے۔ جو بے چارے غَلَط رَسمیں ختم کرنے کا کہیں ہمیں ان کی حوصلہ  افزائی کرنی چاہیے اور ان کےبارے میں یہ حُسنِ ظن رکھنا چاہے کہ یہ مسلمان ہیں لہٰذا محض زبانی نہیں بلکہ دِل سے بولتے ہوں گے ۔ اگر سَماجی رہنما  طلاق کے بارے میں بولے  کہ آج کل طلاقیں زیادہ ہو رہی ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے تو  اب اگر ان کے خاندان میں کوئی طلاق ہو جائے تو ان کو بُرا بھلا بولنا ٹھیک نہیں ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات  پیدا ہو جاتے ہیں ، کہ گھر بنتا ہی نہیں ہے اور طلاق دینا ضَروری ہو جاتا ہے اِس لیے ان کے یہاں بھی طلاق ہو جاتی ہو گی ۔      (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 91)
    سُوال : نکاح کے بعد جب دُعا مانگی جاتی ہے تو دور بیٹھےلوگوں کو آواز نہیں آتی اور جو قریب بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی شور کی وجہ سے نہیں سُن پاتے  لیکن سب ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے آیا دُعا مانگی جائے یا خاموش رہا جائے؟ 
    جواب : اگر کوئی دُعا مانگ رہا ہو تو اس کی دُعا سننا واجب نہیں ہے اپنے طور پر بھی دُعا مانگ سکتے ہیں۔ نکاح کی تقریب میں ان کے لیے دُعا کرنی چاہیے جن  کا نکاح ہو رہا ہے کہ اللہ پاک ان کی شادی خانہ آبادی فرمائے ان کا گھر شاد و آباد رکھے۔ “ شادی خانہ آبادی “ کا مَطلب یہ 
    ہے کہ ان کا  گھر آباد رہے ، ان کے گھر میں ٹوٹ پُھوٹ نہ ہو ، لڑائی جھگڑے نہ ہوں ، ساس بہو کی جنگِ عظیم نہ چِھڑے ، کسی قسم کا ہنگامہ نہ ہو طلاق کی نوبت نہ آئے  بلکہ یہ لوگ تقویٰ و پرہیز گاری کےساتھ اللہ پاک اور اس کے حبیب  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی اِطاعت میں زندگی بسر کریں۔ افسوس یہ چیزیں اب ہم میں نہیں ہیں۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن عمل کچھ نہیں ہے ، کِردار کے بہت مَسائل ہیں۔ شادی خانہ آبادی کا یہی مطلب ہے اور جو  اس کا اُلٹ ہو وہ شادی خانہ بَربادی ہے مگر یہ لفظ عوام میں اتنا مشہور نہیں ہے ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 42)   

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن