Ashkon ki Barsat (Charon Imam Barhaq hai)
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Ashkon Ki Barsat | اشکوں کی برسات

    Charon Imam Barhaq hain

    book_icon
    اشکوں کی برسات
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    اَشکوں کی برسات

    شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ  (36صفحات)  آخر تک
    پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ایمان تازہ ہو جائیگا۔    

    دُرُود شریف کی فضیلت

        امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات،   علیُّ الْمُرتَضٰی شیرِ خدا  کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم  فرماتے ہیں:  جب کسی مسجِد کے پاس سے گزرو تو رسولِ اکرم،  نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودِپاک پڑھو۔         (فَضْلُ الصَّلَاۃِ عَلَی النّبِیّ لِلقاضی الجَہْضَمِی ص۷۰ رقم ۸۰) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
    پُر رونق بازار میں ریشم کے کپڑے کی ایک دکان پراُس دکان کا خادِم مشغولِ دعا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جنَّت کاسُوال کر رہا ہے۔    یہ سن کر مالِکِ دکان پر رِقّت طاری ہوگئی،   آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے حتّٰی کہ کنپٹیا ں اور کندھے کانپنے لگے۔   مالکِ دُکان نے فوراً دُکان بند کرنے کا حکم دیا،   اپنے سر پر کپڑا لپیٹ کر جلدی سے اُٹھے اور کہنے لگے:  افسوس!  ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر کس قَدَرجَری   (یعنی نِڈر)  ہوگئے کہ ہم میں سے ایک شخص صِرف اپنے دل کی مرضی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جنَّت مانگتا ہے۔      (یہ توبَہُت ہمّت بھراسُوال ہے)  ہم جیسے   (گنہگاروں )  کو تو  اللہ عَزَّوَجَلَّ  سے   (اپنے گناہوں کی)  مُعافی مانگنی چاہئے۔    یہ مالکِ دکان بَہُت زیادہ خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے حامِل تھے،   رات جب نَماز کیلئے کھڑے ہوتے تو ان کی آنکھوں سے اِس قَدَر اَشکوں کی برسات ہوتی کہ چٹائی پر آنسو گرنے کی ٹپ ٹپ صاف سنائی دیتی۔   اور اِتنا روتے اِتنا روتے کہ پڑوسیوں کو رَحم آنے لگتا۔     (مُلَخَّص از اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان لِلْہَیْتَمِی ص۵۰،  ۵۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت) 
    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  آپ جانتے ہیں یہ کون تھے؟ یہ مالکِ دکان کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا،    سِراجُ الْاُمّہ،   کاشِفُ الْغُمَّہ،   امامِ اعظم،   فَقیہِ اَفْخَم حضرتِ سیِّدُنا امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابِت رضی اللہ تعالٰی عنہ  تھے۔    
    نہ کیوں کریں ناز اہلسنّت ،  کہ تم سے چمکا نصیبِ اُمّت
    سِراجِ اُمّت مِلا جو تم سا،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    چاروں امام برحق ہیں

        سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ کا نامِ نامی نُعمان،   والِدِ گرامی کا نام ثابِت اورکُنْیَت ابو حنیفہ ہے۔    آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔      70ھ؁ میں عراق کے مشہور شہر ’’ کُوفے ‘‘میں پیدا ہوئے او ر 80  سال کی عمر میں  2 شَعبانُ الْمُعظَّم  150ھ؁میں وفات پائی۔     (نُزھَۃُ الْقارِی ج ۱ ص ۱۶۹ ،   ۲۱۹)  اور آج بھی بغدادشریف میں آپ کا مزارِ فائض الانوار مَرجَعِ خَلائِق ہے۔    اَئمّۂ اَربَعَہ یعنی چاروں امام   (امامِ ابو حنیفہ،   امامِ شافِعی،   امامِ مالک اور امامِ احمد بن حنبل  رضی اللہ تعالٰی عنہم)  بَرحق ہیں اور ان چاروں کے خوش عقیدہ مُقَلِّدین آپَس میں بھائی بھائی ہیں ،   ان میں آپس میں تَعَصُّب  (یعنی ہٹ دھرمی)  کی کوئی وجہ نہیں ۔    سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم  چاروں اماموں میں بُلند مرتبہ ہیں ،   اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان چاروں میں صِرف آپ تابِعی ہیں ۔     ’’تابِعی‘‘  اُس کو کہتے ہیں :   ’’ جس نے ایمان کی حالت میں کسی صَحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات کی ہو اور ایمان پر اُس کا خاتمہ ہوا ہو۔   ‘‘     (اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۳۳)  سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے مختلف رِوایات کے تَحت چند صَحابۂ کِرام علیہم الرضوان سے ملاقات کا شَرَف حاصل کیا ہے اور بعض صَحابہ علیہم الرضوان سے براہِ راست سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ارشادات بھی سنے ہیں ۔     چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا واثِلَہ بِن اَسْقَع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سُن کر امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ رِوایت بیان فرمائی ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب ،   حبیبِ لبیب،  طبیبوں کے طبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: اپنے بھائی کی شُماتَت نہ کر   (یعنی اُس کی مصیبت پر اظہار ِمُسرَّت نہ کر )  کہ   اللہ عَزَّوَجَلَّ   اُس پر رَحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتَلا کر دے گا۔     (سُنَنِ تِرمِذی ج۴ ص۲۲۷حدیث۲۵۱۴)
    ہے نام نُعمان ابنِ ثابِت،   ابو حنیفہ  ہے ان کی کُنیَت
    پکارتا ہے یہ کہہ کے عالَم،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
    سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے اپنی زندَگی میں پَچپن  (55)  حج کئے۔    جب آخِری بار حج کی سعادت حاصل کی تو خُدّامِ کعبۂ مُشَرَّفہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خواہِش پر بابُ الکعبہ کھول دیا،   آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بَصَد عجز و نیاز اندر داخِل ہوئے اور بیتُ اللہ کے دو سُتُونوں کے درمِیان کھڑے ہوکر دو۲ رَکعَت میں پورا قرآنِ پاک خَتْم کیا ،   پھر دیر تک رو رو کرمُناجات کرتے رہے،   آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مشغول دعا تھے کہ بیتُ اللہ کے ایک گوشے   (یعنی کونے) سے آواز آئی:  ’’تم نے اچّھی طرح ہماری مَعرِفت   (یعنی پہچان)  حاصِل کی اورخُلوص کے ساتھ خدمت کی،  ہم نے تم کو بخشا اورقِیامت تک جو تمہارے مذہب پر ہوگا   (یعنی تمہاری تقلید کرے گا)  اُس کو بھی بخش دیا۔   ‘‘   (دُرِّمُختار ج ۱ ص ۱۲۶۔   ۱۲۷)  اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہم کس قَدَر خوش نصیب ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا دامنِ کرم ہمارے ہاتھوں میں آیا ۔    
    مَروں شہا !  زیرِسبز گنبد،   ہو  میرا  مدفن  بقیعِ غَرقَد
    کرم ہو بَہرِ رسولِ اکرم ،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    روضۂ شاہِ اَنام سے جوابِ سلام

        ہمارے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم پرشَہَنشاہِ اُمم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بے حد لُطف و کرم تھا۔    مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضۂ پُر انوار پر اسطرح سلام عرض کیا:  اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْمُرْسَلِیْن تو روضۂ انور سے جواب کی آواز آئی:  وَعَلَیْکَ السَّلَامُ یَا اِمَامَ الْمُسْلِمِیْن۔     (تذکرۃُ الاولیاء ص۱۸۶ انتشارات گنجینہ تہران)  
    تمہارے دربار کا گدا ہوں ،   میں سائلِ عشقِ مصطَفٰے ہوں
    کرو کرم بہرِ غوثِ اعظم ،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    تاجدارِ رسالت کی بِشارت

    سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب تَحصیلِ علم سے فراغت حاصِل کرلی تو گوشہ نشینی کی نیَّت فرمائی۔    ایک رات جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خواب میں زیارت ہوئی۔    میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  ’’اے ابو حنیفہ!    اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو میری سنَّت زندہ کرنے کیلئے پیدا فرمایا ہے،   آپ گوشہ نشینی کا ہرگز قصد  (یعنی ارادہ)  نہ کریں ۔   ‘‘   (تذکرۃُ الاولیاء ص۱۸۶)  
    عطا ہو خوفِ خدا  خدارا،   دو الفتِ مصطَفٰے  خدارا
    کروں عمل سنّتوں پہ ہر دم،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
    جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب میں تشریف لا کر سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی حوصَلہ افزائی فرمائی اورسُنَّتوں کی خدمت کا حکم دیا،   جس کے نتیجے میں ہمارے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا سُنَّتوں کی خدمت کی مصروفیت اور ذوقِ عبادت مُلاحَظہ ہو۔    چُنانچِہ حضرت ِمِسْعَر بِن کِدام علیہ رَحمۃُ اللہِ السَّلام فرماتے ہیں :  ’’ میں امامِ اعظم ابو حنیفہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی مسجِد میں حاضِر ہوا،   دیکھا کہ نمازِ فَجر ادا کرنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ لوگوں کو سارا دِن علمِ دین پڑھاتے  رہتے،   اِس دوران صِرف نَمازوں کے وَقفے ہوئے۔    بعدنَمازِ عشاء آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی دولت سَرا   (یعنی مکانِ عالیشان)  پر تشریف لے گئے۔    تھوڑی ہی دیر کے بعد سادہ لباس میں ملبوس خوب عِطْر لگا کر فَضائیں مہکاتے،   اپنا نورانی چِہرہ چمکاتے ہوئے پھر آکر مسجِد کے کونے میں نوافِل میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ صبحِ صادِق ہوگئی،   اب درِ دولت  (یعنی مکانِ عالیشان)  پر تشریف لے گئے اور لباس تبدیل کرکے واپَس آئے اورنَمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد گزَشتہ کل کی طرح عِشاء تک سلسلۂ درس و تدریس جاری رہا۔   میں نے سوچا آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بَہُت تھک گئے ہونگے،   آج رات تو ضَرور آرام فرمائیں گے،   مگر دوسری رات بھی وُہی معمول رہا۔    پھر تیسرا دن اور رات بھی اِسی طرح گزرا۔    میں بے حد مُتَأَثِّر ہوا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ عمر بھر ان کی خدمت میں رہوں گا۔    چُنانچِہ میں نے ان کی مسجِد ہی میں مستقل قِیام اختِیار کرلیا۔    میں نے اپنی مدّتِ قِیام میں ،   امامِ اعظم  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کو دن میں کبھی بے روزہ اور رات کو کبھی عبادت و نوافِل سے غافِل نہیں دیکھا ۔     ا لبتّہ ظہر سے قَبل آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ تھوڑا سا آرام فرما لیا کرتے تھے۔      (اَ لْمَناقِب  لِلْمُوَفَّق  ج ۱ ص۲۳۰تا۲۳۱ کوئٹہ)  حضرتِ سیِّدُنا ابنِ ابی مُعاذ رحمۃُاللہ تعالٰی علیہ کی رِوایت ہے،   مِسْعَر بِن کِدام علیہ رَحمۃُ اللہِ السَّلام بے حد خوش نصیب تھے کہ ان کی وفات امامِ اعظم  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی مسجِد میں سَجدے کی حالت میں ہوئی۔      (اَیضاً ص ۲۳۱)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔   
    جو بے مثال آپ کا ہے تقویٰ،   تو بے مثال آپ کا ہے فتویٰ
    ہیں علم و تقویٰ کے آپ سنگم،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳)  
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    تیس سال مسلسل روزے

    ’’ اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان‘‘ میں ہے،   آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے،   تیس سال تک ایک رَکعَت میں قرآنِ پاک خَتْم کرتے رہے،   چالیس   (بلکہ 45) سال تک عِشا ء کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی،   جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قرآنِ پاک خَتْم کئے۔    حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مبارَک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے سامنے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم پر کسی نے اعتِراض کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:  ’’ کیا تم ایسے شخص پر اعتِراض کرتے ہو جس نے پینتالیس سال تک پانچوں نَمازیں ایک ہی وُضو سے ادا کیں اور وہ ایک رَکْعَت میں پورا قرآن کریم خَتْم کرلیتے تھے اور میرے پاس جو کچھ فِقْہْ ہے وہ انہیں سے سیکھا ہے۔   ‘‘ روایت میں ہے: شُروع میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ساری رات عبادت نہیں کرتے تھے۔    آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک بار  کسی کو یہ کہتے ہوئے سُن لیا کہ’’ ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ساری رات سوتے نہیں ہیں ۔    ‘‘ چُنانچِہ اُس کے حُسنِ ظن کی لاج رکھتے ہوئے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے تمام رات عبادت شُروع کردی۔     (اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۵۰ )  
    تری سخاوت کی دھوم مچی ہے،   مُراد منہ مانگی مل رہی ہے
    عطا ہو مجھ کو مدینے کا غم،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    ماہِ رمضان میں 62خَتْمِ قراٰن

      امام ابو یُوسُف رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :  امامِ اعظم عَلَیْہ رَحمَۃُ اللہ الاکرم رَمَضانُ المبارَک میں مَع عیدالفِطْر62قرآنِ پاک خَتْم کرتے،     (دن کو ایک،   رات کو ایک،   تراویح کے اندر سارے ماہ میں ایک اور عید کے روز ایک)  اور مال میں سخاوت کرنے والے تھے،   علم سکھانے میں صابِر  (یعنی صبر کرنے والے)  تھے،   اپنے حق میں کئے جانے والے اعتِراضات کو سنتے تھے،   غصّے سے کوسوں دور تھے۔      (اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۵۰ ) 
    عطا ہو خوفِ خدا خدارا دو الفتِ مصطَفٰے خدا را
    کروں عمل سنّتوں پہ ہر دم،   امامِ اعظم ابو حنیفہ  (وسائلِ بخشش ص ۲۸۳) 
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    کبھی ننگے سر نہ دیکھا

    ’’تذکِرۃُ الْاَولیاء‘‘ میں ہے،   سیِّدُنا داؤد طائی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :  میں امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی خدمت میں بیس سال حاضر رہا۔   خَلوت ہو یاجَلوت   (یعنی لوگوں کے درمیان ہوں یا ا کیلے) ،   کبھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ننگے سر دیکھا،   نہ کبھی پاؤں پھیلائے دیکھا۔    ایک بار عرض کی:  حضور!  تنہائی میں توپاؤں پھیلا لیا کریں ۔    فرمایا:  ’’مَجمع میں تو لوگوں کا احتِرام کروں اور تنہائی میں  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا احتِرام نہ کروں ،   یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔   ‘‘  (تذکرۃُا لاولیاء ۱۸۸) 

    اُستاد کے مکان کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے

    ’’ اَلْخَیْراتُ ا لْحِسان‘‘   میں ہے : آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ زندَگی بھر اپنے استاذِ محترم سیِّدُنا امام حَمّادعلیہ رحمۃُ اللہ الجواد  کے مکانِ عَظَمت نشان کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں لیٹے حالانکہ آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکانِ عالی شان اور استاذِ محترم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم  کے مکانِ عظیم الشّان کے درمِیان تقریباً سات گلیاں پڑتی تھیں !   ( اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۸۲)  
     اُستاد کی چوکھٹ پر سر رکھ کر سو جاتے
    سبحٰنَ اللہ!  ہمارے امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم اپنے استاد کا کس قَدَر احتِرام فرماتے تھے،   جبھی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  علمِ دین کی دولت سے نِہال و مالا مال تھے ۔    حضرتِ سیِّدنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما  کا بھی اپنے استاذِ محترم کے سا تھ احتِرام مثالی تھا چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561 صَفحات پر مشتمل کتاب ،   ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت  (مُخَرَّجہ) ‘‘ صَفْحَہ 143تا 144پر میرے آقا اعلیٰ حضرت،  اِمامِ اَہلسنّت،  مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رَحمۃُ الرَّحمٰن کا ارشاد ہے:  حضرتِ سیِّدنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما  فرماتے ہیں :  جب میں بَغَرضِ تحصیلِ علم   (یعنی علمِ دین سیکھنے کے لئے) حضرت ِزَید بن ثابِت رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درِ دولت پرجاتاا وروہ باہَر تشریف نہ رکھتے ہوتے تو براہِ ادب ان  (یعنی اپنے استاذِ محترم)  کو آواز نہ دیتا ،   ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ رہتا ۔    ہَوَا خاک اور رَیتا اُڑا کر مجھ پر ڈالتی ،   پھر جب   (اپنے طورپر استاذِ گرامی)  حضرت زید   (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا شانۂ اقدس سے تشریف لاتے   (تو)  فرماتے :   ’’ ابنِ عَمِّ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!    (یعنی اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا کے بیٹے )  آپ نے مجھے اِطِّلاع کیوں نہ کرادی؟ ‘‘  میں عرض کرتا :  مجھے لائق نہ تھا کہ میں آپ کو اطِّلاع کراتا ۔    ‘‘  (مِراۃُ الجِنان للیافعی ج۱ ص۹۹بِتَصَرُّف دارالکتب العلمیۃ بیروت) 
    اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے یہ فرمانے کے بعد مزید فرمایا : یہ ادب ہے جس کی تعلیم قرآنِ عظیم نے فرمائی :  
    اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ  (۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  (۵)    (پ۲۶،   الحجرات: 4-5) 
    ترجَمۂ کنز الایمان: بیشک وہ جو تمہیں حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عَقل ہیں ۔   اور اگر وہ صَبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔    

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن