30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمطعِیادت کے واقِعات
دعائے عطار:یا ربَّ المصطفےٰ !جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ ’’ عِیادت کے واقِعات‘‘پڑھ یا سُن لے اُسے مسلمانوں کا ہمدرد بنا ، آفتوں اور مصیبتوں سے اُس کی حفاظت فرما کربے حساب مغفرت سے نواز دے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : قیامت کے روز اللہ پاک کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا، تین شخص اللہ پاک کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے؟اِرشاد فرمایا: ( 1 ) وہ شخص جو میرے اُمّتی کی پریشانی دُور کرے)2 ) میری سُنّت کو زِندہ کرنے والا ( 3 ) مجھ پر کثرت سے دُرود شریف پڑھنے والا۔(البدور السافرۃ، ص 131، حدیث: 366) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدمیرے بیٹے روؤ نہیں!
اُمُّ المؤمنین،مُسلمانوں کی پیاری پیاری امی جان حضرت بی بی عائشہ صدیقہ ر ضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں :حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک نوجوان کو اپنی محفل میں موجود نہ پایا تو صحابۂ کرام سے اُن کے بارے میں پوچھا :عرض کیا گیا :اُن کوسخت بُخار ہے، اِس سبب سے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان اُن کے جوانی میں ہی انتقال کر جانے کا گمان کرتے تھے، اُمت کے غمخوار آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے اِرشاد فرمایا: چلو!ہم اُس کی عِیادت کے لئے چلتے ہیں۔چنانچہ غمزدوں کے غم دور کرنے والے خوش اَخلاق آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب اُن کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُنہیں اِرشاد فرمایا:اے میرے بیٹے!روؤ نہیں!کیونکہ مجھے جبرائیل (علیہ السّلام)نے خبر دی ہے کہ بُخار میری اُمت کیلئے جہنّم سے حصہ ہے۔ (کشف الغمہ فی فضل الحمی للسیوطی، ص 13) اللہ ربُّ العِزّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم سبحان اللہ! اُن جسمانی بیمار مگر بخت بیدار(یعنی خوش قسمت)صحابیِ رسول کے مبارک قدموں پر دُنیا کی ساری تندرستیاں قربان ہوں،جن کی عیادت کیلئے طبیبوں کے طبیب، اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے آئے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے: سَرِ بالیں اُنہیں رَحمت کی اَدا لائی ہے حال بگڑا ہے تو بیمار کی بَن آئی ہے (ذوقِ نعت، ص 250) اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت! اپنی اُمت سے پیار کرنے والے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بیان کئے گئے واقعے میں اپنے صحابی کی غیر موجودگی پر خیریت دریافت کرنے اور عیادت کرنے کا اَنداز ِمبارک صد کروڑ مرحبا! کاش ! ہم بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی خبرگیری کرنے(خیر،خیریت پوچھنے)کی عادت بنائیں ، جہاں اِس سے رِضائے الٰہی کیلئے کی جانے والی عیادت سے ثوابِ عظیم کی خوشخبریاں ملیں گی وہیں ایک مسلمان کے دِل میں آپ کی محبت بھی بڑھے گی، جیساکہ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم نے اِرشاد فرمایا:جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے تو ایک اِعلان کرنے والا آسمان سے اِعلان کرتا ہے، تو خوش ہو کہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانا بنالیا ہے۔ (ابنِ ماجہ، 2/192، حدیث: 1443) ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:جو شخص کسی مریض کی عِیادت کے لیے جاتا ہے تو اللہ پاک اُس پر پچھتر ہزار (75,000) فِرِشتوں کا سایہ کرتا ہے اور اُس کے ہر قدم اُٹھانے پر اُس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور ہر قدم رکھنے پر اُس کا ایک گناہ مٹاتا ہے اور ایک دَرَجہ بلند فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھ جائے ،جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رَحْمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے اور اپنے گھر واپس آنے تک رَحْمت اُسے ڈھانپے رہے گی۔ (معجم اوسط، 3/222، حدیث: 4396) پیارے پیارے اسلامی بھائیو! سنّت پر عمل کی نیّت سے اپنے مسلمان بھائیوں کی عِیادت کیجئے اور خوب ثواب لوٹیے اور ہاں !عیادت صِرف جاننے والے ہی کی کرنا سنت نہیں بلکہ امام ابو زَکَرِیَّا یحییٰ بن شَرَف نَوَوِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عیادت کرنا ہر ایک سے سنّت ہے چاہے اُسے جانتا ہو یا نہ ،قریبی ہو یا اجنبی ۔(شرحِ مسلم للنووی، 13/31) اگر اِس لیے بیمار پُرسی کی کہ میں جب بیمار ہوں تو وہ بھی میری تِیمار داری کیلئے آئے تو ثواب نہیں ملے گا۔نمازی بھائیوں کو تلاش کیجئے
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ، امیرُالمؤمنین حضرتِ عمر فاروقِ اعظم ر ضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ’’نماز میں اپنے بھائیوں کو نہ پاؤ تو اُنہیں تلاش کرو۔ اگر بیمار ہوں تو اُن کی عیادت کرو۔ اگر تندرست ہوں تو اُنہیں جِھڑکو۔ ‘‘(جھڑکنے سے مراد جماعت چھوڑنے پر تنبیہ کرنا ہے کہ اِس میں سستی نہیں کرنی چاہئے۔)(احیا ء العلوم،1/258)امام صاحبان کو مَدَنی مشورہ
امیرِ اہلِ سنت حضرتِ علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اپنی منفرد کتاب ’’ فیضانِ نماز‘‘ میں فرماتے ہیں:مسجدوں کے پیش اماموں کی خدمتوں میں مشورَۃً عرض ہے وہ اپنے مقتدیوں کی نگرانی کیا کریں کہ ان میں سے کون جماعت سے نماز پڑھتا ہے اور کون نہیں ، اگر کوئی نمازی کسی نماز میں غیر حاضر ہو تو اُس کی دکان یا گھر پر جا کر یا فون کر کے اُس کی خبر نکالیں ، بیمار ہو گیا ہو تو عیادت کریں اور سستی کی وجہ سے نہ آیا ہو تو نیکی کی دعوت دیں اور تمام اسلامی بھائیوں کو بھی یہ انداز اختیار کرنا چاہئے۔ نیز اسلامی بہنوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے ابو ہوں تو اُن کو بھی اور دیگر محارِم پر جماعت سے نماز پڑھنے کے متعلق انفرادی کوشش کرتی رہیں ۔سگ ِ مدینہ عُفِیَ عَنْہ کی خواہش ہے کہ کاش! سب کے سب نمازی اور نمازی بلکہ تہجد گزار بن جائیں ۔ (فیضانِ نماز،ص 223) جماعت کا جذبہ بڑھا یاالٰہی! ہو شوق تہجد عطا یاالٰہی! صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدترغیب کے لئے سراپا ترغیب بن جائیے
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!ضروری نہیں کہ شدید بیماری ہو تو ہی عیادت کی جائے بلکہ بظاہر چھوٹے نظرآنے والے مرض یا زخم و تکلیف پر کسی سے ہمدردی کرتے ہوئے غمزدہ چہرہ بنا کر خیر خواہی کریں گے تو اِس سے بھی اُس کا دِل خوش ہو سکتا ہے اور اِن شاءَ اللہُ الکریم محبت بڑھنےکا سبب ہوگا۔بانیِ دعوتِ اسلامی امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا معمول ہے جب بھی کسی بیمار حال یا ایسے اسلامی بھائی کو دیکھتے ہیں کہ جس کے ہاتھ پر معمولی پَٹّی بندھی ہو تو ہمدردی و خیرخواہی فرماتے ہوئے حال معلوم کرتے اور دُعائے عافیت و شفا سے نوازتے ہیں۔عاشقانِ رسول کی امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے عیادت یا دُعا پا کر خوشی دِیدَنی (یعنی دیکھنے کے قابل) ہوتی ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی اپنے ایک پیارے صحابی کی آنکھوں میں تکلیف ہونے کے سبب عیادت فرمائی۔جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے: حضرت ِ زید بن اَرقم ر ضی اللہُ عنہ نے اِرشاد فرمایا:میری آنکھیں آگئیں(یعنی آشوبِ چشم ہو گیا) تو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میری عیادت فرمائی ۔ ( ابو داود، 3/250، حدیث: 3102) حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:اِس سے معلوم ہوا کہ معمولی بیماری میں بھی بیمار پُرسی(یعنی عیادت) کرنا سُنت ہے جیسے آنکھ یا کان یا داڑھ کا دَرد کہ یہ اگرچہ خطرناک نہیں مگر بیماری تو ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح،2/415) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدامیراہلِ سنّت کا پیغام
ربیعُ الآخر 1438 ھ، بمطابق جنوری2017 کو ہونے والے ایک مدنی مشورے میں امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے ذمہ داران ِ دعوت ِ اسلامی کو کچھ اِس طرح اپنی نصیحتوں سے نوازا:’’ تمام اسلامی بھائی اگرچہ وہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے مُنسلک ہوں یا نہ ہوں اُن کی خوشی غمی میں حصہ لیا کریں بالخصوص غمی میں عیادت و تَعْزِیَت کرنے میں کوتاہی نہ کیا کریں۔ سُکھ میں حصہ نہیں لیں گے تو اِتنا بُرا نہیں لگے گا لیکن دُکھ میں حصہ نہیں لیں گے تو بہت بُرا لگے گا۔‘‘(مرکزی مجلس شوریٰ کے مدنی پھول) سنتیں شاہِ مدینہ کی تُو اپنائے جا دونوں عالَم کی فَلاح اِس میں مِرے بھائی ہے (وسائلِ بخشش، ص 496) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدمسلمانوں پر کمال مہربان
اے عاشقانِ رسول!’’ عیادت و تعزیت‘‘کرنا ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بڑی پیاری سُنت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینۂ پاک کے اطراف میں رہنے والے صحابہ کرام علیہمُ الرّضوان کے ہاں تشریف لے جاکر بھی عیادت فرماتے،یہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کمال درجے کی عاجزی و اِنکساری اور رحمدل ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت عَلّامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان حاضِر نہ ہوتے اُن کے بارے میں پوچھتے، اگر کوئی بیمار ہوتا تو اُن کی عیادت فرماتے یا کوئی مسافِر ہوتا تو اُن کے لیے دُعا کرتے ، اگر کسی کا انتِقال ہو جاتا تو اُن کے لیے مغفِرت کی دُعا فرماتے اور لوگوں کے مُعامَلات کی تحقیقات کر کے اُن کی اِصلاح فرماتے۔ (جمع الوسائل، 2/177) خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت مولانا جمیلُ الرحمٰن رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں: ہر دَم ہے تمہیں اپنے غلاموں پہ عنایت دن رات کا یہ کار ہے سرکار تمہارا (قبالۂ بخشش، ص 47) پیارے پیارےاِسلامی بھائیو!اِ ن روایات میں ہم حضور کے غلاموں کیلئے بھی مَدَنی پھول ہے کہ ہم بھی عیادت کیا کریں کیونکہ یہ حقوقِ مُسلمین میں سے ہے۔جب اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سرورِ دوجہاں ہو کر اپنے صحابۂ کرام کے ہاں عیادت کے لئے تشریف لے جاسکتے ہیں تو ہم عاشقانِ رسول کو بھی اِس ادائے مصطفےٰ کو اپنانا چاہئے، رَحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اپنے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے ہاں تشریف لے جانے کے مزید واقعات ملاحظہ کیجئے اور نیت کیجئے کہ ہمیں بھی جب کسی کی بیماری یا فوتگی وغیرہ کی خبر ملے گی تو خیر خواہی ِ اُمت نیز ہمدردی و دِلجوئی کے حسین جذبے کے تحت حتَّی الاِمکان اِس سُنت ِ رسول پر عمل کریں گےاِن شاءَ اللہ! ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع