30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اگر آپ حیا کی بَرَکتیں لوٹنا چاہتے ہیں تو یہ رسالہ اوّل تا آخر پورا پڑھ لیجئے ۔
حضرتِ سَیِّدُنا ابو دَرْداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ میٹھے میٹھے مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شَخص صُبح و شام مجھ پر دس دس بار دُرُود شریف پڑھے گا بروزِ قِیامت میری شَفَاعت اُسے پَہُنچ کر رہے گی ۔ ‘‘ (اَلتَّرْغِیب وَالتَّرْہِیب ج۱ ص۲۶۱حدیث ۲۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
بَصرہ میں ایک بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’ مِسکی ‘‘ کے نام سے مشہُور تھے ۔
’’ مُشک ‘‘ کو عَرَبی میں ’’ مِسْک ‘‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا مِسکی کے معنیٰ ہوئے ’’ مُشکبار ‘‘
یعنی مُشک کی خوشبُو میں بَسا ہوا ۔ وہ بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِہر وَقْت مُشکبار و خوشبودار رہا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ جس راستے سے گُزر جاتے وہ راستہ بھی مَہَک اُٹھتا ! جب داخِلِ مسجِد ہوتے تو اُن کی خوشبُو سے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ حضرتِ مِسکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِتشریف لے آئے ہیں ۔ کسی نے عرض کی، حُضُور ! آپ کو خوشبو پر کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہوگی؟ فرمایا : ’’ میں نے کبھی خوشبو خریدی، نہ لگائی ۔ میرا واقِعہ بڑا عجیب و غریب ہے :
میں بغدادِ مُعَلّٰی کے ایک خوشحا ل گھرانے میں پیدا ہوا ۔ جس طرح اُمَراء اپنی اولاد کو تعلیم دِلواتے ہیں میری بھی اسی طرح تعلیم ہوئی ۔ میں بَہُت خوبصورت اور با حیا تھا ۔ میرے والِد صاحِب سے کسی نے کہا : ’’ اسے بازار میں بٹھاؤ تاکہ یہ لوگوں سے گھُل مِل جائے اور اس کی حیا کچھ کم ہو ۔ ‘‘ چُنانچِہ مجھے ایک بَزّاز (یعنی کپڑا بیچنے والے ) کی دکان پر بٹھادیا گیا ۔ ایک روز ایک بُڑھیا نے کچھ قیمتی کپڑے نکلوائے ، پھر بَزّاز (یعنی کپڑے والے ) سے کہا : ’’ میرے ساتھ کِسی کو بھیج دو تاکہ جو پسَند ہوں انہیں لینے کے بعد قیمت اور بقیّہ کپڑے واپَس لائے ۔ ‘‘ بَزّاز (بَزْ ۔ زَاز) نے مجھے اس کے ساتھ بھیج دیا ۔ بُڑھیا مجھے ایک عظیمُ الشّان مَحَل میں لے گئی اور آراستہ کمرے میں بھیج دیا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک زیوارت سے آراستہ خوش لباس جوان لڑکی تَخْت پر بچھے ہوئے مُنَقَّش (مُ ۔ نَقْ ۔ قَشْ ) قالین پر بیٹھی ہے ، تخت و فرش سب کے سب زَرِّیں ہیں اور اس قَدَر نفیس کہ ایسے میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی اُس لڑکی پر شیطان غالِب آیا اور وہ ایک دم میری طرف لپکی اور چھیڑ خانی کرتے ہوئے ’’ منہ کالا ‘‘ کروانے کے دَر پَے ہوئی ۔ میں نے گھبرا کر کہا : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈر ! ‘‘ مگر اُس پر شیطان پوری طرح مُسَلَّط تھا ۔ جب میں نے اُس کی ضِد دیکھی تو گناہ سے بچنے کی ایک تجویز سوچ لی اور اُس سے کہا : مجھے اِستِنجاء خانے جانا ہے ۔ اُس نے آواز دی تو چاروں طرف سے لَونڈیاں آگئیں ، اُس نے کہا : ’’ اپنے آقا کو بیتُ الْخَلاء میں لے جاؤ ۔ ‘‘ میں جب وہاں گیا تو بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آئی، مجھے اس عورت کے ساتھ ’’ منہ کالا ‘‘ کرتے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلََّّسے حَیا آ رہی تھی اور مجھ پر عذابِ جہنَّم کے خوف کا غَلَبہ تھا ۔ چُنانچِہ ایک ہی راستہ نظر آیا اور وہ یہ کہ میں نے اِستِنجا خانے کی نَجاست سے اپنے ہاتھ منہ وغیرہ سان لئے اور خوب آنکھیں نکال کر اُس کنیز کو ڈرایا جو باہَر رومال اور پانی لئے کھڑی تھِی، میں جب دیوانوں کی طرح چیختا ہوا اس کی طرف لپکا تو وہ ڈر کر بھاگی اور اس نے پاگل، پاگل کا شور مچا دیا ۔ سب لونڈیاں اکٹّھی ہوگئیں اور انہوں نے ملکر مجھے ایک ٹاٹ میں لپیٹا اور اٹھا کر ایک باغ میں ڈال دیا ۔ میں نے جب یقین کرلیا کہ سب جاچکی ہیں تو اٹھ کر اپنے کپڑے اور بدن کو دھو کر پاک کر لیا اور اپنے گھر چلا گیا مگر کسی کو یہ بات نہیں بتائی ۔ اُسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے : ’’ تم کو حضرت سیِّدُنا یوسُفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے کیا ہی خوب مُناسَبَت ہے ‘‘ اور کہتا ہے کہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں نے کہا : نہیں ۔ تو اُنہوں نے کہا : میں جِبرئیلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہوں ۔ اس کے بعد اُنہوں نے میرے منہ اور جِسْم پر اپنا ہاتھ پَھیر دیا ۔ اُسی وَقْت سے میرے جِسْم سے مُشک کی بہترین خوشبو آنے لگی ۔ یہ حضرت سیِّدُنا جبرئیلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دستِ مبارَک کی خوشبو ہے ۔ (رَوْضُ الرَّیاحِین ص۳۳۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! آپ نے دیکھا ! با حیا نوجوان، اللہ عَزَّوَجَلَّ کیخَشِیَّت(خَ ۔ شِیْ ۔ یَت) اور گناہوں سے نفرت کی بَرَکت سے معصیَت سے اپنی حفاظت میں کامیاب ہوگیا ۔ معلوم ہوا کہ گناہوں سے بچنے میں حیاء بَہُت ہی مُؤَثِّرہے ۔ حیاء کے معنیٰ ہیں ـــ ’’ عیب لگائے جانے کے خوف سے جَھینپنا ۔ ‘‘ اس سے مُراد ’’ وہ وَصْف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جواللہ تَعَالٰی اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں ۔ ‘‘ لوگوں سے شرما کر کسی ایسے کام سے رُک جانا جو ان کے نزدیک اچّھانہ ہو ’’ مخلوق سے حیائ ‘‘ کہلاتا ہے ۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ عام لوگوں سے حیا ء کرنا دنیاوی برائیوں سے بچائے گا اور عُلَماء وَ صُلَحاء سے حیا کرنا دینی بُرائیوں سے باز رکھے گا ۔ مگر حَیاء کے اچھّا ہونے کے لئے ضَروری ہے کہ مخلوق سے شرمانے میں خالق عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو اور نہ کسی کے حُقُوق کی ادائیگی میں وہ حیا رُکاوٹ بن رہی ہو ۔ ’’ اللّٰہ تعالٰی سے حیاء ‘‘ یہ ہے کہ اُس کی ہَیبت و جلال اور اس کا خوف دل میں
[1] یہ بیان امیر اہلسنت(دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ) نے تبلیغ قراٰن وسنت کی عا لمگیرغیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع (یکم محرم الحرام ۱۴۲۵ ھ بابُ المدینہ کراچی)میں فرمایا ۔ ضروری ترمیم کے ساتھ تحریراً حاضر خدمت ہے ۔ پیش کش : ۔ مجلس مکتبۃ المدینہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع