اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون ”غیبت کی تباہ کاریاں “ صفحہ 215 تا 230 سے لیا گیا ہے ۔
دعائے عطار: یاربَّ المصطفیٰ!جوکوئی 17صفحات کا رسالہ’’بابا جی اورگھر کے جھگڑے‘‘ پڑھ یاسُن لے ،اُسے ایمان وعافیت کے ساتھ سبزسبز گنبد کے زیرِ سایہ جلوۂ محبوب میں شہادت عطا فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
امیرُالمؤمنین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المرتَضٰی شیرِخدا رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جب کسی مسجِد کے پاس سے گزرو تو رسولِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دُرُودِپاک پڑھو۔ (فضل الصلاۃعلی النبی للقاضی الجہضمی، ص70، رقم 80)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت امام محمدبن محمدبن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمانِ والا شان کا خُلاصہ ہے:جہاں غیبت ہو رہی ہو اور یہ(مُرُوَّت میں نہیں بلکہ)ڈر کے سبب زَبان سے روک نہیں سکتا تو دل میں بُرا جانے تو اب اِسے گُناہ نہیں ہوگا، اگر وہاں سے اُٹھ کر جاسکتا ہے یا گفتگو کا رُخ بدل سکتا ہے مگر ایسا نہیں کرتا تو گُنہگارہے، اگر زَبان سے کہہ بھی دیتا ہے کہ”خاموش ہو جاؤ“مگر دل سے سننا چاہتا ہے تو یہ مُنافَقَت ہے اور جب تک دل سے بُرا نہ جانے گُناہ سے باہَر نہ ہوگا،فَقَط ہاتھ یا اپنے اَبرو یا پیشانی کے اِشارے سے چُپ کرانا کافی نہ ہوگا کیوں کہ یہ سُستی ہے اور غیبت جیسے گناہ کو معمولی سمجھنے کی علامت ہے،(اگر فساد کااندیشہ نہ ہو تو)غیبت کرنے والے کو سختی سے واضِح الفاظ میں روکے۔(احیاء العلوم ،3/ 180) تاجدارِ مدینہ منوّرہ، سلطانِ مکّہ ٔمکرّمہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:جس شخص کے پاس کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہو اور وہ طاقت (رکھنے )کے باوُجُود اس کی مدد نہ کرے اللہ پاک قِیامت کے دن لوگوں کے سامنے اسے رُسواکریگا۔ (مسند امام احمد،5/412، حدیث:15985)
اےعاشِقانِ رسول! غیبت سے روکنے والے کیلئے اتنی معلومات ہونا ضَروری ہے کہ وہ گناہوں بھری غیبت کی پہچان رکھتا ہو نیز روکتے وَقت اپنی بات کا وَزن دیکھنا بھی بَہُت ضَروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی کومَنع کریں اور کوئی فِتنہ کھڑا ہو جائے یہ بات بھی ذِہن میں رکھئے کہ بعض اوقات بِالخُصوص اَہلِ عِلْم حضرات کی کوئی بات سَرسری طور پر سننے والے کو غیبت لگتی ہے مگر درحقیقت وہ گناہوں بھری غیبت نہیں ہوتی کیوں کہ غیبت کی جائز صورَتیں بھی موجود ہیں،مُحاورہ ہے: خَطائے بُزُرگان گرِفْتَن خَطا اَسْت یعنی ”بُزُرگوں پر اعتراض کرنا ان کی خطا پکڑنا خود خطا ہے ۔“لہٰذا عُلَمائے کرام کو عوام ہرگز نہ ٹوکیں اور ان کے لئے دل میں مَیل بھی نہ لائیں۔ہاں اگر آپ کو غیبت کے بارے میں معلومات ہوں اور وہ عالم صاحب واقِعی صَریح غیبت کر رہےہوں تو وہاں سے اُٹھ جایئے ، ممکن ہو تو بات کا رُخ بد ل دیجئے اگر ہٹنا یا بات بدلنا اور کسی طرح سے غیبت سننے سے بچنا ممکن نہ ہو تو دل میں بُرا جانتے ہوئے حتّی الْمقدور بے توجُّہی برتئے ۔ اگر ”ہاں“میں سر ہلا ئیں گے یا دلچسپی اور تعجب کا اِظہار کریں گے ، تائید میں ”اچھا،جی،اوہو“وغیرہ آوازیں نکالیں گے تو گنہگار ہوں گے۔
اعلیٰ حضرت ، امام اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 708 پر لکھتے ہیں:عُلَماء پرعوام کو (حقِّ)اعتِراض نہیں پہنچتا اور جو مشہور بمعرفت ہو اُس کا مُعامَلہ زیادہ نازُک ہے ہرعامی مسلمان کے لئے حکم ہے کہ اُس کے(یعنی اُس عام مسلمان کے بھی)ہر قول وفعل کے لئے ستّر(70)محملِ حَسَن(یعنی اچھے اِحتِمالات اور جائز تاویلات)تلاش کرو ، (ان عوام پر بھی بدگمانی مت کرو)نہ کہ عُلَماء ومشائخ جن پراعتِراض کا عوام کو کوئی حق (ہی حاصِل) نہیں! یہاں تک کہ کُتُبِ دِینیہ میں تَصریح (یعنی صاف لکھا )ہے اگر صَراحَۃً نَماز کاوَقت جا رہا ہے اور عالِم نہیں اُٹھتا توجاہل کایہ کہناگُستاخی ہے کہ”نَماز کوچلئے“، وہ (یعنی عالم)اِس (یعنی غیرِ عالم)کے لئے ہادِی (یعنی رہنما)بنایاگیا ہے نہ کہ یہ (جاہل) اُس (عالم) کے لئے۔ واﷲتعالٰی اعلم
(فتاوٰی رضویہ،23/708)
سنوں نہ فحش کلامی نہ غیبت و چغلی تری پسند کی باتیں فَقَط سنا یا رب
کریں نہ تنگ خیالاتِ بد، کبھی کر دے شُعُور وفکر کو پاکیزگی عطا یا رب
(وسائل بخشش،ص78)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کسی کو سلام کر کے جان و مال اور عزَّت و آبرو وغیرہ کی سلامتی کی دعا دی اور پھر جوں ہی وہاں سے ہٹے مَعاذَ اللہ اُسی کی عزَّت اُچھالنی یعنی غیبت کرنی شروع کر دی یہ کیسا عجیب مُعاملہ ہے!جی ہاں،”السّلامُ علیکم“کے معنیٰ ہیں:”تم پر سَلامتی ہو۔“لگے ہاتھوں سَلام کی نیّت بھی ملا حظہ فرما لیجئے چُنانچِہ عاشِقانِ رسول کی مَدَنی تحریک ، دعوتِ اسلامی کےمکتبۃُ الْمدینہ کی کتاب بہارِ شریعت حصہ 16صَفْحَہ 102 پر لکھے ہوئے جُزئیے کا خلاصہ ہے :”سلام کرتے وَقت دل میں یہ نیّت ہو کہ جس کو سلام کرنے لگا ہوں اِس کا مال اور عزّت و آبرو سب کچھ میری حفاظت میں ہے اور میں ان میں سے کسی چیز میں دَخل اندازی کرنا حرام جانتا ہوں۔ “
(ردالمحتار ،9/682) عارِف بِاللہ!حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو طالِب مکّی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کے نیک بندے مُلاقات کے وقت سلام کرتے تو اس سے یہ مُراد لیتے کہ تو میری طرف سے سَلامت رہا،میں تیری غیبت اور مَذَمَّت نہیں کروں گا۔ (قوت القلوب،1/348)
کروں کسی کی بھی غیبت نہ میں کبھی یا رب خدائے پاک کرم!از پئے نبی یا رب
مُعاف کر دے گُنہ تو مرے سبھی یارب طُفیلِ حضرتِ شیرِ خدا علی یا رب
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
غیبت کرنے سُننے کی عادت نکالنے،نَمازوں اور سنّتوں کی عادت ڈالنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے، سنّتیں سیکھنے کیلئے مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کیجئے اور کامیاب زندگی گُزارنے اور آخِرت سنوارنے کیلئے نیک اعمال کے مطابِق عمل کرکے روزانہ جائزہ کے ذَرِیعے رسالہ پُر کر کےہر ماہ کی پہلی تاریخ اپنے یہاں کےذمّےدار کو جمع کروانے کامعمول بنا لیجئے۔ سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضِری دیجئے نہ جانے کب دل چوٹ کھا جائے اور دونوں جہاں میں بھلائیاں عنایت ہو جائیں۔ آپ کی ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار گوش گزارکرتا ہوں:1425ھ میں ہونے والے بَینَ الْاَ قوامی تین دِن کےسنّتوں بھرے اجتماع (صحرائے مد ینہ ، مدینۃ الاولیا، ملتان شریف )کے چند رو ز بعد (سگِ مدینہ عُفِیَ عنہ )سے ملنے ایک صاحِب پنجاب سے کراچی آئے ، ان کے بیان کا خُلاصہ کچھ اس طرح ہے ،”میں A.C.کوچ کا ڈرائیور ہوں، پر یشا نیو ں نے تباہ حال کردیا تھا ، شیطان مجھے باؤلا بناکر میرایہ ذِہن بنا چکا تھا کہ دنیا وا لے مطلبی اور بے وفا ہیں مجھے خود کُشی کرلینی ہے مگرتنہا نہیں اوروں کو بھی ساتھ لیکر مرناہے ۔ بہر حال انہوں نے یہ طے کیاہو اتھا کہ کھچا کھچ بھری ہوئی کوچ کو پوری رفتار کے ساتھ گہری کھائی میں گراکر سب سُواریوں سمیت اپنے آپ کو ختْم کردوں گا ۔ایسے میں سُواریاں لیکر اجتِماع (صحرائے مدینہ ، ملتان شریف)میں آنے کی سعادت مل گئی ۔گویا ان ہی کے لئے خود کُشی کا عِلاج نامی بیان ہوا ، سُن کر وہ خوفِ خدا سے لرز اُٹھے ،انہوں نے اچھّی طرح سمجھ لیا کہ خود کُشی سے جان چھوٹتی نہیں مزید پھنس جاتی ہے ۔انہوں نے سچّے دل سے توبہ کی،ان کاکہنا تھا کہ بیان کرنے والے کا نام و پتا لوگوں سے لیکر اب آپ کے پاس دعائیں لینے آیا ہوں ۔ ان کے حق میں دعائے خیر کی گئی، نَماز کی پابندی ،ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماع میں حاضِری، مَدَنی قافِلوں میں سفر وغیرہ کی اچھّی اچھّی نِیَّتِیں کرکے روتے ہوئے پلٹ گئے۔
عاشِقانِ رسول کی مَدَنی تحریک،دعوتِ اسلامی کےمکتبۃ المدینہ کی کتاب،”بیاناتِ عطّاریہ“( 472 صَفحات) حصّہ دُوُم کے صَفْحَہ404تا406پر ہے:خود کُشی کر نے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جان چُھوٹ جا ئے گی! حالانکہ اس سے جان چھوٹنے کے بجائے ناراضئ ربُّ ا لعزّت کی صورت میں نہایت بُری طرح پھنس جاتی ہے۔خدائے پاک کی قسم!خود کُشی کا عذاب بردا شت نہیں ہو سکے گا۔
حدیثِ پاک میں ہے:جوشَخص جس چیز کے ساتھ خود کُشی کرےگا وہ جہنّم کی آگ میں اُسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری ،4/289 ،حدیث:6652 )
حضرتِ ثابِت بِن ضَحّاک رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے کہ اللہ پاک کے پیارےرسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ عبرت بنیاد ہے: جس نے لوہے کے ہتھیار سے خودکُشی کی تو اسے جہنّم کی آگ میں اُسی ہتھیار سے عذاب دیا جائیگا ۔ (بخاری ،1/459،حدیث:1363)
حضرتِ ابوہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے اپنا گلا گھونٹا تو وہ جہنّم کی آگ میں اپنا گلا گُھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کونَیزہ مارا وہ جہنّم کی آگ میں خود کو نَیزہ مارتا رہے گا۔(بخاری ، 1/460،حدیث:1365)
اے عاشِقانِ رسول!خود کُشی کا عِلاج نامی بیان مکتبۃُ المدینہ سے حاصِل کیجئے اور سب گھر والوں کو سنائیے اور خُصوصاً پریشان حالوں کو سننے کیلئے پیش کیجئے ۔ اَلحمدُ لِلّٰہ اِسی بیان کو حسبِ ضَرورت ترمیم کے ساتھ بنام:خود کُشی کا عِلاج رِسالے کی صورت میں بھی پرنٹ کیا گیا ہے ۔ اپنے عزیزوں کے ایصالِ ثواب کیلئےدعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ سے زِیادہ سے زِیادہ خرید کرغم کے ماروں ،دُکھیاروں اور بیماروں بلکہ عام مسلمانوں میں تقسیم کیجئے ۔ اگر پڑھ کر کوئی ایک بھی مسلمان خود کُشی کے ارادے سے باز آگیا تو اِن شاءَ اللہ الکریم آپ کا بھی بیڑا پار ہوگا۔
قَبْر میں شَکْل تیری بگڑ جائے گی پِیپ میں لاش تیری لِتھڑ جائے گی
بال جَھڑ جائیں گے کھال اُدھڑ جائے گی کیڑے پڑ جائیں گے نَعْش سڑ جائے گی
مت گناہوں پہ ہو بھائی بے باک تُو بھول مت یہ حقیقت کہ ہے خاک تو
تھام لے دامنِ شاہِ لولاک تُو سچّی توبہ سے ہو جائے گا پاک تو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ عبد العزیز دُرَیْنِی رحمۃُ اللہِ علیہ کو جب معلوم ہوتا کہ کسی شخص نے ان کی غیبت کی ہے تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ فَہمائش (یعنی سمجھانے )کیلئے اُس کے گھر تشریف لے جاتے اور فرماتے :اے بھائی!آپ کوکیا ہوگیا کہ آپ نے عبدُالعزیز کے گناہ اُٹھا لیے! (تنبیہ المغترین ،ص192)
اے عاشِقانِ رسول! اِس حکایت سے پتا چلا کہ ہمارے اَسلاف اپنی غیبت کا سُن کر دھوآں پھوآں ہو کر آستینیں چڑھا کر غیبت کرنے والے پر چڑھ دوڑنے کے بجائے ، اگر جانا پڑتا تو اس کے گھر جا کر بھی اس کو نیکی کی دعوت پہنچاتے اور اس کے دل کو چوٹ لگانے والے کلمات ارشاد فرماتے۔ اس حِکایت میں ”گناہ اُٹھا لئے“جو کہا گیا ہے اِس سے مُراد یہ ہے کہ اگربِغیر توبہ اور مُغْتاب یعنی جس کی غیبت کی اُس سے بے مُعاف کروائے مرا تو جس کی غیبت کی ہے اُس کو اپنی نیکیاں دینی پڑیں گی، اگر نیکیاں نہ ہوئیں یا کم پڑ گئیں تو اُس کے گناہ اپنے سر اُٹھانے پڑ یں گے! آہ! غیبت کا مُعامَلہ بے حد نازُک ہے ،توبہ توبہ ہماری کروڑوں بار توبہ ۔ عہد کیجئے: نہ غیبت کروں گا نہ سنوں گا۔
ہے غیبت سے بچنے کی نیّت الٰہی میں قائم رہوں کر اِعانت( )الٰہی
حضرتِ حاتِم اَصَم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جب کسی مجلس میں یہ تین باتیں ہوں تو اُن لوگوں سے رَحمت پلٹ جاتی ہے:(1)دنیا کا ذِکر(2)زیادہ ہنسنا اور(3) لوگوں کی غیبت کرنا۔ (تنبیہ المغترین ،ص194)