30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خاتَمِ النَّبیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم طامیرِ اہلِ سنّت سے بد شگونی کے بارے میں 20 سوال جواب
دُعائے خلیفۂ عطّار: یاربَّ المصطفٰے !جو کوئی 14 ص فحات کا رسالہ’’ امیرِ اہلِ سنّت سے بد شگونی کے بارے میں 20 سوال جواب ‘‘پڑھ یاسُن لےاُسے بد شگونی اور توہمات سے محفوظ فرما اور اس کی ماں با پ سمیت بےحساب مغفِرت فرما۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
حضرتِ شیخ اَبُو بَکْر شِبْلی رحمۃُ اللہ علیہ ایک روز بغدادِ مُعلیّٰ کے جَیِّد عالِم حضرتِ ابو بکر بن مُجاہِد رحمۃُ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے، انہوں نے فوراً کھڑے ہو کر اُن کو گلے لگا لیا اور پیشانی چوم کر بڑی تعظیم کے ساتھ اپنے پاس بِٹھایا۔ حاضرین نے عرض کیا: یاسیِّدی ! آ پ اور اہلِ بغداد آج تک اِنہیں دیوانہ کہتے رہے ہیں مگر آج ان کی اِس قَدَر تعظیم کیوں ؟ جواب دیا: میں نے یوں ہی ایسا نہیں کیا، اَلحمدُلِلّٰہ ! آج رات میں نے خواب میں یہ ایمان افروز مَنْظر دیکھا کہ حضرتِ اَبُو بَکْرشِبْلی ( رحمۃُ اللہ علیہ ) بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوئے تو سرکار ِدو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو سینے سے لگا لیا اور پیشانی کو بوسہ دے کر اپنے پ ہلو میں بٹھا لیا۔ میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! شِبْلی پر اِس قَدَر شفقت کی وجہ؟ اللہ پاک کے پ یارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے (غیب کی خبر دیتے ہوئے) فرمایا کہ یہ ہر نَماز کے بعد یہ آیت پڑھتا ہے: ( لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْ ص عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)) ( پ 11، التوبۃ : 128) اور اس کے بعد مجھ پر دُرُود پڑھتا ہے۔ ( القول البدیع ، ص 346) صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد سوال: ہمارے مُعاشرے میں طرح طرح کے بُرے شگون لیے جاتے ہیں مثلاً سامنے سے کالی بِلّی گزر جائے تو یوں ہو جائے گا ،کَوّا بولے تو یوں ہو گا اور تیل گر جائے تو یوں ہو گا وغیرہ وغیرہ ، یہ اِرشاد فرمائیے کہ اس بارے میں اِسلام ہماری کیا راہ نمائی کرتا ہے ؟ جواب:بَدشُگونی حرام ہے۔ ( الطریقۃ المحمدیۃ ،2/17) دُنیا میں ایک غیر مسلم قوم ہے جو کالی بِلّی سے بَدشگونی لیتی ہے یہاں تک کہ اگر اس قوم کے لوگ کہیں سفر پر جا رہے ہوں اور ان کے آگے سے کالی بِلّی گزر جائے تو وہ پ لٹ کر آ جائیں گے اور سمجھیں گے کہ اگر اب سفر کیا تو نقصان ہو جائے گا لیکن بَدقِسمتی سے اس قوم کے ساتھ رہ رہ کر بعض مسلمانوں نے بھی کالی بلی سے بَدشگونی لینا شروع کر دی ہے ۔ اگر کسی نیک کام میں کبھی بدشگونی والا کوئی مُعاملہ ہو جائے تو وہ کام ضَرور کر گزرنا چاہیے مثلاً آ پ قافلے میں سفر کر رہے ہیں اور کالی بلی قافلے میں سفر کرنے والے ہر فرد کے آگے سے گزر جائے اور ایک بار نہیں بلکہ 100،100 بار گزر جائے تب بھی آ پ اپنا سفر جاری رکھیں اِن شاءَ اللہ زیادہ کامیابی ملے گی تو اس طرح آ پ نے بدشگونی کا رَد کرنا ہے۔ میں ایک بار کہیں جا رہا تھا اور میرے آگے سے کالی بلی گزری مگر میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور اللہ پاک کی رَحمت سے آج میں آ پ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں تو کالی بلی سے بدشگونی لینا ہمارا نہیں غیر مسلم وں کا عقیدہ ہے اور اِسلام میں بدشگونی لینا ناجائز ہے ۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،3/109) سوال:13 کے عَدد کو مَنحوس سمجھ کر اس سے بَدشگونی لینا کیسا ہے ؟ نیز ماہِ صفر شریف کو مَنحوس سمجھ کر اس میں شادیاں نہ کرنا کیسا ہے ؟ (1) جواب:آج کل لوگ 13 کے عدد کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بَد شگونی لیتے ہیں۔ 13 کے عدد کی بھی کیا بات ہے کہ پ یارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِعلانِ نبوّت کے بعد 13 سال تک مکۂ مکرَّمہ کو اپنے قدم چومنے کی سعادت عطا فرمائی،اس کے بعد 10 سال تک مدینۂ مُنوَّرہ کی ہواؤں کو زُلفیں چومنے کی سعادت بخشی ، تو 13 کا عدد بُرا نہیں ہے۔ ( بخاری ، 2/590، حدیث :3902 ۔ مسلم ، ص 984، حدیث : 6097 ماخوذاً ) اِسی طرح بعض لوگ ماہِ صفر کو بھی بُرا کہتے ہیں نجانے انہیں کیا ہوگیا ہے؟جبکہ خاتونِ جنَّت حضرت بی بی فاطِمہ رضی اللہ عنہ ا اور مولا مشکل کُشا حضرتِ علیُّ المُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شادی ماہِ صفر میں ہوئی تھی۔ (الکامل فی التاریخ،2/ 12) اور یہ بے چارے ماہِ صفر میں شادیاں نہیں کرتے کہ یہ منحوس مہینا ہے حالانکہ مولا مشکل کُشا رضی اللہ عنہ اور بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہ ا کا نکاح خود سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی موجودگی میں ہوا ہے لہٰذا ماہِ صفر میں نکاح کرنا چاہیے بلکہ اِہتمام کے ساتھ کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کی بَدشگونیوں کا زور ٹوٹے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،3/506)13 کے عدد کے بارے میں لوگوں کے غَلَط خیالات
بہت سے لوگ”13“نمبر سے بھی بدشگونی لیتے ہیں اور”13“نمبر نہیں لکھتے یہاں تک کہ کمرے اور سیٹ پر بھی ”13“نمبر نہیں لکھتے ، یہ بھی معلومات کی کمی کی وجہ سے ہے ورنہ ”13“ نمبر بُرا نہیں بہت اچھا ہےاور اسے کئی نِسبتیں حاصل ہیں مثلاً مولیٰ مشکل کُشا حضرت علیُّ المُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی وِلادت کی تاریخ بھی 13رَجَبُ المُرَجَّب ہے۔ ( نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار ، ص 85) یوں ہی جنگِ بدر میں ص حابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان کی تعداد 313 تھی ۔( ترمذی ،3/220، ، حدیث :1604) اور اَیّام ِتشریق کا آخری دِن بھی 13 ذو الحجۃِ الْحَرام ہے کہ 9 ذو الحجۃِ الْحَرام کی فجر سے لے کر 13 ذو الحجۃِالْحَرام کی ع ص ر تک تکبیر ِتشریق پڑھی جاتی ہے۔ ( درمختار ،3/71، 75 ملتقطاً ) 13 تاریخ کو اگر کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو کیا مَعاذَاللہ اُسے پھینک دیں گے کہ منحوس تاریخ میں پیدا ہوا ہے؟ ہرگز نہیں،بہرحال 13 کا عدد بہت اچھا ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،3/110) سوال: کچھ لوگ اِس طرح بَدشگونی لیتے ہیں کہ ہمارے گھر میں فُلاں چیز پکتی ہے تو کوئی بیمار ہو جاتا ہے یا آفت آ جاتی ہے،ایسے لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے؟ جواب:اِسلام میں بَدشگونی نہیں نیک شگونی ہے اور بَدشگونی ناجائز اور گناہ کا کام ہے۔ ( الطریقۃ المحمدیۃ ، 2/17) ہر قوم ، ہر بَرادری ،ہر گاؤں ، ہر شہر اور ہر ملک میں الگ الگ بَدشگونیاں پائی جاتی ہیں، جو سب کے سب ڈَھْکوسلے (دھوکے)ہیں اور شَرعا ًان کی کوئی اَصل نہیں ہے۔ لوگ جیسی بدشگونی لیتے ہیں حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سوال میں کھانے پینے کے حوالے سے بَدشگونی کا تَذکِرہ کیا گیا ہے ورنہ عُموماً فُلاں دِن، فُلاں تاریخ اور ماہِ صفر وغیرہ بہت سے مُعاملات میں بَدشگونیاں پائی جاتی ہیں جو کہ کُفّار سے چلی آ رہی ہیں ۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،3/504) سوال:ہمارے گھر کی گیلری میں روزانہ دو کَوّے لوہے کے تار لےکر آتے ہیں اور اس سے کچھ بناتے ہیں، اگر کوئی ان کو ہٹانے کی کوشش کرے تو یہ اس پر حملہ کردیتے ہیں اور زور زور سے چیخنے لگتے ہیں۔ پہلے بھی ایسا ہوا تھا اور میری والدہ بیمار پڑگئیں تھیں اور اب پھر اس طرح ہوا ہے اور میرے والد صاحب بیمار ہوگئے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ لوگ کہتے ہیں کوّا شیطانی مخلوق ہے اس کو نہیں ہٹانا چاہیے، اب ہم کیا کریں آ پ اس کا کوئی حل ارشاد فرمادیجیے۔ جواب:کوَّا شیطانی مخلوق نہیں ہے۔ البتہ اس کو شرعی اصطلاح میں فاسق کہا جاتا ہے۔ ( بخاری ،1/204، حدیث :1829 ماخوذاً ) بہرحال اللہ پاک بہتر جانتا ہے کہ آ پ کے والدین واقعی ان کوّوں کی وجہ سے بیمار ہوئے ہیں یا یہ اتفاقی بیماری ہے یا پھر نفسیاتی اَثَر کی وجہ سے دل پر یہ بات لے لی کہ اب یہ کوّے آگئے ہیں یقیناً کسی نے جادو کروایا ہوگا جس کی وجہ سے ہم بیمار ہوگئے وغیرہ۔ آ پ دعوتِ اسلامی کی’’مجلس روحانی علاج‘‘ کےتحت لگنے والے بستے سے اس مسئلے کے حل کے لیے تعویذات لیجیے، گھر میں لَٹکائیے اور امّی ابّو بلکہ گھر کے سارے افراد پ ہن بھی لیں۔ اللہ پاک اس مُصیبت سے آ پ کو نَجات عطا فرمائے۔(2) ( ملفوظات امیر اہل سنت ،2/435) سوال : مُرغا تواَذان دىتا ہے، لیکن مُرغی اَذان کیوں نہیں دیتی؟ جواب: مُرغا، فرشتوں کو دیکھ کر اَذان دىتا ہے،( بخاری ، 2/405، حدیث : 3303) اِس لئے جب مُرغا اَذان دے تو اُس وقت اللہ پاک کے فضل و رحمت کى دُعا کرنی چاہىے۔ ہاں! مُرغى اذان نہىں دىتى،لیکن اگر کبھى کبھار مُرغی اذان دے دے تو لوگوں کو ىہ غَلَط فہمى ہوجاتى ہے کہ ’’ىہ مُرغی منحوس ہے‘‘ جس کی وجہ سے لوگ اُسے کاٹ دىتے ہىں۔ ایسی سوچ نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی مُرغی کو منحوس کہنا چاہیے، کیونکہ بدشگونی لینا گُناہ ہے، ( تفسیر نعیمی ، پ 9، الاعراف، تحت الایۃ : 132، 9/119) مُرغی تو اچّھى ہوتى ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،10/26) سوال: اگر مُرغى اذان دىنے لگ جائے تو کیا اُ س کے انڈے اور گوشت کھاسکتے ہىں؟ جواب:جو مُرغی اذان دیتی ہو تو اس کے انڈے اور گوشت کھانا بالکل جائز ہے۔بعض لوگ ایسی مُرغی کو منحوس سمجھ کر ذَبح کر ڈالتے ہیں حالانکہ یہ بدشگونى ہے اور بدشگونی لینا شرعاً جائز نہىں۔ عوام میں ایسی اور بھی بہت سی باتیں مشہور ہىں مثلاً ماہِ صفر یا کسی خا ص تارىخ کو مَنحوس سمجھنا،بِلّى آڑے آنے یا آنکھ پھڑکنے کو کسی مُصیبت کا پیش خَیْمہ (سَبَب)بتانا وغیرہ وغیرہ یہ تمام باتیں بدشگونی کے قَبِیل (قِسم)سے ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔اِس قسم کے تَوَہُّمَات اور باطِل خیالات کے مُتعلِّق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی 127 ص فحات پر مشتمل کتاب”بدشگونی“ کا مُطالعہ کیجئے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 1/176) سوال: سُنا ہے کہ صفر شریف کا آخری بُدھ مَردوں پر بھاری رہتا ہے۔ کیا یہ بات دُرُست ہے؟ جواب: نَعُوْذُ بِاللّٰہ ! اگر آ پ نے ایسا سُنا ہے تو غَلَط سُنا ہے۔ صفر کا پہلا بُدھ نہ کسی پر بھاری ہے اور نہ ہی آخری بُدھ بھاری ہے۔ صفر کا کوئی دِن، کوئی گھنٹا، بلکہ کوئی لمحہ بھی کسی پر بھاری نہیں ہے۔ البتّہ وہ وقت اِنسان کے حق میں منحوس ہوتا ہے جس میں وہ اللہپاک کی نافرمانی کرتا ہے اور وہ وقت بہت خُوش گوار ہوتا ہے جس میں وہ نیکی بجالاتا یا اللہ پاک کی فرماں بَرد اری کرتا ہے۔ (3) ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 10/124) سوال: میں نے اپنے اُستادوں سے سنا ہے کہ منگل کے دن قىنچى نہىں چلانی چاہئے، نہ خالى نہ کپڑے پر کہ اِس سے نحوست ہوتی ہے، اِس کی کیا حقیقت ہے؟ جواب:منگل کے دِن قىنچى چلانا یا کپڑے کاٹنا نحوست کا باعث نہیں۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 10/552) سوال: اگر کسی کے بنے کام بِگَڑ رہے ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ او بھائى! تىرے سِتارے تو گَردِش مىں ہىں، کىا ایسا کہنا دُرُست ہے؟ نیز یہ بتادیجئے کہ کیا سِتارے گردِش مىں آتے ہىں؟ جواب: ’’سِتارہ گردِش میں ہونا‘‘ ایک مُحاوَرہ ہے، ورنہ سِتارے تو گردِش ہی میں رہتے ہیں، ٹھہرتے نہیں ہیں۔ یُوں بھی کہا جاتا ہے کہ آ پ پر گَردِش ہے۔ بعض اَوقات مُصیبت وں اور پر یشانیوں کا اىک دَور چلتا ہے جس میں اِنسان یہ کہنے لگتا ہے کہ ’’یار پہلے مٹّی میں ہاتھ ڈالتا تھا تو سونا ہوجاتی تھی، اب سونے میں ہاتھ ڈالوں تو مٹّی ہوجاتا ہے۔‘‘ ایسی ص ورَتِ حال میں یہ مُحاوَرہ بولا جاتا ہے۔ جب خوشحالی ہوتی ہے تو عام طور پر بندہ غفلت کا شِکار ہوجاتا ہے لیکن جب مصىبت کا دَور آتا ہے تو اُسے اللہ ىاد آجاتا ہے، ىُوں مصىبت بہت سے لوگوں کے حق مىں نِعْمت ثابِت ہوتى ہے اور اُن کی زِندَگی میں Turning Point (اِنقِلابی موقع) آجا تا ہے، پھر وہ اللہ پاک کى بارگاہ مىں جُھک جاتے ہیں کہ میرارب مىرى مصىبت دُور کردے گا۔( ملفوظات امیر اہل سنت ، 4/253) سوال:ستاروں کے اچھے بُرے اَثرات پر یقین رکھنا کیسا ہے؟ جواب:نُجُوم نَجْم کی جمع ہے اور نُجوم سے ہی نُجومی بنا ہے جو ستاروں کی باتیں بتاتا ہے۔ بے چارے کم عِلم لوگ نجومیوں کے چکروں میں آ جاتے ہیں حالانکہ ان کے پاس جانے کی بھی اِجازت نہیں ہے ۔(4)مُعاشرے میں ستاروں کے تَعلُّق سے بھی بَدشگونیوں کی بَھرمار ہوتی ہو گی۔(5) ( ملفوظات امیر اہل سنت ،3/505) سوال: کىا سِتاروں کا قِسْمت پر کوئی اَثَر ہوتا ہے؟ جواب: جى نہىں! اىسا سوچنا بھى نہىں چاہىے۔ ( مسلم ، ص 944، حدیث :5819) ىہ جو Palmist (دَسْت شَناس) وغیرہ ہوتے ہیں اِن کے دَھندے میں کبھى مَت پڑنا ! پىسے بھى جائىں گے اور آ پ تَوَہُّمات کا شِکار بھی ہوجائىں گے۔ بس یہ ذِہن بنالیں کہ جو رب چاہے گا وہی ہوگا۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،4/254) سوال:آنکھ پھڑکنے سے اچھا یا بُرا شگون لینا کیسا؟ جواب:اچھا شگون لینا جائز ہے جبکہ کسی اچھی چیز سے بُرا شگون لینا جائز نہیں۔مثلاً اُلٹی آنکھ پھڑکنے سے یہ شگون لیا جائے کہ کوئی مُصیبت وغیرہ آنے والی ہے یہ ناجائز ہے۔ (بدشگونی، ص 120۔ ملفوظات امیر اہل سنت ، 2/71) سوال: گھر مىں شىشے کی کوئی چیز ٹُوٹ جائے تو لوگ بولتے ہىں کہ کوئى اچھى خبر آنے والی ہے ىا بعض کہتے ہىں کہ کوئى بڑى آفت تھى جو ٹَل گئى ہے، کیا ان باتوں کی کوئی حقیقت ہے؟ جواب:شىشے کی کوئی چیز ٹوٹنے کے تعلق سے ایسی باتیں مىرى معلومات میں نہىں ہیں۔ نہ ایسی باتیں کہیں پڑھیں اور نہ عُلمائے کِرام کَثَّرھمُ ُاللہ السَّلام سے سُنی ہیں۔بس عوام مىں بہت سی بے بنیاد باتىں چل رہى ہوتى ہىں ہوسکتا ہے کہ ان مىں سے اىک بات ىہ بھى ہو۔البَتَّہ شیشے کی کوئی چیز ٹُوٹنے پر ایسا سوچنے میں حرج نہىں ہے کہ ”شاید کوئی بڑى آفت آنے والى تھی جو چھوٹى بَلا پر ٹَل گئى ہے۔“ایسا سوچنا اللہ پاک پر اُمىد اور حُسنِ ظن رکھنا ہے جس مىں کوئى حرج نہىں ۔ ویسے بھی ہر مصىبت سے بڑى مصىبت تو ہوتى ہى ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 6/125) سوال: کیا ایک گھر کے چند افراد کی شادی ایک ساتھ کر سکتےہیں؟ بعض لوگ اِسے نقصان کا سبب سمجھتے ہیں، آ پ اس بارے میں راہ نمائی فرما دیجیے کہ کیا ایسا سمجھنا درست ہے؟ جواب: ایک وقت میں بھائی بہنوں کی اکٹّھی شادیاں کرنے میں کوئی نُحوست یا نقصان نہیں، چاہے تین ہوں یا تین سو تیرہ! اسلام میں بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ص رف لوگوں کے خیالات ہیں کہ تین شادیاں اِکٹّھی کرنا نقصان کا سبب ہے، حالانکہ فی زمانہ جس انداز سےگانے باجوں کے ساتھ اور گھر کی خواتین کو نَچاکر شادیاں ہوتی ہیں اس طرح تو ایک شادی میں بھی نقصان ہے، پھر تین شادیوں میں کتنا نقصان ہوگا؟ یاد رکھیے! نقصان شادیوں سے نہیں ان میں ہونے والے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب گناہوں بھری شادیاں ہوں گی تو رحمتِ الٰہی کا نُزُول نہیں ہوگا، بلکہ رحمت کے دروازے بند ہوں گے جو نقصان کا سبب ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 7/460) سوال:کىا ىہ دُرُست ہے کہ دُکان ىا کاروبارى جگہ پر ناخن کاٹنے سے نحوست ہوتى ہے؟ نیز کىا رات میں ناخن کاٹ سکتے ہىں؟ جواب:ناخن کاٹنا نحوست کا کام نہىں بلکہ اَدائے سُنَّت اور حکمِ شریعت پر عمل کی نیت سے کاٹیں گے تو ثواب بھی ملے گا۔ اگر ناخن کاٹنے کے سبب دُکان مىں نحوست آتی ہوتی تو پھر گھر مىں بھی نہ کاٹے جائیں کہ وہاں بھی نحوست ہو گی۔ بہرحال ناخن کاٹنا نحوست کا سبب نہیں بلکہ 40 دن کے اندر ناخن کاٹنا سُنَّت ہے۔اگر 40 دن سے زىادہ ہوگئے اور اب تک ناخن نہىں کاٹے تو بندہ گناہ گار ہو گا۔نیز رات میں بھى ناخن کاٹنا جائز ہے ۔عوام میں یہ غَلَط مشہور ہےکہ رات میں ناخن کاٹنا منع ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 2/342) سوال:اگر کسی شخص کا یہ ذہن بنا ہوا ہو کہ ’’اگر اسے پیچھے سے کوئی آواز دے گا تو اس کا فلاں کام بگڑ جائے گا‘‘ایسا ذہن رکھنا کیسا ہے؟ جواب:ایسی سوچ رکھنا بَدشگونی ہے،اِس سے توبہ کرنا ضَروری ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 2/235) سوال: مىرى بائىں آنکھ پھڑک رہى ہے اس کے لىے کوئى دُعا وغىرہ بتادىجئے جس سے مىرا ىہ مرض ختم ہوجائے ؟ جواب: بعض لوگ بائىں آنکھ پھڑکنے سے بدشگونى لىتے ہىں، اىسا کچھ بھى نہىں ہےاس طرف تَوجّہ نہىں دىں گےتو سُکون میں رہیں گے۔ ” آیۃ ُالکُرْسی “ ہر نماز کے بعد ایک بار پڑھئے اور جب اس کلمہ پر پ ہنچیں (وَ لَا یَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-) (6) ( پ 3، البقرۃ : 255 ) تو دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آنکھوں پر رکھ کر اس کلمے کو گیارہ بار پڑھیں پھر دونوں ہاتھوں کی اُنگلِیوں پر دَمْ کرکے آنکھوں پر پھیر لیں۔ اگر آیۃُ الکُرْسی ىاد نہىں تو 11مرتبہ ”یَا نُوْرُ“ پڑھ کر ہاتھوں کی اُنگلِیوں پر دَمْ کرکے پھىر لىں۔ اسی طرح آنکھوں کے لىے ىہ وظیفہ بھى مُفىد ہے: (فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ(۲۲)) ( پ 26، ق: 22 ) ترجمۂ کنزالایمان :” تو ہم نے تجھ پر سے پر دہ اُٹھایا تو آج تیری نگاہ تیز ہے“ یہ پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر دَمْ کرکے آنکھوں پر پھىر لىں، اللہ پاک نے چاہا تو آنکھ پھڑک نا بند ہوجائے گى ۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 8/100) سوال: بِلِّیاں جب روتى ہىں تو اِس سے کىا ہوتا ہے؟ جواب:بِلّیوں کے رونے سے بدشگونى نہىں لینی چاہیے۔بلیوں کے رونے پر یہ سمجھنا کہ بس کوئى آفت آنے والى ہے ، لہٰذا فُلاں سفر یا فُلاں سودا کىنسل کردو ورنہ نقصان ہوجائے گا تو حقیقت میں اىسا کچھ بھی نہىں ہے ۔بِلّى بھى روتى ہے،بندہ بھى روتا ہے اور بچے بھى روتے ہىں۔ اِس سے بدشگونی لینے کے بجائے عِبرت حاصل کرنی چاہیے جیسا کہ ایک کتاب مىں لکھا ہے کہ بچے جب روئىں تو جہنَّمِىوں کا رونا ىاد کرىں ۔ ( موسوعۃ ابن ابی الدنیا ،3/218، رقم :253) بچہ اىسے لگتا ہے کہ بےبسى کے ساتھ رورہا ہے، تو جہنَّم مىں بھى بےبسى کے ساتھ رونا ہوگا۔ بس اللہ پاک ایسا کرم کرے کہ ہم جہنَّم مىں ہى نہ جائىں جو رونا پ ڑے۔ اللہ کرے کہ ہم جہنَّم مىں جانے والے کام کرنے کے بجائے نىکىاں ہى کرتے رہىں ۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ، 2/137) سوال: اچھا شگون لینے کی کچھ مثالیں بیان فرمادیجئے۔ جواب: اچھا شگون لینا جائز ہے ( تفسیر نعیمی ، پ 9، الاعراف، تحت الآیۃ:132، 9/119) اور لینا بھی چاہیے، اَحادیثِ مُبارَکہ میں بھی اِس کا تذکِرہ ہے۔(7) جیسے ص بْح سویرے کسی اچھے آدَمی کا فون آ گیا تو اِس سے یہ شگون لیا جاسکتا ہے کہ ’’آج کا دِن اچھا گزرے گا۔‘‘ گھر سے باہر نکلے اور کسی نیک آدَمی سے ملاقات ہوگئی ،اِس سے بھی اچھا شگون لیا جاسکتا ہے۔ ( ملفوظات امیر اہل سنت ،5/87) سوال : کیا حاملہ عورت یا اس کی اَولاد پر سورج گِرہن یا چاند گِرہن کا کوئى اثر پ ڑتا ہے ؟ جواب : یہ بات بہت مشہور ہے کہ اگر عورت چاند گِرہن مىں قینچی چلائے گى تو بچے کے ہونٹ کَٹ جائىں گے یا فلاں مُعاملہ ہو جائے گا وغیرہ۔ یاد رَکھیے !اس طرح کے جو بھی مُعاملات ہىں شریعت ان کی حو ص لہ اَفزائى نہىں کرتى البتّہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں اِتفاق سے کوئى ہونٹ کٹا بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کى ماں نے چاند گرہن میں قىنچى چلائى تھى حالانکہ اس کی کوئى شرعى حقىقت نہىں ہے۔ ( ملفوظات امیراہل سنت ، 3/40) امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے کیے گئے سوالات اور اُن کے جوابات یہاں ختم ہوئےشُگون کی قسمیں
شگون کا معنٰی ہے فال لینا یعنی کسی چیز ، شخص ، عمل،آواز یا وَقت کو اپنے حق میں اچھا یابُرا سمجھنا ۔ اس کی بُنْیادی طور پر دو قسمیں ہیں : (1) بُرا شگون لینا (2) اچھا شگون لینا۔علامہ محمد بن احمد اَنصاری قُرطُبی رحمۃُ اللہ علیہ تفسیرِ قُرطُبی میں نقل کرتے ہیں : اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا اِرادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کردلیل پکڑنا ،یہ اس وَقْت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر بُرا ہو تو بَد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پ ایۂ تکمیل تک پ ہنچائے اور جب بُرا کلام سُنے تو اس کی طرف توجُّہ نہ کرے اورنہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے ۔ ( الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ، پ 26، الاحقاف،تحت الآیۃ :4، جز :16،8/132) بَدشگونی حرام اور نیک فال لینا مُستَحب ہے حضرتسیِّدُنا امام محمد آفندی رُومی بِرکلی رحمۃُ اللہ علیہ الطریقۃ المحمدیۃ میں لکھتے ہیں: بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُستَحب ہے ۔ ( الطریقۃ المحمدیۃ ، 2/17،24) اورمشہورمفسرِ قرآن حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں :اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے ،بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے ۔ ( تفسیر نعیمی ، 9/119) اہم ترین وضاحت: نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں بُرے شگون کا خیال آہی جاتا ہے اس لئے کسی شخص کے دِل میں بَدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ مَحض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے(او پر والی لائن اوپری صفحے میں ہے ۔) کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے۔ (ملفوظاتِ امیر ِاہل ِسنّت، 3/40)
1… یہ سوال شعبہ ملفوظاتِ امیر ِاہل سنّت کا قائم کردہ ہے اور جواب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا عنایت کیا ہوا ہے۔ 2…حضرت امام محمد آفندی رُومی بِرکلی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُستَحب ہے۔ ( الطریقۃ المحمدیہ ،3/175- 189)اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے جَھٹَک دیا تو اس پر کچھ اِلزام نہیں لیکن اگر اس نے بَدشگونی کی تاثیر کا اِعتِقاد رکھا اور اِسی اعتقاد کی بنا پر اس کام سے رُک گیا تو گناہ گار ہوگا مثلاً کسی چیز کو منحوس سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ اب مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔ ( بد شگونی ، ص 13) 3…حضرت علّامہ اِسماعیل حَقّی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : زمانے کے اَجزا ا پ نی ا ص ل حقیقت میں برابر ہیں اور اُن میں کوئی فرق نہیں، البتّہ اُن اَجزا میں جو نیکی یا گُناہ واقع ہو اُس میں فرق کی وجہ سے زمانے کے اَجزا میں فرق ہوتا ہے، تو جُمعہ کا دِن نیک کام کرنے والے کے اِعتبار سے سعادت مندی کا دِن ہے اور گُناہ کرنے والے کے اِعتبار سے (اُس کے حق میں) منحوس ہے۔ ( تفسیر روح البیان ، پ 24، حمٓ السجدۃ، تحت الآیۃ : 16، 8/244) 4…تاروں سے اوقات معلوم کرنا اور را ستوں و سَمتوں کا پتہ لگانا جائز ہے،رب تعالیٰ فرماتا ہے: (وَ بِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُوْنَ)( پ 14، النحل :16) (ترجمۂ کنزالایمان :اور ستارے سے وہ راہ پ اتے ہیں۔) مگر ان میں بارش وغیرہ کی تاثیریں ماننا اور ان سے غَیبی خبریں معلوم کرنا حرام ہے،لہٰذا عِلمِ نُجوم باطِل ہے، عِلمِ تَوقیْت حق۔ ( مراٰة المناجیح ،2/503) 5… اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ سے سُوال کیا گیا کہ کَواکبِ فَلکی ( یعنی آسمانی ستاروں) کے اَثراتِ سَعْد و نَحْس (یعنی اچھے اور مَنحوس اَثرات) پر عقیدت(یعنی بھروسا) رکھنا کیسا ہے ؟ آ پ رحمۃُ اللہ علیہ نے جواب دیا: مسلم ان مُطِیع (یعنی اِطاعت گُزار مسلم ان) پر کوئی چیز نَحْس(یعنی مَنحوس) نہیں اور کافروں کے لئے کچھ سَعْد(یعنی اچھا)نہیں اور مسلم ان عا ص ی(یعنی نافرمانی کرنے والے مسلم ان) کے لئے اس کا اِسلام سَعْد (یعنی نیک بَخْتی)ہے۔ طاعت (یعنی عبادت)بشرطِ قبول سَعْد(یعنی نیک بختی) ہے۔ مَعْصیَت (یعنی گناہ گاری) بجائے خود نَحْس(یعنی مَنحوس) ہے اگر رَحمت و شَفاعت اس کی نُحوست سے بچا لیں بلکہ نُحوست کو سعادت کر دیں، ( فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ) ( پ 19، الفرقان:70) (ترجمۂ کنز الایمان:تو ایسوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بَدل دے گا ۔)بلکہ کبھی گناہ یوں سعادت ہو جاتا ہے کہ بندہ اس پر خائِف و تَرساں وتائِب و کوشاں رہتاہے، وہ دُھل گیا اور بہت سی حَسَنات(یعنی نیکیاں) مل گئیں،باقی کَواکب میں کوئی سعادت و نحوست نہیں اگر ان کو خود مُؤَثِر (یعنی اثر کرنے والا)جانے شِرک ہے اور ان سے مدد مانگے تو حرام ہے، ورنہ ان کی رِعایت ضَرورخلافِ تَوَکُّل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،21/223) 6… ترجمۂ کنز الایمان:”اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی“۔ 7…حضرتِ بُرَیْدہ رضی اللہ عنہ قبیلہ بَنُوْ سَہْم کے 70 سُوارں کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے تو آ پ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دَرْیافت فرمایا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: بُرَیْدہ، تب رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف مُڑ کر فرمایا: بَرَدَ اَمْرُنَا وَ صلَحَ ، ہمارا معاملہ ٹھنڈا اور اچھا ہوگیا، پھر فرمایا: تم کن لوگوں سے ہو؟ انہوں نے کہا : اَسْلَمْ سے، آ پ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: سَلِمْنَا ، ہم سلامتی سے رہیں گے، پھر فرمایا تم کس قبیلہ سے ہو؟ انہوں نے کہا: بَنُوسَہْم سے، آ پ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: خَرَجَ سَهْمُكَ (اے ابوبکر) تمہارا ح ص ہ نکل آ یا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الا ص حاب، 1/263)