Bahar e Shariat jild 2
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Bahar e Shariat jild 2 | بہار شریعت جلد دوم

    book_icon
    بہار شریعت جلد دوم
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ’’عالِم بنانے والی کتاب‘‘ کے 17 حروف کی نسبت سے ’’بہارشریعت‘‘ کو پڑھنے کی 17 نیّتیں از: شیخ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ۔ ترجمہ: ’’ مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہترہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني، الحدیث: ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵) دو مدنی پھول: (۱) بغیر اچھی نیت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ (۲) جتنی اچھی نیتیں زیادہ، اتنا ثواب بھی زیادہ۔ ٭ اِخلاص کے ساتھ مسائل سیکھ کر رِضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا حقدار بنوں گا۔ ٭ حتَّی الوسع اِس کا با وُضُو اور ٭ قبلہ رُو مطالَعہ کروں گا۔ ٭ اِس کے مطالعے کے ذریعے فرض علوم سیکھوں گا ۔ ٭عمل کی نیت سیشرعی مسائل سیکھوں گا۔ ٭ جو مسئلہ سمجھ میں نہیں آئے گا اس کے لیے آیتِ کریمہ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۰۰۴۳ (النحل: ۴۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’ تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ‘‘پر عمل کرتے ہوئے علماء سے رجوع کروں گا۔ ٭ (اپنے ذاتی نسخے پر) عند الضرورت خاص خاص مقامات پر انڈر لائن کروں گا۔ ٭… (ذاتی نسخے کے) یاد داشت والے صفحہ پر ضروری نکات لکھوں گا۔ ٭ جس مسئلے میں دشواری ہو گی اُس کو بار بار پڑھوں گا۔ ٭زندگی بھر عمل کرتا رہوں گا۔ ٭ جو نہیں جانتے انھیں سکھاؤں گا ۔ ٭جو علم میں برابر ہو گا اس سے مسائل میں تکرار کروں گا۔ ٭ یہ پڑھ کر عُلمائے حقّہ سے نہیں اُلجھوں گا۔ ٭ دوسروں کو یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔ ٭ (کم از کم ۱۲ عدد یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا۔ ٭ اس کتاب کے مطالَعہ کا ثواب ساری امّت کو اِیصال کروں گا۔ ٭ کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو مطلع کروں گا۔ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب ۶ ربیع الغوث ۱۴۲۷ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    المد ینۃ العلمیۃ

    از:شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ الحمد للّٰہ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جودعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہ تعالیٰ پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت (۲)شعبۂ تراجمِ کتب (۳)شعبۂ درسی کُتُب (۴)شعبۂ اصلاحی کُتُب (۵)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰحضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت،عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مجدد دین و ملت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالم شریعت، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسعَ سَہْل اُسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللّٰہ عزوجل ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضرا شہادت،جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ و سلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ   پہلے اسے پڑھ لیجئے ! شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری مدظلہ العالی اپنے رسالے تذکرۂ صدرالشریعہ‘‘کے صفحہ۴۴ پر لکھتے ہیں :’’ صدر الشریعہ ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللّٰہ الغنی کاپاک وہندکے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ضخیم عربی کُتُب میں پھیلے ہوئے فقہی مسائل کوسِلکِ تحریر میں پِرَو کر ایک مقام پر جمع کردیا ۔ انسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک درپیش ہونے والے ہزارہامسائل کا بیان بہارِ شریعت میں موجود ہے ۔ان میں بے شمار مسائل ایسے بھی ہیں جن کا سیکھنا ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن پر فرضِ عَین ہے۔‘‘(تذکرۂ صدرالشریعہ ،ص۴۴) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!’’بہارِ شریعت ‘‘کے اس عظیم علمی ذخیرے کومُفید سے مُفید تربنانے کے لئے اس پر دعوتِ اسلامی کی مجلس، المدینۃ العلمیۃ کے مَدَنی علماء نے تَخریج وتسہیل اور کہیں کہیں حَواشی لکھنے کی سعی کا آغاز کیا اور تادمِ تحریر6 حصوں پرمشتمل پہلی جلد، 16واں حصہ اور7تا13الگ الگ حصے’’مکتبۃ المد ینہ‘‘سے طبع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ۔دعوتِ اسلامی کی اِن علمی کاوشوں کی متعدد علمائے کرام دامت فیوضھم نے پذیرائی فرمائی ۔چنانچہ جگر گوشۂ صدرُ الشَّریعہ علیہ رحمۃُ ر بِّ الورٰی ،حضرت علّامہ مولانا قاری محمد رضاء المصطفٰی اعظمی مدظلہ العالی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : فی زمانہ اَکابرین کی بابرکت صحبتوں اور پاکی زہ برکتوں سے صفحۂ ہستی پر نمودار ہونے والی سنّتوں کا پیکر عشقِ رِسالت مَآب صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا مظہر عالمی تبلیغی و اِصلاحی جماعت دعوتِ اسلامی نے بہارشریعت کی تسہیل و تخریج کرکے اس کے حق کو ادا کردیا۔ دعوتِ اسلامی کے شعبۂ علمی کی اس شاندار کاوش کو دیکھ کر یقیناً صدر الشریعہ بدرالطریقہ حکی م ابوالعلیٰ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی کی روح پرنور اعلیٰ علیین میں خوش ہورہی ہوگی، کیونکہ صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا تھا کہ ’’ اگر اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ میری اس کاوش (بہارِ شریعت) کو دیکھ لیتے تو یقیناً اسے (فقہ حنفی کے مسائل پر مشتمل خزانہ جان کر) سونے میں تولتے ۔‘‘ اور آج مجلسِ علمیہ کی اس مبارک کاوش نے صدر الشریعہ کی تمنّا کو پورا کردیا ، بلکہ یوں کہیے کہ سونے میں تولنے سے بھی زیادہ اہم کارنامہ انجام دے دیا۔میرے علم کے مُطابق اِس وقت دعوتِ اسلامی کے زیر ِ انتظام کئی شعبہ جات دینِ متین کی بھرپور خدمت میں صبح و شام مصروفِ عمل ہیں اور شبانہ روز محنت اوراَنتھک جدوجہد کے ذریعہ درسی و تبلیغی کُتب کثیرہ منصہ شہود پر لارہے ہیں ۔ اَسلاف کی بے شمار عربی کُتب کے صحیح اُردو تراجم بھی دعوتِ اسلامی کے اَہم ترین کارناموں میں سے سنہری کارنامہ ہے ، دین کی جس خدمت کا بیڑہ بھی دعوتِ اسلامی نے اُٹھایا ہے اسے کامیابی کے ساحل سے ہمکنار کرکے ہی دَم لیا ہے۔ میری نگاہوں میں دعوتِ اسلامی اعلیٰ حضرت و صدر الشریعہ علیہما الرحمۃ کے فیضان کا وہ سفینہ ہے جو الحادو بے دینی، منکرات و بدعات کی تندوتیز موجوں کا مقابلہ مردانہ وار کررہی ہے۔بہارِ شریعت کی تسہیل و تخریج سے پہلے صرف عُلماء کرام ہی استفادہ کرسکتے تھے اور تسہیل و تخریج کے بعد عوام الناس بھی یقینا اب مستفیض ہوسکی ں گے ۔ اس سے قبل مشکل و قدیمی الفاظوں کو تلاش کرنے کے لیے عُلماء بھی عربی و اُردو لغات اپنے پاس رکھتے تھے، اور اب سارے مشکل و قدیم الفاظوں کے معانی جلد کے اوّل میں ہی درج کردیئے گئے ہیں ۔ اور یہ دیکھ کر بھی نہایت مسرت ہوئی کہ ہر مسئلہ ایک نئی سطر سے شروع ہوتا ہے۔ا ربّ العزّت دعوتِ اسلامی کی اِس عِلمی کاوِش کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائے اور مجلسِ علمیہ کے تمام لوگوں کے ہاتھوں میں وہ پاکی زہ تاثیر پیدا فرمادے کہ ان کے کیے ہوئے تراجم و حواشی ، تسہیل وتخریج ، تفسیر و تعبیر اطراف و اکناف اور شرق تا غرب کے مسلمانوں میں مقبول و محبوب ہوجائیں ۔ آمین بجاہ سیّدالمرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۱۷،۱۸،۱۹صفرالمظفر۱۴۲۹ھ/۱۶،۱۷،۱۸مارچ ۲۰۰۹ء کو ہونے والے ’’ھند‘‘کی مجلس شرعی کے سولہویں فقہی سیمینا رمیں صدرمجلس شرعی ، شیخ الحدیث ومہتمم جامعہ اشرفیہ حضرت مولیٰنا محمداحمد اعظمی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ نے خطبہ صدارت میں دعوت اسلامی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بہارِ شریعت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا :’’بہارِ شریعت ہمارے یہاں عرصۂ دراز سے رائج ہے، لیکن مکتبۃالمدینہ نے ایک تو اس کے حوالوں کی تخریج کی ہے، دوسرے اس کے ساتھ ساتھ حواشی بھی لکھے ہیں ، تیسرے فقہی فوائد اور اصطلاحات شروع میں دی ہیں ، اور بہت سی دوسری چیزیں شامل کی ہیں ، جو اس کتاب کو بہت ہی عظیم ، بہت ہی وقیع اور عوام و خواص کے لیے بہت زیادہ مفید بنادیتی ہیں ۔‘‘ الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّاب سات حصوں (7تا13) پرمشتمل دوسری جلد پیشِ خدمت ہے جس میں نکاح،طلاق،قسم، حدود (اسلامی سزائیں )، وقف، کاروباری شراکت،لقطہ،لقیط اورخریدوفروخت کے مسائل کا تفصیلی بیان ہے۔ اس جلد میں تقریباً127آیات ، 422احادیث اور4516مسائل کا ذکر ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام و خواص کے لیے نفع بخش بنائے! اور ہمیں اس کے بقیہ تمام حصوں کو بھی مزید بہتر انداز میں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اس جلدپر بھی مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘کے ’’شعبہ تخریج‘‘کے مَدَنی علماء نے اَنتَھک کوششیں کی ہیں ، جس کا اندازہ ذیل میں دی گئی کام کی تفصیل سے لگایا جاسکتا ہے: 1… احادیث اور مسائل فقہیہ کے حوالہ جات کی اصل عربی کتب سے مقدور بھر تخریج کی گئی ہے۔ 2… آیاتِ قرآنیہ کو منقش بریکٹ { }، کتابوں کے نام اور دیگر اَہم عبارات کو Inverted Commas ’’ ‘‘ سے واضح کیا گیاہے۔ 3 … مصنف رحمۃاللّٰہ تعالیٰ علیہکے رسم الخط کوحتَّی ا لاِمکان برقراررکھنے کی کوشش کی گئی ہے،صفحہ نمبر12,11پربہارشریعت جلد دوم(2)میں آنے والے مختلف الفاظ کے قدیم وجدیدرسم الخط کوآمنے سامنے لکھ دیاگیاہے۔ 4 … جہاں جہاں نبی اَکرم صلَّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی کے ساتھ ’’صلَّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم‘‘ اور اﷲ عزوجل کے نام کے ساتھ ’’عزوجل‘‘ لکھا ہو انہیں تھا وہاں بریکٹ میں اس انداز میں (عزوجل)، (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم) لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ 5… ہر حدیث و مسئلہ نئی سطر سے شروع کرنے کا التزام کیا گیاہے اور عوام وخواص کی سہولت کے لئے ہر مسئلے پر نمبر لگانے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ 6 …پڑھنے والوں کی آسانی کے لئے اِس حصہ کے شروع میں حروف تہجی کے اعتبار سے حلِّ لغت کی ایک فہرست کا اہتمام کیا گیا ہے جسے تیار کرنے کے لئے لغت کی مختلف کتب کاسَہارا لیاگیاہے اور اِس بات کوپیشِ نَظَر رکھاگیاہے کہ اگر لفظ کاتعلق براہِ راست قرآنِ پاک سے تھاتواِس کو مختلف تفاسیرکی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی گئی، براہِ راست حدیثِ پاک کے ساتھ تعلق ہونے کی صورت میں حتَّی الاِمکان احادیث کی شروحات کومدنظر رکھاگیااور فقہ کے ساتھ تعلق کی بناپر حتَّی المقدورفقہ کی کتب سے اِستِفادہ کیاگیاہے ۔چند مقامات پرعبارت کی تسہیل (یعنی آسانی)کے لئے مشکل الفاظ کے معانی حاشیے میں بھی لکھ دیئے گئے ہیں تاکہ صحیح مسئلہ ذِہن نشین ہوجائے اور کسی قسم کی اُلجھن باقی نہ رہے ۔ پھر بھی اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توعلماء کرام دامَتْ فُیُوْضُھُمْ سے رابطہ کی جئے ۔ 7 …اس حصہ میں جہاں جہاں فقہی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ،ان کوایک جگہ اکٹھابیان کردیاگیاہے ۔اس سلسلے میں حتَّی المَقدورکوشش کی گئی ہے کہ اگراس اصطلاح کی وضاحت مصنف رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے خود اسی جگہ یا بہارشریعت کے کسی دوسرے مقام پرکی ہو تو اسی کو آسان الفاظ میں ذکرکیاگیاہے اوراگرکسی اصطلاح کی تعریف بہارِ شریعت میں نہیں ملی تو دوسری معتبر کتابوں سے عام فہم اورباحوالہ اصطلاحات کی وضاحتیں ذکرکردی گئی ہیں ۔علاوہ ازیں اس حصہ میں جو مشکل اَعلام(مختلف چیزوں کے نام )مذکور ہیں لغت کی مختلف کُتب سے تلاش کرکے ان کوبھی آسان اَ نداز میں اصطلاحات کے آخر میں ذکر کردیاگیاہے ۔ 8 …علمائے کرام سے مشورے کے بعد صفحہ نمبر: 5 ، 15،19،22،35،42،76،95،131،153، 176،181، 212، 213،228،259،340،366،383،386،387،398،412،416،451، 469، 499، 523، 546،589،752،760،809،820،877،890،903، 1008،1043 ،1067 ۔پر مسائل کی تصحیح، تَرجِیح، تَوضیح اور تطبِیق کی غرض سے حاشیہ بھی دیا گیا ہے اوراس کے آخرمیں عِلْمِیہ لکھ دیاگیاہے ۔ مثلاً:بہارشریعت جلددوم (2)،حصہ11ص760پر ہے؛ دوسری جنس کی چیز بغیر اُسکی اجازت نہیں لے سکتا ہے مثلاً روپیہ قرض دیا تھا تو روپیہ یا چاندی کی کوئی چیز ملے لے سکتا ہے اور اشرفی یا سونے کی چیز نہیں لے سکتا۔ المدینۃ العلمیہ کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا ہے ؛اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمن فتاوی رضویہ میں علامہ شامی اور طحطاوی علیہماالرحمہ کے حوالے سے امام اخصب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے نقل کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ :’’ خلاف جنس سے وصول کرنے کا عدم جواز مشائخ کے زمانے میں تھاکی وں کہ وہ لوگ باہم متفق تھے آج کل فتوی ا س پر ہے کہ جب اپنے حق کی وصولی پر قادر ہوچاہے کسی بھی مال سے ہوتو وصول کرنا جائز ہے ۔ ( فتاوی رضویہ ،ج ۱۷، ص ۵۶۲ ) ۔۔۔۔عِلْمِیہ 9… مصنف کے حواشی وغیرہ کو اسی صفحہ پر نقل کر دیا اور حسبِ سابق ۱۲ منہ بھی لکھ دیا ہے۔ 10 … مکررپروف ریڈنگ کی گئی ہے، مکتبہ رضویہ آرام باغ، باب المدینہ کراچی کے مطبوعہ نسخہ کو معیاربناکر مذکورہ خدمات سرانجام دی گئی ہیں ،جو در حقیقت ہندوستان سے طبع شدہ قدیم نسخہ کا عکس ہے لیکن صرف اسی پر انحصار نہیں کیا گیا بلکہ دیگر شائع کردہ نسخوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ 11 … آخر میں مآخذ و مراجع کی فہرست، مصنفین و مؤلفین کے ناموں ، ان کی سنِ وَفات اور مطابِع کے ساتھ ذکر کر دی گئی ہے۔ اس کام میں آپ کو جوخوبیاں دکھائی دیں وہاللّٰہعزوجل کی عطا، اس کے پیارے حبیب صلَّی ا للہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر کرم، علماء کرام رَحمہم ا للہ تعالیٰ بالخصوص شیخِ طریقت اَمیرِ اَہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارؔ قادری ضیائی مدظلہ العالِی کے فیض سے ہیں اور جو خامیاں نظر آئیں ان میں یقینا ہماری کوتاہی کو دخل ہے۔ قارئین خصوصاً علماء کرام دامت فیوضہم سے گزارش ہے کہ اس کتاب کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہمیں اپنی قیمتی آراء اور تجاویز سے تحریری طور پر مطلع فرمائیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی اصلاح کے لئے شیخ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری مدظلہ العالی کے عطا کردہ مدنی انعامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کے لئے 3 دن، 12 دن، 30 دن اور 12 ماہ کے لئے عاشقانِ رسول کے سفر کرنے والے مدنی قافلوں کا مسافر بنتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ واصحابہ وبارک وسلم! شعبہ تخریج (مجلس المدینۃ العلمیۃ) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ط

    نکاح کا بیان

    اللّٰہ عزوجل فرماتاہے: { فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً } نکاح کرو جو تمھیں خوش آ ئیں عورتوں سے دو دو اور تین تین اورچار چار۔ اور اگر یہ خوف ہوکہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک سے۔ اور فرما تا ہے: {وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ١ؕ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ۰۰۳۲ وَ لْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ}(2) اپنے یہاں کی بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا۔ اگر وہ محتاج ہوں تو اللّٰہ (عزوجل) اپنے فضل کے سبب اُنھیں غنی کر دے گا۔ اور اللّٰہ (عزوجل) وسعت والا علم والا ہے اور چاہیے کہ پارسائی کریں وہ کہ نکاح کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللّٰہ (عزوجل) اپنے فضل سے انھیں مقدور والا کر دے۔

    نکاح کے فضائل اورنیک عورت کی خوبیاں

    حدیث ۱: بخاری و مسلم و ابو داود و ترمذی و نسائی عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، رسول اللّٰہ صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جوانو(۱) تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطع شہوت(3) ہے۔‘‘ (4) حدیث ۲: ابن ماجہ انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو خدا سے پاک
    1…پ۴،النساء:۳۔ 2…پ۱۸،النور:۳۲۔۳۳۔ 3… یعنی شہوت کو توڑنے والا۔ 4…’’صحیح البخاري‘‘،کتاب النکاح،باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم،الحدیث:۵۰۶۶،ج۳،ص۴۲۲۔ وصاف ہو کر ملنا چاہے، وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔‘‘ (1) حدیث ۳: بیہقی ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو میرے طریقہ کو محبوب رکھے، وہ میری سُنت پر چلے اور میری سُنت سے نکاح ہے۔‘‘ (2) حدیث ۴: مسلم و نسائی عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ حضور (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترمتاع نیک عورت۔‘‘ (3) حدیث ۵: ابن ماجہ میں ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے تھے، تقوے کے بعد مؤمن کے لیے نیک بی بی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر اُسے حکم کرتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں کو چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے (خیانت و ضائع نہ کرے)۔ (4) حدیث ۶: طبرانی کبیر و اوسط میں ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے چار چیزیں ملیں اُسے دُنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔(۱) دل شکر گزار،(۲) زبان یادِ خدا کرنے والی اور(۳)بدن بلا پر صابر اور(۴) ایسی بی بی کہ اپنے نفس اور مالِ شوہر میں گناہ کی جویاں (۵) نہ ہو۔‘‘ (6) حدیث ۷: امام احمد و بزار و حاکم سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزیں آدمی کی نیک بختی سے ہیں اور تین چیزیں بد بختی سے۔ نیک بختی کی چیزوں میں نیک عورت اور اچھا مکان (یعنی وسیع یا اس کے پروسی اچھے ہوں ) اور اچھی سواری اور بدبختی کی چیزیں بد عورت، بُرا مکان، بُری سواری۔‘‘ (7) حدیث ۸: طبرانی و حاکم انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: جسے اللّٰہ مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ 1…’’سنن ابن ماجہ‘‘،أبواب النکاح،باب تزویج الحرائروالولود،الحدیث:۱۸۶۲،ج۲،ص۴۱۷۔ 2…’’کنزالعمال ‘‘،کتاب النکاح،الحدیث:۴۴۴۰۶،ج۱۶،ص۱۱۶۔ 3…’’صحیح مسلم‘‘،کتاب الرضاع،باب خیر متاع الدنیا۔۔۔إلخ،الحدیث: ۱۴۶۷،ص۷۷۴۔ 4…’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب النکاح،باب افضل النساء،الحدیث:۱۸۵۷،ص۴۱۴۔ 5…یعنی خیانت نہ کرتی ہو۔ 6…’’المعجم الکبیر‘‘،الحدیث:۱۱۲۷۵،ج۱۱،ص۱۰۹۔ 7… ’’المسند‘‘،للإمام أحمد بن حنبل،مسند أبی اسحاق سعد بن أبي وقاص،الحدیث:۱۴۴۵،ج۱،ص۳۵۷۔ (عزوجل) نے نیک بی بی نصیب کی اس کے نصفدین پر(1) اعانت(2) فرمائی تو نصف باقی میں اللّٰہ (عزوجل) سے ڈرے (تقویٰ و پرہیزگاری کرے)۔ (3) حدیث ۹: بخاری و مسلم و ا بوداود و نسائی و ابن ماجہ ابی ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (نکاح میں ان کا لحاظ ہوتا ہے)۔(۱) مال و (۲) حسب و(۳) جمال و (۴) دِین اور تو دِین والی کو ترجیح دے۔‘‘ (4) حدیث ۱۰: ترمذی و ابن حبان و حاکم ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخصوں کی اللّٰہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ (۱) اللّٰہ (عزوجل) کی راہ میں جہاد کرنے والا اور(۲)مکاتب کہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور(۳) پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا۔‘‘ (5) حدیث ۱۱: ابو داود و نسائی و حاکم معقل بن یسار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی ، یارسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم) (۱) میں نے عزت و منصب و مال والی ایک عورت پائی، مگر اُس کے بچہ نہیں ہوتا کیا میں اُس سے نکاح کر لوں ؟ حضور (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے منع فرمایا۔ پھر دوبارہ حاضر ہو کر عرض کی ، حضور (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے منع فرمایا، تیسری مرتبہ حاضر ہو کر پھر عرض کی ، ارشاد فرمایا: ’’ایسی عورت سے نکاح کرو، جو محبت کرنے والی، بچہ جننے والی ہو کہ میں تمھارے ساتھ اور اُمتوں پر کثرت ظاہر کرنے والا ہوں ۔‘‘ (6) حدیث ۱۲: ابن ابی حاتم ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، اُنھوں نے فرمایاکہ: اللّٰہ (عزوجل) نے جو تمھیں نکاح کا حکم فرمایا، تم اُسکی اطاعت کرو اُس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پورا فرمائے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللّٰہ (عزوجل) اُنھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘ (7) حدیث ۱۳: ابویعلی جابر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جب تم میں کوئی نکاح کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے
    1…یعنی آدھے دِین پر۔2…مدد۔3…’’المعجم الأوسط‘‘،الحدیث:۹۷۲،ج۱،ص۲۷۹۔ 4…’’صحیح البخاري‘‘،کتاب النکاح،باب الأکفاء في الدین،الحدیث:۵۰۹۰،ص۴۲۹۔ 5…’’جامع الترمذی‘‘،أبواب فضائل الجھاد،باب ماجاء فی المجاھد۔۔۔إلخ،الحدیث: ۱۶۶۱،ج۳،ص۲۴۷۔ 6…’’سنن أبي داود‘‘،کتاب النکاح،باب النھي عن تزویج من لم یلد من النساء الحدیث:۲۰۵۰،ج۲،ص۳۱۹۔ 7…’’کنزالعمال ‘‘،کتاب النکاح،الحدیث:۴۵۵۷۶،ج۱۶،ص۲۰۳۔ ہائے افسوس(۱) ابن آدم نے مجھ سے اپنا دو تہائی دین بچا لیا۔‘‘ (1) حدیث ۱۴: ایک روایت میں ہے، کہ فرماتے ہیں : ’’جو اتنا مال رکھتا ہے کہ نکاح کرلے، پھر نکاح نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ (2)

    مسائلِ فقہیہ(نکاح کا بیان)

    نکاح اُس عقدکو کہتے ہیں جو اِس لیے مقرر کیا گیا کہ مرد کو عورت سے جماع وغیرہ حلال ہو جائے۔ مسئلہ۱: خنثی مشکل یعنی جس میں مردوعورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اور یہ ثابت نہ ہو کہ مرد ہے یا عورت، اُس سے نہ مرد کا نکاح ہوسکتا ہے نہ عورت کا ۔ اگر کیا گیا تو باطل ہے، ہاں بعد نکاح اگر اُس کا عورت ہونا متعین ہو جائے اور نکاح مرد سے ہوا ہے تو صحیح ہے۔ یوہیں اگر عورت سے نکاح ہوا اور اُس کا مرد ہونا قرار پا گیا، خنثی مشکل کا نکاح خنثی مشکل سے بھی نہیں ہوسکتا مگر اُسی صورت میں کہ ایک کا مرد ہونا دوسرے کا عورت ہونا متحقق (3) ہو جائے۔ (4) (ردالمحتار) مسئلہ۲: مرد کا پری سے یا عورت کا جن سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ (5) (درمختار، ردالمحتار ) مسئلہ۳: یہ جو عوام میں مشہورہے کہ بن مانس آدمی کی شکل کا ایک جانور ہوتا ہے اگرواقعی ہے تو اُس سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا کہ وہ انسان نہیں جیسے پانی کا انسان (6) کہ دیکھنے سے بالکل انسان معلوم ہوتا ہے اور حقیقۃً وہ انسان نہیں ۔

    نکاح کے احکام

    مسئلہ۴: اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ عنین (نامرد) ہو اورمَہر و نفقہ(7) پر قدرت بھی ہو تو نکاح سُنّتِ مؤکدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اڑا رہنا گناہ ہے اور اگر حرام سے بچنا یا اتباعِ سُنّت و تعمیلِ حکم یا اولاد حاصل ہونامقصود
    1…’’کنزالعمال ‘‘،کتاب النکاح،الحدیث: ۴۴۴۴۷،ج۱۶،ص۱۱۸۔ 2…’’المصنف‘‘،لابن أبی شیبۃ،کتاب النکاح، فی التزویج من کان یامر بہ ویحث علیہ،ج۳،ص۲۷۰۔ 3… یعنی ثابت۔4…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۶۹۔ 5…’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۷۰۔ 6…پانی کاانسان یہ ایک قسم کی دریائی مخلوق ہے جس کی شکل انسان کے مشابہ ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پانی کے انسان کی دم بھی ہوتی ہے۔ (حیاۃالحیوان الکبری ،ج۱،ص۶۹)۔۔۔۔عِلْمِیہ 7…کپڑے ،کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات۔ ہے تو ثواب بھی پائے گا اور اگر محض لذّت یا قضاء ے شہوت(1) منظور ہو تو ثواب نہیں ۔ (2) (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ۵: شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو معاذ اللّٰہ اندیشۂ زنا ہے اور مہر ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب۔یوہیں جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اُٹھنے سے روک نہیں سکتا یا معاذ اللّٰہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا (3) تونکاح واجب ہے۔(4)(درمختار، ردالمحتار) مسئلہ۶: یہ یقین ہو کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہو جائے گا تو فرض ہے کہ نکاح کرے۔ (5) (درمختار) مسئلہ۷: اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تومکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔ (6) (درمختار) مسئلہ۸: نکاح اور اُس کے حقوق ادا کرنے میں اور اولاد کی تربیت میں مشغول رہنا، نوافل میں مشغولی سے بہتر ہے۔(7)(ردالمحتار)

    نکاح کے مستحبات

    مسئلہ۹: نکاح میں یہ امور مستحب ہیں : (۱)علانیہ ہونا۔(۲) نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا، کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث(8) میں وارد ہوا۔(۳) مسجد میں
    1… یعنی شہوت کو پورا کرنا۔ 2… ’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیرًا ما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ، ج۴، ص۷۳۔ 3…ہاتھ سے کام لیناپڑے گا:یعنی مشت زنی کرنی پڑے گی ۔اعلی حضرت مولاناشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمن ’’فتاوی رضویہ ج۲۲،ص۲۰۲‘‘ پرفرماتے ہیں :یہ فعل ناپاک حرام وناجائزہے حدیث شریف میں ہے ’’ناکح الید ملعون ‘‘ جلق لگانے والے (مشت زنی کرنے والے ) پراللّٰہ تعالی کی لعنت ہے(کشف الخفاء ،حرف النون،ج۲،ص۲۹۱)۔۔۔۔عِلْمِیہ 4…’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، ج۴، ص۷۲۔5… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۷۲۔ 6…المرجع السابق،ص۷۴۔7… ’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۶۶۔ 8…اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنْ شُرُوْرِاَنْفُسِنَاوَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدَُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ اَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ {يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۰۰۱}(پ۴،النساء:۱) = ہونا۔(۴) جمعہ کے دن۔(۵)گواہانِ عادل کے سامنے۔ (۶)عورت عمر، حسب (1) ، مال، عزّت میں مرد سے کم ہو اور (۷)چال چلن اور اخلاق و تقویٰ و جمال میں بیش (2)ہو۔ (3) (درمختار) حدیث میں ہے: ’’جو کسی عورت سے بوجہ اُسکی عزت کے نکاح کرے، اللّٰہ (عزوجل) اسکی ذلّت میں زیادتی (4) کرے گا اور جو کسی عورت سے اُس کے مال کے سبب نکاح کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اُسکی محتاجی ہی بڑھائے گا اور اُس کے حسب کے سبب نکاح کرے گا تو اُس کے کمینہ پن میں زیادتی فرمائے گا اور جو اس لیے نکاح کرے کہ اِدھر اُدھر نگاہ نہ اُٹھے اور پاکدامنی حاصل ہو یا صلۂ رحم کرے تو اللّٰہ عزوجل اس مرد کے لیے اُس عورت میں برکت دے گا اور عورت کے لیے مرد میں ۔‘‘ (5) (رواہ الطبرانی عن انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کذا فی الفتح)۔(6) مسئلہ ۱۰: جس ۸ سے نکاح کرنا ہو اُسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوالے اور عادت و اطوار و سلیقہ(7) وغیرہ کی خوب جانچ کر لے کہ آئندہ خرابیاں نہ پڑیں ۔ کوآری ۹ عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی اُمید ہو نکاح کرنا بہتر ہے۔ سِن رسیدہ(8) اوربدخلق(9) اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر۔ (10) (ردالمحتار) مسئلہ۱۱: عورت ۱۰ کو چاہیے کہ مرد دیندار، خوش خلق(11) ، مال دار، سخی سے نکاح کرے، فاسِق بدکار سے نہیں ۔ اور ۱۱ یہ بھی نہ چاہیے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی کا بوڑھے سے نکاح کر دے۔ (12) (ردالمحتار) یہ مستحباتِ نکاح بیان ہوئے، اگر اِس کے خلاف نکاح ہوگا جب بھی ہو جائے گا۔ مسئلہ۱۲: ایجاب و قبول یعنی مثلاً ایک کہے میں نے اپنے کو تیری زوجیت میں دیا۔ دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔ یہ نکاح کے رکن ہیں ۔ پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اور اُس کے جواب میں دوسرے کے الفاظ کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ
    ={ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۰۰۱۰۲ }(پ۴،آل عمران: ۱۰۲)۔ {يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًاۙ۰۰۷۰يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا۰۰۷۱}(پ۲۲،الأحزاب:۷۰۔۷۱) ۔۱۲ منہ1…خاندانی شرف۔2…یعنی زیادہ۔3… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۷۵۔ 4…یعنی اضافہ۔5…’’المعجم الاوسط‘‘،الحدیث ۲۳۴۲،ج۲،ص۱۸۔6… اس حدیث کو امام طبرانی علیہ رحمۃاللّٰہ الھادی نے حضرت سیِّدُناانس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا،فتح القدیر میں یوں ہی ہے۔۔۔۔عِلْمِیہ7…ہنر ،کام ،صلاحیت۔8…یعنی زیادہ عمروالی۔ 9…برے اخلاق والی۔10…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیرًاما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ،ج۴،ص۷۶، وغیرہ۔11…اچھے اخلاق والا۔12… ’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیرًاما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ،ج۴،ص۷۷۔ عورت کی طرف سے ایجاب ہو اور مرد کی طرف سے قبول بلکہ اِس کا اُلٹا بھی ہوسکتا ہے۔ (1) (درمختار، ردالمحتار)

    ایجاب وقبول کی صورتیں

    مسئلہ۱۳: ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ (2)ہونا ضروری ہے، مثلاً یوں کہے کہ میں نے اپنا یا اپنی لڑکی یا اپنی موکلہ(3) کا تجھ سے نکاح کیا یا اِن کو تیرے نکاح میں دیا، وہ کہے میں نے اپنے لیے یا اپنے بیٹے یا مؤکل(4) کے لیے قبول کیا یا ایک طرف سے امر کا صیغہ ہو (5)دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً یوں کہ تو مجھ سے اپنا نکاح کر دے یا تو میری عورت ہو جا، اُس نے کہا میں نے قبول کیا یا زوجیت میں دیا ہو جائے گا یا ایک طرف سے حال کا صیغہ ہو(6) دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً کہے تُو مجھ سے اپنا نکاح کرتی ہے اُس نے کہا کیا تو ہوگیا یا یوں کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں اُس نے کہا میں نے قبول کیا تو ہو جائے گا، اِن دونوں صورتوں میں پہلے شخص کو اس کی ضرورت نہیں کہ کہے میں نے قبول کیا۔ اور اگر کہا تُو نے اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دیا اُس نے کہا کر دیا یا کہا ہاں تو جب تک پہلا شخص یہ نہ کہے کہ میں نے قبول کیا نکاح نہ ہوگا اور ان لفظوں سے کہ نکاح کروں گا یا قبول کروں گا نکاح نہیں ہوسکتا۔ (7) (درمختار، عالمگیری وغیرہما) مسئلہ ۱۴: بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں ایک ہی لفظ سے نکاح ہو جائے، مثلاً چچا کی نابالغہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے اور ولی (8) یہی ہے تو دو گواہوں کے سامنے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اُس سے اپنا نکاح کیا یا لڑکا لڑکی دونوں نابالغ ہیں اورایک ہی شخص دونوں کا ولی ہے یا مرد وعورت دونوں نے ایک شخص کو وکیل کیا ۔ اُس ولی یا وکیل نے یہ کہا کہ میں نے فلاں کا فلاں کے ساتھ نکاح کر دیا ہوگیا۔ اِن سب صورتوں میں قبول کی کچھ حاجت نہیں ۔ (9) (جوہرۂ نیرہ)
    1…’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیراً ما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ،ج۴،ص۷۸۔ 2…یعنی ایسالفظ جس میں زمانہ ماضی کامعنی پایاجائے ۔ 3…وکیل بنانے والی۔4…وکیل بنانے والا۔5…یعنی ایسالفظ جس میں حکم کامعنی پایاجائے۔ 6…یعنی ایسالفظ جس میں زمانہ حال کامعنی پایاجائے۔ 7…’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۷۸۔و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح ومالاینعقد،ج۱، ص۲۷۰، وغیرہما۔ 8…سرپرست ،ولی وہ ہوتا ہے جس کا قول دوسرے پر نافذ ہودوسرا چاہے یا نہ چاہے۔9…’’الجوہرۃ النیرۃ‘‘،کتاب النکاح،الجزء الثاني، ص۱۔ مسئلہ ۱۵: دونوں موجود ہیں ایک نے ایک پرچہ پر لکھا میں نے تجھ سے نکاح کیا، دوسرے نے بھی لکھ کر دیا یا زبان سے کہا میں نے قبول کیا نکاح نہ ہوا اور اگر ایک موجود ہے دوسرا غائب، اُس غائب نے لکھ بھیجا اس موجود نے گواہوں کے سامنے پڑھایا کہا فلاں نے ایسا لکھا میں نے اپنا نکاح اُس سے کیا تو ہوگیا اور اگر اُس کا لکھا ہوا نہ سُنایا نہ بتایا فقط اتنا کہہ دیا کہ میں نے اُس سے اپنا نکاح کردیاتونہ ہوا ۔ ہاں اگر اُس میں امر کا لفظ تھا، مثلاً تُو مجھ سے نکاح کر تو گواہوں کو خط سُنانے یامضمون بتانے کی حاجت نہیں اور اگر اس موجود نے اُس کے جواب میں زبان سے کچھ نہ کہا بلکہ وہ الفاظ لکھ دیے جب بھی نہ ہوا۔ (1)(ردالمحتار) مسئلہ ۱۶: عورت نے مرد سے ایجاب کے الفاظ کہے مرد نے اُس کے جواب میں قبول کے لفظ نہ کہے اورمہر کے روپے دیدیے تونکاح نہ ہوا۔ (2) (ردالمحتار) مسئلہ ۱۷: یہ اقرار کہ یہ میری عورت ہے نکاح نہیں یعنی اگر پیشتر سے نکاح نہ ہوا تھا تو فقط یہ اقرار نکاح قرار نہ پائے گا، البتہ قاضی کے سامنے دونوں ایسا اقرار کریں تو وہ حکم دے دے گا کہ یہ میاں بی بی ہیں اور اگر گواہوں کے سامنے اقرارکیا، گواہوں نے کہا تم دونوں نے نکاح کیا، کہا ہاں تو ہوگیا۔ (3) (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۱۸: نکاح کی اضافت(4) کُل کی طرف ہو(5) یا ایسے عضو کی طرف جسے بول کر کُل مراد لیتے ہیں مثلاً سر و گردن تو اگر یہ کہا کہ نصف سے نکاح کیا نہ ہوا۔ (6) (درمختار وغیرہ)

    الفاظ نکاح

    مسئلہ ۱۹: الفاظِ نکاح دو قسم ہیں : ایک صریح (7)، یہ صرف دو لفظ ہیں ۔ نکاح و تزوّج، باقی کنایہ(8) ہیں ۔ الفاظ کنایہمیں اُن لفظوں سے نکاح ہوسکتا ہے
    1…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:التزوج بارسال کتاب،ج۴،ص۸۳۔ 2…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیرًا مایتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ، ج۴، ص۸۲ ۔ 3… ’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بارسال کتاب، ج۴، ص۸۴۔ 4… یعنی نسبت۔ 5…مثلاًیوں کہے ، میں نے تجھ سے نکاح کیا۔ 6… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴، ص۸۴، وغیرہ۔ 7 … یعنی ایسا لفظ جس سے نکاح مراد ہونا ظاہر ہو۔ 8…یعنی ایسا لفظ جس سے نکاح مراد ہوناتو ظاہر نہیں مگرقرینہ سے معنیٔ نکاح سمجھا جاتا ہو۔ جن سے خود شے ملک میں آجاتی ہے، مثلاً ہبہ، تملیک، صدقہ، عطیہ، بیع، شرا(1) مگر ان میں قرینہ کی ضرورت ہے کہ گواہ اُسے نکاح سمجھیں ۔ (2) (درمختار،عالمگیری) مسئلہ۲۰: ایک نے دوسرے سے کہا میں نے اپنی یہ لونڈی تجھے ہبہ کی تو اگر یہ پتا چلتا ہے کہ نکاح ہے، مثلاً گواہوں کو بلا کر اُن کے سامنے کہنا اورمہر کا ذکر وغیرہ تو یہ نکاح ہوگیا اور اگرقرینہ نہ ہو، مگر وہ کہتا ہے میں نے نکاح مرادلیا تھا اور جسے ہبہ کی وہ اس کی تصدیق کرتاہے جب بھی نکاح ہے اوراگر وہ تصدیق نہ کرے تو ہبہ قرار دیاجائے گا اور آزاد عورت کی نسبت یہ الفاظ کہے تو نکاح ہی ہے۔ قرینہ کی حاجت نہیں مگر جب ایسا قرینہ پایا جائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح نہیں تو نہیں ، مثلاً معاذاللّٰہ کسی عورت سے زنا کی درخواست کی ، اُس نے کہا میں نے اپنے کوتجھے ہبہ کر دیا، اس نے کہا قبول کیا تو نکاح نہ ہوا یا لڑکی کے باپ نے کہا یہ لڑکی خدمت کے لیے میں نے تجھے ہبہ کر دی اس نے قبول کیا تو یہ نکاح نہیں ، مگر جبکہ اس لفظ سے نکاح مراد لیا تو ہو جائے گا۔ (3) (عالمگیری، ردالمحتار) مسئلہ ۲۱: عورت سے کہا تو میری ہوگئی، اُس نے کہا ہاں یا میں تیری ہوگئی یا عورت سے کہا بعوض اتنے کے تو میری عورت ہو جا، اُس نے قبول کیا یاعورت نے مرد سے کہا میں نے تجھ سے اپنی شادی کی مرد نے قبول کیا یا مرد نے عورت سے کہا تُو نے اپنے کو میری عورت کیا، اُس نے کہا کیا تو ان سب صورتوں میں نکاح ہو جائے گا۔ (4) (عالمگیری) مسئلہ۲۲: جس عورت کو بائن طلاق دی ہے، اُس نے گواہوں کے سامنے کہا میں نے اپنے کو تیری طرف واپس کیا، مرد نے قبول کیا نکاح ہوگیا۔(5) (عالمگیری) اجنبی عورت اگریہ لفظ کہے تو نہ ہوگا۔ مسئلہ۲۳: کسی نے دوسرے سے کہا، اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دے، اُس نے کہا اسے اُٹھا لے جا یا تُو جہاں
    1…مثلاً عورت نے یوں کہا کہ میں نے اپنی ذات تمہیں ہبہ کردی یا میں نے تجھے اپنی ذات کا مالک بنا دیا،یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دے دی،یامرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپے کے عوض خرید لیا۔ 2 … ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بارسال کتاب، ج۴، ص۸۹۔۹۱۔و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح، الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد، ج۱، ص۲۷۰، ۲۷۱۔ 3 …’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:التزوج بارسال کتاب، ج۴، ص۹۱۔ و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح، الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد، ج۱، ص۲۷۰،۲۷۱۔ 4…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،المرجع السابق،ص۲۷۱۔ 5 … ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح، الباب الثاني فیماینعقد بہ النکاح وما لاینعقد، ج۱، ص۲۷۱۔ چاہے لے جا تو نکاح نہ ہوا۔ (1) (عالمگیری) مسئلہ ۲۴: ایک شخص نے منگنی کا پیغام کسی کے پاس بھیجا، ان پیغام لے جانے والوں نے وہاں جا کر کہا، تو نے اپنی لڑکی ہمیں دی، اُس نے کہا دی، نکاح نہ ہوا۔ (2) (عالمگیری) مسئلہ ۲۵: لڑکے کے باپ نے گواہوں سے کہا، میں نے اپنے لڑکے کا نکاح فلاں کی لڑکی کے ساتھ اتنے مہر پر کر دیا تم گواہ ہو جاؤ پھر لڑکی کے باپ سے کہا گیا، کیا ایسا نہیں ہے؟ اُس نے کہا ایسا ہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہ کہا تو بہتر یہ ہے کہ نکاح کی تجدید کی جائے۔ (3) (عالمگیری) مسئلہ ۲۶: لڑکے کے باپ نے لڑکی کے باپ کے پاس پیغام دیا، اُس نے کہا میں نے تو اس کا فلاں سے کر دیا ہے اس نے کہا نہیں تو اُس نے کہا اگر میں نے اُس سے نکاح نہ کیا ہو تو تیرے بیٹے سے کر دیا، اس نے کہا میں نے قبول کیا بعد کو معلوم ہوا کہ اُس لڑکی کا نکاح کسی سے نہیں ہوا تھا تو یہ نکاح صحیح ہوگیا۔ (4) (عالمگیری) مسئلہ ۲۷: عورت نے مرد سے کہا میں نے تجھ سے اپنا نکاح کیا اِس شرط پر کہ مجھے اختیار ہے جب چاہوں اپنے کو طلاق دے لوں ، مرد نے قبول کیا تو نکاح ہوگیا اور عورت کو اختیار رہا جب چاہے اپنے کو طلاق دے لے۔ (5) (عالمگیری) مسئلہ ۲۸: نکاح میں خیار رویت خیار عیب خیار شرط مطلقاً نہیں ، خواہ مرد کو خیار (6) ہو یا عورت کے لیے یا دونوں کے لیے۔ تین دِن کا خیار ہو یا کم یا زائد کا مثلاً اندھے، لنجھے(7)، اپاہج (8)نہ ہونے کی شرط لگائی یا یہ شرط کی کہ خوبصورت ہو اور اس کے خلاف نکلا یا مرد نے شرط لگائی کہ کوآری ہو اور ہے اِس کے خلاف تو نکاح ہو جائے گا اور شرط باطل۔ یوہیں عورت نے شرط لگائی کہ مرد شہری ہو نکلا دیہاتی تو اگر کفو ہے نکاح ہو جائے گا اورعورت کو کچھ اختیار نہیں یا اس شرط پرنکاح ہوا کہ باپ کو اختیار ہے تو نکاح ہوگیا اور اُسے اختیارنہیں ۔ (9) (عالمگیری) مسئلہ ۲۹: نکاح میں مہر کا ذکر ہو تو ایجاب پورا جب ہوگا کہ مہر بھی ذکر کرلے، مثلاً یہ کہتا تھا کہ فلاں عورت تیرے
    1…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد، ج۱، ص۲۷۲۔ 2 …’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد،ج۱، ص۲۷۲۔ 3…المرجع السابق۔ 4…المرجعالسابق، ص۲۷۳۔ 5…المرجع السابق،ص۲۷۳۔ 6…اختیار۔7… جس کے ہاتھ یا پاؤں شل (بے کار)ہوں ۔ 8… ہاتھ پاؤں سے معذور۔ 9…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح، الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد، ج۱، ص۲۷۳۔ نکاح میں دی بعوض ہزار روپے کے اور مہر کے ذکر سے پیشتر اُس نے کہا میں نے قبول کی ، نکاح نہ ہوا کہ ابھی ایجاب پورا نہ ہوا تھااورا گر مہر کا ذکر نہ ہوتا تو ہو جاتا۔ (1) (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۳۰: کسی نے لڑکی کے باپ سے کہا، میں تیرے پاس اس لیے آیا کہ تُو اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دے۔ اس نے کہا میں نے اس کو تیرے نکاح میں دیا نکاح ہوگیا، قبول کی بھی حاجت نہیں بلکہ اُسے اب یہ اختیار نہیں کہ نہ قبول کرے۔(2)(ردالمحتار) مسئلہ ۳۱: کسی نے کہا تو نے لڑکی مجھے دی، اُس نے کہا دی، اگرنکاح کی مجلس ہے تو نکاح ہے اورمنگنی کی ہے تو منگنی۔(3)(ردالمحتار) مسئلہ۳۲: عورت کو اپنی دُلہن یا بی بی کہہ کر پکارا، اُس نے جواب دیا تو اس سے نکاح نہیں ہوتا۔ (4) (ردالمحتار)

    نکاح کے شرائط

    نکاح کے لیے چند شرطیں ہیں : (۱) عاقل ہونا۔ مجنوں یاناسمجھ بچہ نے نکاح کیا تو منعقد ہی نہ ہوا۔ (۲) بلوغ۔ نابالغ اگر سمجھ وال ہے تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ (۳)گواہ ہونا۔ یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہوں ۔ گواہ آزاد، عاقل، بالغ ہوں اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سُنے۔ بچوں اور پاگلوں کی گواہی سے نکاح نہیں ہوسکتا، نہ غلام کی گواہی سے اگرچہ مدبّر یامکاتب ہو۔ مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت کے ساتھ ہے تو گواہوں کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے، لہٰذا مسلمان مرد و عورت کا نکاح کافر کی شہادت سے نہیں ہوسکتا اور اگر کتابیہ(5) سے مسلمان مرد کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ ذمّی کافر بھی ہو سکتے ہیں ، اگرچہ عورت کے مذہب کے خلاف گواہوں کا مذہب ہو، مثلاً عورت نصرانیہ (6)ہے اور گواہ یہودی یا بالعکس۔(7) یوہیں اگر کافر و کافرہ
    1…’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب: التزوج بارسال کتاب، ج۴، ص۸۵۔ 1 2…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، مطلب:کثیراً مایتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ، ج۴، ص۸۲۔ 3…المرجع السابق۔ 4…المرجع السابق۔ 5… یہودی یا عیسائی عورت۔ 6…عیسائی۔ 7…یعنی عورت یہودی ہے اورگواہ نصرانی ہیں ۔ کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ کافر بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ دوسرے مذہب کے ہوں ۔ مسئلہ۳۳: سمجھ وال بچے یا غلام کے سامنے نکاح ہوا اور مجلس نکاح میں وہ لوگ بھی تھے جو نکاح کے گواہ ہو سکتے ہیں پھر وہ بچہ بالغ ہو کر یا غلام آزاد ہونے کے بعد اُس نکاح کی گواہی دیں کہ ہمارے سامنے نکاح ہوا اور اُس وقت ہمارے سوا نکاح میں اورلوگ بھی موجود تھے، جن کی گواہی سے نکاح ہوا تو اُن کی گواہی مان لی جائے گی۔ (1) (ردالمحتار) مسئلہ۳۴: مسلمان کا نکاح ذمیّہ سے ہوا اور گواہ ذمّی تھے، اب اگر مسلمان نے نکاح سے انکار کر دیا تو ان کی گواہی سے نکاح ثابت نہ ہوگا۔ (2) (درمختار) مسئلہ۳۵: صرف عورتوں یا خنثے کی گواہی سے نکاح نہیں ہوسکتا، جب تک ان میں کے دو کے ساتھ ایک مرد نہ ہو۔ (3) (خانیہ) مسئلہ۳۶: سوتے ہوؤں کے سامنے ایجاب و قبول ہوا تو نکاح نہ ہوا۔ یوہیں اگر دونوں گواہ بہرے ہوں کہ اُنھوں نے الفاظِ نکاح نہ سُنے تو نکاح نہ ہوا۔ (4) (خانیہ) مسئلہ ۳۷: ایک گواہ سُنتا ہوا ہے اور ایک بہرا، بہرے نے نہیں سُنا اور اُس سُننے والے یا کسی اور نے چلّا کر اُس کے کان میں کہا نکاح نہ ہوا، جب تک دونوں گواہ ایک ساتھ عاقدین(5) سے نہ سُنیں ۔ (6) (خانیہ) مسئلہ ۳۸: ایک گواہ نے سُنا دوسرے نے نہیں پھر لفظ کا اعادہ کیا (7)، اب دوسرے نے سُنا پہلے نے نہیں تو نکاح نہ ہوا۔ (8)(خانیہ) مسئلہ ۳۹: گونگے گواہ نہیں ہو سکتے کہ جو گونگا ہوتا ہے بہرا بھی ہوتا ہے، ہاں اگر گونگا ہو اور بہرا نہ ہو تو
    1…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:الخصاف کبیر في العلم یجوز الاقتداء بہ، ج ۴، ص۹۹۔ 2…’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح، ج ۴، ص۱۰۱۔ 3…’’الفتاوی الخانیۃ‘‘،کتاب النکاح،فصل في شرائط النکاح، ج۱، ص۱۵۶۔ 4…المرجع السابق۔ 5… یعنی نکاح کے دونوں فریق مثلاً دولہا ودلہن کا وکیل یا دولہا اوردلہن۔ 6…’’الفتاوی الخانیۃ‘‘،کتاب النکاح،فصل في شرائط النکاح،ج۱،ص۱۵۶۔ 7…یعنی اس لفظ کودہرایا۔ 8…’’الفتاوی الخانیۃ‘‘،کتاب النکاح،فصل في شرائط النکاح،ج۱،ص۱۵۶۔ ہوسکتاہے۔ (1) (ہندیہ) مسئلہ ۴۰: عاقدین گونگے ہوں تونکاح اشارے سے ہوگا، لہٰذا اِس نکاح کا گواہ گونگا ہوسکتا ہے اور بہرا بھی۔(2)(ردالمحتار) مسئلہ۴۱: گواہ دوسرے ملک کے ہیں کہ یہاں کی زبان نہیں سمجھتے ،تو اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ نکاح ہو رہا ہے اور الفاظ بھی سُنے اور سمجھے یعنی وہ الفاظ زبان سے ادا کر سکتے ہیں اگرچہ اُن کے معنی نہیں سمجھتے نکاح ہوگیا۔ (3) (خانیہ، عالمگیری، ردالمحتار) مسئلہ ۴۲: نکاح کے گواہ فاسق ہوں یا اندھے یا اُن پر تہمت کی حد(4) لگائی گئی ہو تو ان کی گواہی سے نکاح منعقد ہو جائے گا، مگر عاقدین میں سے اگر کوئی انکار کر بیٹھے تو ان کی شہادت سے نکاح ثابت نہ ہوگا۔ (5) (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۴۳: عورت یا مرد یا دونوں کے بیٹے گواہ ہوئے نکاح ہو جائے گا مگر میاں بی بی میں سے اگر کسی نے نکاح سے انکار کر دیا ،تو ان لڑکوں کی گواہی اپنے باپ یا ماں کے حق میں مفید نہیں ، مثلاً مرد کے بیٹے گواہ تھے اور عورت نکاح سے انکار کرتی ہے، اب شوہر نے اپنے بیٹوں کو گواہی کے لیے پیش کیا ،تو ان کی گواہی اپنے باپ کے لیے نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ دونوں گواہ دونوں کے بیٹے ہوں یا ایک ایک کا، دوسرا دوسرے کا تو ان کی گواہی کسی کے لیے نہیں مانی جائے گی۔ (6) (درمختار وغیرہ) مسئلہ ۴۴: کسی نے اپنی بالغہ لڑکی کا نکاح اُس کی اجازت سے کر دیا اور اپنے بیٹوں کو گواہ بنایا، اب لڑکی کہتی ہے کہ میں نے اذن نہیں دیا اور اس کا باپ کہتا ہے دیا تو لڑکوں کی گواہی کہ اذن دیا تھا مقبول نہیں ۔ (7) (خانیہ) مسئلہ ۴۵: ایک شخص نے کسی سے کہا کہ میری نابالغہ لڑکی کا نکاح فلاں سے کر دے، اس نے ایک گواہ کے سامنے کر دیا تو اگر لڑکی کا باپ وقتِ نکاح موجود تھا تو نکاح ہوگیا کہ وہ دونوں گواہ ہو جائیں گے اور باپ عاقد(8)اور موجود نہ تھا
    1… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۸۔ 2…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:الخصاف کبیر في العلم۔۔۔إلخ،ج ۴، ص۹۹۔ 3 … ’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب: الخصاف کبیر في العلم۔۔۔ إلخ، ج ۴، ص۱۰۰۔ و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۸۔ 4… تہمتِ زنا کی شرعی سزا۔ 5… ’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:الخصاف کبیر في العلم۔۔۔إلخ،ج ۴،ص۱۰۰۔ 6…’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج ۴،ص۱۰۱،وغیرہ۔ 7…’’الفتاوی الخانیۃ‘‘،کتاب النکاح،فصل في شرائط النکاح،ج۱،ص۱۸۶۔8… نکاح کرنے والا،عقد کرنے والا۔ تونہ ہوا۔ یوہیں اگر بالغہ کا نکاح اُس کی اجازت سے باپ نے ایک شخص کے سامنے پڑھایا، اگر لڑکی وقت عقد (1) موجود تھی ہوگیا ورنہ نہیں ۔ یوہیں اگر عورت نے کسی کو اپنے نکاح کا وکیل کیا، اُس نے ایک شخص کے سامنے پڑھا دیا تو اگر موکلہ موجود ہے ہوگیا ورنہ نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ موکل اگر بوقتِ عقد موجود ہے تو اگرچہ وکیل عقد کر رہا ہے مگر موکل عاقد قرار پائے گا اوروکیل گواہ مگر یہ ضرور ہے کہ گواہی دیتے وقت اگر وکیل نے کہا، میں نے پڑھایا ہے تو شہادت نا مقبول ہے کہ یہ خود اپنے فعل کی شہادت ہوئی۔(2)(درمختار وغیرہ) مسئلہ ۴۶: مولیٰ (3)نے اپنی باندی (4) یا غلام کا ایک شخص کے سامنے نکاح کیا ،تو اگرچہ وہ موجود ہو نکاح نہ ہوا اور اگر اُسے نکاح کی اجازت دے دی پھر اُس کی موجودگی میں ایک شخص کے سامنے نکاح کیا تو ہو جائے گا۔ (5) (درمختار) مسئلہ ۴۷: گواہوں کا ایجاب و قبول کے وقت ہونا شرط ہے، فلہذا اگر نکاح اجازت پر موقوف ہے اور ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہوئے اور اجازت کے وقت نہ تھے ہوگیا اور اس کا عکس ہوا تو نہیں ۔ (6) (عالمگیری) مسئلہ ۴۸: گواہ اُسی کو نہیں کہتے جو دو شخص مجلسِ عقد میں مقرر کر لیے جاتے ہیں ، بلکہ وہ تمام حاضرین گواہ ہیں جنھوں نے ایجاب و قبول سُنا اگر قابلِ شہادت(7) ہوں ۔ مسئلہ ۴۹: ایک گھر میں نکاح ہوا اور یہاں گواہ نہیں ، دوسرے مکان میں کچھ لوگ ہیں جن کو اُنھوں نے گواہ نہیں بنایا مگر وہ وہاں سے سُن رہے ہیں ، اگر وہ لوگ اُنھیں دیکھ بھی رہے ہوں تو اُن کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں ۔ (8) (عالمگیری) مسئلہ ۵۰: عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیں یعنی اُس وقت اگر گواہ نہ بھی ہوں اور نکاح پڑھاتے وقت ہوں تو نکاح ہوگیا، البتہ اذن کے لیے گواہوں کی یوں حاجت ہے کہ اگر اُس نے انکار کر دیا اوریہ کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھا تو اب گواہوں سے اس کا اذن دینا ثابت ہو جائے گا۔ (9) (عالمگیری، ردالمحتار وغیرہما)
    1… یعنی نکاح کے وقت۔ 2… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴، ص۱۰۲، وغیرہ۔ 3…آقا،مالک۔ 4…لونڈی۔ 5… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴، ص۱۰۳۔ 6… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۹۔ 7…گواہی دینے کے اہل۔8…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۸۔9…المرجع السابق،ص۲۶۹۔ و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:ہل ینعقد النکاح بالالفاظ المصحفۃ۔۔۔إلخ،ج۴،ص۹۸،وغیرہما۔  

    نکاح کاوکیل خود نکاح پڑھائے دوسرے سے نہ پڑھوائے

    مسئلہ۵۱: یہ جو تمام ہندوستان میں عام طور پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن (1)لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں ، وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا دیجیے۔ یہ طریقہ محض غلط ہے۔ وکیل کو یہ اختیارنہیں کہ اُس کام کے لیے دوسرے کو وکیل بنا دے، اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا اجازت پر موقوف ہے، اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہیے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اُس کے ولی کا وکیل بنے (2) خواہ یہ خود اُس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے لیے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کو تُو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں ۔

    منکوحہ کی تعیین

    مسئلہ ۵۲: یہ امر بھی ضروری ہے کہ منکوحہ گواہوں کو معلوم ہو جائے یعنی یہ کہ فلاں عورت سے نکاح ہوتا ہے، اس کے دو۲ طریقے ہیں ۔ ایکی ہ کہ اگر وہ مجلسِ عقد میں موجود ہے توا س کی طرف نکاح پڑھانے والا اشارہ کر کے کہے کہ میں نے اِس کو تیرے نکاح میں دیا اگرچہ عورت کے مونھ پر نقاب پڑا ہو،(3) بس اشارہ کافی ہے اور اس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی بھی ہو جائے تو کچھ حرج نہیں ، کہ اشارہ کے بعد اب کسی نام وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اشارے کی تعیین کے مقابل کوئی تعیین نہیں ۔ دوسری صورت معلوم کرنے کی یہ ہے کہ عورت اور اُس کے باپ اور دادا کے نام لیے جائیں کہ فلانہ بنت فلاں بن فلاں اور اگر صرف اُسی کے نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہوا تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں پھر بھی احتیاط اِس میں ہے کہ اُن کے نام بھی لیے جائیں اور اس کی اصلاً ضرورت نہیں کہ اُسے پہچانتے ہوں بلکہ یہ جاننا کافی ہے کہ فلانی اور فلاں کی بیٹی فلاں کی پوتی ہے اور اِس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی ہوئی تو نکاح نہ ہوا اور ہماری غرض نام لینے سے یہ نہیں کہ ضرور اُس کا نام ہی لیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ تعیین ہو جائے، خواہ نام
    1… یعنی اجازت۔2… یا پھر عورت کا وکیل اس بات کی بھی اجازت حاصل کرے کہ وہ نکاح پڑھانے کے لیے دوسرے کو وکیل بناسکتا ہے۔ 3… اعلیٰ حضرت، امامِ احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ جلد11صفحہ112پر فرماتے ہیں : احوط یہ ہے کہ وہ چہرہ کھلا رکھے۔۔۔۔عِلْمِیہ  کے ذریعہ سے یا یوں کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کی لڑکی اور اگر اُس کی چند لڑکیاں ہوں تو بڑی یا منجھلی(1) یا سنجھلی (2)یا چھوٹی غرض معین ہو جانا ضرور ہے اور چونکہ ہندوستان میں عورتوں کا نام مجمع میں ذکر کرنا معیوب ہے(3)، لہٰذا یہی پچھلا طریقہ یہاں کے حال کے مناسب ہے۔ (4) (ردالمحتار وغیرہ) تنبیہ: بعض نکاح خواں کو دیکھا گیا ہے کہ رواج کی وجہ سے نام نہیں لیتے اور نام لینے کو ضروری بھی سمجھتے ہیں ، لہٰذا دولہا کے کان میں چپکے سے لڑکی کا نام ذکر کر دیتے ہیں پھر اُن لفظوں سے ایجاب کرتے ہیں کہ فلاں کی لڑکی جس کا نام تجھے معلوم ہے، میں نے اپنی وکالت سے تیرے نکاح میں دی۔ اِس صورت میں اگر اُس کی اور لڑکیاں بھی ہیں تو گواہوں کے سامنے تعیین نہ ہوئی، یہاں تک کہ اگر یوں کہا کہ میں نے اپنی موکلہ تیرے نکاح میں دی یا جس عورت نے اپنا اختیار مجھے دے دیا ہے، اُسے تیرے نکاح میں دیا تو فتویٰ اس پر ہے کہ نکاح نہ ہوا۔ مسئلہ ۵۳: ایک شخص کی دو لڑکیاں ہیں اور نکاح پڑھانے والے نے کہا کہ فلاں کی لڑکی تیرے نکاح میں دی ،تو اُن میں اگر ایک کا نکاح ہو چکا ہے تو ہوگیا کہ وہ جو باقی ہے وہی مراد ہے۔ (5) (ردالمحتار) مسئلہ ۵۴: وکیل نے موکلہ کے باپ کے نام میں غلطی کی اور موکلہ کی طرف اشارہ بھی نہ ہو تو نکاح نہیں ہوا۔ یوہیں اگر لڑکی کے نام میں غلطی کرے جب بھی نہ ہوا۔ (6) (درمختار) مسئلہ ۵۵: کسی کی دو لڑکیاں ہیں ، بڑی کا نکاح کر نا چاہتا ہے اور نام لے دیا چھوٹی کا تو چھوٹی کا نکاح ہوا اور اگر کہا بڑی لڑکی جس کا نام یہ ہے اور نام لیا چھوٹی کا تو کسی کا نہ ہوا۔ (7) (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۵۶: لڑکی کے باپ نے لڑکے کے باپ سے صرف اتنے لفظ کہے، کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح کیا، لڑکے کے باپ نے کہا میں نے قبول کیا تو یہ نکاح لڑکے کے باپ سے ہوا اگرچہ پیشتر (8)سے خود لڑکے کی نسبت(9) وغیرہ ہو چکی ہو اور اگر یوں کہا، میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے لڑکے سے کیا، اُس نے کہا، میں نے قبول کیا تو اب لڑکے سے ہوا، اگرچہ اُس نے یہ نہ
    1… یعنی درمیانی ۔ 2… یعنی تیسری ۔ 3… یعنی بُرا سمجھا جاتا ہے۔ 4… ’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:الخصاف کبیر في العلم۔۔۔إلخ،ج ۴،ص۹۸،۱۰۴،وغیرہ۔5…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:التزوج بارسال کتاب،ج۴،ص۸۷۔ 6…’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۱۰۴۔ 7… ’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:في عطف الخاص علی العام،ج ۴،ص۱۰۴۔ 8…پہلے۔9…یعنی منگنی۔ کہا کہ میں نے اپنے لڑکے کے لیے قبول کی اور اگر پہلی صورت میں یہ کہتا کہ میں نے اپنے لڑکے کے لیے قبول کی تو لڑکے ہی کا ہوتا۔(1)(ردالمحتار) مسئلہ۵۷: لڑکے کے باپ نے کہا تو اپنی لڑکی کا نکاح میرے لڑکے سے کر دے، اُس نے کہا میں نے تیرے نکاح میں دی، اس نے کہا میں نے قبول کی تو اسی کا نکاح ہوا، اس کے لڑکے کا نہ ہوا اور ایسا بھی اب نہیں ہوسکتا کہ باپ طلاق دے کر لڑکے سے نکاح کر دے کہ وہ تو ہمیشہ کے لیے لڑکے پر حرام ہوگئی۔ (2) (ردالمحتار) مسئلہ۵۸: عورت سے اجازت لیں تو اس میں بھی زوج (3) اور اُس کے باپ، دادا کے نام ذکر کر دیں کہ جہالت(4) باقی نہ رہے۔ مسئلہ۵۹: عورت نے اذن دیا اگر اُس کو دیکھ رہا ہے اور پہچانتا ہے تو اُس کے اذن کا گواہ ہوسکتاہے۔ یوہیں اگرمکان کے اندر سے آواز آئی اور اس گھر میں وہ تنہا ہے تو بھی شہادت دے سکتا ہے اور اگر تنہا نہیں اور اذن دینے کی آواز آئی تواگربعد میں عورت نے کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھاتو یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ اُسی نے اذن دیا تھا مگر واقعی اگر اُس نے اذن دے دیا تھا جب تو پوری طرح سے نکاح ہوگیا، ورنہ نکاح فضولی ہوگا کہ اُس کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ (5)(ردالمحتار وغیرہ) سُناگیا ہے کہ بعض لڑکیاں اذن دیتے وقت کچھ نہیں بولتیں ، دوسری عورتیں ہوں کر دیا کرتی ہیں یہ نہیں چاہیے۔

    ایجاب وقبول کا ایک مجلس میں ہونا

    (4) ایجاب و قبول دونوں کا ایک مجلس میں ہونا۔ تو اگر دونوں ایک مجلس میں موجود تھے ایک نے ایجاب کیا، دوسرا قبول سے پہلے اُٹھ کھڑا ہو یا کوئی ایسا کام شروع کر دیا، جس سے مجلس بدل جاتی ہے(6)تو ایجاب باطل ہوگیا، اب قبول کرنا بیکار ہے پھر سے ہونا چاہیے۔ (7) (عالمگیری)
    1…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب في عطف الخاص علی العام،ج ۴،ص۱۰۴۔ 2…المرجع السابق،ص۱۰۵۔ 3…خاوند۔ 4…یعنی لاعلمی۔5…’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:الخصاف کبیر في العلم۔۔۔إلخ،ج۴،ص۹۸،وغیرہ۔ 6…مثلاًتین لقمے کھانے ،تین گھونٹ پینے ،تین کلمے بولنے ،تین قدم میدان میں چلنے ،نکاح یاخرید وفروخت کرنے ،لیٹ کرسوجانے سے مجلس بدل جاتی ہے۔7…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۹۔   مسئلہ۶۰: مر د نے کہا میں نے فلانی سے نکاح کیا اور وہ وہاں موجود نہ تھی، اُسے خبر پہنچی تو کہا میں نے قبول کیا یا عورت نے کہا میں نے اپنے کو فلاں کی زوجیت میں دیا اور وہ غائب تھا، جب خبر پہنچی تو کہا میں نے قبول کیا تو دونوں صورتوں میں نکاح نہ ہوا۔ اگرچہ جن گواہوں کے سامنے ایجاب ہوا، اُنھیں کے سامنے قبول بھی ہوا ہو۔ (1) (عالمگیری) مسئلہ۱ ۶: اگر ایجاب کے الفاظ خط میں لکھ کر بھیجے اور جس مجلس میں خط اُس کے پاس پہنچا، اُس میں قبول نہ کیا بلکہ دوسری مجلس میں گواہوں کو بُلا کر قبول کیا تو ہو جائے گا جب کہ وہ شرطیں پائی جائیں جو اوپر مذکور ہوئیں ، جس کے ہاتھ خط بھیجا مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غیر آزاد، بالغ ہو یا نابالغ، صالح ہو یا فاسق۔ (2) (عالمگیری) مسئلہ ۶۲: کسی کی معرفت ایجاب کے الفاظ کہلا کر بھیجے، اس پیغام پہنچانے والے نے جس مجلس میں پیغام پہنچایا، اس میں قبول نہ کیا پھر دوسری مجلس میں قاصد نے تقاضا کیا اب قبول کیا تو نکاح نہ ہوا۔ (3) (ردالمحتار) مسئلہ۶۳: چلتے ہوئے یا جانور پر سوار جارہے تھے اور ایجاب و قبول ہوا نکاح نہ ہوا۔ کشتی پر جا رہے تھے اور اس حالت میں ہوا تو ہوگیا۔ (4) (ردالمحتار وغیرہ) مسئلہ ۶۴: ایجاب کے بعد فوراً قبول کرنا شرط نہیں جب کہ مجلس نہ بدلی ہو، لہٰذا اگر نکاح پڑھانے والے نے ایجاب کے الفاظ کہے اور دولہا نے سکوت کیا پھر کسی کے کہنے پر قبول کیا تو ہوگیا۔ (5) (ردالمحتار وغیرہ)

    ایجاب وقبول میں مخالفت نہ ہو

    (5) قبول ایجاب کے مخالف نہ ہو، مثلاً اس نے کہا ہزار روپے مہر پر تیرے نکاح میں دی، اُس نے کہا نکاح تو قبول کیا اور مہر قبول نہیں تو نکاح نہ ہوا۔ اور اگر نکاح قبول کیا اور مہر کی نسبت کچھ نہ کہا تو ہزار پر نکاح ہوگیا۔ (6) (عالمگیری، ردالمحتار) مسئلہ ۶۵: اگر کہا ہزار پر تیرے نکاح میں دی، اُس نے کہا دو ہزار پر میں نے قبول کی یا مرد نے عورت سے کہا ہزار
    1… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۹۔ 2…المرجع السابق۔ 3… ’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بإرسال کتاب، ج۴، ص۸۶۔ 4… المرجع السابق، وغیرہ۔ 5… المرجع السابق،وغیرہ۔ 6… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱،ص۲۶۹۔ و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بإرسال کتاب، ج۴، ص۸۷۔   روپے مہر پر میں نے تجھ سے نکاح کیا، عورت نے کہا پانسو مہر پر میں نے قبول کیا تو نکاح ہوگیا مگر پہلی صورت میں اگر عورت نے بھی اُسی مجلس میں دو ۲ ہزار قبول کیے تو مَہر دو ہزار ورنہ ایک ہزار اور دوسری صورت میں مطلقاً پانسو مہر ہے۔ اگر عورت نے ہزار کو کہا، مرد نے پانسو پر قبول کیا تو ظاہر یہ ہے کہ نہیں ہوا، اِس لیے کہ ایجاب کے مخالف ہے۔ (1) (عالمگیری، ردالمحتار) مسئلہ ۶۶: غلام نے بغیر اجازتِ مولیٰ اپنا نکاح کسی عورت سے کیا اور مہر خود اپنے کو کیا اُس کے مولیٰ نے نکاح تو جائز کیا مگر غلام کے مَہر میں ہونے کی اجازت نہ دی تو نکاح ہوگیا اور مہر کی نسبت یہ حکم ہے کہ مہرمثل و قیمت غلام دونوں میں جو کم ہے وہ مَہر ہے غلام بیچ کر مہر ادا کیا جائے۔ (2) (عالمگیری) (6) لڑکی بالغہ ہے تو اُس کا راضی ہونا شرط ہے،(3) ولی کو یہ اختیارنہیں کہ بغیر اُس کی رضا کے نکاح کر دے۔ (7) کسی زمانۂ آئندہ کی طرف نسبت نہ کی ہو، نہ کسی شرط نامعلوم پر معلق کیا ہو، مثلاً میں نے تجھ سے آئندہ روز میں نکاح کیا یا میں نے نکاح کیا اگر زید آئے ان صورتوں میں نکاح نہ ہوا۔ مسئلہ ۶۷: جب کہ صریح الفاظ (4)نکاح میں استعمال کیے جائیں تو عاقدین اور گواہوں کا ان کے معنی جاننا شرط نہیں ۔(5)(درمختار) (8) نکاح کی اضافت(6) کُل کی طرف ہو یا اُن اعضا کی طرف جن کو بول کرکُل مراد لیتے ہیں تو اگر یہ کہا، فلاں کے ہاتھ یاپاؤں یا نصف سے نکاح کیا صحیح نہ ہوا۔ (7) (عالمگیری)
    1…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۹۔ و ’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بإرسال کتاب، ج۴، ص۸۷۔2 … ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱،ص۲۶۹۔ 3… اعلیٰ حضرت، امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ جلد11 صفحہ 203پر فرماتے ہیں :یعنی اس کی اجازت قول ،فعل صریح یا دلالت سے ہو جاتی ہے اگرچہ بطور جبر ہو۔۔۔۔ عِلْمِیہ4… صریح صرف دو لفظ ہیں (۱) نکاح(۲) تزوج۔مثلاً عربی میں کہا: زَوَّجْتُ نَفْسِیْ یا اردو میں کہا:میں نے اپنے کو تیری زوجیت یا تیرے نکاح میں دیا۔۔۔۔عِلْمِیہ 5 … ’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۸۸۔6…نکاح کی نسبت۔7…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۹۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن