30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ للہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِ اللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ’’عالِم بنانے والی کتاب‘‘ کے 17 حروف کی نسبت سے ’’بہارشریعت‘‘ کو پڑھنے کی 17 نیّتیں از: شیخ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وَسَلَّم:نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ۔ ترجمہ: ’’مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہترہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني، الحدیث: ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵) دو مدنی پھول: (۱) بغیر اچھی نیت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ (۲) جتنی اچھی نیتیں زیادہ، اتنا ثواب بھی زیادہ۔ (1) اِخلاص کے ساتھ مسائل سیکھ کر رِضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا حقدار بنوں گا۔ (2) حتَّی الوَسعاس کا با وُضُو اور (3) قبلہ رُو مطالَعہ کروں گا۔ (4) اِس کے مطالعے کے ذریعے فرض علوم سیکھوں گا ۔ (5)اپنا وضو ، غسل ،نماز وغیرہ درست کروں گا ۔ (6) جو مسئلہ سمجھ میں نہیں آئے گا اس کے لیےآیتِ کریمہ( فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۰۰۴۳)(النحل: ۴۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے علماء سے رجوع کروں گا۔ (7) (اپنے ذاتی نسخے پر) عند الضرورت خاص خاص مقامات پر انڈر لائن کروں گا۔ (8) (ذاتی نسخے کے) یاد داشت والے صفحہ پر ضروری نکات لکھوں گا۔ (9) جس مسئلے میں دشواری ہو گی اُس کو بار بار پڑھوں گا۔ (10)زندگی بھر عمل کرتا رہوں گا۔ (11) جو نہیں جانتے انھیں سکھاؤں گا ۔ (12)جو علم میں برابر ہو گا اس سے مسائل میں تکرار کروں گا۔ (13) یہ پڑھ کر عُلمائے حقّہ سے نہیں اُلجھوں گا۔ (14) دوسروں کو یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔ (15) (کم از کم ۱۲ عدد یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا۔ (16) اس کتاب کے مُطالَعہ کا ثواب ساری امّت کو اِیصال کروں گا۔ (17) کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو مطلع کروں گا۔ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت وبے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب ۲ ربیع الغوث ۱۴۲۷ھ بسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِالمد ینۃ العلمیۃ
از:شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ الحمد للہ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمتبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علم شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدِّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جودعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللہ تعالٰی پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت (۲)شعبۂ تراجمِ کتب (۳)شعبۂ درسی کُتُب (۴)شعبۂ اصلاحی کُتُب (۵)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کیاوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰحضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت،عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسعَ سَہْل اُسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عزوجل ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضرا شہادت،جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ پہلے اسے پڑھ لیجئے ! الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ! صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُ اللہ القوی کے تاریخ ساز کارنامے اور فقہ حنفی کے عظیم علمی خزانے’’بہار شریعت‘‘کی تخریجِ جمیل وتسہیلِ قلیل اور حواشی کا آغاز ۱۴۲۵ھ میں دعوتِ اسلامی کی علمی وتحقیقی مجلس المدینۃ العلمیۃ کے علمائے کرام نے شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطاؔر قادری مدظلہ العالی کی خواہش پرکیا تھا ۔ یہ کام عظیم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل ترین بھی تھا مگر ’’مُشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں ‘‘کے مصداق بہارِ شریعت کے مکمل 20 حصے 3جلدوں کی صورت میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رحمت سے تقریباً7سال میں بحسن وخُوبی مکمل ہوئے۔1360صفحات پر مشتمل جلداول اور1304صفحات پر مشتمل جلد دوم زیورِ طبع سے آراستہ ہوکراہلِ محبت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کرچکی ہیں ۔پاک وہند کے بہت سے مفتیانِ عظام وعلمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ السّلام نے حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ بعض نے توتحریری تأثرات سے بھی نوازا جن میں سے کچھ جلداول اور جلد دوم کے پیش لفظ میں شائع بھی ہوچکے ہیں ، مزید تأثرات کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے،چنانچِہ (1) تلمیذشارحِ بخاری ،اُستاذالعلماء ،شیخ الحدیث حضرت مولانااِفتخار احمد قادری مصباحی دامت برکاتہم العالیہ(شیخ الحدیث دارالعلوم قادریہ غریب نواز،لیڈی اسمتھ ساؤتھ افریقہ) لکھتے ہیں :عظیم عالمی تحریک دعوتِ اسلامی کے لیے یہ بڑا شرف ہے کہ ذمہ دارانہ تصحیح کے بعد اس نے اس(یعنی بہارِ شریعت) کی اشاعت کا حق ادا کیا۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بہارِ شریعت کے اب تک جتنے ایڈیشن طبع ہوئے ہیں ان میں سب سے عمدہ ، وقیع اور ممتاز دعوتِ اسلامی کا شائع کردہ یہ ایڈیشن ہے۔رب تعالیٰ دعوت ِ اسلامی کو مزید فروغ و استحکام عطا فرمائے اور اس کی خدمات کو عام سے عام تر فرمائے ، اِس کے بانی وامیر(یعنی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی) اور دیگر ارکان اور دُعاۃ و مبلغین کو مزید جہاد کی توفیق ارزانی فرمائے اور ان کی مساعی و جہود کو مقبول فرمائے اور سعادتِ دارین سے بہراو ر فرمائے ۔ (2) شہیدِ اہلسنّت حضرتِ علامہ ابوطفیل عبدالعظیم خان قادری قدس سرہ(جامعہ جُنیدیہ غفوریہ پشاور خیبر پختون خواہ) لکھتے ہیں :بلامبالغہ وتردد مجھے بہارِ شریعت کے نسخوں کی ورق گردانی سے دلی سکون اور اطمینان حاصل ہوگیا ، اراکینِ دعوتِ اسلامی بڑے ہی مخلص اور دیانتدار ہیں ، مجلسِ المدینۃ العلمیۃ کا قیام ایک نہایت ہی مفید اقدام ہے جس سے علماء کرام کو بھی احسن طریقے سے اپنے ساتھ لے کر چلنا سہل ہوجائے گا ۔ (3)یادگارِ اسلاف مفتی فتح محمد باروزئی دامت برکاتہم العالیہ(مہتمم مدرسہ جامعہ فیض العلوم نقشبندیہ سبی ،بلوچستان)لکھتے ہیں :بہار شریعت کا حاشیہ انتہائی نفع بخش اور مفید ہے ، بہر حال سب کچھ امیر دعوت اسلامی(حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطا ر قادری) مدظلہ العالی کے مسلک حقہ اہل سنت سے صادق وابستگی اور دین متین کی ترقی کے جذبے کی بناء پر کیا جارہا ہے ۔(4 )استاذ العلماء حضرتِ مولانا ابوالبیان محمد صابر امجدی دامت برکاتہم العالیہ(مدرس دارالعلوم امجدیہ عالمگیرروڈباب المدینہ کراچی)لکھتے ہیں : میں نے چیدہ چیدہ مقامات سے (بہار شریعت کا)ضرور مطالعہ کیا، ماشاء اللہ بہت خوب پایا ۔( 5) تلمیذِ محدث اعظم پاکستان حضرتِ مولانامحمد رفیق قادری دامت برکاتہم العالیہ(خطیب مرکزی جامع مسجد عالمگیری مٹھیاں ،کھاریاں ،ضلع گجرات) لکھتے ہیں : ’’مجلس المدینۃ العلمیہ‘‘ کا بہارِ شریعت کی تخریج و تسہیل ، جدالممتار علٰی ردالمحتار کی ازسر نو تدوین، تخریج، تحقیق وغیرہ کا کام قابلِ صد تحسین ہے۔ دعوتِ اسلامی نے بہت قلیل عرصے میں اتناعظیم کام کر دکھایا ہے ۔ یہ سب مجلس المدینۃ العلمیہ کے خلوص، انتھک محنت، دین سے لگن اور اتفاق و اتحاد کا نتیجہ اور امیرِ اہلسنّت حضرتِ علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کا فیض ہے۔ (6) استاذ العلماء حضرتِ مولانامفتی محمد ولایت اقبال نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ (مہتمم جامعہ حنفیہ ،خطیب مرکزی جامع مسجدمدینہ ساہیوال،پنجاب)لکھتے ہیں : از حد خوشی ہوئی ہے کہ ہماری عالمگیر مذہبی تحریک دعوتِ اسلامی نے تبلیغ کے محاذ کے علاوہ تحقیقی و تدقیق ، تخریج و استنباط کا کام بھی بڑے منظم و مربوط انداز میں شروع کررکھا ہے۔(7)مفتی محمد وزیرالقادری دامت برکاتہم العالیہ (مہتمم اعلی مدرسہ عربیہ اسلامیہ غوثیہ سلطانیہ ڈھاڈر ، سبی ،بلوچستان)لکھتے ہیں : دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ اور تحقیقی و علمی شعبے المدینۃا لعلمیہ کی طرف سے’’ بہارِ شریعت ‘‘ کی اشاعت بمع تحریج و تسہیل عظیم کارنامہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ دعوت اسلامی کے بانی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطا ر قادری اور ان کے تحت چلنے والی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کو ہر لمحہ ترقی عطا فرمائے اور اسکے اشاعتی ادارے المدینۃالعلمیہ کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔ (8)مؤلف کتب کثیرہ حضرت مولاناسید صابر حسین شاہ بخاری قادری دامت برکاتہم العالیہ(ادارہ فروغ افکارِ رضا ، امام اہل سنت لائبریری برہان شریف ضلع اٹک )لکھتے ہیں :بہارِ شریعت کی تخریج وقت کی اہم ضرورت تھی جس کو المدینۃ العلمیہ پورا کر رہی ہے۔(9)شہزادہ ٔخلیفۂ محدث اعظم پاکستان حضرت ِ مولانا مفتی محمد محمود احمد دامت برکاتہم العالیہ(مہتمم جامعہ اسلامیہ جی ٹی روڈ تھیلہ کھار یاں گجرات پاکستان)لکھتے ہیں : دعوتِ اسلامی کے ذیلی ادارہ مکتبہ المدینہ کی طرف سے دو جلدوں میں شائع شدہ ، صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت ِ علامہ مولٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ الباری کی گرانقدر علمی تالیف ، فقہ اسلامی کے انسائیکلوپیڈیا ’’بہارِ شریعت‘‘ کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اور آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ۔مجلس ’’المدینۃ العلمیہ‘‘ کے باصلاحیت اور ذِی استعداد قابلِ عزت و تکریم علمائے کرام شَکَّرَ اللہ سَعْیَھُمنے جس محنت و جانفشانی سے یہ علمی کارنامہ سر انجام دیا ہے اس پر وہ جملہ عوام و خواصِ اہلسنّت کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں ، کیونکہ بہارِ شریعت کی تسہیل و تخریج کرکے انہوں نے عوام اہلسنّت پر احسانِ عظیم فرمایا ہے، جزاھم اللہ تعالٰی احسن الجزاء فی الدین والدنیا والاخرۃ۔ اللہ تعالٰی تمام اہلسنّت بالخصوص فخرملت پیر طریقت حضرتِ مولانامحمد الیاس قادری رضوی حفظہ اللہ اور ان کے خدام کو مسلکِ اہلسنت کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (10) شیخ الحدیث حضرت مولاناڈاکٹر محمد مظہر فرید شاہ دامت برکاتہم العالیہ (نائب مہتمم جامعہ فریدیہ ساہیوال پنجاب)لکھتے ہیں : ’’ بہارِ شریعت‘‘ کی کامل تخریج دعوتِ اسلامی کا نمایاں کارنامہ ہے، تخریج کے بعد بہارِ شریعت کو حوالہ کے لیے بھی پیش کیا جاسکے گا۔ رب قدوس اس مؤقر تنظیم دعوت اسلامی کو مزید فروغ عطا فرمائے۔ (11)محسنِ اہلسنّت مولانا حافظ محمد عطاء الرحمن قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ (مرکزالاولیاء لاہور)لکھتے ہیں :دعوتِ اسلامی کی مجلس ’’المدینۃ العلمیہ‘‘ نے بہارِ شریعت کی تخریج وتسہیل کے ساتھ درست طباعت کا ذمہ لیا اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا۔دُعا گو ہوں ، احباب بھی دعا کریں مولائے کریم اراکینِ المدینۃ العلمیہ کے علم و عمل اور جذبۂ خدمتِ دین میں مزید برکتیں عطافرمائے اور مسلکِ اہلِ سنّت کی خوب اِشاعت کرنے کی توفیق دے۔(12)حضرت مولاناعبدالغفور نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ(مہتمم دارالعلوم عربیہ اسلامیہ بمقام ڈیرہ الہیار بلوچستان)لکھتے ہیں :بہارِ شریعت جیسی ضخیم زرین کتاب کی تالیف وترتیب پر تمام حضرات زِیدَ مَجْدُہُم (شعبہ تخریج کتب و المدینۃالعلمیہ و مکتبۃالمدینہ دعوت اسلامی)ہدیہ تبریک وتحسین کے مستحق ہیں ۔ الحمد للہ عَزَّوَجَلَّاب سات حصوں (14تا20) پرمشتمل تیسری جلد پیشِ خدمت ہے جس میں مضارَبت، ودیعت، ہبہ، اجارہ، اکراہ، قربانی، عقیقہ، حظرواباحت،قصاص،دیت،وصیت،میراث وغیرہ کے مسائل کا تفصیلی بیان ہے۔ اس جلد میں تقریباً193آیات ، 1144احادیث اور3666مسائل کا ذکر ہے ،جبکہ مکمل بہار شریعت میں تقریباً541آیات قراٰنی،2628 احادیث مبارکہ اور11613مسائل ہیں ،جو مسائل ضمناً مذکور ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں ۔حسبِ سابق اس جلدپر بھی دعوتِ اسلامی کی مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘کے ’’شعبہ تخریج‘‘کے مَدَنی علماء نے اَنتَھک کوششیں کی ہیں ، جس کا اندازہ کام کی اس تفصیل سے لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ٭حادیث اور مسائل فقہیہ کے حوالہ جات کی اصل عربی کتب سے مقدور بھر تخریج کی گئی ہے۔٭ آیاتِ قرآنیہ کو منقش بریکٹ ( )، کتابوں کے نام اور دیگر اَہم عبارات کو Inverted Commas ’’ ‘‘ سے واضح کیا گیاہے۔ ٭مصنف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے رسم الخط کوحتَّی ا لاِمکان برقراررکھنے کی کوشش کی گئی ہے،صفحہ نمبر13,14پربہارشریعت جلد سوم (3)میں آنے والے مختلف الفاظ کے قدیم وجدیدرسم الخط کوآمنے سامنے لکھ دیاگیاہے۔٭ جہاں جہاں نبی اَکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمِ گرامی کے ساتھ ’’صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم‘‘اور اللہ عزوجل کے نام کے ساتھ ’’عزوجل‘‘ لکھا ہو انہیں تھا وہاں بریکٹ میں اس انداز میں (عزوجل)، (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔٭ ہر حدیث و مسئلہ نئی سطر سے شروع کرنے کا التزام کیا گیاہے اور عوام وخواص کی سہولت کے لئے ہر مسئلے پر نمبر لگانے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ ٭پڑھنے والوں کی آسانی کے لئے اسی جلد کے شروع میں حروف تہجی کے اعتبار سے حلِّ لغت کی ایک فہرست کا اہتمام کیا گیا ہے جسے تیار کرنے کے لئے لغت کی مختلف کتب کاسَہارا لیاگیاہے اور اِس بات کوپیشِ نَظَر رکھاگیاہے کہ اگر لفظ کاتعلق براہِ راست قرآنِ پاک سے تھاتواِس کو مختلف تفاسیرکی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی گئی، براہِ راست حدیثِ پاک کے ساتھ تعلق ہونے کی صورت میں حتَّی الاِمکان احادیث کی شروحات کومدنظر رکھاگیااور فقہ کے ساتھ تعلق کی بناپر حتَّی المقدورفقہ کی کتب سے اِستِفادہ کیاگیاہے ۔چند مقامات پرعبارت کی تسہیل (یعنی آسانی)کے لئے مشکل الفاظ کے معانی حاشیے میں بھی لکھ دیئے گئے ہیں تاکہ صحیح مسئلہ ذِہن نشین ہوجائے اور کسی قسم کی اُلجھن باقی نہ رہے ۔ پھر بھی اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توعلماء کرام دامَتْ فُیُوْضُھُمْ سے رابطہ کیجئے ۔٭جہاں جہاں فقہی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ،ان کوحروف تہجی کے اعتبار سے ایک جگہ اکٹھابیان کردیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں حتَّی المَقدورکوشش کی گئی ہے کہ اگراس اصطلاح کی وضاحت مصنف رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے خود اسی جگہ یا بہارشریعت کے کسی دوسرے مقام پرکی ہو تو اسی کو آسان الفاظ میں ذکرکیاگیاہے اوراگرکسی اصطلاح کی تعریف بہارِ شریعت میں نہیں ملی تو دوسری معتبر کتابوں سے عام فہم اورباحوالہ اصطلاحات کی وضاحتیں ذکرکردی گئی ہیں ۔علاوہ ازیں اس حصہ میں جو مشکل اَعلام(مختلف چیزوں کے نام )مذکور ہیں لغت کی مختلف کُتب سے تلاش کرکے ان کوبھی آسان اَ نداز میں اصطلاحات کے آخر میں ذکر کردیاگیاہے ۔٭علمائے کرام سے مشورے کے بعد صفحہ نمبر: 599,590,583,563,543,528,515,504,471,438,359,356,349,341,311,310,308,241,65,47 912,908,831,777,775,771,752,750,747,746,686,685,679,678,671,666,654,651,603, 1082,1079,1078,1073,1069,1064,1062,1061,1060,1047,1044,1043,1030,971,928, 1145,1144,1114,108,1104,1103,1101,1099,1098,1096,1095,1093,1087,1086, پر مسائل کی تصحیح، تَرجِیح، تَوضیح اور تطبِیق کی غرض سے حاشیہ بھی دیا گیا ہے اوراس کے آخرمیں عِلْمِیہ لکھ دیاگیاہے۔٭مصنف کے حواشی وغیرہ کو اسی صفحہ پر نقل کر دیا اور حسبِ سابق ۱۲ منہ بھی لکھ دیا ہے۔٭ مکررپروف ریڈنگ کی گئی ہے، مکتبہ رضویہ آرام باغ، باب المدینہ کراچی کے مطبوعہ نسخہ کو معیاربناکر مذکورہ خدمات سرانجام دی گئی ہیں ،جو در حقیقت ہندوستان سے طبع شدہ قدیم نسخہ کا عکس ہے لیکن صرف اسی پر انحصار نہیں کیا گیا بلکہ دیگر شائع کردہ نسخوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔٭ آخر میں مآخذ و مراجع کی فہرست، مصنفین و مؤلفین کے ناموں ، ان کی سنِ وَفات اور مطابع کے ساتھ ذکر کر دی گئی ہے۔ عرضِ حال بہارِ شریعت پر اس طرز سے کام کرنے میں جہاں تقریباً16مَدَنی علماء دامت برکاتہم العالیہ کی توانائیاں خرچ ہوئیں وہیں کُتُب ، کمپیوٹرزاور تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مدّ میں دعوتِ اسلامی کا زرِّکثیر بھی خرچ ہوا ۔اِن تمام تر کوششوں کے باجودہمیں دعویٔ کمال نہیں لہٰذا ہمارے کام میں جو خوبی نظر آئے وہ اللہ ورسولعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عطاہے اور جو خامیاں نظر آئیں وہاں ہماری غیرارادی کوتاہی کو دخل ہے ۔مَدَنی التجا ہے کہ جہاں جہاں ضرورت محسوس کریں بذریعہ مکتوب یا ای میل ہماری رہنمائی فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ دعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے۔اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْامِین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی) شعبہ تخریج 25صفر المظفر 1432ھ، بمطابق 30جنوری 2011ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عَمْرْورضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت ہے کہ سرکارمدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:’’جس نے نیند سے بیدار ہوتے وقت بِسْمِ اللہ ،سُبْحَانَ اللہ ،اٰمَنْتُ بِ اللہ وَکَفَرْتُ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِدس دس مرتبہ پڑھا توہراُس گناہ سے بچالیاجائے گاجس کا اسے خوف ہو اورکوئی گناہ اس تک نہ پہنچ سکے گا۔ (مجمع الزوائد،کتاب الأذکار،باب إذاتعارّ من اللیل، الحدیث:۱۷۰۶۰،ج۱۰،ص۱۷۴) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ طمضارَبت کا بیان
یہ تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے کہ ایک جانب سے مال ہو اور ایک جانب سے کام ،مال دینے والے کو رب المال اور کام کرنے والے کو مضارب اور مالک نے جو دیا اُسے راس المال کہتے ہیں اور اگر تمام نفع رب المال ہی کے لیے دیناقرار پایا تو اُس کو اِبضاع کہتے ہیں اور اگر کل کام کرنے والے کے لیے طے پایا تو قرض ہے، اس عقد کی لوگوں کو حاجت ہے کیونکہ انسان مختلف قسم کے ہیں بعض مالدار ہیں اور بعض تہی دست۔ (1)بعض مال والوں کو کام کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا تجارت کے اُصول وفروع(2)سے ناواقف ہوتے ہیں اور بعض غریب کام کرنا جانتے ہیں مگر ان کے پاس روپیہ نہیں لہٰذا تجارت کیونکر کریں اس عقد کی مشروعیت میں یہ مصلحت ہے کہ امیر وغریب دونوں کو فائدہ پہنچے مال والے کو روپیہ دیکر اور غریب آدمی کو اُس کے روپیہ سے کام کرکے۔شرائط مضارَبت
مسئلہ ۱: مضاربت کے لیے چند شرائط ہیں : (۱) راس المال ازقبیل ثمن ہو۔ عروض (3)کے قسم سے ہوتو مضاربت صحیح نہیں پیسوں کو راس المال قراردیا اور وہ چلتے ہوں تو مضاربت صحیح ہے۔ یوہیں نِکل(4) کی اِکنیاں (5) دوانیاں (6) راس المال ہوسکتی ہیں جب تک اِن کا چلن ہے۔ اگر اپنی کوئی چیز دیدی کہ اسے بیچو اور ثمن پر قبضہ کرو اور اُس سے بطور مضاربت کام کرو اُس نے اُس کو روپیہ یا اشرفی سے بیچ کر کام کرنا شروع کردیا یہ مضاربت صحیح۔ (۲) راس المال معلوم ہو۔ اگرچہ اس طرح معلوم کیا گیا ہو کہ اُس کی طرف اشارہ کردیا۔ پھر اگر نفع کی تقسیم کرتے وقت راس المال کی مقدار میں اختلاف ہوا تو گواہوں سے جو ثابت کردے اُس کی بات معتبر ہے اور دونوں کے گواہ ہوں تو رب المال کے گواہ معتبر ہیں اور اگر کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو قسم کے ساتھ مضارب کی بات معتبر ہوگی۔
1…غریب،نادار۔2…قواعدوضوابط،طورطریقے۔3…نقود(سونا،چاندی اورکرنسی)کے علاوہ دوسری چیزیں ۔ 4…ایک قسم کی سفیددھات۔5…اکنی کی جمع،کانسی کابناہواسکہ جوقیمت میں روپے کاسولہواں حصہ ہوتاہے۔ 6…دوانی کی جمع،جوآنے کی قدرکاچاندی یاکانسی کاسکہ۔ (۳) راس المال عین ہو یعنی معیّن ہودَین نہ ہو جوغیر معیّن واجب فی الذمہ(1)ہوتا ہے۔ مضاربت اگر دَین کے ساتھ ہوئی اور وہ دَین مضاربت پر ہے یعنی اُس سے کہہ دیا کہ تمھارے ذمہ جو میرا روپیہ ہے اُس سے کام کرو یہ مضاربت صحیح نہیں جو کچھ خریدے گا اُس کا مالک مضارِب ہوگااور جو کچھ دَین ہوگا اُس کے ذمہ ہوگا اور اگر دوسرے پر دَین ہو مثلاً کہہ دیا کہ فلاں کے ذمہ میرا اتنا روپیہ ہے اُس کو وصول کرواور اُس سے بطورِ مضارَبت تجارت کرو یہ مضاربت جائز ہے اگرچہ اِس طرح کرنا مکروہ ہے اور اگر یہ کہا تھا کہ فلاں پر میرا دَین ہے وصول کرکے پھر اُس سے کام کرو اُس نے کل روپیہ قبضہ کرنے سے پہلے ہی کام کرنا شروع کردیا ضامن ہے یعنی اگر تلف ہوگاضمان دینا ہوگا اور اگر یہ کہا تھا کہ اُس سے روپیہ وصول کرو اور کا م کرو اور اس نے کل روپیہ وصول کرنے سے پہلے کام شروع کردیا ضامن نہیں ہے اور اگر یہ کہا کہ مضاربت پر کام کرنے کے لیے اُس سے روپیہ وصول کرو تو کل وصول کرنے سے پہلے کام کرنے کی اجازت نہیں یعنی ضمان دینا ہوگا۔(2) (بحر، درمختاروغیرہما) مسئلہ ۲: یہ کہا کہ میرے لیے اُدھار غلام خریدو پھر بیچو اور اُس کے ثمن سے بطور مضاربت کام کرو اِس نے خریدا پھر بیچااور کام کیا یہ صورت جائز ہے۔ غاصب یا امین یا جس کے پاس اِس نے اِبضاع(3) کے طور پر روپیہ دیا تھا اِن سے کہا جوکچھ میرا مال تمھارے پاس ہے اُس سے بطورمضاربت کام کرو نفع آدھا آدھا یہ جائز ہے۔(4) (بحر) (۴) راس المال مضارِب کودیدیا جائے یعنی اُس کا پورے طور پر قبضہ ہو جائے رب المال کا بالکل قبضہ نہ رہے۔ (۵) نفع دونوں کے مابین شائع ہو یعنی مثلاًنصف نصف یا دوتہائی ایک تہائی یا تین چو تھائی ایک چوتھائی، نفع میں اِس طرح حصہ معیّن نہ کیا جائے جس میں شرکت قطع ہوجانے کا احتمال ہو مثلاً یہ کہہ دیا کہ میں سو۱۰۰روپیہ نفع لوں گااِ س میں ہوسکتا ہے کہ کل نفع سو ہی ہویا اس سے بھی کم تو دوسرے کی نفع میں کیوں کر شرکت ہوگی یا کہہ دیا کہ نصف نفع لوں گا اور اُس کے ساتھ دس۱۰ روپیہ اور لوں گا اِس میں بھی ہوسکتا ہے کہ کل نفع دس۱۰ ہی روپے ہوتو دوسرا شخص کیا پائے گا۔ (۶) ہر ایک کا حصہ معلوم ہو لہٰذا ایسی شرط جس کی وجہ سے نفع میں جہالت پیدا ہو مضاربت کو فاسد کردیتی ہے مثلاًیہ
1…کسی کے ذمہ لازم۔ 2…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۴۸۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۰،وغیرہما۔ 3…یعنی کسی کوکام کرنے کے لیے مال دیااس طورپرکہ جونفع ہوگاوہ تمام مالک کاہوگا۔ 4…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۴۸۔ شرط کہ تم کو آدھا یا تہائی نفع دیا جائے گا یعنی دونوں میں سے کسی ایک کو معین نہیں کیا بلکہ تردِیدکے ساتھ بیان کرتا ہے اور اگر اُس شرط سے نفع میں جہالت نہ ہو تو وہ شرط ہی فاسد ہے اور مضارَبت صحیح ہے مثلاًیہ کہ نقصان جو کچھ ہوگا وہ مضارِب کے ذمہ ہوگا یا دونوں کے ذمہ ڈالا جائے گا۔ (۷) مضارِب کے لیے نفع دینا شرط ہو۔ اگر راس المال میں سے کچھ دینا شرط کیا گیا یا راس الما ل اور نفع دونوں سے دینا شرط کیا گیا مضاربت فاسد ہو جائے گی۔ (1)(بحر، درر) مسئلہ ۳: رب المال نے یہ کہا کہ جو کچھ خدا نفع دے گا وہ ہم دونوں کا ہوگا یا نفع میں ہم دونوں شریک ہوں گے یہ جائز ہے اور نفع دونوں کو برابر برابر ملے گا اور اگر مضارِب کو روپیہ دیتے وقت یہ کہا کہ ہمارے ما بین اُس طرح تقسیم ہوگا جو فلاں و فلاں کے مابین ٹھہرا ہے اگر دونوں کو معلوم ہے جو اُن کے مابین ٹھہرا ہے تو مضاربت جائز ہے اور اگر دونوں کو یا ایک کو معلوم نہ ہو کہ اُن کے مابین کیا ٹھہرا ہے تونا جائز ہے اور مضارَبت فاسد۔ (2)(عالمگیری) مسئلہ ۴: روپیہ دیا اور مضارِب سے کہہ دیا کہ تمھارا جو جی چاہے نفع میں سے مجھے دے دینا یہ مضاربت فاسد ہے۔ (3)(عالمگیری) مسئلہ ۵: ایک ہزار روپے مضارِب کواِس طور پر دیے کہ نفع کی دوتہائیاں مضارب کی ہوں گی(4) بشرطیکہ ایک ہزار روپے اپنے بھی اس میں شامل کرلے اور دوہزار سے کام کرے اُس نے ایسا ہی کیا اور نفع ہوا تو ایک ہزار کا کل نفع مضارب کوملے گااورایک ہزارجورب المال کے ہیں اُن کے نفع میں دوتہائیاں مضارِب کی اور ایک تہائی رب المال کی ہوگی۔ اور اگر رب المال نے کہہ دیا کہ کل نفع کی دو تہائیاں میری اور ایک تہائی مضارِب کی تو نفع کو برابر تقسیم کریں اور اس صورت میں مضاربت نہیں ہوئی بلکہ اِبضاع ہے کہ اپنے مال کا سارا نفع خود لینا قرار دید یا۔(5) (عالمگیری) مسئلہ ۶: روپے دیے اور کہہ دیا کہ گیہوں خریدو گے تو آدھا نفع تمھارا اور آٹا خریدو گے تو چوتھائی نفع تمھارا اور جَو
1…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۴۹۔ و’’دررالحکام‘‘،کتاب المضاربۃ،الجزء الثانی،ص۳۱۱۔ 2…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘ ،کتاب المضاربۃ،الباب الثانی فیما یجوز من المضاربۃ ۔۔۔إلخ،ج۴،ص۲۸۸۔ 3…المرجع السابق۔ 4…یعنی نفع کے کل تین حصوں میں سے دوحصے مضارب کے ہونگے۔ 5…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثانی فیما یجوز من المضاربۃ ۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۸۹۔ خریدو گے تو ایک تہائی تمہاری، اِس صورت میں جیسا کہا اُسی کے موافق نفع تقسیم کیا جائے گا، مگر گیہوں خرید چکا تو اب جَو یا آٹا نہیں خریدسکتا۔(1) (عالمگیری) مسئلہ ۷: مالک نے یہ کہا کہ اگر اس شہر میں کام کرو گے تو تمہیں ایک تہائی نفع ملے گااور باہر کام کرو گے تو نصف ،اس میں خریدنے کا اعتبار ہے بیچنے کا اعتبار نہیں اگر اس شہر میں خریداتو ایک تہائی دی جائے گی بیچنا یہاں ہویا باہر۔(2) (عالمگیری) مسئلہ ۸: مضاربت کا حکم یہ ہے کہ جب مضارِب کو مال دیا گیا اُس وقت وہ امین ہے اور جب اُس نے کام شروع کیا اب وہ وکیل ہے اور جب کچھ نفع ہوا تو اب شریک (3)ہے اور رب المال کے حکم کے خلاف کیا تو غاصب ہے اور مضارَبت فاسد ہوگئی تو وہ اَجیر (4)ہے اور اِجارہ بھی فاسد۔ (5)(درمختار) مسئلہ ۹: مضاربت میں جو کچھ خسارہ ہوتا ہے وہ رب المال کا ہوتا ہے اگریہ چاہے کہ خسارہ مضارِب کوہو مال والے کو نہ ہو اُس کی صورت یہ ہے کہ کل روپیہ مضارِب کو بطور قرض دیدے اور ایک روپیہ بطور شرکت عنان دے یعنی اُس کی طرف سے وہ کل روپے جو اس نے قرض میں دیے اور اس کا ایک روپیہ اور شرکت اس طرح کی کہ کام دونوں کریں گے اور نفع میں برابر کے شریک رہیں گے اور کام کرنے کے وقت تنہا وہی مُستَقْرِض(6) کام کرتا رہا اس نے کچھ نہیں کیا اِس میں حرج نہیں کیونکہ اگر رب المال کام نہ کرے تو شرکت باطل نہیں ہوتی اب اگر تجارت میں نقصان ہوا تو ظاہر ہے کہ اِس کا ایک ہی روپیہ ہے سارا مال تومستقرض کا ہے اُس کا خسارہ ہوا رب المال کاکیاایسا خسارہ ہوا کیونکہ جو کچھ مستقرض کودیا ہے وہ قرض ہے اُس سے وصول کرے گا۔(7) (درمختار) مسئلہ ۱۰: مضاربت اگر فاسد ہوجاتی ہے تو اجارہ کی طرف منقلب ہوجاتی ہے یعنی اب مضارِب کو نفع جو مقرر ہوا ہے وہ نہیں ملے گا بلکہ اُجرتِ مِثل ملے گی چاہے نفع اس کام میں ہواہو یا نہ ہو مگر یہ ضرورہے کہ یہ اُجرت اُس سے زیادہ نہ ہو جو مضارَبت کی صورت میں نفع ملتا۔(8) (درمختار)
1…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثانی فیما یجوز من المضاربۃ۔۔۔إلخ،ج۴،ص۲۹۰۔ 2…المرجع السابق۔3…حصّہ دار۔ 4…اُجرت پرکام کرنے والا،ملازم،نوکر۔ 5…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۴۹۷۔6…قرض لینے والا۔ 7…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۴۹۷۔۴۹۸۔8…المرجع السابق،ص۴۹۸۔ مسئلہ ۱۱: وَصی نے یتیم کامال بطورِ مضارَبت فاسدہ لیامثلاً یہ شرط کہ دس۱۰ روپے نفع کے میں لوں گا اور اُس نے کام کیا اور نفع بھی ہوا مگر وصی کو کچھ نہیں ملے گا۔(1) (درمختار) مسئلہ ۱۲: مضاربت فاسدہ میں بھی مضارِب کے پاس جو مال رہتا ہے وہ بطور امانت ہے اگر کچھ نقصان ہو جائے تاوان اسکے ذمہ نہیں جس طرح مضاربت صحیحہ میں تاوان نہیں ۔ دوسرے کو مال دیا اور کل نفع اپنے لیے مشروط کرلیا جس کو اِبضاع کہتے ہیں اِس میں بھی اُس کے پاس جو مال ہے بطور امانت ہے ہلاک ہوجائے تو ضمان نہیں ۔(2)(درمختار) مسئلہ ۱۳: رب المال نے مضارِب کو مال دیا اور شرط یہ کی ہے کہ مضارِب کے ساتھ میں بھی کام کروں گا اس سے مضاربت فاسد ہوگئی اِس میں دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ رب المال ہی نے عقدِ مضارَبت کیا اور اپنے ہی کام کرنے کی شرط کی۔ دوسری یہ کہ عاقد دوسرا ہے اور رب المال دوسرا مثلاً نابالغ بچہ یا معتوہ کا مال ہے اُس کے ولی نے کسی سے عقدِ مضارَبت کیا اور شرط یہ ہے کہ یہ بچہ بھی (جس کا مال ہے) تمہارے ساتھ کام کرے گادونوں صورتوں میں مضاربت فاسد ہے یا مثلاًدو شخصوں میں شرکت (3)ہے ایک شریک نے عقد مضارَبت کیا اور مال دیدیا اور شرط یہ ہے کہ مضارِب کے ساتھ میرا شریک بھی کام کرے گامضاربت فاسد ہو جائے گی جبکہ راس المال دونوں کی شرکت کا ہو اور اگر راس المال مال مشترک نہ ہواور شرکت عنان ہوتو مضارَبت صحیح ہے اور اگرشرکت مفاوضہ ہو تو مطلقاً صحیح نہیں اور اگر عاقد (جو رب المال نہیں ہے) اس نے اپنے کام کرنے کی شرط کی ہے اِس میں دو صورتیں ہیں وہ عاقد خود اس مال کو بطور مضاربت لے سکتا ہے یا نہیں اگر نہیں لے سکتا تو مضاربت فاسد ہے مثلاً غلام ماذون(4) نے بطور مضارَبت مال د یا اور اپنے عمل کی شرط کر لی یہ فاسد ہے۔ اور اگر وہ خود مضاربت کے طور پر مال کو لے سکتاہے تو فاسد نہیں جیسے باپ یا وصی کہ انہوں نے بچہ کا مال مضاربۃً دیا اور خود اپنے عمل کی شرط کرلی کہ کام کریں گے اور نفع میں سے اتنا لیں گے اس سے مضاربت فاسد نہیں ۔ غلام ماذون نے عقد کیا اور اپنے مولیٰ (5)کے کام کرنے کی شرط کی اسکی بھی دو صورتیں ہیں اُس پر دَین ہے یا نہیں اگر دَین نہیں ہے عقد فاسد ہے ورنہ صحیح ہے جس طرح مکاتب نے عقدکیا اور مولیٰ کا کام کرنا شرط کیا یہ مطلقاً صحیح ہے۔(6) (ہدایہ، بحر،درر وغیرہا)
1… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۴۹۹۔2… المرجع السابق،ص۵۰۰۔ 3…حصہ داری۔ 4…وہ غلام جسے آقاکی طرف سے تجارت کی اجازت ہو۔ 5…آقا،مالک۔ 6…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۲،ص۲۰۱۔و’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۴۹۔ و’’دررالحکام‘‘،کتاب المضاربۃ،الجزء الثانی،ص۳۱۱،وغیرہا۔ مسئلہ ۱۴: مضارِب نے رب المال کو مضاربۃً مال دے دیا یہ دوسری مضارَبت صحیح نہیں اور پہلی مضاربت بدستور صحیح ہے اور نفع اُسی طور پر تقسیم ہوگا جو باہم ٹھہرا ہے۔(1) (عالمگیری) مسئلہ ۱۵: مضارِب و رب المال میں مضاربت کی صحت و فساد (2)میں اختلاف ہے اس کی دو صورتیں ہیں اگر مضارِب فساد کا مدّعِی (3)ہے تو رب المال کا قول معتبر اور رب المال نے فساد کا دعویٰ کیا تو مضارب کا قول معتبر ،اس کا قاعدہ یہ ہے کہ عقود (4)میں جو مدعی صحت ہے اُس کا قول معتبر ہوتا ہے ہاں اگر رب المال یہ کہتا ہے کہ تمھارے لیے دس ۱۰ کم تہائی نفع شرط تھا مضارِب کہتا ہے تہائی نفع میرے لیے تھا یہاں رب المال کا قول معتبر ہے حالانکہ اُس کے طور پر مضاربت فاسد ہے اور مضارب کے طور پر صحیح ہے کیونکہ یہاں مضارِب زیادت کا مدعی ہے اور رب المال اِس سے منکر۔(5) (درمختار) مسئلہ ۱۶: مضاربت کبھی مطلق ہوتی ہے جس میں زمان ومکان(6) اور قسم تجارت کی تعیین نہیں ہوتی روپیہ دے دیا ہے کہ تجارت کرو نفع میں دونوں کی اِس طرح شرکت ہوگی اور کبھی مضاربت میں طرح طرح کی قیدیں ہوتی ہیں ۔ مضارَبت مُطْلقہ (7)میں مضارِب کو ہر قسم کی بیع کا اختیار ہے نقد بھی بیچ سکتا ہے اودھار بھی ،مگر ایسا ہی اودھار کرسکتا ہے جو تاجروں میں رائج ہے اسی طرح ہر قسم کی چیز خریدسکتا ہے خرید و فروخت میں دوسرے کو وکیل کرسکتا ہے۔ دریا اور خشکی کا سفر بھی کرسکتاہے اگرچہ رب المال نے شہر کے اندر اس کو مال دیا ہو۔ ابضاع بھی کرسکتا ہے یعنی دوسرے کو تجارت کے لیے مال دے دے اور نفع اپنے لیے شرط کرے یہ ہوسکتا ہے بلکہ خود رب المال کو بھی بضاعت کے طور پر مال دے سکتا ہے اور اس سے مضارَبت فاسد نہیں ہوگی۔ مضارب مال کو کسی کے پاس امانت رکھ سکتا ہے۔ اپنی چیز کسی کے پا س رہن رکھ سکتا ہے دوسرے کی چیز اپنے پاس رہن لے سکتا ہے کسی چیز کو اجارہ پر دے سکتا ہے کرایہ پر لے سکتا ہے۔ مشتری (8) نے ثمن کا کسی پر حوالہ کردیا مضارب اِس حوالہ کو قبول کرسکتا ہے کیونکہ یہ ساری باتیں تجار(9) کی عادت میں داخل ہیں کبھی یہاں مال بیچتے ہیں کبھی باہر لے جاتے ہیں اور اس کے لیے گاڑی کشتی جانور وغیرہ کو کرایہ پر لینا ہوتا ہے ورنہ مال کس طرح لے جائے گا۔ دوکان پر کام کرنے کے لیے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے
1…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب الرابع فیما یملک المضارب ۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۲۔2…صحیح اورفاسدہونے۔ 3…دعویٰ کرنے والا۔ 4…عقدکی جمع،جس کے معنی ہیں ایجاب وقبول کا ایسے مشروع طریقہ پرمربوط ہوناجس کااثراس کے محل میں ظاہرہو۔ 5… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۲۔ 6…یعنی وقت اورجگہ۔ 7…ایسی مضاربت جس میں کسی قسم کی قیدنہ ہو۔ 8…خریدار۔ 9…تاجرکی جمع،تاجرلوگ۔ دکان کرایہ پر لینی ہوتی ہے۔ مال رکھنے کے لیے مکان کرایہ پر لینا ہوتاہے اور اسکی حفاظت کے لیے نوکر رکھنا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں بالکل ظاہر ہیں ۔(1) (درمختار وغیرہ) مسئلہ ۱۷: مضارَبت مطلقہ میں بھی مال لے کر سفر اُس وقت کرسکتا ہے جب بظاہر خطرہ نہ ہو اور اگر راستہ خطرناک ہو لوگ اُس راستہ سے ڈر کی وجہ سے نہیں جاتے تو مضارِب بھی مال لے کر اُس راستہ سے نہیں جاسکتا۔(2)(عالمگیری) مسئلہ ۱۸: مضارِب نے مال بیع کرنے (3)کے بعد ثمن کے لیے کوئی میعاد مقرر کردی یہ جائز ہے اور اگر مبیع (4)میں عیب تھا اُسکے ثمن سے کچھ کم کردیا جتنا تجار ایسی صورت میں کم کیا کرتے ہیں یہ بھی جائز ہے،اور اگر بہت زیادہ ثمن کم کردیا کہ عادت تجار کے خلاف ہے تویہ کمی مضارِب کے ذمہ ہوگی۔ رب المال سے اس کو تعلّق نہ ہوگا۔(5) (عالمگیری) مسئلہ ۱۹: مضارِب یہ نہیں کرسکتا کہ دوسرے کو بطور مضارَبت یہ مال دیدے یا اِس مال کے ساتھ کسی سے شرکت کرے یا اِس مال کو اپنے مال میں خلط کرے(6) مگر جبکہ رب المال نے اُس کو ان کاموں کی اجازت دیدی ہو یا یہ کہہ دیا ہو کہ تم اپنی رائے سے کام کرو۔ مضارب کو قرض دینے کا اختیار نہیں اور اِستدا نہ کا بھی اختیار نہیں اگرچہ رب المال نے کہہ دیا ہو کہ اپنی رائے سے کام کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تجار کی عادت میں نہیں اِستدانہ کے یہ معنٰےہیں کہ کوئی چیز اودھار خریدی اور مال مضارَبت میں اس ثمن کی جنس سے کچھ باقی نہیں ہے مثلاً جو کچھ روپیہ تھا سب کی چیزیں خریدی جاچکیں اب کچھ روپیہ باقی نہیں ہے اسکے باوجود مضارِب نے دس ۱۰ ،بیس۲۰، سو، پچاس کی کوئی اور چیز خریدلی یہ مضاربت میں داخل نہ ہوگی مضارب کی اپنی ہوگی اپنے پاس سے دام(7) دینے ہوں گے۔ اگر رب المال نے صاف اور صریح لفظوں میں قرض دینے اور اِستدا نہ کی اجازت دیدی ہوتو اب مضارِب ان دونوں کو کرسکتا ہے اور استدانہ کے طور پر جو کچھ خریدے گا وہ رب المال و مضارب کے مابین بطور شرکت ِ وجوہ مشترک ہوگی۔(8) (درمختار) مسئلہ ۲۰: مضارَبت کے طور پر ایک ہزار روپے دیے تھے مضار ِب کو ایک ہزار سے زیادہ کی چیزیں خریدنے کا اختیار
1… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۲،وغیرہ۔ 2… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘ ،کتاب المضاربۃ،الباب الرابع فیما یملک المضارب ۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۳۔3…بیچنے۔ 4…بیچی گئی چیز۔ 5… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘ ،کتاب المضاربۃ،الباب الرابع فیما یملک المضارب ۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۲۔ 6…یعنی مِلائے۔ 7…روپیہ ،رقم۔8…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۳۔۵۰۵۔ نہیں اور اگر اس نے خرید لیں تو ایک ہزارکی چیزیں مضارَبت کی ہیں باقی چیزیں خاص مضارِب کی ہیں نقصان ہوگا تو ان چیزوں کے مقابلہ میں جو کچھ نقصان ہے وہ تنہا مضارِب کے ذمہ ہے اور ان کا نفع بھی تنہا مضارِب ہی کو ملے گا اور ان چیزوں کو مال مضارَبت میں خلط کرنے (1)سے مضارِب پر ضمان لازم نہ ہوگا۔(2) (خانیہ) مسئلہ ۲۱: رب المال نے روپے دیے تھے اور مضارِب نے اشرفی (3)سے چیزیں خریدیں یا اشرفیاں دی تھیں اور مضارِب نے روپے سے چیزیں خریدیں تو یہ چیزیں مضاربت ہی کی قرار پائیں گی کہ روپیہ اور اشرفی اس باب میں ایک ہی جنس ہیں اور اگر رب المال نے روپیہ یا اشرفی دی تھی اور مضارِب نے غیر نقود(4) سے چیزیں خریدیں تو یہ چیزیں مضاربت کی نہیں بلکہ خاص مضارِب کی ہوں گی۔(5) (عالمگیری) مسئلہ ۲۲: رب المال نے اشرفیاں دی تھیں مضارِب نے روپے سے چیزیں خریدیں مگر یہ روپے اشرفیوں کی قیمت سے زیادہ ہیں تو جتنے زیادہ ہیں ان کی چیزیں خاص مضارِب کی ملک ہیں اور مضارِب اس صورت میں مضاربت میں شریک ہو جائے گااور اگر وہ روپے اشرفیوں کی قیمت کے تھے مگر خریدنے کے بعد ثمن ادا کرنے سے پہلے اشرفیوں کا نرخ اوتر گیا (6)تو یہ نقصان مال مضاربت میں قرار پائے گا اشرفیاں بھنا کر (7)ثمن ادا کرے اور جو کمی پڑے مال بیچ کر بائع(8) کا بقیہ ثمن ادا کرے۔ (9)(عالمگیری) مسئلہ ۲۳: مضارِب نے پورے مال مضاربت سے کپڑا خریدا اور اُس کو اپنے پاس سے دھلوایا یا مال مضاربت کو لادکر دوسری جگہ لے گیا اور کرایہ اپنے پاس سے خرچ کیا اگر مضارِب سے رب المال نے کہا تھا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو یہ مضارِب مُتَبَرِّع ہے یعنی ان چیزوں کا اُسے کوئی معاوَضہ نہیں ملے گا کیونکہ استدانہ(10) کا اُسے اختیار نہ تھا اور اگر کپڑے کو سُرخ رنگ دیا یا دھلوا کر اُس میں کلپ چڑھایا(11) تو اس رنگ یا کلپ کی وجہ سے جو کچھ اُس کی قیمت میں اضافہ ہو گا اُتنے کا یہ شریک
1…مِلادینے ۔ 2… ’’الفتاوی الخانیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،ج۲،ص۲۱۷۔ 3…سونے کے سکے۔ 4…سونا،چاندی اورکرنسی کے علاوہ دیگرسامان۔ 5…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب التاسع فی الاستدانۃعلی المضاربۃ،ج۴،ص۳۰۵۔ 6…یعنی کم ہوگیا۔ 7…کسی سکے کی ریزگاری لے کر، تڑاکر۔ 8…بیچنے والے ۔ 9… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘ ،کتاب المضاربۃ،الباب التاسع فی الاستدانۃعلی المضاربۃ، ج۴،ص۳۰۵۔ 10…یعنی ادھارخریدنے۔ 11…کلف لگایا،یعنی پکاہوالیس دارمادہ جسے پانی میں ملاکرکپڑے کواس میں ڈبوتے ہیں ۔ ہے یعنی مضارِب نے اپنے مال کومالِ مضارَبت میں مِلا دیا مگر چونکہ رب المال نے کہہ دیا تھا کہ اپنی رائے سے کا م کرو لہٰذا اس کو ملادینے کا اختیار تھا۔ اب یہ کپڑا فروخت ہوا اس میں رنگ کی قیمت کا جو حصہ ہے وہ تنہا مضارِب کا ہے اور خالی سفید کپڑے کا جو ثمن ہوگا وہ مضارَبت کے طور پر ہوگا مثلاًوہ تھان اس وقت دس۱۰ روپے میں فروخت ہوا اور رنگا ہوانہ ہوتا تو آٹھ روپے میں بکتا، دو روپے مضارِب کے ہیں اور آٹھ روپے مضارَبت کے طور پر اور اگر رب المال نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو تو مضارِب شریک نہیں بلکہ غاصب ہوگا۔(1)(درمختار) اور اس پچھلی صورت میں مالک کو اختیارہے کہ کپڑالے کر زیادتی کا معاوضہ دیدے یا سفید کپڑے کی قیمت مضارب سے تاوان لے۔ (2)(عالمگیری) مسئلہ ۲۴: کل روپے کا کپڑا خریدلیا بار برداری(3) یا دھلائی وغیرہ اپنے پاس سے خرچ کی تو مُتَبَرِّع (4)ہے کہ نہ اس کا معاوضہ ملے گانہ اسکی وجہ سے تاوان دینا پڑے گا۔(5) (عالمگیری) مسئلہ ۲۵: مضارِب کو یہ اختیار نہیں کہ کسی سے قرض لے اگرچہ رب المال نے صاف لفظوں میں قرض لینے کی اجازت دیدی ہو کیونکہ قرض لینے کے لیے وکیل کرنا بھی درست نہیں اگر قرض لے گا تواس کا ذمہ دار یہ خو د ہوگا رب المال سے اس کا تعلق نہیں ہو گا۔(6) (ردالمحتار) مسئلہ ۲۶: مضارِب ایسا کام نہیں کرسکتا جس میں ضرر ہو،نہ وہ کام کرسکتا ہے جو تجار نہ کرتے ہوں ، نہ ایسی میعادپر بیع کرسکتا ہے جس میعادپر تاجر نہیں بیچتے ہوں اور دو شخصوں کو مضارِب کیا ہے تو تنہا ایک بیع وشرا (7) نہیں کرسکتا، جب تک اپنے ساتھی سے اِجازت نہ لے لے۔(8) (بحر) مسئلہ ۲۷: اگر بیع فاسد کے ساتھ کوئی چیز خریدی جس میں قبضہ کرنے سے مِلک ہوجاتی ہے یہ مخالفت نہیں ہے اور وہ چیز مضارَبت ہی کی کہلائے گی اور غبن فاحش کے ساتھ خریدی تو مخالفت ہے اور یہ چیز صرف مضارِب کی مِلک ہوگی اگرچہ مالک
1… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۵۔ 2…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب التاسع فی الاستدانۃ۔۔۔إلخ، ج۴،ص۳۰۶۔ 3…مزدوری۔ 4… احسان کرنے والا۔ 5… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘ ،کتاب المضاربۃ،الباب التاسع فی الاستدانۃ۔۔۔إلخ، ج۴،ص۳۰۶۔ 6… ’’ردالمحتار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۶۔7…یعنی خریدو فروخت۔ 8… ’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۵۰۔ نے کہہ دیا ہو کہ اپنی رائے سے کام کرو اور اگر غبن فاحش کے ساتھ بیچ دی تو مخالفت نہیں ہے۔ (1)(بحر) مسئلہ ۲۸: رب المال نے شہر یا وقت یا قسم تجارت کی تعیین کردی ہو یعنی کہہ دیا ہو کہ اس شہرمیں یا اِس زمانہ میں خرید و فروخت کرنا یا فلاں قسم کی تجارت کرنا تو مضارِب پر اِسکی پابندی لازم ہے اِسکے خلاف نہیں کرسکتا۔ یوہیں اگر بائع(2) یا مشتری(3) کی تقیید کردی ہو کہہ دیا ہو کہ فلاں دکان سے خریدنا یا فلاں فلاں کے ہاتھ بیچنا اس کے خلاف بھی نہیں کرسکتا اگرچہ یہ پابندیاں اُس نے عقدِ مضارَبت کرتے وقت یا روپے دیتے وقت نہ کی ہوں بعد میں یہ قیود بڑھادی ہوں ،ہاں اگر مضارِب نے سودا خرید لیا اب کسی قسم کی پابندی اُسکے ذمہ کرے مثلاًیہ کہ اودھار نہ بیچنایا دوسری جگہ نہ لے جانا وغیرہ وغیرہ ،مضارِب اِن قیود کی پابندی پر مجبورنہیں مگر جبکہ سودا فروخت ہو جائے اور راس المال نقد کی صورت میں ہوجائے تو رب المال اس وقت قیود لگا سکتا ہے اور مضارِب پر اُن کی پابندی لازم ہوگی۔(4) (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۲۹: مضارِب سے کہہ دیا کہ فلاں شہر والوں سے بیع کرنا اُس نے اُسی شہر میں بیع کی مگر جس سے بیع کی وہ اُس شہر کا باشندہ نہیں ہے یہ جائز ہے کہ اِس شرط سے مقصود اُس شہر میں بیع کرنا ہے۔ یوہیں اگر کہہ دیا کہ صراف(5)سے خرید و فروخت کرنا اس نے صراف کے غیر سے عقد صرف کیا یہ بھی مخالفت نہیں ہے بلکہ جائز ہے کہ اِ س سے مقصود عقد صرف ہے۔ (6)(عالمگیری) مسئلہ ۳۰: رب المال نے کپڑا خریدنے کے لیے کہہ دیا ہے تو اونی ،سوتی ،ریشمی ،ٹسری (7)جو چاہے خرید سکتا ہے، ٹاٹ(8) دری قالین پردے وغیرہ جواز قبیل ملبوس نہیں ہیں (9)،نہیں خریدسکتا۔(10) (عالمگیری) مسئلہ ۳۱: رب المال نے بے فائدہ قیدیں ذکر کیں مثلاًیہ کہ نقد نہ بیچنا اسکی پابندی مضارب پر لازم نہیں اور ایسی قید جس میں فی الجملہ فائدہ ہو مثلاً اِس شہرکے فلاں بازار میں تجارت کرنا فلاں میں نہ کرنا اس کی پابندی کرنی ہوگی۔(11) (درمختار)
1…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۵۰۔2…بیچنے والا۔ 3… خریدار۔ 4… ’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۶۔5…سونے چاندی کاکام کرنے والا۔ 6… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب السادس فیما یشترط۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۸۔ 7…مصنوعی ریشم سے تیارکیاہواکپڑا۔8…بوری کاکپڑا۔9…یعنی جولباس کی قسم سے نہیں ہیں ۔ 10…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السادس فیما یشترط۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۹۔ 11… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۶۔ اُدھار کی قید بیکار اُس وقت ہے جب مضارِب نے واجبی قیمت(1) پر یا اُس ثمن پر بیع کی (2) تو رب المال نے بتایا تھااور اگر کم داموں میں بیع کردی تو مخالفت قرار پائے گی۔(3) (عالمگیری) مسئلہ ۳۲: رب المال نے معین کردیا تھا کہ فلاں شہر میں یا اِس شہر سے مال خریدنا، مضارِب نے اس کے خلاف کیا دوسرے شہر کو مال خریدنے کے لیے چلا گیا ضامن ہوگیا یعنی اگر مال ضائع ہوگا تاوان دینا پڑے گا اور جو کچھ خریدے گا وہ مضارِب کا ہوگامال مضارَبت نہیں ہوگااور اگر وہاں سے کچھ خریدا نہیں بغیر خریدے واپس آگیا تو مضارَبت عود کر آئی یعنی اب ضامن نہ رہا اور اگر کچھ خریدا کچھ روپیہ واپس لایا تو جو کچھ خریدلیا ہے اس میں ضامن ہے اور جو روپیہ واپس لایا ہے یہ مضارَبت پر ہوگیا۔ (4)(بحر، درمختار) مسئلہ ۳۳: مال مضارَبت سے جو لو نڈی ،غلام خریدے گا اس کا نکاح نہیں کرسکتا ہے کہ یہ بات تجار کی عادت سے نہیں ۔ ایسے غلام کو نہیں خرید سکتا جو خریدنے سے رب المال کی جانب سے آزاد ہو جائے مثلاًرب المال کا ذی رحم محرم (5)ہے کہ اگر اُس کی مِلک میں آجائے گا آزاد ہو جائے گا یا رب المال نے کسی غلام کی نسبت کہا ہے کہ اگر میں اس کا مالک ہو جائوں تو آزاد ہے کہ ان سب کی خریداری مقصد تجارت کے خلاف ہے اگر خریدے گا تومضارِب ان کا مالک ہو گااور اُس کو اپنے پاس سے ثمن دینا ہوگا راس المال سے ثمن نہیں دے سکتا بخلاف وکیل بالشراء (6)کے کہ اگر قرینہ نہ ہوتویہ ایسے غلاموں کو خریدسکتا ہے اور وہ مؤ کل کی ملک ہوں گے اور آزاد ہوجائیں گے قرینہ کی صورت یہ ہے کہ مؤکل نے کہا ہے ایک غلام میرے لیے خریدو میں اُسے بیچوں گا یا اُس سے خدمت لوں گا یا کنیز(7) خریدو جس کو فراش بنائوں گا(8) ان صورتوں میں وکیل بھی ایسے غلام وکنیز کو نہیں خریدسکتا جو موکل پر آزاد ہوجائیں ۔(9) (بحر، درمختار، ہدایہ)
1…رائج قیمت،بازاری قیمت۔ 2…یعنی کم قیمت پربیچی۔ 3… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب السادس فیما یشترط۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۸،۲۹۹۔ 4…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۵۰۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۶۔ 5…یعنی نسب کی روسے ان میں باہم وہ رشتہ ہے جوہمیشہ ہمیشہ حرمت نکاح کاموجب ہوتاہے۔ 6…خریدنے کاوکیل۔ 7…لونڈی۔ 8…یعنی اس سے صحبت،مجامعت کروں گا۔ 9…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۵۱۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۷۔ و’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۲،ص۲۰۳۔ مسئلہ ۳۴: اگر مال میں نفع ہو تو مضارِب ایسے غلام کوبھی نہیں خریدسکتا جو خود اُسکی جانب سے آزاد ہوجائے کیونکہ اس وقت بقدر اپنے حصہ کے خود مضارِب بھی اوس کا مالک ہوجائے گا اور وہ آزاد ہو جائے گا، یہاں نفع کا صرف اتنا مطلب ہے کہ اس غلام کی واجبی قیمت راس المال سے زیادہ ہو مثلاً ایک ہزار میں خریدا ہے اور یہی راس المال تھا مگر یہ غلام ایسا ہے کہ بازار میں اس کے بارہ سو ملیں گے معلوم ہواکہ دوسو کانفع ہے جس میں ایک سو مضارِب کے ہیں لہٰذا بارہ حصہ میں سے ایک حصہ کا مضارِب مالک ہے اور یہ آزاد ہے پس اس صورت میں یہ غلام مضارَبت کا نہیں ہے بلکہ تنہا مضارِب کا قرار پائے گا اور پورا آزاد ہو جائے گا۔ اور اگر نفع نہ ہو تو یہ غلام مضاربت کا ہو گا اور آزاد نہیں ہوگا۔(1) (درمختار، ہدایہ) مسئلہ ۳۵: مال میں نفع نہیں تھا اور مضارِب نے ایسا غلام خریدا کہ اگر مضارِب اُس کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہوجائے اس کی خریداری از جانبِ مضارَبت صحیح ہوگئی مگر خریدنے کے بعد بازار کا نرخ تیز ہوگیا اب اس میں نفع ظاہر ہو گیا یعنی جب خریدا تھا اُس وقت ہزار ہی کا تھا اور ہزار میں خریدا مگراب اس کی قیمت بارہ سو ہوگئی تو مضارِب کا حصہ آزاد ہوگیا مگر مضارِب کو تاوان نہیں دینا ہوگا ا س لیے کہ اُس نے قصداً (2)مالک کو نقصان نہیں پہنچایا ہے بلکہ غلام سے سعی (3)کرا کر رب المال کا حصہ پورا کرایا جائے گا۔ اور اگر شریک (4)نے ایسا غلام خریداہوتا جو دوسرے شریک کی طرف سے آزاد ہوتا یا باپ یا وصی (5)نے نابالغ کے لیے ایسا غلام خریدا ہوتا جو نابالغ کی طرف سے آزاد ہوتا تو یہ غلام اُسی خریدنے والے کا قرار پاتا شریک یا نابالغ سے اس کو تعلق نہ ہوتا۔ (6)(ہدایہ ، درمختار) مسئلہ ۳۶: مضارِب نے ایسے شخص سے بیع وشراء کی (7)جس کے حق میں اس کی گواہی مقبول نہیں مثلاً اپنے باپ یا بیٹے یا زوجہ سے ،اگر یہ بیع واجبی قیمت پر ہوئی تو جائز ہے، ورنہ نہیں ۔ (8)(عالمگیری)
1…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۶۔ و’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۲،ص۲۰۳۔ 2…جان بوجھ کر۔ 3…محنت مزدوری۔ 4…حصہ دار۔ 5…جس کومیت نے اپنی وصیت پوری کرنے کے لیے مقرر کیاہو۔ 6…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۲،ص۲۰۳۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۷۔ 7…خریدوفروخت۔8… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الرابع فیما یملک المضارب۔۔۔إلخ،ج۴،ص۲۹۴۔ مسئلہ ۳۷: مضارِب نے مالِ مضارَبت سے کوئی چیز خریدی اس کے بعد گواہوں کے سامنے اُسی چیز کو اپنے لیے خریدتا ہے یہ نا جائز ہے اگرچہ رب المال نے کہہ دیا ہو کہ تم اپنی رائے سے کام کرنا۔(1) (عالمگیری) مسئلہ ۳۸: مضارِب نے بلا اجازتِ رب المال دوسرے شخص کو بطور مضاربت مال دیدیا،محض دینے سے مضارِب ضامن نہیں ہوگا جب تک دوسرا شخص کا م کرنا شروع نہ کردے اور دوسرے نے کام کرنا شروع کردیا تو مضاربِ اول ضامن ہوگیا ہاں ا گر دوسری مضاربت (جو مضارِب نے کی ہے) فاسد ہو تو باوجود مضارِبِ ثانی کے عمل کرنے کے بھی مضاربِ اوّل ضامن نہیں ہے اگرچہ اُس دوسرے نے جو کچھ کا م کیا ہے اُس میں نفع ہو بلکہ اس صورتِ مضاربت فاسدہ میں مضاربِ ثانی کو اُجرت مثل ملے گی جو مضارب دے گا اور رب المال نے جو نفع مضاربِ اول سے ٹھہرا یا ہے وہ لے گا۔(2) (درمختار) مسئلہ ۳۹: صورت مذکورہ میں مضارِب ثانی کے پاس سے عمل کرنے کے پہلے مال ضائع ہوگیا تو ضمان کسی پر نہیں ،نہ مضارِب اول پر،(3) نہ مضارِب ثانی پر(4) اور اگر مضارِب ثانی سے کسی نے مال غصب کر لیا جب بھی اِن دونوں پر ضمان نہیں بلکہ غاصب سے تاوان لیا جائے گا اور اگر مضارِب ثانی نے خود ہلاک کردیا یا کسی کوہبہ کردیا تو خاص اس ثانی سے ضمان لیاجائے گا۔ (5)(درمختار) مسئلہ ۴۰: اگر مضار ِب ثانی نے کام شروع کردیا تو رب المال کو اختیار ہے جس سے چاہے راس المال کا ضمان لے اول سے یا ثانی سے، اگر اول سے ضمان لیا تو ان دونوں کے مابین جو مضاربت ہوئی ہے وہ صحیح ہو جائے گی اور نفع دونوں کے لیے حلال ہوگا اور اگر دوسرے سے ضمان لیا تو وہ اوّل سے واپس لے گا اور مضاربت دونوں کے مابین صحیح ہو جائے گی مگر نفع پہلے کے لیے حلال نہیں ہے دوسرے کے لیے حلال ہے۔ اور اگر مضارِب ثانی نے کسی تیسرے کو مضاربت کے طور پر مال دیدیا اور مضارِب اوّل نے ثانی سے کہہ دیا تھا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو تو رب المال کو اختیار ہے، اِن تینوں میں سے جس سے چاہے ضمان لے اگر اُس نے تیسرے سے لیا تو یہ دوسرے سے لے گا اور دوسرا پہلے سے اور پہلا کسی سے نہیں ۔(6) (بحر، درمختار، ردالمحتار)
1… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب الرابع فیما یملک المضارب۔۔۔إلخ،ج۴،ص۲۹۴۔ 2…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۰۹۔ 3…یعنی نہ پہلے مضارِب پر۔ 4…نہ دوسرے مضارِب پر۔ 5…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۰۹۔ 6…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضاربۃیضارب،ج۷،ص۴۵۳۔ و’’الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۰۹۔ مسئلہ ۴۱: صورت مذکورہ میں کہ بغیر اجازت مضارِب نے دوسرے کو مال دے دیا ہے مالک تاوان لینا نہیں چاہتا بلکہ نفع لینا چاہتا ہے اس کا اُسے اختیار نہیں ۔(1) (درمختار) مسئلہ ۴۲: بغیر اجازت مالک مضارِب نے بطور مضاربت کسی کو مال دے دیا اور پہلی مضاربت فاسد تھی دوسری صحیح ہے تو کسی پر ضمان نہیں اور پورا نفع رب المال کو ملے گا اور مضارِب اوّل کو اُجرت مثل دی جائے گی اور مضارِب دوم مضارب اوّل سے وہ لے گا جو دونوں میں طے پایا ہے اور اگر پہلی صحیح ہے دوسری فاسد تو مضارِب اوّل وہ لے گا جو طے پایاہے اور مضارِب دوم کو اُجرت مثل ملے گی جو مضارِب اوّل سے لے گا۔(2) (عالمگیری) مسئلہ ۴۳: مضارِب دوم نے مال ہلاک کردیا یا ہبہ کردیا تو تاوان صرف اُسی سے لیا جائے گا اوّل سے نہیں لیاجائے گا اور اگر مضارِب دوم سے کسی نے مال غصب کرلیا تو تاوان غاصب سے لیا جائے گا نہ اوّل سے لیا جائے گا نہ دوم سے۔(3) (عالمگیری) مسئلہ ۴۴: مضارِب اول کو مضاربت کے طور پر مال دینے کی اجازت تھی اور اُس نے دے دیا اور ان دونوں کے مابین یہ طے پایا ہے کہ مضارِب ثانی کو نفع کی تہائی ملے گی اور اس کی تجارت میں نفع بھی ہوا اگر مضار ِب اوّل اور مالک کے درمیان نصف نصف نفع کی شرط تھی یا مالک نے یہ کہا تھا کہ خدا جو کچھ نفع دے گا وہ میرے تمھارے درمیان نصف نصف ہے یا اتنا ہی کہا تھا کہ نفع میرے اور تمھارے مابین ہوگا تو نفع میں سے آدھا مالک لے گا اور ایک تہائی مضارِب ثانی لے گا اور چھٹا حصہ مضارِب اوّل کا ہے اور اگرمالک نے یہ کہا تھا کہ خدا تمھیں جو کچھ نفع دے گا یا یہ کہا تھا کہ تمھیں جو کچھ نفع ہو وہ میرے اور تمھارے مابین نصف نصف یا اسی قسم کے دیگر الفاظ، اِس صورت میں ایک تہائی مضارِب ثانی کی اور بقیہ میں مالک اور مضارِب اول دونوں برابر کے شریک یعنی ہر ایک کو ایک ایک تہائی ملے گی، یوہیں اگر مضارِب ثانی کے لیے تہائی سے زیادہ یا کم کی شرط تھی تو جو اس کے لیے ٹھہرا تھا یہ لے لے اور باقی ان دونوں میں نصف نصف تقسیم ہو،یوہیں اگر مالک نے کہہ دیا تھا کہ جو کچھ تمھیں نفع ہو وہ ہم دونوں کے مابین نصف نصف اور اس نے دوسرے کو نصف نفع پردے دیا تو جو کچھ نفع ہوگا مضارِب ثانی اس میں سے نصف لے لے گااور ما بقی(4) ان دونوں کے مابین نصف نصف اور اگرمالک نے کہا تھا کہ خدا اس میں جو
1… ’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۰۔ 2… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السابع فی المضارب۔۔۔إلخ، ج۴،ص۲۹۹۔ 3… المرجع السابق۔4…یعنی جوکچھ بچے۔ نفع دے گا یا خدا کا جوکچھ فضل ہوگا وہ دونوں کے مابین نصف نصف اور مضارب اوّل نے دوسرے کو نصف نفع پر دے دیا تو جو کچھ نفع ہوگا اُس میں سے آدھا مضارِب ثانی لے گا اور آدھا مالک لے گا اور مضارِب اوّل کے لیے کچھ نہیں بچا اور اگر اس صورت میں مضارِب اوّل نے دوسرے سے دو تہائی نفع کے لیے کہہ دیاتھا تو آدھا نفع مالک لے گا اور دو تہائی مضارِب ثانی کی ہوگی یعنی جو کچھ نفع ہوا ہے اُس کا چھٹا حصہ مضارِب اوّل دوسرے کو اپنے گھر سے دے گا تاکہ دو تہائیاں پوری ہوں ۔(1) (ہدایہ، درمختار) مسئلہ ۴۵: مضارِب اوّل نے مضارِب دوم کو یہ کہہ کر دیا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو اور مضارِب اوّل کو مالک نے بھی یہی کہہ کر دیا تھا تو مضارِب دوم تیسرے شخص کو مضارِبت پر دے سکتا ہے اور اگر مضارِب اوّل نے یہ کہہ کر نہیں دیا تھا کہ اپنی رائے سے کام کروتو مضارِب دوم سوم کو نہیں دے سکتا۔(2) (عا لمگیری) مسئلہ ۴۶: مضارِب نے یہ شرط کی تھی کہ ایک تہائی مالک کی اور ایک تہائی مالک کے غلام کی وہ بھی میرے ساتھ کام کرے گا اور ایک تہائی میری ،یہ بھی صحیح ہے اور نفع اسی طرح تقسیم ہوگا اس کا مَحصل (3)یہ ہوا کہ دو تہائیاں مالک کی اور ایک مضارِب کی۔ اور اگر مضارِب نے اپنے غلام کے لیے ایک تہائی رکھی ہے اور ایک تہائی مالک کی اور ایک اپنی اور غلام کے عمل کی شرط نہیں کی ہے تو یہ نا جائز ہے اور اس کا حصہ رب المال کو ملے گا یہ (4)جبکہ غلام پر دَین ہو، ورنہ صحیح ہے اُس کے عمل کی شرط ہو یا نہ ہو اور اُس کے حصہ کا نفع مضارِب کے لیے ہوگا۔(5) (درمختار، بحر) مسئلہ ۴۷: غلام ماذون نے اجنبی کے ساتھ عقدِمضارَبت کیا اور اپنے مولیٰ کے کام کرنے کی شرط کردی اگرماذون پر دَین نہیں ہے یہ مضارَبت صحیح نہیں ورنہ صحیح ہے اسی طرح یہ شر ط کہ مضارِب اپنے مضارِب کے ساتھ یعنی مضارِب اوّل مضارِب ثانی کے ساتھ کام کرے گا یا مضارِب ثانی کے ساتھ مالک کام کرے گا جائز نہیں ہے اس سے مضارَبت فاسد ہو جاتی ہے۔ (6)(درمختار)
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۲،ص۲۰۵۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۰۔ 2…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السابع فی المضارب۔۔۔إلخ،ج۴،ص۳۰۰۔ 3…حاصل۔ 4…یعنی یہ اُس وقت ہے ۔ 5…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۰۔ و’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۷،ص۴۵۴۔ 6…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۱۔ مسئلہ ۴۸: یہ شرط کی کہ اتنا نفع مسکینوں کو دیا جائے گا یا حج میں دیا جائے گا یا گردن چھڑانے میں یعنی مکاتب کی آزادی میں اس سے مدد دی جائے گی یا مضارِب کی عورت کو یا اُس کے مکاتب کو دیا جائے گا یہ شرط صحیح نہیں ہے مگر مضارَبت صحیح ہے اور یہ حصہ جو شرط کیا گیا ہے رب المال کو ملے گا۔ (1)(درمختار) مسئلہ ۴۹: یہ شرط کی کہ نفع کا اتنا حصہ مضارِب جس کو چاہے دے دے اگر اُس نے اپنے لیے یا مالک کے لیے چاہا تو یہ شرط صحیح ہے اور کسی اجنبی کے لیے چاہا تو صحیح نہیں ۔ اجنبی کے لیے نفع کا حصہ دینا شرط کیا اگر اُس کا عمل بھی مشروط ہے یعنی وہ بھی کام کرے گا اور اتنا اُسے دیا جائے گا تو شرط صحیح ہے اور اُس کا کام کرنا شرط نہ ہو تو صحیح نہیں اور اس کے لیے جو کچھ دینا قرار پایا ہے مالک کو دیا جائے گا۔ یہ شرط ہے کہ نفع کا اتناحصہ دَین کے ادا کرنے میں صرف کیا جائے گا یعنی مالک کا دَین اُس سے ادا کیا جائے گا یا مضارِب کا دَین ادا کیا جائے گا یہ شرط صحیح ہے اور یہ حصہ اُس کا ہے جس کا دَین ادا کرنا شرط ہے اور اُس کو اِس بات پر مجبور نہیں کر سکتے کہ قرض خواہوں کو دے دے۔ (2) (درمختار، بحر) مسئلہ ۵۰: دونوں میں سے ایک کے مرجانے سے مضارَبت باطل ہوجاتی ہے، دونوں میں سے ایک مجنون ہوجائے اور جنون بھی مطبق(3)ہو تو مضاربت باطل ہوجائے گی مگر مالِ مضاربت اگر سامانِ تجارت کی شکل میں ہے اور مضارِب مرگیا تو اُس کا وصی ان سب کو بیچ ڈالے اور اگر مالک مرگیااور مالِ تجارت نقد کی صورت میں ہے تو مضارِب اس میں تصرّف نہیں کر سکتا (4) ہے اور سامان کی شکل میں ہے تو اُس کو سفر میں نہیں لے جاسکتا ،بیع کرسکتا ہے۔ (5)(ہدایہ، درمختار) مسئلہ ۵۱: مضارِب مرگیا اور مال مضاربت کا پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہے یہ مضارِب کے ذمّہ دَین ہے جو اُس کے ترکہ سے وصول کیا جائے گا۔(6) (درمختار) مسئلہ ۵۲: مضارِب مرگیااُس کے ذمّہ دَین ہے مگر مالِ مضارَبت معروف ومشہور ہے لوگ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں
1…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۱۔ 2…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۲۔و’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضاربۃیضارب،ج۷،ص۴۵۵۔ 3 …ایسا جنون جوایک ماہ مسلسل رہے۔ 4…یعنی اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا۔ 5…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی العزل والقسمۃ،ج۲،ص۲۰۶۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۲۔ 6…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۲۴۔ مضارَبت کی ہیں دَین والے اس مال سے دَین وصول نہیں کرسکتے بلکہ راس المال اور نفع کا حصہ رب المال لے گا نفع میں جو مضارِب کا حصہ ہے وہ دَین والے اپنے دَین میں لے سکتے ہیں ۔(1) (ردالمحتار) مسئلہ ۵۳: رب المال معاذاللہمرتد ہوکر دارالحرب کو چلاگیاتومضاربت باطل ہوگئی اور مضارِب مرتد ہوگیا تو مضاربت بدستور باقی ہے پھر اگر مرجائے یا قتل کیا جائے یا دارالحرب کو چلاجائے اور قاضی نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ چلاگیا تو اس صورت میں مضاربت باطل ہوگئی۔(2) (درمختار) مسئلہ ۵۴: مضارِب کو رب المال معزول کرسکتا ہے بشرطیکہ اُس کو معزولی کا علم ہوجائے یہ خبر دو مردوں کے ذریعہ سے اُسے ملی یا ایک عادل نے اُسے خبر دی یا مالک کے قاصد نے خبر دی اگر چہ یہ قاصد بالغ بھی نہ ہو، سمجھ وال ہونا کافی ہے اور اگر مالک نے معزول کردیا مگر مضارِب کوخبر نہ ہوئی تو معزول نہیں جو کچھ تصرّف(3) کرے گا صحیح ہوگا۔(4) (درمختار وغیرہ) مسئلہ ۵۵: مضارِب معزول ہوا اور مال نقد کی صورت میں ہے یعنی روپیہ اشرفی ہے تو اس میں تصرّف کرنے کی اجازت نہیں ہاں اگر راس المال روپیہ تھا اور اس وقت اشرفی ہے تو ان کو بھناکر(5) روپیہ کرلے اسی طرح اگر راس المال اشرفی تھا اور اس وقت روپیہ ہے تو ان کی اشرفیاں کرلے تاکہ نفع کا راس المال سے اچھی طرح امتیاز ہوسکے۔ (6)(ہدایہ) یہی حکم رب المال کے مرنے کی صورت میں ہے۔ (7)(عالمگیری) مسئلہ ۵۶: مضارِب معزول ہوا یا مالک مرگیا اور مال سامان (یعنی غیرنقد) کی شکل میں ہے تو مضارِب ان چیزوں کو بیچ کر نقد جمع کرے اُدھار بیچنے کی بھی اجازت ہے اور جو روپیہ آتا جائے ان سے پھر چیز خریدنی جائز نہیں ۔ مالک کو یہ اختیارنہیں کہ مضارِب کو اس صورت میں سامان بیچنے سے روک دے بلکہ یہ بھی نہیں کرسکتا ہے کہ کسی قسم کی قید اس کے ذمّہ لگائے۔ (8)(درمختار)
1…’’ردالمحتار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۲۵۔ 2…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۲۔3…خریدوفروخت،کام کاج۔ 4…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۳،وغیرہ۔5…سکے کی ریزگاری لے کر،سکہ تڑاکر۔ 6…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی العزل والقسمۃ،ج۲،ص۲۰۷۔7…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثامن عشرفی عزل المضارب ۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۲۹۔8…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۳۔ مسئلہ ۵۷: پیسے راس المال تھے مگر اس وقت مضارِب کے پاس روپے ہیں اور مالک نے مضارِب کو خرید وفروخت سے منع کردیا تو مضارِب سامان نہیں خرید سکتا مگر روپے کو بھنا کر پیسے کرسکتا ہے۔(1)(عا لمگیری) مسئلہ ۵۸: رب المال ومضارِب دونوں جدا ہوتے ہیں مضارَبت کو ختم کرتے ہیں اور مال بہت لوگوں کے ذمّہ باقی ہے اور نفع بھی ہے دَین وصول کرنے پر مضارِب مجبور کیا جائے گا اور اگر نفع کچھ نہیں ہے صرف راس المال ہی بھر ہے یا شاید یہ بھی نہ ہو اس صورت میں مضارِب کو دَین وصول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نفع نہ ہونے کی صورت میں یہ متبرّع ہے(2) اور متبرّع کو کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہاں اُس سے کہا جائے گا کہ رب المال کو دَین وصول کرنے کے لیے وکیل کردے کیونکہ بیع کی ہوئی مضارب کی ہے اور اُس کے حقوق اُسی کے لیے ہیں ، وکیل بالبیع(3) اور مستبضع(4) کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کو وصول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا مگر اس پر مجبور کیے جائیں گے کہ موکل(5) و مالک کو وکیل کردیں بخلاف دلال اور آڑھتی (6)کے کہ یہ ثمن وصول کرنے پر مجبور ہیں ۔ (7)(ہدایہ، عالمگیری) مسئلہ ۵۹: مضارَبت کا مال لوگوں کے ذمّہ باقی ہے مالک نے مضارِب کو وصول کرنے سے منع کردیا اُس کو اندیشہ ہے کہ مضارِب وصول کرکے کھا نہ جائے مالک کہتا ہے کہ میں خود وصول کروں گا تو اگر مال میں نفع ہے تو مضارِب ہی کو وصول کرنے کا حق ہے ا ور نفع نہیں ہے تو مضارِب کو روک سکتاہے پھر نفع کی صورت میں جن لوگوں پر دَین ہے اُسی شہر میں ہیں تو وصولی کے زمانہ کا نفقہ(8) مضارِب کو نہیں ملے گا اور دوسرے شہر میں ہیں تو مضارِب کے سفر کے اخراجات مالِ مضاربت سے دیے جائیں گے۔(9) (عالمگیری) مسئلہ ۶۰: مال مضاربت سے جو کچھ خریدا ہے اس کے عیب پر مضارِب کو اطلاع ہوئی تو مضارِب ہی کو دعویٰ کرناہوگا
1…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثامن عشرفی عزل المضارب۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۲۹۔ 2…یعنی احسان کرنے والا۔ 3…بیچنے کاوکیل۔ 4…جس کوکام کرنے کے لیے اس طورپرمال دیاگیاہوکہ تمام نفع مال والے کوملے گا۔ 5…وکیل کرنے والا۔ 6…ایجنٹ۔ 7…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی العزل والقسمۃ،ج۲،ص۲۰۷۔ و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثامن عشرفی عزل المضارب۔۔۔إلخ،ج۴،ص۳۲۹،۳۳۰۔ 8…کھانے،پینے وغیرہ کے اخراجات۔ 9…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثامن عشرفی عزل المضارب۔۔۔إلخ،ج۴،ص۳۳۰۔ رب المال کو اِس سے تعلّق نہیں اور اگر بائع یہ کہتا ہے کہ عیب پر یہ راضی ہوگیا تھا یا میں نے عیب سے براء ت کرلی تھی یا عیب پر مطلع ہونے کے بعد یہ خود بیع کررہاتھا تو مضارِب پر حلف (1)دیاجائے گا پھر اگرمضارِب ان اُمور کا اقرار کرلے یا حلف سے نکول (2)کرے تو بائع پر(3) واپس نہیں کیا جائے گا اور یہ مضارَبت کا مال قرار پائے گا۔(4) (عا لمگیری) مسئلہ ۶۱: مضارِب نے مال بیچا مشتری(5) کہتا ہے اس میں عیب ہے اور یہ عیب اِس مدت میں مشتری کے یہاں پیدا ہوسکتا ہے اور مضارِب نے اقرارکرلیا کہ یہ عیب میرے یہاں تھا اس کے اقرار کی وجہ سے قاضی نے واپس کردیا یا اس نے بغیر قضائے قاضی(6) خود واپس لے لیا یا مشتری نے اِقالہ چاہا اس نے اقالہ کرلیا یہ سب جائز ہے یعنی اب بھی یہ مضاربت کا مال ہے۔(7) (عالمگیری) مسئلہ ۶۲: جس چیز کومضارِب نے خریدا اُسے دیکھا نہیں تو مضارِب کو خیار رویت حاصل ہے اگر چہ رب المال دیکھ چکاہے۔ دیکھنے کے بعدمضارِب کو ناپسند ہے واپس کرسکتا ہے اور اگر مضارِب دیکھ چکا ہے تو خیار رویت حاصل نہیں اگر چہ رب المال نے نہ دیکھی ہو۔ (8)(عالمگیری)نفع کی تقسیم
مسئلہ۶۳: مال مضارَبت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہوگا وہ نفع کی طرف شمار ہوگا راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جاسکتا مثلاً سو روپے تھے تجارت میں بیس۲۰روپے کا نفع ہوا اور دس ۱۰ روپے ضائع ہوگئے تو یہ نفع میں منہا کیے جائیں گے یعنی اب دس ۱۰ہی روپے نفع کے باقی ہیں اگر نقصان اتنا ہوا کہ نفع اُس کو پورا نہیں کرسکتا مثلاً بیس۲۰ نفع کے ہیں اور پچاس ۵۰ کانقصان ہوا تویہ نقصان راس المال میں ہوگا مضارِب سے کل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں اگر چہ وہ نقصان مضارِب کے ہی فعل سے ہوا ہو ہاں اگر جان بوجھ کر قصداً اُس نے نقصان پہنچایا مثلاًشیشہ کی چیز قصداً (9)اُس نے پٹک دی
1…قسم۔ 2…انکار۔ 3…بیچنے والے پر۔ 4… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب العاشر فی خیار العیب،ج۴،ص۳۰۸،۳۰۹۔ 5…خریدار۔ 6…قاضی کے فیصلے کے بغیر۔ 7… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘ ،کتاب المضاربۃ،الباب العاشر فی خیار العیب،ج۴،ص۳۰۹۔ 8…المرجع السابق۔ 9…ارادۃً،جان بوجھ کر۔ اس صورت میں تاوان دینا ہوگاکہ اس کی اُسے اجازت نہ تھی۔(1) (ہدایہ، درمختار) مسئلہ۶۴: مضارَبت میں نفع کی تقسیم اُس وقت صحیح ہوگی کہ راس المال رب المال کو دے دیا جائے راس المال دینے سے قبل تقسیم باطل ہے یعنی فرض کرو کہ راس المال ہلاک ہوگیا تو نفع واپس کرکے راس المال پورا کریں اس کے بعد اگر کچھ بچے توحسبِ قرارداد تقسیم کرلیں مثلاً ایک ہزار راس المال ہے اور ایک ہزارنفع۔ پان پانسو دونوں نے نفع کے لے لیے اور راس المال مضارب ہی کے پاس رہا کہ اس سے وہ پھر تجارت کرے گایہ ہزار ہلاک ہوگئے کام کرنے سے پہلے ہلاک ہوئے یا بعد میں ، بہرحال مضارب پانسو کی رقم رب المال کو واپس کردے اور خرچ کرچکا ہے تو اپنے پاس سے پانسو دے، کہ یہ رقم اور رب المال جو لے چکا ہے وہ راس المال میں محسوب(2) ہے اور نفع کاہلاک ہونا تصور ہوگا اور دو ہزارنفع کے تھے ایک ایک ہزار دونوں نے لیے تھے اسکے بعد راس المال ہلاک ہوا توایک ہزار جو مالک کو ملے ہیں ان کو راس المال تصور کیا جائے اور مضارب کے پاس جو ایک ہزار ہیں وہ نفع کے ہیں اِن میں سے رب المال پانسو وصول کرے۔(3)(عالمگیری) مسئلہ ۶۵: راس المال لے لینے کے بعد تقسیم صحیح ہے یعنی اب کوئی خرابی پڑے تو تقسیم پر اس کا کچھ اثر نہ ہوگا مثلاً راس المال لے لینے کے بعدنفع تقسیم کیا گیا پھر وہی راس المال مضارب کو بطور مضاربت دے دیا تو یہ جدید مضاربت ہے کہ مضارب کے پاس راس المال ہلاک ہو تو پہلی تقسیم نہیں توڑی جائے گی۔ (4)(عالمگیری) مسئلہ۶۶: رب المال و مضارِب دونوں سال پر یا ششماہی یا ماہوار حساب کرکے نفع تقسیم کرلیتے ہیں اور مضاربت کوحسبِ دستور باقی رکھتے ہیں اس کے بعد کُل مال یا بعض مال ہلاک ہوجائے تو دونوں نفع کی اتنی اتنی مقدار واپس کریں کہ راس المال پورا ہوجائے اور اگرسارا نفع واپس کرنے پر بھی راس المال پورا نہیں ہوتا تو سارا نفع واپس کر کے مالک کودے دیں اس کے بعد جو اور کمی رہ گئی ہے اُس کا تاوان نہیں اور اگر نفع کی رقم تقسیم کرنے کے بعدمضاربت کو توڑ دیتے ہیں اگر چہ یہ تقسیم راس المال ادا کرنے سے قبل ہوئی ہو اس کے بعد پھر جدید عقد کرکے کام کرتے ہیں توجو نفع تقسیم ہوچکا ہے وہ واپس نہیں لیا جاسکتا بلکہ جتنا نقصان ہوگا وہ نفع کے بعد راس المال ہی پر ڈالا جائے گا کیوں کہ اِس جدید
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی العزل والقسمۃ،ج۲،ص۲۰۷۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۴۔2…شمار۔ 3… ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السادس عشر فی قسمۃ الربح،ج۴،ص۳۲۱۔4…المرجع السابق۔ مضاربت کو پہلی مضارَبت سے کوئی تعلّق نہیں ہے مضارِب کو نقصان سے بچنے کی یہ اچھی ترکیب ہے۔ (1)(ہدایہ، عالمگیری) مسئلہ ۶۷: راس المال دینے کے بعد نفع کی تقسیم ہوئی مگر مالک کا حصہ بھی مضارِب ہی کے پاس رہا اُس نے ابھی قبضہ نہیں کیا تھا کہ یہ رقم ضائع ہوگئی توتنہا مالک کا حصہ ضائع ہونانہیں تصوّر کیا جائے گا بلکہ دونوں کا نقصان قرار پائے گا لہٰذامضارِب کے پاس نفع کی جو رقم ہے اُسے دونوں تقسیم کرلیں اور اگر مضارِب کا حصہ ضائع ہواتو یہ خاص اسی کا نقصان ہے کیونکہ یہ اپنے حصہ پر قبضہ کرچکاتھا اس کی وجہ سے تقسیم نہ توڑی جائے۔(2) (عالمگیری) مسئلہ ۶۸: نفع کے متعلق جو قرارداد ہو چکی ہے مثلاً نصف نصف یا کم و بیش اس میں کمی زیادتی کرنا جائز ہے مثلاً رب المال نے نصف نفع لینے کو کہا تھا اب کہتا ہے میں ایک تہائی ہی لوں گا یعنی مضارِب کا حصہ بڑھا دیا یوہیں مضارِب اپنا حصہ کم کردے یہ بھی جائز ہے اِسی جدید قرارداد پر نفع کی تقسیم ہوگی اگر چہ نفع اس قرارداد سے پہلے حاصل ہوچکا ہو۔(3) (عا لمگیری) مسئلہ ۶۹: وقتاً فوقتاً مضارِب سے سو ، پچاس ، دس ، بیس روپے لیتا رہا اور دیتے وقت مضارِب یہ کہتا تھا کہ یہ نفع ہے اب تقسیم کے وقت کہتا ہے نفع ہوا ہی نہیں وہ جو میں نے دیا تھا راس المال میں سے دیا تھا مضارِب کی بات قابل قبول نہیں ۔ (4)(خانیہ) مسئلہ ۷۰: مالک نے مضارِب سے کہا میرا راس المال مجھے دے دو جو باقی بچے تمھاراہے اگر مال موجود ہے اِس طرح کہنا ناجائز ہے یعنی مضارِب مابقی(5) کا مالک نہ ہوگا کہ یہ ہبۂ مجہولہ(6)ہے اور ایسا ہبہ جائز نہیں اور مضارِب صرف(7) کرچکا ہے تو یہ کہنا جائز ہے کہ اپنا مطالبہ معاف کرنا ہے اور اسکے لیے جہالت مضر نہیں ۔ (8)(عا لمگیری) مسئلہ ۷۱: مضارِب نے رب المال کو کچھ مال یا کل مال بضاعت کے طور پر دے دیا ہے کہ وہ کام کرے گا مگر اس کام کا اُسے بدلہ نہیں دیا جائے گا اور رب المال نے خرید و فروخت کرنا شروع کردیا اس سے مضاربت پر کچھ اثر نہیں پڑتا وہ
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی العزل والقسمۃ،ج۲،ص۲۰۷۔ و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السادس عشر فی قسمۃ الربح،ج۴،ص۳۲۱،۳۲۲۔ 2…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السادس عشر فی قسمۃ الربح،ج۴،ص۳۲۲۔3…المرجع السابق۔ 4…’’الفتاوی الخانیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،ج۲،ص۲۱۹۔ 5…یعنی جوباقی بچے۔ 6…نامعلوم چیزکاہبہ کرنا۔ 7…خرچ۔ 8…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السادس عشر فی قسمۃ الربح،ج۴،ص۳۲۲۔ بدستور سابق باقی ہے اور اگر مالک نے مضارِب کی بغیر اجازت مال لے کر خریدو فروخت کی تو مضاربت باطل ہوگئی اگر راس المال نقد ہو اور اگر راس المال سامان ہو اُس کو بغیر اجازت لے گیا اور اس کو سامان کے عوض میں بیع کیا تو مضاربت باطل نہیں ہوئی اور اگر روپے اشرفی کے بدلے میں بیچ دیا تو باطل ہوگئی۔ (1)(ہدایہ، درمختار) مسئلہ ۷۲: مضارِب نے رب المال کو مضاربت کے طور پر مال دیا یہ جائز نہیں یعنی یہ دوسری مضاربت صحیح نہیں ہے اور وہ پہلی مضارَبت حسب دستور باقی ہے۔ (2)(ہدایہ) مسئلہ ۷۳: مضارِب جب تک اپنے شہر میں کام کرتا ہے کھانے پینے اور دیگر مصارِف(3) مال مضاربت میں نہیں ہوں گے بلکہ تمام اخراجات کا تعلق مضارِب کی ذات سے ہوگا اور اگر پردیس جائے گا تو کھانا پینا کپڑا سواری اور عادۃً جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے متعلق تاجروں کاعرف ہویہ سب مصارِف مالِ مضارَبت میں سے ہوں گے دوا و علاج میں جو کچھ صرف ہوگا وہ مضاربت سے نہیں ملے گا یہ اُس صورت میں ہے کہ مضاربت صحیح ہو اور اگر مضاربت فاسد ہوتو پردیس جانے کے بعد بھی مصارِف اُس کی ذات پر ہوں گے مال مضاربت سے نہیں لے سکتا اور بضاعت (4)کے طور پر جو شخص کام کرتا ہو اُس کے مصارف بھی نہیں ملیں گے۔ (5)(ہدایہ) مسئلہ ۷۴: مصارف میں سے کپڑے کی دُھلائی اور اگر خود دھونا پڑے تو صابن بھی ہے ،اگر روٹی پکانے یا دوسرے کام کرنے کے لیے آدمی نوکر رکھنے کی ضرورت ہو تو اس کا صرفہ(6) بھی مضاربت سے وصول کیا جائے گا جانور کا دانہ چارہ بھی اسی میں سے ہوگا اور سواری کرایہ کی ملے کرایہ پر لی جائے اور خریدنے کی ضرورت پڑے مثلاً روز روز کا کام ہے کہاں تک کرایہ پر لے گا یا کرایہ پر ملتی نہیں ہے خریدلے دریائی سفر میں کشتی کی ضرورت ہے کرایہ پر یا مول لے بعض جگہ بدن میں تیل کی مالش کرانی ہوتی ہے اس کا صرفہ بھی ملے گا۔ (7)(ہدایہ)
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فیمایفعلہ المضارب،ج۲،ص۲۰۹۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات ،ج۸،ص۵۱۵۔ 2…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فیمایفعلہ المضارب،ج۲،ص۲۰۹۔ 3…اخراجات۔ 4…کسی سے مال لیکراس طورپرکام کرناکہ سارانفع مال والے کوملے گا۔ 5…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فیمایفعلہ المضارب،ج۲،ص۲۰۹۔ 6…خرچہ۔ 7…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فیمایفعلہ المضارب،ج۲،ص۲۰۹۔ مسئلہ ۷۵: مالک نے اپنے غلام اور اپنے جانور مضارِب کو بطور اِعانت سفر میں لے جانے کے لیے دے دیے اس سے مضاربت فاسد نہیں ہوگی اور غلاموں اور جانوروں کے مصارِف مضارِب کے ذمّہ ہیں مضارَبت سے ان کے اخراجات نہیں دیے جائیں گے اور مضارِب نے مال مضاربت سے ان پر صرف کیا (1) تو ضامن ہے مضارِب کو نفع میں سے جو حصہ ملے گا اُس میں سے یہ مصارف منہا ہوں گے(2) اور کمی پڑے گی تو اُس سے لی جائے گی اور مصارف سے کچھ بچ رہا تو اُسے دے دیا جائے گا ہاں اگر رب المال نے کہہ دیا کہ میرے مال سے ان پر صرف کیا جائے تو مصارف اُسی کے مال سے محسوب (3)ہوں گے۔(4) (عالمگیری) مسئلہ ۷۶: ہزار روپے مضارِب کودیے تھے اُس نے کام کیا اور نفع بھی ہوا اور مالک مرگیا اور اُس پر اتنا دَین ہے جوکُل مال کو مستغرق (5)ہے تو مضارِب اپنا حصہ پہلے لے لے گا اس کے بعد قرض خواہ اپنے دَین وصول کریں گے اور اگر یہ مضاربت فاسد ہو تو مضارِب کو اُجرتِ مثل ملے گی اور وہ رب المال کے ذمّہ ہوگی جس طرح دیگر قرض خواہ اپنے دَین لیں گے یہ بھی حصۂ رسد کے موافق(6) پائے گا۔ (7)(عالمگیری) مسئلہ ۷۷: خریدنے یا بیچنے پر کسی کو اجیر کیا یعنی نوکر رکھا یہ اجارہ درست نہیں کیونکہ جس کام پر اُس کو اجیر کرتا ہے اُس کے اختیار میں نہیں اگر خریدار نہ لے تو کس کے ہاتھ بیچے اور بائع نہ بیچے تو کیوں کر خریدے لہٰذا اسکے جواز کا طریقہ یہ ہے کہ مدّتِ معین کے لیے کام کرنے پر نوکر رکھے اور اس کام پر لگا دے۔(8) (درمختار) مسئلہ ۷۸: مضارِب نے حاجت سے زیادہ صرفہ کیا ایسے مصارف کے لیے جو تجار کی عادت میں نہیں ہیں ان تمام مصارف کا تاوان دینا ہوگا۔ (9)(ہدایہ) مسئلہ ۷۹: اگر وہ شہر مضارِب کامولدنہیں ہے مگر وہیں کی سکونت(10) اُس نے اختیار کرلی ہے تو مال مضاربت
1…خرچ کیا۔ 2…کٹوتی کر لیے جائیں گے ۔ 3…شمار۔ 4…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ، الباب الثانی عشر فی نفقۃ المضارب،ج۴،ص۳۱۳۔ 5…گھیرے ہوئے ۔ 6…جتنا اس کے حصہ میں آئے گا اس کے موافق۔ 7…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ، الباب الثالث والعشرون فی المتفرقات،ج۴،ص۳۳۴۔ 8…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۸،ص۵۱۴ ۔ 9…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فیما یفعلہ المضارب،ج۲،ص۲۰۹۔10…رہائش۔ سے مصارف نہیں لے سکتا اور اگر وہاں نیت اقامت کرکے مقیم ہوگیا مگر وہاں کی سکونت نہیں اختیار کی ہے تو مال مضاربت سے وصول کرے گا۔ یہاں پردیس جانے یا سفر سے مراد سفرِشرعی نہیں ہے بلکہ اتنی دور چلاجانا مراد ہے کہ رات تک گھر لوٹ کرنہ آئے اور اگر رات تک گھر لوٹ کر آجائے تو سفر نہیں مثلاً دیہات کے بازار کہ دوکاندار وہاں جاتے ہیں مگر رات میں ہی گھر واپس آجاتے ہیں ۔(1) (بحر) مسئلہ۰ ۸: ایک شخص دوسرے شہر کا رہنے والا ہے اور مال مضاربت دوسرے شہرمیں لیا مثلاً مراد آباد کا رہنے والا ہے اور بریلی میں آکر مال لیا تو جب تک بریلی میں ہے اُس کو مصارف نہیں ملیں گے اور جب بریلی سے چلا اب مصارف ملیں گے جب تک مراد آباد پہنچ نہ جائے۔ اور جب مراد آباد میں ہے یہ اُس کا وطنِ اصلی ہے یہاں نہیں ملیں گے اب اگر یہاں سے بغرض تجارت چلے گا توملیں گے بلکہ پھر بریلی پہنچ گیا اور کاروبار کے لیے جب تک ٹھہرے گا مصارف ملتے رہیں گے کیونکہ یہاں تجارت کے لیے ٹھہرنا ہے ہاں اگر بریلی بھی اُس کا وطن ہو مثلاً اُس کے بال بچے یہاں بھی رہتے ہیں ،یہاں اُس نے شادی کرلی ہے تو جب تک یہاں رہے گا خرچ نہیں ملے گا کہ یہ بھی وطن ہے۔ (2)(بحر، درمختار) مسئلہ ۸۱: کسی شہر کو مال خریدنے گیا اور وہاں پہنچ بھی گیا مگر کچھ خریدا نہیں ویسے ہی واپس آیا تو اس صورت میں بھی مصارف مال مضاربت سے ملیں گے۔(3) (عالمگیری) مسئلہ ۸۲: مالک نے مضارِب سے کہہ دیا تھا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو اور مضارِب نے کسی دوسرے کو مضاربت کے طور پر مال دے دیا یہ مضارِبِ دوم ا گر سفر کرے گا تو مصارف مال مضاربت سے ملیں گے۔(4)(عالمگیری) مسئلہ۸۳: مضارِب کچھ اپنا مال اور کچھ مال مضاربت دونوں کو لے کر سفر میں گیا یا اس کے پاس دو شخصوں کے مال ہیں اِن صورتوں میں بقدر حصہ دونوں پر خرچہ ڈالا جائے گا۔ (5)(درمختار)
1…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۷،ص۴۵۸۔ 2…’’البحرالرائق‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج۷،ص۴۵۸۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۱۶۔ 3…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثانی عشر فی نفقۃ المضارب،ج۴،ص۳۱۳۔ 4…المرجع السابق۔ 5…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۱۶۔ مسئلہ۸۴: مضارِب نے سفر میں ضرورت کی چیزیں خریدیں اور خرچ کرتا رہا یہاں تک کہ اپنے وطن میں پہنچ گیا اور کچھ چیزیں باقی رہ گئی ہیں تو حکم یہ ہے کہ جو کچھ بچے سب مال مضاربت میں واپس کرے کیوں کہ اُن چیزوں کا صرف کرنا اب جائز نہیں ۔ (1)(ہدایہ) مسئلہ ۸۵: مضارِب نے اپنے مال سے تمام مصارف کیے اور قصد (2)یہ ہے کہ مالِ مضاربت سے وصول کرے گاایسا کرسکتا ہے یعنی وصول کرسکتا ہے اور اگر مال مضاربت ہی ہلاک ہوگیا تو رب المال سے ان مصارف کو نہیں لے سکتا۔(3)(درمختار) مسئلہ۸۶: جو کچھ نفع ہوا پہلے اس سے وہ اخراجات پورے کیے جائیں گے جو مضارِب نے راس المال سے کیے ہیں جب راس المال کی مقدار پوری ہوگئی اُس کے بعد کچھ نفع بچا تو اُسے دونوں حسبِ شرائط تقسیم کرلیں اور نفع کچھ نہیں ہے تو کچھ نہیں مثلاً ہزار روپے دیے تھے سو۱۰۰ روپے مضارب نے اپنے اوپر خرچ کر ڈالے اور سو ہی روپے بالکل نفع کے ہیں کہ یہ پورے خرچ میں نکل گئے اور کچھ نہیں بچا اور اگر نفع کے سو سے زیادہ ہوتے تو وہ تقسیم ہوتے۔(4) (درمختار) مسئلہ ۸۷: جو کچھ مصارف ہوئے نفع کی مقدار اُس سے کم ہے تو مصارف کی بقیہ رقم راس المال سے پوری کی جائے۔(5) (عالمگیری) مسئلہ ۸۸: مضارب مرابحہ کرنا چاہتاہے تو جو کچھ مال پر خرچ ہوا ہے ، بار برداری ،(6) دلالی، (7)اُن تھانوں کی دُھلائی، رنگائی اور ان کے علاوہ وہ تمام چیزیں جن کو راس المال میں شامل کرنے کی عادت ہے اِن سب کو ملا کر مرابحہ کرے اور یہ کہے اتنے میں یہ چیز پڑی ہے یہ نہ کہے کہ میں نے اتنے میں خریدی ہے کہ یہ غلط ہے اور جو کچھ مصارف مضارِب نے اپنے متعلق کیے ہیں وہ بیع مرابحہ میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔ (8)(درمختار)
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فیما یفعلہ المضارب،ج۲،ص۲۰۹۔ 2…ارادہ۔3…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۱۷۔ 4…المرجع السابق۔ 5…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثانی عشر فی نفقۃ المضارب،ج۴،ص۳۱۳۔ 6…مزدوری۔ 7…یعنی دلال کی اُجرت۔ 8…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۱۷۔ مسئلہ ۸۹: مضارِب نے ایک چیز رب المال سے ہزارروپے میں خریدی جس کو رب المال نے پانسو میں خریدا تھااس کا مرابحہ پانسو پر ہوگا نہ کہ ہزار پر یعنی مرابحہ میں یہ بیع کالعدم سمجھی جائے گی۔ اسی طرح اس کا عکس یعنی رب المال نے مضارِب سے ایک چیز ہزارمیں خریدی جس کو مضارِب نے پانسومیں خریدا تھا تو مرابحہ پانسو پر ہوگا۔ (1)(ہدایہ)بیع مرابحہ وتولیہ کے مسائل کتاب البیوع(2) میں مفصل مذکور ہوچکے ہیں وہاں سے معلوم کیے جائیں ۔ مسئلہ ۹۰: مضارِب کے پاس ہزار روپے آدھے نفع پر ہیں اس نے ہزار روپے کا کپڑا خریدا اور دو ہزار میں بیچ ڈالا پھر دو ہزار کی کوئی چیز خریدی اور ثمن ادا کرنے سے پہلے کل روپے یعنی دونوں ہزار ضائع ہوگئے پندرہ سو روپے مالک بائع کو دے اور پانسو مضارِب دے کیونکہ دو ہزار میں مالک کے پندرہ سو تھے اور مضارِب کے پانسو لہٰذا ہر ایک اپنے اپنے حصہ کی قدر بائع کو ادا کرے اس مبیع میں ایک چوتھائی مضارِب کی مِلک ہے کیونکہ ایک چوتھائی اس نے قیمت دی ہے اور یہ چوتھائی مضاربت سے خارج ہے اور باقی تین چوتھائیاں مضاربت کی ہیں اور راس المال کل وہ رقم ہے جو مالک نے دی ہے یعنی دو ہزار پانسو مگر مضارِب اس چیز کامرابحہ کرے گا تو دوہی ہزار پر کرے گا زیادہ پر نہیں کیوں کہ یہ چیز دو ہی ہزار میں خریدی ہے لیکن فرض کرو اس چیز کو دوچند قیمت پر اگر فروخت کیا یعنی چار ہزار میں تو ایک ہزار صرف مضارِب لے گا کہ چوتھائی کا یہ مالک تھا اور پچیس سو ۲۵۰۰ راس المال کے نکالے جائیں اور باقی پانسو دونوں نصف نصف تقسیم کرلیں یعنی ڈھائی ڈھائی سو۔ (3)(ہدایہ) مسئلہ ۹۱: مضارب نے راس المال سے ابھی چیز خریدی بھی نہیں کہ راس المال تلف (4) ہوگیا تو مضاربت باطل ہوگئی اور چیز خریدلی ہے اور ابھی ثمن ادا نہیں کیا ہے کہ مضارب کے پاس سے روپیہ ضائع ہوگیا رب المال سے پھر لے گا پھر ضائع ہو جائے تو پھر لے گا وعلیٰ ہذالقیاس (5)اور راس المال تمام وہ رقم ہوگی جو مالک نے یکے بعد دیگرے دی ہے بخلاف وکیل بالشراء (6) کہ اگر اس کو روپیہ پہلے دے دیا تھا اور خریدنے کے بعد روپیہ ضائع ہوگیا تو ایک مرتبہ موکل سے لے سکتا ہے اب اگر ضائع ہوجائے تو موکل سے نہیں لے سکتا اور اگر پہلے وکیل کونہیں دیا تھا خریدنے کے بعد دیا اور ضائع ہوگیا تو اب بالکل موکل سے نہیں لے سکتا۔ (7)(ہدایہ، عالمگیری)
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل آخر،ج۲،ص۲۱۰۔ 2…بہارشریعت،جلد ۲،حصہ۱۱،بیع کابیان۔3…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل آخر،ج۲،ص۲۱۰۔ 4…ضائع۔ 5…یعنی روپیہ ضائع ہوتا رہے توپھر لیتا رہے گا۔ 6…خریدنے کا وکیل۔ 7…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل آخر،ج۲،ص۲۱۱۔ و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب الرابع عشر فی ہلاک مال المضاربۃ۔۔۔إلخ،ج۴،ص۳۱۸،۳۱۹۔دونوں میں اختلاف کے مسائل
مسئلہ ۹۲: مضارِب کے پاس دو ہزار روپے ہیں اور کہتا یہ ہے کہ ایک ہزار تم نے دیے تھے اور ایک ہزار نفع کے ہیں اور رب المال یہ کہتا ہے کہ میں نے دو ہزار دیے ہیں اگر کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو مضارِب کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ نفع کی مقدار میں بھی اختلاف ہو مضارِب کہتا ہے کہ میرے لیے آدھے نفع کی شرط تھی اور رب المال کہتا ہے ایک تہائی نفع تمھارے لیے تھا تو اس میں رب المال کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے اور اگر دونوں میں سے کسی نے اپنی بات کو گواہوں سے ثابت کیا تو اُسی کی بات مانی جائے گی اور اگر دونوں گواہ پیش کریں تو راس المال کی زیادتی میں رب المال کے گواہ معتبرہیں اور نفع کی زیادتی میں مضارِب کے گواہ معتبر۔(1) (ہدایہ، درمختار) مسئلہ۹۳: مضارِب کہتا ہے راس المال میں نے تمھیں دے دیا اور یہ جو کچھ میرے پاس ہے نفع کی رقم ہے اس کے بعد پھر کہنے لگا میں نے تمھیں نہیں دیا بلکہ ضائع ہوگیا تو مضارِب کو تاوان دینا ہوگا۔ (2)(عالمگیری) مسئلہ۹۴: ایک ہزار روپے اُس کے پاس کسی کے ہیں مالک کہتا ہے یہ بطوربضاعت دیے تھے(3) اس میں ایک ہزار نفع ہوا ہے یہ خاص میرا ہے اور وہ کہتا ہے مضاربت بالنصف کے طور پر مجھے دیے تھے(4) لہٰذا آدھا نفع میرا ہے اِس صورت میں مالک کا قول معتبر ہے کہ یہی منکر ہے۔ یوہیں اگر مضارِب کہتا ہے کہ یہ روپے تم نے مجھے قرض دیے تھے لہٰذا کل نفع میرا ہے اور مالک کہتا ہے میں نے امانت یا بضاعت یا مضاربت کے طور پر دیے تھے اس میں بھی رب المال ہی کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے اور دونوں نے گواہ پیش کیے تومضارِب کے گواہ معتبر ہیں اور اگر مالک کہتا ہے میں نے قرض دیے تھے اور مضارِب کہتا ہے بطور مضاربت دیے تھے تو مضارب کا قول معتبر ہے اور جو گواہ قائم کردے اُس کے گواہ معتبر ہیں اور اگر دونوں نے گواہ پیش کیے تومالک کے گواہ معتبر ہوں گے۔ (5)(درمختار) مسئلہ ۹۵: مضارِب کہتا ہے تم نے ہر قسم کی تجارت کی مجھے اجازت دی تھی یا مضاربت مطلق تھی یعنی عام یا خاص
1…’’الھدایۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی الإختلاف،ج۲،ص۲۱۱۔ و’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۲۲۔ 2…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب المضاربۃ،الباب السابع عشر فی الإختلاف۔۔۔إلخ،النوع الرابع،ج۴،ص۳۲۵۔ 3…یعنی سارا نفع میرے لئے مقرر تھا۔ 4…یعنی آدھا آدھا نفع مقرر تھا۔ 5…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۲۳۔ کسی کا ذکر نہ تھا اور مالک کہتا ہے میں نے خاص فلاں چیز کی تجارت کے لیے کہہ دیا تھا اس میں مضارِب کا قول معتبر ہے۔ اور اگر دونوں ایک ایک چیز کو خاص کرتے ہوں مضارِب کہتا ہے مجھے کپڑے کی تجارت کے لیے کہہ دیا تھا مالک کہتا ہے میں نے غلّہ کے لیے کہا تھا تو قول مالک کا معتبر ہے اور گواہ مضارِب کے۔ اور اگر دونوں کے گواہوں نے وقت بھی بیان کیا مثلاً مضارِب کے گواہ کہتے ہیں کہ کپڑے کی تجارت کے لیے رمضان میں کہا تھا اور مالک کے گواہ کہتے ہیں غلّہ کی تجارت کے لیے دیے تھے اور شوال کا مہینہ مقرر کردیا تھا تو جس کے گواہ آخروقت بیان کریں وہ معتبر۔(1) (درمختار) یہ اُس وقت ہے کہ عمل کے بعد اختلاف ہو اور اگر عمل کرنے سے قبل باہم اختلاف ہوا مضارِب عموم یا مطلق کا دعویٰ کرتا ہے اور رب المال کہتا ہے میں نے فلاں خاص چیز کی تجارت کے لیے کہا ہے تو رب المال کا قول معتبر ہے اِس انکار کے معنی یہ ہیں کہ مضارِب کو ہر قسم کی تجارت سے منع کرتا ہے۔ (2)(عالمگیری) مسئلہ ۹۶: مضارِب کہتا ہے میرے لیے آدھا یا تہائی نفع ٹھہرا تھا اور مالک کہتا ہے تمھارے لیے سو روپے ٹھہرے تھے یا کچھ شرط نہ تھی لہٰذامضاربت فاسد ہوگئی اور تم اُجرت مثل کے مستحق ہو اس میں رب المال کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے۔(3) (عالمگیری) مسئلہ ۹۷: وصی (4)نے نابالغ کے مال کو بطورِ مضارَبت خود لیا یہ جائز ہے بعض علماء اس میں یہ قید اضافہ کرتے ہیں کہ اپنے لیے اُتنا ہی نفع لینا قرار دیا ہو جو دوسرے کو دیتا۔(5) (درمختار) مسئلہ۹۸: مضارِب نے راس المال سے کوئی چیز خریدی ہے اور کہتا ہے اسے ابھی نہیں بیچوں گا جب زیادہ ملے گا اُس وقت بیع کروں گا اور مالک یہ کہتاہے کچھ نفع مل رہا ہے اسے بیع کر ڈالو مضارِب بیچنے پر مجبور کیا جائے گا ہاں اگر مضارِب یہ کہتا ہے میں تمھارا راس المال بھی دوں گا اور نفع کا حصہ بھی دوں گا اس وقت مالک کو اِس کے قبول پر مجبور کیا جائے گا۔ (6)(درمختار)
1…’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۲۴۔ 2…’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب السابع عشرفی الإختلاف۔۔۔إلخ،النوع الثانی،ج۴،ص۳۲۳۔ 3…المرجع السابق،النوع الثالث،ص۳۲۴۔ 4…وہ شخص جسے مرنے والا اپنی وصیت پوری کرنے کے لیے مقررکرے۔ 5 …’’الدرالمختار‘‘،کتاب المضاربۃ،فصل فی المتفرقات،ج۸،ص۵۲۴۔ 6…المرجع السابق۔متفرق مسائل
مسئلہ ۱: مضارِب کو روپے دیے کہ کپڑے خرید کر اُسے قطع کر کے سی کر فروخت کرے اور جو کچھ نفع ہوگا وہ دونوں میں نصف نصف تقسیم ہوجائے گا یہ مضارَبت جائز ہے یوہیں مضارِب سے یہ کہا کہ یہ روپے لو اور چمڑا خرید کر موزے یا جوتے طیار کرو اور فروخت کرو یہ مضاربت بھی جائز ہے۔ (1)(عالمگیری) مسئلہ ۲: ایک ہزار روپے مضاربت پر ایک ماہ کے لیے دیے اور کہہ دیا کہ مہینہ گزر جائے گا تو یہ قرض ہوگا تو جیسا اُس نے کہا ہے وہی سمجھا جائے گامہینہ گزر گیا اور روپے بدستور باقی ہیں تو قرض ہیں اور سامان خرید لیا تو جب تک انھیں بیچ کر روپے نہ کرلے قرض نہیں ۔ (2)(عا لمگیری) مسئلہ ۳: مضارِب کو مالک نے پیسے دیے تھے کہ ان سے تجارت کرے ابھی سامان خریدا نہ تھا کہ اُن کا چلن بند ہوگیا مضاربت فاسد ہوگئی پھر اگر مضارِب نے ان سے سودا خرید کر نفع یا نقصان اُٹھایا وہ رب المال کا ہو گا اور مضارِب کو اُجرتِ مثل ملے گی اور اگر مضارِب کے سامان خریدلینے کے بعد وہ پیسے بند ہوئے تو مضاربت بدستور باقی ہے پھر سامان بیچنے کے بعد جو رقم حاصل ہوگی اس سے پیسوں کی قیمت رب المال کو ادا کرے اس کے بعد جو بچے اُسے حسبِ قرار داد تقسیم کیا جائے۔(3) (عالمگیری) مسئلہ ۴: باپ نے بیٹے کے لیے کسی شخص سے مضاربت پر مال لیا یوں کہ اِس مال سے بیٹے کے لیے باپ کام کرے گا چنانچہ اُس نے کام کیا اور نفع بھی ہوا تو یہ نفع رب المال اور باپ میں حسب قرارداد تقسیم ہوگابیٹے کو کچھ نہیں ملے گا اگر بیٹا اتنا بڑا ہے کہ اس کے ہم جولی (4) خریدو فروخت کرتے ہیں اور باپ نے اس طور پر مال لیا ہے کہ لڑکا خریدو فروخت کرے گا اور نفع آدھا آدھا دونوں کو ملے گا یہ مضاربت جائز ہے اور جو کچھ نفع ہوگا وہ رب المال اور لڑکے میں آدھا آدھا تقسیم ہوجائے گا۔ یوہیں اگر اس صورت میں لڑکے کے کہنے سے باپ نے کام کیا ہے تو آدھا نفع لڑکے کو ملے گا اور اُس کے بغیر کہے اس نے کام کیا تو مال کا ضامن ہے اور نفع اسی کو ملے گا مگر اسے صدقہ کردے۔ وصی کے لیے بھی یہی احکام ہیں ۔ (5)(عالمگیری)
1 …’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثالث والعشرون فی المتفرقات،ج۴،ص۳۳۴۔ 2 …المرجع السابق۔ 3…المرجع السابق،ص۳۳۵۔ 4…ہم عمر۔5 …’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب المضاربۃ،الباب الثالث والعشرون فی المتفرقات،ج۴،ص۳۳۷۔ مسئلہ ۵: رب المال نے مال مضاربت کو واجبی قیمت (1) یا زائد پر بیع کرڈالا تو جائز ہے اور واجبی سے کم پر بیچا تو ناجائز ہے جب تک مضارِب بیع کی اجازت نہ دے دے۔(2) (عالمگیری) مسئلہ ۶: مضارِب اپنے چند ہمراہیوں کے ساتھ کسی سرا میں ٹھہرا اُن میں سے ایک یہیں حجرہ میں رہا باقی ساتھیوں کے ساتھ مضارِب باہَر چلاگیا کچھ دیر بعد یہ ایک بھی دروازہ کھلا چھوڑ کر چلاگیا اور مالِ مضارَبت ضائع ہوگیا اگر مضارِب کو اس پر اعتماد تھا تو مضارِب ضامن نہیں یہ ضامن ہے اور اگر مضارِب کو اس پر اعتماد نہ تھا تو خود مضارِب ضامن ہے۔ (3)(خانیہ) مسئلہ ۷: مضارِب کو ہزار روپے دیے کہ اگر خاص فلاں قسم کامال خریدو گے تو نفع جو کچھ ہوگا نصف نصف تقسیم ہوگا اور فلاں قسم کا مال خریدو گے تو کل نفع رب الما ل کا ہوگا اور فلاں قسم کا خریدو گے تو سا را نفع مضارِب کا ہوگا تو جیسا کہا ہے ویسا ہی کیا جائے گا یعنی قسم اول میں مضاربت ہے اور نفع نصف نصف ہوگا اور قسمِ دوم کا مال خریدا تو بضاعت ہے نفع رب المال کا اور نقصان ہوتو وہ بھی اُسی کا اور قسمِ سوم کا مال خریدا تو روپے مضارِب پر قرض ہیں نفع بھی اسی کا نقصان بھی اسی کا۔ (4)(عا لمگیری)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع