اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
باوفا شوہر
دُعائے نگرانِ شوریٰ: یا اللہ پاک جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ “ باوفا شوہر “ پڑھ یا سن لے اسے اور اس کے گھر والوں کو دنیا اور آخرت میں عافیت عطا فرمااور ان کے گھر کو امن کا گہوارہ بنا۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جس نے مجھ پر دن میں ہزارمرتبہ درود پاک پڑھے گا وہ مرے گا نہىں جب تک جنّت مىں اپنى جگہ نہ دىکھ لے۔ (الترغیب و الترہیب ، 2 / 328 ، حدیث : 22 )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت ابو عثمان حِیْرِی رحمۃ اللہ علیہ کی زوجۂ محترمہ حضرتِ بی بی مریم رحمۃ اللہ علیہا فرماتی ہیں : ایک مرتبہ میں نے اپنے سرتاج ابوعثمان ( رحمۃ اللہ علیہ ) سے تنہائی میں پوچھا : اے ابو عثمان! آپ کو اپنی زندگی کا کونسا عمل سب سے زیادہ پیاراہے؟فرمایا: اے مریم! جب میں جوان تھا تو اُس وقت میری رہائش “ رَے” (ایران)میں تھی۔ لوگ مجھے بہت پسند کرتےتھے ۔ سب کی خواہش تھی کہ میری شادی اُن کے گھر ہوجائے لیکن میں سب کوانکار کرد يتا۔ایک دن ایک عورت میرے پاس آکر یوں کہنے لگی: میں تیری محبت میں بہت زیادہ بے قرار ہوگئی ہوں، میری رات کی نیندیں اور دن کا چین برباد ہوگیاہے ،میں تجھے اُس کا واسطہ دے کر اِلتِجا کرتی ہوں جو دِلوں کو پھیرنے والا ہے کہ مجھ سے شادی کرلو ۔میں نے پوچھا:کیا تمہارے والد زندہ ہیں؟اُس نے جواب دیا: جی،وہ فُلاں محلےمیں درزی ہیں ۔میں نے اُس کے والد کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو وہ بہت خوش ہوا،اُس نے فوراً گاؤں کے مُعَزَّز لوگوں کو بُلاکر میرا نکاح اپنی بیٹی سے کردیا۔جب میں دُلہن کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میری نئی نویلی دُلہن ایک آنکھ سے محروم، پاؤں سے لنگڑی اور انتہائی بدشکل تھی ،اُسے دیکھ کر میں نے اللہ پاک کا شکر اداکرتے ہوئے کہا: اے میرے پرورد گار ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تُونے جو میرا مُقَدَّر بنایا میں اِس پر تیرا شکر گزار ہوں ۔ جب میرے گھر والوں کو میری زوجہ کی کیفیت معلوم ہوئی تواُنہوں نے مجھے خوب بُرا بھلا کہا ۔ میں نے اپنی زوجہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہ کی جو اُسے بُری لگتی بلکہ میں اس پر زیادہ مہربان ہوگیا اوراُسے ضرورت کی ہر شے فَراہَمْ کرتا۔ میری مَحبت وشفقت کی وجہ سے اُس کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی مجھ سے جدائی برداشت نہ کرتی۔ اپنی اِس مجبورو معذور بیوی کی خاطر میں نے دوستوں کی محفل میں جانا چھوڑدیا اورزیادہ وقت اسی کے پاس گزارنے لگا،تاکہ اس بے چاری کا دل خوش رہے اور یہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو۔ اس طرح میں نے اپنی زندگی کے 15سال اس معذور بیوی کے ساتھ گزار دئیے ۔ بعض اوقات مجھے اتنی تکلیف ہوتی جیسے مجھے سُلگتے اَنگاروں پر ڈال دیا گیا ہو لیکن میں نے کبھی بھی اس کیفیت کا اِظہار اُس پر نہ کیا۔ یہاں تک کہ 15 سال بعد وہ فوت ہوگئی۔ میری اس معذور بیوی کو مجھ سے جو محبت تھی اسے نِبَھانے اوراس کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی خاطرمیں نے جو عمل کیا وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (عیون الحکایات(مترجم)، 2/64بتغیر )
اللہ پاک کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلہٖ وسلّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ’’بیوی‘‘ بھی اللہ پاک کی ایک نعمت ہے۔اللہ پاک نے میاں بیوی کے درمیان محبّت و اُلفت بھرابڑا پیارا رشتہ پیدا فرمایا ہے، بعض نادان اپنی بیوی کوگویا انسان نہیں سمجھتے ، بےچاری شادی کے بعدشوہر کے گھر آتی ہے تو صبح و شام شوہر سمیت ساس ،نند کی خدمت اورکئی گھریلو کام کاج کرنے کے بعد اگر کسی دن سَر میں ہلکا سا درد ہوجائے یا تھکن کے باعث کچھ آرام کرنے بیٹھ جائے تو چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ ڈھونگ کرتی ہے اور مَعاذاللہ اِس معاملے میں غیبت ،تُہْمت اور بہتان تک سے باز نہیں آتے، یقیناًدیگر انسانوں کی طرح بیوی بھی انسان ہے، یہ اللہ کی بندی نکاح کے بندھن سے وابستہ ہوکر شوہر کے پاس آئی ہے،شوہر کوچاہئے کہ اُس کے دُکھ، سُکھ،خوشی، غمی اور بیماری وغیرہ میں برابر کاشریک ہو۔ویسے بھی بیوی کو ’’شریک ِحیات ‘‘ یعنی زندگی کا ساتھی کہا جاتا ہے اگر وہ شوہر کی شریِک حیات ہے تو شوہر کوبھی اُس کی زندگی کے ہر نرم، گرم موڑپر ’’زندگی کا ساتھی ‘‘بن کر زندگی گزارنی چاہئے۔
اسلام سے پہلے عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی۔چاہےوہ ماں ہو یا بیوی،بیٹی ہویا بہن، عورت کی عِزّت و اِحْتِرام کاکوئی تصَوُّر نہ تھا۔بیٹی ہوتی تو مَعاذاللہ پیداہوتے ہی زندہ دفن کردی جاتی ،بیوی ہوتی توگویاپاؤں کی جوتی سمجھی جاتی۔ اللہ کریم کے فَضْل واحسان پہ قربان کہ اُس نے ہمیں اپنے پسندیدہ دین مذہبِ مُہذَّب(مُوْ۔ہَذْ۔ذَب) ’’اسلام ‘‘میں پیدا فرمایا جو تمام دینی و دُنیاوی اَخلاق وآداب سے آراستہ ہے۔ اسلام وہ پیارا دین ہے جس نے انسان تو انسان ،جانوروں تک کے حقوق بیان فرمائے ہیں اورعورت کو حقیقی معنوں میں ’’عزّت “ اسلام ہی نے بخشی ہے ،قرآنِ کریم نے عورت کےحُقُوق واضح ترین اَنداز میں بیان فرماکر دُنیا بھر کی عورتوں کی عزّت و عِصْمت کی حفاظت فرمائی ہے۔ اسلام میں ماں ہونے کی حیثیت سے عورت کی جو تعظیم و تکرِیْم ہے وہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ایسے ہی اسلام بیوی ،بہن اور بیٹی کوجو تَحفُّظ عطافرماتا ہے وہ دوسرے کسی دین میں نہیں۔اللہ پاک! ہمیں ہمیشہ اسلام اوراسلامی اُصولوں کا پابند رکھے اور ایمان وعافیت کے ساتھ سَبْز سَبْز گنبد کے سائے میں شہادت عطافرمائے ۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلہٖ وسلّم
مذہبِ مہذَّب’’ اِسلام ‘‘نے بیوی کے حقوق بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ، قرآنِ کریم میں بیویوں کےساتھ حُسنِ سُلوک سے متعلق پارہ 4 سورۃ النسآء، آیت نمبر 19 میں کچھ اِس طرح فرمایا گیا: ( وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ ) ترجَمۂ کنز الایمان: “اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔ “علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اِس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’بیویوں کے ساتھ خوش اَخلاقی سے بات کرنا اور تمام اُمور میں اُن کے ساتھ اِنصاف کرنا اُن کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔” (تفسیر بیضاوی ، پ 4، النساء، تحت الآیۃ: 19، 2/163)
اچھے برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو ، اُن کے لئے بھی وہی پسند کرو۔ ( تفسیر خازن، پ 4، النساء، تحت الآیۃ: 19، 1/360)
قرآنی احکامات کے مطابق بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی روشن مثال ہمارے پیارے پیارے آخری نبی،مکّی مَدَنی ،محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مُبارک سِیرت ہے۔ چنانچہ سرکارِ مدینہ ’’ نے ارشاد فرمایا : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِهٖ وَاَنَا خَيْرُكُمْ لِاَهْلِيْ یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھروالوں سے اچھاسلوک کرنے والا ہوں ۔(ترمذی، 5/475، حدیث: 3921)
حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئےلکھتے ہیں: بڑا خلیق(یعنی اچھے اخلاق والا) وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خلیق ہو کہ اُن سے ہر وقت کام رہتا ہے، اجنبی لوگوں سے خلیق ہونا کمال نہیں کہ ان سے ملاقات کبھی کبھی ہوتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 5/96)