اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: جو مجھ پر ایک دن میں 50بار درودِ پاک پڑھے قیامت کے دن میں اس سے ہاتھ ملاؤں گا۔ (ابن بشکوال ص۹۰حدیث۹۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتابراہیم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ذُوالْحَج کی آٹھویں رات ایک خواب دیکھا جس میں کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اپنے بیٹے کو ذَبح کرنے کا حُکم دیتا ہے ۔ ‘‘ آپ صبح سے شام تک اِس بارے میں غور فرماتے رہے کہ یہ خواب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے یا شیطان کی جانب سے؟ اِسی لئے آٹھ ذُوالْحَج کا نام یَوْمُ التَّرْوِیَہ (یعنی سوچ بچار کا دن) رکھا گیا ۔ نویں رات پھر وہی خواب دیکھا اور صبح یقین کرلیا کہ یہ حُکم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے ، اِسی لئے9 ذُوالْحَج کو یوم عرفہ ( یعنی پہچاننے کا دن) کہا جاتا ہے۔ دسویں رات پھر وہی خواب دیکھنے کے بعد آپ عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے صبح اس خواب پر عمل کرنے یعنی بیٹے کی قربانی کا پکا ارادہ فرما لیاجس کی وجہ سے 10ذُوالْحَج کو یَوْمُ النَّحْر یعنی ’’ذَبح کا دن ‘‘کہا جاتا ہے۔ (تفسیرِ کبیر ج۹ص۳۴۶)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بیٹے کی قربانی کے لئے حضرتِ ابراہیم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام جب اپنے پیارے بیٹے حضرتِ اسمٰعیل عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوجن کی عمر اُس وَقت 7سال (یا 13 سال یا اِس سے تھوڑی زائد ) تھی لے کر چلے ۔ شیطان ان کی جان پہچان والے ایک شخص کی صورت میں ظاہر ہوا اورپوچھنے لگا: اے ابراہیم! کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے جواب دیا : ایک کام سے جارہا ہوں ۔ اُس نے پوچھا: کیا آپ اسمٰعیل کو ذَبح کرنے جارہے ہیں ؟ حضرتِ ابراہیم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا: کیا تم نے کسی باپ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذَبح کرے؟ شیطان بولا: جی ہاں ، آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اِسی کام کیلئے چلے ہیں ! آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے۔ حضرتِ ابراہیم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ارشاد فرمایا: اگراللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے تو پھر میں اس کی فرماں برداری کروں گا۔ یہاں سے مایوس ہوکر شیطان حضرتِ ا سمٰعیل عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی امّی جان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا: ابراہیم آپ کے بیٹے کولے کرکہاں گئے ہیں ؟ حضرت ہاجرہ نے جواب دیا: وہ اپنے ایک کام سے گئے ہیں ۔ شیطان نے کہا: وہ انہیں ذَبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں ۔ حضرتِ ہاجر ہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے فرمایا : کیا تم نے کبھی کسی باپ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذَبح کرے؟ شیطان نے کہا: وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے انہیں اِس بات کا حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے ارشاد فرمایا: ’’اگر ایسا ہے تو اُنہوں نےاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت (یعنی فرماں برداری) کرکے بہت اچّھا کیا ۔ ‘‘ اس کے بعد شیطان حضرتِ اسمٰعیل عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے پاس آیا اور انہیں بھی اِسی طرح سے بہکانے کی کوشِش کی لیکن اُنہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اگر میرے ابو جان اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم پر مجھے ذَبح کرنے لے جارہے ہیں توبَہُت اچّھا کررہے ہیں ۔ (مُستَدرَک ج۳ص۴۲۶ رقم۴۰۹۴مُلَخَّصاً)
جب شیطان باپ بیٹے کو بہکانے میں ناکام ہوا اور ’’جمرے‘‘ کے پاس آیاتوحضرت ابراہیم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اُسے ’’سات کنکریاں ‘‘ ماریں ، کنکریاں مارنے پر شیطان آپ کے راستے سے ہٹ گیا۔ یہاں سے ناکام ہو کر شیطان ’’دوسرے جمرے ‘‘ پر گیا ، فِرِشتے نے دوبارہ حضرت ابراہیم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے کہا : ’’ اِسے مارئیے ۔ ‘‘ آپ نے اسے سات کنکریاں مارِیں تو اُس نے راستہ چھوڑ دیا۔ اب شیطان ’’ تیسرے جمرے ‘‘ کے پاس پہنچا ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فِرِشتے کے کہنے پر ایک بار پھر سات کنکریاں ماریں تو شیطان نے راستہ چھوڑ دیا ۔ ( ) شیطان کو تین مقامات پر کنکریاں مارنے کی یاد باقی رکھی گئی ہے اور آج بھی حاجی ان تینوں جگہوں پر کنکریاں مارتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام جب حضرتِ اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کو لے کر کوہِ ثَبِیْر پرپہنچے تو انہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم کی خبر دی، جس کا ذِکر قراٰنِ کریم میں ان الفاظ میں ہے: یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ- ترجَمۂ کنزالایمان: اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذَبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے؟
فرماں بردار بیٹے نے یہ سُن کر جواب دیا:
یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (۱۰۲) (پ۲۳، اَلصّٰفٰت: ۱۰۲)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے میرے باپ! کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر (یعنی صبر کرنے والا ) پائیں گے۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد