Auliya Ki Nasihaten Aur Un Ka Baasar Kalam
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Bhalai Ki Dawat | بھلائی کی دعوت

    Auliya Ki Nasihaten Aur Un Ka Baasar Kalam

    book_icon
    بھلائی کی دعوت
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    درود شریف کی فضیلت

    نبی کریم ، روفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : فرض حج کروبے شک اس کا اَجر بیس غَزَوات میں شرکت کرنے سے زیِادہ ہے اور مجھ پر ایک مرتبہ دُرُودِپاک پڑھنا اس کے برابرہے ۔ ( فردوس الاخبار ، باب الحاء ، 1 / 339 ، حدیث : 2484) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

    ولیُ اللہ کی بااثر نصیحت

    اہل دمشق میں سے ایک شخص تھاجس کا نام ابوعبدُالرَّب تھا اور وہ پورے دمشق میں سب سے زیادہ مالدار تھا۔ ایک مرتبہ وہ سفر پر نکلاتو اسے ایک نہر کے کنارے کسی چراگاہ میں رات ہوگئی ، چنانچہ اس نے وہیں قیام کرلیا۔ اسے چراگاہ کی ایک جانب سے ایک آواز سنائی دی کہ کوئی کثرت سے اللہ پاک کی تعریف کررہاتھا ۔ وہ شخص اس آواز کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص چٹا ئی میں لپٹا ہوا ہے۔ اس نے سلام کیا اور پوچھا : تم کون ہو؟ اس شخص نے کہا : ایک مسلمان ہوں۔ اس دمشقی نے اس سے پوچھا : یہ کیا حالت بنارکھی ہے؟تو اس نے جواب دیا : یہ نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔ دمشقی نے حیرت سے کہا : تم چٹائی میں لپٹے ہوئے ہو یہ کونسی نعمت ہے؟ اس نے کہا : اللہ پاک نے مجھے پیدا فرمایا تو میری تخلیق کواچھا کیا اور میری پیدائش وپرورش کو اسلام میں رکھا اور میرے اعضاء کو تندرست کیا اور جن چیزوں کا ذکر مجھے ناپسندہے انہیں چھپایا تو جو میری طر ح شام کرتاہو اس سے بڑھ کر نعمت میں کون ہوگا؟وہ دمشقی کہتا ہے کہ میں نے ان سے کہا : اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے ، آپ میرے ساتھ چلنا پسند فرمائیں گے ، ہم یہیں آپ کے قریب نہر کے کنارے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اس شخص نے کہا : وہ کیوں ؟ میں نے کہا : اس لئے کہ آپ کچھ کھانا وغیرہ کھالیں اور ہم آپ کی خدمت میں کچھ ایسی چیز یں پیش کریں جو آپ کو چٹائی میں لپٹنے سے بے نیاز کردیں۔ اس نے کہا : مجھے ان چیز وں کی حاجت نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے میرے ساتھ چلنے سے انکار کردیا اور میں واپس لوٹ آیا ۔ (اس کی باتیں سننے کے بعد) میرے نزدیک اپنے آپ کی کوئی حیثیت نہ رہی ۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا : دمشق میں مجھ سے زیادہ مالدار کوئی نہیں پھر بھی میں مزید کی تلاش میں ہوں۔ پھر میں نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی : اے اللہ پاک! میں تیری بارگاہ میں اپنے اس حال سے توبہ کرتا ہوں ۔ یوں میں نے توبہ کرلی اورکسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ راوی کہتے ہیں کہ دمشق پہنچنے کے بعداس شخص نے اپنا مال راہِ خدا میں صدقہ کردیا اور عبادت میں مصروف ہوگیا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے پاس کفن کی قیمت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ( حلیة الاولیاء ، 5 / 183 - 185 ، رقم : 6771) پیارےا سلامی بھائیو!دیکھاآپ نےکہ ایک مالدار اور دنیا کی رنگینیوں میں گرفتار شخص کی ملاقات جب اللہ پاک کےایک نیک بندے سے ہوئی تو اس کے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور اس نے دنیوی مال کی محبَّت سے پیچھا چھڑاکر سچی توبہ کرلی اور جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے پاس کفن کی قیمت کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ یقینا ً یہ اللّٰہ کریم کے نیک بندوں کی شان ہے کہ جب کوئی ان کی صحبت میں آجاتا ہے تو پھر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا اور گناہوں سے توبہ کر کےنیکیوں بھری زندگی گزارنے والا بن جاتا ہے لہٰذا ہمیں بھی دنیا وآ خرت کی بہتری کیلئے اچھوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے اور بُری صحبت سےبچنا چاہیے کہ نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔( ترمذی ، کتاب الزھد ، ۴۵ - باب ، 4 / 167 ، حدیث : 2385) ایک اور حدیثِ پاک میں ہے کہ برے ساتھی سے بچ کہ تو اسی کے ساتھ پہچانا جائے گا (یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں۔ ) ( ابن عساکر ، 14 / 46 ، رقم : 1521 : الحسین بن جعفر بن محمد بن حمدان الخ ) حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا ، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور باعث شرم ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خودکو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر نقصان پہنچادے گا ، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے ، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اورجھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی ، وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔( عیون الاخبار ، کتاب الاخوان ، باب شرار الاخوان ، 3 / 90 - 91) پیارےا سلامی بھائیو!یقیناً بُری صحبت دنیاوآخرت کی بربادی کا باعث ہے لہٰذا ہمیں بھی بری صحبت کو چھوڑکر اچھی صحبت اپنالینی چاہیے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس پُر فِتن دور میں اللہ کریم نے ہمیں دعوتِ اسلامی کی صورت میں بطورِنعمت اچھی صحبت عطا فرمائی ہے ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے ۔ اس دینی ماحول کی برکت سے بہت سے بگڑے ہوئے مسلمان بالخصوص نوجوان گناہوں بھری زندگی سے تائب ہوگئے ، شرابی ، چرس اور افیون کے عادی توبہ کرکے ذِکرُاللہ کرنے والے بن گئے ، بہت سے بےنمازیوں کو نماز کی پابندی نصیب ہوگئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ یہ دینی ماحول عبادات و معاملات کی نگہداشت اور سنتوں کی محافظت کا جذبہ فراہم کرتا ہے۔ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

    ولیُ اللہ کی بااثر نصیحت

    حضرت شیخ عبداﷲ شافِعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں : ایک بار میں شہر بصرہ سے ایک گاؤں کی طرف جارہا تھا۔ دوپَہر کے وقت یکایک ایک خوفناک ڈاکو ہم پر حملہ آور ہوا ، میرے رفیق(یعنی ساتھی) کو اس نے شہید کر ڈالا ، ہمارا مال ومَتاع چھین کر میرے دونوں ہاتھ رسّی سے باندھے ، مجھے زمین پر ڈالا اورفرار ہو گیا ۔ میں نے جوں توں ہاتھ کھولے اور چل پڑا مگر پریشانی کے عالم میں رستہ بھول گیا ، یہاں تک کہ رات آگئی ۔ ایک طرف آگ کی روشنی دیکھ کرمیں اُسی سَمت چل دیا ، کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے ایک خیمہ نظر آیا ، میں شدّتِ پیاس سے نڈھال ہوچکا تھا ، لہٰذا خیمے کے دروازے پر کھڑے ہوکر میں نے صدا لگائی : اَلْعَطَش ! اَلْعَطَش ! یعنی “ ہائے پیاس! ہائے پیاس! “ اِتفاق سے وہ خیمہ اُسی خوفناک ڈاکو کا تھا !میری پکار سن کر بجائے پانی کے ننگی تلوار لئے وہ باہَر نکلا اور چاہا کہ ایک ہی وار میں میرا کام تمام کردے ، اُس کی بیوی آڑے آئی مگروہ نہ مانا اور مجھے گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے آیا اورمیرے سینے پر چڑھ گیا ، میرے گلے پرتلواررکھ کرمجھے ذَبح کرنے ہی والا تھا کہ یکایک جھاڑیوں کی طرف سے ایک شیر دَھاڑتا ہوا برآمد ہوا ، شیر کو دیکھ کر خوف کے مارے ڈاکو دُور جا گرا ، شير نے جھپٹ کر اُسے چیر پھاڑ ڈالا اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ میں اس غيبی امداد پر خدا کا شکر بجا لایا۔ (ظلم کا انجام ، ص2) پیارےا سلامی بھائیو!یہ حقیقت ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ضرور دیا جاتا ہے۔ یادرکھئے! لوگوں کی جان ومال کو ناحق نقصان پہنچانا ناجائز وحرام اورجہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ آج کل ہمارے معاشرے میں اسلحے کے زور پرظلم وزیادتی اور لوٹ مار معمول بن گیا ہے ، آئے دن چوری ، ڈکیتی ، قتل وغارت گری ، لوگوں کی املاک پر قبضہ کرنے یا بلاوجہ نقصا ن پہنچانے کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ یادرکھئے! ایسا کرنےوالا گنہگار اور جہنم کا حقدار ہے ۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتاہے : اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲) ( پ 25 ، الشوریٰ : 42) ترجَمۂ کنز الایمان : مؤاخذہ تو اُنہیں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہيں اور زمین میں ناحق سرکشی پھيلاتے ہيں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ بیان کردہ آیتِ مبارکہ سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے انجام سے بے خبر ہوکر ایسے برے کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں حالانکہ برائی کا انجام بہت برا ہوگا۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا یزید بن شجَرہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جس طرح سمندر کے کنارے ہوتے ہیں اِسی طرح جہنَّم کے بھی کنارے ہیں جن میں بُختی اونٹوں جیسے سانپ اور خَچّروں جیسے بچھّو رہتے ہیں ۔ اہل جہنَّم جب عذاب میں کمی کیلئے فریاد کریں گے تو حکم ہوگاکناروں سے باہر نکلو وہ جُوں ہی نکلیں گے تو وہ سانپ انہیں ہونٹوں اور چہروں سے پکڑ لیں گے اور ان کی کھال تک اُتارلیں گے وہ لوگ وہاں سے بچنے کیلئے آگ کی طرف بھاگیں گے پھر ان پر کھجلی مسلَّط کردی جائے گی وہ اس قدر کھجائیں گے کہ ان کاگوشت پوست سب جَھڑ جائے گا اور صرف ہڈّیاں رہ جائیں گی ، پکار پڑے گی : اے فُلاں! کیا تجھے تکلیف ہورہی ہے؟ وہ کہے گا : ہاں۔ تو کہا جائے گا یہ اُس اِیذاء کا بدلہ ہے جو تو مومِنوں کو دیا کرتا تھا۔ ( المستدرک ، کتاب معرفة الصحابة ، ذکر مناقب یزید بن شجرة ، خطبة الجھادلیزید بن شجرة ، 4 / 627 ، حدیث : 6142) یادرکھئے!کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا ، اسے تکلیف پہنچانا یقیناً حرام اور جہنم میں لے جانے والاکام ہے ۔ مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی پر ظلم کرے ، لڑائی جھگڑا کرے ، ناحق کسی کا مال غصب کرے اور دھمکیاں دے کر لوگوں سے رقم کا مطالبہ کرےاور نہ دینے پرقتل وغارت گری کا بازارگرم کرے بلکہ مسلمان کو تو گھورکردیکھنابھی منع ہےجیساکہ حدیثِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے : مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ دو سرے مسلمانکی طرف آنکھ سے اِس طرح اشارہ کرے جس سے تکلیف پہنچے۔ ( الزھد لابن المبارک ، باب ما جاء فی الشح ، ص 240 ، حدیث : 689) مسلمان کی قدرومنزلت اوراہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کو ظُلمًا اِیذا دینے کی قَسم کھائی تو اِس قَسَم کا پورا کرنا گناہ ہے۔ (یعنی ایسی قسم جس کو پورا کرنے میں شریعت کی خلاف ورزی لازم آتی ہو تو اُس قسم کا پورا کرنا واجب نہیں بلکہ گناہ ہوتا ہے اور)اِس قسم کے بدلے کَفّارہ دینا ہو گا۔ چُنانچِہ بُخاری شریف کی حدیثِ پاک ہے : اگر کوئی شخص اپنے اَہل کے مُتَعلِّق اس کو اَذِیَّت اورضَرَر(یعنی نقصان)پہنچانے کے لئے قسم کھائے پس بخدا اُس کو ضَر ردینا اور قَسم کو پورا کرنا عِندَاللّٰہ (یعنی اللہ کے نزدیک) زیادہ گناہ ہے اِس سے کہ وہ اس قسم کے بدلے کفّارہ دے جو اللہ پاک نے اس پر مقرَّر فرمایا ہے۔ ( بخاری ، کتاب الایمان والنذور ، باب قول الله تعالی : لایؤاخذکم الله الخ ، 4 / 281 ، حدیث 6225 ، فتاوٰی رضویہ ، 13 / 549) مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : یعنی جو شخص اپنے گھر والوں میں سے کسی کا حق فوت (یعنی حق تلفی) کرنے پر قسم کھالے مَثَلاً یہ کہ میں اپنی ماں کی خدمت نہ کروں گا یا ماں باپ سے بات چیت نہ کروں گا ، ایسی قسموں کا پورا کرنا گناہ ہے ۔ اس پر واجِب ہے کہ ایسی قسمیں توڑے اور گھر والوں کے حُقُوق اداکرے ، خیال رہے یہاں یہ مطلب نہیں کہ یہ قسم پوری نہ کرنا بھی گناہ مگر پوری کرنا زیادہ گُناہ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی قسم پوری کرنا بَہُت بڑا گناہ ہے ، پوری نہ کرنا ثواب ، کہ اگرچِہ ربّ کے نام کی بے اَدَبی قسم توڑنے میں ہوتی ہے اسی لیے اس پر کفَّارہ واجِب ہوتا ہے مگر یہاں قسم نہ توڑنا زیادہ گناہ کامُوجِب ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 5 / 198) پیارےا سلامی بھائیو! مسلمان اپنے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہوتا ہے ۔ اگر کبھی شیطان کے بہکاوے میں آکر غلطی ہوجائے اورکسی مسلمان بھائی کو ہم سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو فوراً اللہ پاک سے ڈر جانا چاہئے اوراپنے بھا ئی سے سچے دل سے معافی مانگ لینی چاہیے۔ اس کام میں ہرگز ہرگز سُستی و شرم نہیں کرنی چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل بروزِ قیامت ایسی شرمندگی کاسامنا کرنا پڑے کہ ساری مخلوق کے سامنے رُسوائی ہو۔ لہٰذا زندگی میں ہی فوراً معافی مانگ لینے ہی میں دین ودنیا کی بھلائی ہے ۔ اس ضمن میں شیخ طریقت ، امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے دورسائل ’’احترامِ مسلم‘‘اور ’’ظلم کا انجام‘‘ مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل فرمالیجئے اِنْ شَآءَ اللہ دونوں رسائل کا اَوّل تاآخر مطالعہ بے حدمفید ثابت ہوگا۔ دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ہمیں یہی سوچ فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کےساتھ حسبِ مَراتب ادب واحترام سے پیش آئیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دینی ماحول سے وابستہ اسلامی بھائیوں کے حسن ِ اخلاق اور انفرادی کوششوں کی برکت سے بہت سے بگڑے ہوئے افراد اپنی گناہوں بھری زندگی سے تائب ہوکر نیکیوں کی راہ پر گامزن ہوگئے ۔ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن