اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم
(بھیانک اُونٹ )
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ بیان (32صفحات) آخر تک پڑھ لیجئےاِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ثواب و معلومات کا ڈھیروں خزانہ ہاتھ آئے گا۔
مدینے کے سُلطان، رَحمت ِعالَمِیان، سَرورِ ذیشان، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عَظَمت نشان ہے: جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے کیونکہ مجھ پر دُرُودپڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۴۱۴،بستان الواعظین للجوزی ص۲۷۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
کُفّارِ قریش ایک دن کعبۂ مُشرَّفہ میں جمع تھے،نبیِّ اکرم، نورِ مُجَسَّم ، شاہِ آدم و بنی آدم ، رسُولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی قریب ہی نَماز ادا فرما رہے تھے، ابوجَہْل ایک بھاری پتھّر اُٹھا کر دُکھیادلوں کے چَین، رحمتِ کونین، رسولِ ثَقَلَین، نانائے حَسَنَین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سرِ مُبارک کو معاذَاللّٰہ سَجدے کی حالت میں کُچلنے کے ناپاک ارادے سے آگے بڑھا اور جُوں ہی نزدیک پہنچا تو ایک دم بوکھلا کر پیچھے کی طرف بھاگا، کُفّارِ ناہنجار نے حیر ت سے پوچھا: اَبُوالْحَکَم! تجھے کیا ہوا؟ بولا: میں جُوں ہی قریب پہنچا میرے تو اَوسان ہی خطا ہوگئے، میں نے دیکھا کہ ایک دَہشت ناک سَراور خوفناک گردن والا بھیانک اُونٹ مُنہ کھولے دانت کچکچاتا ہوا مجھے ہڑپ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے!ایسا بھیانک اُونٹ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ سرکارِ دو عالم، نُورِ مجَسَّم، شاہِ آدم و بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ جبرائیل (عَلَیْہِ السَّلَام ) تھے ،اگر ابوجہل اور نزدیک آتا تو اُسے پکڑلیتے۔ (اَلسِّیْرَۃُ النَّبَوِیَّۃ لابن ہشّام ص۱۱۷)
نورِخدا ہے کُفر کی حَرکت پہ خندہ زَن ۱؎ (۱؎ یعنی ہنسنے والا)
پھو نکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جا ئے گا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی شانِ بے نیازی بھی خوب ہے !کبھی اپنے محبوب مُبلِّغ کو دشمنوں کے ذَرِیعے مصائب وآلام میں مُبتَلا کرکے اِن کے خوب خوب دَرجات بُلند فرماتا ہے تو کبھی مُبلِّغ اعظم، رحمتِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمن کو وار کرنے سے قبل ہی خوفزدہ کرکے یہ باوَر کرادیتا ہے کہ کہیں ہمارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اکیلا مت سمجھ بیٹھنا!
ہمارے آقائے مظلوم، سرورِ معصوم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کُفّارِ بَداطوار کے ظُلم و ستم کا سبب صرف یِہی تھا کہ اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھل کر لوگوں کو نیکی کی دعوت پیش کرنے لگے تھے ،جب کہ ابتداء ً سیِّدُ الْمُبلِّغین،رَحمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین سال تک خُفیَۃً (یعنی چھپ کر) اسلام کی دعوت دی، پھراللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے عَلی الاعلان تبلیغ کا حکم ہوا۔ (ایضاً ص ۱۰۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پارہ 19سُوْرَۃُ الشُّعَرَآءآیت نمبر 214میں ارشادِ ربّانی ہے:
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ (۲۱۴) (پ۱۹،الشعراء،۲۱۴)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور اے محبو ب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔
اِس حکمِ خُداوندی پر ہمارے آقائے قَرَشی، مولائے ہاشِمی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کوہِ صَفا پر جلوہ فِگن ہو کر قبیلۂ قریش کو پکارا۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو ارشاد فرمایا : بتاؤ اگر میں تم سے کہوں کہ وادیِ مکّہ سے ایک لشکر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو کیا تم یقین کرلوگے ؟ سب بَیَک زبان بول اُٹھے: کیوں نہیں ! ہم نے تو ہمیشہ آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو سچ بولتے ہی دیکھا ہے۔ مُبلِّغ اعظم، رحمتِ دوعالم ،نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم ، نبیِّ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’تو سُن لو اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاؤ گے تو تم پر سخت عذاب نازِل ہوگا۔ ‘‘ یہ سُن کر ابولَہَب بکواس کرنے لگ گیا اور لو گ مُنتشر (مُن۔ تََ۔ شِر) ہوگئے۔ (بُخاریج۳ ص۲۹۴حدیث۴۷۷۰،۴۷۷۱مُلَخَّصاً )
مگر اُس رحمتِ عالم کا گھر توحید کاگھر تھا
نہ آسکتی تھی مایوسی کہ یہ اُمّید کا گھر تھا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اسلام کی عَلَی الْاِعلان تَبلیغ شُروع ہوتے ہی ظلم وستم کی جاں سوز آندھیاں چل پڑیں ۔ آہ ! نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، محبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم منوَّر پر کُفّارِ بدگوہر کبھی کوڑا کَرکَٹاُچھالتے تو کبھی دروازئہ رحمت پر جانوروں کا خون ڈالتے، کبھی راستوں میں کانٹے وغیر ہ بِچھاتے تو کبھی بدنِ انور پر برساتے۔ ایک بار تو ان میں سے ایک بے رَحم نے سجدے کی حالت میں گردن شریف پتَّھر کو نہایت شدّت سے دبادیا ، قریب تھا کہ مُبارَک آنکھیں باہَر تَشریف لے آتیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ سَجدے کی حالت میں پُشتِ اطہر (یعنی مبارَک پیٹھ) پر بچّہ دان (یعنی وہ کھال جس میں اونٹنی کا بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے) رکھ دیا ۔ علاوہ ازیں کفارِ جفاکار آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ عَظَمت نشان میں گُستاخانہ جُملے بَکتے، پَھبتیاں کَستے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جادو گر اور کاہِن بھی کہتے۔ (اَلْمَواہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ ج۱ص۱۱۸،۱۱۹وغیرہ مُلَخَّصا)
پَیَمبر دعوتِ اِسلام دینے کو نکلتا تھا نوید راحت وآرام دینے کو نکلتا تھا
نکلتے تھے قریش اِس راہ میں کانٹے بچھانے کو وُجُودِ پاک پر سوسو طرح کے ظُلم ڈھانے کو
خُدا کی بات سن کرمَضْحَکے ( ) میں ٹال دیتے تھے نبی کے جِسمِ اطہر پر نَجاست ڈال دیتے تھے
تَمَسخُر ( ) کرتا تھا کوئی، کوئی پتَّھر اُٹھاتاتھا کوئی توحید پر ہنستا تھا کوئی مُنہ چِڑاتا تھا
قُریشی مرد اُٹھ کر راہ میں آوازے کستے تھے یہ ناپاکی کے چھرے چار جانب سے برستے تھے
کلامِ حق کو سُن کر کوئی کہتا تھا یہ شاعِر ہے کوئی کہتا تھا کاہِن ( ) ہے کوئی کہتا تھا ساحِر ( ) ہے
مگر وہ مَنبعِ حِلم وحَیا خاموش رہتا تھا دُعائے خیر کرتا تھا جَفا و ظلم سہتا تھا