Maulana Abdul Mustafa Azmi Ka Taaruf Kya Hai
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Bihisht ki Kunjiyan | بہشت کی کنجیاں

    Maulana Abdul Mustafa Azmi Ka Taaruf Kya Hai

    book_icon
    بہشت کی کنجیاں
                
    جنت کے احوال اور جنت میں لے جانے والے اعمال پر مشتمل مدنی گلدستہ بہشت کی کنجیاں مؤلف شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی الاعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْغَنِی پیش کش مجلس المد ینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی ) (شعبۂ تخریج ) ناشر مکتبۃ المدینہ باب المد ینہ کراچی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    ’’جنت کے لئے کمر بستہ ہوجائیے ‘‘ کے بائیس حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی ’’22 نیّتیں ‘‘

    فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’ اچھی نیّت بندے کو جنَّت میں داخِل کر دیتی ہے۔‘‘ (الجامع الصغیر، ص۵۵۷، الحدیث۹۳۲۶، دارالکتب العلمیۃ بیروت) دو مَدَنی پھول : (1) بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ (2)جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ (1)ہربارحَمدو(2)صلوٰۃ اور(3)تعوُّذو(4)تَسمِیہ سے آغاز کروں گا (اسی صَفْحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)(5)اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا(6)حتَّی الامکان اِس کا باوُضُو اور(7)قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا(8)قرآنی آیات اور(9)اَحادیثِ مبارَکہ کی زِیارت کروں گا(10)جہاں جہاں ’’اللّٰہ‘‘ کا نام ِپاک آئے گا وہاں عَزَّ وَجَلَّ اور(11)جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پڑھوں گا(12))اپنے ذاتی نسخے پر( ’’یادداشت‘‘ والے صَفْحَہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا(13))اپنے ذاتی نسخے پر( عِندَا لضَّرورت(یعنی ضرورتاً) خاص خاص مقامات پر انڈر لائن کروں گا(14)کتاب مکمَّل پڑھنے کے لیے بہ نیَّت حُصولِ علم ِدین روزانہ کم از کم چار صفحات پڑھ کر علم ِدین حاصل کرنے کے ثواب کا حقدار بنوں گا(15)دوسروں کویہ کتابپڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا(16)اس حدیثِ پاک ’’ تَھادَوْا تَحَابُّوْا ‘‘ ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی‘‘ (مؤطا امام مالک ، ج۲، ص۴۰۷، رقم : ۱۷۳۱، دارالمعرفۃ بیروت) پرعمل کی نیت سے )ایک یا حسبِ توفیق تعداد میں ( یہ کتابیں خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا(17)جن کو دوں گا حتَّی الامکان انہیں یہ ہَدَف بھی دوں گا کہ آپ اِتنے (مَثَلاً 26) دن کے اندر اندر مکمَّل پڑھ لیجیے(18)اس کتاب کے مطالَعے کا ساری اُمّت کو ایصالِ ثواب کروں گا(19)جو مسئلہ سمجھ میں نہیں آئے گا اس کے لیے آیت ِکریمہ : ’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳) ‘‘ ترجمۂ کنز الایمان : ’’ تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ۔‘‘ (پ۱۴، النحل : ۴۳) پر عمل کرتے ہوئے عُلَماء سے رُجوع کروں گا(20)جس مسئلے میں دشواری ہوگی اس کو بار بار پڑھوں گا(21)ہر سال ایک بار یہ کتاب پوری پڑھا کروں گا(22)کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا۔ (ناشِرین ومصنّف وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا) اچھی اچھی نیّتوں سے متعلق رَہنمائی کیلئے ، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا سنّتوں بھرا بیان ’’نیّت کا پھل‘‘اورنیتوں سے متعلق آپ کے مُرتّب کردہ کارڈ اور پمفلٹ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدیّۃًحاصِل فرمائیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    المد ینۃ العلمیۃ

    از : شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’ المد ینۃ العلمیۃ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھمُ اللّٰہُ تعالٰی پر مشتمل ہے ، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳)شعبۂ اصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تراجمِ کتب (۵)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلٰیحضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت، عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوسعَ سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ، تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضرا شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ پیش لفظ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط بہشت یعنیجنت انتہائی حسین و بہت ہی شاندار مقام ہے ، اس میں اللہ تَعَالٰی ان لوگوں کو داخل فرمائے گا جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے۔چنانچہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ (پ۵، النسآء : ۱۲۲) ترجمہ کنزالایما ن : اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کچھ دیر جاتی ہے کہ ہم انہیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ۔ ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی چنانچہ ارشادباری تَعَالٰی ہے : وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۳) (پ۴، النسآء: ۱۳) ترجمہ کنزالایمان : اور جو حکم مانے اللہ اور اللہ کے رسول کا اللہ اسے باغوں میں لے جائے گا جنکے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔ جنت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام قسم کی روحانی وجسمانی لذتوں کے وہ تمام سامان مہیا فرمائے ہیں جو کسی بڑے سے بڑے دانش ور کے گمان وتصور میں بھی نہیں آسکتے جو کوئی مثال ان نعمتوں کی تعریف میں دی جائے وہ محض تقریب فہم (سمجھانے کے لیے) ہے ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جن نعمتوں کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ کسی آدمی کے دل پر بے دیکھے ان کا خطرہ گزرا تو وہ تمثیل و تشبیہ سے اپنی پوری حقیقت کے ساتھ کیونکر نگاہوں میں سما سکتی اور ذہنوں میں جگہ پا سکتی ہے اس لیے انسان کو جنت کی نعمتوں کا پورا اندازہ اپنے حواس سے ہو ہی نہیں سکتا۔غفور رحیم کی مرحمتوں ، مہربانیوں ، بخششوں ، عنایتوں اور نعمتوں کا کچھ تذکرہ آیاتِ قرآنی کی روشنی میں درج ذیل ہے : (۱)جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے انہیں کبھی موت نہ آئے گی(۲)ایک ایک جنتی کے لیے چار چار باغ ہوں گے(۳)اور ان باغوں میں شراب طہور، کبھی خراب نہ ہونے والے دودھ ، صاف کیے ہوئے شہد اور ٹھنڈے خوش گوار پانی کی نہریں ہیں (۴)ان میں کھجور، انار، انگور اور ہر قسم کے میوے ہیں (۵)ان باغوں میں خیمے استادہ ہیں اور ان میں بالا خانوں کے اوپر بالا خانے بنے ہیں (۶)ان باغوں میں پردہ نشین، بڑی بڑی آنکھوں والی، ایک عمر والی حوریں ہیں جو اپنے شوہروں پر پیاری، انہیں پیار دلاتی ہیں ، عادت کی نیک، صورت کی حسین ہوں گی حسن ولطافت میں یاقوت ومرجان کی مثل ہوں گی، ان کے حسن کی چمک دمک چھپے ہوئے موتیوں کی آب وتاب کی طرح ہوگی، ان کو ان کے شوہروں سے پہلے نہ کسی آدمی نے ہاتھ لگایا ہوگا نہ کسی جن نے(۷)ان میں جنتیوں کی خدمت کے لیے، نہایت خوبصورت ، کمسن، لڑکے ہوں گے جوکبھی جنتیوں کی خدمت سے نہ تھکیں گے اور نہ کبھی ان کی خوبصورتی و کمسنی میں فرق آئے گا(۸)وہ غلمان جنتیوں کے گرد کوزے، آفتابے، جام، اور چاندی سونے کے برتن لیے پھریں گے(۹)ان میں پسند کے مطابق میوے، مرضی کے موافق پرندوں کے گوشت ہوں گے(۱۰)ان کے سائے جنتیوں پر جھکنے والے ہوں گے کہ جنتی جس طرف جائے گا جنت کے درخت کا سایہ اسی طرف جھک جایا کرے گا(۱۱)ان کے گچھے جھکا کر نیچے کر دیئے گئے ہوں گے کہ جب جنتی کوئی میوہ کھانا چاہے گا اس کی شاخ اس کے منہ تک جھک کر نیچی ہو جایا کرے گی(۱۲)ان باغوں میں نہ دھوپ کی حدت ہو گی نہ سردی کی شدت(۱۳)جنتیوں کو قناویز اور کریب (ریشم کے دو قسموں )کے کپڑے اور سونے چاندی کے کنگن اور موتیوں کے زیور پہنائے جائیں گے(۱۴)اونچے اونچے جڑاو تختوں پر ایسے ریشمی نرم بچھونوں پر، جن کا استر قناویز کا ہوگا اور خوبصورت منقش چاندنیوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ اسی طرح مالک جنت، قاسم نعمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمودات ِعالیہ کی روشنی میں جنت کا کچھ تذکرہ ملاحظہ فرمائیے (۱)جنت میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے جو زمین وآسمان کے درمیان ہے(۲)جنت میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں ایسے صاف شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے(۳)جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہیں ، زمین زعفران کی ، کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت(۴)جنت میں ایک ایک موتی کا خیمہ ہوگا جس کی بلندی ساٹھ میل ہوگی(۵)جنت کی نہریں جو ہر ایک جنتی کے مکان میں جاری ہیں ان کا ایک کنارہ موتی کا دوسرایاقوت کاہے اور نہروں کی زمین خالص مشک کی(۶)وہاں نجاست گندگی بول وبراز وغیرہ بلکہ بدن کا میل اصلاً نہ ہوگا ایک خوشبو دار فرحت بخش ڈکار آئے گی خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا اور سب کھانا ہضم ہو جائے گا اورڈکار اور پسینے سے مشک کی خوشبو نکلے گی(۷)ہر وقت زبان سے تسبیح وتکبیر بالقصد اور بلاقصد مثل سانس کے جاری ہوگی(۸)ہر شخص کے سرہانے کم از کم دس ہزار خادم کھڑے ہونگے قسم قسم کی نعمتوں کے ساتھ(۹)ہر نوالے میں ستر مزے ہوں گے اور ہرمزہ دوسرے سے ممتاز(۱۰)ادنیٰ جنتی کے لیے اَسی ہزار خادم اور بہتر بیبیاں ہوں گی اور ان کو ایسے تاج ملیں گے کہ ان میں کا ادنیٰ موتی مشرق ومغرب کو روشن کردے(۱۱)جنت میں نیند نہیں کہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں (۱۲)جب کوئی جنتی جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی دوحوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی مگر ان کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمدوپاکی ہوگا وہ ایسی خوش گلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی نہ مریں گی ہم چین والیاں ہیں کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گی ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گی مبارک باد اس کے لیے جو ہمارا اور ہم اس کے لیے ہوں (۱۳)سب سے کم درجہ کا جو جنتی ہے اس کے باغات، بیبیاں ، نعمتیں اور خدام ہزار برس کی مسافت تک ہوں گے۔ سب سے اعظم واعلی نعمت جو مسلمانوں کو نصیب ہوگی وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا دیدار ہے کہ اس کے برابر کوئی نعمت نہیں جسے ایک بار دیدار میسر ہوگا ہمیشہ ہمیشہ اس کے ذوق میں مستغرق رہے گا کبھی نہ بھولے گا۔ جنت کی ایسی ایسی دائمی نعمتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، جس میں رب عَزَّ وَجَلَّ کا دیدار شامل ہے ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ جنت کے لیے کمر بستہ ہوجائے اور سنن ابن ما جہ کی ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ سرکار مدینہ، راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ہے کوئی جو جنت کو پانے کے لیے کمربستہ ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ، الحدیث : ۴۳۳۲، ج۴، ص۵۳۵) لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے ایسے اعمال میں مشغول ہوجائیے جن پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت ہے اوراحادیث مبارکہ میں ان اعمال کاتذکرہ موجود ہے جن پرجنت کی خوشخبری ہے ، ان احادیثِ جنت نشان میں سے ساٹھ اعمال کو حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنی کتاب ’’بہشت کی کنجیاں ‘‘ میں ذکرفرمایا ہے جنت کی تیاری کے لیے یہ کتاب مشعل راہ ثابت ہوگی۔ (1) ’’ دعوت اسلامی‘‘ کی مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ اس مدنی گلدستے کو دور جدید کے تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے، جس میں مدنی علماکرام دام فیوضہمنے درج ذیل کام کرنے کی کوشش کی ہے ٭ کتاب کی نئی کمپوزنگ ، جس میں رموزِ اوقاف کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے٭ احتیاط کے ساتھ مکرر پروف ریڈنگ تاکہ اغلاط کا امکان کم ہو ٭ دیگر نسخوں سے تقابل اور حوالہ جات کی حتی المقدور تخریج ٭ عربی عبارات اور آیات ِقرآنیہ کے متن کی تطبیق و تصحیح٭ اورآخر میں مآخذ ومراجع کی فہرست مصنفین ومؤلفین کے ناموں ، ان کے سن وفات اورمطابع کے ساتھ ذکر کردی گئی ہے۔ اس کتاب کوحتی المقدور احسن انداز میں پیش کرنے میں علمائے کرام نے جو محنت وکوشش کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے قبول فرمائے ، انہیں بہترین جزادے اوران کے علم وعمل میں برکتیں عطافرمائے اور دعوت ِاسلامی کی مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ ‘‘ اوردیگر مجالس کو دن گیارھویں رات بارھویں ترقی عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم شعبۂ تخریج مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوت ِاسلامی)

    تعارف مصنف

    حضرت الحاج مولانا عبدالمصطفیٰ الاعظمی ٍ ذیقعدہ ۱۳۳۳ھ کو اپنے آبائی وطن گھوسی ضلع اعظم گڑھ میں پیداہوئے ۔

    شجرہ نسب یہ ہے

    محمد عبدالمصطفیٰ بن شیخ حافظ عبدالرحیم بن شیخ حاجی عبدالوہاب بن شیخ چمن بن شیخ نور محمد بن شیخ مٹھوبابا رحمہم اللہ تَعَالٰی ۔ آپ کے والد گرامی حضرت حافظ عبدالرحیم صاحب حافظ قرآن، اردو خواں ، واقف مسائل دینیہ ، متقی، پرہیزگارتھے ۔ گاؤں کے مشہور بزرگ حافظ عبدالستار صاحب سے شرف تلمذ حاصل تھا جو حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بڑے بھائی حضرت شاہ سید اشرف حسین صاحب قبلہ کچھوچھوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مرید تھے چند سال ہوئے انتقال فرماگئے ۔

    تعلیم

    علامہ اعظمی صاحب قرآن مجید اوراردو کی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کر کے مدرسہ اسلامیہ گھوسی میں داخل ہوئے اوراردوفارسی کی مزید تعلیم پائی۔ چند ماہ مدرسہ ناصر العلوم گھوسی میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ معروفیہ معروف پورہ میں میزان سے شرح جامی تک پڑھا۔ پھر۱۳۵۱ھ میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ ضلع مرادآباد (یوپی) کا رخ کیا اوروہاں شیخ العلماء حضرت مولانا شاہ اویس حسن عرف غلام جیلانی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (شیخ الحدیث دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف متوفی ۱۳۹۷ھ) اورحضرت مولانا حکمت اللہ صاحب قبلہ امروہی اورحضرت مولانا سید محمد خلیل صاحب چشتی کاظمی امروہی کی خدمت میں ایک سال رہ کر اکتساب فیض کیا۔ اس کے بعد ۱۳۵۲ھ میں حضرت صدرالشریعہ مولانا حکیم محمد امجد علی صاحب اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہمراہ بریلی شریف تشریف لے گئے اورمدرسہ منظر اسلام محلہ سوداگران بریلی میں داخل ہوکر تعلیمی سلسلہ شروع فرمایا ۔ ملا حسن، میبذی وغیرہ چند کتابیں حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سرداراحمد صاحب چشتی گورداسپوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پڑھیں باقی کتابیں حضرت صدرالشریعہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پڑھیں ۔ ا س دوران حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ حامدرضا خان صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (خلف اکبرسرکاراعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ ) کی خدمت میں حاضری دی اور شرفیاب ہوئے۔موصوف آپ پر بڑا کرم فرمایا کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے برادرخورد حضرت مولانا محمد رضا خان صاحب عرف ننھے میاں رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے فرائض کی مشق کی اورحضور مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خان نوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (زیب سجادہ عالیہ قادریہ رضویہ بریلی شریف، خلف اصغرحضور اعلیٰ حضرت قدس سرہ) کے دارالافتاء میں بھی حاضری دی۔ بریلی شریف میں دوران طالب علمی آپ کی اقتصادی حالت اچھی نہیں تھی ۔ مسجدکی امامت اورٹیوشن سے اخراجات پورے کرتے تھے۔ جب حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بریلی سے رخصت ہوکر مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ میں مسند تدریس پر جلوہ فرما ہوئے تو مولانا اعظمی صاحب بھی بریلی شریف نہ رہ سکے اور۱۰شوال ۱۳۵۵ھ کو علی گڑھ حضرت صدرالشریعہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمدرسہ حافظیہ سعیدیہ میں داخلہ لیا اور امتحانات میں اچھی پوزیشن سے کامیاب ہوکر انعامات بھی حاصل کئے ۔ علی گڑھ کے دورانِ قیام حضر ت مولانا سید سلیمان اشرف بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (خلیفہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ) کی خدمت میں بھی حاضری دیتے اورعلمی اکتساب فرماتے رہے ۔ ۱۳۵۶ھ میں مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں سے سند فراغ حاصل کیا۔ حضرت مولاناسید شاہ مصباح الحسن صاحب چشتی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سر پردستار فضیلت باندھی۔

    بیعت

    ۱۷صفرالمظفر۱۳۵۳ھ میں حضرت قاضی ابن عباس صاحب عباسی نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پہلے عرس میں حضرت الحاج حافظ شاہ ابرارحسن خان صاحب نقشبندی شاہ جہانپوری (جو قاضی صاحب موصوف کے پیر بھائی تھے ) سے مرید ہوئے ۔ ۲ذیقعدہ ۱۳۷۰ھ کو حضر ت شاہ ابرار حسن صاحب نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا انتقال ہوگیا تو اس کے بعدآپ کے خلیفۂ برحق الحاج قاضی محبوب احمد صاحب عباسی نقشبندی سے بھی اکتساب فیض کیا۔ چونکہ شروع ہی سے موصوف کا رجحان سلسلۂ نقشبندیہ کی طرف زیادہ تھا اسی لیے اس سلسلے میں مرید ہوئے مگر دیگر سلاسل کے بزرگوں سے بھی اکتساب فیض وبرکات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۲۵صفرالمظفر۱۳۵۸ھ میں عرس رضوی کے مبارک ومسعود موقع پر حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان صاحب (م۱۳۶۳ھ) نے سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کی خلافت واجازت سے سرفرازفرمایا۔

    سلسلۂ تدریس

    فارغ التحصیل ہونے کے بعد سب سے پہلے مدرسہ اسحاقیہ جودھ پور (راجھستان) میں مدرس ہوئے ۔درس نظامی کا افتتاح فرمایااورمدرسہ ترقی کی راہ پر چل نکلا تھا کہ اچانک جودھ پور میں ہندو مسلم فساد ہونے کی و جہ سے بہت سے بیرونی علماء کے ساتھ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو گرفتار کیا گیا اوربعد میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگا کر حکومت نے شہر بدرکردیا جس سے مدرسہ کوبھی نقصان ہوا اورمولانا موصوف کو بھی وہاں سے آنا پڑا۔ ستمبر ۱۹۳۹ء میں حضرت قاضی محبوب احمد صاحب کی دعوت پر امروہہ تشریف لے گئے اوروہاں مدرسہ محمدیہ حنفیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں جس کا سلسلہ تین سال تک رہا۔ اس وقت وہاں پر مولانا سیدمحمد خلیل صاحب کاظمی امروہی صدر مدرس تھے اس دوران بھی موصوف سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا اور گیارہ سال تک یہاں بھی درس دیتے رہے اور اس کی تعمیر وترقی میں بھرپور حصہ لیا۔ ۱۹۵۲ء میں آپ کا احمد آباد گجرات بسلسلۂ تقریردورہ ہوا۔ متعدد تقاریر کے سبب لوگ گرویدہ ہوئے اورجب وہاں پر ایک دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تو احمد آباد کے عمائد اہل سنت نے باصرار مبارک پورسے بلواکر دارالعلوم شاہ عالم میں مدرس رکھا۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں صاحب نبیرئہ اعلیٰ حضرت اورحضورمفتی اعظم ہند مدظلہ الاقدس نے بھی دارالعلوم کے قیام اورترقی میں بھر پور حصہ لیا۔ مولانانے اس دارالعلوم کی ترقی اوربقا میں بھر پور اورجان توڑکر کوشش کی اور اس کو عروج تک پہنچا کر دم لیا۔ بعض ناگفتہ بہ حالات اورارکان میں سے بعض کے درپے آزار ہونے کی و جہ سے استعفا دے کر ۱۷شعبان ۱۳۷۸ھ کو وہاں سے وطن آگئے ۔ اس کے بعد حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے ۔ واپسی پر دارالعلوم صمدیہ بھیونڈی (مہاراشٹر) کی طلبی پر مارچ ۱۹۶۰ء کو طلبہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدرسہ مذکور میں تشریف لے گئے اورچار برس تک جم کر وہاں تدریسی خدمات کو انجام دیا اور مدرسہ مذکور کی تعمیر میں بھی بھرپورکوشش فرمائی ، جس کے طفیل ایک شاندار عمارت آج بھی موجود وشاہد ہے ۔ مگر جب وہاں کے بھی بعض حضرات سے تعلقات معمول پر نہ رہے تو خاطر برداشتہ ہوکر ۱۹۶۴ء میں مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد فوراً دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی گجرات سے طلبی آگئی اورمولانا حکیم علی محمد صاحب اشرفی کے اوردوسرے لوگوں کے اصرار پر وہاں مع جمعیۃ طلبہ تشریف لے گئے مگر وہاں بھی زیادہ دنوں قیام نہ کرسکے اور بالآخردارالعلوم منظر حق ٹانڈہ فیض آباد (یوپی) میں بعہدہ صدرالمدرسین وشیخ الحدیث تشریف لے گئے جہاں تقریباًدس سال سے علوم و معارف کے گوہر لٹارہے ہیں ۔ خدا نے تفہیم کی خوب خوب صلاحیت بخشی ہے ۔ تمام متداول کتابوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں اورپوری مہارت سے درس دیتے ہیں اورطلبہ خوب مانوس ہوتے ہیں ۔ تدریس کی اس طویل مدت میں طلبہ کی ایک تعدادتیار ہوگئی اور آج ملک وبیرون ملک آپ کے تلامذہ تدریس و تقریراور مناظرہ و تصنیف کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

    افتاء

    تدریس کے ساتھ ساتھ فتوی نویسی کا کا م بھی کرتے رہے ہیں ۔ تحریر کردہ فتووں کی نقلیں کم محفوظ ہیں پھر بھی چھ سوسے زیادہ فتاوے منقول ہیں جو کبھی شائع کیے جاسکتے ہیں ۔

    وعظ

    مولیٰ تَعَالٰی نے وعظ ونصیحت کی بھی خوب صلاحیت بخشی ہے۔ملک کے گوشے گوشے میں آپ کے مواعظ حسنہ کی دھوم مچی ہوئی ہے اوربہت سے مواعظ تو مطبوعہ بھی ہیں جن سے عوام ہمیشہ فائدہ حاصل کرتے رہیں گے۔

    ذوقِ سخن

    زمانہ طالب علمی ہی سے شعر وشاعری کا ذوق ہے ۔ نعت شریف، قومی نظمیں اورغزل میں بھی طبع آزمائی فرمائی ہے ۔ کوئی مجموعۂ کلام مطبوعہ نہیں ہے۔

    تصنیف وتالیف

    تدریس، افتاء ، وعظ وغیرہ کے ساتھ آپ نے تصنیف وتالیف کا بھی بہت اچھا اورخوب ذوق پایا ہے ۔ اوراس کی طرف خاصی توجہ مبذول فرمائی ہے ۔ مختلف موضوعات پر آپ کی مطبوعہ اردو تصانیف مندرجہ ذیل ہیں : (۱)موسم رحمت (سب سے پہلی تصنیف جومتبرک راتوں اورمبارک ایام کے فضائل پرمشتمل ہے) (۲)معمولات الابراربمعانی الآثار(تصوف کے بیان میں ) (۳)اولیاء رجال الحدیث(اولیائے محدثین کی سوانح) (۴)مشائخ نقشبندیہ(نقشبندی بزرگوں کا سلسلہ وارتذکرہ) (۵)روحانی حکایات (دوحصے) (۶)ایمانی تقریریں (۷)نورانی تقریریں (۸)حقانی تقریریں (۹)عرفانی تقریریں (۱۰)قرآنی تقریریں (۱۱)سیرۃ المصطفیٰ (۱۲)نوادرالحدیث(چالیس حدیثوں کی عمدہ اورمفید شرح) (۱۳)کرامات صحابہ (۱۴)جنتی زیور (۱۵)قیامت کب آئے گی۔ کتاب ’’سیرۃ المصطفیٰ‘‘سیرت کے موضوع پر قلمبند فرمائی گئی ہے جو تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے اورخوب ہے۔ اس کے علاوہ تمام کتابیں متعدد بار طبع ہوکر اہل ذوق کے لیے تسکین کا سامان بن چکی ہیں اورخاص بات یہ ہے کہ اس وقت بھی آپ کی تمام کتابیں بآسانی مل جاتی ہیں ۔ کوئی بھی کتاب نایاب اورمشکل الحصول نہیں ، خود ہی اپنے اہتمام سے طبع کراتے اورشائع فرماتے ہیں ۔کتابت وطباعت کا معیار بھی عام کتابوں سے بہتر ہے جوکہ مقبولیت کی ایک خاص و جہ ہے ۔ آپ کی تقریروتصنیف میں مفید لطائف کی خاصی آمیزش ہوتی ہے جو عوامی دلچسپی کا باعث ہے۔

    حج وزیارت

    ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۹۵۹ء میں حج کعبہ وزیارت مدینہ طیبہ کا عزم کیا اورشاد کام ہوئے اورپوری صحت وتوانائی کے ساتھ تمام ارکان کی ادائیگی سے سرفراز ہوئے ۔ جدہ میں آپ کے برادرطریقت الحاج عبدالحمیدکے مکان پر محفل وعظ کا انعقاد ہوا جس میں آپ نے نہایت ہی رقت انگیز تقریر فرمائی ۔ اس محفل میں قائد اہلسنت مولانا الحاج شاہ احمد نورانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (خلف الصدق حضرت مولانا عبدالعلیم میرٹھی قدس سرہ) نے بھی شرکت فرمائی تھی ۔ دونوں مقامات متبرکہ میں کثیر علماء ومشائخ سے ملاقات فرمائی اوربہتوں نے آپ کو اپنے سلاسلِ طریقت، دلائل الخیرات، حزب البحراور اورادووظائف نیز حدیث کی سندیں واجازتیں مرحمت فرمائیں ۔ حضرت شیخ مفتی محمد سعد اللہ المکی نے باوجود ضعف پیری کے آپ کو خود لکھ کر سندیں عطاکیں اوردیگرتبرکات وآثار سے بھی نوازا مولانا الشیخ السید علوی عباس المکی مفتی المالکیہ ومدرس الحدیث بالحرم شریف سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ حج کو جاتے وقت مولانا موصوف نے حضور مفتی اعظم ہند رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے شیخ مذکور کے نام ایک تعارفی خط لکھوالیا تھا جس سے توجہات عالیہ کو منعطف کرانے میں مدد ملی ۔ شیخ کی بارگاہ میں پہنچ کر جب آپ نے خط پیش کیا اورشیخ اس جملہ پر پہنچے ہذا تلمیذ تلمیذ الشیخ مولانا احمد رضا خاں الہندی ۔تو فرمایا : عبدالمصطفیٰ آپ ہی ہیں ؟آ پ نے عرض کیا : ہاں میں ہی ہوں !پھرتو بڑی ہی گرم جوشی سے معانقہ فرمایا اوردعائیں دیں اورکچھ دیر تک سرکار مرشدی حضور مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم القدسیہ کا ذکر کرتے رہے اور سرکاراعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا تذکرہ فرمایا پھر اپنے گھر بلایا۔ جب آپ انکے گھر پہنچے تو وہ آپ کے ساتھ بہت ہی توجہ اورمہربانی سے پیش آئے اور اپنی تمام تصانیف کی ایک ایک جلد عنایت فرما کر صحاح ستہ کی سند حدیث عطافرمائی۔ مولانا الشیخ محمد بن العربی الجزائری کے نام بھی سرکارمفتی اعظم ہند رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا خط لے کر حاضر ہوئے تو آپ کی مسرت کی انتہانہ رہی، بڑے تپاک سے ملے اورصحیح بخاری شریف اورموطاکی سند حدیث عطافرمائی اورحضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا تذکرہ جمیل ان الفاظ میں فرمایا : ’’ہندوستان کا جب کوئی عالم ہم سے ملتا ہے تو ہم اس سے مولانا شیخ احمد رضا خاں ہندی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اگر اس نے تعریف کی تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سنی ہے اوراگر اس نے مذمت کی تو ہم کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ شخص گمراہ اور بدعتی ہے ہمارے نزدیک یہی کسوٹی ہے ۔‘‘ مولانا الشیخ ضیاء الدین مہاجر مدنی خلیفہ اعلیٰ حضرت سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا اورآپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے ۔ آپ ہی نے دیگر حضرات سے بھی ملاقات کرائی جن میں شیخ الدلائل حضرت سید یوسف بن محمد المدنی بھی ہیں ۔ ان متعدد شیوخ کی اسناد کی نقلیں حضرت علامہ اعظمی صاحب نے اپنی کتاب ’’معمولات الابرار ‘‘میں نقل فرمائی ہیں جو کئی صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں ۔(2) محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
    1 اس سلسلے میں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس ِشوریٰ کے نگران کے بیان کا رسالہ ’’جنت کی تیاری‘‘ کا مطالعہ بھی نہایت معاون ثابت ہوگا، مکتبۃ المدینہ سے ہدیتہ طلب فرمائیں۔ 2 مذکورہ بالا مضمون میں نے ’’معمولات الابرار‘‘کے حصہ سوانح اورذاتی معلومات کی بنیادپرقلم بند کیاہے ۔۱۲

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن