اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
بیماری کے فضائل
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے، کیونکہ مجھ پر دُرُود پڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے۔
(القول البدیع، ص 414، حدیث: 45)
دُکھوں نے تم کو جو گھیرا ہے تو دُرود پڑھو جو حاضری کی تمنا ہے تو دُرود پڑھو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
صحابیِ رسول حضرتِ عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے ،ہم نے عرض کیا:یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!آپ کس چیز کے سبب مسکرائے؟ اِرشاد فرمایا : بند ۂ مومن کے لئے کتنی عجیب بات ہے کہ وہ بیماری میں روتا ہے اگر وہ جان لیتا کہ اُس کے لئے اِس بیماری کے بدلے میں کیا (یعنی کتنا اجر و ثواب)ہے تو وہ پسند کرتا کہ بیمار ہی رہے یہاں تک
کہ اپنے رَب سے ملے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم دوبارہ مسکرائے اور اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھایا،ہم نے عرض کیا:یارسولَ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کس وجہ سے مسکرائے اور اپنا سرِ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا ؟ارشاد فرمایا: میں نے دو فرشتوں کو دیکھا جو آسمان سے اُترے اور بندۂ مومن کو اُس کی نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنے لگے، جب اُس کو نہ پایا تو اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا :یا اللہ پاک! ہم تیرے فلاں بندے کے دن رات کے فلاں فلاں نیک اعمال لکھتے تھے ، اب ہم نے اُس کو تیری قید (یعنی بیماری)میں پایا لہٰذا ہم نے اُس کےکوئی نیک اعمال نہیں لکھے ۔ اللہ پاک نے اِرشاد فرمایا : میرے بندے کے وہ تمام نیک اعمال لکھو جو وہ دن اور رات میں کرتا تھا اور اِس میں سے کچھ کم نہ کرو جب تک وہ میری قید میں ہے۔(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، 4/244، حدیث: 75۔ معجم اوسط، 2/11، حدیث: 2317)
حضرتِ علّامہ عبدُ الرء وف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: اللہ پاک جب کسی بندے کو بیماری میں مبتلا فرماتا ہے تو اس کے سبب اُسے گناہوں کی گندگی سے پاک کرتا اور صبر کرنے والوں کا ثواب عنایت فرماتا ہے ، جب وہ بندہ پُل صراط پر گزرے گا تو اُسے جہنّم کی آگ نہیں چھوئے گی کیونکہ وہ پہلے ہی سے گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف ہو چکا ہوگا پھر وہ جنّت میں داخل ہوگا تو اُسے صبر کرنے والوں کے درجات پر بلند کیا جائے گا اور اگر وہ دنیا میں گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف نہیں ہوا ہوگا تو جب قیامت کے دن آئے گا تو جہنّم کی آگ اُس کے انتظار میں ہوگی لہٰذا وہ پُل صراط سے اچانک اُٹھالیا جائے گا تاکہ اُس سے گناہوں کی گندگی دور کی جائے ،کیونکہ گناہوں وغیرہ کی آلودگیوں سے پاک و صاف لوگ ہی نیکوں کے گھر اور اللہ پاک کے پڑوس(یعنی جنت) کے لائق ہیں۔(فیض القدیر، 4/402، حدیث: 5388)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اس روایت سے تندرست لوگوں کو ترغیب حاصل کرنی چاہئے کہ و ہ تندرستی کی حالت میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی عادت بنائیں،فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت کریں، اُٹھتے،بیٹھتے چلتے پِھرتے ذکر و دُرود کرتے رہیں،فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزے رکھنے کی بھی عادت بنائیں۔ الغرض تندرستی کی حالت میں خوب نیکیاں کرتے رہیں گے تو بیماری کے دنوں میں اللہ پاک کی رحمت سے اُن نیکیوں کا ثواب بھی ملتا رہے گا جن کی تندرستی کی حالت میں کرنے کی عادت تھی مگر اب بیماری کے سبب نہیں کر پا رہے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کیا خوب لکھتے ہیں:
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا ہم مُفلس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
(حدائقِ بخشش، ص 187)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جسمانی بیماری بندۂ مومن کے حق میں بارہا رحمت ہوا کرتی ہے جس سے اس کے گناہ معاف اور درجے بلند ہوتے ہیں،کئی احادیثِ مبارکہ میں بیماری کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔انبیائے کِرام علیہمُ السّلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں، اللہ پاک کے اِن نیک بندوں یعنی انبیائے کرام علیہمُ السّلام ،صحابۂ کِرام علیہمُ الرضوان اور اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی خدمتوں میں اَمراض (یعنی بیماریوں)کی حاضری ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہوتی ہے اور ان نیک حضرات کے امراض پر صبر کے واقعات ہم گنہگاروں کے لئے ترغیب کا سبب ہوتے ہیں۔
اللہ پاک کے مَحْبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:اَلْمَرَضُ سَوْطُ اللهِ فِی الْاَرْضِ يُؤَدِّبُ بِه عِبَادَهٗ یعنی بیماری اللہ پاک کا زمین میں کوڑا (Whip)ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں کی اِصلاح فرماتاہے۔(جامع صغیر،ص550،حدیث:9194)
حضرت علّامہ عبدُ الرء ُوف مُناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں : کیونکہ بیماری کے سبب نفسِ اَ مَّار ہ کی آگ بجھ جاتی ہے اور یہ نفسانی خواہشات کی لذت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے ۔ جس نے اِس بات (یعنی بیماری اللہ پاک کا زمین میں کوڑا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں کی اِصلاح فرماتاہے۔) کو یاد کر لیا اُس کیلئے اللہ پاک کی رِضا پر راضی رہنے کا دروازہ کُھل جاتاہے۔(فیض القدیر،6/346، تحت الحدیث: 9194)
اے عاشقانِ رسول! خوشی ہو یا غمی، بیماری ہو یا تندرستی ، ہمیں ہر حال میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا چاہئے اور صبر کا ذہن بنانے کے لئے یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اِس دُنیاوی مصیبت میں مبتلا کر کےآخِرت میں ملنے والی سزا ابھی دُنیا ہی میں دی جا رہی ہے تو خدا کی قسم ! بڑے سستے میں چُھوٹ رہے ہیں ، کیونکہ آخِرت کا عذاب کسی سے برداشت نہیں ہو سکتا اور ہاں! خوشحالی و مالداری کی حالت میں بھی اللہ پاک سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں آخِرت میں ملنے والی نعمتوں کا بدلہ دُنیا میں ہی تونہیں مل رہا ؟طرح طرح کی لذیذ ڈشیں کھانے والوں،عالیشان مکانات بنانے والوں اور خوب عیش کی زندگی گُزارنے والوں کو بہت زیادہ ڈرنا چاہئے کہ ’’منہاج ُالعابدین‘‘ میں ہے: ”موت کی سختیاں زندگی کی لذتوں کے مطابق ہوتی ہیں “ تو جس کی یہ لذتیں زیادہ ہوں گی اُس کی و ہ سختیاں بھی زیادہ ہوں گی۔ (منہاج العابدین، ص 84)
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! یقیناً ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ جو کبھی بیمار یا پریشان نہیں ہوا وہ اللہ پاک کا ناپسندیدہ ہی ہے یا جس کے پاس دُنیاوی نعمتوں کی کثرت ہے اس کو آخِرت کی نعمتوں سے حصہ نہیں ملے گا ۔ہمیں فقط اپنے بارے میں غور و فکر کر کے اپنی آخِرت سنوارنے ،خُدائے رحمٰن و رحیم اور اس کے پیارے پیارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو راضی کرنے کی کوششوں میں لگے رہنا چاہئے کہ بس کسی طرح ہمارا پیارا رب ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راضی ہو جائے۔ ہر حال میں اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنا مومن کی شان ہے۔ مومنِ کامل کے لئے اُس کے ہر معاملے میں غور و فکر اور عبرت کے بے شمار پہلو ہیں، اِن میں غوروفکر کرکے ہرلمحہ گُناہوں سے مکمل طورپر بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے ۔
اللہ پاک پارہ21 ،سورۃ الروم،آیت نمبر 36 میں اِرشاد فرماتا ہے : (وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَاؕ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ اِذَا هُمْ یَقْنَطُوْنَ(۳۶))
ترجمۂ کنزالعرفان: اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اس پر خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان کے ہاتھوں کے آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی بُرائی پہنچے تو اس وقت وہ نا امید ہو جاتے ہیں ۔
اِس آیت کی تفسیر میں’’ صراط الجنان ‘‘میں ہے:یعنی جب ہم ،لوگوں کو تندرستی اور وُسعتِ رزق(یعنی رزق میں کُشادگی) کا مزہ دیتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں اوراِ س کی وجہ سے اِتراتے (یعنی تکبر کرتے) ہیں اور اگر اُنہیں اُن کی مَعْصِیَت(یعنی نافرمانی) اور اُن کے گناہوں کی وجہ سے کوئی بُرائی پہنچے تواُس وقت وہ الله پاک کی رحمت سے نا اُمید ہو جاتے ہیں اور یہ بات مومن کی شان کے خلاف ہے کیونکہ مومن کا حال یہ ہے کہ جب اُسے نعمت ملتی ہے تو وہ شُکر گُزاری کرتا ہے اور جب اُسے سختی پہنچتی ہے تو الله پاک کی رحمت کا اُمیدوار رہتا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 21، الروم، تحت الآیۃ: 36، 7/448 ملخصاً )
جو چاہے جمیلؔ ِ رضوی کو تُو عطا کر مختار ہے تُو اور وہ راضی برضا ہے
(قبالہ ٔ بخشش،ص 333)
غمزدوں کےغم دورکرنے والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک مرتبہ اپنے ایک اَنصاری صحابی رضی اللہُ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اوراُن سے اِرشاد فرمایا: تمہیں کب سے بُخار ہے؟ عرض کیا : یا نبیَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! سات راتوں سے، اِرشاد فرمایا: بیماریوں کا وقت خطاؤں کے وقت کو لے جاتاہے اورفرمایا:اے میرے بھائی!صبرکرو ،تم اپنے گناہوں سے ایسے نکلو گے جیسے اُن میں داخل ہوئے تھے۔
(شعب الایمان، 7/181، حدیث: 9925۔فیض القدیر، 4/106، تحت الحدیث: 4619)
یہ تِرا جسم جو بیمار ہے تشویش نہ کر یہ مَرَض تیرے گناہوں کو مٹا جاتا ہے
(وسائلِ بخشش، ص 432)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
ہم سب کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک مومن جب کسی بیماری میں مبتلا ہو پھر اللہ پاک اُسے اُس مرض (یعنی بیماری)سے شفا دے دے تو یہ بیماری اُس کے پچھلے گناہوں کا کفّارہ اور مستقبل میں اُس کے لئے نصیحت ہو جاتی ہے اور منافق جب بیمار ہو پھر اُسے عافیت ملے تو وہ اُس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے اُس کے مالک نے باندھ کر کھول دیا ہو جو نہیں جانتا کہ اُسے کیوں باندھا گیا اور کیوں چھوڑا گیا۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا :یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! یہ بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟خدا کی قسم! میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا ۔اِرشاد فرمایا: ہم سے دور ہو جا، تو ہم میں سے نہیں۔ (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں) (ابو داؤد، 3/245، حدیث: 3089)
حضرتِ علامہ مولانا مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:مؤمن بیماری میں اپنے گُناہوں سے توبہ کرتا ہے، وہ سمجھتا ہےکہ یہ بیماری میرے کسی گناہ کی وجہ سے آئی اور شاید یہ آخری بیماری ہو جس کے بعدموت ہی آئے ،اِس لیے اِسے شفا کے ساتھ مغفرت بھی نصیب ہوتی ہے۔مُنافق غافل یہی سمجھتا ہے کہ فُلاں وجہ سے میں بیمار ہوا تھا اور فلاں دوا (یعنی میڈیسن) سے مجھے آرام ملا، اَسباب میں ایسا پھنسا رہتا ہے کہ مُسَبِّبُ الْاَسْبَابْ(یعنی اللہ پاک)پر نظر ہی نہیں جاتی،نہ توبہ کرتا ہے ، نہ اپنے گناہوں میں غور۔
یہ شخص (جس نے یہ کہا:میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا )منافق تھا جس کا کفر پر مرنا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علم میں تھا اِس لیے اِس سختی سے اُسے یہ جواب دیا۔بعض روایات میں ہے کہ اِس موقعے پر (حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے)یہ بھی فرمایا: کہ جو دوزخی کو دیکھنا چاہے وہ اِسے دیکھ لے۔ورنہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سراپا اخلاق ہیں،محض بیمار نہ ہونے پر ایسی سختی نہ فرماتے۔اِس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو رب نے لوگوں کے اچھے بُرے انجام کی خبردی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 2/424،423 ملتقطا)
امام شرفُ الدین حسین بن محمد طیبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :جب بندۂ مومن بیمار ہوتا ہے اور پھر تندرست ہوتا ہے تو ہوشیار ہو جاتا ہے اور جان لیتا ہے کہ اُس کی بیماری اُس کے پچھلے گناہوں کو دور کرنے کا سبب تھی لہذا وہ شرمندہ ہوتا ہے اور آئندہ گناہوں کی طرف نہیں بڑھتا جس طرح پہلے اُس سے گناہ ہوئے ہوتے تھے، لہٰذا یہ بیماری اُس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔(شرح الطیبی علی المشکاۃ المصابیح، 3/326، حدیث: 1571)
حضرت ِ سَہل بن عبداللہ تُستری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ” جسمانی بیماری رحمت ہے جبکہ دِل کی بیماری سزا ہے۔“ (احیاء العلوم، 4/356)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!جسمانی بیماریاں باعثِ رحمت اور گُناہوں کی بیماری باعثِ ہلاکت ہے۔یقین مانئے ! فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سُننا، رِشوتوں کا لین دین کرنا،سودی و حرام ذرائع سے مال کمانا یا لقمۂ حرام کھانا ایسی بدترین بیماری ہے جو کینسر اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے کئی گُنا زیادہ خطرناک(Dangerous) ہے،کیونکہ جسمانی بیماری زیادہ سے زیادہ جان لے گی جبکہ گُناہوں کی بیماری سےایمان برباد ہو سکتا ہے اور سَر سے لے کر پاؤں تک جسمانی بیماریوں میں مبتلا شخص کُفر کی بیماری مبتلا ہونے والے سے بہت کم نقصان میں ہے ،کیونکہ کُفر پر مرنے کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذابِ جہنم کا سامنا ہوگا جو کہ ناقابلِ برداشت ہے۔
ہر وہ تکلیف دِہ چیز جس کا تصور کیا جائے اُس(یعنی اللہ پاک) کے بے انتہا عذاب کا ایک ادنیٰ (یعنی معمولی )حصہ ہے ۔ مَثَلاً کسی آلے سے زندہ انسان کے ناخن کھینچ لینا، کسی پر چھریوں یا لاٹھیوں سے ضربیں لگانا، کسی کے اُوپر وزن دار گاڑی چلا کر اُس کی ہڈیاں چَکنا چور کردینا ، کسی کے سر کے بال پکڑکراُس کے کھلے منہ میں بندوق کی گولی چلا دینا، اَعضا کاٹ کر نمک مرچ چھڑکنا، زندہ کھال اُدھیڑنا، بغیر بے ہوش کیے آپریشن کرنا ، یا مختلف بیماریوں کی تکالیف مَثَلاً سر درد، بخار، پیٹ کا درد یا خطرناک بیماریاں مَثَلاً دل کا دورہ (ہارٹ اٹیک)، سرطان (کینسر) ، گردے کی پتھری کا درد، خارش، شدید گھبراہٹ وغیرہ وغیرہ جو بھی اَمراض یا مصائب و آلامِ دُنیوی جن کا تصور ممکن ہے وہ جہنم کی تکلیفوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔بِالفرض دُنیا کی ساری بیماریاں اور مصیبتیں کسی ایک شخص پر جمع ہو جائیں تب بھی جہنم کے سب سے ہلکے عذاب کے برابر نہیں ہو سکتیں۔(فیضانِ نماز، ص 454)
ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایک لمحے کے کروڑویں حصے کے لئے بھی کُفر کی بیماری میں مبتلا نہ فرمائے بلکہ ہمیں گُناہوں کی بیماری سے بھی محفوظ فرمائے، کیونکہ گُنا ہ کُفر کے قاصد ہیں۔نَسْئَلُ اللہَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِيَةَ یعنی ہم اللہ پاک سے معافی و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
ہر گُنہ سے بچا مجھ کو مولیٰ نیک خصلت بنا مجھ کو مولیٰ
تجھ کو رَمضان کا واسطہ ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
(وسائلِ بخشش، ص 135)
اللہ پاک کے پیارے پیارے آخِری نبی ،مکی مَدَنی ،محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے(یعنی ظاہری حیات ِ مبارکہ)میں ایک صاحب فوت ہوئے تو کسی نے کہا:اُسے مبارک ہو کہ وہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے بغیر فوت ہو گیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے(یہ سُن کر) اِرشاد فرمایا:تم پر افسوس ہے،تمہیں کیا خبر کہ اگر اللہ پاک اُسے کسی مرض میں مبتلا فرماتا تو اِس کے سبب اس کے گُناہ مِٹادیتا۔(موطا امام مالک، 2/430،حدیث: 1801)
’’مِراٰۃ ‘‘میں ہے:یہ قائل (یعنی مبارکباد دینے والے)سمجھتے تھے کہ بیماریاں رَب کی پکڑ ہیں اور تندرست رہنا اُس کی رحمت،اِس لیے بطور مبارکباد یہ عرض کیا،اِسی خیال پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےناراضی کا اظہار فرمایا،یعنی مومن کی بیماری خصوصاً بیماریٔ موت (یعنی وہ مرض جس میں انسان کی موت واقع ہو جائے، وہ)بھی اﷲ پاک کی رَحمت ہے کہ اِس کی برکت سے اﷲ پاک گناہ معاف کرتا ہے۔نیز بندہ توبہ وغیرہ کرکے پاک و صاف ہو جاتا ہے، لہٰذا بیمار ہو کر مرنا بہتر۔ (مراٰۃ المناجیح، 2/428)
حدیثِ پاک میں ہے:بے شک اللہ پاک اپنے مومن بندے کو بیماری میں مبتلا فرماتا ہے یہاں تک کہ اُس کے سارےگناہ مٹادیتاہے۔ (شعب الایمان،7/166،حدیث:9863)
مکی مَدَنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:سَاعَاتُ الْاَذٰى يُذْهِبْنَ سَاعَاتِ الْخَطَايَا یعنی مصیبتوں اور بیماریوں کاوقت بندے کی خطاؤں کا کفارہ بن جاتا ہے۔(شعب الایمان، 7/181، حدیث:9926)ایک اور روایت میں ہے:دُنیا میں بیماریوں ،غموں کا وقت آخرت میں تکلیف کے وقت کو دورکردیتا ہے۔(یعنی دُنیا میں انسان کو جو مصائب و تکالیف پہنچتی ہیں وہ آخرت کے ہولناک اورتکلیف دہ حالات سے نجات کا سبب بن جائیں گی) (فیض القدیر، 4/106، تحت الحدیث: 4617)