30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
آثارِ متبرکہ و مقاماتِ مقدسہ کی تعظیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمط اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: (وَتُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ) ترجمۂ کنزالایمان :رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔ (پارہ26، سورۃ الفتح، آیت9) انسان محبت میں کامل تب کہلاتا ہے کہ جب اپنے محبوب کے ساتھ ساتھ اُس سے منسوب ہر چیز کا ادب و احترام کرنا اُس کے مزاج کا حصہ بن جائے،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ’’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے لے کر اکابرین و صلحائے اُمت تک کا یہی طریقہ کار چلتا آرہا ہے کہ وہ اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے اورنبی مکرّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عقیدت و الفت کی وجہ سےہر اُس چیز سے بھی دلی عقیدت رکھتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب ہو،نیز ان چیزوں کی تعظیم و توقیر کر کے اپنی دلی عقیدت کا عملی ثبوت دیتے ہیں۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین کی اتباع میں آج بھی پوری دنیا کے مسلمان مختلف انداز سے اپنی اس محبت اور عقیدت کااظہار کرتے ہیں ۔ مثلاً: گنبدِ خضریٰ کی زیارت کے وقت عشّاق تعظیماً روضۂ رسول کو پیٹھ نہیں کرتے،ادب سے ہاتھ باندھ کرنظریں جھکا کر کھڑے ہوتے اورانتہائی ادب و احترام کے ساتھ بصورتِ درود و سلام بارگاہِ رسالت میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں، وہاں کی در و دیوار کو احترام سے بوسے دیتے ہیں ۔ نیز اس پاک سرزمین پر برہنہ پا(ننگے پاؤں) چلنے کو کمالِ ادب سمجھتے ہیں،جس جس جگہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے کسی طور پر قیام فرمایا، بلکہ جہاں سے صرف گزر ہوا، تو ان مقامات کو بھی واجب التعظیم سمجھتے اور ان کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔ جیسے: مسجدِ قباء، مسجدِ قِبلتین، مسجدِ جمعہ، جبلِ احد،مقامِ ثنیۃ الوداع، غارحراء، غارِ ثور اور طائف وغیرہ مقاماتِ مقدسہ ۔ نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آثارِمتبرکہ و معظّمہ جیسے: موئے مبارک ،جبہ شریف، تلوار شریف، پیالہ مبارک، نعلین شریفین وغیرہ، ان تمام آثار کا ادب کرتے اور ان کی زیارت کو عظیم سعادت سمجھتے ہیں ۔تعظیم پر مشتمل اہلِ اسلام کے مذکورہ افعال و اعمال کا ثبوت ہمیں صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی پاک سیرت سے ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب چیزوں کی بنیادی طور پرتین قسمیں ہیں۔ان اقسام اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ان کی تعظیم کا ثبوت پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کیجئے: (1)وہ چیزیں کہ جنہیں نبی معظّم و مکرّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بدنِ اقدس کا جزء ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جیسے: موئے مبارک، ناخن مبارک ، لعاب دہن وغیرہ۔اس بارے میں چند روایات ملاحظہ ہوں: صحیح بخاری میں ہے:’’ان تنخم نخامۃ الا وقعت فی کف رجل منھم فدلک بھا وجھہ و جلدہ‘‘ ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم بلغم مبارک کھنکھنارتے تو صحابۂ کرام علیہم الرضوان اسے زمین پر نہ گرنے دیتے، بلکہ (کمال محبت و احترام) سے اسے اپنے ہاتھ میں لیتے اور اسے اپنے چہرے اور جسم پر مَل لیتے ۔ (صحیح بخاری ، باب الشروط فی الجھاد و المصالحة۔۔الخ، ج3،ص193، الرقم2731،دارطوق النجاة، بیروت) حضرت سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم و الحلاق یحلقہ و اطاف بہ اصحابہ فما یریدون ان تقع شعرۃ الا فی ید رجل‘‘ترجمہ:میں نے دیکھا کہ حلق کرنے والا شخص حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلق کر رہا تھا(سر مبارک کے بال اتار رہا تھا)اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گِرد اس ارادے سے گھوم رہے تھے کہ بال( زمین پر گرنے کی بجائے) کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔ (صحیح مسلم،باب قرب النبی علیہ السلام من الناس، ج4،ص1812، الرقم 2325، داراحیاء التراث العربی ، بیروت) حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وقتِ وصال ارشاد فرمایا:’’کسانی احد ثوبیہ الذی کان علی جلدہ فخبأتہ لھذا الیوم و اخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم من اظفارہ و شعرہ و خبأتہ لھذا الیوم فاذا انا مت فاجعل ذلک القمیص دون کفنی مما یلی جلدہ و خذ ذلک الشعر و الاظفار فاجعلہ فی فمی وعلی عینی و مواضع السجود فان نفع شئ فذلک‘‘ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے جسم پر موجود دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا مجھے پہنایا، تو میں نے اسے اس دن کے لیے بحفاظت سنبھال کر رکھ لیا اور میں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ناخن اور بال مبارک بھی اس دن کے لیے سنبھال کر رکھ لیے تھے، پس جب میں مر جاؤں ، تو اس قمیص مبارک کو میرے کفن کے نیچے میرے جسم کے ساتھ ملا کر رکھنا اور یہ موئے مبارک اور ناخن شریف میرے منہ اور آنکھوں اور مواضعِ سجود (سجدے میں زمین سے لگنے والی جگہوں)پر رکھنا، تو اگر کوئی چیز مجھے نفع دے گی، تو وہ یہی چیز ہو گی۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج3،ص 1419، دارالجیل ، بیروت) (2)وہ چیزیں کہ جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جزوِ بدن ہونے کی حیثیت حاصل نہیں،لیکن نبی محترم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسمِ اقدس سے مَس ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔جیسے: نعلین شریفین،جبہ شریف، تلوارِ اقدس ، منبرِانور وغیرہ۔ اس بارے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان سے منقول اندازِ ادب ملاحظہ فرمائیں: حضرت سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلین شریفین بطورِ تبرک و تعظیم اپنے پاس سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔چنانچہ ایک موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نےلوگوں کے سامنےوہ نعلین مبارک نکال کر ارشاد فرمایا: ’’انھما نعلا النبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم‘‘ترجمہ:یہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلین شریفین ہیں۔ (صحیح بخاری،باب ما ذکر من درع النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،ج4،ص83، الرقم3107، دار طوق النجاۃ، بیروت) امام قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’روی ابن عمر واضعا یدہ علی مقعد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم من المنبر ثم وضعھا علی وجھہ‘‘ترجمہ:حضرت سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما منبر شریف پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیٹھنے کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر اپنے چہرے پرلگایا کرتے تھے۔ (الشفاء،فصل فی حکم زیارۃ قبرہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم،ج2،ص86،دارالفکر، بیروت) (3)وہ چیزیں کہ جو نہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جزوِ بدن ہیں اور نہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسمِ اقدس سے مس ہونے کا شرف ملا ، البتہ انہیں بالواسطہ(Indirectly) کسی طور پر بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نسبت حاصل ہے۔ جیسے: شہرِ پاک مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ وغیرہ مقاماتِ مقدسہ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس شہر کو اپنی قیام گاہ بنایا ، اُس کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ (۱ۙ) وَ اَنْتَ حِلٌّۢم بِهٰذَا الْبَلَدِ(۲ۙ) ) ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ (پارہ30، سورۃ البلد، آیت1 تا2) مدینہ منورہ(جو درحقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب ایک شہر اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قیام گاہ ہے) کی عظمت کو ظاہر کرتے ہوئے ایک حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا:’’لکل نبی حرم و حرمی المدینۃ‘‘ ترجمہ: ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حرم ہے اور میرا حرم (حرمت والا مقام) مدینہ ہے۔ (مسند احمد، ج5،ص90، الرقم 2920، مؤسسة الرسالة، بیروت) نیزنبیٔ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینۂ منوّرہ کی تعظیم کے پیشِ نظر ارشاد فرمایا:’’لا یحل لاحد یحمل فیھا السلاح لقتال‘‘ترجمہ:کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ مدینۂ منوّرہ میں جنگ کے لیے ہتھیار نکالے۔ (مسند احمد، ج23،ص73، الرقم 14736، مؤسسة الرسالة ، بیروت) شفاء شریف میں ہے:”من اعظامہ واکبارہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ واکرام مشاھدہ وامکنتہ من مکۃوالمدینۃ ومعاھدہ وما لمسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام او عرف بہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم “ترجمہ:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم و احترام میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام اسباب ، تمام مشاہدمقدسہ(محافل ) اور مقاماتِ معظمہ مثلاً: مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منوّرہ وغیرہ دیگر جگہیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب ہوں اور جن چیزوں کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی مس فرمایا(ہاتھ لگایا) ، جو چیزیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے معروف و مشہور ہوں،ان تمام چیزوں کی تعظیم کی جائے۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ، فصل من اعظامہ واکبارہ ۔۔الخ،ج2، ص56،دارالفکر، بیروت) حضرت سیّدناابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کس ادب کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار شریف پر حاضری دیا کرتے تھے، ملاحظہ فرمائیں:’’جاء ایوب فدنا من قبر النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فاستتدبر القبلۃ و اقتبل بوجھہ القبر فبکی بکاء‘‘ترجمہ:حضرت سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوتے ، تو قبلہ کو پیٹھ کرتے اور اپنا چہرہ قبر انور کی طرف کرتے اور زار و قطار روتے تھے۔ (المعرفة والتاریخ،ج2،ص787، مؤسسة الرسالة، بیروت) اس قسم کی خوبصورت روایات بہت کثرت سے کتبِ احادیث و سیرت میں مذکور ہیں جن میں سے کچھ مشامِ جان معطر کرنے کےلئے پیش کی گئی ہیں ۔ ان روایات سے یہ بات بالکل واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ حضور اکرم نورِ مجسّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک کے ادب کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز کا ادب ہم پر لازم ہے جسے حضور صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے شرفِ انتساب حاصل ہے اور اس ادب کا ثبوت ہمیں بزرگانِ دین اور اکابرینِ امت کی تعلیمات وتصریحات سے ملتا ہے ۔ اسی سلسلے میں غلافِ کعبہ اور آثارِ مقدسہ کو تعظیما بوسہ دینے کے متعلق سرکار اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ بنام : ”ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال“پیشِ خدمت ہے ، جس میں سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے پیارے ہاتھوں اور مقدس قدموں ، مُہرِ نبوت ، منبرِ رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم سے نسبت رکھنے والے راستوں ، مقامات ، در و دیوار ، نقشِ نعلِ پاک اور نقشِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کی تعظیم کرنے اور ان کو احتراماً چھونے ، چومنے کے بارے میں قرآن و حدیث ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے عمل اور اسلافِ کرام رحمۃ اللہ علیہم کے اشعار و اقوال سے دلائل ذکر کیے ہیں اور آثارِ متبرکہ کو محفوظ رکھنے اور ان کی زیارت کرنے کا بہترین طریقہ بھی ارشاد فرمایا ہے ۔عرسِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے موقع (۲۵ صفر المظفر۱۴۴۳بمطابق 3 اکتوبر 2021 )پر اس رسالے کا مطالعہ کر کے اپنے قلوب و اَذہان کو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشبو سے مزید معطر فرمائیں اور ان روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ماہِ میلاد ، ربیع الاول شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے برکتیں حاصل کریں ۔ ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال (بوسۂ تعظیمی کے مستحسن ہونے کے بارے میں درست ترین کلام) مع تسہیل و تخریج مصنّف اعلٰی حضرت امامِ اہلِسنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ( فتاوی رضویہ جلد22صفحہ341تا352مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور) (ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال) (بوسۂ تعظیمی کے مستحسن ہونے کے بارے میں درست ترین کلام) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم مسئلہ : از سورت کٹھور مسجد پرب مرسلہ مولوی عبدالحق صاحب از علی گڑھ مدرسہ مولانا مولوی محمد لطیف اللہ صاحب مرسلہ مولوی سندی صاحب طرفہ ایں کہ از ہردوجابوقت واحد سوال آمد (طرفہ یہ کہ ایک ہی وقت میں دونوں جگہوں سے سوال آیا۔ ت) ۱۳ ذی الحجہ ۱۳۰۹ھ (الاستفتاء) کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ہذا (اس مسئلے کے بارے)میں کہ شہر موریس میں قبلہ رخ کی دیوار کے ساتھ محراب کے متصل بیتُ اللہ شریف کے غلاف کا ٹکڑا دوگز لمبا او رسوا گز چوڑا لٹکا ہوا ہے اور وہاں کے باشندے میمن وغیرہ سب سوداگر خاص وعام بعدِ پنچگانہ (پانچوں نمازوں کے بعد)اس ٹکڑے کو بوسہ دیتے ہیں اور بعد نمازِ جمعہ کے تو بوجہِ کثرت نمازیوں کے بوسہ دینے میں بہت ہی ہجوم کرتے ہیں ،کوئی چاربوسے دیتاہے کوئی زیادہ کوئی کم، جیسا کسی کا موقع لگاویسا ہی اس نے کیا اور کوئی ہجوم اور کثرت کی وجہ سے محروم بھی رہ جاتاہے اور اس امر میں اس کو معظّم(قابلِ احترام) چیز سمجھ کر کمال کوشش کرتے ہیں،کسی قدر جاننے والے لوگ تو تعظیم کا بوسہ دیتے ہیں او ر عوام کا حال معلوم نہیں کہ وہ کیا سمجھ کر بوسہ دیتے ہیں ،لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس میں بہت مبالغہ کرتے ہیں۔آیا یہ امر شرعاً موجبِ ثواب (ثواب کا باعث)ہے یا کسی امر خارجی کی وجہ سے مستوجبِ عذاب (عذاب کا حقدار بنانے والا)ہے؟ بینوا توجروا (بیان کیجئے اور اجر حاصل کیجئے) (الجواب) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بوسۂ تعظیم(احتراماً کسی چیز کا بوسہ لینا)شرعاً وعرفاً انحاءِ تعظیم ( شرع اور عرف ورواج کے اعتبارسےتعظیم کی صورتوں میں) سے ہے، اسی قبیل سے ہے بوسۂ آستانۂ کعبہ وبوسۂ مصحف(قرآنِ پاک کوچومنا) و بوسۂ نان (روٹی کو چومنا) وبوسۂ دست وپائے علماء واولیاء( علماء و اولیاءادام اللہ فیوضھم کے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنا)۔ ”وکل ذٰلک مصرح بہ فی الکتب کالدرالمختارمن معتمدات الاسفار“ (ترجمہ:یہ تمام مسائل درمختارجیسی معتمد کتابوں میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں) (الدر المختار، کتاب الحظر والاباحة، باب الاستبراء وغیرہ، ج6، ص384، دارالفکر ، بیروت) ٭٭٭٭٭٭٭ (بوسۂ تعظیمی احادیث و روایات کی روشنی میں) ٭خودا حادیث کثیرہ میں صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کادست وپائے اقدس حضور پر نور سید یوم النشورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ومہر ِنبوت کو بوسہ دینا وارد(ہے)۔” کما فصلنا بعضہ فی کتابنا البارقۃ الشارقۃ علی المارقۃ المشارقۃ“ (ترجمہ:جیسا کہ ہم نے بعض روایات کو اپنی کتاب”البارقۃ الشارقۃ علی المارقۃ المشارقۃ“میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔) ٭اور مانحن فیہ (جس مسئلے کے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں، اس)سے اقرب واوفق (زیادہ قریب و موافق)حدیثِ عبداللہ بن عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے کہ انہوں نے منبر ِانور سرورِ اطہر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے موضع جلوس اقدس (بیٹھنے کی مقدس جگہ)کو مس (ہاتھ سےچُھو)کرکے اپنے چہرے سے لگایا۔”رواہ ابن سعد فی طبقاتہ‘‘(ترجمہ: ابنِ سعد علیہ الرحمۃ نے اسے اپنی کتاب”الطبقات الکبریٰ “میں روایت کیا۔) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ج1،ص 254، دار صادر، بیروت) ٭اورصحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم سے مروی کہ رمّانۂ منبرِاعطر کو(خوشبودار منبر کے رمّانہ کہ جس کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے دستِ اقدس سے پکڑتےتھے) جو مزارِ اقدس و ازہر (تقدس والےاور روشن مزار شریف کی سمت) پر ہے یعنی اس (منبر شریف) کے بازو پر جوگول شکل کا ایک کنگرہ (کنارہ)سابنا دیتے، اسے دہنے ہاتھ سے مس (چُھو) کرکے دعا مانگا کرتے۔ امام قاضی عیاض رتعت روحہ فی الریاض(اللہ پاک ان کی روح کو جنت کے باغات سے سَیر كرائے)”شفا شریف“ میں فرماتے ہیں :” قال نافع کان ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما یسلم علی القبور اٰتیہ مائۃ مرۃ واکثر یجیئ الی القبر فیقول السلام علی النبی، السلام علی ابی بکر ثم ینصرف ورُئِیَ (بمعنی ابصر) واضعا یدہ علی مقعد النبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم من المنبر ثم وضعھا علی وجھہ وعن ابن قسیط والعتبی کان اصحاب النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذا خلا المسجد حسوا رمانۃ المنبر التی تلی القبر بمیامنھم ثم استقبلوا القبلۃ یدعون “ (ترجمہ:حضرت سیّدنا نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدناابن عمر رضی اللہ عنہما حجرہ مبارکہ کی قبروں پر سلام کرنے حاضر ہوتے ،تو سو سے زائد مرتبہ کہتے: ”نبی (علیہ الصلوٰہ والسلام) پر سلام، حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) پر سلام“ پھر پلٹتے ہوئے منبر شریف پرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹھنے کی جگہ کو ہاتھ سے مس کرکے اپنے چہرے پر لگاتے۔ ابن قسیط اور عتبیٰ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب مسجدِ نبوی سے نکلتے ،تو قبر ِانور کی (سمت پر موجود) منبر اقدس کےرمانہ مطہرہ کو اپنے داہنے ہاتھوں سے مس کرتے اور پھرقبلہ رو ہوکر دعا کرتے۔) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ، فصل فی حکم زیارۃ قبرہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔، ج2، ص86،دارالفکر، بیروت) ٭٭٭٭٭٭٭ ( معظّمِ شرعی سےجب کسی چیز کو شرف حاصل ہو، تو اُس چیز کی تعظیم در حقیقت معظّمِ شرعی کی تعظیم کہلاتی ہے) غرض شرعاً وعرفا ًمعلوم ومعروف (شرع اور عرفِ عام کے اعتبار سے یہ بات معلوم و مشہور ہے)کہ جس چیز کو معظّمِ شرعی (شرعی طور پر قابلِ عزت چیز)سے شرف حاصل ہو، اس کا وہ شرف بَعدِ انتہائے مماست (ٹَچ ہوکر جدا ہو جانے کے بعد) بھی باقی رہتا ہے اور اِس کی تعظیم اُس معظّم(جس کی وجہ سے دوسری چیز کو شرفِ عظمت حاصل ہوا، اس اصل چیز)کی انحائے تعظیم (احترام بجا لانے میں)سے گنی جاتی ہے اور معاذ اللہ اِس کی توہین اُس معظّم(اصل قابل عظمت چیز) کی توہین، تاجِ سلطان کو مثلاً زمین پر ڈالنا صرف اسی وقت اہانتِ سلطان نہ ہوگا ،جبکہ وہ اس کے سر پر رکھا ہو،بلکہ جدا ہونے کی حالت میں بھی ہر عاقل کے نزدیک یہی حکم ہے، یونہی تعظیم۔ ٭شفاء شریف میں ہے:”من اعظامہ واکبارہ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ واکرام مشاھدہ وامکنتہ من مکۃوالمدینۃ ومعاھدہ وما لمسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام او عرف بہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم “ (ترجمہ:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم و احترام میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام اسباب ، تمام مشاہدمقدسہ(محافل ) اور مقاماتِ معظمہ مثلاً مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منوّرہ وغیرہ دیگر جگہیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب ہوں اور جن چیزوں کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی مس فرمایا(ہاتھ لگایا)، جو چیزیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے معروف و مشہور ہوں،ان تمام چیزوں کی تعظیم کی جائے۔) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ، فصل من اعظامہ واکبارہ ۔۔،ج2، ص56،دارالفکر، بیروت) ٭٭٭٭٭٭٭ (منسوب کی تعظیم بلحاظ ِنسبت منسوب الیہ کی تعظیم ہے) اور بےشک تعظیمِ منسوب بلحاظِ نسبت، تعظیم ِمنسوب الیہ ہے (جوچیز کسی چیز سے نسبت رکھتی ہو، اُس کی تعظیم نسبت کے لحاظ سے اُس اصل چیز کی تعظیم شمار کی جاتی ہے کہ جس کی طرف دوسری چیزمنسوب ہے) اور بےشک کعبہ شعائر اللہ سے ہے،تو تعظیم ِغلاف ،تعظیمِ کعبہ وتعظیمِ شعائر اللہ شرعاً مطلوب۔(یعنی شعائر اللہ کی تعظیم بجا لانا شریعت کا حکم ہے۔) ( وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ ) (ترجمۂ کنزالایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔) (پارہ17، سورۃ الحج، آیت32) ٭٭٭٭٭٭٭ (جس چیز کومعظّمِ شرعی کے ساتھ کسی طور پربھی نسبت ہو، تو وہ چیز بھی واجب التعظیم ہوجاتی ہے، اگرچہ اسے معظّمِ شرعی سے مس و لمس کا شرف حاصل نہ ہوا ہو) بلکہ نظرِایمانی سے مس ولمس(چھونے) کی بھی تخصیص نہیں،جس شے کو معظّمِ شرعی(شریعت کی رو سے قابلِ تعظیم چیز) سے کسی طرح نسبت ہے، واجب التعظیم (احترام کے لائق) و مورثِ محبت (محبت کا سبب)ہےولہذا بلدۂ طیبہ(پاک شہر)مدینہ طیبہ سکینہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ والتحیۃ کے درودیوار کو مس کرنا اور بوسہ دینا اہلِ حُب ووِلا(محبت کرنے والوں)کا دستور اور کلماتِ ائمہ وعلماء میں مسطور(لکھا ہوا ہے)، اگر چہ ان عمارات کا زمانۂ اقدس میں وجود ہی نہ ہو، شرفِ مس (چھونے کے شرف)سے تشرّف(شرف حاصل ہونا) درکنار(دور کی بات)۔ ٭٭٭٭٭٭٭ (بیان کردہ دعوے پر اکابرینِ امت کے اشعار و کلام سے استدلال) ٭وللّٰہ در من قال (اللہ تعالیٰ اس شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جس نے کہا : ) أمرّ على الدّيار ديار ليلٰى أقبّل ذا الجدار و ذا ا لجدارا وما حبّ الدّيار شغفن قلبي ولكن حبّ من سكن الدّيارا (ترجمہ:میں دیارِ لیلیٰ سے گزرتا ہوں، تو کبھی ایک دیوارکو چومتا ہوں اور کبھی دوسری دیوارکو چومتا ہوں اور اس شہر کی محبت نے میرے دل کو دیوانہ نہیں بنایا، بلکہ اس میں بسنے والے (لیلیٰ ) کی محبت نے مجھے دیوانہ بنایا ہے) (شفاء السقام ،الباب الرابع فی نصوص العلماء فی زیارۃ قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ص220، دارالکتب العلمیة، بیروت)(جواھرالبحار،منھم الامام احمد المقری، ج3،ص961،مطبوعہ بیروت ) ٭شفاء شریف میں ہے :”وجدیر لمواطن اشتملت تربتھا علی جسد سید البشر صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم مدارس ومشاھد ومواقف ان تعظم عرصاتھا و تتنسم نفحاتھا و تقبل ربوعھاوجد راتھاملخصا“ (ترجمہ:اور اُن مقامات ، راستوں، حاضر ہونے اور وقوف فرمانے کی جگہوں کے میدانوں کی تعظیم کرنا بھی ضروری ہے ، جن کی مٹی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسدِ پاک کو لگی ہے،اُن فضاؤں سے لطف اٹھایا جائے اور اُن محلوں اور در و دیوار کا بوسہ دینا چاہئے۔ملخصاً) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ، فصل من اعظامہ واکبارہ ۔۔،ج2، ص58 تا 59،دارالفکر، بیروت) ٭پھر ارشاد فرماتے ہیں: یادار خیر المرسلین و من بہ ھدی الانام و خص بالایات عندی لاجلک لوعۃ و صبابۃ و تشوق متوقدالجمرات وعلیّ عھد ان ملأت محاجری من تلکم الجدرات والعرصات لاعفرن مصون شیبی بینھا من کثرۃ التقبیل والرشفات (ترجمہ:اے خیر المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کاشانۂ اقدس اور (ان سے منسوب )ہر وہ چیز جس کے ساتھ لوگوں نے ہدایت حاصل کی اور جوچیزیں آیات (معجزات )کے ساتھ مخصوص ہیں،میرے پاس آپ کے لیے سوزش، عشق اور ایسا شوق ہے، جس سے چنگاریاں روشن ہیں اور مجھ پر یہ عہد لازم ہے کہ میں اپنی آنکھوں کو آپ کی اُن دیواروں اور میدانوں سے بھر لوں گا، کثرت سے بوسہ دے کر اور اُن در و دیوار وں سے لپٹ کر میں اپنی سفید داڑھی کو گرد آلود کر لوں گا۔) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،فصل من اعظامہ واکبارہ،ج2، ص58 تا 59،دارالفکر، بیروت) ٭٭٭٭٭٭٭ (نعلِ پاک سے تبرّ ک پر ائمۂ اسلام نےکتب لکھی ہیں) ٭اس سے بھی ارفع واعلیٰ(بلند و بالا)،واضح وجلی (بالکل ظاہر)یہ ہے کہ طبقۃً فطبقۃ (درجہ بدرجہ)شرقاً وغرباً(مشر ق و مغرب)عجماً عرباً(عرب و عجم کے) علمائے دین و ائمۂ معتمدین(قابلِ اعتماد ائمہ) نعلِ مُطہّر(حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلین پاک) و روضۂ معطّر (خوشبودار مزار شریف)حضور سید البشر علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بناتے، کتابوں میں تحریر فرماتے آئے اور انہیں بوسہ دینے اور آنکھوں سے لگانے ،سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے۔علامہ ابوالیمن ابن عساکر شیخ ابواسحق ابراہیم بن محمد بن خلف سلمی وغیرہما علماء نے اس باب میں مستقل تالیفیں کیں اور علامہ احمد مقری کی ”فتح المتعال فی مدح خیر النعال“اس مسئلہ میں اجمع وانفع تصانیف (اس موضوع پر لکھی گئی تصانیف میں جامع و نفع بخش)ہے۔جزاھم ربھم جزاء حسنا ورزقھم ببرکۃ خیر النعال امنا وسکنا اٰمین (اللہ تعالیٰ ان کو اچھی جزاء اور اس بہتر نعلِ پاک کی برکت سے امن وسکون عطا فرمائے ۔آمین۔) ٭محدث علامہ فقیہ ابوالربیع سلیٰمن بن سالم کلاعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یا ناظر اتمثال نعل نبیہ قبل مثل النعل لامتکبرا (ترجمہ:اے اپنے پیارےنبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےنعلِ مبارک کے نقش کو دیکھنے والے! دل میں تکبر و بڑائی لائے بغیراس نقش کو بوسہ دے۔) (جواھرالبحار،منھم الامام احمد المقری، ج3،ص947،مطبوعہ بیروت ) ٭قاضی شمس الدین صیف اللہ رشیدی فرماتے ہیں: لمن قد مس شکل نعال طٰہ جزیل الخیر فی یوم المآب و فی الدنیا یکون بخیر عیش و عز فی النھاء بلا ارتیاب فبادر وا لثم الاثار منھا بقصدالفوز فی یوم حساب (ترجمہ:جس نے طٰہ محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلِ پاک کے نقش کو مس کیا (چھوا)، اسےقیامت میں خیرِ کثیر ملے گی اور یقیناًوہ دنیا میں اچھی عیش و عشرت اور انتہائی عزت کے ساتھ رہے گا، تو روزِ قیامت فلاح و کامرانی کے حصول کی نیت سے جلد اس اثرِ کریم (عزت والی یادگار)کو بوسہ دے۔) (فتح المتعال فی مدح النعال ،ص227 تا 228، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ) ٭شیخ فتح اللہ بیلونی حلبی معاصر علامہ مقری نعل ِمقد س سے عرض کرتے ہیں : فی مثلک یانعال اعلی النجبا اسرار بیمنھا شھدنا العجبا من مرع خدہ بہ مبتھلا قد قام لہ ببعض ما قد وجبا (ترجمہ:اے سیدُالانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعل مبارک! تیرے نقش میں وہ اسرار ہیں،جن کی عجیب برکتیں ہم نے مشاہدہ کیں۔ جو اظہار ِعجز ونیاز کے ساتھ اپنا رخسار اِس پر رگڑے، تو اُس نے اِس کے بعض واجب حقوق کو ادا کر دیا۔) (فتح المتعال فی مدح النعال،ص229، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ) ٭وہی فرماتے ہیں : مثال نعل بوطی المصطفٰی سُعدا فامد الی لثمہ بالذل منک یدا واجعلہ منک علی العینین معترفا بحق توقیرہ بالقلب معتقدا و قبلہ و اعلن بالصلاۃ علی خیرالانام وکرر ذاک مجتھدا (ترجمہ:یہ اُس نعلِ پاک کانقش ہے کہ جسے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدمین شریفین کی آرام گاہ بننے کی سعادت ملی، تم اپنے ہاتھوں کو عاجزی و انکساری کے ساتھ اس نقشِ نعل کو بوسہ دینے کے لیے بڑھاؤ اور اس کی تعظیم و توقیر کے حق کا اعتراف کرتے ہوئے اور دل سے اس کا اعتقاد رکھتے ہوئے اسے اپنی آنکھوں پر رکھواور اسے بوسہ دو اور نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعلانیہ درودِ پاک بھیجو اورکوشش کر کے اس فعل کو بار بار کرو۔ (فتح المتعال فی مدح النعال،ص277، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ) ٭سید محمد موسٰی حسینی مالکی معاصر علامہ ممدوح فرماتے ہیں: مثال نعال المصطفٰی اشر ف الورٰی بہ مورد لا تبتغی عنہ مصدرا فقبلہ لثما و امسح الوجہ موقنا بنیت صدق تلق ماکنت مضماً (ترجمہ:مخلوقات میں سب سے زیادہ عزت و شرف والے مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلِ پاک کے نقش کو وہ مقام حاصل ہے کہ جس سے دور نکلنے کی راہ تجھے تلاش ہی نہیں کرنی چاہئے،پس تُو اسے بوسہ دے اور یقین رکھتے ہوئے سچی نیت کے ساتھ اسے چہرے سے لگا،ان شاء اللہ عزوجل دل کی مراد پائے گا۔ ) (فتح المتعال فی مدح النعال،ص295، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ) ٭محمد بن فرج سبتی فرماتے ہیں: فمی قبلتھا مثل نعل کریمۃ بتقبیلھا یشفی سقام من اسمہ استشفٰی (ترجمہ: میرے منہ نے نعلِ کریم کے نقش کو بوسہ دیا،اِس کے بوسے سے بیماری دور ہوتی ہے اوراِس کے نام کے وسیلے سے شفاء طلب کی جاتی ہے) (فتح المتعال فی مدح النعال،ص349، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ ) ٭علامہ احمد بن مقری تلمسانی صاحب’’ فتح المتعال ‘‘میں فرماتے ہیں: اکرم بتمثال حکی نعل من فاق الوری بالشرف الباذخ طوبی لمن قبلہ منبئاً یلثمہ عن حبہ الراسخ (ترجمہ:اس نعلِ مقدس کے نقش کی تعظیم بجا لاؤ، جو اپنے شرف ِعظیم میں تمام عالم سے بڑھ کر ہے،خوشخبری ہو اس کے لیے جو اپنی راسخ (دل میں رچی بسی) محبت کو ظاہر کرتے ہوئےاِس نقشِ نعل کوبوسہ دیتا ہے) (فتح المتعال فی مدح النعال،ص248، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ) ٭علامہ ابوالیمن ابن عساکر فرماتے ہیں: الثم ثری الاثر الکریم فحبذا ان غزت منہ بلثم ذا التمثال (ترجمہ:نعلِ مبارک کی نرم و نازک خاک کو بوسہ دے ، پس کیا ہی خوب بات ہو کہ تم اس کے نقش کو بوسہ دینا اپنا مقصد بنا لو۔) (المواھب اللدنیة ،ج2،ص215، المکتبة التوفیقیة، القاھرہ) ٭علامہ ابوالحکم مالک بن عبدالرحمن بن علی مغربی جنہیں علامہ عبدالباقی زرقانی نے شرح مواہب شریف میں’’ اَحَدُ الفضلاءِ المغاربۃ‘‘(ترجمہ:مغرب کے فاضل علماء میں سے ) کہا،(وہ) اپنی مدحیّہ میں فرماتے ہیں: مثال لنعلی من احب ھویتہ فھا انا فی یوم ولیلی الثمہ (ترجمہ:میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعلین شریفین کو سب سے بڑھ کر پسند کرتا ہوں اور دن رات اسے بوسہ دیتاہوں) (المواھب اللدنیة ،ج2،ص216، المکتبة التوفیقیة، القاھرہ) ٭امام ابوبکر احمد ابن امام ابومحمد عبداللہ بن حسین انصاری قرطبی فرماتے ہیں: و نعل خضعنا ھیبۃ لبھائھا وانا متی نخضع لھا ابدا نعلو فضعھا علی اعلی المفارق انھا حقیقتھا تاج وصورتھا نعل (ترجمہ:اِس نعلِ مبارک کی چمک دمک کی ہیبت و جلال سے ہم عجز و انکساری کے ساتھ اِس کے لیے جُھک گئے اور جب تک ہم اِس کے حضور جھکےرہیں گے ، تو بلند رہیں گے، پس تُواِسے اپنے اعضاء کےاوپر والے حصے(یعنی سَر )کے اوپر رکھ کہ بےشک صورت میں تو بظاہر یہ نعل ہے، جبکہ حقیقت میں یہ تاج ہے) (المواھب اللدنیة،ج2،ص217، المکتبة التوفیقیة، القاھرة) ٭شرح مواہب میں اِن امام(ابو بکر احمد بن ابو محمدعبداللہ بن حسین انصاری قرطبی علیہ الرحمۃ) کا ترجمہ عظیمہ جلیلہ مذکور (ان کی عظیم و جلالت والی سیرت درج ہے) اور اِن کا فقیہ، محدث وماہر و ضابط (اچھا حافظے والا ہونا)ومتین الدین (دینی معاملات میں پختہ) و صادق الورع(سچا متقی ہونا)وبے نظیر ہونا مسطور (لکھا ہوا ہے)ا مام علامہ احمد بن محمد خطیب قسطلانی صاحبِ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری نے ’’مواهب اللدنیہ ومنح محمدیہ‘‘ میں اِن امام کے یہ اشعار ذکرِ نقشۂ نعل ِاقدس میں انشاد (ذکر) کئے اور مدحیّہ (تعریفی کلام) علامہ ابوالحکم مغربی کو ”ما احسنھا“ (ترجمہ: کیا ہی اچھا کلام ہے۔) (المواھب اللدنیة ،ج2،ص216، المکتبة التوفیقیة، القاھرة) اور نظمِ علامہ ابن عساکر سے” للّٰہ درہ“ (ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے) فرمایا۔ (المواھب اللدنیة ،ج2،ص215، المکتبة التوفیقیة، القاھرة) ٭علامہ زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’الثم التراب الذی حصل لہ النداوۃ من اثر النعل الکریمۃ ان امکن ذٰلک والا فقبل مثالھا‘‘(ترجمہ:اگر ہو سکے،توتُو اس خاک کو بوسہ دے جسے نعلِ مبارک کے اثر سے نمی (تری)حاصل ہوئی ہے، ورنہ اس کے نقش ہی کو بوسہ دے دے۔) (شرح الزرقانی علی المواھب ، ذکر نعلہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،ج6،ص352، دارالمعرفة، بیروت ) ٭علامہ تاج الدین فاکہانی نے فجر منیر میں ایک باب نقشۂ قبور لامعۃ النور کا لکھا اور فرمایا :’’من فوائد ذٰلک ان من لم یمکنہ زیارۃ الروضۃ فلیزر مثالھا ولیلثمہ مشتاقا لانہ ناب مناب الاصل کما قدناب مثال نعلہ الشریفۃ مناب عینھا فی المنافع والخواص بشھادۃ التجربۃ الصحیحۃ ولذا جعلوالہ من الاکرام والاحترام مایجعلون للمنوب عنہ ۔۔ الخ“(ترجمہ:ان قبور کا نقشہ لکھنے کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جس شخص کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کرنا ، ممکن نہ ہو، وہ اس نقشِے کی زیارت کر لے(یعنی اس نقشے کا تصور کر لے) اور شوق و محبت سے اسے بوسہ دے دے، کیونکہ یہ نقش اصل کے قائم مقام ہے جیسا کہ صحیح تجربے سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلِ پاک کا نقش منافع و خواص میں اصل کے قائم مقام ہے اور اسی وجہ سے علمائے کرام نے اس کے نقش کا وہ ہی اعزاز و احترام رکھا ہے، جو اصل نعلِ پاک کا رکھا ہے۔)(مطالع المسرات بحوالہ الفجر المنیر،ص148، دارالکتب العلمیة، بیروت) ٭سیدی علامہ محمد بن سلیمٰن جزولی قدس سرہ، صاحبِ دلائل الخیرات نے بھی علامہ مذکور کی پیروی کی اور دلائل شریف میں نقشہ روضۂ مبارک کا لکھا اور خود اس کی ’’شرح کبیر ‘‘میں فرمایا :”انما ذکرتھا تابعا للشیخ تاج الدین الفاکھانی فانہ عقد فی کتابہ ’’الفجر المنیر‘‘ بابا فی صفۃ القبور المقدسۃ وقال ومن فوائد ذٰلک۔۔الخ۔ (ترجمہ: میں نے یہ بات شیخ تاج الدین فاکہانی علیہ الرحمۃ کی اتباع میں ذکر کی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب”الفجر المنیر“ میں قبورِ مقدسہ کی پہچان کے متعلق باب قائم کیا اور فرمایا اس کے فوائد سے یہ ہے۔۔الخ) ٭اسی طرح علامہ محمد بن احمد بن علی فاسی نے’’مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات‘‘میں فرمایا :’’حیث قال اعقب المؤلف رحمہ اﷲتعالیٰ ورضی عنہ ترجمۃ الاسماء بترجمۃ صفۃ الروضۃ المبارکۃ والقبور المقدسۃ وموافقافی ذٰلک وتابعا للشیخ تاج الدین فاکھانی فانہ عقد فی کتابہ الفجر المنیر بابافی صفۃ القبور المقدسۃ ومن فوائد ذٰلک ان یزورالمثال من لم یتمکن من زیارۃ الروضۃ ویشاھدہ مشتاقا ویلثمہ ویزداد فیہ حبا و قد استنابوا مثال النعل عن النعل وجعلوا لہ من الاکرام والاحترام ماللمنوب عنہ وذکروا لہ خواصا وبرکات وقد جربت۔۔الخ“ (ترجمہ: اس لحاظ سے کہ انہوں نے فرمایا:مؤلف رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسماء کے عنوان کے بعد روضۂ مبارک اور قبورِ مقدّسہ کے بیان کے لئے باب قائم فرمایا ، اس میں موافقت کرتے ہوئے اور شیخ تاج الدین فاکہانی علیہ الرحمۃ کی اتباع میں،کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب ’’الفجر المنیر‘‘ میں قبور مقدسہ کے بیان کے لئے مستقل باب قائم فرمایا اور اس کے فوائد میں یہ بھی ہے کہ جو اصل روضۂ مبارکہ کی زیارت کرنے پر قادر نہیں ہے،تو وہ نقشِ نعل کی زیارت کرے اور شوق و محبت سے اس کا مشاہدہ کرے اور بوسہ دے اور خوب محبت کا مظاہر ہ کرے کہ علمائے کرام نے نعل کے نقش کو نعل کے قائم مقام قرار دیا ہے اور اس کے لئے وہی اکرام واحترام قرار دیا جو اصل نعل شریف کاہے اور انہوں نے اس کے ایسے خواص وبرکات کا ذکر کیا ہے کہ جن کا تجربہ ہوچکا ہے۔) (مطالع المسرات،ص148، دارالکتب العلمیة، بیروت) ٭٭٭٭٭٭٭ (نقشِ نعل سے تبرّک کے جواز کے عموم سے دیگر آثارِ متبرکہ کی تعظیم و تبرّک کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے) دیکھو! علمائے کرام کے یہ ارشادات نقشوں کے باب میں ہیں ،جو خود عین منتسب (نسبت رکھنے والے)بھی نہیں ،بلکہ اس کی مثال وتصویر ہیں،تو غلافِ کعبہ ، معظّمِ شرعی یعنی کعبۂ معظّمہ سے خاص نسبتِ مس رکھتا ہے، اِس کی نسبت بہ نیتِ تعظیم وتبرک (برکت حاصل کرنے کی نیت سے) ان افعال کے جواز میں شک وشبہہ کیا ہے؟ ”فان المقتضی فی العموم موجود والمانع فی الخصوص مفقود وذٰلک کاف فی حصول المقصود والحمد للہ العلی الودود “(ترجمہ:عموم کا تقاضا کرنے والے دلائل موجود ہیں ،جبکہ خصوص کے ثبوت سےمانع کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ بلند و بالا اور محبت فرمانے والی ذات کے لئے تمام تعریفیں ہیں۔) (آثارِ متبرکہ پر عوام کے ہجوم کا ثبوت) رہا! لوگوں کا اس پر ہجوم کرنا(رش بنانا)، یہ بھی آج کی بات نہیں ،قدیم سے آثار ِمتبرکہ (بزرگوں سے منسوب ان کی بچی ہوئی برکت والی چیزوں )پر اہلِ محبت وایمان یونہی ہجوم کرتے آئے۔ ٭صحیح بخاری شریف وغیرہ کتبِ حدیث میں ہے ،جب عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سالِ حدیبیہ قریش کی طرف سے خدمتِ اقدس حضور پر نور صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ میں حاضر ہوئے ،صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دیکھا:” انہ لایتوضا الا ابتدروا وضوءہ و کادوا یقتلون علیہ ولا یبصق بصاقا ولایتنخم نخامۃ الا تلقوھا باکفھم فدلکوا بھا وجوھھم واجسادھم ، الحدیث“یعنی جب حضور والا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں ،حضور کے آبِ وضو (وضو کے پانی )پر بے تابانہ دوڑتے ہیں،قریب ہے کہ آپس میں کٹ مریں اور جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لعابِ دہن مبارک ڈالتے یا کھکھارتے ہیں ،اسے ہاتھوں میں لیتے اور اپنے چہروں اور بدنوں پر ملتے ہیں۔ (صحیح بخاری، ج3،ص193، الرقم 2731، دار طوق النجاۃ، بیروت) ”کادوایقتلون علیہ“کی حالت کہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے خود حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مواجہہ عالیہ میں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے ) ثابت”کادوایکونون علیہ لبدا “سے کہ یہاں سوال میں مذکور بدرجہا زائد ہے، یونہی بوسۂ سنگِ اسود (حجر اسود کو بوسہ دینے)پر ہجوم وتزاحم (رش)قدیم (بہت پرانے دور ) سے ہے۔ بالجملہ اس نفسِ فعل کا جواز یقینی اور جب نیتِ تبرّک وتعظیمِ شعائر اللہ ہے ،تو قطعاً مندوب (بالیقین بہتر)اور شرعاً مطلوب ، مگر پنجگانہ نماز کے بعد علی الدوام (ہمیشگی کے ساتھ)اس کی زیارت وتقبیل(بوسہ دینے) کاالتزام (لازم کرنا)اور جمعہ کے دن عام عوام کے بے قیدانہ ہجوم واژدحام(بے انتہاء رش) میں اگر اندیشۂ بعض مفاسد دینیہ (کسی دینی نقصان کااندیشہ)ہو ،تو اس تقیید والتزام واطلاقِ اژدحام (اس ہجوم کی قید اور اسے لازم پکڑنے نیز ہجوم بنانے)سے بچنا چاہئے ۔ ٭٭٭٭٭٭٭ (آثارِ متبرکہ کی کبھی کبھار زیارت کروائی جائے، ہر وقت یا اکثر اوقات کسی چیز کا سامنے ہونا اس کی محبت و عظمت کو کم کر دیتا ہے) اورخود ہروقت پیشِ نظر معلّق رہنا باعثِ اسقاطِ حرمت (یعنی ہر وقت کعبہ مشرّفہ کے غلاف وغیرہ تبرّکات کا سامنے لٹکا رہنا دلوں سے عزت کم ہو جانے کا باعث) ہوتاہے ولہٰذا حرمین طیبین کی مجاورت ممنوع (حرمینِ شریفین میں زیادہ ٹھہرنے کی ممانعت) ہوئی۔ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعدِ حج تمام قوافل (قافلوں)پر دُرّہ (کوڑہ) لئے دورہ فرماتے (چکر لگاتے) اور ارشاد کرتے :اے اہلِ یمن! یمن کوجاؤ۔ اے اہلِ شام! شام کا راستہ لو۔ اے اہلِ عراق! عراق کو کوچ کرو کہ اس سے تمہارے رب کے بیت (گھر)کی ہیبت تمہاری نگاہوں میں زیادہ رہے گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭ (آثارِ متبرکہ کو محفوظ رکھنے اور ان کی زیارت کا بہترین طریقہ) راہِ اسلم وطریقِ اقوم (سلامتی والا اور سیدھا و درست راستہ )یہ ہے کہ اسے کسی صندوقچہ (چھوٹے باکس)میں ادب و حرمت (احترام)کے ساتھ رکھیں اور احیاناً(کبھی کبھار) خواہ مہینے میں کچھ دن قرار دے کر بروجہِ اجلالِ حسن واعظامِ مستحسن (ایک اچھی و خوبصورت چیز کی جلالت و عزت اور ایک اچھے عمل کی عظمت کے اظہار کے طور پر) اُس کی زیارت مسلمین کو کرادیا کریں ،جس طرح سلطان اشرف عادل نے شہر دمشق الشام کے مدرسہ اشرفیہ میں خاص درسِ حدیث کے لئے ایک مکان مسمّٰی بدارالحدیث (دارالحدیث کے نام سے موسوم ایک مکان)بنایا اور اس پر جائداد کثیر وقف فرمائی اور اس کی جانبِ قبلہ مسجد بنائی اور محرابِ مسجد سے شرق کی طرف ایک مکان نعلِ مقدس حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے تعمیر کیا اور اس کے دروازے پرمسّی کواڑ ، زر سے ملمع کرکے لگائے کہ بالکل سونے کے معلوم ہوتے تھے اور نعلِ مبارک کو آبنوس(ایک مشہور درخت کہ جس کی لکڑی سخت اور سیاہ ہوتی ہے (فیروزاللغات،ص9)) کے صندوق میں بادب (ادب کے ساتھ)رکھا اور بیش بہا (قیمتی)پردوں سے مزین کیا،یہ دروازہ ہردوشنبہ (پیر شریف)و پنجشنبہ (جمعرات) کو کھولا جاتا اور لوگ فیضِ زیارت سر اپا طہارت سے برکات حاصل کرتے۔” کما ذکر العلامۃ المقری فی فتح المتعال وغیرہ فی غیرہ“ (جیسا کہ علامہ احمد المقری علیہ الرحمۃ نے ”فتح المتعال“میں اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے دیگر کتابوں میں ذکرکیاہے۔) (فتح المتعال فی مدح النعال،ص515، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ) یہ مدرسہ ودارالحدیث مذکور ہمیشہ مجمع ائمہ وعلمار ہے ۔ امام اجل ابوزکریا نووی شارح صحیح مسلم اس میں مدرس تھے، پھر امام خاتم المجتہدین ابوالحسن تقی الدین علی بن عبدالکافی سبکی صاحب شفاء السقام ان کے جانشین ہوئے ،یونہی اکابر علماء درس فرمایا کئے (درس دیتے رہے)۔ سلطان موصوف کے اس فعلِ محمود(قابلِ تعریف کام)پر کسی امام سے انکار ماثور(منقول) نہ ہوا ،بلکہ امید کی جاتی ہے کہ خود وہ اکابر اس کی زیارت میں شریک ہوتے اور فیض وبرکت حاصل کرتےہوں، محدث علامہ حافظ برہان الدین حلبی رحمہ اللہ تعالیٰ ”نورالنبراس“ میں فرماتے ہیں :قال شیخنا الامام المحدث امین المالکی : وفی دارالحدیث لطیف معنی وفیھا منتهی اربی وسؤلی احادیث الرسول علی تتلی وتقبیلی لاثار الرسول (ترجمہ: ہمارے استاذ امام محدث امین الدین مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:مدرسہ دارالحدیث میں ایک لطیف معنیٰ ومقصدہے اور اس میں میرامقصد اورمطلوب بروجہِ کامل حاصل ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیثیں مجھ پر پڑھی جاتی ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آثارِ شریفہ کا بوسہ مجھے نصیب ہوتاہے۔) (فتح المتعال فی مدح النعال،ص524، دارالقاضی عیاض للتراث، القاھرہ بحوالہ نورالنبراس للحافظ برھان الدین حلبی) غرض طریقۂ زیارت تو یہ رکھیں ،پھر جسے یہ ادب وحرمت بے دقت وزحمت شرف بوس مل سکے فبہا(یعنی جسے ادب و احترام کے ساتھ بغیر کسی مشکل اور زحمت کے آثارِ متبرّ کہ کو بوسہ دینے کا شرف حاصل ہو جائے، تو ٹھیک) ورنہ صرف نظر (دیکھنے)پر قناعت کرے ،بوسۂ سنگ اسود کہ سنّتِ مؤکّدہ ہے، جب اپنی یاغیر (کسی اور شخص)کی اذیّت کا باعث ہوترک کیا جاتا ہے ، تو اس بوسہ کا توپھر دوسرا درجہ ہے۔ ”ھذا ھو الطریق اسلم والحکم الوسط القوم الاقوم، وﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم“(ترجمہ:یہی سلامتی والا راستہ ہے اور درمیانہ ،مضبوط و قوی حکم ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ زیادہ علم والا ہے اور اس کا علم سب سے زیادہ کامل اورمضبوط ہے۔) (تسہیل و تخریج و ترجمہ) ابو ثوبان محمد خاقان عطاری تاریخ:03:10:2021 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع