اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم
بُڈھاپُجاری ( )
شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ رسالہ (32 صَفَحات) مکمَّل پڑھ لیجئے
اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دنیا و آخِرت کے بے شمار منافِع حاصِل ہوں گے۔
حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رَنج و مَلال، صاحِبِ جُودونَوال، رسولِ بے مِثال، بی بی آمِنہ کے لال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ باہَرتشریف لائے تو میں بھی پیچھے ہولیا ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک باغ میں داخِل ہوئے اورسَجدہ میں تشریف لے گئے ۔ سجدے کواتناطویل کردیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے رُوحِ مبارَکہ قبض نہ فرمالی ہو۔ چُنانچِہ میں قریب ہوکر بغور دیکھنے لگا ۔ جب سرِ اقدس اُٹھایا تو فرمایا: ’’ اے عبدالرحمن ! کیاہوا؟ ‘‘ میں نے اپنا خدشہ ظاہِر کردیا تو فرمایا: ’’جبرئیلِ امین نے مجھ سے کہا : ’’ کیا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ بات خوش نہیں کرتی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے کہ جوتم پر دُرُودِ پاک پڑھے گا میں اس پر رَحمت نازِل فرماؤں گا اور جو تم پر سلام بھیجے گا میں اُس پر سلامتی اُتاروں گا۔ ‘‘ (مُسندِ امام احمد ج۱ص ۴۰۶حدیث ۱۱۶۶۲دارالفکربیروت)
زمانے والے ستائیں، دُرودِ پاک پڑھو
جہاں کے غم جو رُلائیں، دُرودِ پاک پڑھو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اہلِ عَرَب کا دین یوں تو دینِ ابراہیمی علیہ السلام تھا مگر اس کی اصل صورت بِالکل بدل دی گئی تھی۔ توحید کی جگہ شرک نے اور خدائے واحِدجَلَّ جَلا لُہٗ کی عبادت کی جگہ بُت پرستی نے لے لی تھی۔ ان میں کچھ تو بُتوں کو اپنا خدا سمجھتے تھے تو بعضے دَرَختوں کو ، چاند ، سورج اورستاروں کو پوجتے تھے اور کچھ کفّارِ ناہنجار، فِرِشتوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کی بیٹیاں قراردے کران کی پوجاپاٹ میں مصروف تھے ۔ کِردار کی پستی کا عالَم یہ تھا کہ وہ شب وروز شراب خوری، قِماربازی (یعنی جُوا) زِناکاری اورقتل وغارَت گری میں مشغول رہتے تھے ۔ انکی قَساوَتِ قلبی (یعنی دل کی سختی) کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور (یعنی زندہ دَفن) کردیا کرتے اوربسااوقات انسانوں کو ذَبح کر کے اُس کو بُتوں پر بطورِ چَڑھاواپیش کرتے ۔ اس وحشیانہ حَرَکت کی صورت کچھ اس طرح ہوتی کہ مخصوص اوقات میں بَھینٹ چڑھانے کے لیے کسی سفید اونٹ یا انسان کو لایا جاتا، پھر وہ اپنے مُتَبَرَّک مقام کے گِرد بَھجَن گاتے ہوئے تین بارطواف کرتے ، اس کے بعد سردارِ قوم یا بُڈھا پجاری بڑی پھُرتی کے ساتھ اس بھینٹ (یعنی انسان یا اونٹ جو بھی ہو) پر پہلا وار کرتااور اس کا کچھ خون پیتا ۔ اس کے بعدحاضِرین اُس سفید اونٹ یا انسان پر ٹوٹ پڑتے اور اس کی تِکّہ بوٹیاں کر کے اس کو کچّاہی کچّاکھاڈالتے ! اَلغرض عَرَب میں ہر طرف وَحشت وبَربَریت کا دَور دَورہ تھا ۔ لڑائیوں میں آدمیوں کو زندہ جلا دینا ، عورَتوں کا پیٹ چیرڈالنا، بچّوں کوذَبح کرنا، ان کو نیزوں پر اُچھال دینا ان کے نزدیک مَعیوب نہ تھا۔
یہ حالت صرف عَرَب کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھی بلکہ تقریباً پوری دنیا میں تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ چُنانچِہ اہلِ فارس (یعنی اِیرانی) اکثرآگ کی پوجا کرنے اوراپنی مائوں کے ساتھ وَطی کرنے میں مشغول تھے ۔ بکثر ت تُرک شب وروز بستیاں اجاڑنے اورلُوٹ مارکرنے میں مصروف تھے اوربت پرستی اورلوگوں پر ظلم وجفاان کا وَتِیرہ تھا ۔ ہندوستان کے کثیرافراد بتوں کی پوجاپاٹ اور خود کو آگ میں جلا دینے کے علاوہ کچھ نہ جانتے تھے ۔ بَہَرکَیف ہر طرف کفر وظلمت کا گھٹا ٹو پ اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ کافِر انسان بدتر ازحیوان ہوچکا تھا۔ چُنانچِہ
اِس عالمگیر ظلمت میں نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سرور، دوجہاں کے تاجور، سلطان بحروبر، آمِنہ کے پِسَر، حبیب داورعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کل جہاں کے لئے ہادی ورہبربن کر واقعۂ اصحابِ فیل کے پچپن (55) دن کے بعد12ربیعُ النُّوربمطابق20اپریل 571ء ( ) بروزِپیر صُبحِ صادِق کے وَقت کہ ابھی بعض ستارے آسمان پرٹِمٹِما رہے تھے ، چاند سا چہرہ چمکاتے ، کستُوری کی خوشبومہکاتے ، خَتنہ شُدہ، ناف برِیدہ ، دونوں شانوں کے درمیان مُہرِ نُبُوَّت دَرَخشاں ، سُرمَگیں آنکھیں ، پاکیزہ بدن دونوں ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے ، سرِپاک آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دنیا میں تشریف لائے۔ (اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَّانِیّ ج۱ ص۶۶۔ ۷۵ وغیرہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ربیعُ الاول اُمیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا دعاؤں کی قَبولیَّت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا
خدا نے ناخُدائی کی خود انسانی سفینے کی کہ رحمت بن کے چھائی بارہویں شب اس مہینے کی
جہاں میں جشنِ صبحِ عید کا سامان ہوتا تھا اُدھر شیطان تنہا اپنی ناکامی پہ روتا تھا
صدا ہاتف نے دی اے ساکنانِ خِطّۂ ہستی! ہوئی جاتی ہے پھرآباد یہ اُجڑی ہوئی بستی
مبارَکباد ہے ان کیلئے جو ظلم سہتے ہیں کہیں جن کو اماں ملتی نہیں بربادرہتے ہیں
مبارکباد بیوائوں کی حسرت زا نگاہوں کو اثر بخشاگیا نالوں کو فریادوں کو آہوں کو
ضعیفوں بیکسوں آفت نصیبوں کو مبارَک ہو یتیموں کو غلاموں کو غریبوں کو مبارک ہو
مبارَک ٹھوکریں کھا کھا کے پَیہم گرنے والوں کو مبارَک دشتِ غُربت میں بھٹکتے پھرنے والوں کو
مبارَک ہوکہ دَورِ راحت وآرام آپہنچا نَجاتِ دائمی کی شکل میں اسلام آپہنچا
مبارک ہوکہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے جناب رَحمۃُ لِّلعٰلمین تشریف لے آئے
بَصَداندازِیکتائی بَغایَت شانِ زَیبائی
امیں بن کر امانت آمِنہ کی گود میں آئی
دنیا میں تشریف لاتے ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدہ کیا۔ اس وقت ہونٹوں پر یہ دُعاجاری تھی: رَبِّ ہَبْلِیْ اُمَّتِیْ یعنی پروردگار! میری اُ مّت مجھے ہِبہ کر دے ۔
رَبِّ ہَبْلِیْ اُمَّتِیْ کہتے ہوئے پیدا ہوئے
حق نے فرمایا کہ بخشا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اہلِ عَرَب کی بھاری اکثریت کے حالات آپ سُن چکے ۔ ایسی وَحشی قوم میں رہتے ہوئے بھی ہمارے مکّی مَدَنی آقامیٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبھی کسی مجلسِ لَہو ولَعِب (یعنی کھیل کود) میں شریک نہیں ہوئے اور سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات سِتُودہ صِفات ہر قسم کی برائی سے دور ہی رہی۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَخلاقِ حمیدہ سے مُتَّصِف اورصِدق وامانت میں اس قَدَرمُتَعارِف ہوئے کہ خود آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ’’صادِق ‘‘ اور ’’امین‘‘ کے لقب سے یاد کرتی تھی۔ سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِحرا میں ( جو مکّۃُالمکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے منیٰ شریف کو جاتے ہوئے بائیں طرف کو آتا ہے) قِیام فرماتے اوروہاں کئی کئی روز تک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں مشغول رہتے ۔
شاہ مکّۃُالمکرَّمہ ، سلطانِ مدینۃ المنورہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر شریف جب چالیس سال کی ہوئی اُس وقت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طر ف سے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اظہار ِنُبُوَّت کی اجازت ملی۔ ورنہ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو اس وقت بھی نبی تھے جبکہ ابھی حضرت سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی تخلیق (یعنی پیدائش) بھی نہ ہوئی تھی۔ چُنانچِہ نبیِّ محترم، نُورِ مُجَسَّم ، رسولِ مُحتَشَم، شاہِ بنی آدم، صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت سراپا عظمت میں عرض کی گئی: مَتٰی کُنْتَ نَبِیًّا یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کب سے نبی ہیں؟ فرمایا : وَاٰدمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالجَسَد یعنی (میں تو اس وقت بھی نبی تھاجبکہ ابھی ) آدم (علیہ السلام) روح اورجسم کے درمیان تھے۔ (اَلْمُسْتَدْرَک لِلْحاکِم ج۳ص۵۰۸حدیث۴۲۶۵دارالمعرفۃ بیروت)
آدم کا پتلا نہ بنا تھا، جب بھی وہ دنیا میں نبی تھے
ہے اُن سے آغازِ رِسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
22فروری ۲۱۰ ء کی وہ عظیم ساعت آئی جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حسب ِمعمول غارِحراکو اپنی برکتوں سے نواز رہے تھے۔ اُس وقت حضرتِ سیِّدُنا جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پہلی بار یہ آیاتِ مقدسہ بطور وحی لے کر حاضِرِخدمت ہوئے :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ (۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ (۲) اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ (۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ (۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ (۵) (پ۳۰ ، علق: ۱۔ ۵)
ترجَمۂ کنزالایمان: پڑھو اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ) کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب (عَزَّوَجَلَّ) ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔ آدمی کو سکھایا جو نہ جانتاتھا۔
پھر کچھ عرصے کے بعد یہ آیات مقدسہ نازل ہوئیں۔
یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ (۱) قُمْ فَاَنْذِرْﭪ (۲) وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْﭪ (۳) وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْﭪ (۴) وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْﭪ (۵) (پ۲۹ ، المدثر: ۱۔ ۵)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے بالاپوش اوڑھنے والے! کھڑے ہوجاؤپھر ڈر سناؤاوراپنےرب (عَزَّوَجَلَّ) ہی کی بڑائی بولواور اپنے کپڑے پاک رکھو اوربتوں سے دور رہو۔