30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ وَالصـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمطبُڑھاپے میں یادِ خُدا
دُعائے عطّار: یاربِّ کریم ! جو کوئی 17 ص فحات کا رسالہ ” بُڑھاپے میں یادِ خُدا “پڑھ یا سن لے اُسے اپنی عمر کے ہرحصے :لڑکپن،جوانی اوربڑھاپے میں اپنی عبادت کی توفیق عطا فرما اور اُسے ماں باپ سمیت بے حساب بخش دے۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمفِرِشتوں کی اِمامَت (دُرُودِ پاک کی فضیلت)
حضرتِ حَفْص بن عبدُاللہ رحمۃُ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مَیں نے اِمامُ المُحَدِّثِین حضرتِ اَبُو زُرْعہ رحمۃُ اللہ علیہ کو ان کی وَفات کے بعد خَواب میں دیکھاکہ وہ پہلے آسمان پر فِرِشتوں کو نَماز پڑھا رہے ہیں۔میں نے پوچھا:اے اَبُو زُرْعہ ! آپ کو یہ اِعْزازو اِکرام کیسے ملا ہے؟ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: ” مَیں نے اپنے ہاتھ سے دس(10) لاکھ حدیثیں لکھی ہیں اور مَیں ہرحدیث میں دُرودِ پاک پڑھا کرتا تھا اور نبیِ رَحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے کہ جومسلمان ایک مرتبہ مُجھ پردُرُود شریف بھیجتا ہے تو اللہ پاک اُس پر دس رَحمتیں نازِل فرماتاہے۔ ( شرح الصدور ، ص 294) قَبْر میں خُوب کام آتی ہے بیکسوں کی ہے یارِ غار دُرُود (ذوق نعت، ص 125) صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدتنہائی میں رہنے والے بُزرگ
عظیم تابِعی بُزُرگ ،حضرتِ اِیاس بن قَتا دَہ رحمۃُ اللہ علیہ اپنی قوم کے سردار تھے ۔ ایک دن آپ نے آئینے میں اپنی داڑھی میں ایک سفید بال دیکھا تو دعا کی :’’ یا اللہ پاک ! میں اچانک ہونے والے حادثات سے تیری پنا ہ چاہتا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ موت میراپیچھا کررہی ہے اور مَیں اس سے بچ نہیں سکتا۔‘‘ پھر وہ اپنی قوم کے پاس تشریف لے گئے اور فرمانے لگے’’ اے بَنُو سَعْد ! میں نے اپنی جوانی تم پر وَقْف کر دی تھی اَب تم میرا بڑھاپا مجھے بخش دو (یعنی جوانی میں میں نے تمہارے معاملات سرانجام دئیے مگر اَب بڑھاپے میں مجھے اللہ پاک کی عبادت کرلینے دو۔) ‘‘پھرآپ رحمۃُ اللہ علیہ اپنے گھر تشریف لائے اور عبادت میں م ص روف ہوگئے یہاں تک کہ آپ کا انتقال شریف ہوگیا۔ (بحر الدّموع،ص112 ) اللہ پاک کی اُن پر رحمت ہوا ور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: گوش و پا دوش و خِرد ہوش میں ہے کرنا ہے جو کر لے آج ہی چندسبق آموزعربی اشعارکا ترجمہ سنئے! ﴿1﴾اے بوڑھے شخ ص ! کیابڑھاپا آنے کے باوُجود بھی تُو جہالت(یعنی موت کو بُھلا کر دھوکے) میں مبتلاہے ؟ اب (اس عمر) میں تیری طرف سے جہالت کامُظاہَرَہ بالکل اچھانہیں ۔ ﴿2﴾تیرا فیصلہ توسر کے بالوں کی سفیدی نے کردیامگرپھربھی تودنیاکی طرف مائل ہوتاہے اور ناپائیدار (دنیا) تجھے دھوکا دے رہی ہے۔ ﴿3﴾فَنا ہوجانے والی دنیا پر افسوس کرناچھوڑ دے ، کیونکہ ایک دن تُوبھی مرنے والا ہے اور ایسے پکےارادے کے ساتھ آگے بڑھ (یعنی عبادت کر)جس میں کسی بیہودہ پن کی مِلاوٹ نہ ہو۔ ﴿4﴾میں نے خود کوعبادت سے روک کرہلاکت اختیارکی ہے اور اپنی پیٹھ کوبھاری گناہوں سے بو جھل کرلیا ہے اورنافرمانی کرکے گویا میں نے اپنے رب کوچیلنج کردیا جبکہ وہ انعام واحسان و جُو دو کرم والاہے ۔میں اُس کی پکڑسے ڈرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے عَفْوو دَرگُزرکی امّید بھی رکھتا ہوں اور میں اس بات کاپکا یقین رکھتاہوں کہ وہ ہی ان ص اف فرمانے والا حاکمِ مُطْلَق ہے ۔ ( بحر الدّموع ، ص 113 ) عمر بدیوں میں ساری گزاری ہائے! پھر بھی نہیں شَرمساری بخش محبوب کا واسِطہ ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے وِردِ لب کلمۂ طَیِّبَہ ہو اور ایمان پر خاتِمہ ہو آگیا ہائے! وقتِ قضا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے (وسائلِ بخشش، ص 137) صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدآگے کیا بھیجا؟
اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی،مکی مَدَنی محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا: سُن لو کہ بے شک اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہر دن اور رات میں آواز لگاتاہے کہ چالیس سال کی عمر والو! ف ص ل کا ٹنے کا وقت آگیا ،اے پچاس سال والو! حساب کی تیاری کر لو، اے ساٹھ سال والو! تم نے آگے کیا بھیجا اور پیچھے کیا چھوڑا ہے؟ اے ستّر سال والو! تمہیں کس چیز کا انتظار ہے؟ کاش کہ مخلوق پیدا نہ ہوتی اوراگر پیدا ہوگئی تو کاش اپنا مقصد ِ حیات جان لیتی پھر اس کے مطابق عمل کرتی، خبر دار! قیامت تمہار ے قریب آگئی ہوشیار ہوجاؤ۔ ( حلیۃالاولیاء ، 8/167، رقم :11748 بتغیرٍ ) اےمیرے پیارے پیارے بزرگ اسلامی بھائیو! ’’ بڑھاپا ‘‘ حسرت و مایوسی کے زمانے کا نام ہے ،کم ہی کوئی بوڑھاہوگا جو اِس عمر میں آکر اپنی پچھلی زندگی پر نہ پچھتائے۔ نیک ہوگا تو نیکیوں ،عبادتوں ،ریاضتوں وغیرہ میں کمی پر افسوس کرے گا اوراگر کوئی بوڑھا اَب بھی گناہوں بھری زندگی گزارنے میں مشغول ہے تو ہوسکتاہے’’ جیسی نیت ویسی مراد ‘‘ کے مِ ص داق وہ حسرت کرتا ہو کہ کاش! میں فُلاں گناہ بھی کرلیتا مَعاذَ اللہ ، اَلاَمَانْ وَالْحَفِیْظْاللہ کریم اپنی رضا کے مطابق ہمیں زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔ یادرکھئے!زندگی امانت ہے ، اللہ پاک کی طرف سے عطاکئے گئے جسمانی اعضا بھی امانت ہیں ،اگر ہم نے انہیں اللہ ربُّ العِزَّت کی اطاعت(یعنی فرماں برداری) میں استعمال کیا تو بہت اچھا ورنہ کل قیامت کے دن یہ اعضا (Body Parts) ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، جیساکہ اللہ پاک قرآنِ کریم میں پارہ 18 سورۂ نور آیت نمبر 24میں ارشادفرماتاہے: یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴) آسان ترجمۂ قرآن کنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا اَجَل تیرا کردے گی اک دن ص فایا جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدعُذْر قبول نہیں فرماتا ؟
ص حابیِ رسول،حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورپُرنور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’ اللہ پاک اس شخص کے لیے کچھ عذر باقی نہیں چھوڑ تا جس کی عمر مُؤَخَّر کردے یہاں تک کہ وہ ساٹھ 60سال تک پہنچ جائے ۔ ( بخاری ، 4 /224، حدیث : 6419) اس حدیث پاک کی ’’ فتح الباری ‘‘ میں یوں شرح کی گئی ہے: ’’ یعنی اب وہ یہ عُذْر نہیں کر سکتا کہ اگر مجھے مُہلَت ملتی تو میں احکام ِالٰہی بجا لاتا۔جب تمام عمر میں قُدرت کے باوُجود عبادت ترک کر تا رہا تو اب اس عمر میں اس کے پاس کوئی عذر نہیں بچا ،اب اسے چاہیے کہ اِستغفار کرے۔ ( فتح الباری ، 12 / 202، تحت الحدیث : 6419)بڑھاپے کے بعد فَقَط موت ہے
مُفتِی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتےہیں: ’’ اس عبارت کے دومعنیٰ ہیں : ﴿1﴾ ایک یہ ( کہ) اَعْذَرَ کےمعنی ہیں: ’’ عذردُور کردیتاہے۔ ‘‘تب مطلب یہ ہوگا کہ بچپن اور جوانی میں غفلت کا عذرسنا جاسکے گا مگر جو بڑھاپے میں اللہ پاک کی طرف رُجوع نہ کرے اس کا عذر قبول نہ ہوگا ۔کیونکہ بچپن میں جوانی کی امید تھی جوانی میں بڑھاپے کی، اب بڑھاپے میں سِوا موت کے اور کس چیز کا انتظار ہے؟ اگر اب بھی عبادت نہ کرے تو سزا کے قابل ہے ۔ اس کا کوئی بہانہ قابل سننے کے نہیں ۔ ﴿2﴾ دوسرےیہ کہ اَعْذَرَ کے معنی ہیں: ’’ معذور رکھتا ہے۔ ‘‘ یعنی جو بوڑھا آدمی بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ عبادت نہ کرسکے مگر جوانی میں بڑی عبادتیں کرتا رہا ہو تو اللہ پاک اسے معذورقرار دے کر اس کے نامۂ اعمال میں و ہی جوانی کی عبادت لکھتا ہے۔ 60سال پورا بڑھاپا ہے۔بوڑھے نوکر کی پِنْشن ہوجاتی ہے وہ رؤف و رحیم ربّ بھی اپنے بوڑھے بندوں کی پنشن کردیتا ہے مگر پِنْشن اس کی ہوتی ہے جو جوانی میں خدمت کرتا رہے۔ ‘‘ ( مرآۃالمناجیح ،7 /89 ملتقطاً )عمر کے چار حصے
حضرتِ علامہ غلام رسول رضوی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’ اَطِبّا (یعنی ڈاکٹرز)کہتے ہیں: عمر کے چار حصے ہیں: ﴿1﴾ عمر کا ایک ح ص ہ بچپن اور لڑکپن ہے، یہ تیس(30 )برس تک ہے ﴿2﴾ عمر کا دوسراح ص ہ شباب(یعنی جوانی)ہے، یہ چالیس (40 ) برس تک ہے ﴿3﴾ عمر کا تیسراح ص ہ کَہُولَت (یعنی اَدھیڑ پن)ہے، یہ ساٹھ(60 )برس تک ہے ﴿4﴾ چوتھا ح ص ہ سن شیخوخت (یعنی بڑھاپا)ہے، یہ ساٹھ (60 )سال کے بعد ہے۔ اس میں انسان کی طاقت میں کمی آتی اور کمزوری ،بڑھاپا ظاہر ہونے لگتا ہےاور موت سر پر مَنڈلانے لگتی ہے۔یہ اللہ پاک کی طرف رُجوع(یعنی توبہ) کا وقت ہے ۔ تِرمَذی میں حضرت ِابوہريرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ میری اُمَّت کی عمریں ساٹھ(60 )اور ستر(70 )سالوں کے درمیان ہیں ۔ بہت تھو ڑے لوگ اس سے اوپر عُمر پاتے ہیں ۔ اَلحا صل : انسان ساٹھ (60)سال تک قَوِی(یعنی مضبوط) رہتا ہے اس کے بعد کمزوری اور بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے۔اس عمر میں اللہ پاک اس کے تمام عذرناقابلِ قبو ل کر دیتا ہے کیونکہ سِنِ بُلو غ سے ساٹھ (60)سال تک کافی وقت ہے جس میں وہ سوچ بِچار کرسکتا ہے۔ ( تفہیم البخاری ،9 / 703) اے میرے پیارے پیارے بزرگ اسلامی بھائیو! مُحاورہ ہے:’’ صبح کا بُھولا شام کو واپس آجائے تو اُسے بُھولا نہیں کہتے ‘‘اگر خدانخواستہ بچپن،لڑکپن،جوانی اور اَدھیڑعمرمیں اللہ پاک کی نافرمانی والے کام ہوگئے ہیں تو اَب بھی موقع ہے اِس سے فائدہ اُٹھائیے اور رحم و کرم فرمانے والے اپنےپیارےپیارے اللہ کی پاک بارگاہ میں لوٹ آئیے! ابھی وقت ہے ، سانس چل رہی ہے، اَبھی بہارِ دنیا میں خزاں نہیں آئی ، عام انسان کی زندگی میں آنے والے زندگی کےتمام اَدوار گزرچکے۔بچپن کھیل کُود کی نذر ہوگیا ، لڑکپن دوستوں کی منڈلیوں میں گم ہوگیا ،بے وفا جوانی خوب مستیوں اور غفلتوں کے ساتھ گزرگئی اور اب قبر کے گڑھے میں اترنے تک ساتھ نہ چھوڑنے والا باوفا بڑھاپا ہے۔بوڑھے کے لئے سب سے بڑی ن ص یحت موت ہے، اگرکوئی بوڑھا ہونے کے باوجودغفلت کی نیند سے بیدا ر نہ ہوتاہو تو وہ کم از کم اتنا ہی سوچ لے کہ وہ اَب جلد دنیا سے جانے والا ہے ۔ گر جہاں میں سو برس تُوجی بھی لے قبر میں تنہا قِیامت تک رہے جب فِرِشتہ موت کا چھا جائے گا پھر بچا کوئی نہ تجھ کو پائے گا تیری طاقت تیرا فن عُہدہ تِرا کچھ نہ کام آئے گا سرمایہ ترا گورِ نیکاں باغ ہوگی خُلد کا مجرِموں کی قبر دوزخ کا گڑھا کِھلکِھلا کر ہنس رہا ہے بے خبر! قبر میں روئے گا چیخیں مار کر کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی وقتِ آخر یاخدا! عطارؔ کو خیر سے سرکار کا دیدار ہو صلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد70سالہ عبادت وریاضت
عظیم تابعی بزرگ حضرتِ مَسْروق رحمۃُ اللہ علیہ اتنی لمبی نماز ادا فرماتے کہ ان کے پاؤں سُوج جایا کرتے تھے اور یہ دیکھ کر ان کے گھر والوں کو ان پر تَرَس آتا اور وہ رونے لگتے ۔ ایک دن ان کی والدہ نے کہا : ’’میرے بیٹے! تو اپنے کمزور جسم کا خیال کیوں نہیں کرتا ؟ اس پر اتنی مَشقَّت کیوں لادتا ہے ؟ تجھے اس پر ذرا رَحْم نہیں آتا ؟ کچھ دیر کے لئے تو آرام کر لیا کرو ، ک یا اللہ پاک نے جہنّم کی آگ صرف تیرے لئے پیدا کی ہے کہ تیرے علاوہ کوئی اس میں پھینکا نہیں جائے گا ؟ ‘‘انہوں نے جواباً عرض کی : ’’امّی جان ! انسان کو ہر حال میں کوشش جاری رکھنی چاہیے ۔پیاری امی جان!میرے تعلق سے قیامت کے دن دو ہی باتیں ہوں گی یا تو مجھے بخش دیا جائے گا یا پھر میری پکڑ ہوجائے گی ، اگر میری مغفرت ہوگئی تو یہ مَحْض اللہ پاک کا فضل وکرم ہوگااور اس کی رحمت اور اگر میں پکڑا گیا تو یقیناً میرے رب کا عَدْل وان ص اف ہو گا ، لہٰذا اب میں آرام کیسے کروں ؟ میں اپنے نفس کو مارنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا اِن شاءَ اللہ ُ الکریم ۔ ‘‘جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے رونا شروع کر دیا ۔ لوگوں نے پوچھا : ’’آپ نے تو ساری عمر عبادت و ریاضت میں گزاری ہے، اب کیوں رو رہے ہیں؟ ‘‘فرمایا : مجھ سے زیادہ کس کو رونا چاہيے کہ میں ستّر ( 70 ) سال تک جس دروازے کو کھٹکھٹاتا رہا ، آج اسے کھول دیا جائے گا لیکن یہ نہیں معلوم کہ جنت کا دروازہ کھلتا ہے یا دوزخ کا ۔ ۔ ؟ کاش! میری ماں نے ہی مجھ کو نہ جَنا ہوتا اور مجھے یہ مَشَقَّت نہ دیکھنی پڑتی ۔ (حکایات الصالحین ، ص 36 بتغیرٍ ) اللہ پاک کی اُن پر رحمت ہوا ور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمداڑھی مبارک کے سفید بال
حضرتِ ابوجُحَیْفَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس جگہ سفیدی دیکھی ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنی بَچّی(ہونٹ مبارک اور ٹھوڑی شریف کے درمیان والے بالوں) کی طرف اشارہ فرمایا۔ ( مسلم ، ص 981، حديث :2342 ملتقطاً )آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سَفَیدبال
خادمِ نبی حضرتِ اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب ظاہِری اِنتِقال شریف فرمایا توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سَرِاَنوَراور داڑھی مبارک میں بیس(20) بال بھی سفید نہ تھے ۔‘‘ ( بخاری ، 2/487، حدیث :3548) حضرت ِاَنس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: ’’اے اَبُوحَمزہ (یہ حضرتِ انس رضی اللہ عنہ کی کُنْیَت تھی)!پیارے م ص طفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عمرمبارک تو کافی ہوچکی تھی ۔‘‘ فرمایا: ’’ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بُڑھاپے کا عیب نہ لگایا۔“ عرض کی گئی: ”کیا یہ عیب ہے؟ “فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اسے (یعنی بُڑھاپےکو )ناپسند کرتا ہے۔“ ( قوت القلوب ، 2/244)اتنی مدت تک ہو دِیدِ مُصحَفِ عارضِ نصیب
حضرتِ مفتی احمدیارخان رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں:حضورِ اَنور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سَر یا داڑھی شریف کے بال اتنے سفید نہ ہوئے جن میں خِضاب لگایا جاسکتا، صرف چند بال سفید ہوئے تھے۔یہاں شیخ عبدُالحق مُحدِّثِ دِہلوی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سفید بال تو بہت تھوڑے تھے کچھ بال سُرخ ہوگئے تھے یعنی سفید ہونے والے تھے ۔یہ ہے ص حابہ کا عشقِ رسول کہ حُلیہ شریف ہُو بَہُو بیان کردیا۔خدا کرے یہ حلیہ شریف قبر میں یاد رہے کہ اس پر وہاں کی کامیابی مَوقوف ہے۔شَہنشاہِ سُخَن مولانا حَسَن رضا خان حسؔن رحمۃُ اللہ علیہ عرض کرتے ہیں: اتنی مدت تک ہو دیدِ مُ ص حَفِ عارِض ن ص یب حِفظ کر لوں ناظرہ پڑھ پڑھ کے قراٰنِ جَمال (ذوقِ نعت، ص 120) الفاظ ومعانی: دِید:دیدار،م ص حف:قرآنِ کریم۔عارض :چہرہ۔جَمال:خوب ص ورتی۔ شرح ِکلامِ حسن:کاش!اِتنے وقت تک حُسن وجمالِ م ص طفےٰ دیکھتا رہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جمالِ باکمال ہر حال میں میری نگاہوں کے سامنے رہے۔نَقلی بوڑھا
نقْل بھی اچھی ہوتی ہے، اِس تعلُّق سے”مَعدَنِ اَخلاق“ حصہ اوّل صفحہ 54 پر دِیا ہُوا ایک دلچسپ واقعہ الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ عرض کرتاہوں:ایک کامیڈین(Comedian) نے مرتے وَقت اپنے دوست کو و ص یّت کی کہ جب مجھے دَفن کرنے لگو تو میری داڑھی اور سر کے بالوں میں ”آٹا چِھڑک دینا“ دوست نے کہا:یار! تم زندَگی میں تو مَذاق مَسخَری (Jokes and Jests) کرتے رہے ہو ، اَب آخِری وَقت میں تواس سے باز رہو! اُس نے کہا: اگر تم واقعی میرے خیر خواہ ہو تو میں جو کہتا ہوں وہ کر دینا۔دوست ہنس کر راضی ہو گیا اور انتِقال کے بعد اُس نے دفن کرتے وقت اُس کی داڑھی اور سر کے بالوں پر آٹا چھڑک دیا۔چند روز بعد اپنے مرحوم دوست کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَا فَعَلَ اللّٰہُ بِكَ ؟ یعنی اللہ پاک نے تمہارے ساتھ کیامُعامَلہ فرمایا؟ مرحوم بولا:مجھ سے سُوال ہُوا،تم نے آٹا چھڑکنے کی و ص یّت کیوں کی تھی؟میں نے عرض کی: یا اللہ پاک ! میں نے تیرے محبوب مُحَمَّدٌ رَّسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد سُنا تھا: اِنَّ اللّٰہَ لَیَسْتَحْیٖ عَنْ ذِی الشَّیْبَۃِ الْمسلم ”یعنی بِلا شُبہ اللہ پاک مسلم انکے بُڑھاپے سے حَیا فرماتا ہے“( معجم اوسط ، 4/82، حدیث :5286 ملتقطاً ) بوڑھا ہونا میرے اختیار میں نہ تھا اس لئے سوچا کہ لاؤ” بُڑھاپے کی ص ورت “ہی بنا لوں۔تو اللہ پاک نے فرمایا:جا! میں نے تمہیں بخش دیا۔ رحمتِ حق بَہا،نہ مے جُوید رحمتِ حق بَہانہ مے جُوید یعنی اللہ پاک کی رحمت قیمت نہیں مانگتی۔ اللہ پاک کی رَحمت بہانہ چاہتی ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع