اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
بُزُرگانِ دین کی باتیں
دُرُود شریف کی فضیلت
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: قیامت کے روز لوگوں میں میرے نزدیک تر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زِیادہ دُرُودشریف پڑھے ہوں گے۔
(ترمذی،2/27،حدیث:484)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
فرامینِ حضرت کعب الْاَحبار رحمۃُ اللہِ علیہ
* جو بندہ اللہ پاک کی نعمت پر شکر ادا نہ کرے اور نہ ہی عاجزی کرے تو اللہ پاک اُس بندے سے اس کا دُنیوی نفع بھی روک دیتا ہے اور اس کے لیے جہنم کا ایک طبقہ کھول دیتا ہے، اب اللہ پاک چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔(احیاء العلوم، 3 / 419)
* کتابُ اللہ میں تین چیزیں ایسی ہیں جو بڑی عظمت والی ہیں جس نے ان کی حفاظت کی وہ اللہ پاک کا حقیقی بندہ ہے اور جس نے انہیں ضائع کیا وہ اس کا حقیقی دشمن ہے: (1) نماز (2)روزہ اور (3)غُسلِ جنابت۔(حلیۃ الاولیاء، 2/286، رقم: 2248)
فرامینِ حضرت میمون بن مہران رحمۃُ اللہِ علیہ
*عیب نکالنے والے بدترین لوگ ہوتے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء،4/95،رقم:4872)
*جوبارگاہِ الٰہی میں اپنامرتبہ جاننا چاہے وہ اپنے اعمال میں غور کرے کیونکہ جیسے اُس کے اعمال ہیں ویسا ہی اُس کا مرتبہ ہوگا۔ (حلیۃ الاولیاء، 4/87، رقم: 4829)
*عالِم اور جاہل دونوں سے بحث ومُباحثہ نہ کرو کیونکہ اگر عالم سے کروگے تو وہ اپنا علم تم سے روک لے گا اور جاہل سے کروگے تو وہ تم پر غصہ ہو گا۔(تاریخ ابن عساکر ، 61/364)
*جو قرآنِ پاک کی پیروی کرے تو قرآن اس کی راہنمائی کرتا ہے یہاں تک کہ جنّت میں پہنچا دیتاہے اور جو قرآن کو چھوڑ دیتا ہے قرآن اُس کو نہیں چھوڑتا بلکہ اُس کا پیچھا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے جہنّم میں گرا دیتا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء،4/87، رقم: 4828)
*دنیا میں دو ہی لوگوں کےلئے بہتری ہے: توبہ کرنے والےکےلئےاور بلندیِ دَرَجات کےواسطےعمل کرنےوالے کےلئے۔)حلیۃالاولیاء،4/86، رقم: 4823)
*اے نوجوانو! اپنی جوانی اور چُستی میں اپنی قوت وطاقت کو اطاعتِ الٰہی میں صَرف کرو اور اے بوڑھو! اب کس چیز کا انتظار ہے؟ ) حلیۃالاولیاء،4/90، رقم: 4846)
* مجھے اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرنا اس سے زیادہ پسند ہے کہ میرے مرنے کے بعد کوئی میری طرف سے سو درہم صدقہ کرے۔)حلیۃالاولیاء،4/90، رقم: 4847)
* جو تقدیر پر راضی نہیں اس کی حماقت کا کوئی علاج نہیں ۔(احیاء العلوم، 5/66)
فرامینِ حضرت وَہب بن منبہ رحمۃُ اللہِ علیہ
*دنیا وآخرت کی مثال دو سَوکنوں کی سی ہے اگر ایک کو راضی کیا جائے تو دوسری ناراض ہو جاتی ہے۔ (حلیۃ الاولیاء،4/53،رقم: 4720)
* بداَخلاق انسان کی مثال اس ٹُو ٹے ہوئے گھڑے(مٹکے) کی طرح ہے جو قابلِ استعمال نہیں رہتا۔(احیاء علوم ، 3/64)
* جس نے اپنی خواہش کو اپنے قدموں کے نیچے رکھا شیطان اس کے سائے سے بھی بھاگتا ہے۔ )حلیۃ الاولیاء،4/63،رقم:4759)
*جو شخص عملِ آخرت کے بدلے دنیا طلب کرے اللہ پاک اس کے دل کو اُلٹ دیتا اور اس کا نام جہنمیوں کے رجسٹر میں لکھ دیتا ہے۔(تنبیہ المغترین،ص23)
*مصیبت مومن کے لیے ایسی ہے جیسے چوپائے کے لیے پاؤں کی بیڑی۔
(حلیۃ الاولیاء،4/59،رقم:4740)
*جو کسی مصیبت میں مبتلا کیا گیا یقیناً وہ انبیائےکرام علیہمُ السّلام کے راستے پر چلایا گیا۔
(حلیۃ الاولیاء،4/59،رقم:4741)
*میں نے ایک حواری کی کتاب میں پڑھا: جب تجھے آزمائش میں مبتلا کیا جائے یا فرمایا: آزمائش والوں کی راہ پر چلایاجائے تو خود کو خوش نصیب سمجھ کیونکہ یقیناً تجھے انبیائے کرام علیہمُ السّلام اور صالحین کی راہ پر چلایا گیا ہے اور جب تجھے نرمی وآسانی کی راہ پر چلایا جائےتو یقیناً تیرے لیے انبیااورصالحین کے علاوہ کسی دوسرے کی راہ منتخب کی گئی ہے۔
(حلیۃ الاولیاء،4/59،رقم:4742)
* شیطان کواولادآدم میں زیادہ سونے اورزیادہ کھانے والا سب سے زیادہ پسند ہے۔
(حلیۃ الاولیاء،4/61،رقم:4752)
* جس کی بردباری اس کی خواہش پر غالب آگئی وہی زبردست عالِم ہے۔
(حلیۃ الاولیاء،4/63،رقم:4759)
فرامینِ حضرت شُمیط بن عَجلان رحمۃُ اللہِ علیہ
*جو شخص موت کو ہر وقت پیشِ نظر رکھتا ہے اُسے دنیا کی تنگی و خوشحالی کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/153، رقم: 3517)
*حضرت عبید اللہ بن شُمیط رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے والدِماجد حضرتِ شمیط بن عجلان رحمۃُ اللہِ علیہ کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک نے مومن کی قوت اس کے دل میں رکھی ہے نہ کہ اس کے اعضاء میں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بوڑھا کمزور شخص دن میں روزے رکھتا اور رات میں عبادت کرتا ہے جبکہ کوئی(منافق) نوجوان شخص اس سے عاجز ہوتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/153، رقم: 3518)
* لوگ تین طرح کےہیں:(1) جو ابتدا ہی سے نیکی کے کاموں میں مشغول رہا اور اس پر ہمیشگی اختیار کی حتّی کہ دنیا سے رخصت ہوگیا یہ مُقَرَّبِیْن میں سے ہے (2)جس کی ابتدائی زندگی تو گناہوں اور غفلت میں گزری لیکن پھر وہ تائب ہوگیا یہ اہْلِ یمین(دائیں جانب والوں یعنی جنتیوں)میں سے ہے اور (3)جو ابتدا ہی سے گناہوں میں مگن رہا اور(بغیر توبہ کئے ) دنیا سے چلا گیا یہ اصحاب شمال(بائیں جانب والوں یعنی دوزخیوں) میں سے ہے۔
(حلیۃ الاولیاء، 3/155، رقم: 3529)
فرامینِ حضرت محمد بن مُنکَدِر رحمۃُ اللہِ علیہ
*کھانا کھلانا اور اچھی گفتگو کرنا تمہیں جنّت میں لے جائے گا۔
(موسوعہ لابن ابی الدنیا ،7/193،رقم:304)
*بچوں سے زیادہ مذاق نہ کیا کرو! ورنہ ان کے نزدیک تمہاری قدر و منزلت کم ہوجائے گی۔ (موسوعہ ابن ابی الدنیا،7/238، رقم:393)
*بےشک مغفرت کو واجب کرنے والی چیزوں میں سے ایک بھوکے مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء،3/174،رقم:3600)
*حضرتِ محمد بن منکدر رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھاگیا : کون سا عمل آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: بندۂ مومن کو خوش کرنا۔ پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور بات جس سے آپ کو لذت حاصل ہوتی ہو؟ فرمایا: (مسلمان)بھائیوں پر خرچ کرنا۔
(حلیۃ الاولیاء،3/175،رقم:3602)
*اللہ پاک قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: وہ لوگ کہاں ہیں جو خود کو اور اپنے کانوں کو لہو ولعب اورمزامیر سے بچاتے تھے انہیں جنتی باغوں میں داخل کرو۔ پھر فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا: ’’انہیں میری حمد وثنا سناؤ اور بتاؤ کہ اب انہیں نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔“
(حلیۃ الاولیاء،3/176،رقم:3611)
فرامینِ حضرت زید بن اَسلم رحمۃُ اللہِ علیہ
*جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء، 3/258، رقم: 3881)
*جو شخص اللہ پاک کی اطاعت کر کے تعظیم بجالائے تو اللہ پاک اپنی جنت کے ساتھ اسے عزت عطا فرماتا ہے اور جو شخص نافرمانی چھوڑ کر اللہ پاک کی تعظیم بجالائے تو اللہ پاک اسے اس طرح عزت عطا فرماتا ہے کہ اسے جہنم میں داخل نہیں کرتا۔ مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک سے مدد مانگو وہ تمہیں اپنے سوا ہرایک سےبےپرواکردے گا، نہ توتم سے بڑھ کر کوئی اللہ پاک کا نیاز مند ہو اور نہ ہی تم سے بڑھ کر کوئی اس کا محتاج ہو۔
(حلیۃ الاولیاء،3/257،رقم:3877)
فرامینِ حضرت ابراہیم نخعی رحمۃُ اللہِ علیہ
*جس نے اللہ پاک کی رضا کے لئے عِلْم حاصل کیا اللہ پاک اس کو اتنا عطا فرمائے گا جو اس کو کفایت کرے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ،8/279)
*خدا کی قسم! میں نے خواہشات اور اپنی رائے کی پیروی کرنے والوں کی باتوں اور کاموں
میں ذرّہ برابر بھلائی نہیں دیکھی۔(حلیۃ الاولیاء،4/247،رقم:5417)
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان پسند کرتے تھے کہ عمل میں اضافہ ہی کریں کوئی کمی نہ کریں تاکہ اِستقامت باقی رہے۔(حلیۃ الاولیاء،4/255،رقم:5466)
جب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کسی جنازے میں حاضر ہوتے تو چند دنوں تک غمزدہ رہتے اور یہ غم ان میں واضح طور پر دیکھا جاتا۔(حلیۃ الاولیاء،4/253،رقم:5459)
جب ہم کسی جنازے میں جاتے یا کسی میت کے بارے میں سنتےتو ہم چند دن تک اس کے غم میں مبتلا رہتےکیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسے وہ معاملہ درپیش ہوا ہے جو اسے جنت کی طرف لے جائے گا یا پھر دوزخ کی طرف جبکہ تمہارا حال یہ ہے کہ تم اپنے جنازوں میں دنیا کی باتیں کرتے ہو۔ (حلیۃ الاولیاء،4/254،رقم:5460)
اگر بندہ اپنے گناہوں کی طرح اپنی عبادت کو چھپائے تو اللہ پاک اس کی عبادت کو ظاہر فرما دے گا۔(حلیۃ الاولیاء،4/254،رقم:5461)
فرامینِ حضرت سفیان بن سعید ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ
*جو نیک کام میں حرام مال خرچ کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو پیشاب سے کپڑے کو پاک کرتا ہے،کپڑا پانی سے ہی پاک ہوتا ہے اور گُناہوں کو صِرْف حلال ہی مٹاتا ہے۔
(کتاب الکبائر،ص135)
*جب تک خوفِ خدا کی شدت نہ ہو عبادت کی طاقت اور عبادت پر مضبوطی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔(حلیۃ الاولیاء،6/400، رقم: 9094 )
*علم اس لیے حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعےاللہ پاک کا ڈر وخوف اور تقویٰ حاصل ہو اسی وجہ سے علم کو فضیلت دی گئی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بھی بقیہ تمام چیزوں کے طرح کوئی اہمیت نہ رکھتا۔(حلیۃ الاولیاء،6/400، رقم: 9095 )
فرامینِ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃُ اللہِ علیہ
* علم کا پہلا درجہ غور سے سننا پھر خاموشی اختیار کرنا پھراسے یاد رکھناپھر اس پر عمل کرنا اور پھر اسے پھیلانا ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/324، رقم: 10694)
* جب کوئی عالِم ”لَا اَدْرِیْ“ (یعنی میں نہیں جانتا ) کہنا چھوڑ دیتا ہے تو ہلاکتوں میں پڑ جاتا ہے ۔
(حلیۃ الاولیاء، 7/324، رقم: 10696)
*غیبت قرض سے زیادہ سخت ہے،قرض تو لوٹا دیا جاتا ہے لیکن غیبت لوٹائی نہیں جا سکتی۔
(حلیۃ الاولیاء، 7/324، رقم: 10700)
*وہ جگہ بدترین ہے جہاں بندہ گناہ کرتا رہے اور توبہ کئے بغیر وہاں سے چلا جائے ۔
(حلیۃ الاولیاء، 7/328، رقم: 10717)
*حکمت تین چیزوں سے آتی ہے:(1)خاموش رہنے(2)غور سے سننے اور (3) محفوظ رکھنے سے اور تین خصلتوں کی وجہ سے حکمت کا پھل ملتا ہے:(1)ہمیشہ کے گھر (جنت) کی طرف رجوع کرنے(2)دھوکے کے گھر(دنیا)سے دور ہونے اور(3)موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے سے ۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/330، رقم: 10729)
* اصحابِ حکمت کے ساتھ بیٹھاکرو کیونکہ ان کی مجلس غنیمت، ان کی صحبت سلامتی اور ان کی دوستی عزت ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/334، رقم: 10744)
فرامینِ حضرت عبد اللہ بن مُبارک رحمۃُ اللہِ علیہ
*جس نے عُلَما کو حقیر سمجھا اس کی آخِرت کو نُقصان ہو گا۔ (تاریخ الاسلام للذہبی، 12/232)
*جہاں بولنا نہ ہو وہاں خاموش رہنا آدمی کے لئے زبردست زینت ہے۔
(حسن السمت فی الصمت ،ص108)
*سچ بولنا میرے نزدیک قسم کھانے سے زیادہ اچھا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء،8/180،رقم:11810)
*خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے، خوب بھلائی کرنے اور کسی کو تکلیف نہ دینے کا نام حسنِ اخلاق ہے۔ ( ترمذی، 3/404،حدیث:2012)