30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پہلاباب:معلومات
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طکورونا وائرس اور دیگر وبائیں
دافِع جملہ بلا تم پہ کروڑوں درود
محدث اَعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سردار احمد چشتی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ایک مرتبہ بیان کے لیے نَارووَال (پنجاب ، پاکستان)تشریف لے گئے ، آپ کے گلے میں تکلیف تھی جس کی وجہ سے حاضرین کو محسوس ہوتا تھا کہ آج بیان مشکل ہی ہوگا۔ آپ ان کی کیفیت بھانپ گئے اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ’’ہمارے پاس ایک ایسا نسخہ ہے جو ہر مرض کا علاج اور اللہ پاک کے حکم سے شفا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کرآپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نےبلند آواز سے دُرُودِ پاک پڑھنا شروع فرما دیا۔ دُرُودشریف کا پڑھنا تھا کہ تکلیف ختم ہوگئی اور آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نے ساڑھے تین گھنٹے کا ایمان اَفروز بیان فرمایا۔ (حیات محدث اعظم ، ص۱۵۳بتصرف) محدثِ اعظم پاکستان نے قِیامت تک آنے والے مسلمانوں کو ہر مرض سے نجات پانے کا نسخہ بھی بتایااور اُس پر عمل کرکےمرض سے شفابھی پائی۔ ہمیں بھی چاہئےکہ ہر طرح کےحالات میں کثرت سے درود و سلام پڑھنے کا معمول بنائیں اور مصیبت ، پریشانی ، مرض اور وبا سے چھٹکارا پائیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ ہمارےپیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی ایک خوبی دافعُ البلا ( یعنی بلاؤں کو دور کرنے والا )بھی ہے اور جب آقا کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نظرِکرم فرماتے ہیں تو بلائیں دور ہوجاتی ہیں۔ کعبے کے بدر الدجی تم پہ کروڑوں درود طیبہ کے شمس ُالضحیٰ تم پہ کروڑوں درود شافعِ روزِ جزاء تم پہ کروڑوں درود دافِع جملہ بلا تم پہ کروڑوں درودجب بادشاہ ڈر کر بَھاگنے لگا
ملک شام میں طَاعون کی بیماری پھیلی تو بنو اُمَیّہ کا بادشاہ “ عبدالملک “ موت کے ڈَر سے گھوڑے پر سُوار ہو کر اپنے شہر سے بھاگ نکلا اور اَپنے خاص غلام اور کچھ فوج بھی ساتھ میں لے لی ، وہ بیماری سےاِس قدر ڈرا ہواتھا کہ زمین پر پاؤں نہیں رکھتا تھا بلکہ گھوڑے پرہی سوتا تھا۔ دورانِ سفر ایک رات اُس کو نیند نہیں آرہی تھی ، اُس نے اپنے غلام سے کہا : مجھے کوئی کہانی سُناؤ۔ ہو شیار غُلام بادشاہ کو نصیحت کرنے کا موقع پا کر بولا : ایک لومڑی اپنی جان کی حفاظت کے لیے شیر کی خدمت کیا کرتی تھی ، شیر کےخوف کی وجہ سے کوئی جانور لومڑی کی طرف دیکھ نہیں سکتا تھا۔ لومڑی بڑےسُکون کی زِندگی گزارتی رہی ، ایک دِن اَچانک ایک عُقاب لومڑی پر جَھپٹا تو لومڑی بھاگ کر شیر کے پاس چلی گئی۔ شیر نے اُس کو اَپنےاُوپر بِٹھالیا۔ عُقاب دَوبارہ جَھپٹا اور لومڑی کواپنے پنجوں میں دَبا کر اُڑ گیا۔ لومڑی چلا چلا کر شیر سے فریاد کرنے لگی تو شیر نے کہا : اے لومڑی! میں زمین پر رہنے والے جانوروں سے تیری حفاظت کرسکتا ہوں ، آسمان کی طرف سے حملہ کرنے والوں سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔ یہ کہانی سُن کر بادشاہ کو بڑی عبرت ہوئی اور اُس کی سمجھ میں آگیا کہ میری فوج اُن دشمنوں سے تو میری حفاظت کرسکتی ہے جو زَمین پر رہتے ہیں مگر جو بَلائیں اوربیماریاں آسمان سے حملہ آور ہوں ، اُن سے مجھے میری بادشاہی نہیں بچا سکتی ، بَادشاہ کے دِل سے طَاعون کا خوف چلا گیااور وہ اللہ پاک کی رِضا پر راضی رِہ کر رہنے لگا۔ (روح البیان ، پ۲ ، تحت الآية : ۲۴۴ ، ۱ / ۳۷۸ ، عجائب القرآن ، ص۴۵) پیارے اسلامی بھائیو! وبائیں آزمائش بن کر آتی ہیں لیکن اِن سے بچنے کےلیے غیرضروری اقدامات کرناکسی طرح بھی درست نہیں کیونکہ وبا کا عُقاب ہمیں شیرکی حفاظت سے بھی نکال کر لے جاسکتا ہے ، ایسی صورتِ حال میں تقدیر پرراضی رہنا اوراحتیاطی تدابیراختیار کرنا عقل مندی کی علامت اور دانشوری کا تقاضا ہے۔ آزمائش خواہ کسی بھی قسم کی ہو ، اسلام کی روشن تعلیمات پیشِ نظررکھنے والاصبرکو ڈھال بناکر اِس کا مقابلہ کرتا ہے ، وہ چندآزمائشوں کے بجائے بےشمار نعمتوں پر نظر رکھتا ہے ، وہ شکوہ و شکایت کے شعلے غم زدہ معاشرے میں نہیں پھیلاتا بلکہ سراپا شُکر بن کرعزم و ہمت کو قائم و دائم رکھتا ہے ، آزمائش کی اِن گھڑیوں میں وہ لوگوں کےساتھ جانی اور مالی تعاون کرکےدکھوں کوکم کرنے کامضبوط ذریعہ ثابت ہوتا ہے اور اُس کا عمل اُمیدوں کے چراغ روشن کرنے میں بھرپور مدد فراہم کرتا ہے۔ مگراِن تمام ترفوائدکےحاصل کرنے کا دار و مدار اسلام کی روشن تعلیمات سے آگاہ ہونے اوراُن پرسچے دل سے عمل پیرا ہونے پر ہے۔جب ماضی میں وبائیں آئیں
جب کبھی مسلمانوں کو وبائی امراض اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ تقدیر پر راضی رہتے اور تدبیر بھی اختیارکرتے اور اس آزمائش کے آنے کے اسباب کا سَدِّ باب کرتےہوئے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر اللہ پاک کی بار گاہ میں عاجزی و انکساری کے ساتھ توبہ کرتے ، اس بات کی وضاحت کے لیے ماضی کے دو واقعات ملاحظہ کیجئے : 449 سنِ ہجری میں آذر بائیجان ، واسط اور کوفہ میں وبا پھیلی جس سے بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی اور لوگ پریشان ہوگئے ، سب نے اللہ پاک کی بار گاہ میں توبہ کی ، شرابوں کوبہادیا ، گانےباجوں کےآلات توڑ ڈالے اور اپنی قیمتی چیزیں صدقہ کردیں۔ (شذرات الذھب فی اخبار من ذھب ، سنة تسع و اربعین و اربع مئة ۵ / ۲۰۸ ) 833 سن ہجری میں بحیرہ اور غربیہ میں طاعون کی وبا پھیلی اور بڑھتے بڑھتے غزہ ، قدس ، صفد اور دمشق تک پہنچ گئی۔ مسلمانوں نے اس آزمائش میں اللہ پاک کی بارگاہ میں رجوع کیا اور قاہرہ میں اعلان کیا گیا کہ تمام مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور تین دن کے روزے رکھیں۔ اس وقت کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) شیخ علمُ الدین صالح بلقینی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ اپنےشہرقاہرہ سےباہرنکل کر ایک صحرا میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی پھر عاجزی و انکساری کے ساتھ خوب گڑگڑا کر دعائیں کی گئیں۔ (النجوم الزاهرة فی ملوک مصر القاهرة۱۴ / ۱۷۱) آج جبکہ کورونا وائرس جیسے وبائی حملے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کئی ممالک نےلاک ڈاؤن کرکے اپنی معاشی سرگرمیاں معطل کردی ہیں تو مسلمانوں کی بھی اخلاقی ، مذہبی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچاؤ کے لیے اپنے گھروں میں محصور ہوکر لایعنی کاموں میں وقت برباد کرنے ، فراغت سے بے مقصد فائدہ اٹھاکر گلی محلوں میں چوپال لگانے ، سوشل میڈیا پر فضول تبصرے کرنے کے لیے اسکرولنگ کرتے رہنےکے بجائے اپنے بزرگوں اور سابقہ مسلمانوں کے اختیار کردہ اقدامات کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں اور اس وبا کا ڈٹ کر مقابلہ کریں نیز اللہ پاک پر کامل توکل کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں ، نمازِ پنجگانہ کی پابندی کریں ، غریب مسلمانوں کا خیال رکھیں اور خوب صدقہ و خیرات کریں۔دوسراباب : وجوہات وعلامات
کوروناوائرس جیسی وباؤں کی وجوہات
وبا ہو یا مصیبت ، اس سے بچنے کے لیے تدبیر و اسباب اختیار کرنا عقل مندی اور ایسانہ کرنا سراسر بےوقوفی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ان وبائی حملوں سے بچنے کے اسباب اختیار کیے جائیں اور ساتھ ساتھ اللہ پاک پر توکل ( یعنی بھروسا) کیا جائے۔ یا درکھیے!اسباب اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہوتا لہٰذا احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کی جائیں۔ بھلا وہ شخص بادام کیسے چبا سکتا ہے جس کے منہ میں دانت ہی نہ ہوں؟ہماری بداعمالیاں
انسان کو جو بھی برائی پہنچتی ہے وہ اس کی اپنی بداعمالیوں کا خمیازہ ہوسکتا ہے جو اس کو کسی نہ کسی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے! عقل مند انسان وہ ہے جو اپنی غلطی سے سیکھ لے اور آئندہ اس غلطی کو دوہرانے سے باز رہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ پارہ 21 سورہ ٔ روم آیت نمبر 41 میں ارشاد ہوتاہے : ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ترجمہ کنزالعرفان : خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیاان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں ۔ اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ انسان گناہوں کی وجہ سے ہزاروں قسم کی پریشانیوں میں گھر جاتا ہے؛ قحط سالی ، بارش کا رُک جانا ، پیداوار کی قلت ، کھیتیوں کی خرابی ، تجارتوں کے نقصان ، آدمیوں اور جانوروں میں موت ، آتش زدگی کی کثرت ، ہر شے میں بے برکتی ، طرح طرح کی بیماریاں اور بے سکونی انسان کےاپنےگناہوں کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ (روح البیان ، الروم ، تحت الآية: ۴۱ ، ۷ / ۴۵ تا۴۷ ملخصاً-صراط الجنان ، پ۲۱ ، الروم ، تحت الآیۃ: ۴۱ ، ۷ / ۴۵۰ ملتقطاً)ہلاکت میں ڈالنے والے کام
صحیح اَحادیث سے بھی ثابت ہےکہ * کسی قوم میں اِعلانیہ بے حیائی پھیل جانے کی وجہ سے اُن میں طاعون اور مختلف اَمراض عام ہو جاتے ہیں۔ * ناپ تول میں کمی کرنے کی وجہ سے قحط آتا اور ظالم حاکم مقرر ہوتے ہیں۔ * زکوۃ نہ دینے کی وجہ سے بارش رُکتی ہے۔ * الله پاک اور اس کے رسول کا عہد توڑنے کی وجہ سے دشمن مُسَلَّط ہو جاتا ہے۔ * لوگوں کے مالوں پر جَبری قبضہ کرنے کی وجہ سے اور الله پاک کی کتاب کےمطابق حکمرانوں کے فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ * سود خوری کی وجہ سے زلزلے آتے اور شکلیں بگڑ جاتی ہیں۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! پانچ چیزوں سے بچنے کے لیے پانچ کاموں سے سے بچو : (1) جو قوم کم تولتی ہے اللہ پاک انہیں مہنگائی اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کردیتاہے۔ (2) جو قوم بد عہدی کرتی ہے اللہ پاک ان کے دشمنوں کوان پر مُسلَّط کردیتاہے۔ (3)جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی اللہ پاک اُن سے بارش کاپانی روک لیتاہے اور اگر چوپائے نہ ہوتے توان کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیاجاتا۔ (4)جس قوم میں فحاشی اور بے حیائی پھیل جاتی ہے اللہ پاک ان کوطاعون اور ایسی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے جو ان سے پہلے لوگوں کو نہ تھیں اور(5) جوقوم قرآنِ پاک کے بغیر فیصلہ کرتی ہے اللہ پاک ان کو زیادتی (یعنی غلط فیصلے) کا مزہ چکھاتا اور انہیں ایک دوسرے کے ڈر میں مبتلا کر دیتاہے۔ ( ابن ماجه ، ابواب الفتن ، باب العقوبات ، ۴ / ۳۶۷ ، حدیث : ۴۰۱۹) مذکورہ آیتِ مبارکہ اور حدیث شریف کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ معاشرے کی موجودہ صورتِ حال پر غور کرے کہ فی زمانہ بے حیائی ، ناپ تول میں کمی ، لوگوں کے اَموال پر جبری قبضے ، زکوٰۃ کی عدم ادائیگی ، جوا ، سود خوری اور رشوت کے لین دین سمیت وہ کون سا گناہ ہے جو ہمارے درمیان عام نہیں؟ شاید اِن ہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ آج کل لوگ ایڈز ، کینسر اور دیگر جان لیوا اَمراض میں مبتلا ہیں ۔ بارش رُک جانے یا حد سے زیادہ آنے کی آفت کا یہ شکار ہیں ، دشمن اِن پر مُسَلَّط ہوتے جارہے ہیں ، قتل و غارت گری اِن میں عام ہو چکی ہے ، زلزلوں ، طوفانوں اور سیلاب کی مصیبتوں میں یہ پھنسے ہوئے ہیں ، تجارتی خسارے اور ہر چیز میں بے برکتی کا رونا یہ رورہے ہیں ، ہمارے گناہوں کی سزا کے لیے یہ بھی کافی نہ تھا کہ ہم کورونا وائرس جیسے خطر ناک اور عالمی وبائی مرض میں مبتلا کردئیے گئے! اب بھی وقت ہے اپنے گناہوں سے توبہ کرلیجیے اور اپنی بگڑی ہوئی عملی حالت سُدھارلیجیے ، اپنےگردوپیش کے مسلمانوں پربھی انفرادی کوشش جاری رکھیے ، ان کو بھی دینِ اسلام کی خوبصورت تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا ذہن دیتے رہیے ، اللہ پاک نے چاہا تو اس آزمائش سے بھی جلدی جان چھوٹ جائے گی اور دنیا و آخرت میں سکون نصیب ہوگا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع