اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
(یہ مضمون کتاب ”مدنی پنج سورہ“صفحہ182 تا 202 اور 14تا15سے لیا گیا ہے۔)
دُعا مانگنے کے 17 مدنی پھول
دُعائے عطار:یارَبَّ المصطفٰے!جوکوئی 17صفحات کا رسالہ ’’ دُعا مانگنے کے17 مَدَنی پھول ‘‘ پڑھ یا سُن لے ، اُس کی نیک و جائز مُرادوں پر رحمت کی نظر ہو ، اس کی دعائیں مقبول ہوا کریں اور اُسے بے حساب بخش دے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جو شخص بروزِ جُمعہ مجھ پر سو بار دُرُودِ پاک پڑھے ، جب وہ قیامت کے روزآئے گا تو اُس کے ساتھ ایک ایسا نُور ہوگا کہ اگر وہ ساری مخلوق میں تقسیم کردیا جائے تو سب کو کفایت کرے۔(حلیۃ الاولیاء ، 8/49 ، حدیث:11341)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دُعامانگنا بہت بڑی سعادت ہے ، قرآن و احادیثِ مُبا رَکہ میں جگہ جگہ دُعا مانگنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ایک حدیثِ پاک میں ہے : ” کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نَجات دے اور تمہارا رِزْق وسیع کر دے ، رات دن اللہ پاک سے دُعا مانگتے رہو کہ دُعا مومِن کا ہتھیار ہے۔“
( مسند ابی یعلیٰ ، 2/201 ، حدیث:1806)
مکی مدنی سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مُشکبار ہے :” بَلا اُترتی ہے پھر دُعا اُس سے جاملتی ہے پھر دونوں قیامت تک جھگڑا کرتے رہتے ہیں ۔“
(مستدرک ، 2/162 ، حدیث :1856)
حضرتِ ابوذَرغِفاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ارشاد فرماتے ہیں : ”عبادات میں دُعاکی وُہی حیثیت ہے جو کھانے میں نمک کی۔“
(تنبیہ الغافلین ، ص216 ، حدیث:577)
اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں : جو مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ اور قطعِ رِحمی کی کوئی بات شامل نہ ہوتو اللہ پاک اُسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک ضرور عطا فرماتا ہے (1) اُس کی دعا کا نتیجہ جلد ہی اس کی زندگی میں ظاہر ہوجاتا ہے۔یا (2) اللہ پاک کوئی مصیبت اس بندے سے دُورفرمادیتا ہے۔یا (3) اُس کے لئے آخِرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ بندہ(جب آخِرت میں اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گاجو دُنیا میں مُسْتجاب (یعنی مَقبول ) نہ ہوئی تھیں تو) تمنّا کرے گا ، کاش ! دُنیا میں میری کوئی دُعا قبول نہ ہوتی ۔ (مستدرک ، 2/163 ، 165 ، حدیث :1859 ، 1862)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!دُعا رائِگاں توجاتی ہی نہیں ۔ اِس کا دُنیا میں اگر اثر ظاہِر نہ بھی ہو تو آخِرت میں اَجْر و ثواب مِل ہی جائے گا۔ لہٰذا دُعامیں سُستی کرنا مُناسِب نہیں ۔
(1) پہلا فائِدہ یہ ہے کہ اللہ پاک کے حکم کی پیروی ہوتی ہے کہ اُس کا حکم ہے مجھ سے دُعا مانگا کرو۔جیسا کہ قُرآنِ پاک میں ارشاد ہے :( ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ )
(پ24 ، المؤمن :60)
”ترجَمۂ کنزالایمان : مجھ سے دُعاکرو میں قبول کروں گا۔“
(2) دُعا مانگنا سُنَّت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا ، مکی مَدَنی مُصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اکثر اَوقات دُعامانگتے ۔لہٰذا دُعا مانگنے میں اِتّباعِ سُنَّت کا بھی شَرَف حاصِل ہوگا۔
(3) دُعا مانگنے میں اِطاعَتِ رَسُول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم دُعا کی اپنے غُلاموں کو تاکِید فرماتے رہتے ۔
(4) دُعا مانگنے والا عابِدوں کے زُمْرہ (یعنی گُروہ)میں داخِل ہوتا ہے کہ دُعا بَذاتِ خود ایک عِبادَت بلکہ عِبادَت کا بھی مَغز ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔ترجمہ: دُعا عِبادَت کا مَغْز ہے ۔
(ترمذی ، 5/243 ، حدیث:3382)
(5) دُعا مانگنے سے یا تو اُس کا گُناہ مُعاف کیا جاتا ہے یا دُنیا ہی میں اُس کے مسائِل حل ہوتے ہیں یا پھر وہ دُعا اُس کے لئے آخِرت کا ذَخِیرہ بن جاتی ہے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! دُعا مانگنے میں اللہ پاک اور اُس کے پیارے حَبیب ماہِ نُبُوَّت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اِطاعَت بھی ہے ، دُعا مانگنا سُنَّت بھی ہے ، دُعا مانگنے سے عِبادَت کا ثواب بھی ملتا ہے نیز دُنیا و آخِرت کے مُتَعَدَّد فَوائِد حاصِل ہوتے ہیں ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دُعا کی قبولِیَّت کیلئے بَہُت جلدی مچاتے بلکہ مَعاذَ اللہ ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عَرصہ سے دُعائیں مانگ رہے ہیں ، بُزُرگوں سے بھی دُعائیں کرواتے رہے ہیں ، کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا ، یہ وظائف پڑھتے ہیں ، وہ اَوراد پڑھتے ہیں ، فُلاں فُلاں مزار پر بھی گئے مگر اللہ پاک ہماری حاجَت پُوری کرتا ہی نہیں ۔ بلکہ بعض یہ بھی کہتے سُنے جاتے ہیں : ” نہ جانے ایسا کون سا گُناہ ہوگیا ہے جس کی ہمیں سزا مِل رہی ہے۔“
اس طرح کی” بَھڑا س “ نِکالنے والے سے اگر دَریافت کیا جائے کہ بھائی! آپ نَماز تو پڑھتے ہی ہوں گے؟تو شاید جواب ملے”جی نہیں۔ “ دیکھا آپ نے ! زَبان پر تو بے ساختہ جاری ہورہا ہے ” نہ جانے کیا خَطا ہم سے ایسی ہوئی ہےجس کی ہم کو سزا مِل رہی ہے ! “ اور نَماز میں اِ ن کی غفلت تو اِنہیں نظر ہی نہیں آرہی ! گویا نَماز نہ پڑھنا تو (مَعاذَ اللہ ) کوئی گُناہ ہی نہیں ہے! ارے! اپنے مختصرسے وُجُودپرہی تھوڑی نظر ڈال لیتے ، دیکھئے تو سہی! سَرکے بال انگریزی ، انگریزوں کی طرح سَر بھی بَرہنہ (بَ۔رَہْ۔نَہ) لِباس بھی انگریزی ، چہرہ دُشمنانِ مُصْطَفٰے آتَش پَرَسْتوں جیسایعنی تاجدارِرسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظیم سُنَّت داڑھی مُبارَک چہرے سے غائِب! تَہذِیب وتَمَدُّن اِسلام کے دُشمنوں جیسا ، نَماز تک بھی نہ پڑھیں ۔ حالانکہ نماز نہ پڑھنا زبردست گُناہ ، داڑھی مُنْڈانا حرام اوردِن بھر میں جُھوٹ ، غیبت ، چغلی ، وَعدہ خِلافی ، بدگُمانی ، بدنگاہی ، والِدَین کی نافرمانی ، گالی گلوچ ، فلمیں ڈِرامے ، گانے باجے وغیرہ وغیرہ نہ جانے کتنے گُناہ کئے جائیں ۔لیکن یہ گُناہ ”جناب“ کو نظر ہی نہ آئیں ۔ اِتنے اِتنے گُناہ کرنے کے باوُجُود شیطان غافِل کردیتا ہے اور زَبان پر یہ اَلْفاظِ شِکوہ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔؎
کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے جس کی ہم کو سزامِل رہی ہے!
ذرا سوچئے توسہی !آ پ کا کوئی جگری دوست آپ کو کئی بارکچھ کام بتائے مگر آپ اُس
کا کام نہ کریں اور کبھی آپ کو اپنے اُسی دوست سے کام پڑجائے تو ظاہِر ہے آپ پہلے ہی سہمے رہیں گے کہ میں نے تو اِس کا ایک بھی کام نہیں کیا اب وہ بھلا میرا کام کیوں کرے گا ! اگر آپ نے ہمت کرکے بات کرکے بھی دیکھی اور واقعی اُس نے کام نہ بھی کیا ، تب بھی آپ شِکوہ نہیں کرسکیں گے کیوں کہ آپ نے بھی تو اپنے دوست کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔
اب ٹھنڈے دِل سے غور کیجئے کہ اللہ پاک نے کتنے کتنے کام بتائے ، کیسے کیسے اَحْکام جاری فرمائے۔ مگر خود اُس کے کون کون سے اَحْکام پر عمل کرتے ہیں ؟ غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اُس کے کئی اَحْکامات کی بَجاآوَری میں نِہایت ہی کَوتاہ واقِع ہوئے ہیں ۔ اُمّیدہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ خود تو اپنے پروَرْدگار کے حکموں پر عمل نہ کریں ۔ اور وہ اگرکسی بات (یعنی دُعا) کا اثرظاہِرنہ فرمائے توشِکوہ ، شکایت لے کر بیٹھ جائیں دیکھئے نا ! آپ اگر اپنے کسی جگری دوست کی کوئی بات بار بار ٹالتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی خَتْم کر دے ۔لیکن اللہ پاک بندوں پر کس قَدَر مِہربان ہے کہ لاکھ اُس کے فرمان کی خِلاف وَرزی کریں پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فِہرِس سے خارِج نہیں کرتا ، وہ لُطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے۔ذرا غور تو فرمائیے!جوبندے اِحسان فَراموشی کا مُظاہَرہ کر رہے ہیں اگر وہ بھی بَطورِ سزا اپنے اِحسانات ان سے روک لے توان کا کیا بنے گا ؟یقینا ً اُس کی عِنایَت کے بِغیرایک قَدم بھی نہیں اُٹھاسکتا۔ ارے ! وہ اپنی عظیم ُالشان نعمت ہوا کوجو بالکل مُفت عطا فرما رکھی ہے اگرچند لمحوں کیلئے روک لے تو ابھی لاشوں کے اَنبار لگ جائیں ۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! بَسا اَوقات قبولِیَّتِ دُعا کی تاخیر میں کافی مَصلحتیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔حُضُور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ پُر سُرور ہے: جب اللہ کا کوئی پیارا دُعا کرتا ہے تو اللہ پاک جِبرئیل (علیہ السّلام ) سے ارشاد فرماتا ہے : ” ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز پسند ہے۔“ اور جب کوئی کافِر یا فاسق دُعا کرتا ہے ، فرماتا ہے: ”اے جِبرئیل (علیہ السّلام ) !اِس کاکام جلدی کردو ، تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز مَکرُوہ (یعنی ناپسند )ہے۔(کنزالعمال ، 2/39 ، حدیث:3261)
حضرتِ یَحْیٰ بِن سَعید بِن قَطَّان (رحمۃُاللہِ علیہ) نے اللہ پاک کو خواب میں دیکھا ، عَرْض کی :اِلٰہی !میں اکثر دُعا کرتا ہوں اور تُو قبول نہیں فرماتا؟حکم ہوا :” اے یَحْیٰ!میں تیری آواز کو دوست رکھتا ہوں ، اِس وا سِطے تیری دُعا کی قبولِیَّت میں تاخیر کرتا ہوں ۔ “ (احسن الوعاء ، ص35)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ابھی جو حدیثِ پاک اور حِکایت گزری اُس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ پاک کو اپنے نیک بندوں کی گِریہ و زاری پسند ہے تو یُوں بھی بَسا اوقات قبولِیَّتِ دُعامیں تاخیر ہوتی ہے۔اب اِس مَصلحت کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں ! بَہَر حال جلدی نہیں مچانی چاہئے۔اَحسَنُ الوِعَاء صفحہ 33 میں آدابِ دُعا بیان کرتے ہوئے حضرتِ رئیسُ المتکلمین مولانا نَقی عَلی خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :
(دُعاء کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ)دُعا کے قبول میں جلدی نہ کرے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خُدائے کریم تین آدمیوں کی دُعا قبول نہیں کرتا ۔ایک وہ کہ گُناہ کی دُعا مانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قَطْعِ رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعا مانگی اب تک قبول نہیں ہوئی۔
(مسلم ، ص1463 ، حدیث:2735)
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ناجائز کام کی دُعا نہ مانگی جائے کہ وہ قبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتہ دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسی دُعا بھی نہ مانگیں اور دُعا کی قبولِیَّت کیلئے جلدی بھی نہ کریں ورنہ دُعا قبول نہیں کی جائے گی۔ اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ الدُّعاءِپر اعلیٰ حضرت ، امامِ اَہلِ سُنَّت ، مولانا شاہ اَحمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے حاشیہ تحریر فرمایا ہے۔اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعا لِاَحسَن الْوِعاء رکھا ہے ۔اسی حاشیہ میں ایک مَقام پر دُعا کی قبولِیَّت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصُوص اور نِہایَت ہی علمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں :
سَگانِ دُنیا(یعنی دُنْیوی اَفسروں ) کے اُمِّیدواروں (یعنی اُن سے کام نکلوانے کے آرزو مَندوں ) کو دیکھا جاتا ہے کہ تین تین برس تک اُمِّیدواری (اور انتظار)میں گُزارتے ہیں ، صُبح وشام اُن کے دروازوں پر دَوڑتے ہیں ، (دَھکے کھاتے ہیں )اور وہ (اَفسران) ہیں کہ رُخ نہیں مِلاتے ، جواب نہیں دیتے ، جِھڑَکْتے ، دِل تنگ ہوتے ، ناک بَھوں چَڑھاتے ہیں ، اُمِّیدواری میں لگایا تو بیگار(بے کار محنت) سَرپرڈالی ، یہ حضرت گِرہ (یعنی اُمِّید وار جیب)سے کھاتے ، گھر سے منگاتے ، بیکار بیگار (فُضُول محنت) کی بَلا اُٹھاتے ہیں اور وہاں ( یعنی افسروں کے پاس دَھکے کھانے میں ) برسوں گُزریں ہُنُوز (یعنی ابھی تک گویا )روزِ اوّل (ہی )ہے۔مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دَھکے کھانے والے ) نہ اُمّید توڑیں ، نہ(افسروں کا ) پیچھا چھوڑیں ۔اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین ، اَکْرَمُ الْاکْرَمِیْن کے دروازے پراَوّل تو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تو اُ کتاتے ، گھبراتے ، کل کا ہوتا آج ہوجائے ، ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گُزرا اور شِکایَت ہونے لگی ، صاحِب !پڑھا تو تھا ، کچھ اَثَر نہ ہوا!یہ اَحمق اپنے لئے اِجابَت (یعنی قبولِیَّت)کا دروازہ خُود بند کرلیتے ہیں ۔ مُحمَّدٌرَّسُوْ لُ اللہ ! صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :یُسْتَجابُ لِاَحَدِکُمْ مَالَمْ یُعَجِّلْ یَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ یَسْتَجِبْ لِی۔ترجمہ : ”تمہاری دُعا قبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں نے دُعا کی تھی قبول نہ ہوئی۔“
(بخاری ، 4/200 ، حدیث : 6340 )
بعض تواِس پر ایسے جامے سے باہَر(یعنی بے قابو ) ہوجاتے ہیں کہ اَعْمال واَدْعیہ (یعنی اوراد اور دُعاؤں )کے اَثر سے بے اِعتقاد بلکہ اللہ پاک کے وَعدۂ کرم سے بے اِعتماد ، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ الْکَرِیْمِ الْجَوَاد۔ایسوں سے کہاجائے کہ اے بے حَیا!بے شَرمو!!ذرا اپنے گِرِیبان میں مُنہ ڈالو ، اگر کوئی تمہارا برابر والا دوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے کہے اور تُم اُس کا ایک کام نہ کرو تو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تو آپ لَجاؤ (شرماؤ)گے ، ( کہ) ہم نے تو اُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کس مُنہ سے اُس سے کام کو کہیں ؟اور اگر غَرَض دِیوانی ہوتی ہے (یعنی مطلب پڑا تو) کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام) نہ کیا تو اَصْلاً محلِ شِکایَت نہ جانو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو) کہ ہم نے (اُس کاکام ) کب کیا تھا جو وہ کرتا۔ اب جانچوکہ تم مالِك عَلَی الْاِطْلَاق عزَّوَجَلَّ کے کتنے اَحکام بَجالاتے ہو؟ اُس کے حکم بجا نہ لانا اور ا پنی دَرخواست کا خواہی نَخَواہی (ہرصُورت میں )قبول چاہنا کیسی بے حیائی ہے!
او اَحمق ! پھر فَرق دیکھ ! اپنے سَر سے پاؤں تک نظر ِغور کر! ایک ایک رُوئیں میں ہَروقت ہر آن کتنی کتنی ہزاردَرْ ہزار دَرْ ہزار صَد ہزار بے شُمار نعمتیں ہیں ۔تُو سوتا ہے اور اُس کے معصوم بندے (یعنی فِرِشتے)تیری حِفاظت کو پہرا دے رہے ہیں ، تُو گُناہ کررہا ہے اور (پھربھی) سَرسے پاؤں تک صِحّت و عافیت ، بَلاؤں سے حِفاظَت ، کھانے کا ہَضْم ، فُضْلات ( یعنی جسم کے اندر کی گندگیوں ) کا دَفع ، خُون کی رَوانی ، اَعضا میں طاقَت ، آنکھوں میں روشنی ، بے حِساب کرم بے مانگے بے چاہے تجھ پر اُتر رہے ہیں ، پھر اگر تیری بعض خواہِشیں عطا نہ ہوں ، کِس مُنہ سے شکایَت کرتا ہے ؟ تُو کیا جانے کہ تیرے لئے بھلائی کا ہے میں ہے ، تُو کیا جانے کیسی سَخْت بَلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قبول ہونے والی ) دُعا نے دَفع کی ، تُو کیا جانے کہ اِس دُعاکے عِوَض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخِیرہ ہورہا ہے ، اُس کا وَعدہ سچا ہے اور قبول کی یہ تینوں صُورتیں ہیں جن میں ہر پہلی ، پچھلی سے اَعلیٰ ہے۔ ہاں! بے اِعتقادی آئی تویقین جان کہ ماراگیااور اِبلیسِ لَعِین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِِ سُبْحٰنَهٗ وَتَعَالٰی۔( اور اللہ کی پناہ وہ پاک ہے اور عظمت والا)
اَے ذَلیل خاک!اے آبِ ناپاک!اپنا مُنہ دیکھ اور اِس عظیم شَرَف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں حاضِر ہونے ، اپنا پاک ، مُتَعَالی( یعنی بلند ) نام لینے ، اپنی طرف مُنہ کرنے ، اپنے پُکارنے کی تجھے اجازت دیتا ہے ۔ لاکھوں مُرادیں اِس فَضْلِ عظیم پر نثار۔
اوبے صَبرے !ذرا بھیک مانگنا سِیکھ! اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لوٹ جا۔اور لِپٹا رہ اور ٹِکْ ٹِکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ، اب دیتے ہیں !بلکہ پُکارنے ، اُس سے مُناجات کرنے کی لَذَّت میں ایسا ڈوب جا کہ اِرادہ ومُراد کچھ یاد نہ رہے ، یقین جان کہ اِس دروازے سے ہرگِز مَحروم نہ پِھر ے گاکہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم اِنْفَتَحَ(یعنی جس نے کریم کے دروا زے پر دستک دی تو وہ اس پر کُھل گیا ) وَبِاللہِ التَّوْفِیْقُ۔(اور توفیق اللہ پاک کی طرف سے ہے)
(ذیل المدعا لاحسن الوعاء ، ص34تا37)
حضرتِ مولانا نَقِی علی خان (رحمۃُ اللہِ علیہ )فرماتے ہیں : اَے عز یز! تیرا پروَردگار فرماتا ہے:( اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ ) (پ2 ، البقرۃ : 186) ”میں دعامانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دعا مانگے“(فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ٘ۖ(۷۵)) (پ23 ، الصٰفٰت : 75) ” ہم کیا اَچھے قبول کرنے والے ۔“( اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ) (پ24 ، المؤمن : 60 )”مجھ سے دُعا مانگو میں قبول فرماؤں ۔“
پس یقین سمجھ کہ وہ تجھے اپنے دَر سے مَحروم نہیں کرے گااوراپنے وَعدے کو وَفا فرمائے گا۔وہ اپنے حَبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سےفرماتاہے:( وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰)) (پ30 ، الضحیٰ : 10)”سائل کو نہ جھڑک۔“ آپ کس طرح اپنے خوانِ کرم سے دُور کرے گا؟ بلکہ وہ تجھ پر نظرِ کرَم رکھتا ہے کہ تیری دُعاکے قبول کرنے میں دیر کرتا ہے۔
( احسن الوعاء ص32 ,33)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اَلحمدُ لِلّٰہ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کر کے دُعا مانگنے والوں کے مسائل حل ہونے کے کافی واقعات سننے کو ملتے ہیں ۔
ایک اسلامی بھائی کا بیان اپنے انداز میں عرض کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔ ہمار ا مَدَنی قافلہ ٹھٹھہ شہر وارِد ہوا ، شرکا میں سے ایک اسلامی بھائی کو عِرقُ النسا کا شدید درد اُٹھتا تھا ، بے چارے شدّتِ درد سے ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ ایک بار درد کے سبب رات بھر سو نہ سکے۔ آخِری دن امیرِ قافلہ نے فرمایا : آیئے ! سب مل کر ان کیلئے دُعا کرتے ہیں ۔ چُنانچِہ دُعا شروع ہوئی ، ان اسلامی بھائی کا بیان ہے : اَلحمدُ لِلّٰہ دَورانِ دُعا ہی درد میں کمی آنا شروع ہو گئی اور کچھ دیر کے بعدعِرقُ النسا کا درد بِالکل جاتا رہا ۔اَلحمدُ لِلّٰہ یہ بیان دیتے وَقت کافی عرصہ ہو چکا ہے وہ دن آج کا دن مجھے پھر کبھی عِرقُ النسا کی تکلیف نہیں ہوئی ۔ اَلحمدُ لِلّٰہ یہ بیان دیتے وَقت مجھے عَلاقائی مَدَنی قافلہ ذِمّہ دار کی حیثیت سے مَدَنی قافِلوں کی دھومیں مچانے کی خدمت ملی ہوئی ہے۔
گر ہو عِرق النسا ، یا عارِضہ کوئی سا پاؤ گئے صحتیں ، قافِلے میں چلو
دُور بیماریاں ، اور پریشانیاں ہوں گی بس چل پڑیں ، قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! مَدَنی قافلے کی بَرَکت سے عِرقُ النسا جیسی مُوذی بیماری سے نَجات مل گئی ۔ عِرقُ النسا کی پہچان یہ ہے کہ اِس میں چَڈّھے( یعنی ران کے جوڑ) سے لے کر پاؤں کے ٹخنے تک شدید درد ہوتا ہے یہ مرض برسوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا ۔