نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْم
سگِ مدینہ محمد الیاس عطّارؔ قادری رضوی عُفِیَ عَنْہُ کی جانب سے مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اراکین، ذمّہ دارانِ دعوتِ اسلامی! ( )
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ
میرے پیارے مدنی بیٹو اور مدنی بیٹیو!جو دینی کاموں کی دھومیں مچاتے ہیں، میں اپنے اندر اُن کے لئے بہت اچھے جذبات پاتا ہوں، یااللہ!جو مدنی بیٹے12دینی کاموں اور مَدَنی بیٹیاں 8دینی کاموں کے لئے کوشاں رہتے ہیں، نیک اعمال رسالے کے مطابق زندگی گزارنے کی کوششیں کرتے ہیں ان سب کو بے حساب مغفرت سے مشرَّف فرمادے اور اے اللہ!ان کو بار بار حج کی سعادت نصیب کردے، اِلٰہَ الْعَالَمِین! دعوتِ اسلامی کے اس باغ کو پھلتا پھولتا مدینے کے سدا بہار پھولوں کے صدقے سدا بہار کردے اور یہ دعوتِ اسلامی جب تک مسلمان باقی رہیں دینی کاموں کی دھوم مچاتی رہے۔ مدینۂ منوَّرہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماًسے اب رخصت کی گھڑیاں آرہی ہیں، اللہ پاک ہم سب کو بار بار حج نصیب کرے، بار بار میٹھا میٹھا مدینہ دکھائے آپ سب کو اور مجھے بے حساب بخشے، اللہ کریم میرے اور تمام حاجیوں کے حج کو مبرور فرمائے، مدینۂ پاک کی حاضری کو مقبول فرمائے، اٰمین۔ مہربانی کرکے دعوتِ اسلامی کا خوب دینی کام کرتے رہیں، نیک اعمال رسالے کے مطابق زندگی گزاریں، اِن شآءَ اللہ نیک متقی پرہیزگار بنیں گے۔
جامعاتُ المدینہ للبنین، مدارسُ المدینہ للبنین کے اَساتِذۂ کرام، طلبۂ کرام، ناظمین، جامعاتُ المدینہ للبنات، مدارسُ المدینہ للبنات کی مُدَرِّسات، ناظِمات، طالِبات، دارُالافتاء اہلِ سنّت کے مفتیانِ کرام اور تمام مجالس کے جو بھی ذمہ داران ہیں، وابستگان ہیں، اللہ پاک سب پر رحمت کا نزول فرمائے،آپ سب دعوتِ اسلامی کو لے کر چلتے رہیں اور آگے سے آگے بڑھاتے رہیں، دین کی خدمتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جن جن سے بَن پڑے مدنی مذاکرہ ضَرور سُنا کریں۔
ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی پابندی بہت ضَروری ہے کہ یہ دعوتِ اسلامی کے اوَّلین کاموں میں سے ہے بلکہ اسے سب سے پہلا دینی کام کہا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یوں سمجھئے کہ ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کے ذریعے ہی دنیا بھر میں دینی کام آہستہ آہستہ عام ہوا۔ مدنی قافلہ تو ظاہر ہے دینی کاموں کی ریڑھ کی ہڈی ہے،ا س کے بغیر بھی گزارا نہیں لہٰذا سب مدنی قافلوں میں سفر کرتے رہیں۔ جو جتنا دینی کام زیادہ کرتا ہے بس یوں سمجھو کہ میری اس کے ساتھ محبت زیادہ ہے، دینی کام میں گویاہماری حیات ہے ورنہ سمجھو کہ ہماری موت ہے، اگر ہم دینی کام چھوڑ کر اَربوں کھربوں پتی بن جائیں تو ہماری زندگی بالکل بے کار ہے جب کہ دین کی خدمت اس میں شامل نہ رہے، اللہ کریم آخری سانس تک ہم سے دین کی خدمت لیتا رہے،اللہ پاک آپ سب کو جنّتُ الْفِردَوس میں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس نصیب فرمائے ،یہ ساری دعائیں آپ سب کے صدقے مجھ گنہگاروں کے سردار اور میری آل کے حق میں بھی قبول کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میں وصیت کرتا ہوں کہ دعوتِ اسلامی کی’’ مرکزی مجلسِ شوریٰ‘‘ جب تک شریعت کے خلاف حکم نہ دے اس کی اطاعت کرتے رہیں، اطاعت کرتے رہیں، اطاعت کرتے رہیں اور بس ان کے ماتحت رہ کر دینی کاموں کی دھوم مچاتے رہیں، دونوں جہاں میں بیڑا پار ہوگا۔ اِن شآءَ اللہ
۔۔۔
Need for Dawateislami today is greater than yesterday
مولانا محمدنواز عطاری مدنی
یہ ایک مُسَلَّمہ حقیقت ہےکہ ”گندگی جتنی بڑھتی ہے صفائی کی ضرورت و اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔“ کیونکہ اگر وقت پر صفائی ستھرائی کا اہتمام نہ کیا جائے تو بدبو پھیلتی، جراثیم پیدا ہوکر پرورش پاتے اور نتیجتاً آس پاس کے لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یقیناً دیگر گندگیوں کی طرح گناہ، بَداَعمالیاں، بےحیائیاں اور بُرائیاں بھی گندگیاں ہی ہیں، بلکہ یہ ایسی گندگیاں ہیں جو بسا اوقات مسلمان کو مَعاذَ اللہ سب سے بڑی گندگی یعنی کُفر تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ حضراتِ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی تشریف آوری کے مَقاصِد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو ظاہری اور باطنی گندگیوں سے پاک صاف کرکے اللہ ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے قابل بنائیں، قراٰنِ کریم کے پارہ 28 سُورۃُ الجُمُعہ کی آیت نمبر 2 میں ہمارے پیارے اور آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وَصف ”یُزَكِّیْهِمْ“ کہہ کر بیان فرمایا گیا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ”انہیں(یعنی ان نئے مسلمان ہونے والوں کو) باطل عقیدوں، مذموم اَخلاق، دورِ جاہلیّت کی خباثتوں اور قبیح اَعمال سے پاک کرتے ہیں۔“(صراط الجنان،10/141)
انبیائے کرام علیہمُ السّلام اور حضور خَاتَمُ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تزکیۂ عالَم کا یہ فریضہ اُمتِ محمدیہ کے سپرد ہوا چونکہ زمانہ جتنانبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانۂ خیر سے دُور ہوتا چلا گیا بُرائیاں اور خرابیاں اُتنی ہی بڑھتی چلی گئیں، یہی وجہ ہے کہ قُرُونِ ثَلاثَہ کے بعد ہر دَور میں نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کی ضرورت زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ قراٰن و سنّت کے متعلق مسلمانوں کے عظیم اور پاکیزہ نظریات کو مسلسل کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ ارکانِ اِسلام یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے متعلق مسلمانوں کو طرح طرح کے وسوسوں کا شکار کیا جانے لگا۔ دینی تعلیم کو مَعاذَ اللہ دَقْیانُوسِی خیالات قرار دیا جانے لگا۔ داڑھی اور مَذہَبِی وَضْع قَطع کو اِنتِہا پسندی کی نشانی سمجھا جانے لگا۔ جھوٹ، غیبت، چغلی، حَسَد، تکبّر، وعدہ خلافی، گالی گلوچ، فلمیں ڈرامے، گانے باجے وغیرہ ایک وَبا کی طرح مسلمانوں میں پھیلنے لگے، کچھ اسی طرح کی گندی سوچوں، گندے نظریوں اور گندے کاموں کے سیلاب کے آگے بَند باندھنے، ان گندگیوں کوختم کرنے، انہیں مِٹانے اور اِعلائے کَلِمَۃُ اللہ یعنی اللہ پاک کا کلمہ بلند کرنے، دینِ اسلام کا بول بالا کرنے، لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنے کے پیشِ نظر 2 ستمبر 1981ء کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نظرِ کرم اور اولیائے کرام و علمائے اسلام کے فیضان سے وطنِ عزیز پاکستان کے شہر کراچی میں امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ایک دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے سے اٹھنے والی عاشقانِ رسول کی اس تحریک دعوتِ اسلامی کی چَھتری کے نیچے انفرادی اور اجتماعی اصلاح، تبلیغ، نیکی کی دعوت اور بُرائی سے منع کرنے کے کام کو ایک مُنَظّم طریقے سے شروع کیا گیا، وقت و حالات کے تقاضوں پر اس میں مزید تبدیلی و بہتری آتی چلی گئی۔ قراٰن و سنّت کی تعلیمات کا نور کہ جسے علمائے حَق اہلِ سنّت کَثّرَھُمُ اللہ تَعالیٰ پہلے بھی پھیلا رہے تھے مزید پھیلنےلگا، سنتِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیوانے بڑھنے لگے، نوجوان اور بوڑھے سبھی شریعت کا پاکیزہ علم سیکھنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے 41 سال کا عرصہ گزر گیا اور اَلحمدُ لِلّٰہ اس عرصہ میں دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں دینی کاموں کا تقریباً 80 مجالس و شعبہ جات پر مشتمل نیٹ ورک پھیلانے میں کامیاب ہوئی۔
مگر چونکہ ہر دَور میں ہی انسان کا اَزْلِی دشمن شیطان، انسانوں کو مختلف طریقوں سے بہکاتا پُھسلاتا رہا، اب بھی بہکا رہا اور آئندہ بھی بہکاتا رہے گا، فِرعَونِیَت، یزیدِیَت اور شیطَنَت نے ہر دَور میں ہی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا مگر دورِ رواں میں تو بُرائیوں اور بَداَعمالیوں کے علاوہ عقائد و نظریات پر پے در پے حملے، ہم جنس پرستی، اِلحاد و بے دینی اور نجانے کیسے کیسے فتنے بڑھتے اور پھیلتے جارہے ہیں۔
یہ وہ حالات ہیں کہ دعوتِ اسلامی کی گذشتہ کل سے کہیں زیادہ آج ضرورت ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اصلاح، تبلیغ، نیکی کی دعوت اور بُرائی سے منع کرنے کی جتنی زیادہ ضرورت ماضی میں تھی، آج اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ بُرائی اور بے حیائی کی گندگی بڑھتی ہی جارہی ہے، آئے دن نِت نئے فتنے رُونما ہو رہے ہیں، غیبوں سے باخبر نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور بُرائی سے نہیں روکو گے“ انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا: ”ہاں! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔“ عرض کی: یا رسولَ اللہ! اس سے زیادہ سخت کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کو بُرائی اور بُرائی کو نیکی سمجھو گے؟“ عرض کی:یا رسولَ اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ ارشاد فرمایا:”اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ عرض کی: اس سے زیادہ سخت کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا:”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم بُرائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔“ انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ ارشاد فرمایا: ”ہاں! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔“ اللہ پاک فرماتا ہے: ”مجھے اپنی قسم ہے، میں ان پر ایسا فتنہ مقرر کروں گا کہ اس میں سمجھدار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے۔“(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 2/201، حدیث:31)
اس روایت کو سامنے رکھ کر ذرا معاشرے پر نظر دوڑائیے کہ کیا گناہوں کی گندگی کو صاف کرنے، نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کے اہم کام میں اب غفلت اور سُستی نہیں برتی جارہی؟ کیا اب نیکی کو بُرائی اور بُرائی کو نیکی نہیں سمجھا جا رہا؟ بلکہ کیا اس سے بَدتر حالات نہیں ہوچکے کہ بُرائی کی طرف بلانے بلکہ منظم طریقے سے بُرائی کو پَروان چڑھانے، کروڑوں اَربوں روپے خرچ کرکے بُرائی اور بےحیائی کی گندگی کو پھیلانے والے لوگ ہمارے معاشرے میں نہیں پائے جا رہے؟ اور کیا کئی گھروں، دفتروں، کمپنیوں، اداروں، فیکٹریوں، نجی فنکشنز اور سوشل گروپوں وغیرہ میں نیکی سے نہیں روکا جا رہا؟ ان میں بُرائی کی ترغیب نہیں دی جا رہی؟ یقیناً ایسے حالات میں دعوتِ اسلامی کی اہمیت و ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب شریعت و سنّت کا دَرد رکھنے اور زندہ ضمیر رکھنے والا ہرشخص اپنے دل سے لے سکتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے جُڑ کر پہلے خود اپنی اصلاح کرنے اور پھر اس پیاری تحریک کا دَسْت و بازُو بَن کر نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کے اہم کام کو مزید آگے بڑھانے کی توفیق عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
۔۔۔
مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی
کامیاب لیڈر کی ایک کوالٹی یہ بھی ہے کہ وہ جن کاموں کا تقاضا یا توقع اپنے پیروکاروں سے کرتا ہے، خود بھی ان میں شامل ہو یا کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اس سے فالورز کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے، ان کا اپنے لیڈر سے تعلق مزید مضبوط ہوتا ہے اور وہ اس کی آنکھ کے اشارے پر چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں انٹرنیشنل دینی لیڈر بانیِ دعوتِ اسلامی، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی بہت ساری خوبیوں میں سے یہ خوبی بھی نمایاں ہے کہ آپ نے دعوتِ اسلامی میں شامل اپنے چاہنے والوں کو شاید ہی کوئی ایسا کام کرنے کی ترغیب دی ہو جس میں آپ خود ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ شامل نہ ہوں، مثلاً آپ نے*مدنی قافلوں میں سفر کئے *علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت کی *درسِ فیضانِ سنّت دیا *ہفتہ وار اجتماع میں شریک ہوئے اور بیانات بھی کئے *فنڈنگ (عطیات جمع کرنے) کی کوششوں میں اپنا بہت بڑا حصہ ملایا *کثیر دینی کتابوں کامطالعہ کیا *زبان، آنکھ اور پیٹ کا قفلِ مدینہ لگایا *یومِ قفلِ مدینہ منایا *انفرادی کوشش کے ذریعے بھی نیک کاموں کی ترغیب دی*لباس، عمامے، مسواک، کھانے پینے، چلنے پھرنے، بیٹھنے، بات چیت کرنے وغیرہ کی سنّتوں اور آداب پر عمل کیا *دُکھیاروں سے تعزیت وعیادت کی، ان کے لئے دعائیں کیں اور مسلمانوں کے خوشی غمی کے مواقع میں شریک ہوئے۔آپ دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ خود فرماتے ہیں: ترغیب کے لئے سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے۔
اے عاشقانِ رسول! باغباں کو اپنا گلستاں بہت عزیز ہوتا ہے، وہ اس کے پودوں کی شاخوں اور پتوں تک کی حفاظت اپنے بچّوں کی طرح کرتا ہے، اسی طرح دعوتِ اسلامی بانیِ دعوتِ اسلامی کا ایک طرح سے گلشن ہے،آج کی اس باغ وبہار کے پیچھے مرکزی کردار بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا ہے، آپ کا بیک گراؤنڈ کسی پیرخانے، دارُالافتاء یا مدرسے سے جُڑا ہوانہیں بلکہ آپ کے والد صاحب حاجی عبدالرحمٰن قادری (مرحوم) شریعت پر عمل کرنے والے سادہ سے انسان تھے اور ملازمت کرکے اپنی فیملی کی کفالت کرتے تھے، اس کے باوجود امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے کے جذبے سے دینِ اسلام کی اتنے بڑے پیمانے پر خدمت کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ امیرِاہلِ سنّت کو دعوتِ اسلامی کی تحریک بنی بنائی، سجی سنوری نہیں ملی بلکہ آپ نے علمائے کرام اور مبلغینِ دعوتِ اسلامی کے تعاون سے دعوتِ اسلامی کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی زندگی کے کم وبیش 41 سال دے دئیے،بہت محنت کی،اپنے آرام کو مسلمانوں کے فائدے کے لئے قربان کیا مگر تھکے نہیں، رکاوٹیں آئیں لیکن مایوس نہیں ہوئے، بھوک برداشت کی، نیند قربان کی، کم سہولتوں کے ساتھ سفر کی کُلفت برداشت کی،معاونین کی خدمات کا اعتراف! مگر ان کے تعاون کو ثمر بار کرنے والی ذات بانیِ دعوتِ اسلامی کی تھی ۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ملیں گے جو اپنی مہارتوں (اسکلز) کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں،وہ کام کسی اور کو نہیں سکھاتے،انہیں یہ خدشہ (Apprehension) ستاتا رہتا ہے کہ یہ شخص کام کو سنوارنے کے بجائے بگاڑ دے گا اس سے اچھا ہے کہ میں خود ہی یہ کام کرلوں،یوں وہ خود بھی زیادہ کام نہیں کرپاتے کہ ایک شخص آخر کیا کیا کام کرے گا !پھران کی بیماری یا دنیا سے رخصت ہونے کی صورت میں ان کی مہارتیں بھی ان کے ساتھ ہی رخصت ہوجاتی ہیں، حالانکہ کسی کو سکھانے کے لئے ایک گھنٹہ خرچ کیا جائے تو ہمارے کئی سو گھنٹے بچ سکتے ہیں،اور ہمارے بعد بھی وہ کام جاری رہتا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! بانیِ دعوتِ اسلامی امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے 41 سال کے سفر میں تقسیم کاری کے اصول پر عمل کیا اور کام کو اپنی ذات کے گرد جمع نہیں کیا بلکہ جس دینی کام کے لئے جو جو قابل اسلامی بھائی ملتا گیا اسے ذمہ داری دیتے چلے گئے اور وہ وقت آیا کہ ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی کا پورا سَرکل بن گیا، مختلف ڈیپارٹمنٹ بنے یہاں تک کہ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ (Central Executive Body) بنی۔ یوں آپ نے دعوتِ اسلامی کا پورا نظام مرکزی مجلسِ شوریٰ کے حوالے کردیا جو کم وبیش 22 سال سے بانیِ دعوتِ اسلامی کے زیرِ سایہ دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کو لیڈ کررہی ہے ۔ اتنا کثیر دینی کام کرنے کے بعد بھی آپ کی عاجزی کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ’’میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ اس سسٹم کو بنانے اور فعّال کرنے کے بعد بانیِ دعوتِ اسلامی خود آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہوں بلکہ آپ کی ڈیلی ، ویکلی ، منتھلی اور سالانہ مصروفیات ایسی ہیں جن کی تفصیل جان کر عقل حیران رہ جاتی ہے، آپ حافظِ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز مبارکپوری رحمۃُ اللہِ علیہ کے اس قول کا مصداق لگتے ہیں: زمین کے اوپر کام، زمین کے اندر (یعنی قبر میں) آرام ۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ آج بھی دعوتِ اسلامی کے دینی کام انفرادی اعتبار سے کسی بھی دوسرے مبلغ سے زیادہ کررہے ہیں۔ یہاں میں صرف ان کاموں کا ذکر کروں گا جن میں آپ ذاتی طور پر شامل ہوتے ہیں۔
مدنی مذاکرہ:مدنی مذاکرہ دعوتِ اسلامی کا بہت دلچسپ اور مقبولِ عام ہفتہ وار دینی کام ہے اور مدنی چینل پر لائیو نشر ہوتا ہے، اس کے روحِ رواں امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق امیرِاہلِ سنّت 31جولائی 2022ء تک تقریباً 2068 مدنی مذاکروں میں ہزاروں سوالات کے جوابات دے چکے ہیں، کسی مدنی مذاکرے میں 2 گھنٹے شرکت کی تو کسی میں 4 اور کسی میں 8 گھنٹے بھی شامل رہے، ایوریج نکالی جائے تو 5000 سے زائد گھنٹے بنتے ہیں۔ پہلے پہل کئی سال تک مدنی مذاکرے ’’ملفوظاتِ عطّار‘‘ کے نام سے بھی ہوتے رہے ان میں دیا گیا وقت اس کے علاوہ ہے۔ ویسے تو ہرہفتے کی رات مدنی مذاکرے کا شیڈول ہے لیکن خاص مواقع پر روزانہ بھی مدنی مذاکرے ہوتے ہیں جیسے:1 تا 11محرم الحرام، 1 تا13ربیعُ الاول، 1تا 12 ربیعُ الآخر، 1تا 6رجبُ المرجب، 1تا 30رمضانُ المبارک روزانہ دو مدنی مذاکرے، 1 تا 10ذوالحجۃِ الحرام، 14اگست، ان کے علاوہ بزرگانِ دین کے عُرس یا یومِ ولادت کے مواقع پر بھی مدنی مذاکرے کا سلسلہ ہوتا ہے۔ قارئین کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بھی مدنی مذاکروں میں شرکت کریں اور علمِ دین کے موتیوں اور حکمت کے پھولوں کو جمع کرکے اپنی زندگی کو مہکائیں۔
بیانات: اللہ کریم نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس عاشقِ صادق کی زبان میں وہ تاثیر عطا فرمائی ہے کہ ان کی گفتگو اور بیانات کو سن کر لاکھوں لاکھ نوجوان اور بوڑھے توبہ کرکے نیکیاں کمانا شروع ہوگئے اور ایسے ایسے لوگوں نے توبہ کی جنہیں باپ کی لاتیں اور جیل کی سلاخیں نہ سُدھار سکیں۔ آپ نے زندگی کا پہلا بیان چند افراد کے سامنے کیا ، پھر بڑھتے بڑھتے وہ وقت بھی آیا کہ آپ نے لاکھوں کے مجمع میں بھی بیانات کئے، جب آپ کا بیان ہوتا تو سکوت ساچھا جاتا اور سعادت مند توجہ کے ساتھ آپ کا بیان سنتے ۔ آپ کے بیانات کے فیوضات کو عام کرنے کے لئے پہلے پہل آڈیو کیسٹ کا ذریعہ اپنایا گیا ، جب لوگوں کے کانوں تک اس کیسٹ کی آواز پہنچی تو وہ آپ کے اندازِ بیان کے خلوص کے سحر میں ایسے گرفتار ہوئے کہ پھر رہائی پانے کےلئے تیار نہ ہوئے، آپ کو اسلامی بھائیوں بشمول ذمہ داران کی ایک بڑی تعدادملے گی جو یہ کیسٹ بیانات سن کر دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوئی ہوگی ۔یہ مضمون لکھنے والا خود بھی ”قبر کی پہلی رات“ کا کیسٹ بیان سن کر دعوتِ اسلامی سے باقاعدہ وابستہ ہوا تھا۔ ان کیسٹ بیانات کو اسلامی بھائیوں نے انفرادی طور پر بھی سُنا اور کیسٹ اجتماع میں اکھٹے بیٹھ کر بھی سنا ۔امیرِاہلِ سنّت کے مختلف موضوعات پر بیانات کے911 سے زائد کیسٹ جاری ہوئے۔ اس کے بعد ویڈیو بیانات کا سلسلہ شروع ہوا، پھر مدنی چینل کا آغاز ہوا ، اب بھی آپ وقتاً فوقتاً دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع وغیرہ میں خصوصی بیان فرماتے ہیں جسے مدنی چینل کے ذریعے دنیا میں نشر کیا جاتا ہے۔
کتب ورسائل: امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے 25 صفر المظفر 1393ھ /مطابق31 مارچ 1973ءکو اپنے آئیڈیل سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت پر پہلا رسالہ ”تذکرہ امام احمد رضا“ لکھا، پھر تحریر کا سفر ایسا شروع ہوا کہ آج تک جاری ہے، اَلحمدُ لِلّٰہ! اس دوران ”فیضانِ سنّت“ جیسی عظیمُ الشّان کتاب بھی لکھی جو عوام وخواص میں بہت مقبول ہوئی ،پھر اس میں ترمیم و اضافہ ہونا شروع ہوا تو فیضانِ بسم اللہ،آدابِ طعام، پیٹ کا قفلِ مدینہ، فیضانِ رمضان، غیبت کی تباہ کاریاں، نیکی کی دعوت، فیضانِ نماز جیسی ضخیم اور مستقل کتابیں وجود میں آگئیں،آپ نے گناہوں سے دُور اور نیکیوں کے قریب ہونے کی ترغیب پر مشتمل رسائل لکھے، بزرگانِ دین کی سیرت پر مشتمل مختصر رسائل بھی آپ کی تحریری خدمت کا حصہ ہیں، دینی شاعری کا ایک مجموعہ وسائلِ بخشش اور دوسرا وسائلِ فردوس کے نام سے منظرِ عام پر آیا، اب تک شائع ہونے والی کم و بیش 142 کتابوں اور رسالوں کے صفحات تقریباً 13371بنتے ہیں۔ تحریری میدان سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ تحریری کام کتنا وقت لیتا ہے،کتنی توانائی نچوڑتا ہے اور کیسی توجہ چاہتا ہے! آپ کی تحریروں کے نکھار اور معیار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مؤلف سوائے تحریر کے کوئی دوسرا کام نہیں کرتا ہوگا، لیکن اللہ پاک امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کو نظرِ بد سے بچائے، تحریری کام کے علاوہ بھی آپ دینی خدمات میں وقت دیتے ہیں۔
پیغاماتِ عطّار: بیماروں کی عیادت،دُکھیاروں سے تعزیت اور خوشیوں کے مواقع پر مبارکباد اور دعائیں دینا، طویل عرصے سے آپ کا معمول ہے۔کثیر مصروفیات کے باوجود آج بھی آپ کا یہ معمول بالمشافہ اور آڈیو، وڈیو پیغامات کی صورت میں جاری ہے، جس کے لئے تقریباً روزانہ ہی ریکارڈنگ کا سلسلہ ہوتا ہے، یہ پیغامات کتنی کثرت سے جاری ہوتے ہیں صرف 6 مہینے کی رپورٹ دیکھئے چنانچہ شعبہ ”پیغاماتِ عطّاؔر“ کے ذریعے شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے 6 ماہ (جنوری 2022ء تا جون 2022ء) میں تقریباً12 ہزار 295 پیغامات جاری فرمائے۔
مدنی چینل کے پروگرام: امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ مدنی چینل کے مختلف پروگرامز کے لئے بھی وقت عطا فرماتے ہیں، مثلاً کوویڈ 19کے ایام میں ہونے والے سلسلے”دِلوں کی راحت“ کے کم و بیش 54 سلسلوں میں شرکت فرمائی ہے۔ جبکہ سلسلہ ”ماضی کی یادیں“ میں 7سلسلوں میں شریک ہوئے، عید الفطر، عید الاضحیٰ کے موقع پر عید ٹرانسمیشن کے ساتھ ساتھ ٹیلی تھون کے سلسلوں میں بھی جلوہ گر ہوتے ہیں۔
فیس بک پیج: امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے فیس بک پیج پر فالوورز کی تعداد تقریباً 45لاکھ ہے۔
آپ اس کے لئے وی لاگ بھی دیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے فیس بک پیج (www.facebook.com/IlyasQadriZiaee) پر لائیو بھی ہوتے ہیں۔
فلاحی کاموں میں حصہ: بانیِ دعوتِ اسلامی FRGFکے تحت ہونے والے فلاحی کاموں میں براہِ راست(Directly) اور بالواسطہ (Indirectly) بھی شامل ہوتے ہیں، آپ نے جن فلاحی کاموں کی ترغیب دلائی ان میں سے چند یہ ہیں: تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے خون کا عطیہ، کرونا وبا میں ملک و بیرون ملک امداد، انتقال کرنے والوں کی تجہیز و تکفین، شجرکاری، بارش، سیلاب، زلزلہ وغیرہ میں مالی اور میڈیکل امداد، کھانا تقسیم اور دسترخوان FGRF، ری ہیبلیٹیشن سینٹر(Rehabilitation Center)، مدنی کلینک وغیرہ۔
اہم بات: آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا: مَاحَرَّرْتُ فِی شَانِہٖ قَلِیْلٌ عَمَّا ھُوَ فِی ذَاتِہٖ یعنی جو کچھ میں نے بانیِ دعوتِ اسلامی کے بارے میں لکھا اس سے کم ہے جو ان کی ذات میں ہے۔اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ (یعنی اللہ پاک مزیدبرکتیں عطا فرمائے)آمین۔
۔۔۔
مولاناعدنان چشتی عطاری مدنی
درخت کو پانی دینے سے اس میں پھل اور پھول اسی وقت آتے ہیں جب اس کا تعلق جڑ سےقائم ہو،ورنہ ظاہری طور پر سرسبزو شاداب نظر آنے والا جڑ کٹا درخت بھی ایک دن دھڑام سے آ گرتا ہے ایسے ہی اچھے کام اور ظاہر میں نظر آنے والی نیکیاں اسی وقت بارآور ہوتی ہیں جب ان کا تعلق ایمان کی اصل اور جڑ سے قائم ہو۔ یاد رہے! کھوکھلی بنیادوں پر کھڑی فلک بوس عمارت کو زمین بوس ہوتے دیر نہیں لگتی ایسے ہی ایمان کے بغیر اعمال کی عمارت تباہ و برباد ہوتے پل دو پل ہی لگتے ہیں۔ اس بات کو حدیثِ پاک سے یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ
حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہُ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ! زمانَۂ جاہلیت میں(بنوتیم کا مشہورسخی) ابنِ جَدعان رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا، مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا، کیا یہ اعمال اُسے (آخرت میں) فائدہ دیں گے؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:یہ اعمال اُس کے کام نہیں آئیں گے اس لئے کہ اُس نے (اللہ پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے) ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! آخرت میں میری خطاؤں کو بخش دینا۔(مسلم، ص111، حدیث:518)
ایمان عمل سے پہلے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیک اعمال پر اجر و ثواب کا ملنا ایمان و عقیدے کے درست ہونے پر موقوف ہے اگر کسی کا عقیدہ خراب ہے تو اس کے بڑے بڑے نیک اعمال بھی ریت کے ذَرّات کی طرح تِتّر بِتّر ہو کر آخرت میں کسی کام نہ آئیں گے۔
مسلمان کا سب سے قیمتی اور انمول اَثاثہ اس کا ”ایمان“ ہے۔ دنیا جہان کی دولت اور سِیم و زَر اس کا بَدل نہیں بن سکتے۔ چونکہ شیطان انسان کا دشمن ہے، اس کا مشن ہی لوگوں کو ہمیشہ کا دوزخی بنانا ہے۔ چونکہ اس کے پلّے ایمان نام کی کوئی چیز نہیں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو ایمان لانے سے روکے جو ایمان لاچکے اُن کے ایمان کی تاک میں رہتا، حیلے بہانے کرتا، وسوسے دلاتا، ضروریاتِ دین کا انکار کروانے کے لئے کبھی گانے سُجھاتا تو کبھی اول فول بکواتا ہے۔ ایمان لوٹنے کے لئے بھیس بدل بدل کرگلی محلوں کے چکر لگاتا ہے۔ کبھی دینی وضع قطع میں آ کر مسلمانوں کا ایمان چھین کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔ کبھی قلم و کتاب تو کبھی آڈیو، ویڈیو اور سوشل میڈیا کے کفریہ و فسقیہ جال بچھا کر ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے منصوبے بناتا ہے۔
ایمان پر شب خون مارے جانے والے ایسے فتنوں اور فسادات کے دور میں اس بات کی ضرورت بےحد بڑھ جاتی ہے کہ کوئی دردِ اُمّت رکھنے والا ایسا حکیم و نبّاض اور مغز بیدار بندۂ خدا اُٹھے جو شیطان کے ان حیلے بہانوں، اس بہروپئے کے بدلتے لباس اور بھیس سے واقف ہو،جس کے پاس ایمان کی حفاظت کے لئے مضبوط تدبیر ہو،نیز شیطان اور اس کے چیلوں سے بچنے کا عملی طریقہ بھی ہو۔ اس سارے تناظر میں ہم جوں ہی امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی عظیم شخصیت اور دعوتِ اسلامی کی صورت میں اللہ پاک کا عطا کردہ مضبوط قلعہ دیکھتے ہیں تو دل شکر گزاری کیلئے مائل ہو جاتے اور جبیں سجدے کے لیے جھک جاتی ہے۔ آنکھیں اس بے مثال نعمت کے شکرانے میں ڈبڈبانے لگتی ہیں۔
ہم دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں مسلمانوں کے ایمان بچانے کا”سامان “ان کے عقیدے کی اصلاح و پختگی کی ”کان“ دیکھتے ہیں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ آڈیو ویڈیو بیانات پر نظر دوڑائی تو ان کی ابتدا میں پڑھایا جانے والا صلوٰۃ و سلام نہ صرف عقیدہ کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ دل میں عشقِ رسول کی شمع کو روشن کر دیتا ہے۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے بیانات میں ایمان و عقیدے کی حفاظت کا ملنے والا درد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آپ کبھی ”مددگار آقا“ کبھی ”کمالاتِ مصطفےٰ“ تو کبھی ”ذکرِ میلاد“ اور”شفاعتِ مصطفےٰ “ جیسے عنوانات کے ذریعے ایمان و عقیدے کا تحفظ کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی مدنی مذاکروں میں حکمت و دانش مندی سے بھرپور انداز پر بدعقیدگی اور بدمذہبوں کی بیخ کنی فرما تے ہیں تو کبھی مدنی چینل اور سوشل میڈیا پر وقت عطا فرما کر ایمان و عقیدے کا تحفظ فرماتے ہیں۔
اگر دعوتِ اسلامی کے تحریرو تصنیف کے میدان پر نظر دوڑائیں تو ہمیں امیرِ اہلِ سنّت کی” کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“ نامی ضخیم کتاب ایمان و عقیدے کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ کفر و شرک سے بیزاری کادرس دیتی نظر آتی ہے۔ بے ادب و گستاخ لوگوں سے کوسوں دور رکھنے کیلئے مکتبۃُ المدینہ پر حسام الحرمین، کتاب العقائد، الحق المبین، الدعوۃ الیٰ الفکر، بنیادی عقائد و معمولاتِ اہلِ سنّت، حق و باطل کا فرق کے ساتھ ساتھ دس اسلامی عقیدے جیسے ناموں سے شائع کردہ درجن سے زائد کتب ایمان و عقیدے کی پہرہ داری میں دعوتِ اسلامی کے سنجیدہ کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔
مدنی چینل کے پروگرامز پر سرسری نظر ہی ڈال لی جائے تو درسِ قرآن،درسِ بخاری، کے ضمن میں ایمان و عقائد کی حفاظت کے بندو بست کے ساتھ ساتھ ”اندھیرے سے اُجالے تک“جیسا اسلام کی حقانیت اور ایمان کو جِلا دینے والا پروگرام برکتیں لٹا رہا ہوتا ہے۔ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں شائع ہونے والا ”اسلامی عقائد و معلومات “کا سلسلہ بھی عقائد و ایمان کے تحفظ کی ایک کڑی ہے۔
صحابہ ٔ کرام اور اہلِ بیتِ اطہار کے بارے میں عقائد کی درستی کا معاملہ ہو یا بدعقیدہ لوگوں کی پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالے کی بات ہو دعوتِ اسلامی تحریر ،تصنیف ،تالیف و تقریر کے میدان میں صفِ اوّل میں نظر آتی ہے ان سب کے ساتھ ساتھ بدمذہبی اور بدعقیدگی کے خلاف دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں لگائے جانے والے نعرے بھی ”بیمار دلوں“ کے لئے نشتر کا کام دیتے جبکہ اہلِ ایمان کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔ اپنے ایمان کی حفاظت اور عمل کا جذبہ پانے نیز بدعقیدگی کے طوفان سے بچنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول کو اپنا لیجئے اِن شآءَ اللہ ایمان کی حفاظت نصیب ہو گی۔