30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ؕ ’’ہر صحابی جنّتی ہے‘‘کے ۱۳ حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی۱۳’’نیتیں‘‘
فرمانِ مصطفےٰ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم : نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌمِّنْ عَمَلِہ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔( المعجم الکبیر للطَبَراني ، ۶ /۱۸۵، حدیث: ۵۹۴۲) دو مَدَنی پھول : {۱}بغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ {۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ {۱}ہر بارحمد و{۲}صلوٰۃ اور{۳}تعوُّذو{۴}تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔ (اسی صفحہ کے اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)۔{۵}رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کے لیے اس كتاب كااوّل تا آخِر{۶}حتی الوسع باوُضُو اور {۷}قِبلہ رُو مطالَعہ کروں گا۔{۸}قرآنی آیات اور {۹}احادیث ِ مبارکہ کی زیارت کروں گا۔ {۱۰}جہاں جہاں’’ اللہ ‘‘ کا نام پاک آئے گا وہاں عَزَّ وَجَلَّ اور {۱۱}جہاں جہاں ’’سرکار‘‘ کا اسمِ مبارک آئے گا وہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم {۱۲}نیز صحابۂ کرام اور بزرگانِ دین کے نام کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اور رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پڑھوں گا ۔{۱۳} کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو نا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا(مصنّف یاناشرین وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ؕالمدینۃ العلمیۃ
از:بانیٔ دعوتِ اسلامی ،عاشق اعلیٰ حضرت، شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم !تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسن وخوبی سر انجام دینے کے لیے متعدِّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’ المد ینۃ العلمیة ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالٰی پر مشتمل ہے ،جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں: (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳)شعبۂ اِصلاحی کُتُب (٤)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۵)شعبۂ تراجِم کُتُب (۶)شعبۂ تخریج(1) ’’ ا لمد ینۃ العلميه ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ ا علیٰحضرت ،اِمامِ اَہلسنّت ،عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی ٔ سنّت، ماحی ٔبِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسع سَہْل اُسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عزوجل ’’دعوتِ اسلامی‘‘کی تمام مجالس بَشُمُول’’ المد ینۃ العلمیة ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھاِس امت کے بہترین لوگ
صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے نبیٔ رحمت، شفیعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حسن و جمال کو ایمانی نظروں سے دیکھا ،صحبتِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے فیضیاب ہوئے ،آفتابِ رسالت سے نورِ معرفت حاصل کر کے آسمانِ ولایت پر چمکےاورگلستانِ کرامت میں گلاب کے پھولوں کی طرح مہکےاور ”صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان “کے معزز لقب سےسرفراز ہوکر اس امت کے لئے نجومِ ہدایت قرار پائے ۔ سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تمام صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اس امت میں افضل ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےقرآن ِکریم میں صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی فضیلت ومدح بیان فرمائی،ان کےبہترین عمل، عمدہ اخلاق اور حسن ِایمان کا تذکرہ فرمایا اور ان نُفُوس ِ قُدْسِیّہ کو دنیا ہی میں اپنی رضا کا مثردہ سنا یا چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ارشا د ہے : رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ۱۱، التوبۃ : ۱۰۰) ترجمۂ کنزالایمان : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی عزت و توقیر کاحکم ارشاد فرمایا چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔(2) یقیناً صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے ،ان مقدس ہستیوں پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بے حد فضل وکرم ہے ۔ ہمیں چاہيے کہ ان پاکیزہ نفوس کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کی پاکیزہ حیات کا مطالعہ کریں اور دونوں جہاں میں کامیابی کے ليے ان کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔اسی اہمیت کے پیش ِ نظرشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادِری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مجلس المدینۃالعلمیۃ سےاس خواہش کا اظہار فرمایا کہ صحابیٔ رسول، کاتبِ وحی حضرت سیّدنا امیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مبارک سیرت کو کتابی صورت میں ”فیضانِ امیر معاویہ ( رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ )“کے نام سے مرتب کیا جائے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اس کتاب پر شعبہ فیضانِ صحابہ واہلِ بیت ( المدینۃ العلمیۃ ) کے 5 اسلامی بھائیوں نے کام کرنے کی سعادت حاصل کی بالخصوص ابوسلمان محمد عدنان چشتی مدنی، ابوعاطرمحمدناصر جمال عطاری اورآصف جہانزیب عطاری سَلَّمَھُمُ اللہُ الْبَارِی نے خوب کوشش کی۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیۃ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور دعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس المدینۃ العلمیۃ کو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے۔ مجلسِ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیّہ (دعوتِ اسلامی) شعبہ فیضانِ صحابہ و اہلِ بیت ۰۱جُمادی الآخرۃ ۱۴۳۷ھ مطابق11مارچ 2016ء اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم طفیضانِ سیّدناامیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
دُرُود شریف کی فضیلت
حضرتسیّدنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہےنبیٔ پاک،صاحبِ لَولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خاطر آپس میں مَحبت رکھنے والے جب باہم ملیں اورمُصَافَحَہ کریں اورنبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِ پاک بھیجیں تو ان کے جُدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بَخْش دئیے جاتے ہیں۔(3) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحِلْم ہو تو ایسا!
نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگا ہ میں قبولِ اسلا م کےلیے لوگ جوق در جوق حاضر ہوا کرتے ۔ایک دن یمنی بادشاہوں کی اولاد سے حضرت سیّدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ وفد کی صورت میں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں قبولِ اسلام کے لیے حاضر ہوئے تو انہیں صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے بتایاکہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے تین دن پہلے ہی تمہارے آنے کی بشارت ارشاد فرما دی تھی۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ان پر بے حد شفقت فرمائی ان کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی ،اپنے قریب بٹھایا ،منبرِ اقدس پر ان کے لیے تعریفی کلمات ارشاد فرمائے ،برکت کی دُعا فرمائی اور ان کے قیام کے لیے مکان کی نشاندہی کا کام ایک قریشی نوجوان کے سپرد فرمایا۔(اتفاق سے یہ قریشی نوجوا ن بھی ایک سردار ِمکہ کا فرزندتھا لیکن درسگاہِ نبوت سے فیض یاب ہونے اور صحبتِ مصطفےٰ سے اخلاق و آداب سیکھنے کی برکت سے اس کے مزاج میں ذرہ برابربھی سرداروں والی بات نہ تھی) نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم پاتے ہی وہ نوجوان فوراً حضرت سیدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ہمرا ہ چل دیا۔ حضرت سیدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اونٹنی پر سوار تھے جبکہ وہ قریشی نوجوان ساتھ ساتھ پیدل چل رہا تھا۔ چونکہ گرمی شدید تھی اس لیے کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد اس قریشی نوجوان نے حضرت سیدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا:” گرمی بہت شدید ہے،اب تو میرے پاؤں اندر سے بھی جلنے لگے ہیں۔آپ مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیجیے ۔“حضرت سیّدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے صاف انکار کردیا۔اس قریشی نوجوان نے کہا :کم از کم اپنے جوتے ہی پہننے کے لیےدے دیجیےتاکہ میں گرمی سے بچ سکوں ۔“ حضرت سیّدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا:تم ان لوگوں میں سے نہیں ہوجو بادشاہوں کا لباس پہن سکیں۔تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میری اونٹنی کے سائے میں چلتے رہو۔“یہ سن کر اس قریشی نوجوان نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا اورزبان سے بھی جوابی کاروائی نہ کی۔وقت گزرتا گیا اور وہ قریشی نوجوان پورے ملک ِشام کا گورنر بن گیا۔ایک بار حضرت سیدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اسی قریشی نوجوان کے پاس آئے جو کہ اب گورنر بن چکا تھا۔ تو وہ قریشی نوجوان آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ نہایت احترام سے پیش آیا اور ماضی کے اس واقعے کا بدلہ لینے کی بجائے حضرت سیدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کواپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور فرمایا:میرا تخت بہتر ہے یا آپ کی اونٹنی کی کوہان؟ حضرت سیدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا:اے امیرالمؤمنین!میں اس وقت نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور جاہلیت کا رواج وہی تھا جو میں نے کیا۔اب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں اسلام سے سرفراز فرمایا ہے اور آپ نے جو کچھ کیا وہی اسلام کا طریقہ ہے۔حضرت سیّدنا وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس قریشی نوجوان کے رَوَیّے سے اس قدر متأثر ہوئے کہ آپ نے فرمایا:” کاش میں نے انہیں اپنے آگے سوار کیا ہوتا۔“(4) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ جانتے ہیں کہ تکلیف برداشت کرنے کے باوجود حسنِ سلو ک سے پیش آنے والے یہ بُردْبارقریشی نوجوان کون تھے؟یہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جلیل القدر صحابی اور کاتبِ وحی حضرت سیّدنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تھے ۔اس واقعے میں ہمارے لیے درس ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کے لیےعَفو و درگزر سے کام لیں اورہر ایک کے ساتھ مَحبَّت بھر اسُلوک کرنے کی کوشش کریں ۔حساب میں آسانی کے تین اسباب
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہعَزَّ وَجَلَّ (قیامت کے دن)اُس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اُس کو اپنی رَحمت سے جنّت میں داخِل فرمائے گا۔ صحابۂ کرام عَلَیہِمُ الرِّضْوان نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم !وہ کون سی باتیں ہیں ؟فرمایا:(1)جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کر واور(2)جو تم سےتعلُّق توڑےتم اُس سے تعلُّق جوڑو اور (3)جو تم پر ظُلْم کرے تم اُسےمُعاف کردو۔(5) آپ بھی نیت فرمالیجیے کہ کسی کی جانب سے ملنے والی تکلیف پر صبر کر کے نہ صرف اُسے مُعاف کر دوں گابلکہ جہاں تک ہوسکا اُسے راحت پہنچاکر دلجوئی بھی کروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدپہلا باب :
حضرت سیدنا امیر معاویہ کا تعارف
اسمِ گرامی اور لقب و کنیت
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا نامِ نامی اسمِ گرامی ’’معاویہ‘‘ہے۔(6) کئی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا نام ”معاویہ “تھا(7) جیسا کہ شارحِ بخاری حضرت علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:’’معاویہ‘‘نام کے۲۰ سے زائد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہیں۔(8) جب مطلقًا معاویہ بولا جائے تو اس سے مراد حضرت امیر ِمعاویہ ابن ابوسفیان ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ) ہوتے ہیں۔(9)آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کنیت ’’ابوعبدالرحمٰن‘‘ ہے، لقب’’ نَاصِرٌ لِدینِ اللہ ‘‘(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دین کے مددگار) ہے اور’’ نَاصِرٌ لِحَقِّ اللہ ‘‘ (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حق کے مدد گار)بھی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا لقب ہے اور یہی زیادہ مشہور ہے۔(10)ولادت
شارحِ بخاری حضرت علامہ ابو الفضل احمد بن علی ابنِ حجر عَسْقَلانی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ولادت بعثتِ مبارکہ سے پانچ سال قبل(تقریباً۶۰۴عیسوی)میں ہوئی اور یہی قول زیادہ مشہور ہے۔(11)سلسلۂ نسب
حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا سلسلہ ٔ نسب ’’عبدِمَناف‘‘پر نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سلسلۂ نسب سے جا ملتا ہے ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،کا نسب مبارک ملاحظہ فرمائیں:’’محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مَناف۔‘‘(12) حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: ’’معاویہ بن ابوسفیان صخربن حرب بن اُمَیّہ بن عبدِ شَمْس بن عبدِ مَناف۔‘‘(13) اسی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدۂ محترمہ کا نسب بھی ’’عَبدِ مَناف‘‘ پر نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے مل جاتا ہے ،’’معاویہ بن ہِنْد بنتِ عُتْبہ بن ربیعہ بن عبدِ شَمس بن عبدِمَناف۔‘‘(14) اسی لیے حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ نسبی اعتبار سے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رشتہ داروں میں سے ہیں۔
[1 تادمِ تحریر(ربیع الاٰخر۱۴۳۷ھ)10شعبے مزید قائم ہوچکے ہیں:(۷)فیضانِ قراٰن (۸) فیضانِ حدیث (۹)فیضانِ صحابہ واہل بیت (۱۰) فیضانِ صحابیات وصالحات (۱۱)شعبہ امیراہلسنّت (۱۲)فیضانِ مدنی مذاکرہ (۱۳)فیضانِ اولیاوعلما (۱۴) بیاناتِ دعوتِ اسلامی(۱۵)رسائلِ دعوت اسلامی(۱۶) عربی تراجم۔ ( مجلس المدینۃ العلمیۃ ) 2 مشکاۃ المصابیح ، کتاب المناقب ، باب مناقب الصحابۃ ، ۲ / ۴۱۳،حدیث: ۶۰۱۲مختصرا 3 مسند ابی یعلی ، مسند انس بن مالک ،۳ / ۹۵،حدیث:۲۹۵۱۔ 4 معجم صغیر ، من اسمہ یحیی ،۲ / ۱۴۳، مسندبزار ، مسند وائل بن حجر ،۱۰ / ۳۴۵، حدیث:۴۴۷۵، تاریخ المدینۃ المنورۃ ، وفاۃ وائل بن حجر الحضرمی ،۲ / ۵۷۹، الاصابۃ ، وائل بن حجر ، ۶ / ۴۶۶،رقم:۹۱۲۰ملخصاً 5 معجم اوسط ، من اسمہ محمد ،۴ / ۱۸،حدیث:۵۰۶۴ 6 سیر اعلام النبلاء ، معاویۃ بن ابی سفیان ، ۴ / ۲۸۵ 7 خبردار! شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ لغت (Dictionory) میں تو لفظ ِمعاویہ کا معنی درست نہیں لہٰذا یہ نام نہیں رکھنا چاہئے ؟یاد رہے !لغت میں معاویہ کے اچھے معنی بھی ہیں جیسےبہادراوربلندآواز نیزشیطان کے اس وار کو ناکام بنانے کے لیے یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیجئےکہ نبیٔ رحمت شفیعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَا ٰ لِہ ٖ وَسَلَّم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اگر کسی نام کا معنی درست نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَا ٰ لِہ ٖ وَسَلَّم وہ نام ہی تبدیل فرمادیتے لیکن”معاویہ“ وہ خوبصورت نام ہے جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَا ٰ لِہ ٖ وَسَلَّم کی زبانِ مبارک سےکئی مرتبہ اد ا ہوا،اسی نام سے پکار کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَا ٰ لِہ ٖ وَسَلَّم نے حضرت سیّدنا امیر معاویہ رَضِیَ اللّہُ تَعَالی عَنْہ کو دعا سے نوازااوراسے تبدیل نہ فرمایا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ کسی نام کو صحابیٔ رسول سے نسبت حاصل ہوجائے تو اس میں لغت نہیں دیکھی جاتی بلکہ نسبت کی برکتیں پانے کےلیے وہ نام رکھا جاتا ہے۔ 8 عمدۃ القاری ، کتاب العلم ، باب من یرداللہ بہ ۔۔۔الخ،۲ / ۶۹، تحت الحدیث :۷۱ 9 مرا ٰ ۃ المناجیح ، ۶ / ۱۱۴ 10 تاريخ الخمیس ، ذكر خلافة معاوية ...الخ،۲ / ۲۹۱، سیر اعلام النبلاء ، معاویۃ بن ابي سفیان ،۴ / ۲۸۵، مورد اللطافۃ فی من ولی السلطنۃ والخلافۃ ، معاویۃبن ابی سفیان ،۱ / ۶۴ 11 الاصابة ، ذكرمن اسمه معاوية ، ۶ / ۱۲۰ 12 السیرة النبوية لابن هشام ، ذکر سرد النسب الزکی من محمد الی آدم ، ص۵ 13 الاصابة ، معاوية بن ابی سفيان ، ۶ / ۱۲۰ 14 اسد الغابۃ ، ھند بنت عتبة ، ۷ / ۳۱۶
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع