30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پہلے اسے پڑھ لیجئے یقیناً ہر صاحبِ ایمان شخص اللہ پاک سے محبت کا دم بھرتا اور اس کی دوستی و کرم نوازی کا خواہاں رہتا ہے ، مگر یہ دوستی اُسی خوش قسمت مسلمان کے حصے میں آتی ہے جس کو وہ اپنا دوست بنانا چاہتا ہے اور ربِّ کریم جسے اپنا دوست بنالے تو پھر وہ خودبھی اپنے اس بندے کا دوست ہوجاتا ہے۔زیرِ نظر کتاب بھی اللہ کریم کے ایسے ہی دوستوں یعنی اولیائے کرام کی کرامات کے بارے میں ہے جو حقیقی معنیٰ میں اللہ پاک کی دوستی کا دم بھرتے ہیں،ان کے شب و روز اللہ پاک کی اطاعت و فرماں برداری والے کاموں میں بسر ہوتے ہیں اور ان نفوسِ قدسیہ کا دامن گناہوں کی آلودگیوں سے صاف و شفاف رہتا ہے،اسی لئے اللہ پاک انہیں دیگر فضائل و کمالات و اختیارات عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنا قربِ خاص عطا فرماتا ہے بلکہ ان کے سروں پر اپنی ولایت کا روشن تاج سجا کر” کرامات“ کی صورت میں تمغۂ امتیاز سے نوازتا ہے۔دعوتِ اسلامی کا ادارہ شعبۂ تصنیف وتالیف” المدینۃ العلمیہ (Islamic Research Center)“ان اللہ والوں کی کرامات کے واقعات کو”فیضانِ اولیا“کے نام سے کتابی صورت میں پیش کررہا ہے تاکہ عاشقانِ رسول خصوصاً مبلغین و مبلغات ان سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ اللہ کریم دعوتِ اسلامی کے شعبہ” المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)“ کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) عالمی مَدَنی مرکزفیضانِ مدینہ پُرانی سبزی منڈی کراچی 14.1.2021 نوٹ:یہ بیانات کافی عرصے پہلے تیار ہوئے تھے،لہٰذا ن میں دعوتِ اسلامی کا پُرانا انداز برقرار ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نَبِیَّ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا نُوْرَ اللہشانِ اولیا
دُرُود شریف کی فضیلت
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ شریف جلد23 صَفْحَہ 122 پر نقل فرماتے ہیں:حضرت اَبُو المواہِب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے خواب میں رسولُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا،حُضُورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ''قیامت کے دن تم ایک لاکھ بندوں کی شَفاعت کرو گے۔'' میں نے عرض کی: یا رسول ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں کیسے اس قابل ہوا؟ ارشادفرمایا: '' اس لیے کہ تم مجھ پرجو درودپاک پڑھتے ہو اس کا ثواب مجھے نذرکردیتے ہو۔( سعادۃ الدارین , الباب الرابع فیما ورد من لطائف المراء۔۔۔الخ،اللطیفۃ الثامنۃ والسبعون ،۱/۱۴۷، دار الکتب العلمیۃ ) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابو المواہب کو درود پاک پڑھنے کا کس قدر عظیم تحفہ ملا کہ یہ قیامت کے دن ایک لاکھ بندوں کی شفاعت کریں گے۔بے درود پاک پڑھنے کے فضائل و برکات بہت زیادہ کہ جن کو ضبط تحریر لانا ممکن نہیں ہے لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی سرکار والا تبار ہم بے کسوں کے مالک مختار صَلَّی اللّٰہ علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات با برکات پر درود پاک پڑھ کر اس کا نذرانہ پیش کیا کریں تاکہ ہمیں بھی ان فضائل و برکات سے حصہ ہو سکے۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک بندے اولیاء کرام علیہم السلام کی شان بہت ارفع و اعلیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شان اپنے کلام قرآن پاک میں بھی جگہ جگہ ارشاد فرمائی ہے اور اولیاء کی شان میں سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بھی کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں حضرتِ سیِّدُناامام اسماعیل حقی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی (متوفی ۱۱۳۷ھ)’’ رُوْحُ الْبَیَان ‘‘میں سورۃ الحج کی آیت نمبر۱۸کی تفسیرکرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں: ’’ولی ایسامحبوب انسان ہوتاہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی عزت وکرامت سے بزرگی عطا فرماتاہے کہ ایسی بزرگی اورکسی کوعطانہیں فرماتا۔پس اگرزمانے کے سارے لوگ مل کربھی اس کی توہین واہانت کرناچاہیں تونہیں کرسکتے کیونکہ اسے عزت حقیقی مل چکی ہے اوروہ اس طرح کہ اس نے اپنے نفس کوفنافی اللہ کے مقام میں گرا دیااوریہی حقیقی سجدہ ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے اسے عزت وبلندی کاتاج پہنادیا۔کیا تم اس حدیث قدسی میں غورنہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے جنگ کااعلان کیا ۔ ‘‘مطلب یہ ہے کہ جومیرے اولیاء میں سے کسی ولی پرناراض ہوا،اسے اذیت دی یااس کی توہین کی توگویاوہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے نکلاہے ۔اور اللہ تعالیٰ صرف اپنے پیاروں(یعنی اولیاء کرام)ہی کی مددفرماتاہے لہٰذا اللہ تعالیٰ سےجنگ کے لئے نکلنے والاذلیل وخوارہوتاہے ۔نہ اس کاکوئی مددگارہوتاہے اورنہ ہی کوئی ذلت سے بچانے والاہوتاہے۔( تفسیر روح البیان،الحج،تحت الآیۃ :۱۸، ۷/۱۹، دار الکتب العلمیۃ ) آئیے اب اللہ کے کلام میں موجود شان اولیاء کو ملاحظہ کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)( پ ۱۱ ،یونس: ۶۲ ۔ ۶۳) ترجمۂ کنز الایمان : سن لو بیشک اللّٰہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔ ان آیات مبارکہ کے تحت مفتی نعیم الدین مرادآبادی اپنی تفسیر خزا ئن العرفان میں فرماتے ہیں :ولی کی اصل ولاء سے ہے جو قرب و نصرت کے معنی میں ہے ۔ ولی اللہ وہ ہے جو فرائض سے قُرب الٰہی حاصل کرے او راطاعتِ الٰہی میں مشغول رہے اور اس کا دل نورِ جلالِ الہٰی کی معرِفت میں مستغرق ہو جب دیکھے دلائلِ قدرتِ الٰہی کو دیکھے اور جب سنے اللہ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے ربّ کی ثنا ہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے طاعتِ الہٰی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے اسی امر میں کوشش کرے جو ذریعۂ قُربِ الٰہی ہو ، اللہ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے ، یہ صفت اولیاء کی ہے ، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔متکلِّمین کہتے ہیں ولی وہ ہے جو اعتقادِ صحیح مبنی بر دلیل رکھتا ہو اور اعمالِ صالحہ شریعت کے مطابق بجا لاتا ہو۔بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت نام ہے قُربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ مشغول رہنے کا ۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتا اور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آئے یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے۔ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس آیت میں مذکور ہے۔ ''اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ'' یعنی ایمان و تقوٰی دونوں کا جامع ہو۔ بعض عُلَماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے مَحبت کریں ، اولیاء کی یہ صفَت احادیثِ کثیرہ میں وارِد ہوئی ہے۔بعض اکابر نے فرمایا ولی وہ ہیں جو طاعت سے قُربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے ۔یا وہ جن کی ہدایت کا برہان کے ساتھ اللہ کفیل ہو اور وہ اس کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی خَلق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہو گئے ۔یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفَت بیان کر دی گئی ہے جسے قُربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ۔ولایت کے درجے اور مراتب میں ہر ایک بقدر اپنے درجے کے فضل و شرف رکھتا ہے۔( تفسیر خزائن العرفان ،پ:۱۱، یونس،تحت الآیۃ:۶۲۔۶۳،ص ۴۰۵،ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور۔) ان آیات کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں کہ ان آیات کریمہ میں اس گروہ کا ذکر ہے جو حضور انور کا فیض امت تک پہنچائیں یعنی اولیاء اللہ ۔اور اس کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! کان کھول کر سن لو۔آگاہ رہو خبردار رہو اس میں شک نہیں کہ اللہ کے دوست اس سے قرب رکھنے والوں کی شان یہ ہے کہ دنیا میں ان پر کسی مخلوق کا خوف رعب ڈر نہیں چھاتا۔کیونکہ ان کے دل رب کے خوف سے بھرے ہیں دوسرے کے خوف کی وہاں جگہ ہی نہیں ۔نہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے انہیں بعد میں غم ہو یارنج ہو ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں تکلیفوں میں انہیں محفوظ رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سچے پکے مومن ہوتے ہیں اور ہر وقت ہر طرح پرہیز گار متقی رہتے ہیں کہ نہ کوئی شرعی فرض ،واجب ،سنت چھوڑتے ہیں ۔نہ کوئی ناجائز کام کرتے ہیں۔ان کے لئے دنیا و آخرت میں خوشخبریاں ہیں کہ خواہ مخواہ بندوں کے منہ سے نکلتا ہے کہ وہ اللہ کا ولی ہیں۔ان کی طرف دل جھکتے ہیں اور مرتے وقت فرشتے انہیں جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہیں ۔قیامت میں اور جنت میں داخلے کے وقت انہیں خوشخبریاں دیتے ہیں اور دیں گے یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں کلمات الہیہ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اے لوگو! یہ بڑی ہی کامیابی ہے اس کی طرف رغبت کرو۔(تفسیر نعیمی،پ:۱۱یونس،تحت الآیۃ:۶۲تا ۶۴، ۱۱/۳۹۳،نعیمی کتب خانہ مفتی احمد یار خان روڈ،گجرات پاکستان)ان آیات سے حاصل ہونے والے چند فوائد
مفتی احمد یار خان نعیمی مذکورہ آیات کے تحت بہت اہم مدنی پھول اور فوائد لکھتے ہیں جو کہ درجہ ذیل ہیں :پہلا فائدہ:
ولایت برحق ہے اور تا قیامت اولیاء اللہ دنیا میں رہیں گے حضور انور صلَّی اللہ تعالٰیعلیہ وآلہ وسلَّم پر نبوت ختم ہوئی ولایت ختم نہ ہوئی ۔اور یہ فائدہ الا ان اولیاء اللہ (الخ)سے حاصل ہوا۔دوسرا فائدہ:
ہر زمانہ میں ایک نہیں دو نہیں بہت سے اولیاء اللہ رہیں گے۔اور یہ فائدہ اولیاء اللہ جمع فرمانے سے حاصل ہوا۔تیسرا فائدہ:
اولیاء اللہ ایک قسم یا ایک طرح کے نہیں ان کی جماعتیں مختلف ہیں ان کے کام جدا گانہ ہیں ۔یہ فائدہ بھی اشارۃ اولیاء اللہ جمع فرمانے سے حاصل ہوا۔چوتھا فائدہ:
اولیاء اللہ اور حضرات ہیں اور اولیاء من دون اللہ دوسرے لوگ ہیں۔اولیاء اللہ مقبول ہیں اولیاء من دون اللہ مردودین ہیں یہ فائدہ اولیاء اللہ کو (لفظ) اللہ کی طرف مضاف فرمانے سے حاصل ہوا۔پانچواں فائدہ:
حضرات اولیاء اللہ کو دنیا میں کسی مخلوق کا خوف چھاتا نہیں۔اگرچہ کبھی عارضی طور پر ہو جائے۔یہ فائدہ لاخوف علیہم سے حاصل ہوا۔چھٹا فائدہ:
حضرات اولیاء کبھی عمداً برا کام نہیں کرتے جس سے انہیں آگے چل کر غم ہو ۔یہ فائدہ ولا ھم یحزنون سے حاصل ہوا۔ساتواں فائدہ:
کوئی مشرک ،کافر،بد مذہب ولی اللہ نہیں بن سکتا ۔یہ فائدہ الذین امنوا سے حاصل ہوا۔آٹھواں فائدہ:
کوئی فاسق و فاجر ،بے نماز،بے روزہ،بھنگی،چرسی ولی نہیں ۔یہ فائدہ و کانو ا یتقون سے حاصل ہوا۔ (تفسیر نعیمی،پ:۱۱یونس،تحت الآیۃ:۶۲تا ۶۴، ۱۱/۳۹۸ ،نعیمی کتب خانہ مفتی احمد یار خان روڈ،گجرات پاکستان)ان آیات کی تفسیر میں علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی اپنی تفسیر مدارک التنزیل میں فرماتے ہیں : خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ کے ولی وہ حضرات ہوتے ہیں جو عبادت و ریاضت اور اطاعت و فرماں برداری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا روحانی قرب حاصل کر لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں عزت و کرامت عطا فرما کر ان کو اپنا دوست و محبوب بنا لیتا ہے۔یا اولیاء اللہ وہ حضرات ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے برہان حق عطا فرمادی ہے۔جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کا خود متولی و منتظم ہ وجاتا ہے ۔یا اولیاء اللہ وہ حضرات ہوتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ باہمی محبت و دوستی کرتے ہیں ۔نہ ان میں ایک دوسرے سے رشتہ داریاں ہوتی ہیں اور نہ مالی اور دنیاوی فوائد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔یا اولیاء اللہ وہ مومن حضرات ہوتے ہیں جو تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کر لیتے ہیں۔(تفسیر مدارک التنزیل،یونس،تحت الآیۃ:۶۲،۲/۳۰،دار الکلم الطیب ،مفہوما)ان آیات کے تحت امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ تفسیر در منثور میں نقل کرتے ہیں ہےکہ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ رحمہم اللہ نے حضرت وہب بن منبہ سے بیان کیا ہے کہ حواریوں نے کہا :اے عیسیٰ علیہ السلام وہ اولیاء اللہ کون ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم ۔تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت دنیا کے باطن کی طرف دیکھتے ہیں جب کہ عام لوگ اس کے ظاہر کی طرف دیکھتے ہیں۔اور یہ وہ ہیں جو دنیا کے انجام کی طرف دیکھتے ہیں جب کہ لوگ اس کی ابتداء کی طرف دیکھتے ہیں۔اور دنیا کی ان چیزوں کو مار دیتے ہیں جن کے بارے انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ انہیں مار دیں گی اور ایسی چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں جن کے بارے میں ہو یہ جانتے ہیں کہ عنقریب وہ انہیں چھوڑ دیں گی۔پس ان کے نزدیک دنیا کی کثرت کی طلب قلت کی طلب ہوتی ہے۔ان کا دنیا کو یاد کرنا موت ہوتی ہے ۔دنیا کی کسی شے کے سبب انہیں پہنچنے والی فرحت حزن اور غم ہوتا ہے۔ دنیا کی نعمتوں میں سے جو انہیں عارض ہو وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔اور بغیر حق کے دنیوی رفعتوں میں سے جو انہیں عارض ہو وہ اسی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔دنیا کو گراتے ہیں اور اس کے عوض اپنی آخرت کو بناتے ہیں ۔ وہ دنیا کو بیچتے ہیں اور اس کے عوض وہ چیز خریدتے ہیں جو ان کے لئے باقی رہتی ہے وہ دنیاکو چھوڑ تے ہیں اور اسے چھوڑنے کے سبب وہ خوش ہوتے ہیں۔وہ اسے بیچتے ہیں اور اسے بیچنے کے سبب وہ نفع کمانے والے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اہل دنیا کو نیچے گرا پڑا دیکھا ہے کہ ان پر کئی زمانے گزر گئے ہیں ۔پس انہوں نے موت کے ذکر کو پسند کیا اور زندگی کے ذکر کو چھوڑ دیا۔وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتےہیں ۔ اس کے نور سے روشنی طلب کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ روشن ہوتے ہیں ۔ان کےلئے عجیب خبر ہے اور ان کے پاس خبر عجیب ہے۔ان کے ساتھ کتاب قائم ہے اورکتاب کے ساتھ وہ قائم ہیں ان کے ساتھ کتاب گفتگو کرتی ہے اور اس کتاب کے ساتھ وہ گفتگو کرتے ہیں ۔ ان کے سبب کتاب کا علم ہے اور اس کے سبب وہ عالم ہیں ۔جس چیز کو انہوں نے نہیں پایااسے پانے کی وہ خواہش نہیں رکھتے اور جس چیز کی وہ امید رکھتے ہیں اس سے کم کی وہ آرزو نہیں کرتے اور جن چیزوں سے وہ خود احتیاط اور پرہیز کرتے ہیں ان کے سوا وہ کوئی خوف نہیں رکھتے۔(الدر المنثورفی التفسیر الماثور،یونس،تحت الآیۃ:۶۲۔۶۳،۷/۶۷۳۔۶۷۲،مرکزھجرللبحوث والدراسات العربیۃوالاسلامیۃ،ملتقطا)ان آیات کے تحت علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفسیر مظہری میں ارشادفرماتے ہیں کہ قیامت کے روز تکلیف و مصیبت میں گرفتار ہونے کی وجہ سے لوگ خوفزدہ اور پریشان ہوں گے مگر اللہ کے مقرب بندوں کو کوئی خوف و ملال نہ ہو گا اور اس وقت نہ وہ کسی امید اور آرزو کے فوت ہونے کی وجہ سے غمگین ہونگے۔(تفسیر مظہری،پ:۱۱،یونس ،تحت الآیۃ:۶۲، ۵/۵۲،مکتبہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور ) اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۳۴)(پ:۹،انفال:۳۴) ترجمۂ کنز الایمان : اس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں مگر ان میں اکثر کو علم نہیں۔ اس آیت کے تحت علامہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری تفسیر طبری میں فرماتے ہیں یعنی جو اس کے فرائض کو ادا کرنے کے ساتھ اور اس کی نافرمانی سے بچتے ہوئے اس کےساتھ پرہیز گاری کرتے ہیں۔ اور ولکن اکثرھم کے تحت فرماتے ہیں کہ لیکن اکثر مشرکین نہیں جانتے کہ اللہ کے اولیاء پرہیز گار ہوتے ہیں بس وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے اولیاء ہیں ۔اس آیت کے تحت بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمد بن الحسین نے بیان کیا کہ مجھے احمد بن مفضل نے بیان کیا کہ مجھے اسباط نے بیان کیا اس نے سدی سے روایت کیا ہے کہ ان سے مراد سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اصحاب ہیں۔(تفسیر طبری ،الانفال،تحت الآیۃ:۳۴، ۶/۳۳۷ ، دار الکتب العلمیہ بیروت ،ملخصا)اس آیت کے تحت علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی تفسیر مدارک التنزیل میں بیان کرتے ہیں کہ وہ شرک کرنے اور دین حق سے عداوت رکھنے کی وجہ سے اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ وہ مسجد حرام کے معاملات کے متولی ہوں۔ اس کے متولی صرف پرہیز گار مسلمان ہو سکتے ہیں اور لیکن ان میں سے اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے ۔گویا اس میں ان کا استثنا کیا گیا ہے جو جانتے تھے کہ وہ اس کے متولی نہیں ہو سکتے مگر بغض و عناد کی وجہ سے بہ ضد تھے ۔یا اکثر سے تمام لوگ مراد ہیں جیسا کہ قلت سے معدوم مراد ہوتا ہے ۔(تفسیر مدارک ،الانفال،تحت الآیۃ:۳۴، ۱/۶۴۳،دارالکلم الطیب،مفہوما ) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے اولیاء کی شان ملاحظہ فرمائی کہ مسجد حرام کی تولیت جیسا عظیم منصب اولیاء کرام ہی کے لئے ہے اور اس ہی کو ملے گا کہ جو اللہ کا ولی ہوگا۔اس آیت کے تحت امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ تفسیر در منثور میں نقل کرتے ہیں ہے اما م بخاری نے حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت عمر فاروق اعظم کو فرمایا: میرے لئے اپنی قوم کو جمع کرو۔آپ نے انہیں جمع کیا ۔پس جب وہ حضور نبی اکرم کے دروازے پر حاضر ہوئے تو حضرت عمر اندر داخل ہوئے اور عرض کی:میری قوم آپ کے حکم پر جمع ہو چکی ہے۔جب انصار نے اس بارے میں سنا :تو انہوں نے کہا :تحقیق قریش کے بارے میں وحی نازل ہوئی ہے ۔پس دیکھنے سننےوالے آئے کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے ۔اتنے میں حضور نبی کریم باہر تشریف لائے اور ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں تمہارے سوا بھی کوئی ہے ؟ انہوں نے عرض کی :جی ہاں ! ہم میں ہمارے حلیف ،ہمارے بھانجے اور ہمارے موالی بھی ہیں ۔ تو حضور بنی مکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ہمارے حلیف ہم میں سے ہیں ۔ہمارے بھانجے ہم میں سے ہیں۔اور ہمارے موالی بھی ہم میں سے ہیں۔تم سن لو! تم میں سے میرے دوست صرف پرہیز گار اور متقی لوگ ہیں ۔ اگر تم اسی طرح ہو تو پھر ایسا ہی ہے ۔ورنہ غور کر لو قیامت کے دن لوگ اعمال لے کر نہیں آئیں گے اور تم بھاری بوجھوں کے ساتھ آؤ گے اور تم سے اعراض کر لیا جائے گا۔(تفسیر در منثور،انفال ،تحت الآیۃ :۳۴ ،۷/۱۱۴، مرکز ھجرللبحوث والدراسات العربیۃ والسلامیۃ ) امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ الباری اپنی معرکۃالآراتفسیر ’’تفسیرِکبیر‘‘میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں:’’ اَوْلِیَاءُ اللّٰہ لَایَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنقِلُوْنَ مِنْ دَارٍاِلٰی دَارٍ ‘‘یعنی بے شک اللہ عزوجل کے اولیاء مرتے نہیں بلکہ ایک گھرسے دوسرے گھرمنتقل ہوجاتے ہیں۔‘‘(التفسیرالکبیر،آل عمران،تحت الآیۃ:۱۶۹۔۱۷۰، ۳/۴۲۷، دار احیاء التراث العربی بیروت ) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے ملاحظہ کیا کہ اولیاء موت کی وجہ مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتے ہیں یقیناً اولیاء کی شان بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے ۔ کون کہتا ہے کہ ولی سب مر گئے قید سے چھوٹے اپنے گھر گئے آئیے اب ان آیات کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ جن میں شان اولیاء واضح ہو رہی ہے چنانچہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع