اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
(مع 3 کروڑ24لاکھ نیکیاں روزانہ کمایئے )
یہ رِسالہ (29صَفْحات) اوّل تا آخِر پورا پڑھئے ، قوی امکان ہے کہ آپکی کئی غَلَطیاں سامنے آجائیں ۔
سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ، صاحِبِ مُعَطّرپسینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِرشادِ رحمت بُنیاد ہے :جس نے قراٰنِ پاک پڑھا ، رب تعالٰی کی حمد کی اور نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پر دُرُود شریف پڑھا نیزاپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے مغفِرت طلب کی تو اُس نے بھلائی کو اپنی جگہ سے تلاش کرلیا۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۲ ص۳۷۳ حدیث۲۰۸۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
نبیِّ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سفر میں ایک بار اذان دی تھی اور کلمات ِ شہادت یُوں کہے : اَشْہَدُ اَ نِّیْ رَسُوْلُ اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ) ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ ص ۳۷۵، تُحفَۃُ المُحتاج، ج۱ص۲۰۹)
بعض لوگ ’’ آذان ‘‘کہتے ہیں یہ غَلَط تَلَفُّظ ہے ۔ آذان جمع ہے ’’ اُذُن ‘‘کی اور اُذُن کے معنیٰ ہیں : کان۔ دُرُست تَلَفُّظ اَذان ہے ۔ اَذان کے لغوی معنیٰ ہیں : خبردار کرنا ۔
ثواب کی خاطِر اذان دینے والااُس شہیدکی مانندہے جوخون میں لِتھڑاہواہے اورجب مرے گا قبر میں اس کے جسم میں کیڑے نہیں پڑیں گے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱۲ص۳۲۲حدیث ۱۳۵۵۴)
میں جنّت میں گیا، اُس میں موتی کے گُنبددیکھے اُس کی خاک مُشک کی ہے ۔ پوچھا:اے جِبرئیل!یہ کس کے واسِطے ہیں ؟ عَرض کی:آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت کے مُؤَذِّنوں اور اماموں کیلئے۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۲۵۵حدیث ۴۱۷۹)
جس نے پانچوں نَمازوں کی اذان ایمان کی بِناپربہ نیّتِ ثواب کہی اس کے جوگناہ پہلے ہوئے ہیں مُعاف ہوجائیں گے اورجوایمان کی بناپرثواب کیلئے اپنے ساتھیوں کی پانچ نَمازوں میں امامت کرے اس کے گناہ جوپہلے ہوئے ہیں مُعاف کر دئیے جائیں گے ۔ (اَلسّنَنُ الکُبری لِلْبَیْہَقِی ج۱ص۶۳۶ حدیث ۲۰۳۹)
’’شیطان جب نماز کے لیے اذان سنتا ہے بھاگتا ہو ارَوحا پہنچ جاتا ہے ۔ ‘‘راوی فرماتے ہیں : روحا مدینۂ منوّرہ سے 36 میل دور ہے ۔ (مُسلِم ص۲۰۴ حدیث ۳۸۸ مُلَخّصاً)
جب اذان دینے والا اذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دُعا قبول ہو تی ہے ۔
(اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۲ ص۲۴۳ حدیث۲۰۴۸)
مُؤَذِّن کی آوازجہاں تک پہنچتی ہے ، اس کے لیے مغفِرت کر دی جاتی ہے اور ہر تر و خشک جس نے اس کی آواز سنی اس کیلئے استِغفار کرتی ہے ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج ۲ ص ۵۰۰ حدیث ۶۲۱۰)
جس بستی میں اَذان دی جائے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ ص۲۵۷حدیث ۷۴۶)
جب آدم (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) جنَّت سے ہندوستان میں اُترے اُنھیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) نے اُتر کر اذان دی۔ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۵ ص ۱۲۳ حدیث ۶۵۶۶)
اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (جامِع الحدیث لِلسُّیُوطی ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷ ) یہ روایت نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ’’ فتاویٰ رضویہ شریف ‘‘جلد5 صَفْحَہ 668 پر فرماتے ہیں : مولیٰ علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ، الْکَرِیْم) اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: فَجَرَّ بْتُہُ فَوَجَدْ تُہُ کَذٰلِکَ ( ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا) ۔ (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۲ ص۳۳۱، جامِعُ الحدیث ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷)
منقول ہے : اذان دینے والوں کیلئے ہرچیزمغفِرت کی دُعا کرتی ہے یہاں تک کہ دریامیں مچھلیاں بھی۔ مُؤَذِّن جس وقت اذان کہتاہے فِرِشتے بھی دوہراتے جاتے ہیں اور جب فارِغ ہوجاتاہے توفِرِشتے قِیامت تک اُس کیلئے مغفِرت کی دُعا کرتے ہیں ۔ جو مُؤَذِّنی کی حالت میں مرجاتا ہے اُسے عذابِ قبرنہیں ہوتااور مُؤَذِّن نَزْع کی سختیوں سے بچ جاتاہے ۔ قبرکی سختی اورتنگی سے بھی مامون ( یعنی محفوظ) رَہتا ہے ۔ (مُلَخَّص اَز تفسیرِ سورۂ یوسُف (مترجم) ص۲۱)
مدینے کے تاجدار صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا یک بارفرمایا : اے عورَتو!جب تم بِلال کواذان واِقامت کہتے سنوتوجس طرح وہ کہتاہے تم بھی کہوکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے لئے ہرکَلِمے کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں لکھے گا اور ایک ہزار دَرَجات بُلند فرمائے گا اورایک ہزارگناہ مٹائے گا۔ خواتین نے یہ سُن کر عرض کی:یہ توعورَتوں کیلئے ہے مردوں کیلئے کیاہے ؟ فرمایا:مردوں کیلئے دُگنا ۔ (تاریخ دِمشق لابنِ عَساکِر ج۵۵ص۷۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت پرقربان!اُس نے ہمارے لئے نیکیاں کمانا، اپنے دَرَجات بڑھوانااورگناہ بخشوا نا کس قَدَرآسان فرما دیا ہے مگر افسوس! اتنی آسانیوں کے باوُجُودبھی ہم غفلت کاشِکاررہتے ہیں۔ پیش کردہ حدیثِ مبارَک میں جوابِ اذان واِقامت کی جو فضلیت بیان ہوئی ہے اُس کی تفصیل مُلاحَظہ فرمائیے :
’’ اللہُ اَکْبَرْ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ یہ دوکلمات ہیں ، ا س طرح پوری اذان میں کل15 کَلِمات ہیں ۔ اگرکوئی اسلامی بہن ایک اذان کاجواب دے یعنی مُؤَذِّن صاحِب جوکہتے جائیں اسلامی بہن بھی دوہراتی جائے تو اُس کو15 لا کھ نیکیا ں ملیں گی ، 15ہزاردَرَجا ت بُلندہو ں گے اور15ہزار گناہ مُعاف ہو ں گے اوراسلامی بھائیوں کیلئے یہ سب دُگنا ہے ۔ فَجْرکی اذان میں دومرتبہ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ بھی ہے تویوں فَجْرکی اذان میں 17کلمات ہوگئے اور اس طرح فَجْرکی اذان کے جواب میں 17لاکھ نیکیاں ، 17ہزاردَرَجات کی بلندی اور17ہزار گناہوں کی مُعافی ملی اور اسلامی بھائیوں کیلئے دُگنا۔ اِقامت میں دومرتبہ قَدْ قَامَتِ الصَّلاۃُ بھی ہے یوں اِقامت میں بھی 17کلمات ہوئے تواِقامت کے جوا ب کا ثواب بھی فجرکی اذان کے جواب جتنا ہوا ۔ الحاصِل اگرکوئی اسلامی بہن اِہتمام کیساتھ روزانہ پانچوں نمازوں کی اذانوں اور پانچوں اِقامتوں کا جواب دینے میں کامیاب ہوجائے تواُسے روزانہ ایک کروڑ باسٹھ لاکھ نیکیاں ملیں گی، ایک لاکھ باسٹھ ہزاردَرَجات بلندہونگے اور ایک لاکھ باسٹھ ہزارگناہ مُعاف ہونگے اوراسلامی بھائی کو دُگنا یعنی 3 کروڑ 24لاکھ نیکیاں ملیں گی ، 3لاکھ24ہزاردَرَجات بُلندہونگے اور 3 لا کھ 24 ہزار گناہ معاف ہو ں گے ۔
حضرت سیِّدُناابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنھ فرماتے ہیں کہ ایک صاحِب جن کا بظاہِرکوئی بہت بڑا نیک عمل نہ تھا ، وہ فوت ہوگئے تو صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان کی موجودَگی میں (غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد) فرمایا:کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے اسے جنّت میں داخِل کردیا ہے ۔ اس پرلوگ مُتَعَجِّب ہوئے کیونکہ بظاہران کا کوئی بڑاعمل نہ تھا۔ چُنانچِہ ایک صَحابی رضی اللہ تعالٰی عنھ اُن کے گھرگئے اوران کی بیوہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے پوچھا کہ اُن کا کوئی خاص عمل ہمیں بتائیے ، تواُنہوں نے جواب دیا : اورتوکوئی خاص بڑاعمل مجھے معلوم نہیں ، صِرف اتنا جانتی ہوں کہ دن ہویا رات ، جب بھی و ہ اذان سنتے توجواب ضَروردیتے تھے ۔ (تاریخ دِمشق لابن عَساکِر ج ۴۰ ص ۴۱۲، ۴۱۳ مُلَخّصاً )
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ّکی اُن پررَحمت ہو اور اُن کے صَدْ قے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گُنَہِ گداکاحساب کیاوہ اگرچِہ لاکھ سے ہیں سِوا
مگراے عَفُوّتِرے عَفْوکاتوحِساب ہے نہ شُمارہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد