30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فیضانِ بہاءُالدِّین زَکَرِیّا ملتانی
رسولِ اکرم ،نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ مُکَرَّم ہے۔ ”جس نے مجھ پر سومرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ تعالٰی اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شُہَداء کے ساتھ رکھے گا۔“ ([1])
ساتویں صدی ہجری کی بات ہے کہ تاجروں کا ایک قافلہ مالِ تجارت لیے ملکِ عدن کی جانب رواں دواں تھا۔ ان تاجروں میں خواجہ کمال الدین سعود شیروانی بھی تھے۔اچانک بادِ مخالف اٹھی اور سمندر میں طوفان آگیا۔ خوفناک لہروں کے تھپیڑے جہاز سے ٹکرائے تو جہاز ہچکولے کھانےلگا۔ جہاز میں آہ و فُغاں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ خواجہ کمال الدین سعود نےتاجروں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرکے دعا کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں خیرو عافیت سے منزل تک پہنچائے اور سبھی اپنا اپنا تہائی مال راہِ خدا میں دینے کی نیت کرو سب نے فوراً حامی بھر لی۔ خواجہ کمال الدین نے اسی وقت اپنے پیرومرشد کو یاد کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مرشِد کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے دعاکی۔ لوگوں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک کشتی میں کوئی سفید رِیش حسین و جمیل بزرگ تشریف لا رہے ہیں۔ کشتی جوں جوں قریب آرہی تھی طوفان تھمتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ طوفان ختم ہوگیا،جہاز جانبِ منزل گامزن ہوگیااور کشتی بھی نظروں سے غائب ہوگئی۔ اپنے سفر سے بخیروعافیت لوٹنے کے بعد تمام تاجروں نے حسبِ نیت اپنے اپنے مال کا تہائی حصہ خواجہ کمال الدین کے سپر د کرتے ہوئے کہا کہ اسے آپ اپنی مرضی سے راہِ خدا میں خرچ کردیجئے۔ خواجہ کمال الدین نے سارا مال جمع کیا اوراپنے بھانجے فخرالدین گیلانی کو دے کر مدینۃالاولیاء ملتان شریف میں اپنے پیرومرشد کی بارگاہ میں ہدیۃً پیش کرنے کے لیے بھیج دیا۔ فخرالدین گیلانی نے سارا مال خواجہ کمال الدین کے پیرومرشد کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ فخرالدین گیلانی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کم وبیش سترلاکھ روپے کا خزانہ مرشدِ گرامی نے کھڑے کھڑے خیرات کردیا اور ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ فخرالدین گیلانی بہت متأثر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت ہو کر مدینۃالاولیاء ملتان شریف میں سکونت اختیار کرلی۔([2])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کرم و فضل اور اس کی عطاسے اپنے مریدوں کو طوفان سے نکالنے والے اور ستر لاکھ کی خطیر رقم ایک ہی وقت میں خیرات کردینے والے یہ بزرگ کون تھے؟
یہ بزرگ مدینۃالاولیاء ملتان شریف کی پہچان، شیخ الاسلام، رئیس الاولیا، تاجُ العارفین، غَوْثُ العالمین، حافظ، قاری، مُحَدِّث، عارف، شیخ بہاءالدین ابو محمد زکریا سہروردی ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیتھے۔ آئیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی حیات مبارکہ کے مُقَدَّس ومُعَطَّر گوشے ملاحظہ کرتے اور اپنے ایمان کو جِلا بخشتے ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین ابو محمد زکریا سہروردی قریشی ملتانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی ولادت باسعادت ۲۷ رمضان المبارک ۵۶۶ھ مطابق3 جون 1171ء شبِ جمعہ پنجاب کے ضلع لَیَّہ کے ایک قصبے کوٹ کروڑ([3]) میں وقتِ صبح ہوئی ۔([4])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نسباً قریشی الاسدی تھے اور صحابیٔ رسول حضرت سیّدنا ہَبَّار بن اَسوَد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد سے تھے۔21 واسطوں سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا سلسلۂ نسب سرکارِ دوعالَم،نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے جَدّ امجد حضرت قُصَی بن کِلاب سے جا ملتاہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے:حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی بن محمد غوث بن شیخ ابوبکر بن شیخ جلال الدین بن شیخ علی قاضی بن شیخ شمس الدین محمد بن حسین بن عبداللہ بن حسین بن مُطرف بن خزیمہ بن حازم بن محمد بن مُطرف بن عبدالرحیم بن عبدالرحمن بن ہَبَّار بن اَسوَد بن مطلب بن اسد بن عبدالعزی بن قُصَی۔ ([5])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والدماجد حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد غوث بن کمال الدین ابوبکررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ زبردست عالمِ دین اور کمالاتِ ظاہری و باطنی سے آراستہ تھے۔([6])جبکہ آپ کى والدہ ماجدہ ’’بی بی فاطمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا‘‘مولانا حسام الدىن ترمذى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کى صاحبزادی تھیں۔ ([7])آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہا بڑی نیک اور پارسا خاتون تھیں۔
مشہور مسلمان سَیّاح ابو عبد الله محمد بن عبداللهالمعروف ابن بطوطہ اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں :مجھے حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے عالم اورعابدو زاہد پوتےحضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بتایا: ہمارے جدِ اعلی ٰ سندھ فتح کرنے والےاُس لشکر میں شامل تھے جسےحجاج بن یوسف نے عراق سے (سندھ )بھیجا تھا ۔وہ یہاں رہ گئے تھے اور پھریہیں ان کی اولادبھی ہو ئی ۔([8])
حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے جَدِّ امجد حضرت تاج ُالدّین مُطْرف ”خوارزم“ میں آباد ہوئے اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بھی یہیں فیض بار رہی۔ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے جَدِّ اعلیٰ
[1] مجمع الزوائد، کتاب الادعیۃ ، باب فی الصلوۃ علی النبی الخ، ۱۰/۲۵۳، حدیث: ۱۷۲۹۸
[2] تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۲۵۳ملخصاً ، خزینۃ الاصفیاء مترجم، ۴/۴۶ ملخصاً ، اللہ کے خاص بندے، ص۵۴۷ ملخصاً
[3] کوٹ کروڑ آج کل کروڑ لعل عیسن کے نام سے ضلع لیہ کا شہر ہے جو لیہ شہر سے بھکر روڈ پر ۳۱کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
[4] تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۴۰، اللہ کے خاص بندے، ص۵۳۹، ملتان اور سلسلۂ سہروردیہ، ص۹۶، تذکرہ اولیائےپاک و ہند، ص۳۶، تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ، ص۱۴۲
[5] تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۲۵
[6] خزینۃ الاصفیا، ۴/۳۸ ، تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۳۲
[7] گلزار ابرار ، ص۵۵، خزینۃ الاصفیا ، ۴/۳۸ ، تذکرہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، ص۳۴
[8] رحلۃ ابن بطوطۃ ، ص۴۰۸
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع