30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط فیضانِ داتاعلی ہجویریدُرود شریف کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے: اللہ عَزَّوَجَلَّ کےمَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ تقرُّب نشان ہے : بروزِ قیامت لوگوں میں میرے قریب تَروہ ہوگا، جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔(1) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدآزمائش پر صبر و شکر کا انعام
ایک مشہور علمی گھرانے کے چشم و چراغ ، زُہدو تَقویٰ کے پیکر ،صلاحیت و قابلیت کے اعتبار سے اپنے زمانے میں ممتاز اور کئی علوم پر دسترس رکھنے والے نوجوان عالمِ دین کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی مزارات ِ اولیا ء پر حاضر ہوجاتے ،صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرتے اور اپنی دلی مراد پاتے ۔ایک مرتبہ یہی عالم صاحب ایک علمی اُلجھن کا شکار ہوئے تو حضرت سَیِّدنا بایزید بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار کا رُخ کیا تین ماہ تک درِبایزید بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر یوں گزارے کہ ہر وقت باوضو رہتے لیکن مسئلہ حل نہ ہوا،شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ اس بار معنوی جواب کے بجائے تجربے اور مُشاہدے کے ذریعے جواب حاصل کریں۔آخر ِکا ر اس مشکل کے حل کے لیے انہوں نے کُھردَرا لباس پہنا عصا اور وضو کابرتن تھامااور خُرَاساں کی جانب رَختِ سفر باندھ لیا۔راستے میں ایک گاؤں آیا تو عالم صاحب نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ گاؤں میں وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دین دار نظر آنے والے دنیا داررہائش پذیر تھے اُنہیں وہاں ایسے کئی چہرے نظر آئے جو خوش حالی اور بے فکری سے دَمک رہے تھے۔ جیسے ہی ان لوگوں کی نظر اس اجنبی نوجوان پر پڑی تو ان میں سے ایک مُتکبرانہ چال چلتے ہوئےآگے بڑھا اور بولا: ’’ تم کون ہو؟ ‘‘ عالم صاحب نے سخت لب ولہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے نہایت نرمی سے جواب دیا:”مسافر ہوں ،رات گزارنےکے لیے ٹھہرنا چاہتا ہوں۔“وہ سب قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ۔ ’’ لگتا تو صوفی ہی ہے لیکن ہم میں سے نہیں ہے ۔ ‘‘ اس نوجوان عالم نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا: ” آپ نے بالکل درست کہا ، بے شک میں آپ لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘ اِنہوں نے عالم صاحب کو نچلی منزل پر ٹھہرایا اور خود بالا خانے میں چلے گئے ،کھانے کے وقت اُن کے آگے پھپھوندی لگی سوکھی روٹی رکھ دی اورخود بالا خانے میں مُرَغَّن غذائیں کھاتے ہوئے اُس نوجوان عالم پر آوازے کسنے لگے ۔کھانے سے فراغت کے بعد انہوں نے خربوزے کھائےاور چھلکے اُن عالم صاحب کے سر پر پھینکنے لگے ان نازیبا حَرَکات پر صبر کا عظیمُ الشان مُظاہرہ کرتے ہوئے اس نوجوان عالم نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں یوں عرض کی :”یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ !اگر میں تیرے مَحبو بوں کا لباس پہننے والوں سے نہ ہوتا تو ضرور ان سے کنا رہ کش ہوجا تا ۔“پھر اپنے دل کی جانب مُتَوَجّہ ہوئے جو طعن و تشنیع اور نازیبا حرکتوں کے باوجودپُر سکون ہونے کے ساتھ ساتھ مُسرور بھی تھا ۔اس سکون اور مسرت نے عالم صاحب پر یہ بات آشکار کردی کہ دراصل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں کو بلندمقام ومرتبہ اَذِیَّتوں پر صبر و شکر کا مُظاہر ہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔(2) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!برائی کو بھلائی سے ٹال کر اپنا جواب پانے والے یہ نوجوان عالم کوئی اور نہیں بلکہ حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تھے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو وہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آپ کا فیضان آج بھی جاری ہے۔حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اسی فیض کی جانب حضرت سیدنا خواجہ مُعِین ُالدِّین چشتی اَجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یوں اشارہ فرمایا: گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خُدا ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما یعنی:آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خزانے لُٹانے والے ،عالَم کو فیض پہنچانے والے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کےنور کے مظہر ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ناقصوں کے لئے پیرِ کامل اور کاملوں کے راہنما ہیں ۔ولادت
حضرت سیِّدُنا داتا علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ولادتِ با سعادت کم و بیش ۴۰۰ ھ میں غزنی میں ہوئی (3) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خاندان نے غرنی کے دومَحَلُّوں جُلَّاب و ہجویر میں رہائش اِختیار فرمائی اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہجویری جُلَّابی کہلاتے ہیں ۔(4)سلسلۂ نسب
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی کُنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ ماہرِ انساب پیرغلام دستگیرنامی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالغَنِی نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا شجرۂ نسب اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’ حضرت مَخْدوم علی بن سید عثمان بن سیّد عَبْدُالرَّحْمٰن بن سید عبداللہ (شجاع شاہ) بن سیّد ابوالحَسَن علی بن سیّد حَسَن بن سیِّد زَیْد بن حضرت امامِ حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بن علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ۔ ‘‘ (5)حُلیہ مبارک
حضرت سیدناداتاعلی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قد درمیانہ ،جسم سُڈول (یعنی متناسب اورخوبصورت)اورگھٹاہوا(یعنی مضبوط)تھا۔جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی تھیں ۔ فَراخ(یعنی کشادہ) سینہ اور ہاتھ پاؤ ں مُناسب تھے ۔چہرہ گو ل تھا نہ لمبا ، سرخ و سفید ،چمکدار رنگت،کشادہ جَبین(یعنی پیشانی) اور بال سیاہ گھنے تھے ۔بڑی اور خوبصورت آنکھوں پر خَمْدار گھنی اَبر و تھی،سُتْواں(پتلی) ناک ،درمیانے ہونٹ اور رُخسار بھرے ہوئے تھے ،چوڑے اور مضبوط شانوں پر اٹھتی ہوئی گردن ۔ رِیش(یعنی داڑھی) مُبارک گھنی تھی ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بڑھے جاذِبِ نظر اور پُرکَشش تھے ۔(6)لباس
حضرت سیدناداتاعلی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لباس کے مُعاملے میں کسی قسم کا تَکَلُّف نہ برتتے ، مَیانہ رَوی اِختیار فرماتےتھے اور جو لباس مُیَسَّر ہوتا صبر و شُکر کرتے ہوئے زیب ِ تن فرما لیتےگو یا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا لباس نَمود و نمائش کےلیے نہ ہوتا بلکہ صرف تَن ڈھانپنے کےلیے ہوتا ۔(7) لباس سنّتوں سے ہو آراستہ اور عمامہ ہو سر پر سجا یاالٰہیمتقی گھرانہ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!انسان کو نیک اور مُتَقِّی بنانے میں سب سے زیادہ مُوثر ”گھر کا ماحول “ ہوتا ہے کیوں کہ گھر ہی وہ کارخانہ ہے جہاں نیکی ،زہد و تقوی اور علم و عمل کے اوزار سے ایک معیاری انسان تیار ہوتا ہےاو ر گھر یلو تَربِیَّت ہی اخلاق و کردار کو اعلیٰ بنانے میں سب سے زیادہ کا ر آمد ثابت ہوتی ہے ۔حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد حضرت سَیِّدُنا عثمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے وقت کے جَیَّد عَالِم اورعابدو زاہد تھے ۔ شاہان ِ غَزنیہ کے زمانے میں دنیاکے کونے کونے سے عُلَماء و فُضَلَاء،شُعَرَاء اورصُوْفِیَاء غزنی میں جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے غزنی عُلُوم و فُنُون کا مرکز بن چکا تھا ،حضرت سیدنا عثمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی یہاں رہائش اختیا ر فرمائی۔(8)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ ماجدہ حُسَیْنی سادات سے تھیں، عابِدہ زاہِدہ خاتون تھیں ، گویا حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نَجِیبُ الطَرفَیْن سَیِّد تھے اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حَسَنی جمال اور حُسینی کمال دونوں ہی کے جامِع تھے ۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ماموں کو زُہد و تقویٰ کی بناء پر تاجُ الاولیاء کے لقب سے شہرت حاصل تھی ۔غرضیکہ آپ کا خاندان شرافت و صداقت اور علم و فضل کی وجہ سے مشہور تھا۔(9) علم کے مُوتیوں کی چمک دمک اور زہد و تقوی کے نو ر سے مُنَوَّر گھر انہ دراصل آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شخصیت سازی کا کارخانہ ثابت ہوا اسی کارخانے نےآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اخلاق و کردار اور علم و عمل کو وہ دائمی خوشبو بخشی جس کی مہک آج تک دل و دماغ کو مُعَطَّر کررہی ہے۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جن اسلامی گھرانوں سےفقہ،حدیث اور تصوف جیسے دینی علوم کےساتھ طِب(Medical)،حیاتیات (Biology) سے لےکرحسابMathametics))اورجغرافیہ(Geography) وغیرہ سینکڑوں علوم کے ماہرین پیدا ہوا کرتے تھے بلاشبہ اس میں والدین کی اسلامی تربیت ہی کا دخل تھا لہٰذا آپ بھی اپنے مدنی منوں اور مدنی منیوں کی تربیت اچھے انداز میں کیجیے گھر میں مدنی ماحول بنانے کے لیے درسِ فیضان ِ سنّت کا آغاز کیجیے ،گھر والوں کو گناہوں بھرے چینلزسے چھٹکارا دلا کرصرف اور صرف مدنی چینلدکھانے کی ترکیب بنائیے،ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں خود بھی شرکت کیجیےاور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی شرکت کروائیے تاکہ آپ کی اولاد دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ،مُعاشرے کا بہتر ین فرداور آخرت میں ثواب ِجاریہ کا ذریعہ بنے ۔آپ کے شہر کی علمی و عملی فضا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غزنی تَہْذِیْبُ و تَمَدُّن اور علم و حکمت کی وجہ ترقی یافتہ اور بہت اہمیت کا حامل تھا اور اس کی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ بڑے بڑے علماء،صوفیاءاورتاریخ و جغرافیہ دان اس شہر میں رہائش پذیر تھے یوں آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دور میں غزنی حُصُولِ عِلْم اور ظاہِری و باطِنی تَرْبِیّت کا بے مثال مرکز بن چکا تھا۔علم کی اس ترقی کا اثر حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پربھی ہوا یہی وجہ ہے کہ جب کم عمر ی میں ایک غیر مسلم فلسفی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مُکالمہ ہواتو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست دلائل اور عمدہ اندازہ ِ بیان کے سبب کامیاب و کامران ہوئے ۔(10)
1 ترمذی، کتاب الوتر، باب ماجاء في فضل الصلاۃ علی النبی ، ۲ / ۲۷ ، حدیث: ۴۸۴ 2 کشف المحجوب، ص۶۵ 3 ایک قول یہ بھی ہے کہ اندازاً آپ کا زمانۂ ولادت۳۸۱ھ تا ۴۰۱ھ کے درمیان مُتَعَین کیا جاسکتا ہے ۔سید ہجویر، ص۸۱ 4 مدینۃ الاولیاء، ص۴۶۸، معارف ہجویریہ، ۲ / ۵۰ ملخصاً، کشف المحجوب للھجویری، التعریف بغزنۃ، ص۳۹ 5 بزرگانِ لاہور، ص۲۲۲، سید ہجویر ، ص۸۰ 6 سوانح عمری حضرت داتا گنج بخش، ص۲۴ 7 سوانح عمری حضرت داتا گنج بخش، ص۲۴ 8 اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ص۹۱، خزینۃ الاصفیاء، ص۱۷۲ماخوذاً 9 معارف ہجویریہ، ۲ / ۵۰، کشف المحجوب عربی، والدہ، ص۴۳۔۴۴ 10 کشف المحجوب ، دیباچہ ، ص۱۲
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع