30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے : جس نے مجھ پر سو مرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شُہَداء کے ساتھ رکھے گا ۔ ([1])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سلسلہ عالیہ چشتیہکے عظیم بزرگ حضرت بابافریدالدّین مسعود گنجِ شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگا ہ میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سعادت مند بھانجے اور مرید تربیت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے سب سے پہلے فرض اورنفل نمازوں پر اِستقامت اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی اور انہیں لنگر خانے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ چونکہ مرشد نے لنگر کی تقسیم کا حکم فرمایا تھا اس میں سے کھانے کی صراحت نہیں کی تھی لہٰذا یہ سعادت مند مرید حکمِ مرشد کی بجا آوری کرتے ہوئے لنگر خانے سے کھانا تقسیم فرماتا لیکن خود ایک لقمہ بھی نہ کھاتا ۔ پورا دن روزے سے رہتا اورجنگلی درخت کے پتوں ، کونپلوں، پھلوں اور پھولوں سے افطار کرلیا کرتا ۔ ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اس مجاہدے کی وجہ سے جسم نہایت کمزور اور لاغر ہوگیا ۔ جب حضرت بابافریدُالدّین مسعود گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے سعادت مند بھانجے اور کامل مرید کی یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا : آپ کھانا تقسیم کرکے خود بھی کچھ کھاتے ہیں یا نہیں ؟سعادت مند مرید نے نظریں جھکالیں اور یہ خوبصورت جواب بارگاہ ِ مرشد میں عرض کیا : عالی جاہ ! آپ نے کھلانے کا حکم ارشاد فرمایا تھا، مجھ میں اتنی جُرأت کہاں کہ مرشد کی اجازت کے بغیر ایک دانہ بھی کھا سکوں ؟یہ جواب سن کر حضرت بابافریدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سعادت مند بھانجے اور کامل مرید کے کمالِ صبر سے بہت خوش ہوئے اور سینے سے لگا کر صابر کا لقب عطا فرمایا ۔ ([2])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیّدنا فریدالدّین مسعود گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بارگا ہ سے صابر کا لقب پانے والے کامل مرید”سلطانِ اولیاء، قُطبِ عالم، بانیِ سلسلہ چشتیہ صابریہ حضرت سیّدعلاءُالدّین علی احمدصابر کلیریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ“ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے یوں تو بے شمار اوصاف ہیں لیکن مرشدِ کریم کی مبارک زبان سے ملنے والا لقب آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی شُہرت کا سبب بنااورآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو حضرت صابرِ پاک کے نام سے یاد کیا جانے لگا ۔
آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت۱۹ربیع الاول۵۹۲ھمطابق۱۹فروری ۱۱۹۶ءکو بوقتِ تہجد بروز جمعرات ہرات (افغانستان )میں ہوئی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وجودِ مسعود نومولود ہونے کے باوجود ایسا تھا کہ دایہ کو بے وضو غسل کرانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ ([3])
آپرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکاشجرۂ نسب یہ ہے : سیّدعلاءُالدّین علی احمد صابر بن سیّد عبدالرحیم بن سیّد عبدالسلام بن سیّد سیف الدین بن سیّد عبدالوہاب بن غوثُ الاَعظم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔ ([4]) بعض نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شجرۂ نسب یہ تحریر فرمایا ہے : علی احمد بن سیّدعبداللہ بن سیّدفتح اللہبن سیّد نور محمد بن سیّد احمد بن سیّد غیاثُ الدّین بن سیّد بہاءُالدّین بن سیّد داؤد بن سیّد تاج الدین بن سیّدمحمداسماعیل بن سیّدامام موسیٰ کاظم بن سیّد امام جعفر صادق بن سیّد الشہدا ء حضرت امام حسین بن حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ ۔ ([5])لیکن اس بات کو صحیح قرار دیا گیا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِحسنی سیّد ہیں اور غوث ِاعظمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اولاد سے ہیں ۔ ([6])آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے والد کانام عبداللہ بن عبدالرحیم بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ([7])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بچہ پیدا ہو تومستحب ہے کہ اس کے کان میں اذان واِقامت کہی جائے کہ اس طرح ابتداء ہی سے بچے کے کان میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے
[1] مَجْمَعُ الزَّوَائِد ، کتاب الادعیۃ، باب فی الصلاۃ علی النبی الخ، ۱۰ / ۲۵۳، حدیث : ۱۷۲۹۸ملتقطاً
[2] اللہکے خاص بندے ، ص۵۷۸ملخصاً، سیرالاقطاب، ص۲۰۰ملخصاً، خزینۃالاصفیاء، ۲ / ص۱۵۳ ملخصاً، اقتباس الانوار ، ص۴۹۸ملخصاً، بہاء الدین زکریا ملتانی، ص۸۶
[3] اللہ کے خاص بندے ، ص۵۷۴، محفل اولیاء، ص۳۸۲ملخصاً
[4] تذکرۂ اولیائے برِ صغیر، ۲ / ۱
[5] فخرالتواریخ، ص۲۷۶ غیر مطبوعہ
[6] حضرت مخدوم علاءُ الدین علی احمد صابر کلیری، ص۴۴
[7] حضرت مخدوم علاءُ الدین علی احمد صابر کلیری، ص56
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع