30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ طاَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طفیضانِ اِحیاءالعلوم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سیدنا امام غزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کی شہرئہ آفاق تصنیف ’ ’ احیاء العلوم ‘‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں یہ سیدنا امام غزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) جیسے امام صوفیاء سیدالاتقیاء کے قلم سے نکلا ہواوہ شاہکار ہے جس کی شہرت آج بھی چاردانگِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے ۔ یہ امام غزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کے مَدَنی خیالات سے مہکتا ہوا وہ گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے پڑھنے والے کے مشامِ جاں معطر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہر صاحبِ بصیرت قاری اس مَدَنی آئینے میں اپنا عکس بخوبی دیکھ سکتا ہے ۔ المختصر کتاب ہذا کی روشنی میں اگر اپنا محاسبہ کیاجائے اور اس میں امام غزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کے بتائے ہوئے مَدَنی نسخوں پر کماحقہ عمل کرلیاجائے تو ان شاء اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) ہمارے دل میں مَدَنی انقلاب برپا ہوسکتا ہے ۔ راقم عفی عنہ کو اس کتاب کی تسہیل و تلخیص کی ذمہ داری دی گئی حالانکہ یہ گناہگار اس کے لائق نہیں ۔باوجود علمی و عملی بے مائیگی و بے بضاعتی کے توکلاً علی اﷲ اپنی فہمِ ناقص کے مطابق اس کی تسہیل کی کوشش شروع کی اور اس سلسلے میں اپنے میٹھے میٹھے مرشِد نباضِ ملت حکیم الامت محی سنت جناب مولانا محمد الیاس العطار القادری الرضوی مدظہ العالی کے مختلف بیانات میں بتائے گئے مَدَنی نکات کو سامنے رکھا۔ لہٰذا اگر اس تسہیل میں کوئی خوبی ہے تو میرے میٹھے مرشد کی نگاہِ عنایت کا صدقہ ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار اخلاص پر ہے ۔اور جو عمل کسی غیر کے لئے کیا جائے ‘خواہ دیکھنے میںوہ کتنا ہی عظیم الشان کیوں نہ ہو ‘بارگاہِ خداوندی ( عَزَّوَجَلَّ ) میں اُس کی حیثیت مٹی کے ڈھیر سے زیادہ نہیں ۔چنانچہ سیدنا امام غزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے اپنی کتاب احیاء العلوم میںاخلاص اور نیت کی درستگی پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ۔اور اس سلسلے میں قرآنی آیات‘احادیثِ نبوی ا ور اقوالِ بزرگانِ دین رحمھم اﷲتعالیٰ سے استدلال کیا ہے۔ لہٰذا اخلاص کی اہمیت کے پیشِ نظر ہم نے اس تسہیل و تلخیص کو اِخلاص ہی کے بیان سے شروع کیا ہے ۔ اگر احیاء العلوم میں شرح وبسط کے ساتھ بیان کئے گئے فنِ تصوف کا خلاصہ چند الفاظ میں بیان کرنا ہوتو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فن کی غایت ‘محبتِ الہٰی ( عَزَّوَجَلَّ ) اور اس کی ابتداء اچھی صحبت اور نیک خیالات ہیں ۔ کیونکہ اچھی صحبت سے نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں اور اِنسان کو اپنی پیدائش کے مقصد ‘ دنیاوی زندگی کی بے ثباتی ، اُخروی زندگی کے دوام حساب و کتاب اور جزاء وسزا پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے ۔اور اس سے دل میں خوف و امید پیدا ہوتے ہیں جو اِنسان میں آخرت کے لئے عمل شروع کرنے کی خواہش پیدا کردیتے ہیں۔چنانچہ آخرت کی طرف توجہ ہوجاتی ہے اورنفسانی خواہشات کم ہوتی چلی جاتی ہیں، دل میں عشقِ رسول ا اور معرفتِ الہٰی ( عَزَّوَجَلَّ ) کو حاصل کرنے کی خواہش بیدار ہوجاتی ہے اور پھر نیک اعمال پر استقامت اختیار کرکے دل کو غیراﷲکی یاد سے خالی کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں دل ذکراﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) سے مانوس ہوجاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ اُنس معرفت اور معرفت محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے جوکہ عین مقصود ہے البتہ اس کے لئے توفیق الٰہی ( عَزَّوَجَلَّ ) کا متوجہ ہونا بنیادی امر ہے۔ پتہ چلا کہ نیک صحبت ‘اُخروی سعادت کو حاصل کرنے کا پہلا زینہ ہے ۔الحمد ﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) ہم گناہگاروں کو دعوتِ اسلامی کی شکل میں نیک صحبت میسّر ہے ۔اب اگر ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ استقامت کے ساتھ اِس مَدَنی ماحول میں رہتے ہوئے اپنی نیت کو دُرست کرکے نیک اعمال کئے جائیں ۔اﷲ عَزَّوَجَلَّ ہمیں مَدَنی ماحول میں استقامت اور اِخلاصِ نیت عطا فرمائے اٰمین بجاہ النبی الامین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع