30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طفیضان امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ
دُعائے عطار: یارَبَّ المصطفٰے!جوکوئی 21 صفحات کا رسالہ ’’ فیضانِ امام علی رضا ‘‘پڑھ یا سُن لے، اُس کو صحابہ واہلِ بیت کی محبت سے مالامال فرما اور والدین وخاندان سمیت اس کی بے حساب مغفرت فرما ۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰله وسلّمدرود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جس نے مجھ پر ایک بار دُرُودِ پاک پڑھااللہ پاک اُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے۔(مسلم ، ص 172، حدیث: 912) حضرتِ شیخ ابوعبدُاللہ رَصَّاع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:رحمت اِنعام کو کہتے ہیں(اس روایت کا مطلب یہ ہےکہ)اللہ پاک دنیا وآخرت میں بندے کولگاتار انعامات سے نوازتاہے۔ قاضی ابو عبدُ اللہ سَکَّاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:اللہ کریم کی ’’ایک رحمت ‘‘ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے توتم اس کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو جسے اللہ کریم دس رحمتوں سے نوازے، اللہ پاک دس رحمتوں سے اس بندے سےکتنی آفتیں، مصیبتیں دور فرمائے گا اور ان دس رحمتوں سے کتنی برکتیں حاصل ہوں گی۔ شیخ ابو عطاءُ اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ کریم جس پر ایک رحمت نازل فرمائے گا وہ اس کی دنیا وآخرت کے سب معاملات میں کفایت کرے گی توجس پر دس رحمتیں نازل ہوں اس کا کیا عالم ہوگا؟ (مطالع المسرات، ص 30) رحمت دا دریا الٰہی ہر دَم وَگدا تیرا جے اک قطرہ بخشیں مینوں کم بن جاوے میرا صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدخاندانِ سادات ِ کرام کی برکات
خُراسان کے مشہورشہر نیشا پور کے بازار میں ایک خُوبرُو (یعنی حسین) نوجوان کی آمد ہوئی تو سائبان کی وجہ سے دیوانگانِ شوق زیارت سے محروم تھے۔ دو حافظانِ حدیث کے ساتھ بیشمار طالبانِ علم و حدیث حاضرِ خدمت ہو کر گڑگڑا کر عرض کرنے لگے: یاسیدی! اپنا نورانی چہرہ دکھاکراپنے آبائے کرام سے ایک حدیثِ پاک ہمارے سامنے بیان فرمادیجئے۔ سواری روکی اور غلاموں کو حکم فرمایا پردہ ہٹالیں خلقِ خدا کی آنکھیں جمالِ مبارک کے دیدار سے ٹھنڈی ہوئیں۔سنّت ِرسول کی حسین تصویر تھی،مبارک کندھوں پر زُلفیں لہرا رہی تھیں۔پردہ ہٹتے ہی خلقِ خدا کی وہ حالت ہوئی کہ کوئی چِلّاتا، کوئی روتا ، کوئی خاک پر لوٹتاتوکوئی مبارک سواری کا سُم چومتاتھا۔اِتنے میں علمائے کرام نے آواز دی :خاموش! سب لوگ خاموش ہوگئے۔ حافظِ حدیث حضرت ِامام ابو ذُرْعَہ رازی اورحضرتِ امام محمد بن اسلم طُوْسی رحمۃ اللہ علیہما نے حدیثِ پاک روایت کرنے کی عرض کی:وہ حسین وجمیل نوجوان خاندانِ نبوّت کے چَشْم و چَراغ، باغِ مُرتضیٰ کے پھول اور سیِّدَہ فاطمہ زہرا کے شہزادے سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطاریہ کے 8ویں پیرو مُرشد حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ دریائے رحمت جوش میں آیا اور آپ نے حدیثِ پاک بیان کرنا شروع فرمائی: حَدَّثَنِيْ اَبِيْ مُوْسَى الْكَاظِمِ عَنْ اَبِيْهِ جَعْفَرِ الصَّادِقِ عَنْ اَبِيْهِ مُحَمَّدِ الْبَاقِرِ عَنْ اَبِيْهِ زَيْنِ الْعَابِدِيْنَ عَنْ اَبِيْهِ الْحُسَيْنِ عَن اَبِيْهِ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ قَالَ حَدَّثَنِيْ حَبِيْبِيْ وَقُرَّةُ عَيْنِيْ رَسُوْلُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَدَّثَنِي جِبْرِيْلُ قَالَ سَمِعْتُ رَبَّ الْعِزَّةِ يَقُولُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ حِصْنِيْ فَمَنْ قَالَهَا دَخَلَ حِصْنِيْ وَمَنْ دَخَلَ حِصْنِيْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِيْ ترجمہ: امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھےمیرے والدِ محترم امام موسیٰ کاظم نے حدیثِ پاک بیان کی،انہوں نےاپنے والدِ محترم امام جعفَر صادق سے،انہوں نے اپنے والدِ محترم امام محمدباقِرسے انہوں نے اپنے والدِ محترم امام زَیْنُ العابدین سےانہوں نے اپنے والدِ محترم امامِ حسین سے،انہوں نے اپنے والدِمحترم علی بن ابی طالِب رضی اللہ عنہ م سے، آپ فرماتے ہیں: ”میرے حبیب اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے حدیث ِ پاک بیان فرمائی کہ جبریل نےمجھےروایت بیان کی کہ میں نے اللہ پاک کو فرماتے سُنا کہ”لَآ اِلٰهَ اِلَّاللہ “میرا قلعہ ہے ، جس نے اسے کہا وہ میرے قلعے میں داخل ہوا، میرے عذاب سے امان میں رہا۔“ یہ حدیثِ پاک بیان فرماتے ہی پردہ چھوڑ دیا گیا اورحضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے ،اس حدیثِ پاک کو لکھنے والے گنِے گئے تو 20 ہزار سے زیادہ تھے۔ ( الصواعق المحرقہ، ص 205)سند شریف کی بَرَکت
کروڑوں حنبلیوں کےعظیم پیشوا،حضرتِ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ مبارک سَنَد(1) اگر پاگل پر پڑھوں تو ضرور اُسے پاگل پَن سے شفا ہو۔ ( الصواعق المحرقہ، ص 205) نام تیرا شہا ہر مرض کے لیے نام لیووں کو تیرے دوا ہوگیا (قبالۂ بخشش، ص 72)ولادتِ باسعادت(Holy Birth)
حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ کا ”سِیَرُاَعْلَامِ النبلا“میں وِلادت شریف کا سال 148ھ بیان کیا گیا ہے،اِسی سال آپ کے داداجان حضرتِ امام جَعْفَرِ صادِق رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال شریف ہوا(سیر اعلام النبلاء، 8/248) جبکہ بعض کُتُب میں آپ کا سِن وِلادت 153ھ بھی ہے۔ (شواہد النبوۃ، ص 474) آپ کا نام مبارک ”علی“ ، کنیت ”ابو الحسن “ ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اَلْقابات صابِر،ذَکی (یعنی سمجھدار) اور رضا ہے(تذکرہ مشائخِ قادریہ برکاتیہ ، ص 165) جبکہ ایک لقب ضامِن یعنی ذمہ دار بھی ہے۔(ملفوظاتِ اعلی ٰ حضرت، ص 382) کہا گیاہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ چھ،سات یا آٹھ شوال المکرم کو جمعہ کے دن مدینۂ پاک میں پید اہوئے۔ ( وفیات الاعیان،2/ 236)زمین و آسمان میں رضا
’’شَوَاہِدُ النبوۃ‘‘ میں ہے:حضرت ابی جَعْفَر محمد بن علی رضا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک نے آپ کا نام ” الرضا “رکھا کیونکہ وہ آسمانوں میں اللہ پاک کی اور زمین میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا تھے۔ (شواہد النبوۃ،ص 474)خواب میں دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
آپ کی والدۂ محترمہ آپ کی دادی جان حضرتِ بی بی حُمیدہ بَرْبَرِیّہ رحمۃ اللہ علیہ ا کی کنیز تھیں،ایک رات حضرتِ بی بی حُمیدہ بَرْبَرِیّہ رحمۃ اللہ علیہ ا کو خواب میں اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی ،مکی مَدَنی ، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی ،توآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی اس کنیز کو اپنے بیٹے موسیٰ کاظم کے نکاح میں دے دو۔اللہ پاک اس سے ایک زمین میں سب سے بہتر شخص کو پیدا کرے گا۔(شواہد النبوۃ، ص 475)پیدا ہوتے ہی دعا
آپ کی والدۂ محترمہ فرماتی ہیں:جب آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے پیٹ میں تھے اُس وقت مجھے کسی قسم کا بوجھ محسوس نہ ہوا اور سوتے وقت مجھے اپنے پیٹ میں سبحانَ اللہ اور اللہ اللہ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ مجھ پر ایک ہیبت سی چھا جاتی تھی اور میں بیدار ہو جاتی تو پھر کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔جب حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت باسعادت (Birth)ہوئی تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھ زمین پررکھے اورآسمان کی طرف منہ اٹھا یا اور ہونٹ مبارک حرکت کررہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ اللہ پاک کی بارگا ہ میں دعا کررہے ہیں۔ (مسالک السالکین ، 1/229)شجرہ قادریہ رضویہ عطاریہ میں ذکر ِخیر
شیخِ طریقت،امیرِاہلِ سنّت،بانیِ دعوتِ اسلامی،حضرتِ علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے اپنے مُریدین و طالبین کو روزانہ پڑھنے کے لئے بُزُرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہ م کا جو شجرہ شریف عطا فرمایا ہے، اُس میں حضرتِ امام موسیٰ کاظم، آپ کے صاحبزادے حضرتِ امام علی رضا اور آپ کے والدِ محترم حضرتِ امام جعفرِ صادق رحمۃ اللہ علیہ م کے وسیلے سے یوں دُعا کی گئی ہے: صِدْقِ صادِق کا تَصَدُّق صادِقُ الْاِسْلام کر بے غَضَب راضی ہو کاظِم اور رضا کے واسطے الفاظ معانی:صِدق:سچ۔ صادِق:سَچّا۔ تَصَدُّق :صدقہ۔ صادِقُ الْاِسلام:سچا مسلمان دعائیہ شعر کا مفہوم :یااللہ پاک!تجھے حضرتِ امام جَعْفَرِ صادق رحمۃ اللہ علیہ کی سچائی کا واسطہ! مجھے ایمان کی سلامتی عطا فرما دے اور حضرتِ امام موسیٰ کاظم اور اِن کے صاحبزادے حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے بغیر غضب فرمائے مجھ سے راضی ہوجا۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰله وسلّم بارگاہِ امام علی رضا میں امامِ عشق و محبّت ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ عرض کرتے ہیں: ضامن ثامن رِضا بر مَن نگاہے از رضا خشم را شایانم و گویم رِضا امداد کن (حدائقِ بخشش،ص 331) ترجمہ: اے ہمارے آٹھویں امام ِ ضامن یعنی ضمانت فرمانے والے ! مجھ پر اپنی رِضا و خُوشنُودی کی نگاہ فرمادیجئے ،میں ڈانٹ کا مستحق ہوں لیکن میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں یا امام علی رضا! میری مدد کیجئے۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدعربی شجرہ
عظیم عاشِقِ صحابہ و اہلِ بَیْت،امام اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل عربی شجرہ شریف ، بصیغۂ دُرود شریف تحریر فرمایا ہے ،اس میں حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر اس طرح کرتے ہیں:” اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِمْ وَ عَلَی الْمَوْلَی السَّیِّدِ الْاِمَامِ عَلِیِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْهُمَا“ ترجمہ:اے اللہ پاک تُوحضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر اور سردار و مولا امام علی بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہما پر دُرود و سلام بھیج اور ان پر بَرَکت نازل فرما۔(تاریخ و شرح شجرۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ ،ص 108) تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدسیرت مبارک
حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ نہایت ذہین اورخوبصورت تھے۔آپ کثیرُ الصَّوم (یعنی زیادہ روزے رکھنےوالے)اور قلیلُ النَّوم(یعنی کم سونے والے) تھے۔اندھیری رات میں راہِ خدا میں خَیرات کرتے ۔عاجزی و سادگی کا یہ عالَم تھاکہ گرمی کے موسم میں چٹائی پر اور سردی کے موسم میں ٹاٹ یاکمبل وغیرہ پر تشریف فرما ہوا کرتے اور غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے۔ (تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ ، ص 166 ملتقطاً)ثواب کا کام کیوں چھوڑوں؟(واقعہ)
ایک سپاہی جو آپ کوجانتا نہ تھا، وہ آپ سے کوئی خدمت لینے لگا ،اتنے میں ایک شخص جو آپ کو پہچانتا تھا اُس نے بلند آواز سے سپاہی کو پکار کر کہا: اے شخص !توہلاک ہوا تو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے سے خدمت لیتاہے؟جب سپاہی کو آپ کی بلند شان کی پہچان ہوئی توقدموں میں گر کر معافی مانگتے ہوئے عرض کرنے لگا: یاسَیِّدِی !جب میں نے آپ کو خدمت کرنے کا عرض کیا تھا آپ نے منع کیوں نہ فرمایا؟آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا خوبصورت جواب دیتے ہوئے ارشادفرمایا:” جس کا م میں مجھے ثواب ملے میں وہ کام کیوں نہ کروں؟۔“ (تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ ، ص 166 ملخصاً) اے عاشقانِ صحابہ واہلِ بیت! آپ نے امامِ پاک کی عاجزی دیکھی؟ عظیم شان و شَوکت کے مالک ہونے کے باوجود خدمت سے بھی نہ شرمائےاورکتنا خوبصورت جواب دیا۔ کاش! ہم بھی ثواب حاصل کرنے والے کام کریں اورایسے کاموں ، ایسی بیٹھکوں سے بچیں جو نیکیاں دلانے والے کاموں سے محروم کریں۔ہمارے پیارے پیارے پیر ومرشد حضرتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ کی بے شمار کرامات ہیں۔چند کراماتِ امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ پڑھیں اور اپنے دلوں میں امام عالی مقام کی محبت بڑھائیں ۔
[1 …راویوں کا وہ سلسلہ جو متن تک لے جائے، اسے سند کہتے ہیں۔ (نصابِ اُصولِ حدیث،ص 28)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع