اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
فیضانِ امام باقِر رحمۃُ اللہِ علیہ
دُعائے عطار: یاربَّ المصطفےٰ !جو کوئی 18 صفحات کا رسالہ” فیضانِ امام باقر “پڑھ یا سُن لے، اُسے اپنے پیارے پیارے آخری نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )اورصحابہ واہلِ بیت کی غلامی اوردعوتِ اسلامی میں اِسْتِقامت دے کر جنّت الفِردوس میں بلا حساب داخِل فرما۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
خواجۂ خواجگان ، حضرت ِخواجہ غلام حسن سَواگ المعروف ” پیر سَواگ“ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جب بہت غم اور مشکلات آجائیں تو درودشریف کی کثرت ہی تما م مشکلات کو حل کرتی ہے۔(فیوضات حسینیہ،صفحہ193)
مشکل جو سر پہ آپڑى تىرے ہى نام سے ٹلى مشکل کشا ہے تىرا نام تجھ پر درود اور سلام
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
صحابی ِ رسول حضرتِ جابر بن عبدُاللہ رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں اہلِ بیت ِ اَطہار کے روشن چشم و چراغ امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ بچپن شریف میں حاضر ہوئے چونکہ آخری عمر میں آپ کی بینائی شریف کمزور ہوگئی تھی اس لئے آپ نے پوچھا :آپ کون ہیں؟ تو حضرتِ امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ نے جواب دیا :محمد بن علی بن حسین بن علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہم)۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے آگےبڑھ کر امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا:
اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آپ کو سلام اِرشادفرمایا ہے۔ وہاں موجود حاضرین نے آپ سے عرض کیا :حضور! یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُس وقت ظاہری طور پر پردہ فرماچکے تھے۔) اس پر حضرتِ جابر رضی اللہُ عنہ نے بیان فرمایا: ایک مرتبہ میں رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اورآپ
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک گود میں نواسۂ رسول ، جگرگوشۂ بتول، حضرتِ امام حسین
رضی اللہُ عنہ کھیل رہے تھے۔ نانائے حسین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے جابر! میرے اس بیٹے کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کا نام علی (زینُ العابدین) ہوگا جب قیامت کا دن ہوگاتو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا : سیدالعابدین کھڑے ہوں ! تو وہ کھڑاہوگا ۔ پھر اُس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کانا م محمد ہوگا ۔اے جابر! تم اُن کو دیکھو گے، جب اُن سے ملو تو میرا سلام کہنا۔(صواعق المحرقہ،ص 201) اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
شہزادی ٔ کونین ،حضرتِ بی بی فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے دِل کے چین،حضرتِ امام حسین رضی اللہُ عنہ کے پوتے اورامام زین العابدین رحمۃُ اللہِ علیہ کے شہزادے،سلسلۂ قادریہ رضویہ عطاریہ کے پانچویں شیخِ طریقت حضرتِ امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ ہیں۔آپ کا مبارک نام محمد، کُنْیَت ابو جَعْفَر اور لقب باقِر،شاکِر اورہادی (یعنی ہدایت دینے والا )ہیں۔آپ کی ولادت شریف واقعۂ کربلا سے تقریباًتین سال پہلے 3 صفر المظفر 57ہجری بروز جمعۃ المبارک مدینۂ پاک میں ہوئی۔ (مسالک السالکین،جلد1صفحہ213۔تاریخ مشائخ قادریہ،صفحہ75)
سیِّدِ سجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے علم حق دے باقر علم ہُدیٰ کے واسِطے
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کو باقرکہنے کی وجہ ”اَلصَّواعِقُ الْمُحْرِقَہ“ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ” بَقَرَ الْاَرْض“ زمین پھاڑ نے اوراُس کے چُھپے خزانوں کے نکالنےکو کہتےہیں اِسی طرح آ پ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اللہ پاک کے احکامات کے اندر راز و معرفت کے چھپے خزانوں کو ظاہرفرماکراُن کی حکمتیں بیان فرمائیں۔ مزید یہ بھی ہے کہ”باقر “ علم کو چیرنے والےکوکہتے ہیں چونکہ آپ وسیعُ العلم (یعنی بہت زیادہ علم رکھنے والے)تھے لہذا آپ کو باقر کہا گیا۔(صواعق المحرقہ،ص 201) حضرتِ امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ کے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں، اور ایک قول کے مطابق ”پانچ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھیں ۔“(مراٰۃ المناجیح، 8/621)
اے عاشقانِ صحابہ واہلِ بیت!اللہ پاک کاہم پر بڑا احسان ہے کہ اُس نے اپنے پیاروں کے ساتھ ہماری نسبت و عقیدت رکھی ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ ہماری نسبت کیسی پیاری ہے کہ پیارے پیارے امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ ہمارے پیرومرشد ہیں اور آپ کی مبارک ذات پر حَسَنی حُسینی ساداتِ کرام کا سلسلہ مل جاتاہے کیونکہ آپ کے والدِمحترم حضرت امام زینُ العابدین رحمۃُ اللہِ علیہ ،امامِ عالی مقام امام حسین رضی اللہُ عنہ کے شہزادے ہیں اورآپ کی امی جان نواسہ ٔ رسول حضرتِ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ کی شہزادی ہیں ، یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے بھی آپ کا گہر ا رشتہ ہے چنانچہ حضرت صدیق ِ اکبر رضی اللہُ عنہ کے شہزادےحضرت محمد بن ابوبکر رحمۃُ اللہِ علیہ مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کی طرف سے مصر کے والی مقرَّر ہوئے ،اِن کے شہزادے ”حضرتِ قاسم رحمۃُ اللہِ علیہ کی شہزادی حضرتِ فَرْوَہ بنتِ قاسم رحمۃُ اللہِ علیہما کا نکاح حضرتِ امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ سے ہوا تو اُن سے سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطاریہ کے چھٹے شیخِ طریقت حضرتِ امام جَعْفَر صادِق رحمۃُ اللہِ علیہ پیدا ہوئے تو(یوں)صدیقِ اکبر تمام سیدوں کے نانا ہیں اور علی مرتضیٰ سیدوں کے دادا(ہیں)۔“ (مراٰۃ المناجیح، حالاتِ صحابہ، 8/ 74 )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! صحابۂ کرام اوراہلِ بیتِ عظام علیہمُ الرّضوان کی محبت راہِ نجات ہے، بروزِ قیامت شفاعتِ مصطفےٰ سے حصہ پانے کےلئے صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ اَطہار کی غلامی کا پٹّہ گلے میں ہونا ضروری ہے ۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی اہلِ بیت اَطہار سے عقیدت و محبت کے کئی واقعات ہیں ایسے ہی اہلِ بیتِ اَطہار کے صحابہ ٔکرام علیہمُ الرّضوان سے اُلفت و شفقت کے بھی بے شمار انداز ہیں جیساکہ امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ کی پوتی ، امام جعفرِصادق رحمۃُ اللہِ علیہ کی صاحبزادی کا نام مسلمانوں کی پیاری پیاری امی جان حضرتِ بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کے مبارک نام پر تھا۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہا کا مزار شریف آج بھی مصرمیں موجود ہےاورآپ کے مزار شریف کے ساتھ جومسجد ہے اُسےآپ کی نسبت کی وجہ سے مسجدِ عائشہ کہا جاتاہے۔ عاشقِ صحابہ و اہلِ بیت،بانیِ دعوت اسلامی امیرِاہل ِسنّت ، کیاخوب لکھتےہیں:
اٰل و اصحابِ نبی کے جس قَدَر چاہنے والے ہیں ساروں کو سلام
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
احادیثِ مبارکہ مختلف راویوں سے روایت کی جاتی ہیں اُن میں محدثینِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم حضرتِ امام جعفرصادق کی امام باقر سے اور آپ کی امام زینُ العابدین بن امام حسین بن علی المرتضیٰ رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین سے کی جانے والی روایت کو ” سلسلۃُ الذّہب “ یعنی سونے کی زنجیر کہتےہیں۔(مرقات المفاتیح، 10/657، تحت الحدیث: 6287)
آل و اصحابِ نبی سب بادشہ ہیں بادشاہ میں فقط ادنیٰ گدا اصحاب و اہل بیت کا
حضرتِ عبداللہ بن عطاء رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:میں نےامام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ کے علاوہ عُلَما میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا جس کے پاس عُلَما کا علم بھی کم پڑ جائے، میں نے حَکَم بن عُیَیْنَہ کواُن کی خدمت میں اس طرح بیٹھے دیکھا گویا طالِبِ علم ہو۔
(حلیۃ الاولیاء، 3/217، حدیث: 3757)