30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیٖنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمطفیضانِ امام جلال ُالدِّین سُیُوطی شافِعی رحمۃُ اللہ علیہ
دُعائے عطّار: یارَبَّ المصطفےٰ ! جوکوئی 21صفحات کا رسالہ ’’ فیضانِ امام جلالُ الدِّین سُیُوطی شافِعی رحمۃُ اللہ علیہ “ پڑ ھ یا سُن لے ،اُسےبزرگانِ دین رحمۃُ اللہ علیہم کی سیرت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما اور اُس کو ماں باپ سمیت بے حساب بخش جنّتُ الفِردوس میں داخلہ نصیب کر ۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زِیادہ میرے قَریب وہ شخص ہوگا جو سب سے زِیادہ مجھ پر دُرُود شریف پڑھتا ہوگا۔ (ترمذی، 2/27،حدیث:484)مِصْر سے مَکّہ قَدَم میں
حضرتِ علامہ جلالُ الدّین سُیُوطی شافِعی رحمۃُ اللہ علیہ کے خادمِ خاص حضرتِ محمد بن علی حَبَّاک رحمۃُ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مصر میں ایک روز قَیْلُولہ کے وقت(دوپہر کے سونے کو قیلولہ کہتے ہیں) امام جلال ُالدِّین سُیُوطی رحمۃُ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا: اگر تم میرے فوت ہونے سے پہلے اس راز کو ظاہر نہ کرو تو آج عصر کی نماز مکۂ پاک میں پڑھنے کا ارادہ ہے۔ میں نے عرض کی: ٹھیک ہے۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: آنکھیں بند کرلو۔ میں نے آنکھیں بند کیں تو آپ میرا ہاتھ پکڑ کر تقریباً 27 قدم چلے،پھر فرمایا: آنکھیں کھولو۔ میں نےآنکھیں کھولیں تو ہم جنّتِ مَعْلیٰ (مکۂ پاک کے مبارک قبرستان)کے دروازےپر تھے ۔ ہم نے وہاں حضرت ِ بی بی خدیجۃُ الکُبْری ٰ رضی اللہ عنہا ، حضرتِ فُضَیل بن عیاض اور حضرت ِامام سُفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃُ اللہ علیہما وغیرہ کے مَزارات کی زیارت کی ،پھر حَرَم شریف میں داخل ہوئے، طواف کیا، زم زم شریف پیا اور مَقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھ گئے حتّی کہ ہم نے وہاں عصر کی نماز ادا کی،پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: حیران نہ ہو،ہمارے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہے،پھر فرمایا: اگر ساتھ چلنا چاہو تو ٹھیک ورنہ حاجیوں کے ساتھ آجانا۔ میں نے عرض کی: میں آپ کے ساتھ ہی چلوں گا۔ پھر ہم جنتِ مَعْلیٰ کے دروازےتک گئے ،آپ نے مجھ سے فرمایا: آنکھیں بند کرلو، میں نے اپنی آنکھیں بند کیں تو وہ مجھے سات قدم لے کر تیز چلے اور فرمایا: آنکھیں کھولو،میں نے آنکھیں کھولیں تو ہم مِصر میں موجود تھے۔ (الکواکب السائرہ، 1/229ملخصاً۔ شذرات الذھب ، 10 / 77) اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدوِلادتِ باسعادت
دُنیا میں سب سے زیادہ اسلامی کتابیں لکھنے والے علمائے کرام رحمۃُ اللہ علیہم میں نَوِیں صَدِی کے مُجَدِّد، حافِظُ الْحدیث ،شیْخُ الاسلام حضرتِ علّامہ امام جلالُ الدّین سُیُوطی شافِعی رحمۃُ اللہ علیہ بھی ہیں ۔آپ 849ہجری میں مغرب کی نماز کے بعد مصر کے دارُالحکومت (Capital of Egypt) قاہِرہ شہر میں پیدا ہوئے۔آپ کو”اِبْنُ الکُتُب“(یعنی کتابوں کا بیٹا ) بھی کہا جاتاہے، اس کاواقعہ بڑا دلچسپ ہے ،وہ یہ کہ آپ رحمۃُ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ حَمَل سے تھیں کہ ایک دن آپ کے والدِ محترم نے آپ کی والدہ کو اپنی لائبریری سے کوئی کتاب لانے کا فرمایا، وہ کتاب لینے گئیں تو وہیں وِلادت کا درد شروع ہوا اورامام جلالُ الدّین سُیُوطی رحمۃُ اللہ علیہ کی کتابوں کے درمیان ولادت ہوگئی۔ ( النور السافر ، ص90)تعارُف اور القابات
آپ رحمۃُ اللہ علیہ کا نام ’’عبدُالرّحمٰن ‘‘اورمشہور لَقَب ”جلالُ الدین“ ہے جو والدِ محترم کی طرف سےعطا ہوا تھا۔آپ رحمۃُ اللہ علیہ اپنے نام سے زیادہ لقب سے مشہورہیں۔ آپ کی کُنْیَت ”اَبُو الْفَضل“ ہے، ایک مرتبہ آپ رحمۃُ اللہ علیہ اپنےشیخ قاضِیُ القُضاۃ عِزُّالدِّین احمد بن ابراہیم کِنانی حَنْبلی رحمۃُ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا: آپ کی کنیت کیا ہے؟آپ نے عرض کی: میری کوئی کنیت نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : آپ کی کنیت ”ابُو الْفَضْل “ہے اور اپنے ہاتھ سے لکھ کر کنیت عطافرمادی۔ کروڑوں شافعیوں کے امام ، محمد بن اِدریس شافِعی رحمۃُ اللہ علیہ کے مُقَلِّد ہونے کے سبب آپ کو ”شافعی“ کہاجاتا ہے۔ ( النور السافر ، ص90)آبائی شہر اور والدین کا تعارُف
امام جلالُ الدّین سُیوطی رحمۃُ اللہ علیہ کےآبا و اَجداد ” اُسْیُوْط“ نامی شہر میں رہتے تھے اس لئے آپ ”سُیُوطی“ اور”اُسْیُوْطی“ کہلاتے ہیں ۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنے اِس شہرکی تاریخ پر ” اَلْمَضْبُوْط فِی اَخْبَارِ السُّیُوْط “ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ آپ کے دادا جان بھی بہت بڑے ولی ُّ اللہ تھے، ان کا مزار شریف مصر کے شہر اُسْیُوط میں ہے،لوگ وہاں حاضری دیتےاور برکتیں حاصل کرتے ہیں۔آپ کے آباو اجداد شہر کے عزت دار لوگوں میں سے تھے،بعض بزنس مین اور بڑے مالدار تھے،انہوں نے اُسْیُوط میں ایک مدرسہ بناکراُس پر کئی زمینیں وَقْف کیں مگرعلمِ دین کی بڑی خدمت آپ کے والدِ محترم کےحصے میں آئی ۔ ( الامام الحافظ جلال الدین سیوطی وجھودہ فی الحدیث وعلومہ ، ص74 ۔حسن المحاضرة ، 1 / 288 ، التحدث بنعمۃ الله ، ص7 )
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع