Faizan e Imam Musa Kazim
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Faizan e Imam Musa Kazim | فیضان امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ

    Imam Musa Kazim Ka Taruf Aur Ap Ki Wiladat

    book_icon
    فیضان امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ
                
    اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

    فیضانِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ

    دعائے عطار
    : یاربَّ المصطفےٰ! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ ” فیضانِ امام موسیٰ کاظم“ پڑھ یا سُن لے، اُسے اور اُس کی اولاد کو اپنے پیارے اور سب سے آخری نبی (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کے آل واصحاب کی سچی محبت وبے حساب مغفِرت سے مشرف فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم

    ہر کام سے پہلے درود شریف

    شیخ یوسف بن عمر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:علمائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب کوئی شخص کتاب لکھے تو اللہ پاک کے نامِ پاک یعنی بسمِ اللہ شریف کےبعد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ بابرکات پردُرودِ پاک لکھے۔کروڑوں شافعیوں کے امام، حضرتِ امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں پسند کرتاہوں کہ انسان اپنے ہر کام کے شروع میں اللہ پاک کی حمد و ثنا (یعنی تعریف و توصیف ) بیان کرے اوراُس کے پیارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دُرود پاک پڑھے۔(مطالع المسرات،ص 7 11) نبی کا نام ہے ہر جا خدا کے نام کے بعد کہیں درود سے پہلے کہیں سلام کے بعد (فرش پرعرش ،ص 62) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    باکمال نوجوان

    حضرت شقیق بَلخی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:میں حج کے لئے روانہ ہوا تو ہمارا قافلہ ”مقامِ قادْسِیّہ “پرٹھہرا ۔ وہاں او ربھی بہت سے عازمینِ حج تھے، بڑا خوبصورت منظر تھا ، میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ یہ خوش قسمت لوگ سفر وغیرہ کی تکلیفیں برداشت کر کے اپنے پاک پروردَگارکی رضا کی خاطر حج کرنے جا رہے ہیں ۔ میں نے اللہ پاک کی بارگا ہ میں عرض کی :اے میرے پیارے پیارے اللہ پاک! یہ تیرے بندوں کا وفد ہے،تُو انہیں ناکام نہ لوٹانا ۔پھر میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جس کے گندمی رنگ میں ایسی چمک دَمک تھی کہ نظریں اس کے چہرے سے ہٹتی ہی نہ تھیں۔اس نے اُون کا لباس اور سر پر عمامہ شریف سجایا ہوا تھا۔ وہ لوگوں سے الگ تھلگ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں وسوسہ آیا کہ یہ اپنے آپ کو صوفی ظاہر کرنا چاہتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعظیم کریں، میں نے دل میں کہا: اللہ کی قسم!میں ضرور اس کی نگرانی کروں گا پھر جیسے ہی میں اُس کے قریب پہنچا، اس نے میری طرف دیکھا اور میرا نام لے کر پارہ 26 سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 12 کی تلاوت کی : اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ 26، الحجرات: 12)”ترجَمۂ کنز الایمان: بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔ “ اتنا کہنے کے بعد وہ مجھے وہیں چھوڑ کر رخصت ہو گیا، میں نے دل میں کہا:یہ تو بڑا عجیب معاملہ ہے کہ اس نوجوان نے میرے دل کی بات جان لی اور مجھے میرا نام لے کر پکارا حالانکہ میری کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ ضرور اللہ پاک کا مقبول بندہ ہے میں نے خُواہ مُخواہ اس کے بارے میں بَدگمانی کی ،میں ضرور اس نوجوان سے ملاقات کرکے معذرت کروں گا۔ میں جلدی سے اس نوجوان کے پیچھے گیا لیکن کافی کوشش کے بعد بھی اسے نہ ڈھونڈ سکا ۔پھر ہمارے قافلے نے مقامِ ” وَاقِصہ‘‘میں قیام کیا،وہاں میں نے اس نوجوان کو حالتِ نماز میں پایا۔اس کا سارا وجود کانپ رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں اُسے پہچان کر اس کے قریب جا کربیٹھ گیا تا کہ اس سے معذرت کروں،نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ میری جانب مُتَوَجِّہ ہوا اور کہنے لگا: اے شقیق! پارہ 16 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 82 پڑھو: وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى (پ 16، طٰہٰ: 82) ترجَمۂ کنز الایمان:”اور بے شک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا۔“ اِتنا کہنے کے بعد وہ نوجوان پھر وہاں سے رُخصت ہوگیا۔ میں نے کہا:یہ نوجوان ضرور اَبدالوں میں سے ہے۔ دومرتبہ اس نے میرے دل کی باتوں کو جان لیا اور مجھے میرے نام کے ساتھ بُلایاہے۔میں اس سے بہت زیادہ متأثر ہو چکا تھا۔پھر جب ہمارا قافلہ مقامِ ’’رَبال‘‘ میں رُکا تو وہی نوجوان مجھے ایک کنوئیں کے پاس نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک تھیلا تھا اور وہ کنوئیں سے پانی نکالنا چاہتا تھا۔اچانک اس کے ہاتھ سے وہ تھیلا چُھوٹ کر کنوئیں میں گِرگیا،اس نوجوان نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: اے میرے پیارے پیارے اللہ پاک!جب مجھے پیاس ستاتی ہے تو تُو ہی میری پیاس بجھاتا ہے ، جب مجھے بھوک لگتی ہے تو تُو ہی مجھے کھانا عطا فرماتا ہے، میری اُمید گاہ بس تُو ہی تُو ہے، اے میرے پیارے پیارے اللہ پاک! میرے پاس اس تھیلے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ، مجھے میرا تھیلا واپس لوٹا دے ۔ حضرت شقیق بَلخی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :خدا کی قسم! ابھی اس نوجوان کی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ کنوئیں کا پانی اُوپر آنا شروع ہوگیا۔ اس نوجوان نے اپنا ہاتھ بڑھاکر تھیلا نکالا اور اس میں پانی بھرلیا پھر کنوئیں کا پانی واپس نیچے چلا گیا ۔نوجوان نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا ۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ ایک ریت کے ٹیلے کی طر ف گیا۔ میں بھی چپکے سے اس کے پیچھے ہولیا۔ اس نے ریت اُٹھائی اور تھیلے میں ڈالنے لگا پھر تھیلے کو ہلاکر اس میں موجود ریت ملے پانی کو پینے لگا ۔ میں نے اس کے قریب جاکر سلام عرض کیا ، اس نے جواب دیا ۔میں نے عرض کیا: اے نیک نوجوان! اللہ پاک نے جو رزق تجھےعطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی عطا کر ۔ یہ سن کر اس نے جواب دیا:اللہ پاک اپنے بندوں پر ہر وقت فضل و کرم فرماتا رہتا ہے، کوئی گھڑی ایسی نہیں گزرتی جس میں وہ پاک پر وردگار اپنے بندوں پر نعمتیں نازل نہ فرماتا ہو، اے شقیق!اپنے رب سے ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہئے۔ اِتنا کہنے کے بعد اس نوجوان نے وہ چمڑے کا تھیلا میری طرف بڑھایا جیسے ہی میں نے اس میں سے پیا تو وہ شَکّر اور خالص سَتّو ملا ہوا بہترین پانی تھا۔ ایسا خوش ذائقہ پانی میں نے آج تک نہ پیا تھا، میں نے خوب پیٹ بھر کر پانی پیا ۔میں حیران تھا کہ ابھی میرے سامنے اس تھیلے میں ریت ڈالی گئی ہے لیکن اس نوجوان کی کرامت سے وہ ریت ستّو اور شکر میں بدل گئی ہے ،اُس بابرکت شربت کو پینے کے کئی دن بعد تک مجھے پانی اور کھانے کی طلب نہ ہوئی۔ پھر ہمارا قافلہ مکۂ پاک پہنچا تو وہاں میں نے اسی نوجوان کو ایک کونے میں آدھی رات کو نماز کی حالت میں دیکھا ۔وہ بڑے خشوع و خضوع (یعنی دل اور جسم کی عاجزی ) سے نماز پڑھ رہا تھا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے اسی طرح نماز کی حالت میں ساری رات گزاردی ، جب فجر کا وقت ہوا تو وہ تب بھی اپنے مصلے پر بیٹھا رہا اور اللہ پاک کی پاکی بیان کرتا رہا ، پھر نمازِ فجر پڑھنے کے بعد اس نے طواف کیا اور ایک طرف چل دیا میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ اس بار میری نظروں میں بڑا حیران کُن منظر تھا کیونکہ اُس کے سامنے کئی لوگ ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور لوگ جوق در جوق سلام کے لئے حاضر ہو رہے تھے۔ میں نے ایک شخص سے پوچھا : یہ عظیم نوجوان کون ہے؟اس نے جواب دیا: یہ حضرتِ امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد بن علی بن حسین بن علی علیہمُ الرضوان ہیں۔میں نےدِل میں کہا:اتنی کرامات کا ظاہر ہونا اس سید زادے کی ہی شان کے لائق ہے، یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ پاک اتنی کرامات سے نواز تا ہے۔ (عیون الحکایات (مترجم) ، 1/ 238 ملخصاً ) اللہ رب العزّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (حدائقِ بخشش، ص 246) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    ولادتِ باسعادت اورتعارف

    گلشنِ اہل بیت نبوّت کے مہکتے پھول حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ 7 صَفَرُ الْمُظَفّر 128ھ بروز منگل طلوعِ فجر کے وقت مکۂ پاک اور مدینۂ مُنَّورہ کے درمیان واقع علاقہ اَبْوا شریف (جہاں پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری امی جان حضرتِ بی بی آمنہر ضی اللہُ عنہا کا مزار شریف ہے) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا مبارک نام موسیٰ ، کنیت ابو الحسن اور اَبْو ابراہیم اور القابات صابِر، صالِح ، اَمین جبکہ سب سے مشہور لقب’’ کاظم ‘‘ ہے ۔ بہت زیادہ معافی و دَرْگُزر کرنے کے سبب آپ کا لقب کاظم (یعنی غصے کو پی جانے والا ) ہوا۔ (وفیات الاعیان، 4/505 ۔ مسالک السالکین،1/224) امامِ اہل سنت ،عاشقِ ماہِ رسالت ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ عرض کرتے ہیں: شانِ حلماً کانِ علمًا جانِ سلماً اَلسَّلام موسیِ کاظمِ جہاں ناظمِ مرا اِمداد کُن (حدائق بخشش، ص 328) الفاظ معانی: حلم:بُردباری۔کان:خزانہ۔ شرحِ کلامِ رضا:اے میرے آقا امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ !آپ پر سلام ہوکہ آپ حلم و بُردباری کی شان،مَخزنِ علم (یعنی علم کے خزانے ) اور سلامتی کی جان ہیں۔ اے امام موسیٰ کاظم! آپ دنیا کے نظام کو چلانے والے ہیں ، میری مدد فرمائیے۔

    عربی شجرہ

    عظیم عاشقِ صحابہ و اہلِ بیت،امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک طویل عربی شجرہ شریف ، بصیغہ درود شریف تحریر فرمایا ہے ،اس میں حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کا ذکرِ خیر اس طرح کرتے ہیں: اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِمْ وَ عَلَی الْمَوْلَی السَّیِّدِ الْاِمَامِ مُوْسیٰ بْنِ جَعْفَرِنِ الْکَاظِمِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْهُمَا ترجمہ:اے اللہ پاک تُوحضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر اور سردار و مولا موسیٰ کاظم بن جعفر رحمۃُ اللہِ علیہما پر درود و سلام بھیج اور ان پر برکت نازل فرما۔ (تاریخِ و شرح شجرۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ ،ص 108)

    والدینِ کریمین

    امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ اہل بیتِ اَطہار کے چشم و چراغ اور عظیم تابعی بُزرگ حضرتِ امام جعفر صادِق رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے اور سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے ساتویں پیر و مُرشِد ہیں ۔آپ کی والدۂ محترمہ کا نام حمیدہ بَرْبَرِیّہ رحمۃُ اللہِ علیہا تھا۔ حضرتِ امام جعفرِ صادق رحمۃُ اللہِ علیہ آپ کے بارے میں فرماتے تھے کہ میرے تمام بیٹوں میں موسیٰ کاظِم بہترین بیٹے ہیں اور یہ اللہ پاک کے موتیوں میں سے ایک موتی ہیں۔ ( مسالک السالکین، 1/225)

    شجرہ قادریہ رضویہ عطاریہ میں ذکر ِخیر

    شیخِ طریقت،امیرِاہلِ سنّت،بانیِ دعوتِ اسلامی،حضرتِ علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے اپنے مُریدین و طالبین کو روزانہ پڑھنے کے لئے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم کا جو شجرہ شریف عطا فرمایا ہے، اُس میں حضرتِ امام موسیٰ کاظم، آپ کے صاحبزادے حضرتِ امام علی رضا اورآپ کے والدِمحترم حضرتِ امام جعفرِ صادق رحمۃُ اللہِ علیہم کےوسیلے سے یوں دُعا کی گئی ہے: صِدْقِ صادق کا تَصَدُّق صادق الاسلام کر بے غَضَب راضی ہو کاظِم اور رضا کے واسطے الفاظ معانی:صِدق:سچ۔ صادِق:سَچّا۔ تصدُّق :صدقہ۔ صادِق الاسلام:سچا مسلمان شرح شجرہ شریف:یااللہ پاک!تجھے حضرتِ امام جعفرِصادق رحمۃُ اللہِ علیہ کی سچائی کا واسطہ! مجھے ایمان کی سلامتی عطا فرما دے اور حضرتِ امام موسیٰ کاظم اور اِن کے صاحبزادے حضرتِ امام علی رضا رحمۃُ اللہِ علیہ کے صدقے بغیر غَضَب فرمائے مجھ سے راضی ہوجا۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    جیسا لقب ویسی ذاتِ مبارک

    شہزادۂ عالی وقار،حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی مبارک راتیں عبادت میں اور دِن روزے کی حالت میں گزرتے،بہت زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سےآپ کو ’’عبدِ صالح ‘‘ یعنی نیک بندہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔حلم و بُردباری (یعنی قوتِ برداشت) کا یہ عالَم تھا کہ آپ کا لقب ’’ کاظم ‘‘ (یعنی غصہ پینے والا) آپ کی پہچان بن گیا ہے۔عاجزی و انکساری کی یہ کیفیت تھی کہ جب کوئی آپ کے سامنے آتا تو اُس کے سلام عرض کرنے سے پہلے آپ خود سلام میں پہل فرمادیتے۔اگر معلوم ہوتا کہ کوئی آپ کو تکلیف پہنچانے میں لگا ہوا ہے توآپ اس کی بھی ضرورت پوری فرماتے۔ (تاریخ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 156 بتغیر) اے عاشقانِ امام موسیٰ کاظم!ہمارے امام کی عاجزی و سادگی پر لاکھوں سلام ہوں، کاش! ہم بھی امامِ کاظم کے صدقے اپنے غصے کو پی جانے والے بن جائیں،بارہا غصہ پی جانا بہت سارے مسائل کا حل اور لڑائیوں کو ختم کرنے کا سبب بن جاتاہے۔ گھر اور کاروبار کے جھگڑے مول لے کر غم کے آنسو پینے سے غصہ پینا کئی درجے بہتر ہے، غصے کے دو گھونٹ پی لینا طویل زندگی غیظ و غضب میں جلتے رہنے سے بہتر ہے۔غصہ پینے کا کتنا ثواب ہے، آئیے! آپ کی ترغیب کے لئے چند فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پیش کرتا ہوں ۔

    ” جنّت “کے تین حُروف کی نسبت سے غصہ پینے کے بارے میں تین احادیث

    ﴿ 1اللہ پاک کے پیارے پیارے آخِری نبی ،مکی مدنی ،محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے معراج کی رات جنت میں اونچے محلات دیکھے تو پوچھا:اے جبریل! یہ کس کے لئے ہیں ؟ عرض کی: اُن کے لئے ہیں جو غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں ۔( مسند الفردوس ، 1/405، حدیث: 3011) ﴿ 2بندے کے غصہ پی لینے سے بڑھ کر کوئی گھونٹ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں اور جو اللہ پاک کی رضا کے لئے غصہ پی لے اللہ پاک اس کے دل کو ایمان سے بھردے گا۔ (مسند امام احمد، 1/700، حدیث: 3017) ﴿ 3آدمی کا کوئی گھونٹ پینا اُس غصے کے پینے سے افضل نہیں جو وہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے پیتا ہے۔( ابن ماجہ ، 4/463، حدیث: 4189) سُن لو! نقصان ہی ہوتا ہے باِلآ خِر ان کو نفْس کے واسطے غصّہ جو کیا کرتے ہیں (وسائلِ بخشش، ص 294) پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی چاہئے کہ گھر، آفس آتے جاتے،راہ چلتے اپنے مسلمان بھائیوں کو سلام میں پہل کریں ،سلام میں پہل کرنا حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے پیارے پیارے ناناجان ، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری سنت ہے۔امیرِ اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اپنی کتاب 550 سنتیں اور آداب صفحہ 31 پر لکھتے ہیں:سلام میں پہل کرنے والا اللہ کریم کا مُقَرَّب (یعنی نزدیکی پانے والا بندہ) ہے۔(ابو داود، 4/449، حدیث: 5197) سلام میں پہل کرنے والا تکبُّر سے بھی بَری (یعنی آزاد) ہے، جیسا کہ میرے مکی مَدَنی آقا، پیارے پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ باصَفا ہے: پہلے سلام کہنے والا تکبُّر سے بری ہے۔ (شعب الایمان، 6/433 ، حدیث: 8786) کیمیائے سعادت میں ہے:سلام (میں پہل) کرنے والے پر 90 رحمتیں اور جواب دینے والے پر 10 رحمتیں نازِل ہوتی ہیں۔ (550سنتیں اور آداب، ص 31۔ کیمیائے سعادت، 1/394) مطیع اپنا مجھ کو بنا یاالٰہی سدا سُنّتوں پر چلا یاالٰہی صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    سخاوت و کرم کی عطا

    میرے مُرشد ،حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے جُود و سخا کا یہ عالَم تھا کہ مدینہ ٔ پاک میں غریبوں کو تلاش کرتے اور ہر ایک کو رات کے وقت اس کی ضرورت کے مطابق رقم اِس طرح پہنچاتے کہ اُسے خبر تک نہ ہوتی کہ یہ رقم کون دے کر گیا ہے ۔ (تاریخ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 156) سُبْحٰنَ اللہ ! سُبْحٰنَ اللہ ! سُبْحٰنَ اللہ ! اللہ پاک کے نیک بندوں کی کیا شان ہے،نیکی کر کے اسے چھپانا مخلصین ہی کا حصّہ ہے کیونکہ اللہ پاک کے نیک بندے مخلوق سے بدلے یا شکریہ کی خواہش کیا توقع بھی نہیں رکھتے،جبھی تو غریبوں کی اس طرح امداد فرماتےکہ اُنہیں بھی اپنے محسن (یعنی احسان کرنے والے) کا پتا نہ چلتا۔اللہ کریم!اپنے مخلصین کے صدقے ہمیں بھی اخلاص کی دولت سے نوازے۔افسوس ! صد کروڑ افسوس!ہمیں حُب جاہ اور واہ وا کی خواہش نے کہیں کا نہیں چھوڑا ، مسجد میں پانچ سو،ہزار روپے دینے والے کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا نام لے کر دعا کی جائے۔مسجد ، مدرسے کا تعمیراتی کام کروا دیا یا کوئی سامان لے کر دے دیا تو تمنا ہوتی ہے کہ نمازیوں کو ہمارے کارنامے کا پتا چلے۔یقیناً ہرگز ان باتوں کی وجہ سے کسی پر ریاکاری یا حُب جاہ کا حکم نہیں لگایا جاسکتا لیکن ایسے کرنے والے کو خود اپنی نیت پر ضرور غور کر لینا چاہئے کہ مسجد،مدرسے میں گیزر لے کر دینے پر لوگوں کے سامنے نام لے کر دعا کروانے کی خواہش دل میں کیوں چٹکیاں لے رہی ہے یا مسجد میں سخت گرمی کے موسم میں ”اے ۔سی“ لگوانے پر دل میں کیوں ہَل چَل مچ رہی ہے کہ سب کے سامنے میرا اعلان ہو کہ یہ میں نے لے کر دیا ہے۔ایسے ہی مساجد و مدارس میں عطیہ کی گئی چیزوں پر ” برائے ایصالِ ثواب‘‘ اپنا نام لکھواتے وقت سو مرتبہ دل پرغور کیجئے۔ خدانخواستہ نیت میں فساد (یعنی خرابی ) ہو تو فوراً توبہ کیجئے اور اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔حدیثِ پاک میں ہے: ”بے شک جہنّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنّم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے، اللہ پاک نے یہ وادی اُمّتِ محمدیہ کے اُن رِیاکاروں کے لئے تیّار کی ہے جو غیرُ اللہ کے لئے صدقہ کرنے والے ہوں گے۔‘‘ (معجم کبیر، 12/136، حدیث: 12803) مزید معلومات کےلئے مکتبۃ المدینہ سے مطبوعہ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب احیاء العلوم جلد 5صفحہ 255 سے اخلاص کے باب کا مطالعہ کیجئے۔حضور مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: نفسِ بدکار نے دل پر یہ قیامت توڑی عملِ نیک کیا بھی تو چھپانے نہ دیا (سامانِ بخشش،ص 72) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    غریب کی مدد (واقعہ)

    عیسیٰ بن محمد مُغیث قرشی رحمۃُ اللہِ علیہ نے بیان کیا جبکہ اُن کی عمر 90سال ہو چکی تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے جُوانیہ بستی میں اُمِّ عظام نامی کنویں کے پاس تربوز، ککڑی اور کدّو کی فصل کاشت کی، جب کھیتی تیار ہوگئی اور کٹائی کا وقت قریب آیا تو ٹڈیوں نے حملہ کرکے ساری فصل تباہ و برباد کردی،میں کھیت اور دو اونٹوں کی قیمت کے سلسلے میں 120 دینار کا مقروض ہو چکا تھا۔ میں اسی پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ تشریف لائے اور سلام کرنے کے بعد پوچھا : تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا: میں ٹوٹے ہوئے پھل کی طرح رہ گیا ہوں، ٹڈیوں نے حملہ کرکے میری ساری فصل کھالی ہے۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : تم پر کتنا قرض ہے؟ عرض کیا: دو اونٹوں کی قیمت سمیت 120 دینار کا مقروض ہوں۔آپ نے (اپنے ساتھی سے) فرمایا:اےعرفہ ! ابو مغیث کو 150 دینار تول دو ، (اور فرمایا:) ہم تمہیں (کھیت کے علاوہ) 30 دینار اور دو اونٹوں کا اضافی منافع دیتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: اے مبارک! (برکت والے ) اندرتشریف لائیں! اور اس میں میرے لئے (خیر و برکت کی) دعا کر دیں ، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اندر تشریف لائے اور دعا کی ، پھر مجھے حدیثِ پاک سُنائی کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں: ”مصیبتوں سے بچی ہوئی چیزوں کو سنبھال رکھو۔“ پھر میں نے اونٹوں کو اسی کھیت میں لگائے رکھا اور کھیتی کو سیراب کیا۔ اللہ پاک نے اُس کھیتی میں ایسی برکتیں عطا فرمائیں کہ کاشت میں خوب اضافہ ہوا اور میں نے اس میں سے کچھ حصہ بیچ کر 10 ہزار دینار کمالیے ۔ (تاریخِ بغداد ، 13/30) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!زندگی کی گاڑی مسائل کےپہیوں ہی پرچلتی ہے، سمجھدار وہ ہے جو زندگی کے مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا رہے ،مسائلِ زیست کو کوسنے سے کچھ نہیں ہوگا اللہ پاک کی بارگاہ میں سر کو جھکائیے کہ قلبِ مضطرب (یعنی بے قرار دل) کے ساتھ دعا کرنے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔گھنٹوں مُلکی ،سماجی اور معاشرتی پہلوؤں پر فقط بحث و مباحثہ (Debate) کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر کسی غریب مسلمان کا ہاتھ تھامیں اور اپنی حیثیت کے مطابق اُس کی مالی مدد کریں۔ دوسروں کے مسائل حل کریں آپ کے مسائل بھی حل ہوتے چلے جائیں گے۔اللہ کریم ہمیں امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی مبارک سیرت پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    مُرادیں پوری ہونے کا دروازہ

    میرے آقا و مولا،حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ مُسْتَجابُ الدّعوات تو تھے ہی (یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں بلکہ) جو لوگ آپ کے وسیلے سے دُعا کرتے یا آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سے دُعا کرواتے وہ بھی اپنی مُرادیں پالیتے ، اُن کی خالی جھولیاں گوہرِ مراد (یعنی دلی مرادوں ) سے بھر جاتیں، اسی وجہ سے عراق کے رہنے والے آپ کو بابُ الحوائج (یعنی ضروریات پوری ہونے کا دروازہ) کہتے تھے۔(تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 155۔صواعق المحرقہ،اردو،ص، 674)

    قبولیتِ دُعا کا آزمایا ہوا مقام

    کروڑوں شافعیوں کے امام ،حضرتِ امام محمد بن ادیس شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہو کر دعا کرنا قبولیت میں مُجَرَّب (یعنی آزمایا ہوا) ہے۔ (لمعات التنقیح، 4/215) فقۂ حنبلی کے بہت بڑےامام حضرتِ امام خلّال رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب بھی کوئی اہم کام پیش آتا ہے ،میں حضرتِ امام موسیٰ کاظم بن جعفر صادق (رحمۃُ اللہِ علیہما) کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوکر آپ کا وسیلہ پیش کرتا ہوں ۔ اللہ پاک میری مشکل آسان کر کے میری مراد عطا فرما دیتا ہے ۔(تاریخ بغداد، 1/133) والدِ اعلی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب ’’ اَحْسَنُ الْوِعَا لِآدَابِ الدُّعَا‘‘ کا اُردو نام ’’فضائلِ دعا‘‘ ہے ،آپ نے اس کتاب کے باب امکنہ ٔ اجابت ”یعنی وہ مبارک مقامات جن پر دعا ئیں قبول ہوتی ہیں،اِس“ میں چھتیسواں (36th) مقام حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کا مزارِ مبارک لکھا ہے ۔ (فضائل دعا،ص 137) بھکاری بن کے اس دَر پر جو مانگو گے وہ پاؤ گے کہ اَربابِ نظر بابِ اِجابت اس کو کہتے ہیں صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    صحابہ واہلِ بیت کی فضیلت

    اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت!دونوں جہاں میں نجات پانے کےلئے صحابہ و اہلِ بیت سے محبت و الفت ہونا ضروری ہے،معاذاللہ ان میں سے کسی کے بارے میں بھی دِل میں کمزور بات آئی تو بربادیٔ ایمان کا سبب ہوسکتاہے ، ان دونوں حضرات کی محبت ہی جنت میں لے کر جائے گی۔احادیثِ مبارکہ میں جہاں” اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْم، فَبِاَیِّهِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِهْتَدَیْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہے، اِن میں سے جس کی بھی اِقتدا کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔“(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414 ، حدیث: 6018) فرمایا گیا ، وہیں حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے: مَثَلُ اَهْلِ بَیْتِيْ فِیْکُمْ مَثَلُ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ مِنْ قَوْمِه مَنْ رَکِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرَقَ یعنی تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال کشی ٔ نوح کی طرح ہے ، جو اس میں سوار ہوا ، وہ نجات پا گیا اور جو پیچھے رہا ہلاک ہو گیا۔“ (مستدرک، 4/132، حدیث: 4774) صحابہ ہیں سب مِثلِ انجم دَرَخْشاں سفینہ ہے اُمّت کا عِترت نبی کی

    (قبالۂ بخشش،ص315)

    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    بھائی کی شان

    حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے ایک بھائی کا نام محمد بن جعفر رحمۃُ اللہِ علیہ تھا ، یہ بھی بڑی شان و مرتبے کے مالک تھے، بہادر،عقلمند اوراُمت کی خیرخواہی فرمانے والے تھے۔آپ صومِ داؤدی یعنی ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن افطارکرتے تھے۔ آپ کا انتقال شریف شعبانُ المعظم میں جُرجان کے مقام پرہوا۔(سیراعلام النبلا،8/426)

    عبادت و ریاضت

    روایت میں ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیشہ ساری رات نفل نماز پڑھتے یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو جاتا۔آپ یہ دُعا بہت زیادہ مانگا کرتے تھے : اَللّٰهُمَّ اِِنِّیْ اَسْاَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابْ یعنی اےاللہ پاک! میں تجھ سے موت کے وقت آسانی اور حساب کے وقت معافی کا سوال کرتا ہوں ۔ایک مرتبہ آپ مسجدِ نبوی شریف میں داخل ہوئے اور شروع ِ رات میں سجدہ کیا تو سنا گیا کہ آپ سجدے کی حالت میں بارگاہِ الٰہی میں عرض کر رہے ہیں ’’ عَظُمَ الذَّنْبُ عِنْدِیْ، فَلْيَحْسُنِ العَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ ‘‘ میرے گناہ بہت زیادہ ہوگئے لہٰذا اے اللہ پاک! تیری طرف سے معافی بھی اتنی زیادہ ہونی چاہئے۔ آپ یہ کہتے رہے یہاں تک صبح ہوگئی۔ (تاریخ بغداد،13/ 29 ۔ سیر اعلام النبلاء، 6/448) فضل کر رحم کر تو عطا کر اور مُعاف اے خدا ہر خطا کر واسطہ پنجتن پاک کا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    قید میں بھی عبادت

    حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کو جب مَعاذَاللہ قید میں رکھا گیا تو آپ کےدن رات کے معمولاتِ مبارَکہ دیکھنے والی کنیز کا بیان ہے کہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نمازِ عشا ادا فرما لینے کے بعد اللہ پاک کی حمد و ثنا (یعنی تعریف و توصیف بیان کرنے) میں مصروف رہتے اور پھر دُعا مانگتے، رات کا کافی حصہ گزر جانے کے بعد پھر کھڑے ہوتے اورصبح تک نماز پڑھتے رہتے، نمازِ فجرکے بعد ذکرُ اللہ کرتے رہتے یہاں تک کہ سورج طُلوع ہو جاتا پھر ضحوۂ کبریٰ تک مراقبہ فرماتے ،اس کے بعد مسواک وغیرہ کر کے کھانا کھاتے، پھر کچھ دیر آرام فرما کر وضو کرتے اور نفل نماز پڑھتے رہتے حتّی کہ نمازِ عصر پڑھ لیتے پھر قبلے کی طرف منہ کرکے ذکرُ اللہ کرتے رہتے یہاں تک کہ مغرب کی نماز ادا فرماتے۔ نیز مغرب اور عشا کے درمیانی وقت میں بھی نفل نماز ادا فرماتے رہتے ۔ کنیز کہتی ہیں : وہ لوگ بڑے بد نصیب ہیں جو ایسے نیک شخص کو پریشان کرتے ہیں ۔(تاریخ بغداد، 13/33)

    اللہ پا ک پر توکل کی بہترین مثال

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیگر خصوصیات کے ساتھ حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ تَوکُّل عَلَی اللہ ”یعنی اللہ پاک پر بھروسے “کے بہت بلند درجے پر فائز تھے، ظلماً قید میں رکھے جانے کے سبب اگرچہ کسی سے رہائی کا فرمانا توکل کے خلاف نہ تھا مگر آپ اپنے معمولاتِ مبارکہ میں خدائے پاک کے علاوہ کسی سے ذکر کرنا پسند نہ فرماتے۔ لہٰذا آ پ نے خلیفہ ٔ وقت کے نام ایسا خط لکھا کہ جو آپ کی جراءت مندی کا منہ بولتا ثبوت ہے: آپ نے لکھا: اے خلیفہ!جیسے جیسے میری آزمائش کے دن گزر رہے ہیں ویسے ویسے تمہارے عیش و راحت کے دن بھی کم ہو رہے ہیں یہاں تک کہ ہم دونوں ایک ایسے دن (یعنی قیامت میں) ملیں گے جب بُرے کام کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔ (سیر اعلام النبلاء ، 6/450)

    خواب میں دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

    حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کےقید و بند کےدنوں میں ایک رات آپ کو خواب میں اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی،مکی مدنی محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِ رشاد فرمایا:اے موسیٰ ! تم ظلماً قید میں ہو،میں چند کلمات سکھاتا ہوں،اگر تم ان کو پڑھو تو تم آج ہی کی رات قید سے رہا ہو جاؤ گے،وہ کلمات یہ ہیں: يَاسَامِعَ كُلِّ صَوْتٍ، وَيَاسَابِقَ الْفَوْتِ، وَيَاكَاسِیَ الْعِظَامِ لَحْمًا وَّمُنْشِرَهَا بَعْدَ الْمَوْتِ، اَسْاَلُكَ بِاَسْمَائِكَ الْحُسْنٰى وَ بِاِِسْمِكَ الْاَعْظَمِ الْاَكْبَرِ الْمَخْزُوْنِ الْمَكْنُوْنِ الَّذِیْ لَمْ يَطَّلِعْ عَلَيْهِ اَحَدٌ مِّنَ الْمَخْلُوْقِيْنَ، يَاحَلِیْمًا ذَا اَ نَاةٍ لَايَقْوٰى عَلٰى اَ نَاتِه، يَاذَا الْمَعْرُوْفِ الَّذِیْ لَايَنْقَطِعَ اَ بَداً وَلَايُحْصٰى عَدَداً، فَرِّجْ عَنِّیْ ۔ ”ترجمہ: اے ہر آواز سننے والے ! اے ہر نقص ومحرومی سے پاک ! اے ہڈّیوں پر گوشت چڑھانے اور موت کے بعد اُن (ہڈّیوں) کو جمع کرنے والے ! میں تجھ سے تیرے سب اچھے ناموں اور تیرے اُس بڑے اسمِ اعظم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں، جو چھپا ہوا خزانہ ہے جس کی مخلوق میں سے (تیری عطا کے بغیر) کسی کو خبر نہیں ،اے حلم والے! حلیمی فرمانے والے کہ ایسی حلیمی کی کسی اور کو طاقت نہ ہو، اے نہ ختم ہونے والی بے شمار بھلائی والے! میری مصیبت دور فرمادے۔“ (وفیات الاعیان ، 4/504 ملخصا)

    والدِ محترم کی سونے سے لکھی جانے والی نصیحتیں

    حضرتِ ہیثم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضرتِ امام جعفرصادق رحمۃُ اللہِ علیہ کے ایک شاگرد نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں آپ کی خدمت ِسراپا عظمت میں حاضر ہوا تو آپ کے لختِ جگر حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ ان کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ انہیں نصیحتیں فرما رہے تھے کہ اے میرے بیٹے!میری نصیحت قبول کرلو اور میری باتوں کو یاد رکھنا اگر انہیں یاد رکھو گے تو زندگی بھی اچھی گزرے گی اور موت بھی قابلِ رشک ہو گی۔ اے میرے بیٹے!مال دار وہ ہے جو اللہ پاک کی تقسیم پر راضی رہے اور جو دوسرے کے مال پر نظر رکھے وہ غربت کی حالت میں ہی مرتاہے۔ اللہ پاک کی تقسیم پر راضی نہ رہنے والا گویا اللہ پاک کواس کےفیصلےمیں مُتَّہَم ٹھہراتاہے۔اپنی غلطی کو چھوٹا سمجھنے والا دوسرے کی غلطی کو بڑا اور دوسرے کی غلطی کو چھوٹا خیال کرنے والا اپنی غلطی کو بڑا سمجھتا ہے۔ اے میرے بیٹے!دوسرے کے عیبوں سے پردہ ہٹانے والے کے اپنے عیب ظاہر ہو جاتے ہیں۔ کسی کے لئے گڑھا کھودنے والا خود ہی اس میں جاگرتا ہے۔ بےوقوفوں کی صحبت میں بیٹھنے والا حقیر و ذلیل ہوتا جبکہ عُلَما کی صحبت اختیار کرنے والا عزت پاتاہے اور برائی کے مقام پر جانے والا متہم (یعنی برائی کرنے کے الزام میں مبتلا) ہوتا ہے۔اے میرے بیٹے!لوگوں پر عیب لگانے سے بچنا ورنہ لوگ تم پر عیب لگائیں گے اور فضول باتوں سے بچنا ورنہ ان کی وجہ سے ذلیل و رُسوا ہوگے۔اے میرے بیٹے!حق بات ہی کہنا خواہ تمہارے حق میں ہو یا خلاف کیونکہ مذمَّت کا سامنا تمہیں اپنے دوستوں کی طرف سے ہی کرنا پڑے گا۔اے میرے بیٹے!قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے رہنا، سلام کو عام کرنا، نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے منع کرنا، رشتے داری توڑنے والے سے رشتہ جوڑنا، جو تم سے بات نہ کرے اس سے بات کرنے میں پہل کرنا، جو تم سے مانگے اسے عطا کرنا، چغلخوری سے بچنا کہ یہ دلوں میں بغض پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے عیبوں کے پیچھے نہ پڑنا کہ یہ چیز خود کو (مذمت وتہمت کا) ہدف بنانے کے قائم مقام ہے۔اے میرے بیٹے!اگر اچھائی کے طلب گار ہو تو اس کے مَعادِن کو لازم جانو،بے شک بھلائی کے مَعادِن ہیں اور مَعادِن کی کوئی اصل (جڑ) ہوتی ہے اور اصل کی شاخیں ہوتی ہیں اورشاخوں کے ساتھ پھل ہوتے ہیں اور پھل اپنے اصول کے ساتھ ہی اچھے ہوتے ہیں اور جڑ اُسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب زمین اچھی ہو۔ اے میرے بیٹے!اگر ملاقات کی خواہش ہو تو نیک لوگوں سے ملنا، فُسّاق و فُجَّار سے نہ ملنا کہ فُسّاق و فُجار پتھر کی اس چٹان کی طرح ہیں جس سے پانی نہیں بہتا،ایسے درخت کی طرح ہیں جو سر سبز و شاداب نہیں ہوتا، وہ بنجر زمین کی مثل ہیں جس پر گھاس نہیں اُگتی۔ حضرتِ امام علی بن موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضرت امام جعفرصادق رحمۃُ اللہِ علیہ نے یہ وصیت فرمائی اور آپ کا انتقال شریف ہوگیا اور میرے والدِ محترم حضرت امام موسیٰ کا ظم رحمۃُ اللہِ علیہ آخری وقت تک اس وصیت پر عمل کرتے رہے ۔ (حلیۃ الاولیا،3/228)

    شہادت

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ایک روایت کے مطابق آپ کا 55 سال کی عمر میں انتقال شریف ہوا۔ (تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ،ص84) 25 رجَبُ المرجب 183ھ کوآپ رحمۃُ اللہِ علیہ مرتبہ ٔشہادت کو پہنچے۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا مزارِ پُر اَنوار بغدادِ معلّی میں کاظمین شریف کے مقام پر واقع ہے۔ (تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ،ص163۔تاریخ بغداد،13/33)

    علامہ خطیب بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آ پ کا مزار شریف مشہور و معروف ہے، زائرین حاضری کے لئے آتے ہیں، وہاں سونے چاندی کی قندیلیں اور کئی قسم کے قالین و آرائش کی چیزیں ہیں ۔(وفیات الاعیان،4/505)

    فرمانِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ

    حضرتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے جانشین و خلیفہ،حضرت ا مام علی رضا رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے والدِ محترم کا مبارک فرمان بیان فرماتے ہیں کہ جب دنیا کسی انسان کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اسے عارضی خوبیاں دیتی ہے اور جب کسی سے پیٹھ پھیرتی ہے تو اُس سے اس کی اپنی خوبیاں لے جاتی ہے۔(سیر اعلام النبلاء ، 8/249)

    منقبتِ امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ

    عشق ہے جن کا ہم پر لازم موسیٰ کاظم موسیٰ کاظم ہم ہیں جن کے در کے ملازم موسیٰ کاظم موسیٰ کاظم جُود و سخا ہے شان تمہاری عفو و کرم ہے کام تمہارا ہم بھی رہیں گے سائل دائم موسیٰ کاظم موسیٰ کاظم چودہ برس تک جیل میں ٹھہرے ظلم کو سہتے کچھ نا کہتے یوں کہتے ہیں تم کو کاظم موسیٰ کاظم موسیٰ کاظم آلِ نبی سے بغض و عداوت کرنے والوں پر ہو لعنت غرق ہوئے ہیں تیرے شاتم موسیٰ کاظم موسیٰ کاظم جس کا کوئی کام رُکا ہو مشکل کیسی سر پہ کھڑی ہو آؤ اُجاگر بن کے خادم موسیٰ کاظم موسیٰ کاظم (شاعر: مولانا نثار علی اُجاگر صاحب ) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن