اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن سُستی دلائے گا مگر آپ یہ رِسالہ (۲۶صَفحات) پورا پڑھ کر ایمان تازہ کیجئے۔
نبیوں کے سلطان ، رحمتِ عالمیان، سردارِ دوجہان محبوبِ رحمن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے: جس نے مجھ پر روزِ جُمُعہ دو سو بار دُرُودِ پاک پڑھا اُس کے دو سو سال کے گناہ مُعاف ہوں گے۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۷ ص۱۹۹حدیث۲۲۳۵۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلا می بھا ئیو ! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ تَبارَکَ و تَعَالٰی نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں جُمُعۃُ الْمبارَک کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ افسوس! ہم نا قدرے جُمُعہ شریف کوبھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزار دیتے ہیں حالانکہ جُمُعہ یومِ عید ہے، جُمُعہ سب دنوں کا سردار ہے، جُمُعہ کے روز جہنَّم کی آگ نہیں سُلگائی جاتی، جُمُعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے ، جُمُعہ کو بروزِ قِیامت دلہن کی طرح اُٹھایا جائیگا، جُمُعہ کے روز مرنے والا خوش نصیب مسلمان شہید کا رُتبہ پاتا اور عذاب قَبْرسے محفوظ ہو جاتا ہے۔ مُفسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان کے فرمان کے مطابق، جُمُعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستَّر حج کے برابر ہے ، جُمُعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستّرگنا ہے۔ (چونکہ جمعہ کا شرف بہت زیادہ ہے لہٰذا ) جُمُعہ کے روز گناہ کاعذاب بھی ستّرگناہے۔ (مُلَخَّص از مِراٰۃ ج۲ص ۳۲۳، ۳۲۵ ، ۶ ۳ ۳)
جُمُعۃُ المُبارَک کے فضائل کے تو کیا کہنے !اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے جُمُعہ کے متعلق ایک پوری سورت ’’ سُوْرَۃُ الْجُمُعَہ’’ نازِل فرمائی ہے جو کہ قراٰنِ کریم کے 28ویں پارے میں جگمگا رہی ہے ۔ سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر 9میں ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۹)
ترجَمۂ کنزالایمان: ا ے ایمان والو ! جب نَماز کی اذان ہوجُمُعہ کے دن تواللہ کے ذِکر کی طرف دوڑواور خریدوفروخت چھوڑدو، یہ تمہار ے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی فرماتے ہیں: حضور علَیھمُ السّلام جب ہجرت کر کے مدینۂ طیِّبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ( 622ء) روز دو شنبہ (یعنی پیر شریف ) کو چاشت کے وَقت مقامِ قُباء میں اِقامت فرمائی۔ دو شنبہ (یعنی پیر شریف) سے شنبہ (یعنی منگل) چہار شنبہ (یعنی بدھ) پنجشنبہ (یعنی جمعرات) یہاں قِیام فرمایا اور مسجِد کی بنیاد رکھی۔ روزِجُمُعہ مدینۂ طیِّبہ کاعَزم فرمایا۔ بنی سالم ابنِ عَوف کے بَطنِ وادی میں جُمُعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجِد بنایا۔ سیّدِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جُمُعہ ادا فرمایا اور خطبہ فرمایا۔ (خَزا ئِنُ الْعِرفا ن ص ۸۸۴)
اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ آج بھی اُس جگہ پر شاندار مسجدِ جُمُعہ قائم ہے اور زائرین حُصولِ بَرَکت کیلئے اُس کی زیارت کرتے اور وہاں نوافِل ادا کرتے ہیں ۔
مفسرشَہیرحکیمُ الامّت حضرتِ مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان فرماتے ہیں : چُونکہ اس دن میں تمام مخلوقات وُجُود میں مُجْتَمَع ( یعنی اکٹھی) ہوئی کہ تکمیلِ خَلق اِسی دن ہوئی نیز حضرتِ آدم علَیھِ السّلام کی مِٹّی اسی دن جمع ہوئی نیز اس دن میں لوگ جمع ہوکر نَمازِجُمُعہ ادا کرتے ہیں ، ان وُجُوہ سے اِسے جُمُعہ کہتے ہیں ۔ اِسلام سے پہلے اہلِ عَرَب اسے عَرُوبہ کہتے تھے۔ (مِراٰۃالمناجیح ج۲ص۳۱۷)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تقریباً پانچ سو جُمُعے پڑھے ہیں اِس لئے کہ جُمُعہ بعدِ ہجرت شُروع ہوا جس کے بعد دس سال آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہِری زندَگی شریف رہی اس عرصہ میں جُمُعے اتنے ہی ہوتے ہیں ۔ (مِراٰۃ ج۲ص۳۴۶، لمعات للشیخ عبد الحق الدہلوی ج۴ص۱۹۰ تحتَ الحدیث۱۴۱۵)
اللہ کے مَحْبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جو شخص تین جُمُعہ (کی نَماز) سُستی کے سبب چھوڑے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے دل پر مُہر کر دے گا۔ ‘‘ (سُنَنِ تِرمِذی ج۲ص۳۸حدیث۵۰۰)
جُمُعہ فرضِ عَین ہے اور اس کی فرضیّت ظہر سے زیادہ مُؤَکَّد (یعنی تاکیدی) ہے اور اس کا منکِر (یعنی انکار کرنے والا) کافِر ہے۔ (دُرِّمُختار ج ۳ص۵، بہارِ شریعت ج۱ص۷۶۲)
سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِرشادِ رَحمت بنیاد ہے: ’’بے شک اللہ تَعَالٰی اور اس کے فرِشتے جُمُعہ کے دن عمامہ با ند ھنے والوں پر دُرُود بھیجتے ہیں ۔ ‘‘ (مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۲ص۳۹۴حدیث۳۰۷۵)
حضرتِ حمید بن عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والِد سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: ’’ جو شخص جُمُعہ کے دن اپنے ناخن کاٹتا ہے اللہ تَعَالٰی اُس سے بیماری نکال کرشِفا داخِل کردیتا ہے۔ ‘‘ (مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ ج۲ص۶۵)
صدرُالشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ مولاناامجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں ، حدیثِ پاک میں ہے: جو جُمُعہ کے روز ناخن تَرَشوائے اللہ تعالٰی اُس کو د و سر ے جُمعے تک بلاؤں سے محفوظ رکھے گا اور تین دن زائد یعنی دس دن تک۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جو جُمُعہ کے دن ناخن تَرَشوائے تو رَحمت آ ئے گی گناہ جائیں گے۔ (بہارِ شریعت حِصَّہ۱۶ ص۲۲۶، دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۶۸، ۶۶۹)
صدرُالشَّریعہ، بدرُالطَّریقہ حضرتِ مولانامحمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : جُمُعہ کے دِن ناخن تَرشوانا مُستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جُمُعہ کا انتِظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا اچّھا نہیں کیوں کہ ناخنوں کا بڑاہونا تنگیٔ رِزق کا سبب ہے۔ (بہارِ شریعت حِصَّہ۱۶ ص۲۲۵)
مصطَفٰے جانِ رحمت ، شمعِ بزمِ ہدایت، نَوشَۂ بزمِ جنَّت، مَنبع جُودوسخاوت، سراپا فضل و رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِرشادِ رَحمت بنیاد ہے: ’’جب جُمُعہ کا دن آتاہے تو مسجِد کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک اُونٹ صَدَقہ کرتاہے، اوراس کے بعد آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صَدَقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اُس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صَدَقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صَدَقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا صَدَقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے) بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں ۔ ‘‘ (صَحیح بُخاری ج۱ص۳۱۹حدیث۹۲۹)
مُفسّرِشَہیرحکیمُ الامّت حضرتِ مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان فرماتے ہیں : بعض عُلَماء نے فرمایا کہ ملائکہ جُمُعہ کی طُلُوعِ فَجر سے کھڑے ہوتے ہیں ، بعض کے نزدیک آفتاب چمکنے سے، مگر حق یہ ہے کہ سُورج ڈھلنے (یعنی ابتدائے وقتِ ظہر) سے شُرُوع ہوتے ہیں کیو نکہ اُسی وقت سے وقتِ جُمُعہ شُروع ہوتاہے ، معلوم ہوا کہ وہ فِرِشتے سب آنے والوں کے نام جانتے ہیں ، خیال رہے کہ اگر اوَّلاً سو آدَمی ایک ساتھ مسجِد میں آئیں تو وہ سب اوّل ہیں ۔ (مِراٰۃ ج۲ص۳۳۵)
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں : پہلی صَدی میں سَحَری کے وقت اور فجر کے بعد راستے لوگوں سے بھرے ہوئے دیکھے جاتے تھے، وہ چَراغ لیے ہوئے ( نمازِ جُمُعہ کیلئے ) جامِع مسجِد کی طرف جاتے گویا عید کا دن ہو ، حتّٰی کہ یہ (یعنی نمازِ جمعہ کیلئے جلدی جانے کا) سلسلہ ختم ہوگیا۔ پس کہا گیا کہ اسلام میں جو پہلی بِدعت ظاہِر ہوئی وہ جامِع مسجِد کی طرف جلدی جاناچھوڑنا ہے۔ افسوس! مسلمانوں کو کسی طرح یہودیوں سے حَیا نہیں آتی کہ وہ لوگ اپنی عبادت گاہوں کی طرف ہفتے اور اتوار کے دن صُبح سویرے جاتے ہیں نیز طلبگارانِ دنیاخرید و فروخت اورحصولِ نَفعِ دُنیوی کیلئے سویرے سویرے بازاروں کی طرف چل پڑتے ہیں تو آخِرت طلب کرنے والے ان سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے ! (اِحیاءُالْعُلوم ج۱ص۲۴۶) جہاں جُمُعہ پڑھا جاتا ہے اُس کو ’’ جامع مسجِد‘‘ بولتے ہیں ۔
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرکارِ نامد ا ر ، باِذنِ پروردگار دو عالم کے مالِک و مختار، شَہَنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اَلْجُمُعَۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جُمُعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ اَلْجُمُعَۃُحَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جُمُعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۴ ص۸۴ حدیث۱۱۱۰۹، ۱۱۱۰۸)