30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی خَاتَمِ النّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط فیضانِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ دُعائے عطار: یا اللہ پاک! جوکوئی 27صفحات کا رسالہ ”فیضانِ جنید بغدادی “ رحمۃ اللہ علیہ پڑھ یا سُن لے اُسے اولیائے کرام کے فیضان سے مالا مال فرما کر بے حساب بخش دے اوراُسے جنّت الفردوس میں اپنے پیارے پیارے آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس نصیب فرما ۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمدُرود شریف تمام عبادات سے افضل
حضرتِ فَقِیہ ابُو اللَّیْث سَمَرقَنْدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر تم معلوم کرنا چاہو کہ دُرود شریف باقی تمام عبادات سے افضل ہے تو اِس آیت(یعنی آیت ِدرود)میں غور کرو۔ کیونکہ اللہ پاک نے باقی عبادات کا اپنے بندوں کو حکم ارشادفرمایا ہے اور درود ِپاک پہلے خود بھیجا پھر فرشتوں کو اس کا حکم فرمایا اورپھر تمام ایمانداروں کو بھیجنے کا حکم دیا۔(مطالع المسرات،ص23) خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مُحَدِّثِ اَعْظَم ہند حضرت مولانا شاہ ابو المَحامِد سَیِّد محمد اشرفی جیلانی کَچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: شُغْل(1) وہ ہوکہ شَغْل میں کردے ہمیں خدا کے ساتھ پڑھئے درود جُھوم کر سید خوش نوا کے ساتھ (فرش پرعرش ،ص 68) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدمالدار ی دل سے ہے نہ کہ مال سے
اللہ پاک کے ایک بہت بڑے ولی کی خدمتِ بابرکت میں ایک مالدار شخص نے حاضر ہوکر پانچ سو اشرفیاں (یعنی سونے کے سکّے) پیش کرتے ہوئے عرض کی:حضورِ والا! یہ چھوٹا سا تُحفہ قبو ل فرمالیجئے!اُن بزرگ نے فرمایا:کیا تمہارے پاس اِ س کے علاوہ اور بھی مال و دولت ہے؟اُس نے عرض کی:جی !میرے پاس بہت مال و دولت ہے،آپ نے فرمایا:کیا تمہاری یہ خواہش ہے کہ تمہیں اور مال ودولت ملے؟ اُس نے عرض کی :جی بالکل،اُن بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: یہ اشرفیاں اپنے پاس ہی رکھ لو کیونکہ تم مجھ سے زیادہ اِن کے حقدار ہو کیونکہ اللہ پاک کے کرم سےمجھے ان کی ضرورت نہیں اورتمہارے دل میں ان کی خواہش موجود ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ ، ص199) اللہ ربُّ العِزَّت کی ان پر رحمت ہواوران کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلماصل مالداری کس میں ہے؟
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : لَيْسَ الْغِنٰى عَنْ كَثْـرَةِ الْعَرَضِ ، وَلَكِنَّ الْغِنٰى غِنَى النَّفْسِ ترجمہ:مالداری مال کے زیادہ ہونے میں نہیں ، ہاں! مالداری دل کے غنی ہونے (یعنی دل کی امیری )میں ہے ۔ (بخاری، 4/233، حدیث: 6446) امام ابنِ بطّال رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پا ک کے اس حصّے”مالداری مال کے زیادہ ہونے میں نہیں “کے تحت فرماتے ہیں: اس سےمراد یہ ہے کہ اصل مالدار وہ نہیں جس کے پاس دنیا کا بہت زیادہ سازوسامان ہو کیونکہ بہت سے وہ لوگ جنہیں اللہ پاک نے مالی وُسْعت دی ہے وہ دل کے کنجوس ہوتے ہیں جو مِلا اُس پر اُن کا دل قَناعَت نہیں کرتا اور مزید کی طلب میں کوشش کرتا رہتا ہےاوروہ اِس بات کی بھی پروا نہیں کرتا کہ مال کہاں سے ا ٓرہا ہے تو گویا وہ مال کی حِرص اوراُسے زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی جُسْتْجو کی وجہ سے مال کا فقیر ہے۔ اصل مالداری وہ ہےجس کے سبب بندہ اللہ پاک کے عطاکئے ہوئے تھوڑےمال پر قناعت کرتا ہے اور زیادہ کی حرص ولالچ نہیں کرتا اور نہ ہی زیادہ کی طلب میں روتادھوتا ہے تو گویا وہ حقیقی مالدار ہے اور یہی مالداری اللہ پاک کی رِضا پرراضی رہنااوراُس کے فیصلے کوماننا ہے،یہ جانتے ہوئے کہ جو اللہ کے یہاں ہے وہ نیکوں کیلئے بہتر ہے ۔(شرح ابن بطّال،10/ 165) شیخ سَعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تَوَ نْگَرِی بَہ دِل اَسْتْ نَہ بَہ مال یعنی مال داری مال سے نہیں ، دل سے ہوتی ہے۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّداللہ والوں کی نظر میں دنیا کی حَیْثِیَّت
کیا آپ جانتے ہیں کہ مالدار کا مال ٹُھکرا دینے والے زُہد و تقویٰ کےپیکر یہ ولیِ کامل کون تھے؟ یہ عظیم بزرگ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے11ویں پیرومُرشد حضرتِ شیخ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم دنیاکی محبت،مال و دولت کی کثرت سے دور ہوتے ہیں۔ اللہ والوں کی نظر میں مال و دولت کی کچھ حَیْثِیَّت نہیں ۔ اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم مٹی کے ڈھیر کی طرف توجہ فرمائیں تو وہ سونے کا بَن جائے کیونکہ اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم اپنی ساری زندگی اللہ پاک کے احکامات پر عمل کرنےاور یادِ خُداو مُصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں گُزارتے ہیں ،جب کائنات کے خالق و مالک کی خاص نظرِ عنایت انہیں حاصل ہوجاتی ہے تو اِس انمول نعمت کے سامنے دنیا کی فانی نعمتوں اور مال و دولت کی کچھ اَوقات نہیں ، کسی نے کیا خوب کہا ہے: تَختِ سکندری پر وہ تُھوکتے نہیں ہیں بِستر لگا ہوا ہے جن کا تِری گلی میں صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدتعارف
سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے 11وَیْں بزرگ ،حضرتِ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالمِ دین بلکہ مفتیِ وقت تھے ۔آپ کا مبارک نام جنید،کُنیت ابوا لقاسم اور مشہورلقب ”سیِّدُ الطّائفہ “(یعنی گروہِ اولیائے کرام کے سردار )ہے۔216 ہجری میں آپ کی وِلادت(Birth) بغداد شریف میں ہوئی۔ اِسی وجہ سے آپ کو ”بغدادی “کہا جاتاہے۔ (شریف التواریخ، 1/522) آپ کے داداجان کا نام ”جنید “تھا، والدِ محترم نے اس وجہ سے آپ کا نام جنید رکھا۔آپ کے و الد ِ محترم کانام ”محمد “تھا، جو کہ کانچ (Glass) کا کام کرتے تھے اسی وجہ سے آپ کو ”قَوارِیری“بھی کہاجاتاہے اورکپڑے کا کام کرنے کے سبب ”خَزّازی “بھی کہتےہیں ۔(الرسالۃ القشیریۃ، ص50) (تاریخ ِ بغداد،7/250) آپ مشہور ولیِ کامِل حضرت سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور مُرید بھی ہیں۔شجرۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ میں ذکرِ خیر
امیرِاہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمدالیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی طرف سے اپنے ہر مُرید و طالِب کو جو شجرہ شریف دیا گیا ہے اس میں حضرتِ جنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے وسیلے سے یوں دُعا کی گئی ہے: بَہرِ مَعْروف و سری معروف دے بے خُود سَری جُندِ حق میں گِن جُنید ِ باصَفا کے واسطے الفاظ معانی:بہر:واسطے۔معروف:بھلائی۔بے خُود سَری:عاجزی، فرمانبرداری۔ جُندِ حق : حق کا لشکر، باصفا :سُتھرا۔(اِس شعر میں سلسلہ ٔ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے نویں،دسویں اور گیارہویں پیرو مرشد کے وسیلے سے دُعا کی گئی ہے۔)دُعائیہ شعرکا مفہوم(2)
یا اللہ پاک! مجھے حضرتِ معروف کَرخی رحمۃ اللہ علیہ کے طُفیل نیکی اور بھلائی عطا فرما اور حضرتِ سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ کا واسطہ مجھے عاجِزی و اِنکسار کا پیکر بنادے اور حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا واسطہ مجھے اپنے لشکر میں شامل فرمالے۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدعربی شجرہ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عربی شجرہ شریف ، بصیغہ ٔ دُرود شریف تحریر فرمایا ہے ،اس میں حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر اس طرح کرتے ہیں: ”اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِمْ وَ عَلَی الْمَوْلَی الشَّیْخِ جُنَیْدِنِ الْبَغْدَادِیْ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْهُ“اے اللہ پاک تُو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر رحمت وبرکت نازل فرما اورحضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آل و اصحاب اور ہمارے سردار شیخ جنیدبغدادی رضی اللہ عنہ پر بھی ۔ (تاریخ و شرح شجرۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ،ص109)شان و عظمت
حضرتِ جنید ِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کوعلمائے کرام نے”شیخِ تصوُّف“ (یعنی صوفیوں کا امام) فرمایا ہےکیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تصوُّف کو شریعت کی منع کی ہوئی باتوں سے دُور کرکے قرآن وحدیث کے قوانین کے عین مطابق ترتیب دیا ۔ (الاعلام للزرکلی، 2/141،ملخصاً) حضرت ابُو الْعَبَّاس عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عِلْمِ تَصَوُّف میں ہمارے امام اور پیشوا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔(نفحات الانس ،ص257 ) حضرت ابو جَعْفَر حَدَّاد رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے: اگر عقل”مرد “ہوتی تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی صُورت پر ہوتی۔(یعنی آپ بہت زیادہ ذہین تھے۔) (نفحات الانس ،ص258) حضرت ِجنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ كے بارے میں کہا جاتاہے کہ آپ کے زمانے میں آپ جیسا پاکبازاوردُنیا سے بے رغبت نہیں دیکھا گیا۔(سیر اعلام النبلاء، 11/153) حضرتِ ابوبکر کَتّانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکۂ پاک میں آپ سے ایک سوال کیا،جس کا آپ نے ایسا شاندار جواب دیا کہ وہاں موجود بڑے بڑے بزرگوں نے آپ کو ”تاجُ العارِفین “ کا لقب دیا۔( الرسالۃ القشیریۃ ،ص355) امام ابنِ اَثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے امامِ دنیا ہیں ۔(الکامل فی التاریخ،6/469) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدبازار میں عبادت
حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ روزانہدُکان پر پردہ ڈال کر400 نوافِل ادا کرتے تھے۔ (الرسالۃ القشیریۃ ،ص51) 30 سال تک آپ کایہ معمول رہا کہ عشا کی نَماز کے بعد کھڑے ہو کر صبح تک اللہ ، اللہ پڑھتے رہتے اور اِسی وُضُو سے نَمازِ فجر ادا فرماتے۔آپ فرماتے ہیں: 20 سال تک تکبیرِ اُوْلیٰ مجھ سے فوت نہ ہوئی اور اگر نَماز میں دُنیا کا خیال آ جاتا تو میں وہ نَماز دوبارہ ادا کرتا تھا۔(تذکرۃ الاولیاء،2/ 7، 9 ) کاش! حضرتِ جنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے صدقےہم بھی پانچوں نمازیں تکبیرِاُولیٰ کے ساتھ اداکرنےوالے بن جائیں۔تکبیرِاُولیٰ کے ساتھ نمازپڑھنے والا خوش نصیب احادیثِ مبارکہ میں بیان کئے گئے’’تکبیرِاولیٰ ‘‘ اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کےبے شمار فضائل کا حقدار ہوگا۔ باجماعت نما زکا ذوق بڑھانے کے لئے چند احادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:نماز کے چارحُروف کی نسبت سے چار فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(1) نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری،1/232 ،حدیث : 645) (2) اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند امام احمد ،2/ 309 ،حدیث:5112) (3) جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔(حلیۃ الاولیاء ، 7/299،رقم:10591) (4) جس نے کامِل(یعنی پورا) وُضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور اِمام کے ساتھ (نماز ) پڑھی اُس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ( ابن خزیمہ،2/373 ،حدیث:1489) بانیِ دعوتِ اسلامی ،امیرِاہل ِسنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے اس دَور میں نیک بننے کے لئے مختلف” 72 نیک اعمال“ عطافرمائے ہیں ۔اس میں دوسرا نیک عمل پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرنے ہی کے بارے میں ہے ۔نمازِ باجماعت کے بارے میں مزید معلومات کے لئے امیرِاہل ِسنّت کی کتاب ”فیضانِ نماز “پڑھئے ۔یہ کتاب دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net سے فری ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے بلکہ نیکی کی دعوت عام کرنے کی نیت سے دوسروں کو بھی یہ پی ڈی ایف (Share)کیجئے۔ امیرِاہل ِسنّت لکھتے ہیں: جماعت سے گر تُو نمازیں پڑھے گا خُدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّددل کی بات جان لی(کرامت)
حضرتِ خیرُالنَّساج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مَیں اپنے گھر میں بیٹھا تھا ، دل میں خیال آیا کہ حضرتِ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ د روازے پر تشریف لائے ہیں مگر مَیں نے توجُّہ ہٹا دی مگر پھر دوسری اور تیسری بار یِہی خیال آیا، میں گھر سے باہر آیا تو واقِعی حضرتِ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ دروازے پر موجود تھے،مجھ سے فرمایا:پہلے خیال پر کیوں نہ نکلے ! ( الرسالۃ القشیریۃ ،ص274 ) اللہ ربُّ العِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدسارا سال روزے
سلسلہ ٔ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے گیارہویں بُزرگ،حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سارا سال نفل روزے رکھا کرتے تھے۔(شریف التواریخ،1/526)تم نے حج کا سفر کیا ہی نہیں
ایک مرتبہ آپ کی خدمتِ مبارکہ میں ایک شخص حاضر ہوا آپ نے اُس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آئے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میں حج کے لئے گیا تھا ، آپ نےپوچھا تو کیا تم حج کر چکے ؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں حج کر چکا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ شروع میں جب تم اپنے گھر سےنکلے اور اپنے وطن کو چھوڑا تو کیا سب گنا ہوں کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیاتھا؟ اس نے جواب دیا: نہیں ۔ آپ نےفرمایا کہ پھر تو تم نےسفرِ حج اختیار ہی نہیں کیا۔(تذکرۂ مشائخِ قادریہ برکاتیہ رضویہ، ص193)اللہ پاک کے نیک بندے نیک اعمال نہیں چھوڑتے
جانشینِ حضرتِ جُنیدِ بغدادی،حضرتِ ابو محمد جُرَیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کے سامنے مَعْرِفَت(یعنی اللہ پاک کی پہچان) کا ذکر کیاتو اُس شخص نے کہا:مَعْرِفَتِ الٰہی والے اُس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ نیکی اور قربِ الٰہی والے اعمال چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ سُن کر آپ نے فرمایا: کچھ لوگ اعمال کو چھوڑنے کی باتیں کرتے ہیں اور یہ میرے نزدیک بہت بڑی بات ہے،بے شک اللہ پاک کی پہچان رکھنے والے اللہ پاک کے عطا کئےہوئے اعمال کو اختیار کرتے ہیں ، وہ ان ہی کے ساتھ اُس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور اگر مَیں ایک ہزار سال زندہ رہوں تب بھی نیک اعمال میں سے ایک ذرہ بھی کم نہ کروں ۔ (حلیۃ الاولیاء ،10/296، رقم: 15286) سُبْحٰنَ اللہ ! اللہ والوں کی بھی کیا خوب شان ہے،کاش! ہمیں بھی عبادت کا ایسا ذوق وشوق نصیب ہوجائے،کاش! فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ تَہَجُّد،اِشراق،چاشت اور اَوّابِین پڑھنے کی بھی سعادت مل جائے۔رمضانُ المبارک کےفرض روزے رکھیں اوردیگر فضیلت والے مہینوں (ذوالحج شریف،محرم شریف، رجب شریف ،شعبان شریف) میں نفل روزے رکھنے کی بھی توفیق مل جائے۔ زکوٰۃ فرض ہوتواس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ نفلی خیرات کی بھی سعادت ملے۔نیک اعمال کا جذبہ پانے کےلئے آئیے! بارگاہِ جنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ میں اعلی ٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مصرعے کے ذریعے فریادکرتے ہیں:یا جُنید! اے بادشاہِ جُندِ عرفاں اَلْمَدَد
ترجمہ: اللہ پاک کی پہچان رکھنے والے اولیا رحمۃ اللہ علیہم کے گروہ کے بادشاہ !اے جنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ! ہماری مدد فرمائیے۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدپیرومُرشد کی نصیحت
حضرت ِجنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے پیرومُرشد،حضرتِ سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا: کوشش کرنا کہ تمہارے گھر میں اِستِعمال ہونے والے برتن تمہاری جِنس (یعنی مٹی )سے ہوں۔(قوت القلوب،1/344)حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے مٹی کے برتنوں کا استعمال ثابت ہے
امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حُضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تانبے، پیتل کے برتنوں میں کھانا پینا ثابت نہیں۔ مٹی یا کاٹھ (یعنی لکڑی) کے برتن تھے اور پانی کے لئے مشکیزےبھی۔(فتاویٰ رضویہ، 22/ 129) مزید فرماتے ہیں: (مٹی کے برتن) میں کھانا پینا بھی تواضُع سے قریب تَر ہے، کھانے پینے کے برتن مٹّی کے ہونا افضل ہے کہ اِس میں نہ اِسراف ہے نہ اِترانا۔(فتاویٰ رضویہ، 1/336ملتقطاً) اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی، مکّی مدنی محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کھانے میں مٹی کے برتن استعمال کرنا ثابت ہے جیساکہ صحابیِ رسولحضرتِ خَبَّاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکی مٹّی کے برتن سے پانی پیتے ہوئے دیکھا ۔ ( معرفۃ الصحابۃ، 2/174، رقم: 2371) حدیث میں ہے:جو اپنے گھر کے برتن مٹّی کے رکھے فرشتےاُس کی زیارت کریں۔ (ردالمحتار،9/566)منقول ہے کہ مٹی کے برتنوں پر کوئی حِساب نہیں۔ (قوت القلوب، 1/288ماخوذاً) اے عاشقانِ رسول! کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی حصولِ ثواب اور دیگر اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ مٹی کے برتن استعمال کریں، امیرِ اہلِ سنّت بانیِ دعوتِ اسلامی مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا سالہا سال سے مٹی کے برتن میں کھانے پینے کا معمول ہے، آپ فرماتے ہیں:میرا عام پلیٹوں میں کھانے کو دِل نہیں کرتا البتّہ یہ نہ کہا جائے کہ مٹی کے برتنوں کا استعمال سنّت ہے کیونکہ اِس پر کوئی واضح روایت نہیں مِل سکی۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ ،اکتوبر2019،ص22) میں مٹی کے سادہ سے برتن میں کھاؤں چٹائی کا ہو بسترا یاالٰہی (وسائلِ بخشش، ص103) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدسات سال کی عمر میں علمی فضل و کمال
حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ایک بار مدرسے سے گھر تشریف لائے تو دیکھا والدِ محترم رو رہے ہیں ،آپ نے وجہ پوچھی تو بتایا: میں نے تمہارے ماموں حضرت ِ سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں زکوٰۃ کی کچھ رقم پیش کی تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا، آج مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ میں نے اپنی زندگی ایسی چیز میں گزاردی جسے خُدا کے دوست بھی پسند نہیں کرتے ، حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ وہ رقم لے کر ماموں کے ہاں پہنچے ، ماموں نے دوبارہ منع کیا تو آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر فضل اور میرے والد سے عدل کیا ہے ۔حضرت ِ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اے جنید ! وہ کونسا عدل ہے جو تمہارے والد کے ساتھ کیا گیا اوروہ کونسا فضل ہے جو مجھ پر کیا گیا ہے ؟ آپ نے عرض کی: اللہ پاک نے آپ پریہ فضل فرمایا کہ آپ کو درویشی عنایت فرمائی اور میرے والد کے ساتھ یہ عدل کیا کہ ان کو دنیا میں مشغول کر دیا ،اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اِسے قبول فرمائیں یا رَد کر دیں ، میرےوالدِ محترم پر زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہے ۔ حضرت ِ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ بات نہایت پسند آئی،آپ نے ارشادفرمایا : بیٹا ! زکوٰۃ قبول کرنے سے پہلے میں نے تم کو قبول کیا ۔ حضرت ِجنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد ماموں جان کے پاس رہنے لگے۔ ایک بار مکۂ پاک حاضر ہوئے تو وہاں کئی بزرگان ِ دین رحمۃ اللہ علیہم ”شُکر“ کے بارے میں گُفتگو کر رہے تھے جب آپ سےپوچھا کہ اے بچے!تم اس کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ توآپ نے فرمایا: اللہ پاک کی نعمتوں کے ساتھ اُس کی نافرمانی نہ کی جائے۔یہ سن کر سب نے اس پر اتفاق کیا۔ (تذکرۃ الاولیاء،2/6)20سال کی عمر میں فتویٰ نویسی
حضرت ِجنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اپنےماموں حضرتِ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ جوکہ آپ کے پیرومرشد بھی ہیں اور اس کے علاوہ حضرتِ حارث مُحَاسبی رحمۃ اللہ علیہ کے فیضانِ صحبت سے بھی مُسْتَفِیْد ہوئے ۔حضرتِ ابو ثَور رحمۃ اللہ علیہ سے عِلمِ فِقہ حاصل کیا اور 20سال کی عمر میں ان کی مجلس میں ان کی موجود گی میں فتویٰ دینے لگے۔( الرسالۃ القشیریۃ ،ص50)بیان کا آغاز اورپیرومرشد کااختیار
سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطاریہ کے عظیم بزرگ حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیاگیا: آپ ہمیں وَعْظ و نصیحت کیجئے! آپ نے فرمایا:جب تک ہم میں پیرومرشد حضرت سَرِی سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں میں وَعظ و نصیحت نہیں کر سکتا۔ حضرت سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو وعظ و نصیحت کہنے کا حکم فرمایا، مگر آپ نے بڑے مؤدبانہ انداز میں یہی عرض کی :حضور! آپ کے ہوتے ہوئے میں وَعظ کہوں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ شبِ جمعہ جب سوئے تو خواب میں اللہ پاک کےپیارے پیارے آخری نبی ، مزی مَدَنی ، محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم چاند سا چہرہ چمکاتے تشریف لائے اور فرمایا: جنید! لوگوں کو بیان کرو! تمہارے بیان کے ذریعے اللہ پاک بہت لوگوں کو نجات عطافرمائے گا۔جب صبح ہوئی تو حضرتِ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مُرید کو بھیجا کہ جب جنید نماز سے سلا م پھیریں تو کہنا:کئی لوگوں اورمیرے پیغام سے بھی تم نے بیان شروع نہیں کیا۔ اب تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی حکم ارشادفرمادیاہے۔ حضرت ِجنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے جان لیا کہ میرے پیرومرشد میرے دل کا حال اچھی طرح جانتے ہیں۔ (کشف المحجوب، ص136 )(نفحات الانس فارسی،ص81 ) اللہ رَبُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بجاہِ خاتم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّداللہ کے نور سے دیکھا کرتا ہے
حضرتِ شیخ جُنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اُسی صُبح سے جامِع مسجِد میں بیان شروع کر دیا ۔ لوگوں میں یہ بات فوراً پھیل گئی کہ آج سے جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرمانے لگے ہیں ۔ ایک دن کسی نوجوان نے اجتِماع میں کھڑے ہو کرسُوال کیا،اے شیخ ! بتائیے !حُضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس ارشاد ِمبارَک: اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُورِ اللہ یعنی ”مومِن کی فِراسَت سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھا کرتا ہے۔“(ترمذی، 5/88، حدیث: 3138) کا کیا مطلب ہے؟ اُس کا سوال سُن کر چند لمحوں کیلئے حضرتِ شیخ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے سر جھکا لیا پھر سرِ مبارک اُٹھا کر(غیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا:اے نوجوان ! تُو نصرانی(یعنی کرسچین)ہے اور اب تیرے مسلمان ہونے کا وَقت آ پہنچا ہے ، ایمان لے آ۔وہ جوان جو کہ واقعی کرسچین تھا،اَلحمدُ لِلّٰہ!یہ کرامت دیکھ کر اُسی وَقت مسلمان ہو گیا۔ (روض الریاحین ، ص 157 ملخصاً) نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھیاللہ پاک اپنے اولیا کو علمِ غیب عطا فرماتا ہے
اس واقعےسے مُبَلِّغ کا مقام معلو م ہوا۔ سُبْحٰنَ اللہ !حضرتِ شیخ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بطورِ انکسار اپنے آپ کو بیان کیلئے نااَہل تصوُّر فرماتے تھے،حالانکہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے آپ رحمۃ اللہ علیہ زبردست عالِم و مفتی تھے،آپ پر کرم بالائے کرم یہ ہوا کہ خواب میں تشریف لاکر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان کا حُکْم فرمایا۔اِس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرے مَکّی مَدَنی مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بَعطائے ربُّ العُلیٰ غیب کا عِلم رکھتے ہیں، یہ بھی جاننے کو ملا کہ فیضانِ مُصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے حَضراتِ اولیا کو بھی علمِ غیب ہوتا ہے جبھی تو حضرتِ سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مُریدِ خاص کا خواب جان لیا نیز حضرتِ شیخ جُنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تو غیرمسلم کو مومِنانہ فِراسَت سے پہچان کر غیب کی خبرسے مالا مال اَچُھوتے انداز میں اُسے نیکی کی دعوت عنایت فرمائی اور وہ کرامتبھر ی نیکی کی دعوت کی بَرَکت سے ہاتھوں ہاتھ اسلام کے دامنِ رحمت میں آ گیا۔ (نیکی کی دعوت،ص369)ایک نہیں دوکرامتیں
حضرت امام یافِعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”کچھ لوگ اس واقعے کو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کرامت جانتے ہیں اور مَیں کہتا ہوں کہ اس میں ان کی دو کرامتیں ہیں ایک اُس کے کفر پر اُن کا باخبر ہونا، دوسری یہ معلوم ہونا کہ یہ شخص اسی وقت اسلام لے آئے گا۔ (نفحات الانس، ص 81) جو ہو اللہ کا ولی اُس کا فیض دنیا میں عام ہوتا ہے (وسائلِ بخشش،ص441) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدفِراست کی تعریف
حدیثِ مبارکہ میں ”فِراست“ کا ذِکر ہے اِس کے معنیٰ بھی سمجھ لیجئے۔فراست کا معنیٰ ہے: اللہ پاک اپنے اولیا کے دلوں میں وہ چیز ڈالتا ہے جس سے انہیں بعض لوگوں کے حالات کا علم ہو جاتا ہے۔(النھایہ ، 3/383)قیمتی نِکات
ابُو الْعبَّاس سُرَیج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میں نے ایک دن بیان کیا۔(بیان کے حسین نِکات(points) وغیرہ سن کر)لوگ بہت خوش ہوئے،تو میں نے کہا:یہ ابوالقاسم جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کی برکت ہے۔(سیر اعلام النبلاء، 11/154) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اِس واقعے میں جہاں حضرتِ جنید ِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی شان و عظمت ظاہر ہوتی ہے، وہیں حضرت ِابوالعباس سُرَیج رحمۃ اللہ علیہ کا انداز مُبَلِّغِین کےلئے بڑا قابلِ عمل ہے کہ جب آپ کے بیان کی تعریف کی گئی تو آپ نے بیان کے اُن عمدہ نِکات کو اپنی طرف منسوب کرنے کے بجائے حضرتِ جنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان کہا ۔افسوس!آج کل تو معاملہ اس کے بالکل خلاف ہےاپنی خوبی ایک طرف دوسرے کے کام کےانعام کا حقدار خود کو سمجھا جاتاہے کہ یہ کام اُسے میں نے سکھایا تھا وغیرہ۔ جس کاعمل ہو بے غَرض اُس کی جزا کچھ اورہےخواہش پر عمل نہ کیا
حضرتِ جَعْفَر بِن نصیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیّدُالطّائفہ(گروہِ اولیا کے سردار ) حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک درہم دے کرفرمایا : ’’اس سے میرے لئے وزیری انجیر خریدلاؤ،میں خریدکر لایا۔جب افطارکا وقت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک انجیرلے کرمنہ میں رکھتے ہی فوراً باہر نکال دیا اور رونے لگے پھر ارشادفرمایا : ”اسے اٹھالو ۔ “ میں نے اس کاسبب پوچھاتو فرمایا : ” میرے دل میں غیبی آواز آئی کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم نے ایک خواہش کومیری خاطرچھوڑ دیامگرپھراس کی طرف لوٹ آئے ۔ (الرسالۃ القشیریۃ ، ص 191) اللہ اللہ کے نبی سے فریاد ہے نفس کی بدی سے ہے ظالم! میں نباہوں تجھ سے اللہ بچائے اس گھڑی سے (حدائقِ بخشش، ص 147،145) الفاظ معانی: فریاد:التجا۔بَدی:بُرائی،نباہوں:مانوں،بناکر رکھوں۔گھڑی:وقت۔ شرحِ کلامِ رضا: اللہ پاک اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں نفس کی شرارتوں ،برائیوں کے بارے میں فریاد ہے ۔اے اللہ پاک کی نافرمانی کی طرف اُکسانے والے ظالم نفس! میں تیری بات مانوں اللہ پاک اُس وقت سے مجھے بچائے۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدان جیسا نہیں دیکھا
ايک بزرگ فرماتے ہیں: میں نے بغداد شریف میں ایک شَیخ کو دیکھا جنہیں ”جنید“ کہاجاتاہے،مَیں نے ان جیساشخص نہیں دیکھا کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بہترین گفتگو میں خوبصورت الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے فصاحت و بلاغت جاننے والے، مشکل الفاظ کے معانی جاننے کےلئے فلسفی اورعلمِ کلام کے ماہرین گہری باتوں کوحاصل کرنے کےلئے حاضر ہوتے ۔(سیر اعلام النبلاء، 11/154)بَے اَدب نہیں ہوسکتا
خلیفۂ بغداد نے کسی بات پر ایک شخص سے کہا: اے بَے اَدب! اُ س نے جواب دیا: میں بَے اَدب ہوں!حالانکہ میں آدھا دن حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہا ہوں اور جو شخص آدھا دن بھی ان کی صحبتِ بابرکت میں رہے گا وہ بَے اَدبی نہیں کر سکتا ،پھر اس کا کیا حال ہے جو کہ زیادہ تر ان کی صحبت میں رہا ہو ۔(نفحات الانس،ص80)علمِ دین کاحصول
عارف بِ اللہ (یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والے) حضرتِ امام عبدُالکریم بِن ہوازن قُشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیّدُالطّائفہ حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے عرض کی:حضور! آپ نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا؟آپ نے اپنے گھرمیں ایک سیڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کی بارگاہ میں اِس سیڑھی کے نیچے 30 سال تک بیٹھ کر یہ علم حاصل کیا ۔( الرسالۃ القشیریۃ ، ص51)مجھے جنید پر فخر ہے
اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے زیارت کی ،دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت ِ بابرکت میں حضرت جنید ِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بھی حاضر ہیں ، اتنے میں ایک شخص آیا اور اُس نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں ایک فتویٰ پیش کیا ، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اشارے سے فرمایا کہ جنید کو دے دوتا کہ وہ جواب دیں ۔اُس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! آپ کی موجودگی میں اِنہیں کیسے دوں! اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :انبیائے کرام علیہمُ السّلام کواپنی امتوں پر فخر تھااور مجھے ” جنید “پر ہے ۔ (شریف التواریخ،1/29)نفس کی بیماری کا علاج
حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ایک رات مجھے نیند نہ آئی تو میں اُٹھ بیٹھا تا کہ اپنا وِرد و وظیفہ پڑھوں لیکن روزانہ وظیفہ پڑھنے کے دوران جولذت و سکون محسوس ہوتا تھاوہ نہ ہوا۔ میں نے دوبارہ سو جانے کا ارادہ کیا، لیکن نیند نہ آئی ، مَیں نے پھر اٹھ کر بیٹھے رہنے کا ارادہ کیا لیکن بیٹھنے میں بھی دل نہ لگا۔ پھر دیکھا کہ میرا گھر لَرَز رہاہے گویا ابھی گِر جائے گا تو میں گھر سے باہر آگیا،باہرآیا توکیا دیکھتاہوں کہ سخت سردی میں چادر میں لپٹا ایک شخص راستے میں پڑا ہوا ہے ۔ اُس نے سر اٹھایا اور کہنے لگا : اے ابو القاسم!میرے پاس تشریف لائیے! میں نے کہا : بغیر کسی وعدےاور واقفیت کے، اس شخص نے کہا :ہاں۔ میں نے دلوں کو حرکت دینے والے ( اللہ پاک)کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ آپ کے دل کو میری طرف متوجہ کرے تا کہ آپ میرے پاس آجائیں ۔ پھر اُس نے سوال کیا: اے شیخ! یہ ارشاد فرمائیں نفس کی بیماری کب اُس کی دو ابنتی ہے؟ میں نے کہا: جب تو نفس کی خواہشات کی مخالفت کر دے۔پھر اس نے اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے میرے نفس!سُن! میں نے تجھے یہی جواب سات مرتبہ دیا لیکن تُو نے کہا:میں یہ جواب تب مانوں گا جب حضرتِ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے خود نہ سن لوں، یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا، میں اس کو پہچان نہ سکا۔ (جامع کراماتِ اولیاء،2/12)نفسانی خواہشات ہلاکت کا سبب
یاد رکھئے!جائز وناجائز کی پروا کئے بغیر نَفْس کی ہر خواہش پُوری کرنے میں لگ جانا اِتباعِ شَہَوات (خواہشات کی پیروی کرنا)کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص101) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!نفسانی خواہشات کی پیروی میں نُقصان ہی نُقصان ہے، حدیثِ پاک میں ہے:تین چیزیں ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں: (1) ایسا بُخْل جس کی اطاعت کی جائے (2) نَفْسانی خواہشات کی پیروی کرنا (3) انسان کا اپنے آپ کو اچھا جاننا۔ (معجم اوسط ، 4/212 ، حدیث: 5754) رِہائی مجھ کوملے کاش! نفس وشیطاں سے تِرے حبیب کا دیتا ہوں واسِطہ یارب (وسائلِ بخشش،ص78) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدحضرتِ جنیدِبغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے خطوط قبر میں
حضرتِ جنید بغدادی اورشیخ ابو بَکْر کِسائی رحمۃ اللہ علیہما کے درمیان خط و کتابت کے ذریعے ہزار دینی مسائل کاتبادلہ ہوا تھا آپ نے سب کے جواب لکھے،حضرت ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انتقال شریف کے وقت وصیّت فرمائی کہ ان سب دینی مسائل کے خطوط کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔(شریف التواریخ،1/530)واقعات کی اہمیت
حضرت ِجنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا گیا: مریدوں کو بزرگوں کے واقعات وغیرہ سننے سے کچھ فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ضرور ہوتاہے اَلْحِکَایَاتُ جُنْدٌ مِّنْ جُنُوْدِ اللهِ يُقَوِّيْ بِهَا قُلُوْبَ الْمُرِيْدِيْن یعنی بزرگوں کے واقعات الله پاک کے لشکروں میں سے لشکر ہیں جن سے اللہ پاک مریدوں کے دلوں کو مضبوط فرماتاہے،پھر جب آپ سے اس بات کی دلیل پوچھی گئی توآپ نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَۚ- (پ12، ھود: 120 ) ترجمۂ کنز العرفان: اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہا رے دل کو قوّت دیں۔ (الرسالۃ القشیریۃ، ص 238)
1 … کام 2… شعر کے بارے میں دلچسپ وضاحت:پہلے مِصْرَع میں لفظِ معروف دو مرتبہ آیا ہے ۔پہلا معروف تو بُزرگ کا نام ہے اور دوسرے معروف کے معنیٰ نیکی و بھلائی کے ہیں ۔یونہی لفظ سری(یہ بھی بُزرگ کا نام ہے) کے ساتھ بے خودسَرِی کا ذِکر کرنے میں یہ خوبی ہے کہ دونوں میں لفظ ”سری‘‘موجود ہے ۔دوسرے مِصْرَع میں جنید (یہ بھی بُزرگ کا نام ہے)سے پہلے لفظ ’’جُنْد‘‘لایا گیا ہے ، دونوں میں لفظی مناسبت ہے کہ دونوں میں ’’ج، ن اور د‘‘ ہے۔(شرح شجرہ ٔقادریہ رضویہ عطاریہ،ص67)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع